ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024
اگر غالب اور اقبال پر ہوئے تحقیقی کام سے موازنہ کیا
جائے تو میر ان دونوں شعرا کے بعد نظر آتے ہیں۔ اس کو میر کی بد نصیبی سمجھاجائے یا
اردو کی؟ حالانکہ میر کے سامنے شاعر یا شاعری کا کوئی ایسا نمونہ نہیں تھا جس کی
وہ تقلید کرسکیں۔ میر نے اپنا شعری اسلوب خود وضع کیا۔ وہ اس زمانے میں شاعری کر
رہے تھے جب فارسی زبان کی اہمیت زیادہ تھی اور فارسی زبان اعلیٰ طبقے کی زبان تھی لیکن میر کے چھ اردو دواوین یہ ثابت کرتے ہیں
کہ’پر مجھے گفتگو عوام سے ہے‘۔ ایک طرح سے میر نے اردو زبان کی پختگی میں اہم
کردار ادا کیا۔ تاہم ان کے معاصرین شعرا سودا اور درد بھی اردو شاعری میں اپنی اہمیت منواچکے تھے
جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن میر نے غزل میں محاوروں اور ضرب الامثال کو
اتنی خوبی سے برتا جس سے زبان اور شعری لغت میں استحکام پیدا ہوا۔ اس لحاظ سے بھی
میر کی ستائش جائز ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے بجا کہا ہے
:
’
میر دنیا کی ان بڑی شخصیتوں میں شمار کیے جانے کے قابل
ہیں جو آئندہ نسلوں پر اثر ڈال کر ان کی زندگی کا رخ متعین کرتی ہیں۔‘‘ 1
میر پر ہوئی تحقیق و تنقید سے متعلق یہ بات سامنے آئی
کہ میر کی شخصیت کو کبھی ان کی شاعری سے پرکھا گیا تو کبھی ان کی خودنوشت (ذکر میر) کے پس منظر میں ان کی شاعری کا جائزہ
لیا گیا۔ کبھی انھیں درد و غم کا شاعر کہہ کر ایک نظر یہ قائم کرلیا تو کبھی ان کی
شاعری میں بلند و پست کا مسئلہ کھڑا کردیا۔ کبھی میر کی بددماغی کو موضوع بنایا گیا
تو کبھی ان کی بدمزاجی کو۔
دراصل میر کے اشعار کے موضوعات کے مطابق ہی ناقدین نے یہ
طے کرلیا کہ میر بالکل ویسا ہی ہے۔ یعنی ان اشعار کی بنیاد پر میر کی تصویر سازی
شروع کردی اور اکثر ناقدین یہ بھول گئے کہ شاعری کی بنیاد تخیل پر مبنی ہوتی ہے۔
اگر میر نے امرد پرستی پرچند اشعار کہے ہیں تو میر کو
امرد پرست قرار دینے میں دیر نہیںکی گئی۔ اس طرح میر یہ کہہ گئے ہوں کہ ؎
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
تو پھر کیوں اس کی تردید کی جائے؟وہ صحیح کہہ رہے ہوں
گے کہ ان کے دیوان درد و غم کے ہی مجموعے ہیں۔ اس طرح ہم نے بہ آسانی میر کو درد
و غم کا شاعر تسلیم کر لیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح میر کے چند اشعار کی بنیاد پر ان کی سوانح مرتب کی
جاسکتی ہے؟ یا میر کی غزل کو خود نوشت کے
طور پر پڑھنا مناسب ہے؟
عموماً یہ خیال کیاجاتاہے کہ میربددماغ ہے۔حزن وملال
کاشاعرہے۔یامیرکی غزلیں دل اوردلّی کامرثیہ ہیں۔بعض ناقدین نے میرکے کلام
کو’آہ‘سے بھی تعبیرکیاہے۔تا ہم اگرمیرکے چھ دواوین کا بغور مطالعہ کرنے کے بجائے
صرف ورق گردانی سے کام لیاجائے تب بھی ہمیں میرکی غزلوں کامتنوع رنگ دیکھنے کو
ملتاہے۔
حامدی کاشمیری نے کہاہے کہ میرنے غالب کی طرح خوداپنے
کلام کاانتخاب نہیں کیا اس لیے بھی میرکے شعری موضوعات محدود نظر آتے ہیں۔2
چندمحققین اور ناقدین نے اپنے ذوق کے مطابق ان کے اشعار کا انتخاب کیاہے۔جیسے مولوی
عبدالحق نے ’انتخاب کلام میر‘ میں یہ طے کردیاتھاکہ میرکے اشعارسوزوگدازکی تصویریں
ہیں۔ ان سے پہلے محمدحسین آزادنے ’آب حیات‘ میں یہ اعلان کردیاتھاکہ شگفتگی یاعیش
ونشاط میرکی تقدیرمیں نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں:
’’میرصاحب
کوشگفتگی یابہارِ عیش ونشاط یاکامیابی وصال کالطف کبھی نصیب نہ ہوا۔وہی مصیبت
اورقسمت کاغم جوساتھ لائے تھے اس کادکھڑاسناتے چلے گئے جو آج تک دلوں میں اثراورسینوں
میں در دپیداکرتے ہیں... عاشقانہ خیال بھی
ناکامی، حسرت،مایوسی اور ہجرکے لباس میں خرچ ہوئے۔ان کاکلام صاف کہہ دیتاہے کہ جس
دل سے نکل کرآیاہوں وہ غم و درد کا پتلا نہیں، حسرت واندوہ کاجنازہ تھا۔‘‘ 3
کلیم الدین احمد بھی اس مفروضے کومسترد نہیں کرسکے بلکہ
انھو ںنے آزاداورمولوی عبدالحق کے خیال کی توسیع کی ہے۔لکھتے ہیں:
’میروہی
داخلی اورخارجی اثرات قبول کرتے تھے جوایک خاص رنگ کے یعنی دردوغم کانمونہ ہوتے
تھے۔ مسرورومتبسم اثرات میرکوپسندنہ تھے۔ان کی پژمردہ دلی شگفتہ جذبہ یاشادکام خیال
کی طرف مائل نہ تھی۔‘‘ 4
مجنوں گورکھپوری
میر کے غم کو ان کے زمانے کے حالات سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’میرغم
کے شاعر ہیں۔ میر کا زمانہ غم کا زمانہ تھا۔ اگر وہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو اپنے
زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لیے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔‘‘ 5
جب مولوی عبدالحق، محمدحسین آزاد اور مجنوں گورکھپوری
نے دردوغم کے جملہ حقوق میرصاحب کے نام محفوظ کردیے تو قارئین کو کیاضرورت تھی کہ
اس دیوارکے دوسری طرف بھی دیکھنے کی کوشش کرتے۔
لیکن پہلے ڈاکٹرسلامت اللہ اوربعدمیں شمس الرحمن فاروقی
نے میرکے طنزومزاح اورخوش دلی کے اشعارکی طرف توجہ دلائی۔جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ایک
آدمی تاحیات ہنستامسکراتارہے اسی طرح زندگی بھر رونا بسورنا بھی ممکن نہیں ہے۔ جو
لوگ میرکوان کی غزلوں کی بنیاد پر شکست خوردہ اوریاس پرست کہتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں۔
میرکی شاعری کااطلاق اگران کی زندگی پرکریں گے توعجیب
وغریب صورت حال پیداہوگی۔ مثال کے طور پر میرکے دیوانِ اوّل میں پیری کے موضوعات
پرمبنی اشعارمتحیرکرتے ہیں جب کہ دیوانِ اوّل کومرتب کرتے وقت میرکی عمرتقریباً
27برس کی تھی ؎
عہدجوانی رورو کاٹاپیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک
دم توسوئیے
اسی طرح پہلے ہی دیوان کاشعرہے ؎
شریفِ مکہ رہاہے تمام عمراے شیخ
یہ میراب جوگداہے شراب خانے کا
اس شعر میں میرتمام عمرگزرجانے اورمکہ میں قیام کرنے کی
بات کرتے ہیں جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ میرکامکّہ میں قیام کرنے سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ میرکے آباواجدادمکہ سے آئے تھے۔ اس بات کی تصدیق ’ذکر
میر‘ سے بھی ہوتی ہے لیکن بعض ناقدین کی آرا ہے کہ’ ذکر میر‘ میں میر تقی میر نے
حقائق سے کام نہیں لیا ہے۔ کمال احمد صدیقی نے اپنے مضمون ’ذکر میر پر چند خیالات
اور سوالیہ نشان‘ میں میر کے بیان کردہ کئی واقعات پر شبہہ ظاہر کیا۔ میر’ ذکر میر‘
میں اپنا تعلق حجاز سے بتاتے ہیں لیکن ان کے یہاں ایرانی رسمیں ہوتی تھیں اور گھر
میں بھی فارسی بولی جاتی تھی۔ کمال احمد صدیقی نے یہاں تک کہہ دیا کہ کہیں میر تقی
میر حجاز کو ایران تو نہیں سمجھتے تھے۔6
بہرحال میر کے حجاز اور ایران کی بحث میں نہ الجھ کر
واپس میر کی سوانحی غزل کے موضوع پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اوپر پیش کیے اشعار میر
کے پہلے دیوان سے لیے گئے ہیں۔ یہ اشعار اس وقت کے بتائے جاتے ہیں جب میر کی عمر27
برس کی تھی۔ اب میر کے چند اشعار ان کے دیوان پنجم سے دیکھیے ؎
مدت سے اب وہی ہے مرا ہم کنار دل
آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل
کیا جانو تم قدر ہماری مہر و وفا کی لڑکے ہو
لوہو اپنا دیں ہیں تمھارے گرتے دیکھ پسینے کو
صحبت میں اس کی کیوں کے رہے مرد آدمی
وہ شوخ و شنگ و بے تہہ و اوباش و بدمعاش
ایک شعر دیوان چہارم سے بھی دیکھیے ؎
عشق کی رہ میں پائوں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے
آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں
فاروقی صاحب کے مطابق دیوان پنجم کی اشاعت کے وقت میر کی
عمر تقریباً 80 برس کی تھی۔ ان اشعار کے رنگ یا شوخی سے کیا ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ
میر اس عمر میں بھی عشق و عاشقی میں سرشار تھے اور ان کا معشوق اوباش قسم کا تھا۔
میرتقی میربہت جگہ اپنے سیّد ہونے کاحوالہ دیتے ہیں اس
لیے ان کے سیّد ہونے پر یقین کرلیاگیا۔ مثلا
؎
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑمریں گے
آگے بھی میرسیدکرتے گئے ہیں ساکا
اے غیر میر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سیدنہ ہووے پھر توکوئی چمار ہووے
یاپھریہ مشہورشعر ؎
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
منکرنہیں ہے کوئی سیادت کا میر کی
ذات مقدس ان کی یہی ذات ہوتوہو
لیکن اگرمیرکی سوانح کونظراندازکرکے صرف پیش کردہ
اشعارپراکتفاکرلیاجائے توقاری یقین کرنے کو تیار ہوجاتا ہے کہ یقینا میرسیّد تھے۔ اس کے باوجود میر کو اب تک اس نقطۂ نظر سے نہیں دیکھاگیا۔
اردوکے معتبرمحقق قاضی عبدالودوداورکلب علی خاں فائق نے
اپنے مضامین’میرکے حالات زندگی‘اور’حیات میر‘میں میرتقی میرکے سیّد ہونے کی تردیدکی
ہے اورانھیں’ شیخ ‘ثابت کیاہے۔7
میرنے اپنے نجیب الطرفین ہونے سے زیادہ دوسروں کوادنیٰ
ذات اورکم ترثابت کرناچاہاہے۔
اپنی مثنوی’تنبیہ الجہال‘میں وہ کم علموں کونشانہ بناتے
ہیں ؎
نکتہ پردازی سے اجلافوں کوکیا
شعرسے بزازوں، ندافوں کوکیا
یعنی میر کے نزدیک ادنیٰ سمجھے جانے والی ذات کے لوگوں کو شعر یا شاعری
سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اگر موجودہ سماجی تناظر میں دیکھیں تویہ شعر قابلِ قبول نہیں ہے۔ میر کے
معاصرین نے میر کو بددماغ کہا ہے۔ قدیم تذکروں میں بھی میر کی بددماغی کے
تذکرے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔محمدحسین
آزادنے ’آب حیات‘ میں بھی ان واقعات کاذکرکیاہے کہ میرنے لکھنؤجاتے وقت تانگے میں
بیٹھے کسی شخص سے گفتگونہ کی یاجب آصف الدولہ نے انھیں رہنے کے لیے ایساپر
فضامکان دیاجس کے ایک طرف سبزہ زارتھاتومیرنے کبھی کھڑکیاںواکرنے کی بھی زحمت نہ
اٹھائی۔میرنے اپنی دیوانگی کاواقعہ مثنوی ’خواب وخیال‘ میں قلم بندکیاہے ؎
نظرآئی اک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خوروخواب میں
میر تقی میرنے اپنی ذہنی بیماری یا دیوانگی کا ذکر اپنی
آپ بیتی (ذکر میر) میںبھی کیا ہے کہ ان کی کیفیت آسیب زدہ ہوگئی تھی، لوگ ان سے
ڈرنے لگے تھے اور جب چاند نکلتا تو ان کے لیے قیامت ہوتی تھی۔ کم و بیش چار پانچ
مہینے میر اس کیفیت سے دوچار رہے۔ میر نے اس بیماری کے علاج کے بارے میں بھی لکھا
ہے کہ میرے والد کے مرید فخرالدین خاں کی بیوی نے میرے علاج پر بہت روپیہ خرچ کیا۔
کلب علی خاں فائق نے اپنے مضمون ’حیات میر‘ میں لکھا ہے:
’جب
میر1153 ہجری(1740-41 عیسوی) میں دیوانے
ہوئے توفخرالدین خاں کی بیوی نے میر کا علاج کیاتھا۔ــ‘‘8
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی کتاب ’نقد میر‘ (ص 74-75) میں
میر کی بے دماغی اور بد دماغی کے فرق کو سمجھاتے ہوئے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس کے
علاوہ ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے مضمون ’میر کا فن اور پاگل پن‘ میں میڈیکل سائنس کو
مدنظر رکھ کر میر کی اس ذہنی بیماری پر مزید روشنی ڈالی ہے۔9 ، میر نے اپنی بد دماغی کا خود بھی اعتراف کیا
ہے ؎
صحبت کسوسے رکھنے کااس کونہ تھادماغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا ملا دماغ
اتنی بھی بدمزاجی ہرلحظہ میر تم
کو
الجھائوہے زمیں سے جھگڑاہے آسماں سے
اٹھا جو باغ سے میں بے دماغ تو نہ پھرا
ہزار مرغِ گلستاںمجھے
پکار رہے
لیکن جب ہم ان کے طنز و
تمسخر اور خوش طبعی پرمبنی اشعار دیکھتے ہیں تومیرکی بددماغی پریقین کرنے کوجی نہیں
چاہتا ؎
مکے گیا، مدینے گیا، کربلاگیا
جیساگیاتھاویساہی چل پھرکے آگیا
میرجی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کوجاتے ہیں
میر کاکلام وہ خریطۂ جواہرہے جس میں ہرطرح کانگینہ
موجودہے اور جومیرکی صرف ایک تصویربنانے سے بازرکھتاہے۔میر کبھی غم دیدہ ونم دیدہ
نظرآتے ہیں توکبھی طنزوتمسخرکاکیریکیچر بھی بن جاتے ہیں۔اگر’ذکرمیر‘کے آخرمیں
شامل چندلطیفے ہی دیکھ لیے جائیں تومیرکی حس مزاح جیتی جاگتی نظرآتی ہے۔اپنی خامیوں
یاشخصیت کا مذاق اڑانااعلیٰ ترین مزاح سمجھاجاتاہے جس کاثبوت میرنے اپنے کلام میں
فراخ دلی سے کیاہے ؎
ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پرچلے گی تلوار رفتہ رفتہ
بات اپنے ڈھب کی کوئی کرے، وہ توکچھ کہوں
بیٹھاخموش سامنے ہوں ہوں کروں ہوں میں
اس نوعیت کے اشعار میر
پر لگائے گئے درد و غم، مایوسی اور حزن وملال کا لیبل چسپاں کرنے سے باز
رکھتے ہیں۔ اگر ہم میر کے غم و ہجر پر مبنی اشعار کی بنیاد پر انھیں قنوطیت کا
شاعر مان لیتے ہیں تو پھر طنز و تمسخر پر مبنی اشعار کو کس خانے میں رکھیں گے؟
ایک پہلویہ بھی ہے کہ میرنے کئی مثنویاں لکھیں جن میں
وحوشیات بھی ہیں۔شکارنامہ،اژدرنامہ،مورنامہ،مو ہنی بلی، دربیان مرغ بازاں اوردربیان
بزوغیرہ۔
میرنے ’اژدرنامہ‘ میں خود
کو ’اژدہا‘ اوردوسرے معاصرشعرا کو ’کیچوا، چھپکلی، گیدڑ، مینڈک اور چوہا‘ قرار دیا
ہے۔ محمد حسین آزادنے’آب حیات‘ میں
اورقدرت اللہ قاسم نے اپنے تذکرہ ’مجموعہ نغز‘ میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ
آزادنے حسب عادت ’بچھو‘ اور ’ کنکھجورے‘
کا اضافہ کردیاہے جس کا ذکر اس مثنوی میں نہیں ہے۔
کہنے کامطلب یہ ہے کہ اگرمیرنے ’اژدرنامہ‘میں خود کو
’اژدہا‘کہاہے توکیاہم بھی انھیں’ اژدہا‘ تسلیم کرلیں؟
کسی بھی شاعر کے کلام کا اس کی زندگی پر اطلاق کرنا
قابل قبول نہیں ہے۔ ریاض خیر آبادی کا ایک مکمل دیوان خمریات پر ہے لیکن انھوں نے
شراب نوشی تو درکنار کسی شرابی کو نہ دیکھا ہوگا۔ عمرخیام نے ساری زندگی شراب
کوہاتھ نہیں لگایالیکن ان کی تمام ترشاعری شراب ومے خانے سے معمورہے۔
حالانکہ شراب،ساقی،مے خانہ کلاسیکی غزل کے اہم موضوعات
ہیں۔میرنے بھی ان تمام موضوعات کوبرتنے سے گریزنہیں کیا ؎
مے خانہ وہ منظرہے کہ ہرصبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سرآوے
کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میرجی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کرشراب کیاکیا
لیکن ہم ان اشعارکی بنیادپریہ نتیجہ اخذ نہیںکر سکتے کہ
میرشراب کاشوق رکھتے تھے۔
ٹی ایس ایلیٹ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’شخصیت‘
یا ’ذات‘ کو ادبی اظہار کے ضمن میں شمار نہیں کرتا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ شاعر کسی
جذبے کا نہیں بلکہ محض ایک وسیلے (میڈیم) یعنی صنف سخن کا اظہار کرتا ہے۔ شمس
الرحمن فاروقی اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’جولوگ غزل کوخودنوشت
کے طورپرپڑھتے ہیں وہ کلاسیکی غزل کی شعریات سے ناواقف ہیں۔‘‘10
مزید لکھتے ہیں:
’میرکاکمال
یہ نہیں ہے کہ انھوں نے غزل کے پردے میں اپنی داستانِ عشق نظم کر دی۔کلیات کامعمولی
سامطالعہ بھی بتادے گاکہ مختلف واقعات وکیفیات وحالات و جذبات کایہ بیان، ایسے رویّوں
کابیان جوآپس میں کسی طرح بھی Consistent نہیں
ہیں۔‘‘ 11
تاہم میر کے شہرآشوب یا بعض غزل کے اشعار دلّی کی تاریخ
اور سیاسی واقعات پر بخوبی روشنی ڈالتے ہیں جس کی بڑی مثال یہ شعر ہے ؎
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
اس کے علاوہ بھی دلّی کی تباہی کے بارے میں ایسے اشعار
موجود ہیں جو دلّی کے سیاسی، سماجی و معاشی حالات کے عکاس کہے جا سکتے ہیں ؎
دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصوّر تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
خرابہ دلّی کا دہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں
دل کی آبادی کو اس حد بدخرابی کہ نہ پوچھ
دل و دلّی دونوں ہیں گرچہ خراب
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر گزرا
پہ کچھ لطف اس اجڑے نگر میں ہے
دلّی تھی طلسمات کہ ہر جا گہ میر
ان آنکھوں سے آہ ہم نے کیا کیا دیکھا
ان اشعار سے میر کے زمانے کی سیاسی و سماجی وارداتوں کا
انکشاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن ذات کا مکمل اظہار ممکن نہیں۔ خواجہ احمد فاروقی کے
الفاظ کے ذریعے میں اپنی بات کو مزید واضح کرنا چاہتی ہوں
:
’اصل
یہ ہے کہ میر کی سیرت اور کلام میں بہت سے تناقضات ملتے ہیں اور بعض وقت تو ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ دو میر ہیں۔ ایک کی غیرت، حمیت، شرافت، کشادہ قلبی اور پاک مشربی
کی انتہا نہیں۔ دوسرا بے دماغ اور مغرور ہے۔ وہ اپنے آگے کسی کو نہیں سمجھتا۔ کبھی
کبھی وہ رئیسوں اور امیروں سے بھی ملتا ہے، دلی کے کج کلاہ لڑکوں سے بھی دل بہلاتا
ہے۔ مدح بھی لکھتا ہے، ہجو بھی۔ وہ ذاتی عناد کی بنا پر حقائق پر پردہ ڈال سکتا ہے
اور احسانات سے قطع نظر کرسکتا ہے۔ ‘‘ 12
مختصراً کہاجاسکتاہے کہ میرتقی
میرکا غزلیہ کلام ان کی تخلیقی قوتوں کامظہرتوہے لیکن اسے سوانحی کلام سے تعبیرنہیں
کیاجاسکتا۔غزل کا پیمانہ ہی بنیادی طور پر محدود ہوتا ہے۔ اس میں کسی بڑے خیال یا
کسی سیاسی و سماجی واقعے کی تفصیلات نظم کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ
کلاسیکی غزل میں داخلیت اور رمزیت کا عنصر زیادہ پایا جاتا تھا اور عہد میر میں
اردو غزل فارسی غزل کے بالمقابل اپنی نئی شناخت قائم کررہی تھی۔ اس لیے میر کی غزل
میں باقاعدہ سوانحی یا سیاسی عناصر کی جستجو یا امید کرنا مشکل ہی نہیں غیر حقیقی
بھی ہے۔
حواشی
.1 مجنوں گورکھپوری،مضمون:
’میر اور ہم‘، مشمولہ : دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو (میر: حیات اور غزل، جلد اول)،
مرتبہ ریشماں پروین،ص270
.2 بحوالہ: انتخاب
کلام میر،مرتب حامدی کاشمیری، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی
.3 محمدحسین
آزاد،آب حیات، ص202-203اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ 1982
.4 کلیم الدین احمد،
اردوشاعری پرایک نظر،پرانی شاعری،حصہ اول،ص130،بک امپوریم،سبزی باغ،پٹنہ 1985
.5 مجنوں گورکھپوری،
مضمون: ’میر اور ہم‘، مشمولہ : دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو (میر: حیات اور غزل، جلد اول، مرتبہ ریشماں پروین،ص275
.6 مجلہ غالب نامہ، میر
تقی میر نمبر، جولائی 2000، جلد 21، شمارہ2
.7 دلّی کالج میگزین،
میر نمبر میں یہ دونوں مضامین شامل ہیں۔
.8 بحوالہ مضمون: حیات
میر،کلب علی خاں فائق،دلی کالج میگزین، میر نمبر 1962، ص56
.9 خالد سہیل، میر کا
فن اور پاگل پن، مشمولہ میر تقی میر عالمی سمینار (مجموعہ مقالات)، غالب اکیڈمی، کینڈا
.10 شمس الرحمن فاروقی،
شعر شور انگیز، جلد۔ اول، ص144
.11 شمس الرحمن فاروقی،شعر
شور انگیز، جلد۔ اول، ص144
.12 خواجہ احمد فاروقی،
میر تقی میر- حیات اور شاعری، انجمن ترقی اردو ہند، ص 264
Dr Aaliya
Assistant professor
Zakir Husain Delhi College (E)
University of Delhi,
Delhi - 110002
aaliya321.in@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں