22/12/25

شکیل الرحمن کی نظر میں پریم چندکے المیہ کردار،مضمون نگار: مناظر ارشد

 اردو دنیا،جون 2025

شکیل الرحمن کی پیدائش 18فروری 1931 کو مشرقی چمپارن کے شہر موتیہاری میں ہوئی اور وفات 9 مئی 2016 کو دہلی میں ہوئی۔ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت گھر پر ہی ہوئی۔ مزید تعلیم میٹرک، انٹر اور بی اے کی تعلیم موتی ہاری میں رہ کر ہی حاصل کی جبکہ ایم اے اور ڈی۔لٹ کی ڈگری پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ سے حاصل کی۔ سب سے پہلے تقرری بحیثیت لیکچرر (بھدڑک) اڑیسہ میں ہوئی۔ وہ بہار یونیورسٹی مظفر پور، کشمیر یونیورسٹی اور متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ ، کے وائس چانسلر رہے۔

شکیل الرحمن صاحب ایک تخلیقی نقاد تھے اور ایک تخلیقی فنکار بھی،  ان کا اصل شناخت نامہ ادب میں جمالیاتی مطالعہ ہے جمالیات کے موضوع پر ایک سے بڑھ کر ایک کتابیں لکھیں۔ انھوں نے تنقید کے علاوہ ناول، افسانہ، ڈرامہ اور ایک خودنوشت سوانح حیات ’آشرم‘ بھی لکھی۔ ویسے تو ان کی کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سے چند قابل ذکر کتابیں کچھ اس طرح ہیں۔ ادب اور نفسیات، لاوے کا سمندر، میر شناسی، اساطیر کی جمالیات، تصوف کی جمالیات، منٹوشناسی، اقبال: روشنی کی جمالیات، فکشن کے فنکار پریم چند، ابوالکلام آزاد، قرآن حکیم جمالیات کا سرچشمہ، ابوالکلام آزاد وغیرہ۔ مذکورہ تمام کتابوں میں ایک اہم کتاب ’فکشن کے فنکار پریم چند ‘  میں انھوں نے فکشن کے سمراٹ پریم چند (1880-1936)  کے المیہ کرداروں کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ فکشن کے فنکار پریم چند : تقریباً 216 صفحات پر مشتمل ہے جس میں شکیل صاحب نے پریم چند کے ناول اور افسانوں پر اپنا تنقیدی نظریہ پیش کرتے ہوئے ان کی کہانیوں کے المیہ کرداروں کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے اور با قاعدہ ، المیہ کردار ، کے عنوان سے الگ باب باندھا ہے۔

شکیل الرحمن نے المیہ کردار نامی اس باب میں پریم چند کے المیہ کرداروں کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے  مثال کے طور پر افسانہ ( کفن ) سے مادھو اور گھیسو (حقیقت) کا امرت ،  مراری لال (کفارہ) کاؤس جی (لعنت) ونود ( دو سکھیا)، ہلکو (پوس کی رات)، دکھی چمار (نجات) ہر کو( قربانی)، میر صاحب اور مرزا صاحب (شطرنج کے کھلاڑی )  جیون داس ( دستِ عیب) مسٹر مہتہ (ریاست کا دیوان)  وغیرہ .جیسے کرداروں کا محاکمہ کرتے ہوئے المیہ کے جوہر کو نمایاں کیا ہے۔

معروف نقاد حقانی القاسمی صاحب کا ’پریم چند‘ کے المیہ کرداروں پر   ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے  :

’’المیہ میں حسن کی تلاش بھی شکیل الرحمن کی تنقیدی تجسس کاایک نیا منطقہ ہے اورکرداروں کی تفہیم کی ایک نئی منطق بھی۔ پریم چند کی کہانیوں کے المیہ کرداروں کی سائیکی کامعاشرتی عوامل اورتحرکات کے متناقص سے رشتہ جوڑکرایک اورنئی جہت پیدا کردی ہے۔ المیہ کرداروں کے حوالے سے کفن کے گھیسو اور مادھو کو انھوں نے بطور مثال پیش کیاہے اوران دونوں کرداوں کی نفسیاتی کیفیات کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ’کفن‘ کو اردوکاشاہکار کہا ہے اوریہ لکھا ہے کہ جذباتی آسودگی حاصل کرنے کا یہ انداز اردوفکشن میں غیر معمولی ہے۔ پریم چند نے انسانی فطرت کی جس طرح نقاب کشائی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کفن فنکار کے وژن اور فنکارانہ دروں بینی کاایک ناقابل فراموش نمونہ ہے۔‘‘

(بحوالہ: فکشن کے فنکار پریم چند  اور شکیل الرحمن،  مرتب شیخ عقیل احمد ص8/307)

مذکورہ اقتباس میں حقانی القاسمی صاحب نے پریم چند کے المیہ کرداروں پر شکیل الرحمن کے نقطۂ نظر کو انتہائی دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے ان کے تخلیقی تنقید کو توانائی عطا کی ہے جس سے ’ المیہ کا حسن‘ مزید نکھرا ہوا معلوم ہوتاہے ۔ جبمادھو کی بیوی بدھیا مرجاتی ہے تو اس کے کفن کے لیے گھیسو اور مادھو دونوں زمین دار کے پاس جا کر روتے ہیں، مہا جنوں  سے پیسے مانگتے ہیں، زمین دار دو روپے دے دیتا ہے اس طرح سے مانگ مانگ کے ایک گھنٹے میں پانچ روپے جمع ہو جاتے ہیں، لکڑیاں بھی مل جاتی ہیں، گھیسو کہتا ہے ’چلو ہلکا سا کوئی کفن لے لو‘ مادھو جواب دیتا ہے ’ہاں اور کیا‘ لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی، رات کو کفن کو ن دیکھتا ہے۔گھیسو پانچ روپے کو للچائی نگاہوں سے دیکھتے  ہوئے کہتا ہے۔’ کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کے چیتھڑے بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کفن چاہیے‘ مادھو ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ کفن تو لاش کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔ پھر دونوں شراب پیتے ہیں مچھلیاں کھاتے ہیں، ناچتے گاتے ہیں رات بھر میں پانچ روپے ختم ہو جاتے ہیں۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ ’’یہ دونوں کردار طبقاتی زندگی کے المیہ کو لیے اور اپنی نفسیاتی کیفیتوں کے ساتھ، کیریکٹر،بن گئے ہیں، جذباتی آسودگی حاصل کرنے کا یہ انداز اردو فکشن میں غیر معمولی ہے‘ اقتباس دیکھیے:

’’ایسے المیہ کرداروں کی اندورنی ویرانی غیر معمولی ہے کہ جس سے افسانہ پیتھوس کا ایک منظر بن گیا ہے۔ کرداروں کے عمل سے اندرونی ویرانی Havoc کا جھٹکا غیر معمولی ہے۔ یہ اردو کا شاہکار ہے، پریم چند نے انسانی فطرت کی جس طرح نقاب کشائی کی ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی ٹریجڈی فنکارانہ درون بینی کا تقاضا کرتی ہے۔ ’ کفن‘ فنکار کے ’ وژن‘ اور فنکارانہ درون بینی کا ایک نا قابلِ فراموش نمونہ ہے۔‘‘

(فکشن کے فنکار پریم چند،  ص 133-34 )

شکیل الرحمن صاحب نے یہاں یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ مادھو اور گھیسو کی سائیکی جو اس المیہ کے جوہر کو نمایاں کرتی ہے جتنی گہری ہے اتنی ہی تاریک بھی ہے پھر بھی دونوں کردار اپنے زوال کے مکمل ذمہ دار نہیں۔ ان کی ذمہ داری معاشرہ اور اقدار پر بھی ہے۔

پریم چند کے جن کہا نیوں میں یہ المیہ کردار موجود ہیں وہاں قدروں کی کشمکش اور ذہنی تصادم نے ٹریجڈی پیدا کی ہے۔ ان کے  المیہ کرداراکبری شخصیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان میں مختلف جہتیں ہیں۔ گہری پیچیدگی نفسیاتی تصادم - طبقاتی کشمکش نیز متصادم نقطہ نگاہ کی کشمکش ان کرداروں کو توجہ کا مرکز بناتی ہے اور ان کرداروں کے دم سے کہانیوں میں زندگی دھڑکتی نظر آتی ہے۔

شکیل الرحمن صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پریم چند کے کردار روایتی المیہ کرداروں کی مانند نہیں ہوتے۔ وہ نہ تو بلند مرتبہ ہوتے ہیں، نہ ہی ان کے زوال میں کوئی خارجی  شے پوشیدہ ہوتی ہے، بلکہ وہ عام انسان ہوتے ہیں جن کی محرومیاں، دکھ، درد اور شکست خوردگی ایک داخلی کشمکش اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہوتی ہے۔  پریم چند کے کردار ایک ایسے داخلی تضاد کا شکار ہوتے ہیں جہاں اخلاقی اور معاشرتی اصولوں کے درمیان کشمکش انہیں نہ تو مکمل نیکی کا راستہ اختیار کرنے دیتی ہے اور نہ ہی مکمل برائی کا۔ یہی اندرونی ٹوٹ پھوٹ انھیں المیہ کا پیراہن عطا کرتی ہے۔

شکیل الرحمن کا دعویٰ ہے کہ پریم چند کا المیہ نہ تو خارجی طور پر مسلط کیا گیا ہے اور نہ ہی روایتی قسم کا ’عظیم المیہ‘ ہے، بلکہ وہ حقیقت پسندانہ اسلوب میں انسانی زندگی کی سفاک سچائیوں کی جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ کردار اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں، لیکن ان میں ایک داخلی سوال اور اضطراب موجود ہوتا ہے۔

شکیل الرحمن نے پریم چند کے کرداروں کی نفسیاتی ساخت کو ایک ’تضاد‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کرداروں میں نیکی اور بدی، جذبہ اور عقل، امید اور یاس جیسے جذبات بیک وقت موجود ہوتے ہیں، اور یہی ان کی فنّی گہرائی کا معراج ہے۔

پریم چند کے المیہ کردار صرف ہمدردی کے متقاضی نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک ایسا جمالیاتی تجربہ بن جاتے ہیں جو قاری کو صرف رلاتا نہیں، بلکہ اسے انسانی وجود کی پیچیدگیوں سے آشنا کرتا ہے۔ یہی ان کا فنّی کمال ہے اور فنکارانہ پیشکش۔

شکیل الرحمن کا مذکورہ اقتباس پریم چند کی افسانہ نگاری کی گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ پریم چند کے المیہ کردار جدید نفسیاتی اور سماجی شعور کا نمائندہ ہیں، اور ان کا دکھ صرف ذاتی نہیں بلکہ سماجی، اخلاقی اور انسانی المیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح سے  پریم چند کے ایک دلچسپ افسانہ ( حقیقت) کے المیہ کردار ’امرت‘ کے بارے میں شکیل الرحمن کچھ یوں رقمطراز ہیں :

’’امرت، ( حقیقت)۔ ذہن اور حالات کے تصادم میں ایک المیہ کردار بن کر ابھرتا ہے، اس تصادم سے تمناؤں کی شکست ہوتی ہے اور ایک پر آشوب Catastrophic انجام ہوتا ہے۔ امرت کا ذہن وقت Time کی زنجیر توڑ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، اسی رجحان یا ذہنی کیفیت سے ٹریجڈی پیدا ہوتی ہے۔ جس عورت سے محبت کرتا تھا اسے برسوں بعد جبکہ اس کے تین بچے بھی ہو چکے ہیں اسی رومانی فضا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ امرت کی عمر چالیس سال سے آگے نکل گئی ہے لیکن سوچ رہا ہے۔ ’’تقاضائے سن نے یقینا اسے زیادہ مہر پرور بنا دیا ہو گا اور شوخی اور اکھڑ پن اور بے نیازی تو کب کی رخصت ہو چکی ہو گی اس دوشیزگی کی جگہ اب آزردہ کا ر نسائیت ہوگی جو محبت کی قدر کرتی ہے اور اس کی طلب گار ہوتی ہے … وہ محض اس کے منہ سے یہ سن کر روحانی تشفی پائے گا کہ وہ اب بھی اسے یاد کرتی ہے ، اب بھی اس سے وہی بچپن کی سی محبت ہے ؟‘‘

جب امرت پور نما سے ملتا ہے تو امرت سے ہمدردی ہو جاتی ہے، سفید ساڑی جھکی کمر، پتلی بانہیں ، ابھری ہوئی رگیں ، آنکھوں میں آنسو، زرد رخسار، کفن میں لپٹی ہوئی لاش — امرت کا ذہن وقت کی زنجیر سے ٹکراتا ہے تو اس کی آواز دیر تک سنائی دیتی ہے۔ پریم چند کے ایسے کردار اپنے نفسیاتی ذہن اور جذباتی رد عمل سے پہچانے جاتے ہیں ، جب پورنما کی موسی پور نما کا حال بتاتی ہے تو وہی امرت سوچتا ہے کہ دل میں اگر مٹی کو دیوتا بنانے کی قدرتہے  تو انسان کو دیوتا بنانے کی بھی قدرت ہے اور کہتا ہے ’’ تپسّوی کو ہم جیسے غرض کے بندے کیا سمجھ سکتے ہیں، موسی ہمارا فرض اس کے قدموں پر سر جھکانا ہے، سمجھانا نہیں ‘‘ التباس ٹوٹتا ہے تو امرت بکھر نہیں جاتا سچائی کو تھام لیتا ہے تکمیل آرزو کی تمنا دم تو ڑتی ہے تو الیہ کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ ‘‘

(ایضاً، ص 136-37)

مذکورہ اقتباس پریم چند کے المیہ کردار کے ایک دوسرے روپ کو پیش کرتا ہے جسے شکیل الرحمن نے بڑی خوبصورتی سے place کیا ہے۔ یہاں المیہ کا رنگ و روپ اور اس کا خدو خال بہ اندازِ دگر آیا ہے یہ المیہ کردار ’کفن‘ کے المیہ کردار سے بہت مختلف ہے جو دونوں کرداروں کے درمیان تطبیق کی ایک نئی جہت پیدا کرتی ہے۔ ’مادھو اور گھیسو‘  کے المیہ کی ذمہ داری تو معاشرے پر عائد ہوتی ہے لیکن مذکورہ اقتباس کا المیہ کس وجہ سے سامنے آتا ہے؟ اصل میں یہ المیہ کردار پریم چند کے تخلیقی ذہن کا کمال ہے اور شکیل الرحمٰن جیسے ادب کے پارکھ کا بھی جو المیہ کے جوہر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ شکیل الرحمن صاحب کا تنقید ی ادراک اور تجزیاتی شعور نہایت روشن اور تابناک ہے۔ انھوں نے پریم چند کے المیہ کرداروں کو جس اندازمیں سمجھا ہے اور سمجھایا ہے ایک ایک کردار کی سائیکی میں اتر کر ایسی سمجھ اور ایسا ادراک ہمیں کسی دوسرے کے یہاں نہیں ملتا ،موصوف کسی بھی فن پارے کی فنی خصوصیات کا جائزہ خارجی سطح پر نہیں کرتے ہیں بلکہ پریم چند کے المیہ کرداروں کے اندرون میں داخل ہو کر ان کی سائیکی میں سما کر جمالیاتی نقطہ نظر سے محاکمہ کرتے ہیں اور پوری ایمانداری سے اپنی بات کو رکھتے ہیں۔

پریم چند کے تخلیق کردہ المیہ کرداروں میں جو جمالیاتی جہات اور بطون میں جو اسرار مضمر ہیں اس کی تفہیم ہر کسی کے لیے ممکن بھی نہیں ’کفن‘ پریم چند کی بڑی کامیاب فنی تخلیق ہے۔ اس میں اْن کا مشاہدہ فکر، تخیل، زبان و بیان اور فنی صلاحیتیں معراج کمال پر پہنچی ہوئی ہیں۔ کفن فنکار کے وڑن، اور فنکارانہ درون بینی کا ایک نا قابل فراموش نمونہ ہے۔

غرض کہ المیہ کے اس باب میں شکیل صاحب منشی پریم چند کے المیہ کرداروں کو اپنے اندرون میں جذب کر کے زندگی کی  داخلی معنویت کو منکشف کرتے ہیں جس سے فنکار کی فنکارانہ صلاحیتیں ابدیت کے ہاتھوں میں جذب ہونے لگتی ہیں۔  شکیل الرحمن کا اسلوب شکیل کا وصفِ خاص ہے جس سے قارئین کا کرہ علم وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔ یہ باب اپنی نوعیت میں بالکل انوکھا ہے جو پڑھنے والوں پر بھی رقت طاری کر دیتا ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ باب بھی شکیل الرحمن کے ’وژن‘ تخلیقی تنقید اور فنکارانہ درون بینی کا ایک ناقابل فراموش نمونہ ہے۔

پریم چند کے المیہ کردار مصنوعی نہیں لگتے بلکہ عام زندگی کے جیتے جاگتے افراد محسوس ہوتے ہیں ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی اور معاشرتی  ہوتے ہیں ان کرداروں کے ذریعے پریم چند نے اس استحصالی نظام پر تنقید کی ہے جو سماج کے لیے ناسور ہے۔

 

Monazir Arshad

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9891448601


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو ناولوں میں منفی کرداروں کی اہمیت و افادیت،مضمون نگار: محمد ابرار

  اردو دنیا،جون 2025 حیات انسانی متنوع جہات کی حامل ہے۔ آدمی شروع سے ہی مختلف مدارج و مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں حالات...