ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024
دیومالائی بادشاہ کیسر کی داستان فی زمانہ دنیا کی لگ بھگ دو ارب آبادی میں مشہور اور مقبول ہے۔ ان ممالک میں چین، روس، سنٹرل ایشیا، منگولیا، بھوٹان اور جزوی طور پر ہندوستان اور پاکستان شامل ہیں۔ چین میں (Epic) رزمیہ کی ابتدا تبت سے ہوئی اور اس کا ترجمہ ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں ہوا ہے۔ اب تک چین نے کیسر پر کئی بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔
ہندوستان میں کیسر کی داستان لداخ ، سکم، ہماچل پردیش
اور پاکستان میں بلتستان، گلگٹ اور ہنزہ میں بڑی مقبول ہے۔
ایک اسکالر پروفیسر Klaw
Sagajtb نے لکھا ہے:
’’اس داستان کا جنم مشرقی تبت میں ہوا جہاں
سے یہ شمال میں پہنچی اور منگولیا آئی۔ تبت سے یہ لداخ، بلتستان اور یہاں کچھ حد
تک مقامی داستانوں میں ضم ہوئی اور کیسر مقامی ہیرو بنا۔‘‘
روس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کی
روداد بڑی تقطیع میں 244 صفحات پر محیط ہے۔ اس میں روس سمیت دس ملکوں کے 56 شرکا
اسکالروں کے مقالوں کی تلخیص میں پورا متن دیا ہوا ہے۔ ایک لداخی اسکالر نوانگ
چھرنگ شقپو اور ایک لداخی طالبہ دیسکیت آنگموں کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا لیکن
کورونا وائرس کی وجہ سے وہ شرکت نہیں کرسکے تاہم
انھوں نے اپنے مقالے آن لائن پیش کیے۔ دیسکیت آنگموں نے کیسر اور اس کی
داستان پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ کانفرنس کی روداد اور مقالے پڑھ کر مجھے ادراک ہوا کہ
کیسر کی شخصیت اور داستان روس میں مقبول ہے۔
اگر ہندوستان اور پاکستان میں ملک گیر سطح پر یہ داستان
مقبول ہوتی ہے تو یہ دنیا کی نصف آبادی کی مقبول داستان ہوگی۔ دنیا کی کسی بھی
مشہور داستان کو تاریخ میں آج تک اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔
2009 میں یونیسکو نے کیسر کی رزمیہ داستان کو
بنی نوع انسان کے Intangible(اچھوتے)
ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا جس سے رزمیہ کو عالمی سطح پر ایک مستند ورثے کی
حیثیت اور قبولیت ملی ہے۔
میں نے پڑھا ہے کہ دنیا کی بہت ساری یونیورسٹیوں اور
اسکالروں میں کیسر کے رزمیہ (Epic) کے
تئیں بڑی دلچسپی ہے۔
دنیا کی بہت ساری زبانوں میں داستان کا جزوی یا کسی حد
تک کلی طور پر ترجمہ ہوا ہے۔ ان میں انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، روسی، چینی، کوریائی،
تبتی، بھوٹانی، منگولیائی اور اردو شامل ہیں۔ صرف انگریزی میں پچاس سے زیادہ کتابیں
کیسر پر لکھی گئی ہیں۔ داستان کیسر نثری اور شعری ادب پر مشتمل ہے اور اس کے گیت
دنیا کا طویل ترین شعری سرمایہ ہیں۔ یہ دس لاکھ اشعار پر مبنی ہے، جو دنیا کی
مشہور و معروف داستانوں جیسے اِلیڈ، اوڈیسی، مہابھارت، رامائن اور پامایان کے
مجموعی اشعار سے زیادہ ہیں۔
ایک تبتی اسکالر رینچین کا بیان ہے کہ ’’شاہ کیسر کا ایک
انسائیکلوپیڈیا ہے جس کے موضوعات سماجی ترقی، تاریخ، مذہبی عقائد، لوک ادب، لسانیات
اور جنگو ںکے تذکرو ںپر مشتمل ہیں جو مختلف قبائل کی مشترکہ میراث ہیں۔‘‘
اصل داستان بڑی ضخیم ہے چینی ریسرچ کے مطابق اس کی ایک
سو بیس جلدیں ہیں۔
لداخ اور بلتستان میں مقامی ادیبوں نے داستان کیسر پر
انگریزی میں تین اور اردو میں دو کتابیں تصنیف اور تالیف کی ہیں جو بارہ سے اٹھارہ
ابواب پر مشتمل ہیں۔
داستان کیسر کی ہر کتاب میں چند واقعات کا تذکرہ ہے جیسے
کیسر کے دیش لینگ کا ارتقا، جہاں آگے جاکر کیسر حکومت کرتا ہے۔ سورماؤں کا جنم،
کیسر کی دنیا میں آمد، کیسر کا دوبارہ جنم، کیسر کی شادی، دُمت یول، میں کیسر کی
مہم، کیسر کی بیوی کا اغوا، اغوا کرنے والے بادشاہ کا قتل اور بیوی کو آزاد کرنا
شامل ہیں۔ تبت اور لداخ کے سماج اور دیومالائی حکایتوں میں ’دوت‘ کا اکثر ذکر کیا
ہے۔ دوت سے ایک ایسی مخلوق کی تصویر ذہن میںا ٓتی ہے جس میں بدی کوٹ کوٹ کر بھری
ہے اور ایذا رسانی اس کا شیوہ ہے۔ انسانو ںکی نظر میں دوت ایک ملعون اور منحوس
مخلوق ہے۔ اردو میں اس کے لیے مردود اور ہندی میں شاید راکھشس متبادل لفظ ہوسکتا
ہے۔ یول سے مراد دیش ہے۔
چین کی نئی حکومت کے قیام کے بعد سرکاری سطح پر کیسر پر
بڑے پیمانے پر تحقیقی کام ہوا ہے اور ریسرچ، طباعت، صدا بندی وغیرہ پر خطیر رقم
خرچ کی جارہی ہے۔
لداخ اور بلتستان میں معاشرے اور ثقافت پر کیسر کی گہری
چھاپ ہے۔ کیسر کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ پہاڑوں، چٹانوں وغیرہ کی اشکال کو کیسر
کے تخت، تیر کمان، چولھا، نقش پا اور ہاتھ، کیسر کے گھوڑے کے سُم وغیرہ سے منسوب کیے
جاتے ہیں۔ کیسر کی بیوی لہاموبرانگمو کو مستثنیٰ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس سے وابستہ
کئی نشانیاں ہیں۔
لداخ اور تبت میں کیسر کی زندگی اور کارناموں کو ڈرامایا
جاتا ہے۔ ہوٹل اور ثقافتی ادارو ںکے نام کیسر پر رکھے گئے ہیں۔
لداخ، بلتستان اور تبت میں کیسر کے شوقیہ یا پیشہ ور
داستان گو گزرے ہیں۔ ماضی قریب تک لوگوں کو داستان سننے کا بڑا شوق تھا۔ بلتستان
نے عبدلرحمن مستری، کیسر کے معروف ترین داستان گو پیدا کیا ہے۔ بلتی اسکالر سید
محمد عباس کاظمی نے انہی کی زبانی کیسر کی داستان سن کر انگریزی میں کیسر پر اپنی
کتاب Kesar, the Son of God
لکھی اور اردو میں اس کا ترجمہ شائع کیا۔ روندو کے محمد حسین اور سکردو کے غلام حسین
منجھے ہوئے داستان گو ہیں۔ اسی طرح لداخ کے چیکتن گاؤں کے کیسر کے داستان گو
عبدالرحیم اور رحمت اللہ کا آج بھی چرچا ہے جو اب دنیا میں نہیں ہیں۔ کوکشو کا
محمد علی جو ضم چھرنگ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اپنے زمانے کا پسندیدہ داستان
گو تھا۔ آج بھی کوکشو کا موسی ینگحور، اچی ناتھنگ کاٹشی ربگیس، چیکٹن کا اُبول
اور ہاکش کا جعفر توغچے بطور داستان گو چند اہم نام ہیں۔ 75 سال یا اس سے زیادہ
عمر والے یہ داستان گو چراغ سحری ہیں۔ سماج میں داستان گو کی قدر و منزلت تھی۔
Rara میں:
کاچو اسفندیار خان لکھتا ہے:
’’قدیم زمانے میں داستان گو کو دانش مند
سمجھا جاتا تھا۔ داستان میں عقل و دانش کے مقولے بھی دیے گئے ہیں۔ کیسر پر خان کی
انگریزی کتاب بڑی مقبول ہے۔
ماضی میں لوگوں کو داستان سننے کا بڑا شوق تھا۔ مسلم چیکتن
کے باشندے لیہہ کے بودھ گاؤں تمسگام خشک شلغم اور سبزیاں فروخت کرنے لاتے تھے۔
گاؤں والے ان سے کیسر کی داستان سنانے کی فرمائش کرتے تھے اور اس کے لیے معاوضہ دیتے
تھے۔ بعد میں کئی گھرانوں میں داستان گو کو مدعو کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں الاؤ
جلایا جاتا اور سامعین اس کے گرد بیٹھتے تھے۔
ایک یورپی محقق سون ہیڈین اپنی کتاب Trans
Himalaya میں لکھتا ہے۔ اس کے 1908 کی مہم تبت میں ایک
ملازم ٹنڈوپ گیا لچن داستان گو تھا۔ وہ ہر شام منزل پر پہنچنے پر مہم کے دوسرے
لداخی ملازموں کو داستان کیسر سناتا تھا۔ اس نے لیہہ سے یہ داستان شروع کی، جو تبت
کی راجدھانی لہاسہ تک جاری رہی۔ واپسی سفر میں لہاسہ سے لیہہ تک جاری رکھی، جہاں
داستان ختم ہوئی۔ اس زمانے میں لیہہ سے لہاسہ پیدل یا گھوڑے پر تین ماہ کا لمبا
سفر تھا۔
حال میں لداخ کے ایک معروف گلوکار موروپ نمگیل نے
داستان کیسر کی بتیس قسطیں یو ٹیوب پر پیش کیں جو لداخ میں پسند کی گئیں۔
تبت میں داستان کیسر کے متعدد شوقیہ اور پیشہ ور گویے ہیں۔
داستان کا بڑا حصہ منظوم ہے۔ ماضی قریب میں نامور ترین گویا دراق پا (1906-1985)
کے نام سے گزرا ہے۔ اس کو داستان کی 25 قسطیں زبانی یاد تھیں جن کو ضبطِ تحریر میں
لانے سے پندرہ ہزار صفحات بنے۔
تبت کے دورِ حاضر کا مشہور گویا سنگروپ مانا جاتا ہے۔
اس کے گائے ہوئے گیتوں کی صدابندی میں ڈھائی ہزار گھنٹے لگے۔
تبت میں عورت گلوکارہ کم ہیں۔ البتہ رزمیہ میں خواتین کیریکٹر
جیسے ماں، بیٹی، بیوی، چچی وغیرہ کا کردار عورتیں ادا کرتی ہیں۔
سید محمد عباس کاظمی نے اپنی کتاب میں ’بلتستان میں
داستان کیسر سننے کی روایت‘ کے عنوان سے
اپنے مضمون میں لکھا ہے ’’دیوتا کے فرزند کیسر کی داستان نے بلتستان کی سماجی زندگی
میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تفریح طبع کا ایک ذریعہ اور ..... پیغام رسانی کاایک
وسیلہ تھا۔ سماج میں ایک داستان گو کا بڑا احترام تھا۔ تبی گاؤں کا سرکردہ فرد یا
ایک امیر آدمی موسم سرما کی شروعات میں کیسر کے داستان گو اور ایک گلوکار کو اپنے
گھر پر داستان سنانے کے لیے مدعو کرتا تھا۔ گاؤں کے لوگ داستان سننے کے لیے اس کے
مکان پر جمع ہوتے اور الاؤ کی دھیمی آنچ اور روشنی میں اس کے گرد بیٹھ جاتے تھے۔
داستان گو کی حرکات اور سکنات اور داستان کی دلچسپی سامعین کو اپنے ساتھ بہا لے
جاتی اور داستان گو کو داددیتے اور اس کی عمر درازی کی دعائیں کرتے تھے۔
داستان کے بارہ ابواب ختم ہونے میں عام طو رپر دو سے تین
مہینے لگتے تھے۔ اس طرح سردیوں کے دو تین مہینے بڑے لطف اور شادمانی سے گزر جاتے
تھے۔‘‘
کیسر کون تھا؟ اس کو دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟ یہ سوال
اکثر پوچھا جاتا ہے۔ کیسر ’ستنگ لہایول‘ دیوتاؤں کے بالائی دیش سے تعلق رکھتا تھا
جس طرح خدا نے ہر قوم کو ہدایت دینے کے لیے دنیا میں پیغمبر بھیجے تھے۔ کیسر کے
داستان نگاروں کا دعویٰ ہے کہ کیسر کو دنیا میں ظالموں، دوت یا راکھشس (مردود)، رینپو
(جنوں)، ڈے، (شیطان خصلت مخلوق)، Monsters (عفریتوں)
وغیرہ سے نجات دلانے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے عالم دیوتا سے بھیجا گیا
تھا۔
دنیا میں کیسر کا دوبارہ جنم ہوا۔ کہاں اور کب ہوا؟ اس
پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس نوجنم کیسر نے دنیا میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
کیسر کی جائے پیدائش کے بارے میں مختلف اور متضاد روایات
ہیں۔ ایک مشہور روایت یہ ہے کہ کیسر کا جنم اور داستان کی تخلیق سنٹرل ایشیا میں
ہوئی۔ اس روایت کے مطابق کیسر کو آٹھویں یا
نویں صدی میں سنٹرل ایشیا کی ایک قلمرو کا حکمراں قرار دیا گیا ہے اور اس قلمرو کے
ایک قدیم سکے پر کیسر کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم تبتیوں کے لیے کیسر تبت کی ایک تاریخی ہستی ہے۔ جو
مغربی تبت کی ایک سلطنت کھم میں پیدا ہوا تھا اور ینگ میں حکومت کی جو تیرہویں اور
چودہویں صدیوں میں ترقی اور طاقت میں بام عروج پر پہنچی۔ ینگ مشرقی تبت میں یا
نگزے اوریالونگ دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔
اس کے برعکس چین اور تبت کے ماہرین کے لیے قابل قبول
جائے پیدائش AXU یا NGAXU ہے، جو چین کے صوبہ سیچوان کے علاقے ڈیگے میں واقع ہے جہاں کیسر
کے بارے میں قلمی نسخہ، لکڑی کے بلاک اور دستاویزات ہیں جو مستند سمجھی جاتی ہیں۔
منگولیا کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ کیسر منگولیا کا ایک بادشاہ تھا۔ بلتستان کے
بلتیوں کا کہنا ہے کہ کیسر بلتستان کی وادی روندو میں پیدا ہوا۔ ایک اور روایت کے
مطابق بلتستان کے ہرداس گاؤں کے نزدیک
پھون کاٹو نام کی ایک جگہ کیسر کی جنم بھومی ہے۔
لداخ کا شاہی خاندان اور لداخ کے علاقہ گیا کا قدیم
حکمراں گیاپاچو اپنے آپ کو کیسر کی اولاد بتاتے ہیں۔ Kesar
Ling Norbu Dadul کے مصنف موٹوتمگیل کا دعویٰ ہے کہ کیسر نے لداخ
میں لمبا سفر کیا تھا۔
ایک دفعہ جب کیسر کی حقیقت منظرعام پر آئی اور اس کا
دبدبہ اور شہرہ دور دور تک پھیلا۔ ہر خطے او رہر ملک میں اس کو اپنا منسوب کیا
جانے لگا اور اس کو اپنے ملک اور خطے کا سب سے بڑا ہیرو قرار دیا جانے لگا۔ داستان
نگاروں نے Super man
فوق البشر کے طور پر پیش کیا اور محیرالعقول اور مافوق الفطرت (Super
natural) کارنامے اس کی ذات سے وابستہ اور منسوب کیے۔
کیسر کے دوبارہ جنم کے سنہ و سال اور داستان کی تشکیل
کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ چند مصنفوں کے مطابق کیسر کا رزمیہ ساتویں صدی
سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کہ رزمیہ کے گیتوں کی نسبت اور حوالے سے یہ آٹھویں صدی میں
معرضِ وجود میں آیا۔
سید محمد عباس کاظمی کے مطابق کیسر کی داستان حضرت عیسیٰ
کے ایک ہزار سالہ دور میں لکھی گئی۔ بعد میں اس میں متعدد واقعات اور کہانیوں کا
اضافہ ہوا۔
تبت میں رزمیہ نے بارہویں صدی میں مقبولیت حاصل کی۔
وجہ تسمیہ: بچپن میں وقتی طور پر کیسر کے کئی نام رکھے
گئے۔ تاہم اس کا اصلی نام کیسر تھا۔ انگریزی کتابوں میں ک کی جگہ گ استعمال کیا ہے
اور کیسر لکھا ہے۔ تبتی لغات میں کیسر کا لفظی معنی Reincarnated
یعنی دوبارہ جنم یا تجسیم نو بتایا گیا ہے۔ ایک بولی میں کیسر کا
مطلب شہر بتایا ہے۔ کاظمی کے مطابق یہ روما کے کیسر یا فارسی تاریخ کے کندی اور
عربی کے قیصر کا دوسرا روپ لگتا ہے۔ قیصر کا معنی بھی بادشاہ یا شہنشاہ ہے اور ترکی
زبان میں بھی یہ مستعمل ہے۔
ترکی حکمراں کو جس نے اس کی بیوی کا اغوا کیا تھا، کراری
شکست دینے کے بعد کیسرنے حملوں اور لڑائیوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا۔ تبت کی
اٹھارہ چھوٹی قلمروؤں اور بیرونِ تبت کی چار سلطنتوں کو مغلوب کیا۔ ان کے مال و
دولت کو لوٹا اور ینگ کے لوگوں میں تقسیم کیا۔ ایک نئی تصنیف Epic
of King Gesar- New World Enceclopedia میں کیسر کی چند فوجی مہمات اور فتوحات کا
تذکرہ ہے جن میں وہ ہمیشہ غالب آتا ہے۔ بلتی اور لداخی داستانوں میں ان کا ذکر نہیں
ہے۔
کیسر کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں متضاد نظریے ہیں۔
تبت کے بہت سارے لوگو ںکے لیے وہ ایک عظیم سورما اور مقبول ہیرو ہے۔ داستان میں کیسر
کو عموماً بودھ کیریکٹر کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن کیسر کے عمل سے عیاں ہے کہ وہ بودھ فرقے کا پیرو
کار نہیں تھا۔ کیسر نے اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے جانوروں کی قربانیاں دی ہیں۔
اس کا ذکر ’کیسر— دیوتا کا بیٹا‘ کے گیارہویں باب میں ہے جب وہ میلونگ گیالمو کی
تلاش میں نکلتا ہے۔
اسی طرح The Story of Gylam Kesarمیں
لکھا ہے:
’’ہوردیش میں کیسر کے سامنے جب اس کے تئیں
سورما احترام سے سرنگوں ہوتے ہیں تو کیسر ان سے کہتا ہے ’’میرے سامنے نہیں جھکو۔ میں
نے لوہار کا کھانا کھایا ہے۔ لوہار کے کپڑے پہنے ہیں۔ لوہار کا کام کیا ہے اور
لوہار کی عورت سے شادی کی ہے۔‘‘
کیسر نے چھوت چھات کی وجہ سے تینوں سورماؤں کو لوہار
کے گھر کے بجائے ہمسایے کے مکان میں دعوت دی اور لوہار کے مکان میں پہنے ہوئے اپنے
لباس کو تطہیر کرنے کے لیے لوبان کی دھونی دی۔
بودھ مت میں قربانی اور ذات پات کی اجازت نہیں ہے۔
سید عباس کاظمی نے ایک اہم نکتہ یہ ابھارا ہے کہ
بلتستان کی داستان کیسر کلی طور پر ایک غیرمذہبی رزمیہ ہے۔ اس میں اسلام کی کوئی
روایت نہیں ہے اور نہ بودھ مت سے تعلق کی کوئی بات ہے۔ البتہ اس میں شمائزم کی بہت
ساری روایات ہیں۔ اس کے برعکس تبت، چین، منگولیا اور ہندوستان میں اسے ایک بودھ
رزمیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
داستان پڑھتے ہوئے عمومی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ
ہماری اس دنیا کے گوشت و پوست کا انسان ہے۔ اس کی سوچ، عمل اور طور طریقے ہماری
دھرتی کے جیتے جاگتے انسانوں سے میل کھاتے ہیں۔ کیسر میں خوبیاں اور خامیاں دونوں
ہیں۔ اپنے سے طاقتور سے گھبرا بھی جاتا ہے۔
اسی ضمن میں رویل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے ممبر ایس
کے چٹرجی رقم طراز ہے:
’’تمام رزمیہ داستانوں ا ور رومانی حکایتوں میں
مافوق الفطرت (Supernatural) باتوں
کی کثرت ہوتی ہے۔ تاہم کیسر کے رزمیہ میں انسانی دلچسپی کی بہت ساری باتیں ہیں اور
یہ (داستان) حتمی طور پر انسانی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جہاں کیسر پروان چڑھا ہے۔
اس لیے داستان میں انسانی مصائب، کامرانیوں اور انسانی جذبات کے تذکرو ںکی فراوانی
ہے۔
کیسر کی فطرت میں تضاد ہے۔ جہاں وہ خوبیوں اور محاسن کا
مجسمہ نظر آتا ہے، وہاں اس کی شخصیت میں بڑی کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔
کیسر کی داستان سے قاری کو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے
مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریق کار اختیار کرتا ہے۔ جیسے کہا
جاتا ہے کہ جنگ اور عشق میں سب کچھ جائز ہے۔ اپنے محسنوں کو ہلاک کرتا ہے۔
اپنی محبوبہ لہامووانگمو کو حاصل کرنے کے لیے ایک کتیا
کو بھوکا اور پیاسا رکھتا ہے اور اتنی سخت ایذائیں پہنچاتا ہے کہ کتیا کو قوت گویائی
ملتی ہے اور کیسر کے خلاف شکایت کرتی ہے۔ (ماخوذ: کیسر دیوتا کا بیٹا)
ضرورت پڑنے پر وہ جھوٹ بولتا ہے اور دھوکا دیتا ہے۔ ان
تمام عوامل کے باوجود ہر ایک کو کیسر پسند ہے۔ ہر ایک کی مدد کرنے کے لیے وہ ہر
وقت آمادہ ہوتا ہے۔ تن تنہا بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے لیے نکلتا ہے۔ مشکل
سے مشکل مہم کی ذمے داری اپنے سر لیتا ہے۔ مظلوموں اور کمزوروں کی مدد کرتا ہے۔ اس
نے کئی دفعہ قصورواروں اور اپنے دشمنوں کو دریادلی سے معاف کیا۔ مجموعی طور پر اس
کی شخصیت میں بڑی کشش تھی۔
داستان کیسر کے تخلیق کاروں نے محیرالعقول کردار تخلیق
کیے ہیں اور حیرت انگیز واقعات پیش کیے ہیں۔ یہی داستان کی غیرمعمولی مقبولیت اور
پسندیدگی کا راز ہے۔ سائنس فکشن اور فلموں میں آج کل جو تصویریں ملتی ہیں۔ کیسر
کے داستان گویوں اور قلم کاروں نے آج سے ایک ہزار سال پہلے ایسے دلچسپ اور انوکھے
نقشے پیش کیے ہیں۔ داستان کے کردار جدید سائنس اور جاسوسی فکشن کے کردار لگتے ہیں۔
داستان میں ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کی روداد پڑھ
کرایسا لگتا ہے کہ انسانی کائنات کے ایک انجان سیارے سے دوسرے سیارے کا سفر کررہا
ہے۔ اَن گنت صحراؤں، پہاڑوں اور سمندروں کے اوپر سے اڑ کر منزلِ مقصود تک پہنچتا
ہے۔ کیسر اپنے اڑن گھوڑے یا کبھی کسی پربندے پر سوار ہوکر اپنی مہم پر روانہ ہوتا
تھا۔
ہور (ترکی) دیش میں جاتے ہوئے کیسر کو ایک تنگ کھائی میں
سے گزرنا پڑا۔ کھائی کی گزرگاہ پر دو بڑے پتھر تیزی سے مسلسل اوپر نیچے ہوتے رہتے
تھے۔ اگر تیزی سے نکل نہ پائے تو ان دو
پتھرو ںکے درمیان مسافر کچل جاتا تھا۔ کیسر اپنے تیز رو گھوڑے پر کھائی کے دو
پتھروں کے درمیان سے بجلی کی سی تیزی سے نکل گیا۔
پھر ایک چٹان پر پہنچا، جس پر ایک دروازہ ہر لمحہ رات
دن آنکھ کی جھپک میں کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ کیسر کو ترکی پہنچنے کے لیے اس
دروازے سے گزرنا ناگزیر تھا۔ کیسر اپنی محافظہ دیوی کی مدد سے یہاں سے نکلنے میں
کامیاب ہوا۔
دراصل کیسر کی کامیابی کے پیچھے اس کی رشتے دار محافظ دیوی
ناخ کرومن لہامو اور دیوی دیوتاؤں کا ہاتھ تھا۔ خاص کر کرومن لہامو مصیبت اور
مشکل کی ہر گھڑی میں مختلف روپ میں کیسر کی رہبری اور رہنمائی کے لیے جائے واقعہ
پر بروقت پہنچ جاتی تھی۔ عالم دیوتا سے انسانوں
کی دنیا میں آتے وقت کیسر نے اپنے والد سے کرمن لہامو کو اس کے ساتھ جانے
کے لیے درخواست کی تھی جو اس کے والد نے قبول کی۔ اسی طرح دوسرے دیوی دیوتا بھی کیسر
کی مدد کرتے تھے۔ وہ ان کی مدد سے سورج کو تیز چمکا سکتا تھا اور موسلادھار بارش
برسا سکتا تھا۔
کیسر کے سورما کے پاس معجزاتی اور جادوئی تیر تھا جو
تمام رکاوٹوں کو پھاندتا اور پھلانگتا ہوا اپنے ہدف پر پیوست ہوتا تھا۔ اڑنے والے
گھوڑوں پر سوار ہوکر سورما دشمن سے نبرد آزا ہوتے تھے۔ کیسر کا اڑن گھوڑا اس کو
لے کر انتہائی سرعت سے دنیا کے کسی کونے میں پرواز کرتا تھا۔
داستانِ کیسر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کردار اپنے آپ کو
مختلف رنگ و روپ جیسے پرندہ، درندہ، چرندہ وغیرہ میں بدل سکتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر
کیسر اپنے گھوڑے کو ایک پن میں تبدیل کرکے اپنے کلر پر چھپا کر رکھتا تھا اور جب
چاہتا، اس پِن کو گھوڑے کے روپ میں لاتا تھا۔
داستان پنچ تنتر اور دوسری حکایتو ںکے مشابہ ہے۔ جہاں
پرندے، چرندے اور درندے جیسے کوا، یاک، گھوڑا،
بچھرا اور بھیڑیا انسانوں سے باتیں کرتے ہیں۔ سارس پیام رسانی کا فریضہ
نبھاتا ہے۔
داستان کا ایک مزاحیہ کردار آگو ٹو تھونگ قارئین کے لیے
ہنسی مذاق اور تفریح فراہم کرتا ہے۔ یہ بذات خود بڑا بزدل ہوتا ہے لیکن بزعم خود
اپنے آپ کو سورما سمجھتا ہے۔ اپنے آپ کو کیسر کی جگہ لینگ کا حکمراں تصور کرتا
ہے، خواب دیکھتا ہے اور کیسر کی غیرموجودگی میں اس کی حسین و جمیل بیوی سے محبت کی
پینگیں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں اردو ناولوں اور حکایتو ںکے مقبول کردار
تیس مارخان، خوجی، لال بھجکڑ اور شیخ چلی کا علم و گمان ہوتا ہے۔ ان کی طرح
ٹوگھونگ ڈینگیں مارتا ہے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرتا ہے۔
داستان میں بہت سے نسوانی کیریکٹر بھی ہیں۔ ایک نسوانی
سورما اماں پلموں مردم خور ہے۔ ایک آٹھ سالہ بچہ دپلون ایک لڑائی میں دشمن کے
ہزاروں جنگجوؤں پر بھاری ہوتا ہے۔
مختلف ملکوں اور علاقائی داستان کے کرداروں کے ناموں میں
قدرے فرق ہے یا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یا امتدادِ زمانہ سے بگڑے لگتے ہیں۔ البتہ
کیسر واحد نام ہے، جو ہر ملک اور خطے کی داستان میں مروج ہے۔
داستان کیسر کا مطالعہ اور موازنہ کرتے ہوئے مجھے ادراک
ہوا کہ داستان کی جزئیات حقیقت نگاری کاایک نادر نمونہ ہے۔ دیومالائی شخصیت کیسر کی
خوبیوں اور خامیوں دونوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہر کردار کو عمومی طور برا بھلا
دونوں دکھایا گیا ہے۔ کوئی کلی طور پر فرشتہ یا شیطان نہیں ہے بلکہ دونوں کا
امتزاج ہے۔ ایک کردار اچھا ہے تو آگے وہ برا بنتا ہے یا برا کردار اچھا بن سکتا
ہے۔
کیسر اور اس کی بیوی لہامو برانگمو میں گہری محبت ہوتی
ہے۔ جب کیسر اپنی محافظ دیوی کے حکم پر ایک ’رینپو‘ (جِن) کو مارنے کی مہم کے لیے
نکلا، تو لہامو برانگمو نے کہا ’’میں کچھ فاصلہ آپ کے ساتھ چلوں گی اور آپ کو
الوداع کروں گی۔‘‘ چنانچہ دونوں کچھ فاصلہ ساتھ چلے۔ جب وہ جدا ہوئے تو کیسر بولا
’’میں تمھیں اکیلا گھر جانے نہیں دو ںگا‘‘ اور لہامو کے ساتھ محل گیا۔ دوبارہ سفر
پر نکلا۔ لہامو برانگمو دوبارہ چھوڑنے نکلی اور کچھ دوری پر جاکر الوداع کہا۔ کیسر
دوبارہ لہامو کو چھوڑنے محل آیا۔ لہامو پھر الوداع کہنے ساتھ نکلی۔ دونوںکی محبت
کا یہ عالم تھا کہ میاں بیوی سات روز یہی ناٹک کرتے رہے۔ ایسے میں محافظہ دیوی
آدھمکی اور کیسر کو ٹوکا۔
لداخ کی داستان میں کیسر کی بیوی کا نام ڈوگومادیا ہے۔
کیسر کی بیوی لہاموبرانگمویا ڈوگوما کے فوت ہونے کے بعد
اس نے دوبارہ جنم لیا۔ جب وہ ایک نوخیز خوبصورت دوشیزہ تھی تو کیسر نے اپنا حوالہ
دے کر اس کا ہاتھ مانگا۔ ان کی شادی ہوئی۔ بلتی داستان کے مطابق کیسر اور اس کی بیوی
بلتستان کے ہمسایہ قراقرم کے گلیشروں کے مرکز میں ہیں۔
مہاتما بدھ نے ڈھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے کہا
تھا ’’لوگ بچوں کی طرح ہیں اور کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں‘‘
رایل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے جنرل سکریٹری بی ایس
گوہا رقم طراز ہیں ’’ہندوستان میں رامائن کی جو
افادیت ہے۔ سنٹرل ایشیا میں داستان کیسر کی یہی اہمیت ہے۔‘‘
سوسائٹی کے ایک اور رکن ایس کے چٹرجی نے کیسر کے رزمیہ
کے بارے میں لکھا ہے ’’ہندوستان میں رام کی کہانی (رامائن) اور ارجن اور پانڈوؤں
(مہابھارت) کی طرح لداخ یا مغربی تبت کی ایک مقبول حکایت کا Legend بادشاہ کیسر ہے۔ پروفیسر Sylvain Levi نے کیسر کی حکایت کو سنٹرل ایشیا کا Iliad کہا ہے۔ ہمیں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ یہ سنٹرل ایشیا کی Odyssey بھی ہے۔ یہ بلاشبہ تبت کے لوگوں کے لیے رامائن اور مہابھارت دونوں
ہے۔ منگولوں اور منچوؤں نے کیسر کو اپنا قومی ہیرو بنایا ہے۔‘‘
داستان سے متعلق سید محمد عباس کاظمی کے تاثرات کا میں یہاں
حوالہ دیتا ہوں، جو انھوں نے اپنی کتاب Kesar- The son of
Godکے پیش لفظ میں دیے ہیں:
’’کیسر کا رزمیہ سمندر کی تہہ میں چھپا ہوا ایک
خزانہ ہے۔ جب تک اس کو سمندر کی تہہ سے نکال کر منظرِ عام پر نہ لایا جائے اور اس
کے مداحو ںکے سامنے نہ رکھا جائے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
Abdul Ghani Shaikh
'Yasmeen' Fort
Road
Leeh- 194101 (Laddakh)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں