20/8/24

ذات کی دریافت کا وسیلہ تنہائی (جدیدیت کے شعری حوالے سے)، مضمون نگار: فہمینہ علی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

تنہائی ایک اہم انسانی جبلت ہے اس کائنات میںجب سے انسانی شعور کا آغاز ہوا تب سے یہ فرد کی داخلی دنیا میں خصوصی مقام رکھتی آئی ہے یہ ازل سے ابد تک زمین اور آسمان کی حدود سے بے نیاز تمام افراد کے تجربات و مشاہدات کا ناقابل فراموش حصہ رہی ہے۔ جیسے جیسے انسان نے شعور کے ساتھ معاشرے اور تہذیب کے مراحل طے کیے ہر زمانے کے تبدیل ہوتے حالات کے ساتھ ساتھ تنہائی کی نوعیت بھی بدلتی گئی۔پیغمبروں سے لے کر عام انسانوں تک ہر حساس دل نے احساس تنہائی کا کرب جھیلا اور برداشت کیا ہے۔ تنہائی (Loneliness)  ایک پیچیدہ اور عموما ناخوشگوار جذباتی رد عمل ہے جو سماجی اکیلے پن کی وجہ سے ابھرتا ہے۔ تنہائی میں عموما ایک اندرونی کیفیت تیزی سے ابھرتی ہے جس میں کوئی قریبی تعلق یا ربط درکار ہوتا ہے۔ یہ خواہش یہ کیفیت حال اور مستقبل دونوں پر محیط ہو سکتی ہے۔ تنہائی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں: سماجی، دماغی، جذباتی اور جسمانی عوامل کی وجہ سے بھی یہ فرد پر حاوی ہوتی ہے اس تنہائی کے نتیجے میں زاویہ نشینی شرمیلا پن اور سماجی تجسّس جیسے عمل فرد کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔دنیا کے تمام ادب میں پائی جانے والی ہر صنف سخن میں تنہائی کا موضوع خاص طور پر موجود رہا ہے اس کی سب سے عمدہ مثال فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری ہے ۔

اردو شاعری کی روایت میں ’تنہائی‘ کا موضوع اُس کی ابتدا سے قائم و دائم رہا ہے اور ہر دور میں مختلف رحجانات و نظریات کے ساتھ تخلیق کار کی داخلی دنیا کا ہمنوا بن کر سامنے آیا ہے۔ قدیم دور پر نگاہ ڈالیں تو ہم تنہائی کا تصور ان معنوں میں نہیں پاتے جو ہمیں دور جدیدیت میں ملتے ہیں۔ ہر دور اپنا معاشرہ اور اس سے جڑے اعتقادات و نظریات لے کر زندگی کے منظر نامے پر ابھرتا ہے، اس سے جڑے سیاسی و سماجی حالات ہی اس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔  میر کے دور کے احساس غم و الم سے لے کر ہندوستان میں بدلتے ہوئے سیاسی وسماجی رویوں نے احساس تنہائی کو ان کے یہاں دل کی ویرانی کا نام دیا تو وہیں غالب کے یہاں تنہائی کے دوران وقت کاٹنا ایک مشکل عمل ٹھہرا         ؎

کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

اقبال نے جہاں تنہائی کو تخلیق کار کے لیے نعمت قرار دیا ہے تو وہیں دور رومانیت میں فراق نے اسے اپنی شب کا بہترین ساتھی بنا کر شاعری میں پیش کیا اور رات کی تاریکیوں میں تنہائی کی شمعیں روشن کر کے اردو شاعری میں ’ شب کی شعری روایت‘ کا اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ ترقی پسندی کے دور میں فیض نے تنہائی کی جس کیفیت کو اپنی نظم ’تنہائی‘ میں برتا وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی تنہائی کے موضوع پر متعدد اشعار اور نظمیں لکھی گئیں لیکن فیض کی اس نظم کے پایے تک کوئی نہ پہنچ سکا۔المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موضوع تنہائی کا تعلق اردو کی شعری روایت میں قدیم اور کثیر المعانی رہا ہے، اس کی ساخت اور معنویت میں ہر دور میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔

60کی دہائی میں اردو کی شعری روایت کا احاطہ کریں تو ہم پاتے ہیں کہ یہ دہائی اردو ادب میں وجودی رحجانات کی مرہون منت تھی جس میں مختلف رحجانات جدیدیت کے طور پر وجودیت کی تصویر بن کر ابھرے، ایک طرف جہاں صنعتی نظام زندگی نے فرد کی فردیت پر قدغن لگایا اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو ختم کرنے کی حد تک متاثر کیا، وہیں دوسری طرف ان کے نتیجے میں فرد مختلف داخلی تجربات و احساسات کا شکار ہو گیا۔ نتیجتاً ان میں منفی اثرات زیادہ نمایاں ہوئے جن میں خوف، عدم اعتماد، بے بسی ،بے چینی، عدم اطمینان، یاس و نا امیدی ،موت، خود کشی کے علاوہ جو سب سے زیادہ نمایاں داخلی پہلو سامنے آیا وہ ’تنہائی‘ تھا۔یہ دہائی ذہنی انتشار کی دہائی تھی جس میں دیرینہ روحانی و اخلاقی اقدار کی پامالی کے ساتھ ساتھ طویل مشترکہ قومی، تہذیبی، تاریخی، جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی کی تمام روایات تقریباً ختم ہوتی نظر آنے لگی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو یہ دور خالص ذہنی انتشار کا دور تھا، اس دور کے تخلیق کار کے ذہنی پس منظر میں دو عظیم جنگوں کی ہولناک تباہی تھی اور تیسری کے سایے اُن کے سروں پر کسی آسیب کی مانند منڈلا رہے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک اسلحوں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے میں پیش پیش تھے۔ایسے دور میں بے یقینی اور موت کی فضا کا قائم ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔اسلحوں کی اس جنگ نے جس کا سب سے زیادہ نقصان کیا وہ انسان کی ذات تھی۔ اس دور کے انسان کی زندگی کی ارزانی نے تخلیق کاروں کے ذہن مفلوج کر دیے تھے ایسے میں رومانیت اور کھوکھلی انقلابیت کی نعرے بازیوں سے کہیں زیادہ بہتر انہیں داخلی جذبات کی ترجمانی کا راستہ نظر آیا۔ بیسویں صدی کے اہم مفکرین جن میں نطشے، فرائیڈ، اور کارل مارکس کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، ان میں ایک طرف نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کرکے اس بات پر زور دیاکہ فرد اجتماع میں گم ہوکر اپنی اہمیت کھوتا چلا چلا جا رہا ہے ،مارکس نے سماج میں لاشخصی سطح پر بہ جبر جینے والوں کے احساس تنہائی میں اجنبیت اور بے گانگی کے رحجان پر کام کیا وہیں فرائڈ نے عصری معاشرے میں اجتماعی نیوروسس (Neurosis) کی تشخیص کرتے ہوئے تنہائی کو اس کی ایک اہم علامت قرار دیا۔اس کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے بعد Franz Kafkaنے کائنات اور زندگی کے متعلق اپنی تصنیف ''The Castle''میں زندگی کو کائنات کی استعاراتی شکل میں پیش کیا اور یہ نمایاں کیا کہ انسان اس کائنات میں خالی ہاتھ یعنی ’تنہا‘ ہے۔اس طرح ان مفکرین اور ادبا نے ’احساس تنہائی‘ کو داخلی رحجان کا ایک اہم جز قرار دیا۔ اس دور میں ہونے والی بڑی جنگوں اور صنعتی تمدن کی وسعت نے اس تنہائی کے احساس کو عالم گیر حیثیت عطا کر دی۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ فرد اب بین الاقوامی برادری کا ایک رکن ہے وہ مخصوص جغرافیائی تہذیبی دائروں تک محدود نہ ہو کر اب بین الاقوامی برادری کا ایک خاص حصہ ہے۔صنعتی تہذیب کی جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا نے انسان کے وجود کو لاچارو بے بس بنا دیا، انسان کے حالات پر اس کی کوئی گرفت نہ رہی بلکہ وہ خود اسباب و علل کی گرفت میں آ گیا، خارجی اور داخلی سطحوں پر انسان کی شخصیت مسخ ہونے لگی۔ مشینی زندگی کے مصنوعی ذرائع نے فرد سے اس کی تخلیقی صلاحیت و انفرادیت کے ساتھ ساتھ داخلیت بھی چھین لی جس کے سبب تنہائی کا احساس شدّت اختیار کر گیا۔ان مغربی مفکرین نے فلسفہ وجودیت کے زیر اثر جن جذبات کی تشکیل کی ان میں ’احساس تنہائی‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اس کے نتیجے میں خوف بے معنویت دہشت مہملیت مایوسی، نا امیدی، دکھ، اجنبیت، بے گانگی کا احساس، اکتاہٹ ،خود کشی اور موت کے رحجانات عام ہوئے اس کے علاوہ ان جذبات سے منسلک و متعلق دوسرے متعدد رحجانات و میلانات کا پس منظر بھی احساس تنہائی ہی تھا جو در حقیقت صنعتی و میکانکی معاشرے اور مشینی تہذیب کی دین ہے۔یہ تمام اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوئے۔ ہندوستانی معاشرہ بھی ان سے اچھوتا نہیں رہا، جس کے پس منظر میں ایک جانب تقسیم کا المناک واقعہ اور اس سے متعلق رنج و الم تھا وہیں دوسری جانب مشینی زندگی نے یہاں بھی اپنے پاؤں جمانے شروع کر دیے تھے۔ اردو ادب میں احساس تنہائی کے اجتماعی شعور کے متعلق لطف الرحمٰن لکھتے ہیں:

’’اردو کے اجتماعی شعور اور جدید حسیت کو تیسری دنیا میں گو ناگوں سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی و لسانی مسائل و معاملات نے بھی ہمہ گیر سطح پر متاثر کیا ہے۔ مغرب کی تہذیبی جارحیت، فوجی مادیت، اقتداری آمریت، استحصالی صارفیت اور ہند و پاک میں تہذیبی و لسانی عصبیت، فرقہ وارانہ منافرت، قبیلہ جاتی عداوت، تقلیدی مذہبیت، ظلم و بربریت، افلاس و غربت، بیماری و جہالت، بنیاد پرستانہ سیاست، بو الہوسی و خود غرضی وغیرہ جیسے متعدد مہلک اور خطرناک مسائل نے اردو سائیکی کو مزید بحران و انتشار میں مبتلا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں تنہائی کا احساس شدید تر ہو گیا ہے۔‘‘

(ڈاکٹر لطف الرحمان:احساس تنہائی اور غزل، مشمولہ معاصر اردو غزل :قمر رئیس،ص 86،اردو اکادمی نئی دہلی2004)

ڈاکٹر لطف الرحمن نے اردو ادب میں اس بحران کی جس طرح عکاسی کی ہے وہ قابل توجہ ہے کیونکہ ہندوستاں میں جدیدیت کا زمانہ آزادی کے بعد کا زمانہ تھا جہاں ہندوستان کی آزادی کی مسرت کے ساتھ ساتھ ملک کی تقسیم کا داغ بھی منسلک ہو گیا تھا،جس نے ذہنی سطح پر ہر خاص وعام کو متاثر کیا۔

جدیدیت کے فرد کی تنہائی قدیم یا روایتی نہیں تھی، بلکہ اس دور میں تنہائی کی نوعیت مختلف ہے جہاں تنہائی کا احساس زندگی کی فضا پر محیط ایک ہمہ گیر تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ دور انتشار کا دور تھا، جس میں دیرینہ روحانی واخلاقی اقدار کی پامالی کے ساتھ ساتھ طویل مشترکہ قومی، تہذیبی، تاریخی، جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی کی تمام روایات اختتام پذیر تھیں۔جس میں فرد کسی مشین کی صورت زندگی گزارنے پر مجبور نظر آتا ہے۔میکانکی دور میں جہاں 100 افراد کا کام ایک مشین سے مکمل ہو سکتا ہے وہاں فرد کی حیثیت مشین کے ایک پرزے کی مانند رہ گئی جو ایک محدود دائرے میں رہ کر اجتماعی حرکت پر مجبور ہے، ان تمام نئی تبدیلیوں نے فرد کی انفرادیت کو یکسر ختم کر کے رکھ دیا ۔جس کے نتیجے میں فرد ذاتی طور پر تنہائی کا شکار ہوا، اس تنہائی نے اسے مختلف منفی میلانات سے دو چار کیا ساتھ ہی اس کے معاشرے کی مشترکہ طور پر ہونے والی تبدیلیوں نے بھی اسے تنہا کر دیا۔ یہ تنہائی ترقی پسندی کی زندانی یا رومانیت کی رومانی تنہائی نہیں تھی بلکہ یہ ایسی تنہائی تھی جہاں فرد اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہنے پر مجبور ہوا اور پھر اس کا عادی ہوگیا۔اس احساس تنہائی نے اسے مجبور ہونے کے ساتھ ہی باغی بھی بنا دیا، اس دور کا انسان ایک ایسا فرد بن کر سامنے آیا جو محبوب سے بے نیاز، دنیا سے خوف زدہ ،تشکیک کے مرض میں مبتلا خدا سے دور نظر آتا ہے، اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیںاور نہ ہی کوئی منزل، اسے اس دنیا میں ذمے داریوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، جن کی تکمیل کے لیے اسے اپنی ذات کے علاوہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے، اسے یہ کائنات بے معنی لگتی ہے، جہاں اس کے ڈھیروں مسائل کا کہیں کوئی حل نہیں ہے۔اس دور کے فرد کی تنہائی نفسیاتی نہ ہو کر وجودی ہے، جس میں فرد باہمی شخصی رشتوں کی تشکیل از سر نو کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ وجود کی جانب اپنا سفر مکمل کر سکے۔ اس دور کی تنہائی سے متعلق شمس الرحمٰن فاروقی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’تنہائی بہر حال ہمارے دور کی ایک حقیقت ہے اور یہ سرخ سیاہ میمنہ کسی ایک حد تک محدود نہیں ہے۔ انیسویں صدی سے انسانی شخصیت کے اوپر استبداد ذہنی و جسمانی کا جو دور شروع ہوا ہے اس کا یقینی نتیجہ یہ ہے کہ ہم روز بروز زندگی کے مصروف تراور ہنگامہ خیز تر ہوتے جانے کے با وجود زندگی کے عام لمحوں میں کبھی کبھی اور داخلی احساس کے لمحات میں تقریباًہمیشہ خود کو اپنے اجداد سے زیادہ تنہا پانے لگے ہیں۔ تخلیقی ادب اس پارہ پارہ کرنے والی حقیقت سے بھاگ نہیں سکتا اور آج کے دور میں تو یہ اور بھی مشکل ہے،کیونکہ شاعر کا فن جو مشکل تر کو طلب کرتا ہے ،اپنے سب سے زیادہ منفرد فنکاروں کو عام فنکاروں سے زیادہ پیستا اور کوٹتا ہے ۔‘‘

(جدید ادب کا تنہا آدمی نئے معاشرے کے ویرانے میں :شمس الرحمن فاروقی،ص301، مشمولہ شب خون )

فاروقی کے درج بالا قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم دیکھیں تو پاتے ہیں کہ ہندوستان میںآزادی کے بعد کے فطری تقاضوں سے جو غالب رحجان سامنے آیا وہ مایوس کن کیفیات، ذہنی انتشار، خوف، دہشت، تنہائی، داخلی کرب کے علاوہ آس پاس کی دنیا اور ماحول کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے ذاتی رَد عمل کا اظہار کرنے سے عبارت تھا۔ جدید دور کی تنہائی اپنے ساتھ کرب آگہی، دکھ و نارسائی، زندگی کی بے معنویت کا احساس بھی لائی، جدیدیت کے رحجان کے زیر اثر خلیل الرحمان اعظمی، شہریار، زبیر رضوی، احمد مشتاق، ناصر کاظمی، شکیب جلالی، راجیندر منچندا بانی، ساقی فاروقی، سلیم احمد، بلراج کومل وغیرہ کے یہاںتنہائی کی کیفیت وکش مکش کا واضح اظہار ملتا ہے ۔ان شعرا کے یہاںابتدائی دور میں خود پسندی، اپنے خوابوں سے وابستگی اور پھر انھیں خوابوں کی شکست کا اعتراف بھی ملتا ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی کے خیالات کی جانب رجوع کرتے ہیں :

’’نئے شاعروںکی تنہائی جدید زندگی کا جبر ہے، یہ تنہائی اپنی ذات اور شعور کے بعد کی منزل ہے، انسان نے ماورائی خدا سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے اور خدا کے مقابلے میں مشین پیدا کی لیکن وہ خود اپنی تخلیق کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔مشین پر اس کا اختیار نہیں، گویا زندگی کی رفتار پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں، یہ احساس بے چارگی اور پھر یہ احساس بھی کہ وہ لوگوں کے ہجوم میں ’بے چہرہ ‘ ہے، تنہائی کے فطری اسباب ہیں، لیکن یہ تنہائی صرف فن کار تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر فرد کا مقدر ہے اگر وہ حساس واقع ہوا ہے ۔‘‘(جدید اردو نظم:ڈاکٹر عقیل احمدصدیقی)

ڈاکٹر عقیل احمد کے مطابق موجودہ دور کی تنہائی صرف فن کار نہیں بلکہ ہر حساس طبیعت فرد کا مقدر ہے جس نے اس معاشرے کی بے چہرگی کو محسوس کیا ہے۔

جدید اردو شاعری میں نظم اور غزل دونوں ہی حوالے سے ایک تغیراتی فضا قائم رہی ہے، 60 کی دہائی میں ہم پاتے ہیں کہ زندگی کی فریب کاریوں نے تخلیق کار کو فرض شناسی پرمجبور کر دیا۔اس دور کا فرد ہر لمحہ نئی سچائیوں کا سامنا کرنے اور حقائق میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں یقین رکھتا نظر آتاہے۔اس سلسلے میں یہ نظم دیکھیے      ؎

میں اپنے جسم سے باہر نکل کے دیکھوں گا

یہ کائنات مجھے کس طرح کی لگتی ہے

 فریب ذات کا احساس گو کہ اچھا ہے

بہت کٹھن ہے سفر آگہی کی منزل کا ؍

بھٹک رہا ہوں میں صدیوں سے ایسی دنیا میں ؍

جہاں پہ جسم سے ہو کر نکلنا پڑتا ہے ؍ہر ایک خواب کو رستہ بدلنا پڑتا ہے۔

(LUST فضیل ہاشمی)

دور جدید میں شہری زندگی کے انتشار میں اضافہ نظر آتا ہے اور ہمارے شہر مغربی تمدن اور مغربی ذہنیت کے مماثل نظر آتے ہیں، یہ مشینی دور کے ہی اثرات ہیں کہ انسان کے احساسات و جذبات مردہ ہو چکے ہیں، انسان کی زندگی کی ارزانیوں پر انسان کو ہی افسوس نہیں ہے، زندگی میں انتشار و خلفشار کا اظہار محض شاعری نہیں، بلکہ حقیقی زندگی کی ترجمانی ہے۔اس دور کا فرد کسی پنجرے میں قید پرندے کی مانند محدودیت اور بے معنویت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور نظر آتا ہے، لیکن کہیں کہیں اس اسیری کے خلاف اس کا مزاج بغاوت کے لیے حرکت میں آتا دکھائی دیتا ہے، بعض شعرا کی تخلیقات کو پڑھ کر یہ تاثر ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس دور کا فرد نا امیدی، خوف، بے عملی اور مجبوری سے لڑنے کی بجائے ان سے گریز پا ہے یا بھاگ رہا ہے، اس تنہائی کی قید سے نجات کے لیے وہ کبھی نوکری، کبھی نیا شہر، کبھی نیا معاشقہ تلاش کرتا ہے، لیکن اسے ہر طرف سے صرف مایوس ہی ہونا پڑتا ہے        ؎

اس طرح بھیڑ کے میلے ٹھیلے میں ؍ آدم زادوں کے ریلے میں ؍کیا حسن وادا ؍کیا عشق و ہوس؍کیا خواہش شوق اور کیا حسرت ؍کیا شرم و حیا جر أت غیرت ؍ہر منظر بھیڑ میں ڈوب گیا ؍تنہا تنہا تنہا تنہا۔(عمیق حنفی)

 

درد تنہائی کے نقش پا پہ چل کر گم ہوا؍یارہ گزار میں چھپ گیا ؍جس طرح مضطر بگولے اپنی بے تابی سے عاجز؍ تھک کے صحرا میں بنا لیتے ہیں خود اپنا قرار ؍ اک جلا ازلی خموشی ؍اور تنہائی میں پنہاں درد کی پرچھائیاں ؍کی یہی ہے کائنات این وآں  (باقر مہدی)

کثرت آبادی کے نتیجے میں شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی بھیڑ نے ایک نئے معاشرے کو فروغ دیا جس نے لوگوں کو غیر شخصی اور غیر انفرادی و غیر انسانی سطح پر جیے جانے کو مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں فرد کی معاشرے میں منفرد ہونے کی خواہش ختم ہو کر رہ گئی۔ اس دور کے فرد کا مقدر تنہائی ہے اور انسان اسی ماحول میں زندگی کو گوارا بنانے کے لیے راستے بنانے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسری کوئی راہ نہیں ہے۔ اس کربناک فضا کو شہریار اپنی ایک نظم میں طنزکی کیفیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں          ؎

دھوپ میں تنہائی کی جسموں کو  جھلساتے رہو

دوریوں کی سخت چٹانوں سے ٹکراتے رہو

اور دلوں میں خواہشوں کی آگ بھڑکاتے رہو

وقت کے صحرا میں یوں ہی ٹھوکریں کھاتے رہو

دور جدید کا فرد ایک ایسی زندگی کا مالک ہے جہاں ہر روز جینے کے لیے مرناپڑتا ہے، اس نئی حسیت نے فرد کو شکست خواب کے دکھ سے دو چار کیا ہے، جہاں ماضی کے سایے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور صنعتی معاشرے کی بے رنگ زندگی میں اس ماضی کا احساس دگنا ہو جاتا ہے        ؎

بہت دنوں سے خیال کا خواب سے کوئی سلسلہ نہیں ہے

خموش راتوں کی ہولناکی میں نغمگی کا پتہ نہیں ہے

کتابیں کہتی ہیں زندگانی حسین خوابوںکامدعا ہے

 پیمبروں نے دیا ہے مژدہ زمیں کابھی کوئی خدا ہے

ہم اپنی بے خواب جلتی آنکھوں میں زندگی کی چتا جلائے

جہاں بھی زندہ وجود ڈھونڈیں ملے وہاں موت ہی کے سایے

کروڑوں لمحوں کی لاش اٹھائے ہر ایک دن تھک کے ڈوبتا ہے

اسی جلوس فضا کو لوگوں نے زندگی کا لقب دیا ہے

 (پتھروں کا مغنی)

اس صنعتی معاشرے میں آدمیوں کی بھیڑ تو ہے لیکن اس میں انسان کم ہیں بلکہ نہ کے برابر ہیں، کیونکہ یہ ہجوم جذبات و احساسات سے عاری ہے، یہ سب ایک طرح کی مشین ہیں، انھوں نے چہروں پر نقاب اوڑھ رکھے ہیں اور لوگوں سے تعلقات کسی Formality کے تحت نبھاتے نظر آتے ہیں، اس صورت حال نے فرد کی تنہائی کے کرب میں مزید اضافہ کر دیا  ہے۔ وحید اختر کی نظم میں اس کا اظہار دیکھیے       ؎

شہر انسانوں کے چہروں کا امنڈتا سیلاب

ہاتھ بڑھتے ہیں نظر ملتی ہے لب ہلتے ہیں

دل اس انداز سے چپ چاپ تکا کرتے ہیں

جس طرح خواب میں کچھ لوگ ملیں آپس میں

واہمہ طرزِ نظر بات کا انداز فریب

ملنا پرچھائیں کا پرچھائیں سے کچھ بات نہیں

روح پہنے ہوئے پھرتی ہے سراپا کا لباس

خود تو محبوبۂ نادیدہ ہے چہرے ہیں نقاب

جن میں احساس نہ جذبات نہ افکار نہ جاں

کاغذی پیرہنوں ہی سے ہے آباد جہاں

 (بند نقاب :وحید اختر) 

جدیدیت کے دور کی تنہائی در اصل دو زمانوں ماضی اور حال کی شمولیت پر تشکیل ہوئی ہے، تخلیق کار کی نظر میں یہ دونوں زمانے سکون ومسرت سے عاری اور انتشار و بے چینی سے پرہیں، جہاں درد تنہائی میں اور تنہائی درد کا پیراہن بن کر ابھرتی ہے، جس کے زیر سایہ تخلیق کار خود کو چھپانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس تنہائی سے بے زار ہو کر جب کھلی فضا میں سانس لینا چاہتا ہے تو وہ خود کو سب کے درمیان اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اسے اپنے گرد و پیش کے ماحول سے بے عتنائی کی مہک آتی ہے، یہ نظم دیکھیے:

با وجود اپنی شناسائی کے؍مرد وزن اجنبی سڑکیں ویران؍ بے نام؍ اور منزل کا پتہ نا معلوم ؍کس طرف رخ کروں کس سے پوچھوں ایک جیسے تھے مکیں ؍ ایک جیسے تھے مکاں ؍میں بھٹکتا تھا گلی کوچوں میں ؍ راہ گم کردہ سراسیمہ پریشاں صورت   (گمشدہ:منیب الرحمان )

 اس دورمیں جس نے تنہائی کے احساس کو وسیع کیا وہ شہری زندگی کا صنعتی نظام تھا جس نے اس دور کی نسل کو حد درجہ متاثر کیا، سائنسی ایجادات اور انسان کے مشینی طرز زندگی نے فرد کو مجمع میں بھی تنہائی کا احساس دلایا۔یہ تنہائی گزشتہ دور کی تنہائی کے احساس سے الگ تھی یہاں فردذاتی پریشانیوںسے نہیں بلکہ اجتماعی دور میں اپنی ذات کی بے حرمتی کی وجہ سے اکیلا پن محسوس کرتا ہے، مثال کے طور پر وحید اختر اپنی نظم ’راکھ کا گھر‘ میں تنہائی کا بیان کچھ اس انداز میں کرتے ہیں          ؎

 کون آگ بجھا سکتا ہے ؍تنہائی کے صحرا میں ہر شخص گریزاں تھا اپنے ہی دامن کو شعلوں سے بچائے تھے؍ سب اپنے ہی خوابوں کو آنکھوں میں چھپائے تھے؍ہم خود ہی چلے تنہا؍اوروں کا تو کیا شکوہ؍اس کو بھی نہ ہو پائی تنہائی کے جلنے کی لڑنے کی خبر اب تک؍ ہم کعبہ تنہائی کا جس کو خدا سمجھے؍اب راکھ میں بیٹھے ہیں مجروح شکستہ دل؍دل سوختہ غم خوردہ؍کیا جانے کریدیں گے اس راکھ کو ہم کب تک

 

جسم اپنا تھا میں ؍ذہن اپنا تھا میں؍خود سے مقدور کے دائرے میں شناسا بھی تھا؍حادثہ مجھ پہ گزرا عجب یہ کہ میں؍آج اپنی ہی پہچان کے کیسے آزار میں گھر گیا؍ اب یہاں کون ہوں ؍نام میرا ہے کیا؍کس کا ہم دم ہوں میں؍ کس کا ہم زاد ہوں؍کون میرا ہے ہم زاد چاروں طرف سے امڈتی ہوئی بھیڑ میں؍باد مسموم میں؍جسم و جاں کو جھلستی ہوئی ریگ پیکار میں گھر گیا؍میں مکافات کے سیل اسرار میں گھر گیا      (میں ایک اور میں: بلراج کومل)

ہر شاعر اپنے خیالات، اعتقادات اور محسوسات کے اظہار کے لیے مختلف زاویہ نظر رکھتا ہے اور انھیں برتنے کے لیے اپنے طور پر جدید تشبیہات و استعارات کا استعمال کرتا ہے۔اس عمل میں اسے اپنی دنیا میں مگن ہونا پڑتا اور دوسرے کی دنیا سے بے نیازی اختیار کرنا پڑتی ہے، یہ اس کے اندرونی جذبات بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی معاشرتی نظام کی مجبوری بھی۔اپنی اس کیفیت کو درست کرنے یا اس سے بچنے کے لیے و ہ معاشرے کے قریب ہونا چاہتا ہے، لیکن وہاں پر اسے وقت کی نا سازگاری، زندگی کی الم نصیبی اور مادی عناصر کی بے ثباتی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اس کے اندر کی فضا بدلتی ہے اور وہ ان حالات میں خود کو ڈھال لیتا ہے، لیکن یہ ڈھلنا مطمئن ہونا نہیں ہے بلکہ اس ناکامی سے فرد ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں اسے زندگی کے خوش گوار پہلوؤں سے بھی کسی قسم کی مسرت کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کیفیت سے بے زار ہو کر فرد خود پسندی اور ذات پرستی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور اپنی ذات کو مستحسن قرار دیتا ہے، اسی مقام پر وہ اجنبیت، شکستگی اور تنہائی کا معتکف ٹھہرتا ہے۔لیکن جدیدیت کے دور کی یہ تنہائی فرد کو صرف غم و الم سے دو چار نہیں کرتی، بلکہ یہ اسے پسند آنے لگتی ہے، وہ اس کا اسیر ہونے لگتا ہے اور اسی اسیری میں خود کلامی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے         ؎

میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں؍جہاں میں ہی میں ہوں؍جہاں میرا سایہ ہے؍سایے کا سایہ ہے؍اور دور تک بس خلا ہی خلا ہے (میںمیں گوتم نہیں ہوں:خلیل الرحمن اعظمی)

میں اپنے خول کے اندر سمٹ کے بیٹھ رہنا چاہتا ہوں؍ مجھے مینار کی کھڑکی سے جھک کر جھانکنے کی بھی ضرورت؍کچھ نہیں ہے     (شمس الرحمن فاروقی)

 

کتنا تنہا ہوں میں کتنا تنہا

رات تاریک ستارے مغموم

سرد ہیں زہرہ وپرویں کے نگاہوں کے شرار

ہے فضاؤں کے شبستاں پہ تعطل کا حصار

 اور یہ دشت جسے دیکھ کے ہیبت کو بھی خوف آجائے

اپنی خاموشی پیہم سے سر گرم کلام

 (پھیلے ہوئے ہاتھ:مظہر امام)

 سیاسی بدکاریوں اور شہروں کے پھیلاؤ نے بھی اس دور کے تخلیق کارکو بدگمانی کے صحرا میں لے کر کھڑا کر دیا، نتیجتاً علیحدگی، بے گانگی، اکیلا پن اور خلوت جیسے احساسات اس کی زندگی کا ایک اہم جز بن گئے اسی لیے جدیدیت کے رحجان میں وجود کی سطح پر ابھرنے والا سب سے پر اثر رحجان تنہائی تھا۔داخلی ارتقا کے اولین مرحلوں میں تنہائی درد و الم، اضطراب، انتشار، عارضیت، بے ثباتی، نا امیدی و محرومی کے جذبات سامنے آتے ہیں۔جدیدیت کے دور کی شاعری میں ان تمام احساسات کا اظہار موثر طریقے سے ہوا ہے۔ یہ دور ’شکست خواب‘ کا دورتھا، جس میں شعرا کے یہاں کسی بھی عزیز شے کے کھو جانے کا غم نمایاں ہے، یہاں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں         ؎

اندھیری رات کی اس رہ گزر پر

ہمارے ساتھ کوئی اور بھی تھا

افق کی سمت وہ بھی تک رہا تھا

اسے بھی کچھ دکھائی دے رہا تھا

اسے بھی کچھ سنائی دے رہا تھا

مگر یہ رات ڈھلنے پر ہوا کیا

ہمارے ساتھ اب کوئی نہیں ہے

(تنہائی:شہریار)

 

دیواریں ہیں دیواریں جو تنہائی کا چہرہ ہیں

اس چہرے میں وہ چہرہ ہے

جس کو روز ازل سے ڈھونڈ رہا ہوں

میری کوئی راہ نہیں ہے ،ساری راہیں میری ہیں

میں سر گشتہ، میں خوابوں کے محل میں ہفت سماوات اور زمین لے کر چلتا ہوں

لیکن دیکھ نہیں سکتا ہوں (تنہائی کا چہرہ: افتخار جالب)

جدید یت پسند شعرا کے یہاں عرفان ذات کی کوششوں نے تنہائی کے احساس کو تو بڑھایا ہی ہے، ساتھ ہی ہر نظریے، عقیدے اور اصول سے اس کی بے زاری بھی پیدا ہوئی، ان تمام اثرات کی جڑیں فلسفہ وجودیت سے منسلک تھیں، جس میں ایک تلخ تجربہ تھا کہ’’ کسی بھی شے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘‘ جس نے فرد اور تخلیق کار دونوں کو ہی زندگی کی لا یعنیت کا اسیر بنا دیا، ساتھ ہی اس میںتشکیک کا رویہ بھی ابھرا جو کہ تنہائی کی ہی ایک کڑی تھا  افتخار جالب نے اپنی نظم ’تنہائی کا چہرہ‘ میں اس کے متعلق اظہار خیال کیا ہے ۔

وہیں غزل میں یہ تنہائی، مایوسی، نا امیدی اور خود ترسی، احساس کمتری، خوف، انتظاراور درد کی صورت میں سامنے آتی ہے        ؎

ایک مدت سے چراغوں کی طرح جلتی ہے

ان ترستی ہوئی آنکھوں کو بجھا دے کوئی

(ساقی فاروقی)                 

اِک سفینہ ہے تری یاد اگر

اِک سمندر ہے مری تنہائی

(احمد ندیم قاسمی)

تنہائی میں کرنی تو ہے اِک بات کسی سے

لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

(احمد مشتاق)

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھر گھر میں اکیلا

 میں کہ عکس منتشر اک اک منظر میں اکیلا

 (بانی)

خموشی کے ہیں آنگن اور سنّاٹے کی دیواریں

یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا

(سلیم احمد) 

غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں

مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں

(مخمور سعیدی)

دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا

تو بھی کبھی میری تنہائی میں شامل ہو جا

(زیب غوری)

دروازے پر پہرہ دینے

تنہائی کا بھوت کھڑا ہے

(محمد علوی)

یہ تنہائی انسان کے داخلی رویے اور اس کے ماحول کے منفی اثرات سے پیدا ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں یکسانیت، بے زاری واکتاہٹ جیسے جذبات کلام میں در آتے ہیں اور فرد معاشرتی جماعت میں رہنے کے بجائے علیحدہ رہنے کو فوقیت دیتا ہے۔ دھیرے دھیرے و ہ اس تنہائی سے ایسا مانو س ہو جاتا ہے کہ اسے یہ تنہائی اچھی لگنے لگتی ہے          ؎

اتنا مانوس ہوں سنّاٹے سے

کوئی بولے تو برا لگتا ہے

(احمد ندیم قاسمی)

اس اکیلے پن کے ہاتھوں ہم تو فکری مر گئے

وہ صدا جو ڈھونڈتی تھی جنگلوں میں کھو گئی

(پرکاش فکری)

اور آہستہ آہستہ وہ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہونے کی بجائے اس میں فرحت محسوس کرنے لگتا ہے        ؎

دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھیے

یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

(فضیل جعفری)

ایسا لگتا ہے کہ جدیدیت پسند شعرا جس ماحول میں سانس لے رہے تھے، وہ بیابانی، دھوئیں، گھٹن، تاریکی سے عبارت تھا، جہاں روشنی کی کوئی کرن سوچوں اور خیالوں تک میں راستہ نہیں بنا پاتی، یہ اضطراب اور گھٹن ایسا ہے جس سے نکلنے کی کوئی ممکن صورت ان کے یہاں نہیں ملتی         ؎

جب کمرے سے دل بھر جاتا ہے؍ تو قہوہ خانے میں آجاتا ہوںجب قہوہ خانے سے دل بھر جاتا ہے؍ توکمرے میں آ جاتا ہوں ؍جب اپنے آپ سے دل بھر جاتا ہے ؍تو سوچ کا رستہ رک جاتا ہے یادیں بنجر ہو جاتی ہیں ؍  اور جیون ایک اندھیرا بن جاتا ہے ؍جس کے اندر آنے کی ؍ اور باہر جانے کی ؍کوئی راہ نہیں ہے

(اندر باہر)

محمد علوی کے یہاں تنہائی کسی اداس چڑیا کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے یہ نظم دیکھیے        ؎

کچھ دنوں سے اک چڑیا؍چپ اداس گم صم سی؍شام ہوتے آتی ہے؍ گھر میں ایک فوٹو پر؍آ کے بیٹھ جاتی ہے؍اس سمے گھڑی میری ؍ٹھیک چھ بجاتی ہے؍کچھ ہی دیر میں چڑیا؍شام کے دھندلکے میں؍ڈوب ڈوب جاتی ہے؍اور گھر کا دروازہ؍رات کھٹکھٹاتی ہے

(محمد علوی:تنہائی)

اس دور کا شاعر ایک ایسے ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور ہے، جس میں میکانکی جبر نے انسانی اقدار کو مسخ کر دیا ہے، فرد کا فرد سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ زمین و آسمان کی لا محدود وسعتیں اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں         ؎

یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات ؍ایک لا محدود وسعت ایک بے معنی وجود ؍آدمی اس ابتری کی روح ہے؍آدمی اس مادے کا ذہن ہے؍ ابتری اور انتہا؍ مادہ لا انتہا؍آدمی محدود ہے ؍آدمی کا ذہن بھی محدود ہے ؍آدمی کی روح بھی محدود ہے ؍یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات؍جبر کا اک سلسلہ

(تنہائی: زاہد ڈار)

المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دور جدیدیت میں تمام شعری موضوعات ، سماجی بے چینی کا مکمل اظہار تھے۔اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ60 کی دہائی ذہنی بحران اور انتشار کی شکار تھی، اس دورکے ادب میں مثبت سے زیادہ منفی رویوں کی تشکیل ہونا عام بات تھی جن کی ادب میں پر زور مخالفت بھی ہوئی، کبھی انھیں دماغی فتور کہا گیا تو کبھی ان رویوں کو ادب کے لیے خطرہ کہا گیالیکن ان منفی رویوں کی آمد ادب میں ایک تیز ہوا کے جھونکے سے زیادہ نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ ادب سے ان منفی رویوں کا غبار چھٹ گیا اور ایک مثبت فضا  جلد ہی قائم ہوگئی ۔اپنی زوال پذیری کے دور میں جدیدیت میں تنہائی کا تصور خلوت سے موسوم نظر آتا ہے جہاں فرد خود کشی اور موت کی جانب جانے کی بجائے عرفان ذات اور ایقان کی منزل کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔اس سلسلے میں آل احمد سرور لکھتے ہیں:

 ’’جدیدیت صرف انسان کی تنہائی، مایوسی اور اس کی اعصاب زدگی کی داستان نہیں ہے ۔اس میں انسانیت کی عظمت کے ترانے بھی ہیں، اس میں فرد اور سماج کے رشتے کو بھی خوبی سے بیان کیا گیا ہے اور اس میں انسان دوستی کا جذبہ بھی ہے۔‘‘

(ادب میں جدیدیت کا مفہوم :مشمولہ ،جدیدیت اور ادب :اگست 1969،ص 96)

 

Fahmina Ali

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 7379636764

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...