22/12/25

بنارس کے غیرمسلم اردو شعرا،مضمون نگار: رفعت جمال

اردو دنیا،جون 2025



 ہندوستان کا سب سے مقدس شہر بنارس جس کو ہندوئوں کا کعبہ ’یعنی کاشی‘ کہتے ہیں اس شہر کے ساتھ ابتدا ہی سے یہ تصور وابستہ رہا کہ یہ سنسکرت اور ہندی کی تعلیم وتدریس کا گہوارہ ہے ہندی کا سرپرست ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی لوگ بڑی حیرت سے پوچھتے ہیں  ’بنارس میں اردو پڑھائی جاتی ہے‘ ہاں میں کہتی ہوں ’عربی اور فارسی کا بھی باقاعدہ شعبہ ہے یہاں‘۔ یہ سن کر لوگ بہت حیران ہوتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں اردو پر ان کا ہی حق ہے۔ یہ باتیں شعبۂ اردو سے باہر کے لوگوں کی ہیں  ورنہ شعبۂ اردو کے لوگ تو بنارس آتے جاتے رہتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی علی گڑھ، جے این یو، حیدرآباد کے لوگ ایک دوسرے کو بخوبی پہچانتے ہیں اور اس بات سے باخبر ہیں کہ اہل بنارس نے اپنے خون جگر سے نخل اردو کی آبیاری کی ہے۔

اردو کا جنم سرزمین ہند پر ہوا۔ یہیں اس نے انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا اور پروان چڑھی۔ ہندوستانی مزاج میں مذہبی رواداری کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس کی ترجمان اردو زبان ہے جو صرف محبت کی بات کرتی ہے اسی لیے اردو کے پودے کو سرسبز وشاداب کرنے میں اہل قلم نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ خاص طور سے مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے اس عظیم کلچر کے استحکام اور ارتقا میں بنارس کے غیر مسلم اردو شعرا نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور ان روایات کو پروان چڑھایا جن سے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئی۔

تلسی اور کبیر کی اس سرزمین پر مغلوںکے دور عروج میں اردو کے بڑے بڑے شعرا نے اپنا رنگ جمایا۔ جن میں شاہجہاں کے دور کے مشہور شاعر منشی چندر بھان برہمن کا نام بڑا اہم ہے۔ مرزا جہاں دارشاہ نے جب بنارس میں سکونت اختیار کی ان کے ہمراہ بہت سے شاعر بنارس آئے جن میں اندر سروپ بسیط اور ولمارام عاشق کے نام قابل ذکر ہیں۔ جہاں دارشاہ خود بھی اچھے شاعر تھے۔

شاعری زندگی کا آئینہ ہوتی ہے۔ بنارس کی آب وہوا میں جس شاعری نے جنم لیا اس کو پروان چڑھانے والے شاعروں کا تعلق دہلی اور لکھنؤ سے رہا ہے جس سے یہاں کی شاعری پر دہلی اور لکھنؤ کے مشترکہ اثرات نظر آتے ہیں۔ امر سنگھ خوش گو بنارسی کو بنارس کی شاعری کی ابتدائی کڑی تسلیم کرتے ہیں۔

انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں پنڈت مدن موہن مالویہ جی اور مسز اینی بینٹ کی تعلیمی واصلاحی تحریکات کی ابتدا بھی بنارس ہی سے ہوئی۔ یہاں کی علمی وادبی فضا ئیں بدلی تو شاعری میں اس کے عکس بھی ابھرے۔ جن میں خاص طور سے راجہ شوپرساد ستارۂ ہند، منشی ونایک پرساد طالب بنارسی کی اردو شاعری میں چار چاند لگ گئے اردو سے لگائو کے سبب خود مہاراجہ کے خاندان میں کئی اچھے شاعر پیدا ہوئے جن میں مہاراجہ بلوان سنگھ، راجہ منشی کالندی پرشاد بسمل کے نام شامل ہیں۔

ملک کی فضائوں میں انتشار پیدا ہوا۔ مگر بنارس کا سماجی معاشی ومعاشرتی نظام تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اپنی ڈگر پر چلتا رہا۔ دہلی ولکھنؤ کی بربادی نے اس دیار دلبراں کی آبادی میں مزید اضافہ کیا۔ دہلی کے شہزادوں اور لکھنؤ کے نواب زادوں کے قیام نے شنکر کی اس نگری کو گنگا جمنی کلچر کا بہترین نمونہ بنادیا جس کی جھلک شاعری میں نظر آتی ہے۔ صبح کے وقت مشرق کے افق سے سورج کی پر نور کرنیں گنگا کے گھاٹ مندر کے کلس اور مسجد کی مینار پر پڑیں تو منظر قابل دید ہوگیا۔ اس منظر پر جب ایران کی بہاروں اور کشمیر کے حسن سے متاثر شعرا کی نگاہیں پڑیں تو وہ صبح بنارس کی تجلی کے متوالے ہوگئے اور ان کی شاعری اس نئے جذبے کی ترجمان بن گئی۔ یہاں کا شاعر ان دلفریب نظاروں میں کھویا ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی بحران سے بھی باخبر رہا۔ جنگ آزادی میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔

بنارس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم شعرا ہیں جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسان دوستی کا سبق پڑھایا، جن میں پنڈت دیارام عاشق بنارسی، کشن نرائن کھتدی بیتاب بنارسی، بھولا ناتھ فلک بنارسی منشی ٹھاکر بنارسی پرشاد اختر بنارسی،منشی گلاب چند سریواستو ناداں بنارسی اور شیو مورت لال قیس بنارسی کے نام سنہرے حروف میں جلوہ گر ہیں۔ ہندی ادب کی پہچان بھاتیند و ہرشچندر نے بھی رسا تخلص سے اردو میں ہندی کارس گھولا ہے اور بہترین اشعار کہہ کر اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا یہاں کی گنگا جمنی تہذیبی روایات کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی شاعری انسان دوستی کی لاجواب مثال ہے۔ نذیر بنارسی کے الفاظ میں          ؎

جو ایک جہاں کے ٹوٹے دلوں کی ڈھارس ہے

ہمیں ہے ناز کہ اپنا ہی وہ بنارس ہے

اب اپنے ہی اس بنارس کے کچھ اہم شعرا کا میں مختصر سا تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہوں منشی امرسنگھ خوش گو بنارسی۔ امرسنگھ نام، خوش گوتخلص تھا۔ ان کا تعلق کائستھ گھرانے سے تھا۔خوش گو کی ابتدائی تعلیم عربی فارسی میں ہوئی تھی۔ فارغ البانی کا دور تھا۔ شعر وشاعری کا شوق لے کر پیدا ہوئے تھے مزاج میں شاعری ایسی رچی بسی تھی کہ سنگلاح زمینوں میں بھی اچھے شعر کہنے کا سلیقہ دکھایا۔ بڑے فکر انگیز شاعر تھے ریاض الوفاق میں لکھا ہے کہ اپنے ایک رسالہ مختصر نقشہ قلعہ اکبر آباد و روضۂ تاج محل سے متعلق بنام سرسرالممالک لکھا تھا۔(ص61)

2        اختر: منشی ٹھاکرپرساد نام تھا۔ اختر تخلص اختیار کیا محلہ کا لکا گلی میں مقیم تھے پیشے کے اعتبار سے انسپکٹر آب کاری تھے۔ فارسی کے علاوہ انگریزی اور ہندی میں بھی مہارت حاصل تھی۔ غزل خوب کہتے تھے ہفتہ وار اخبار آواز خلق میں 1902 تا 1906 تک آپ کی غزلیں بہت چھپتی تھیں چند شعر          ؎

آئے وہ میری لحد پر تو یہ ہنس کر بولے

انتظار اب ہے کہاں تم کو تو نیند آئی ہے

کہتے ہیں وہ نقاب اٹھا کر کہ دیکھ لو

جس سے جلا ہے طور یہی وہ جمال تھا

3        آزاد بنارسی بندباسنی پرشاد نام، آزاد تخلص تھا۔ بنارس کے ایک مشہور محلہ کوچہ، شکہ قند میں رہتے تھے۔ بنارس کے رُوسا میں ان کا شمار ہوتا تھا وراثت میں بڑی زمینداری ہاتھ لگی تو زندگی عیش وآرام کا گہوارہ بن گئی۔ بڑے ہی انسان دوست اور نیک خصلت تھے دوستوں کا جھمگھٹا ہر وقت گھر پر رہتا تھا۔ خود شعر کہتے اور دوسروں کی بھی ہمت افزائی کرتے۔ سنۂ پیدائش تو کسی کو پتہ نہیں بلکہ محشر بنارسی کی معلومات کی روشنی میں 1910 سنۂ وفات ضرور ملتا ہے۔ ان کا کلام بے حد سنجیدہ وعام فہم ہے زبان بے حد سلیس اور الفاظ سادہ ہیں۔ بطور نمونہ       ؎

کوئی پردہ نشیں آتا ہے دل میں

غم وحسرت نکل جائو یہاں سے

ہوا آزاد کیا جو ہر گھڑی خاموش رہتے ہو

کہ خود بت بن گئے تم ان بتوں کی آشنائی میں

4        بسمل بنارسی منشی کالندی پرشاد نام، بسمل تخلص تھا۔ بنارس کے مشہور سری واستو خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ انھوں نے کوئنس کالج بنارس سے میٹرک کیا۔ 1866تا 1889کائستھ پاٹھ شالہ الہ آباد میں ہیڈ ماسٹر رہے بعد میں مہاراجہ بنارس کے یہاں دیوان نظامت کے فرائض انجام دیے۔ 1893 تا 1930  الہ آباد ہائی کورٹ میں وکالت کی۔ ایک ٹیچر ایک وکیل اور ایک ایڈ منیسٹر کی حیثیت سے بہت کامیاب مانے جاتے ہیں آپ کے اخلاق بہت بلند تھے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے، حسن سلوک ایسا کرتے کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ فارسی اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی اچھی مہارت تھی جس سے اردو کو بڑا فائدہ ہوا۔ آپ کے خیالات پاکیزہ اور اشعار بلند پایۂ کے ہیں         ؎

یہ درد دل نہ نکلے گا کبھی آ ہ و فغاں ہوکر

میں جیسا ہوں تیرے غم میں ستم گر بے زباں ہوکر

مئے وحدت پیا ہوں پھر رہا ہوں مست ودیوانہ

  وطن ہو یا بیاباں اب تو ہے ہر جادیار اپنا

5        بسیط: لالہ اندر سروپ نام، بسیط تخلص تھا۔ آپ بنارس میں تحصیلدار تھے ان کی پیدائش اور وفات پر تذکرے خاموش ہیں صرف یادگار شعرا میں گلشن بے خزاں کے حوالے سے صرف اتنا لکھا ہے۔’بسیط نور اندو سروپ‘ یہ بنارس یا اس کے قریب تحصیلدار ہیں۔( ص38)

6        ذیدل: کملا پرشاد نام،ذیدل تخلص تھا۔ بنارس کے مشہور شعرا میں آپ کا شمار ہوتا ہے ذہانت وذکاوت کی کہانیاں آج بھی بنارس کے ادبی حلقوں میں بزرگوں کی زبانی سننے میں آجاتی ہیں مشہور زمانہ اخبار اور آواز خلق کے اکثر شماروں میں آپ کی غزلیں مل جاتی ہیں اسی اخبار کے یکم دسمبر1908 کے شمارے سے آپ کی وفات کی تصدیق ان الفاظ میں ہوتی ہے۔ ’’24 نومبر 1900 کو رائے کملا پرشاد صاحب ذیدل ادار فانی سے ملک جادوانی کو راہی ہوئے آواز خلق کے خاص قلمی معاون وعرصہ تک اس کے سب ایڈیٹر رہے‘‘

آپ کا تخیل بہت بلند تھا لہٰذا کلام میں پختگی پائی جاتی ہے۔ زبان میں سادگی وسلاست کے دریا بہتے نظر آتے ہیں۔ جوان کو ایک خوش فکر شاعر بنا دیتے ہیں           ؎

اے کارساز ہم کو یہ توفیق کر عطا

غافل نہ بھول کر ہوں، تیری بندگی سے ہم

ہم کریں جان فدا، آپ نہ کچھ قدر کریں

تم ہمیں جان گئے، ہم تمھیں پہچان گئے

7        راجہ: بلوان سنگھ نام۔ راجہ تخلص تھا۔ مہاراجہ بنارس کا خاندان اپنی علم دوستی اور ادب نوازی کے لیے مشہور تھا اس خاندان نے اردو کو کئی بلند پایہ شاعر عطا کیے جن میں مہاراجہ بلوان سنگھ، راجہ چیت سنگھ کی اولاد میں سے تھے شعر وشاعری سے فطری لگائو تھا۔ راجہ اردو شعر کہنے پر فنکارانہ مہارت رکھتے تھے اردو کے اشعار نہایت ہی عمدہ اور پر اثر انداز سے کہے۔ اپنا ابتدائی کلام مرزا حاتم علی بیگ مہر کو دکھایا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور اصلاح کی۔ جس سے ان کے کلام میں جلا پیدا ہوئی۔ کلام میں نکھار آیا آپ صاحب دیوان شاعر ہیں۔ مگر دیوان نایاب ہے رسائل وجرائد میں چھپی غزلیں امانت ہیں جن پر اکتفا کرنا پڑے گا        ؎

دل پہ صدمہ ہو کہ جاں پر اذیت راجہ

آنے پائے نہ مگر حرف شکایت لب پر

ان کے مشہور خمسیہ کا ایک بند ملا حظہ ہو       ؎

تھی خراب آہ، ابتدا کیسے

پر ہوئی خراب انتہا کیسے

ہوگئی پائوں تک رسا کیسے

مٹ گئی شکل نقش پا کیسے

بس گئی چال پر حنا کیسے

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان عام فہم سادہ اور صاف وشفاف ہے پروازِ تخیل بلند ہے جس سے کلام پراثر نظر آتا ہے کیا خوب کہتے ہیں          ؎

مرنے کا توکچھ غم نہیں پر غم ہے یہ راجہ

مہمان ہے دردِ جگری اور کوئی دم

ان کی شاعری بلند پایہ ہے جو اتنا وقت گزر جانے کے باوجود آج بھی دلوں پر راج کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو ادب کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ بڑے بڑے مشاعرے کرتے تھے۔ انھوں نے اپنا دیوان ’گل ریاض‘ کے نام سے 1854میں بمقام آگرہ سے شائع کیاتھا جس سے اندازہ ہوتا ہے وہ قیام آگرہ کے دوران بھی شاعری کرتے رہے۔ ’تر چندریکا‘ نام کی کتاب بھی ان کی یادگار ہے مگر افسوس صد افسوس آج سب نایاب ہے۔

8        رسا: بھارتیندو بابو ہریش چندر نام تھا، رسا تخلص اختیار کیا 9 ستمبر بروز پیر 1850 کو اس مقدس شہر بنارس میں ایک ایسا چاند طلوع ہوا جس کو ادبی دنیا نے بھارتیندو ہریش چندر کے نام سے جانا۔ ان کے والد بابو گوپال چندر عرف گردھررائے شہر کے باحیثیت اور ذی شعور انسان تھے وہ ہندی، سنسکرت، بنگلہ اور اردو کے عالم مانے جاتے ہیں۔ برج بھاشا میں شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کا گھر علمی وادبی محفلوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ بھارتیندو نے ایسے ادبی ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی۔ صرف پانچ سال کی عمر میں پہلا دوہا کہا اور والد سے شاباشی حاصل کی۔ ان کی بھی سنسکرت کے ساتھ ساتھ، عربی، فارسی اردو اور بنگالی کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ صحت مند تربیت ہوئی جس نے ان کی فکر کو وسعت عطا کی انھوں نے اپنی تخلیق کی ابتدا اردو غزل سے کی یہ بڑی اہم بات ہے۔

رسا کی اردو کی پہلی کتاب1867 میں گلدستہ نام سے منظر عام پر آئی۔ اس وقت اردو شاعری اور غزل کا طوطی بول رہا تھا۔ اردو کی شیرینی اور غزل کی مقبولیت نے انھیں ایسا متاثر کیا کہ وہ اردو میں غزلیں کہنے لگے۔ بالکل اسی روایتی انداز میں جیسے میر اور غالب نے کہی تھیں۔ بعد میں ہندی کے سنہرے مستقبل کو دیکھ کر اس کی طرف توجہ کی لیکن ہندی کو اپنے گلے کا ہار بنانے کے باوجود اردو سے انکی دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ وہ دیوناگری میں بھی اردو ہی لکھتے تھے کیا خوب کہتے ہیں           ؎

خدا ملے تو ملے آشنا نہیں ملتا

کسی کا کوئی نہیں دوست سب کہانی ہے

شب جدائی کا صدمہ نہیں سہا جاتا

حرام موت نہ ہوتی تو زہر کھا جاتا

رسا اپنی سرمستی اور سرشاری کے باوجود حالات زمانہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے غلامی کے احساس نے ہندوستانیوں کی جو حالت کردی تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اس کیفیت پر ان کے طنز سے بھرے بہترین شعر یہ ہیں         ؎

امراُ جو کہے رات تو ہم چاند دکھادیں

رہتا ہے سفارش سے بھرا جام ہمارا

کپڑا کسی کا، کھانا کہیں، سونا کسی جا

غیروں ہی سے ہے سارا سرانجام ہمارا

ان اشعار کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اردو الفاظ ومحاورات اور کہاوتوں پر قدرت حاصل تھی۔

دوسری طرف ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں دہلوی رنگ جھلکتا ہے۔ یعنی ناپائیداری حیات کا تصور‘ غم پسندی‘ علامت نگاری‘ بندش کی چستی‘ سادگی اور موثر جذبات نگاری کی کلکاری ملتی ہے تو لکھنو کی رنگ کی آمیزش بھی نظر آتی ہے چونکہ بنارس وہ پناہ گاہ ہے جہاں دہلی اور لکھنؤ سے آنے والے شعرأ نے چین وسکون کی سانس لی تھی اور اپنی شاعری کا جو رنگ جمایا تھا اس کا اثر بنارس کے شعرا پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اور یہاں کے رنگ شاعری نے ایک نیا روپ لیا جس کو بنارسی رنگ سے تعبیر کرسکتے ہیں جس کی گنگا جمنی جھلک رسا کی شاعری میں نظرآتی ہے اور گنگا کی لہروں کی روانی دکھاتی ہے تو کبھی جمنا کے دھارے ان کی شاعری میں لہریں مارتے نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری کو زندہ جاوید بنادیتے ہیں جب تک اردو زندہ ہے اور شاعری کے آسمان پر بھارتیندو یعنی بھارت کا چاند جلوہ گر رہے گا جو بہت تھوڑے وقت کے لیے نمودار ہوا۔ اور پھر اصلی چاند کے مانند چھپ گیا۔ مگر پھر نکلتا ہے اور اپنی تابانی بکھیرتا رہتا ہے ایسے ہی صرف 34چوتیس سال کے لیے آسمان شاعری پہ چاند نمودار ہوکر 6 جنوری 1885 کو نہ جانے کتنے ارمان اور تمنائیں لیے اس جہاں فانی سے جہان جادوانی میں چلا گیا مگر اس کی چاندنی شاعری کے دامن میں آج بھی مسکرا رہی ہے۔

9        شاد: ماسٹر شیوناتھ پرساد نام اور شاد تخلص تھا یکم جنوری 1914 کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام دودھ ناتھ ورما تھا کائستھ خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ابتدائی تعلیم اردو فارسی سے ہوئی بعد میں انگریزی بھی پڑھی۔ ایم اے اردو فارسی دونوں زبانوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا۔ تاریخ میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اس کے بعد بنارس کے مشہور ڈی اے وی انٹر کالج میں اردو کے لیکچر رہوگئے۔ آپ کو اردو سے بہت عشق تھا ،اکثر نئے نئے موضوعات پر اردو میں مضامین تحریر کیا کرتے تھے۔ شاعری کا فطری ذوق وشوق بھی تھا۔ غزل نظم اور قطعہ وغیرہ اخبار اور رسائل میں چھپتے تھے حالانکہ اپنا کلام چھپوانے سے ہمیشہ کتراتے تھے لیکن احباب کی ضد آڑے آجاتی، وہ فرمائش کرتے پھر ان کی ایک نہ چلتی۔ان حضرات کے ہم احسان مند ہیں جن کی بدولت آج شاد کا کلام ہمیں پٖڑھنے کو مل جاتا ہے         ؎

مجھے نہ دولتِ دنیا کی اب ضرورت ہے

فقط اطاعتِ مولا کی ایک حسرت ہے

شاد کی طرز فکر بلند تھی اور وہ غضب کا حوصلہ رکھتے تھے زبان فارسی سے متاثر ہے آپ تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انجمن ترقی اور اترپردیش کے نائب صدر، آریہ سماج وارانسی کے صدر اور کاشی انا تھالیہ کے صدر تھے اردو کی ترقی اور فلاح کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔  وہ بڑے سیدھے سادے ملنسار انسان تھے خوش اخلاقی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی زندگی بھر اس کا ساتھ نبھایا۔ 18 مئی1974 کو بنارس میں ان کی وفات ہوئی۔ کاشی کا بیٹا یہیں گنگا کی لہروں کے سپرد ہوگیا۔

10      شاکر:شیوناتھ نام،شاکر تخلص تھا۔ قصبہ رام نگر میں پیدا ہوئے آپ کے بڑے بھائی پنڈت دیارام اپنے دور کے ممتاز شاعر تھے۔ ان کا خاندان بنارس کے رؤسا میں گنا جاتا تھا جو دولت علم سے بھی سرفراز تھا۔ گھریلو ماحول بھی بہت ہی مہذب اور شائستہ تھا۔ دستورِ زمانہ کے مطابق ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں حاصل کی۔ سا تھ ہی ہندی اور انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا جس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ مہاراجہ بنارس کی انتظامیہ میں نظامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

شاکر کو شعر وشاعری کا ذوق ابتدا ہی سے تھا مشاعروں میں شرکت ان کا اہم مشغلہ تھا۔ آپ کے گھریلو حالات دستیاب نہیں۔ دیوان بھی ضائع ہوگیا۔ مگر چند اشعار مل گئے       ؎

نہ آئے گا، اگر وہ راحت جاں

تو ہم باز آئیں گے جان حزیں سے

مجھے باہر نکال اے وحشتِ دل

کہ تنگ آیا ہوں میں چرخ زمیں سے

11      شریف:شریف ونایک پرشاد نام، شریف تخلص تھا آپ کی پیدائش شہر بنارس کے قریب کتھولی ضلع میں 1849 میں ہوئی۔ کائستھ گھرانے میں آنکھیں کھولنے کے سبب آپ کو اردو فارسی کی تعلیم دلائی گئی۔ مہاراجہ بنارس کی ملازمت اختیار کرلی۔ تقریباً پینتالس45 سال تک اس فریضے کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا پھر پینشن لے لی۔ شعر وشاعری کا ذوق ایسا حاوی تھا کہ طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر کہنے لگے تھے مذہبی انسان تھے فقیروں جیسا لباس پسند کرتے تھے مگر اشعار بلند پایۂ کے کہتے تھے۔ آواز خلق میں 1902تا1911 آپ کا کلام چھپتا رہا۔ لوگ لطف اندوز ہوتے رہے ۔

12      عاشق: شیو شنکر پرشاد نام، عاشق تخلص تھا۔ ان کے دادا کا نام منشی ہراتی لال تھا والد کا لکا پرشاد تھے۔ انکے دادا باپ دونوں مہاراجہ کے ملازم تھے اردو فارسی کی تعلیم آپ نے اپنے والد سے حاصل کی رام نگر میں رہتے تھے آج بھی آپ کے خاندان کے لوگ وہاں موجود ہیں انکے گھر میں شعر وشاعری کا بہت چرچہ تھا جس نے ان کے ذوقِ شاعری کو بھی جلا بخشی عاشق بڑے ذہین اور خوش مزاج انسان تھے اکثر مشاعروں میں شامل ہوتے تھے غزل بہت اچھی کہتے تھے اور ’آواز خلق‘ میں شائع ہوتے رہتے تھے آپ کی غزلوں کے اشعار عمدہ الفاظ سادہ اور عام فہم ہیں۔ خیالات بڑے پاکیزہ ہیں جذبات میں گہرائی ہے چند شعر         ؎

دیکھ کر میرا جنازہ وہ ستم گر بولا

روٹھ جاتے ہیں ذرا ان کو منائے کوئی

تن لاغر میں گو اب صرف جانِ زار باقی ہے

تمنا وصل کی تیرے اے میرے یار باقی ہے

6 ستمبر 1904 کے ایک اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشق نے ترپولیہ رام نگر بنارس سے ایک رسالہ1904 میں نکالا تھا۔جس کا اشتہار اس طرح ہے:

’’مسٹر عاشق رام نگری کے اہتمام میں ایک گلدستہ صبح بنارس نامی اکتوبر سے شائع ہوگا۔ نومبر 1904کے شمارے سے معلوم ہوتا ہے کہ گلدستہ صبح بنارس بہ اہتمام منشی شیو شنکر پرشاد ورما کے شائع ہونا شروع ہوگیا۔‘‘

13      فضا: سنکٹھا پرشاد نام، فضا تخلص تھا۔ آپ کا تعلق کھتری گھرا نے سے ہے جن کا شمار شہر کے بڑے رؤسا میں ہوتا ہے۔ تجارت کرتے تھے آپ بیتاب بنارسی کے شاگرد تھے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔

14      ملک: بھولا ناتھ نام، ملک تخلص تھا بنارس کے رؤسا میں شمار ہوتا تھا حسبِ دستور ابتدائی تعلیم عربی وفارسی میں حاصل کی۔ ان کا گھرانہ علم وادب کا گہوارہ تھا جس کا اثر ان کے دل ودماغ پر بھی گہرا پڑا اور شعر وشاعری کی طرف رجحان بڑھا۔ مشاعروں میں بڑی شان شوکت سے شرکت کرتے تھے نولکشور پریس لکھنؤ میں ملازمت کرتے تھے آخری عمر میں بنارس آگئے اور نیپال سرکار کی ملازمت اختیار کی۔ بڑے ہی ذہین خوش اخلاق، خوش مزاج انسان تھے اشعار اعلیٰ درجہ کے کہتے تھے          ؎

رند ہوں بعد فنا ملی جو دنیا مجھ کو

مے ملا لیجیو اے اہل وطن پانی میں

جہاں میں اس خالقِ جہاں کا ظہور جلوہ گری یہ سب ہے

وہ ذاتِ واحد ہے، پر ہے ہرجا فلک کے اوپر زمیں کے نیچے

ملک نے یہیں 1905 میں اس دیار فانی کو خیر آباد کہا۔

15      قیس: شیو مورت لال نام قیس تخلص تھا۔ آپ کی پیدائش 10 جون 1903 میں بنارس کے مشہور محلہ پیڑی میں ہوئی۔ آپ کے والد گنپت سہائے نہایت ذہین اور سنجیدہ انسان تھے گھر میں ادبی فضائیں تھیں لہٰذا گھر پر ہی اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ہندی انگریزی بھی پڑھی۔ ابتدائی دور میں منشی شاہ سرن صوفی بنارسی سے اصلاح لی آپ کو مشاعروں میں شرکت کا بے حد شوق تھا۔ غزل میں خاص طور سے طبع آزمائی کی اشعار بلند پایہ اور عمدہ ہیں۔ بعد میں رحمت اللہ رحمت سے بھی تلمذِ فیض اٹھایا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

مقدر ہمارا، لکیریں تمھاری

جو چاہو بنائو، جو چاہو مٹائو

تم شبِ غم میں ہمیں آکے پکارانہ کرو

یہ بھی کٹ جائے گی، تکلیف گوارا نہ کرو

برستی ہے مستی، چھلکتا ہے ساغر

وہ کیفِ مجسم، جہاں ہوکے نکلے

16      کامل: پیارے لعل سریواستو نام، کامل تخلص تھا ان کی پیدائش محلہ اورنگ آباد میں1898 میں ہوئی والد منشی تاراپرشاد ایک نامور وکیل تھے بنارس کے رؤسا میں شمار ہوتے تھے۔ کامل کی ابتدائی تعلیم اردو فارسی اور ہندی کی گھر پر ہوئی تھی اس کے بعد انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ فارغ التحصیل ہوکر وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ گھر میں ادب کا بول بالا تھا جس کا اثر ان کے ذہن پر بھی پڑا اور شعر کہنے لگے۔ فائز بنارسی جیسے استاد شاعر سے اصلاح لی۔ آپ بہت ہی منکسر المزاج، ادب نواز اور خوش طبع بھی تھے آپ صاحبِ دیوان شاعر ہیں افسوس دیوان شائع نہیں ہوا۔ آپ کے اشعار عمدہ ہیں۔ زبان سادہ سلیس ہے۔ چند اشعار         ؎

پلکوں پہ بے قرار ستاروں سی ہے چمک

ان کو بھی بے قرار بنانے لگا ہوں میں

ان اشعار سے ان کی اعلیٰ ذوق شاعری کا اندازہ ہوتا ہے ایک مدت تک آپ اسپیشل مجسٹریٹ درجہ اول بھی رہے۔ ادبی وسماجی دونوں میدانوں میں کارہانے نمایاں انجام دے کر آپ نے1958 میں اس دارِفانی سے کوچ کر مالک حقیقی سے جاملے۔

17      کنور: چکرورتی سنگھ نام، کنور تخلص تھا۔ مہاراجہ بلوان سنگھ کے بیٹے تھے جو خود بہت اچھے شاعر تھے ادبی ذوق آپ کو ورثہ میں ملا تھا۔ مہاراجہ بنارسی کا خاندان علم دوستی اور ادب پروری کے لیے بہت آگے تھا ان کے دربار سے اردو شعرا ورادبا کو وظائف ملتے اس طرح ان کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ ایسے ماحول میں چکرورتی کی شاعرانہ صلاحیتوں کو نموملا وہ اچھے اشعار کہنے لگے بطورِ نمونہ         ؎

صد مے شب فرقت کے اٹھائے ہیں برابر

اے جانِ جہاں دل کوئی لائے یہ کہاں سے

اللہ کرے خیر کنور دل کو ہماری

ان روزوں ہے پھر سامنا اس آفتِ جاں سے

18      مشتاق: جگن ناتھ پرشاد نام، مشتاق تخلص تھا۔ ان کی پیدائش بنارس کے مقتدر کائستھ گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اردو فارسی اور ہندی میں ہوئی یہ خاندان بھی علم وادب کی شمع سے منور تھا جس کا اثر مشتاق کے دل ودماغ پر گہرا پڑا۔ شعر وشاعری سے لگائو قدرتی تھا۔ لہٰذا اپنے دور کے مشہور شاعر آفاق بنارسی کے شاگرد بن گئے اور اصلاح لینے لگے۔

مشتاق بے حد منکسر المزاج اور علم دوست تھے شعرا کی بڑی قدر کرتے تھے مشاعروں میں شرکت اپنا فرض سمجھتے تھے آپ کی ذات مقدس سے بنارس کی بزم شاعری مدتوں تک زندگی اور زندہ دلی کے چراغوں سے منور رہی۔ آپ کے اشعار عمدہ اور اعلیٰ معیارکے ہیں زبان سدھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ بطور نمونہ          ؎

غور سے دیکھا تو اے مشتاق یہ ثابت ہوا

کوئی بھی اپنا نہ تھا، جوتھا یہاں بیگانہ تھا

19      معروف: بلدیو سنگھ نام، معروف تخلص اختیار کیا۔ گوتم خاندان سے تعلق تھا بنارس کے رؤسا میں شمار تھا۔ عربی وفارسی زبان کے بلند پایہ استاد شاعر تھے۔ شعر وشاعری سے بے حد لگائو تھا ابتدا میں صدر الدین محمد خاں وحید کو اپنا کلام دکھایا۔ پھر ذاکر بنارسی کی شاگردی اختیار کی آپ بے حد ملنسار تھے۔افسوس کہ ان کے اشعار دستیاب نہ ہو سکے۔

20      ناداں: گلاب چند نام، ناداں تخلص تھا آپ کے آبا واجداد جونپور سے تعلق رکھتے تھے۔ دادا بنارس آکر بس گئے۔ والد منی لال تھے۔ ناداں کی پیدائش 22 مئی 1880 کو بنارس میں ہوئی۔ منشی لال نے بیٹے کی تعلیم کا خاص انتظام کیا اور فارسی کی تعلیم خاص طور پر دلوائی۔ اس کے بعد 11 برس کی عمر میں انگریزی تعلیم کے لیے 1891میں موجودہ کوئنس کالج میں داخل کرادیا۔ ان کے پوتے رادھے کرشن آنند کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کو اردو عربی فارسی، انگریزی اور ہندی پر پورا عبور حاصل تھا۔1898 میں جبکہ زیر تعلیم تھے اخباروں کے لیے نامہ نگاری شروع کردی تھی۔ اور ہندوستان کے مختلف انگریزی اخبارات میں آپ کے مضامین شائع ہوئے۔ 28 مئی1900 میں آپ اخبار’انڈین اپیل‘ کے سب ایڈیٹر ہوئے یہیں سے صحافت کا آغاز ہوا۔ مختلف اخبارات میں کام کرنے کے بعد یکم ۱ فروری 1902 میں اپنے ذاتی مطبع’صبح بنارس‘ کی بنیاد رکھی اور اخبار’آوازۂ خلق‘ نکالا۔ دسمبر 1909میں اپنی علالت کے باوجود دوسرا ہندی رسالہ ’دیہاتی‘جاری کیا۔

21      واصل: امبیکا پرشاد سنہا نام، واصل تخلص تھا۔ 16ستمبر1876 میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ رامیشور پال سنہا والد تھے۔ ان کا گھر علم وادب کا گہوارہ تھا ’اردو‘ ہندی فارسی کے علاوہ انگریزی اور بنگلہ بھی بخوبی جانتے تھے آپ نے ڈرامے بھی لکھے مگرنایاب ہیں فخرکی بات یہ ہے ڈاکٹر سمپور نانند کے حقیقی ماموں تھے۔ ان کا کلام بھی نایاب ہے مگر جو ملتا ہے اس میں تغزل کا رنگ چھایا ہوا ہے۔ آپ کا تخیل بلند اور زبان سادہ ہے یہی آپ کی مقبولیت کا راز ہے چند اشعار       ؎

نہیں کچھ دین ودنیا سے ہمیں مطلب، سن اے واعظ

ہم آزادوں کا بے ساغر گذارا ہو نہیں سکتا

میری آہ وفغاں کی قدر ہو کچھ یا نہ ہوپھر بھی

مگر دل بر کو درد دل سنایا ہی تو جاتا ہے

22      ہمسر: جگد ماپرشاد نام، ہمسر تخلص تھا۔ آپ کے والد کا نام گنگا پرشاد تھا۔ فروری1924 میں ہمسر کی پیدائش بنارس میں ہوئی۔ آپ کے والد کا شمار رؤسا ئے بنارس میں ہوتا تھا۔ پھر شاعری تو اس وقت کے رؤسا کا ’مشغلہ‘ دل لگی ہوا کرتی تھی۔ شعر وشاعری کی گھن گرج ان کے گھر کی فضائوں میں بھی گونج رہی تھی لہٰذا وہ بھی قیس بنارسی کی شاگردی میں اپنے ذوقِ شعر وسخن کی تشفی کرنے لگے۔ بے فکری کا زمانہ تھا اوپر والے نے ہر چیز سے نوازا تھا۔ اردو فارسی کے علاوہ انگریزی کی صلاحیت بھی رکھتے تھے ذوق میں پاکیزگی اور تخیل میں بلندی آگئی۔ آپ بڑے ادب نواز انسان تھے ادب سے دلچسپی مشاعروں کی محفل تک لے گئی۔ خوش مزاجی ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی۔ جس کی جھلک اشعار میں نظر آتی ہے         ؎

کیوں مسکرا رہے ہیں ستارے فلک پہ آج

کیا اب سحر نہ ہوگی شبِ انتظار کی

دو دن بہار باغ میں رہ کر چلی گئی

پھولوںکے ساتھ کھیل کے پچھتا رہا ہوں میں

ساحل پہ کھڑے وہ طوفاں کا کیا خاک نظارہ کرتے ہیں

ہم ڈوب کے مرنا ساحل کے نزدیک گوارہ کرتے ہیں

زبان وادب سے محبت کرنے والا یہ انسان 1954  میں ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا۔

روشن لال روشن بنارسی کے علاوہ بھی کئی نام ہیں مگر اس چھوٹے سے مضمون میں مزید تفصیل کی گنجائش نہیں۔مقام مسرت ہے کہ بنارس میں اردو کا پودا پروان چڑھ رہا ہے۔ اور نئی نسل اس کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ہمارے لیے یہی مقام مسرت اور مستقل کی کرن ہے۔


Rifat Jamal

311, Amrosia Apartment

Lanka Varanasi- 221005 (UP)

humaparveen652@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو ناولوں میں منفی کرداروں کی اہمیت و افادیت،مضمون نگار: محمد ابرار

  اردو دنیا،جون 2025 حیات انسانی متنوع جہات کی حامل ہے۔ آدمی شروع سے ہی مختلف مدارج و مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں حالات...