20/8/24

پریم چند کے ناولوں میں بین التہذیبی کشمکش، مضمون نگار: محمد نسیم

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن کو سمت و رفتاردینے میں پریم چند کا نام سب سے اہم ہے۔ویسے تو انھوں نے تراجم، صحافت،تنقید اور ڈراما جیسی اصناف میں بھی اپنے ادبی نقوش چھوڑے ہیں لیکن ان کی شہرت دوام کا باعث ناول اور افسانے ہی قرار پائے جو ہماری ادبی تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔پریم چندکا دور سیاسی اعتبار سے انتشار کا دور تھا،ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی لہر پیدا ہو چکی تھی، مہاتما گاندھی کے زیر قیاد ت پورے ملک میں عوام کی ذہن سازی کی جا رہی تھی اور ہندوستان کی آزادی کے لیے فضا تیار کی جا رہی تھی۔ نمک قانون،سول نافرمانی اور ترک موالات جیسی تحریکیں چلائی جا چکی تھیں۔ایسے میںپریم چندبھی مہاتما گاندھی سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔ انھوںنے قلم کے ذریعے آزادی کی لڑائی کو تقویت دی۔ان کا خیال تھا کہ ایک جابرسامراج کو ختم کر نے کے لیے ضروری ہے کہ ہر گائوں سے اس کے خلاف آواز بلند ہو،ہر طبقے اور سماج کے لوگ اس میں شامل ہوں۔مدارس کے سب انسپکٹر رہتے ہوئے انھیں گائوںکے خوب دورے کرنے پڑے۔اسی لیے پریم چند کی تحریروں میں گائوں اور مزدور طبقے کی آواز سنائی دیتی ہے۔وہ اپنی تحریروں سے کسانوں میں وہ بیداری لانا چاہتے ہیں جو خود ہی ایک منظم طاقت بن کر ظالم حکمرانوںاور زمینداروں کے خلاف عَلم بغاوت بلند کر دے۔ ’ میدان عمل‘ ایک ایسا ہی ناول ہے۔جس کے تمام کردار عمل کے میدان میں اتر آتے ہیں اور سامراجی حکومت کے خلاف جد و جہد کرتے ہیں۔یہ ناول 1935 میں مکتبہ جامعہ دہلی سے شائع ہوا اور ہندی زبان میں ’کرم بھومی‘ کے نام سے سرسوتی پر یس بنارس سے 1934 میں شائع ہوا۔

سنہ اشا عت سے ہی ظاہر ہے کہ یہ ناول اس وقت لکھا گیاجب آزادی کے لیے لوگوں میںایک شعور بیدار کیا جا رہا تھا۔اسی لیے پریم چند نے شعوری طور پر ایسے کردارتخلیق کیے ہیں جو ذاتی آسائش اور مفاد کو ترک کرکے وطن کے لیے خود کو وقف کردے۔چونکہ آزادی وطن کے لیے ضروری تھا کہ اعلیٰ،اوسط اور نچلے طبقے سبھی ایک ساتھ آکرانگریزوں کے سامنے سینہ سپر ہوں۔لہٰذا پریم چند نے ہر طبقے کے نمائندوں کو اس میں جگہ دی۔جن میں سمر کانت، امر کانت،ڈاکٹر شانتی کمار،سلیم،منی،حافظ حلیم اور پٹھانی اہم کردار ہیںجو اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں۔پریم چند کو یہ احساس بھی شدت سے تھا کہ ملک کی آزادی کے لیے لازمی ہے کہ ہندو اور مسلم ایک ساتھ مل کر محبت اور یگانگت کے ساتھ رہیں۔لہٰذ ا وہ مذہبی تفریق کو اخوت میں بدلنے کے لیے امر کانت کوسلیم کے گھر ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھلاتے ہیں۔سمر کانت جس کی زندگی کا مقصد صرف دولت اکٹھا کرنا ہے۔اس عمل میں وہ سود خوری اور دیگر غیراخلاقی ذرائع کو بھی روا رکھتا ہے لیکن اس کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پٹھانی جیسی لاچار،بیوہ اور ضعیف عورت کی کفالت بھی کرتا ہے۔

اگرچہ اس ناول کا موضوع لوگوں کا ظلم کے خلاف میدان عمل میں آجانا ہے۔تاہم تعلیم کی ضرورت،طبقاتی کشمکش اور تہذیبی تصادم کو بھی دکھا یا گیا ہے۔لالہ سمر کانت کی اکلوتی بیٹی ’نینا ‘ایک سلیقہ شعار اور ہندوستانی تہذیب کی پروردہ لڑکی ہے۔اس کی شادی منی رام سے ہوتی ہے۔منی رام کے والد دھنی رام ایک متمول اور کاروباری آدمی ہیں۔منی رام بھی اپنے والد کی طرح غریبوں کی حق تلفی کرتا ہے،انگریزوں کا خیر خواہ ہے۔وہ انگریزوں کے ساتھ مل کر اور اپنے باپ کے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے دولت و ثروت اکٹھا کرتا ہے۔نینا جیسی گھریلو قسم کی لڑکی سے شادی کرکے خوش نہیں ہوتا ہے۔ تجارتی فائدے کے پیس نظر وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بھی انگریز لیڈیوں کی طرح ہو جو اس کے تجارتی معاملات کو طے کرنے میں اس کی معاون ہو۔وہ ایسی بیوی چاہتا ہے جو انگریزوں کو اپنے حسن کا گرویدہ بنا لے تاکہ بڑی بڑی فیکٹریوں کے قیام اور تجارتی کانٹریکٹ بآسانی مل سکیں۔سکھدا  اپنی نند،نینا سے ملنے اس کے سسرال جاتی ہے۔اتفاق سے منی رام گھرپر ہی ہوتا ہے۔سکھدا سے اس کی جو گفتگو ہوتی ہے وہ تہذیبی تصادم کا مظہر ہے۔اسی گفتگو کے کچھ حصے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:

’’ منی رام نے چیں بہ جبیں ہوکر کہا’’ آپ کاروبار کے ان مسئلوں کو نہیں سمجھ سکتیں۔یہاں بڑے بڑے ملوں کے ایجنٹ آتے ہیں۔اگر میری بیوی ان کی خاطر و مدارات کر سکتی تو ان کا معاملات پر کتنا خوشگوار اثر پڑتا۔یہ کام توکچھ عورت ہی کر سکتی ہے۔

سکھدا نے اسی منافرت سے ٹوکا۔میں تو کبھی نہ کروں، چاہے سارا کاروبار خاک میں مل جائے۔

شادی کا منشا جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ عور ت ہر کام میں مردکی معاون ہو۔انگریزوں کے یہاں عورتوں کے ذریعے بڑے بڑے تجارتی مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔‘‘1

یہاں منی رام ایک مطلب پرست اور مغربیت سے مغلوب طبقے کی آواز بن کر سامنے آتا ہے جبکہ خود منی رام کا گھریلو ماحول مشرقی ہے۔اسی لیے شوہر کے علاوہ گھر کے سبھی افراد نینا کو نہ صر ف پسند کرتے ہیںبلکہ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔شوہر خود ہی کہتا ہے کہ۔

’’ہمیں کیا معلوم تھا کہ ایسے تعلیم یافتہ خاندان میں لڑکیاں ایسی پھوہڑ ہوں گی۔اماں،میری بہنیںاور محلے کی عورتیںتو نئی بہو کو دیوی سمجھ رہی ہیں۔وہ برت رکھتی ہے۔پوجا کرتی ہے۔سندور کا ٹیکہ لگاتی ہے۔ساس کا پائوں چھوتی ہے۔نندوں کے سر میں تیل ڈالتی ہے۔لیکن مجھے تو ایسی عورت چاہیے جو میرے کار و بار کو بڑھانے میں میری مدد کر سکے۔‘‘2

اقتباس میں نئی بہو کے جو اوصاف بتائے گئے ہیں وہ خالص ہندوستانی تہذیب کے اوصاف ہیںجنھںشوہر غیرمفیدتصور کر تا ہے۔وہ ایسی مغربی طرز کی بیوی چاہ رہا ہے جو جسم کی نمائش کرکے اس کے کاروبار کو بڑھاوا دے سکے۔اس طرح کے خیالات پیدا ہونے کی ایک اہم وجہ مادیت پرستی سے مغلوبیت ہے۔دوسری وجہ اپنی تہذیب پر انگریزی تہذیب کی برتری تسلیم کر لینا ہے۔موجودہ نئی نسل کا المیہ یہی ہے کہ ہم اپنے تہذیبی ورثے کی روحانیت سے واقف نہیں ہونا چاہتے ہیں۔اسے ایک قصئہ پارینہ سمجھ کر  نہ صرف بھول جانا چاہتے ہیں بلکہ اسے اپنی ترقی میں سد راہ بھی تصور کرتے ہیں۔

میدان عمل ‘ میں مرکزیت اس فکر کو دی گئی ہے کہ ہمیں اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے قربانیاں دینی ہوں گی۔جدو جہد اور عملی طور پر حصہ لیے بغیر ظلم سے چھٹکارا نہیں حاصل کیاجا سکتا۔اس مرکزی خیال کی تعمیر و تشکیل میں شہرت، نام و نمود،انسانی ہمدردی،تذلیل و تحقیراور جنسی کشش جیسی انسانی فطرت کو بھی دکھایا گیا ہے۔پریم چند کا تخلیقی کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مطمح نظر تک پہنچنے میں جن واقعات کو ذریعہ بنایا ہے اس میں انھوں نے تہذیبی پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔وہ سماج میں پنپ رہے غیر سماجی رویے کو ماضی کے صالح اقدار سے موازنہ کرتے ہیںاور قاری کی توجہ اس کے منفی اثرات کی طرف مبذول کراتے ہیں۔رالف فاکس نے اپنی کتاب ’ ناول اور عوام ‘میںکسی بھی تخلیق کار کے لیے اچھی تجویز پیش کی ہے:

’’ایک تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماضی سے وابستہ رہے۔ماضی سے الگ ہٹ کراپنے کرداروں کو دوامیت نہیں دے سکتا ہے۔شاعری ہو یا فکشن وہ حال کی تبدیلی کو پیش کرتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنے ماضی کی وراثت سے بالکلیہ دستبردارنہیں ہو سکتا۔حال میں تبدیلی کی خواہش ہی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی ثقافتی روایات سے واقف ہے۔‘‘3

منی رام کا بیوی کے تئیں جو رویہ ہے اسے ہم منفی تبھی کہہ سکتے ہیں جب ماضی کی تہذیبی روایات ہمارے سامنے ہوں۔اگر تہذیبی روایات سے ہم واقف نہ ہوں تو منی رام کوئی لائق تذکرہ کردار ہوگا ہی نہیںاور نہ نینا سے قاری کو کوئی دلچسپی پیدا ہوسکے گی۔قاری خود کو نینا کے قریب اس لیے محسوس کرتا ہے کہ اس کی شخصیت ہندوستانی تہذیب میں رچی ہوئی ہے۔شوہر کے مظالم کے باوجود وہ اس کا برا نہیں چاہتی ہے۔سکھدا محنت کش طبقات کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ لالہ دھنی رام (نینا کے سسر)کے خلاف اجتماعی احتجاج کریں۔نینا کو یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اس احتجاج میں کچھ برادریوں کے مکھیا نے حصہ لینے سے انکارکردیا ہے۔ نینا کی بھابھی سکھدا دھنی رام کے خلاف بغاوت اس لیے نہیں کرتی ہے کہ ان کے بیٹے منی رام نے اس کے ساتھ بد کلامی کی ہے بلکہ وہ عوامی احتجاج اس لیے چاہتی ہے تاکہ عوام کو انصاف مل سکے۔ میونسپلٹی کی جس زمین پر ڈاکٹر شانتی کماراور سکھدا بے گھر عوام کے لیے گھر بنانا چاہتے ہیں اس زمین کو دھنی رام نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا غلط استعمال کرکے ہتھیا لیا ہے۔ نینا بھی ایک انقلابی ذہن کی مالک ہے،مزدور اور محنت کش طبقے کی ہمدرد ہے۔وہ یہ جانتی ہے کہ اس کے سسرال والے مزدوروں کی حق تلفی کر رہے ہیں۔اس کے باوجود بھی وہ سسرال کے وقار کو بنائے رکھنا چاہتی ہے۔وہ نہیں چاہتی کہ اس کے گھر والے سماج میں ذلیل کیے جائیںلیکن منی رام اپنی بیوی کی قدر نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ تو سکھدا سے یہاں تک کہتا ہے کہ :

’’مجھے پوجا پاٹ والی عورت کی ضرورت نہ تھی۔ اونچے درجے کے آدمیوں سے ہمارا ربط ضبط ہے۔ایسے پرانے خیال کی عورتوں کو تو ہم ان کے رو برو لا ہی نہیں سکتے۔جب میں اپنے دوستوں کی عورتوں سے ملتا ہوں تو وہ بھی چاہتے ہیں کہ میری عورت سے ملیں۔مجھے مجبور ہوکر دوسری شادی کرنی پڑے گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس شادی کو شادی ہی نہیں سمجھتا۔‘‘4

جب  میںاپنے دوستوں کی عورتوں سے ملتا ہوں تو وہ بھی چاہتے ہیں کہ میری عورت سے ملیں‘ ظاہر ہے یہ خود غر ضانہ فکر  ہندوستانی تہذیب کے منافی ہے۔نینا اس تقاضے کو پورا نہیں کر پاتی ہے کیونکہ اس کی تہذیب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔اسی تہذیبی تصادم کا نتیجہ تھا کہ نینا کی ازدواجی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکی۔

پریم چندکا سب سے کامیاب ناول ’گئودان‘ بنیادی طور پر زمیندار،ساہوکاراور سرمایہ داری کے استحصالی نظام کو پیش کرتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ ضمنی کردار مس مالتی کے ذریعے بین التہذیبی کشمکش پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔مس مالتی لندن سے جدید تعلیم حاصل کرچکی ہے  اور پیشے سے ڈاکٹر ہے۔ اس پر مغربی تہذیب کی چھاپ صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ دھنیا، پنیا اور کامنی سے بالکل مختلف ہے۔ اپنی عصمت و آبرو کے تحفظ سے متعلق کسی خطرے سے بے نیازہو کر لوگوں کے ساتھ شراب پیتی اور شکارپر بھی جاتی ہے۔پروفیسرمہتا،مسٹر کھنا،شیام بہاری،اگرپال سنگھ اورپنڈت اونکارجیسے اعلیٰ طبقے کے لوگ اس کے مصاحبین میں شامل ہیں۔

مرزا خورشید،پروفیسر مہتااور رائے صاحب ایک بار مس مالتی سے شرط لگاتے ہیں کہ اگر پنڈت اونکار ناتھ کو شراب پلانے میں کامیاب ہوجاتی ہو تو تمھیں سو روپئے بطور انعام دیے جائیں گے۔مالتی اس شرط کو قبول کر لیتی ہے اور ایک منصوبہ بند طریقے سے پنڈت صاحب کے پاس پہنچتی ہے۔پنڈت اونکار ناتھ ’ بجلی ‘ اخبار کے مدیر ہیں اور خود کو بڑا مصلح قوم ظاہر کرتے ہیں،سماج کے سامنے خود کو ایک معززشہر ی کے طورپر پیش کرتے ہیں،مذہبی امور کے پاسدار ہیں،جو شراب پینا تو در کنار شراب پینے والے کو بھی اچھا آدمی نہیں سمجھتے ہیں۔مس مالتی انھیں ورغلاتے ہوئے ’گرام سدھار سبھا‘ تنظیم کا صدر بنانے کی بات کرتی ہے،جھوٹی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس تنظیم کے لیے آپ سے بہتر صدر کوئی ہو ہی نہیں سکتا،آپ کے اخبار ’بجلی‘ کی خریداری ہر گائوں کے لیے لازمی کردی جائے گی جس کی وجہ سے خریداروں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ ذاتی مفاد کے لالچ میں پنڈت جی مس مالتی کو اپنا سچا خیر خواہ مان لیتے ہیں۔ اسے جب یہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ پنڈت جی کو ورغلانے میں کامیاب ہوگئی ہے تب وہ اپنے اصل منشا کی طرف آتی ہے اور کہتی ہے کہ’گرام سدھار سبھا‘ کے جو ممبران ہوں گے وہ مذہب،ذات پات اور کھان پان کی وجہ سے کسی کو حقیر نہیں سمجھیں گے۔حقیر نہ سمجھنے کا ثبوت سب سے پہلے اس تنظیم کے صدارتی عہدے کے متمنی پنڈت اونکار ناتھ کو ہی دینا تھا کیونکہ یہی شراب پینے والوں کو حقارت سے دیکھتے تھے۔لہٰذا مالتی نے جیسے ہی شراب کا پیا لہ پنڈت جی کے طرف بڑھایا انھوں نے قبول کر لیا۔ پینے میں کسی قدر تردد تو ہوالیکن پھر سوچا کہ ’’ ایسی حسینہ کے ہاتھوں سے اگر زہر بھی ملے تو اسے قبول کرنا چاہیے‘‘۔ پنڈت جی کے شراب پیتے ہی تمام ساتھی ہنسنے لگتے ہیں      اس طرح کی تمام تفریحات میں پروفیسر مہتا مس مالتی کے ساتھ شامل رہتے ہیں۔مالتی ان سے محبت بھی کرتی ہے اورشادی بھی کرنا چاہتی ہے لیکن مہتا صاحب تیار نہیں ہوتے ہیں۔ایسے تو پروفیسر مہتا آزاد خیال  ہیں مگر شادی ایسی عورت سے کرنا چاہتے ہیں جو ہندوستانی تہذیب میں رچی بسی ہو، جو شوہر سے مار کھاتی رہے پھر بھی اسی کے قدموں میں پڑی رہے،جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے تعلقات نہ بنائے۔ڈاکٹر قمر رئیس بالکل صحیح لکھتے ہیں:

’’مس مالتی ان سے والہانہ محبت کرتی ہے۔وہ ان سے شادی کے لیے بھی آمادہ ہے لیکن مسٹر مہتا کے لیے وہ اس لیے قابل قبول نہیں ہوتی کہ یورپ کی تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثر سے وہ تیاگ اور تپسیا کی سرزمین ہندوستان میں گرہست عورت کا دھرم چھوڑ کر تتلیوں کا رنگ پکڑرہی ہے۔آزادی،خود پرستی اورخود نمائی کی دلدادہ ہے۔‘‘5

مس مالتی سے پروفیسر مہتا ایک ساتھی یادوست جیسا برتاؤرکھتے ہیں۔اس سے نفرت نہیں کرتے بلکہ اس کی تعلیمی لیاقت اورخوبصورتی کی وجہ سے پسند بھی کرتے ہیں،دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔پروفیسر مہتا،مالتی کی محبت کی اس لیے قدرنہیں کرپاتے ہیںکہ اس کی شخصیت مغربی تہذیب میں رچی ہوئی ہے۔اسی تہذیبی مغائرت اور تصادم کا نتیجہ تھا کہ مس مالتی کی چاہت رشتہء ازدواج میں تبدیل نہیں ہوسکی۔مس مالتی کی طرز زندگی ہندوستانی خواتین سے بالکل مختلف ہے۔شرم و حیا اور پر دہ اس کے نزدیک لغویات کے قبیل میںسے ہیں۔وہ ایسی عورتوں سے چڑھتی ہے جو اپنے شوہروں سے مار کھاتی رہتی ہیں پھر بھی انھیں کے گن گائے جاتی ہیں۔آزاد خیالی اس حد تک ہے کہ وہ شادی کو ایک بندھن سمجھتی ہیں،ظاہر ہے یہ خیالات مغربی تہذ یب کے مظا ہرہیں۔جس سے متنفر ہوکر اونکار ناتھ کہتے ہیں  :

’’اور وہ جو ہے مالتی۔جو بہتر گھاٹوں کا پانی پی کر بھی مس بنی پھر تی ہے،شادی نہیں کرے گی کیونکہ اس سے زندگی بندش میں پڑجاتی ہے اور بندش میں زندگی کا کامل ارتقا نہیں ہو پاتا ہے۔ارتقا تو اسی میں ہے کہ دنیا کو لوٹے جائو اور آزادانہ عیش کیے جائو۔ساری بندشیں توڑدو،دھرم اور سماج کو گولی مارو،فرائض کو پاس نہ پھٹکنے دو،بس تمھاری زندگی مکمل ہوگئی۔اس سے زیادہ آسان اور کیا ہوگا؟ماں باپ سے نہیں پٹتی تو انھیں دھتا بتائو،بیاہ مت کرو یہ بندھن ہے۔اور بچے ہوں گے تو یہ موہ کا جال ہے۔‘‘6

مذکورہ سطروں میں مس مالتی کے اوصاف طنزیہ لہجے میں بتائے گئے ہیں۔یہاں دوتہذیبیں باہم متصادم نظر آتی ہیں۔ایک ہندوستانی تہذیب ہے جس کی نمائندگی پنڈت اونکار ناتھ کرر ہے ہیں،دوسری مغربی تہذیب ہے جس کا عکس مس مالتی میں صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ تہذیبوں کی ترقی اور اسے ایک نئے موڑ دینے میں حکومتیں بھی اپناکرداراداکرتی ہیں۔پریم چند جس عہد میں ناول لکھ رہے تھے وہ مکمل طور پر انگریزوں کی حکمرانی کا دور تھا۔اس سے پہلے بھی یہاں دوسری بیرونی اقوام حکومت کرچکی تھیں لیکن انھوںنے شعوری طور پر تہذیبی اشتراکیت پر زور دیا تھا۔انگریز پہلی حکمراں قوم تھی جس نے ہندوستانیوں کو حقارت کا احساس دلایا اور ان کی تہذیب کو کمتر سمجھا۔جس کے نتیجے میں تہذیبی تصادم کی فضا پیدا ہوئی جسے بنیاد بنا کر ڈپٹی نذیر احمد نے 1888 میں ایک ناول’ابن الوقت‘لکھا۔پریم چند کو تہذیبی تصادم سے زیادہ عوام کی سسکتی ہوئی آوازیں بے چین کرتی ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے ناولوں میں سماج کے مظلوم طبقے کی زندگی پیش کی ہے۔ پریم چند نے اگرچہ تہذیبی تصادم کو مرکز بنا کر کوئی ناول نہیں لکھا ہے لیکن غبن،چوگان ہستی اور پردئہ مجاز جیسے ناولوں میں  بھی ضمنی واقعات کے ذریعے تہذیبی تصادم کی جھلکیاں در آئی ہیں۔

حواشی

1        میدان عمل،پریم چند،مکتبہ جامعہ،نئی دہلی،1943،ص،305

2        ایضاً،  ص،294

3        Novel and People،رالف فاکس،ناول اور عوام، مترجم، ڈاکٹر سید محمود کاظمی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2014،ص،171

4        ،میدان عمل،پریم چند،مکتبہ جامعہ،نئی دہلی،1943،ص،294

5        پریم چند کا تنقیدی مطالعہ۔بحیثیت ناول نگار،ڈاکٹر قمر رئیس، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،2004،ص،298

6        گئودان،پریم چند،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،19

 

Dr. Mohd Naseem

Ward No: 21,H/O Md Amin

Opposite- Rahbar Children School

Rahamatganj,Masaurhi

Patna- 804452  (Bihar)

Mob.No.9618474155S

Email.naseemmanuu@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...