19/8/24

قرۃ العین حیدر اور ساگا ناول، مضمون نگار: شہاب عنایت ملک

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

اس سے پہلے کہ قرۃ العین حیدراورساگاناول پربحث کروں یہ ضروری بنتاہے کہ ساگاناول کے بارے میں جاناجائے کہ یہ کس قسم کاناول ہوتاہے۔ اصل میں یہ ناول کی ہی ایک قسم ہے جس میں ناول نگارکسی شخص یا پھر کسی ایک خاندان یاکنبے کے نسل درنسل حالات و واقعات کو قلمبندکرتاہے۔ ناول کی اس قسم میں ناول نگاراپنے خاندان کے کسی شخص یاکسی دوسری بڑی شخصیت کے بارے میں اس کی زندگی اوردوسرے کارناموں سے متعلق تفصیلاً اظہار ِ خیال کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے ناولوں کاکینوس وسیع سے وسیع ترہوتاہے کیونکہ اس کینوس میں ناول نگاربے شمارواقعات کوقلمبندکرکے قاری کو ہر واقعے سے روشناس کراتاہے اوریوں قاری کے سامنے اس شخصیت کی زندگی کے مختلف دریچے واہوجاتے ہیں۔

ساگاناول کی عالمی روایت کے ابتدائی نقوش گیارہویں صدی میں ملناشرو ع ہوجاتے ہیں اوریہ نقوش آئس لینڈ کی طرف ہجرت کرنے والے شریفوں اورنچلی سطح سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے یہاں ملتے ہیں۔ان ناولوں کی تقریری صورت ہوتی تھی لیکن بعدمیں بارہویں صدی عیسوی میں اسے تحریری شکل دی گئی۔ان تجربات کوہم فیملی ساگاکے زمرے میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان میں ہجرت کرنے والوں کے آباواجداد کی نشانیاں اوران کی روایتوں کوپیش کیاگیاہے۔ کچھ ناولوں میں ناروے کے بادشاہوں کے کارناموں کوبھی پیش کیاگیاہے۔ ابتدائی دورکے ناولوں میں قصے اورڈرامے کا عنصرنمایاں طورپرنظرآتاہے۔ان ناولوں کی تحریری صورت ہمیں اس وقت ملتی ہے جب آئس لینڈ کے لوگ دیگرممالک میں تعلیم وتربیت کے مقصدسے جاتے ہیں اوردوسرے ممالک کے علمی،ادبی اورسائنسی اثرات سے متاثرہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں 1140 میں Saga of Saint کے عنوان سے پہلاتحریری ساگاناول وجودمیں آتاہے اس کے بعداس قسم کے اوربھی قصے لکھے گئے لیکن ان کے مصنفین کے بارے میں ابھی تک کوئی پتہ نہیں چل سکاہے۔ساگاناول کی روایت جب یورپ سے انگلستان پہنچی تووہاں کے ناول نگاروں نے معیاری ساگا لکھے اورفردواحد پرزیادہ زوردیا۔ان ناول نگاروں نے کنبے کے Concept کوبھی ختم کیا۔اس سلسلے میں تھامس مان کا ناول Joseph & Brother کوزیادہ شہرت ملی اور اسے ساگاناول کابہترین تجربہ بھی قراردیاگیا۔

ساگاناول کوہم دوقسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ تاریخی اورفرضی ساگا۔ تاریخی ساگاکسی تاریخی خاندان سے متعلق لکھاجاتاہے جب کہ فرضی ساگامیں ناول نگار کسی فرضی خاندان پرقلم اُٹھاتاہے۔ موضوع کے اعتبار سے یہ ناول خاندانی تعلقات اوررشتوں کوپیش کرتا ہے۔ چونکہ اس کاموضوع کسی ایک فردسے متعلق ہوتاہے۔اس لیے اس ناول کواگرہم اس فردکی سوانح حیات بھی کہیں تومبالغہ نہ ہوگا۔ناول کواورزیادہ موثربنانے کے لیے اس قسم کے ناول میں ناول نگار ڈرامائی عناصرسے زیادہ کام لیتاہے۔

ساگاناول کی اسی روایت کوہرادب میں برتا گیا۔ اُردو میں اس کا ایک ہی تجربہ ہوا ہے اور اس تجربے کو اُردو کی مایہ ناز ناول نگارقرۃ العین حیدر نے اس وقت پیش کیا جب انھوں نے تین جلدوں پرمشتمل ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ تحریر کیا۔ اس ناول کوفیملی ساگا اس لیے کہا جاسکتا ہے کیونکہ مصنفہ نے اپنے خاندان کے نسل درنسل حالات وواقعات کوقلمبندکیاہے۔ اس کی پہلی جلد1977، دوسری 1979اورتیسری 2001 میں اب تینوں جلدیں ایک ساتھ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ناول کے پہلے حصے میں قرۃ العین حیدرنے اپنے والد سجادحیدریلدرم اوران کے خاندان کے علاوہ ان ادبی شخصیات کاذکرکیاہے جوسجادحیدریلدرم کے حلقے میں تھے یاجن کے ساتھ سجادحیدریلدرم کے گہرے مراسم تھے۔ دوسری جلد میں انھوں نے 1947 سے لے کر 1988 تک کے اپنے اوراپنے خاندان کے تمام واقعات کااحاطہ کیاہے۔ اس حصے میں ان ادبی شخصیتوں اور رشتہ داروں کا بھی ذکر کیا ہے جو پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ جبکہ تیسری جلدمیں مصنفہ نے داستان ِ کشورِ ہند اور اعزا و احباب کی کہانی کوپیش کیا ہے۔  مصنفہ نے اس ناول کاعنوان اقبال کے اس مشہور ومعروف شعرسے اخذکیاہے        ؎

باغِ بہشت سے مجھے حکم ِ سفردیاتھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر

یہ شعربالِ جبریل کی تیسری غزل کاچھٹاشعرہے اوریہی شعر 1072 صفحا ت پرپھیل کرایک ضخیم تخلیقی کارنامہ بن جاتا ہے۔ مصنفہ نے پہلی جلدکواپنے بھائی کے ہونہاراولاد کے نام منسوب کرکے ایک مختصردیباچہ بھی تحریر کیا ہے۔ جس میں وہ یوں لکھتی ہیں:

’’اکیسویں صدی زیادہ دورنہیں ہے۔یہ بچے اور بچیاں آزادی کے بعد پیدا ہونے والی نسل میں شامل ہیں جوکارِ جہاں سنبھال چکی ہیں یاسنبھالنے والی ہے اورہم سے پہلے والوں نے دنیاکو اپنے وقت کے لحاظ سے اپنی نظروں سے دیکھا تھا۔یہ نئے لوگ اکیسویں صدی میں پہنچ کرتاریخی عوامل کوشاید ہم سے بہترطورپرسمجھ سکیں۔‘‘

)کارِ جہاں دراز ہے، ص12(

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ کیابیسویں صدی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تاریخی عوامل کوقبل والوں سے بہترسمجھاہے اوراس کاجواب ہاں میں ہے تواس میں خودقرۃ العین حیدرکے ماضی کی تلاش صاف طورپرجھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس تلاش کے لیے حسرت زدہ ہیں۔ آخریہ سوال کیوں پیداہواکہ قرۃ العین حیدرکو ’کارِ جہاں درازہے جیساطویل ناول لکھناپڑا۔ کارجہاں درازہے کی دوسری جلدکے آخرمیں اقبال کی مشہورومعروف نظم مسجد قرطبہ کے پہلے بندکے چھٹے شعرکومصنفہ نے تحریرکیاہے ع

تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا

جب کہ اس کادوسرامصرع یوں ہے   ع

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

اقبال کے اس شعرمیں ہمیں وقت کاتصورملتاہے اوروقت چونکہ قرۃ العین حیدرکے ناولوں میں خاموش کردار کاروپ بھی ادا کرتاہے۔اس لیے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ناول نگارنے وقت کواہمیت دے کراپنے خاندان کے ماضی کی داستان کورقم بندکرنے کی ایک بہترین کوشش کی ہے۔ناول کے دوسرے حصے کے اختتام پرمصنفہ یوں رقمطرازہیں:

’’دوستوجلداول میں 1745 سے 1947کی داستان تاجیک نژاد افسانہ خواں میڈیول مورخ کاصوفی تذکرہ نگار،فیوڈل داستان گو،وکٹورین ناولسٹ، سیاسی کالم نویس اور اُردو افسانہ نگارکے روپ میں آکر آپ کو سنائی۔‘‘(کارجہاں درازہے،ص763)۔

ناول پڑھنے کے بعدیہ معلوم ہوتاہے کہ یہ سوانح عمری صدیوں پرپھیلی ہوئی ہے اور قرۃ العین حیدر نے یہ داستان لکھ کر اپنے آپ کومندرجہ بالاسب ہی شکلوں میں دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شکلیں قرۃ العین حیدرکے وجود کا اشاریہ بھی بن جاتی ہیں۔مصنفہ نے اس ناول میں اپنے فکر اور فلسفے کوبھی بیان کیاہے۔ وہ اس ضمن میں یوں لکھتی ہیں:

’’اپنی سچائی کوشانتی اورصراحت کے ساتھ بیان کرو اور دوسروں کوسنو،کیونکہ ان کے پاس بھی ان کی کہانی موجود ہے اوریادرکھوکہ زمین کی گھاس اورآسمان کے درخشاں ستاروں کی طرح تم بھی کائنات کے بچے ہو اور چاہے تمھاری سمجھ میں یہ بات نہ آئے مگر کائنات متواتر اور پیہم اپنے اسرار منکشف کررہی ہے اور اپنی تمام بیہودگیوں اور کلفتوں کے باوجود دُنیا بڑی خوبصورت جگہ ہے۔

(کارجہاں درازہے۔پیش لفظ)۔

قرۃ العین حیدرکے مندرجہ بالاقول سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ یہ ایک دلچسپ سوانحی فیملی ساگاناول ہے جس کاموضوع مصنفہ کے آباواجداد اورخوداپنی زندگی کی عمرانی سوانح ہے جسے مختلف قسم کے واقعات بیان کرکے اسے ایک بہترین ساگا ناول بناکرپیش کیا گیا ہے۔

مصنفہ نے چونکہ اس کوایک سوانحی ساگاقراردیاہے اسی لیے وہ مختلف النوع ماخذوں کابھی ذکرکرتی ہیں اورآخر میں وہ سوانحی ادب کی معنویت اورعصریت پر یوں فرماتی ہیں:

’’اس نوع کی درجنوں تازہ ترین کتابیں ہرمہینے انگلستان اورامریکہ میں چھپ رہی ہیں، اجتماعی ناول رائٹرزنوٹ بک اورفیملی ساگا ان کے علاوہ (ہمارے ہاں ان اصناف ادب پربہت کم توجہ دی گئی ہے )بالخصوص فیملی ساگا آج کل انگلستان میں ازحدمقبول ہیں کیونکہ وہاں فیملی ختم ہوچکی ہے۔‘‘(کارجہاں درازہے۔پیش لفظ)۔

سوانحی ناول کی تکنیک اوراس صنف ادب کے بارے میں انھوں نے لکھاہے کہ اس قسم کاناول لکھنے کی تحریک انھیں رالف رسل نے دی تھی اوراس وقت ان کے تصورمیں نہ تو کوئی تکینک تھی اورنہ صنف ادب۔وہ مزیدلکھتی ہیں کہ جب وہ لکھنے بیٹھیں توتکنیک اورصنف ادب آپ سے آپ بن گئی اوراس طرح سے ان کایہ سوانحی ناول وجودمیں آیالیکن میں قرۃ العین حیدرکے اس بیان سے اختلاف کرتاہوں کیونکہ کوئی بھی تکنیک یاصنف دفعتاً وجودمیں نہیں آتی ہے۔اس کاایک تدریجی ارتقا ہوتا ہے اورارتقائی دورمیں تراش خراش کاعمل بھی جاری رہتا ہے۔ میراماننایہ ہے کہ قرۃ العین حیدرنہ تو کسی صنف کی موجدہیں اورنہ ہی کسی تکنیک کی۔

اس قسم کی تکنیک انگریزی ادب میں پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس بات سے انکارکرتی ہیں کہ وہ کسی بھی انگریزی دانشورسے متاثرنہیں ہوئی ہیں مثلاً کارجہاں دراز ہے کی تیسری جلدمیں ایک محفل میں تقریرکے دوران قرۃ العین حیدرنے ان جذبات کا اظہار کیاہے:

’’...اب نقادوں نے مثال کے طورپرسب سے پہلے تومیرے لیے یہ کہاکہ میں ورجیناوولف کی طرح لکھتی ہوں یاان سے متاثرہوں۔اس وقت تک میں نے ورجیناوولف کوپڑھاہی نہیں تھا... اچھایہ بہت دنوں تک چلتا رہا پھر تحقیق کیا گیاکہ میں ہینری جیمس سے متاثر ہوں۔‘‘

)ایضاً، ص 84)

مجھے یہاں اس بحث میں نہیں پڑناہے کہ قرۃ العین حیدرکسی ادیب سے متاثرہوئیں یا نہیں۔ دراصل میرے کہنے کامقصدیہ ہے کہ جب قرۃ العین حیدر نے یہ ناول لکھناشروع کیا اوران کی محنت،ریاضت اورمشقت کے نتیجے میں یہ ناول ’لائف اینڈٹائمز‘ کی صورت اختیار کرگیا۔ ان تینوں جلدوں کاساگاہونے میں کم از کم مجھے کوئی شبہ نہیں ہے اوراس بات کامیں بھی اقرارکرتاہوں کہ یہ اُردوکاپہلااورآخری ساگاناول ہے کیونکہ مصنفہ نے اس میں اپنے آبا واجداد اورخوداپنی زندگی کے واقعات کو ادبی، سیاسی، تاریخی تینوں حوالوں سے بیان کیاہے۔اس ناول میں تاریخیت کاعنصربھی بدرجہ اتم موجودہے۔ اس میں فلسفہ بھی ملتاہے اورادب کی مختلف تحریکوں کاذکربھی ملتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو مندرجہ ذیل اقتباسات دیکھیے:

’’سجادحیدریلدرم نیٹورضلع بجنور(یوپی) کے ایسے پڑھے لکھے زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے خاندان کے افرادمغلیہ دربارمیں سہ ہزاری پنج ہزاری منصب دار رہے۔ یلدرم کے لکڑدادا سید حسن وسط ایشیا سے  ہندوستان آئے۔ خاندان میں کچھ عورتیں پڑھی لکھی بھی تھیں۔ یلدرم کی نانی سیدہ ام مریم نے تو قرآن شریف کا فارسی میں ترجمہ بھی کیاتھا۔‘‘ (کارجہاں درازہے۔جلداول)

’’راقم الحروف پیرزادی کے لیے روایت ہے حسین ماموں اور ایلین ماموں نے اذان واقامت کانوں میں پھونکی اورسن شریف چھ روز کاتھا جب بوجہ علالت شدید رنگ نیلاپڑا اسم نیلوفررکھاگیا۔طبیب نے ایک پہلوان ہبوڑن شہرآگرہ سے بطور انامنگوائی کہ خانہ بدوش اورغالباً جرائم پیشہ قبیلہ ہبوڑن سے تعلق رکھتی تھی۔بعدکچھ مدت کے خالومیرافضل نے نیلوفرمنسوخ کرواکرزریں تاج طاہرہ کے اسم گرامی پرنام قرۃ العین رکھا۔(ایضاً، ص 303)

میرے گھرپربیرہ سفیداچکن پرسرخ نواڑی پیٹی کس کراورصافے کی آڑی نواڑی پیٹی پرایس ایچ کا چاند کا مونوگرام لگائے سفیددستانے پہن کرلنچ اور ڈنر سرو کرتاتھا۔(ایضاً، جلداول)

’’گھرپرقرآن شریف پڑھانے کے لیے ایک مولوی صاحب مقرر کیے گئے۔ اٹاوہ میں بھائی کو جو مولوی صاحب دینیات اورقرآن شریف پڑھانے آتے تھے وہ اسلامیہ ہائی اسکول کے پرانی وضع کے مدرس تھے۔ایک مرتبہ انھوں نے بھائی سے کہاتھا... ہم نیک سیرت آدمی ہیں، تمھاری والدہ سامنے کھڑی تھیں، ہم خودہی مٹ گئے... لکھنؤ  والے مولوی صاحب ندوہ کے ایک ہنس مُکھ غریب طالب علم تھے۔ یہ بہت ماڈرن نکلے۔ انہماک سے ریڈیو سنتے اوربرآمدے میں پڑی انگریزی کتابیں اٹھاکرپڑھنے لگتے۔بغدادی قاعدہ شروع کرنے سے قبل انھوں نے مجھ سے دریافت کیا۔بیٹاآپ لوگ والدوالین پڑھتے ہیں یاوالضالین؟‘‘۔ میں نے کہا معلوم نہیں۔ جو آپ کاجی چاہے پڑھادیجیے۔‘‘ (ایضاً، ص 386)

ناول کارجہاں دراز ہے میں قرۃ العین حیدر نے جہاں ایک طرف اپنے والد سجادحیدریلدرم کی زندگی کے احوال کورقم کیاہے وہیں اپنی والدہ نذر سجادحیدرکی زندگی کے حالات وواقعات پربھی روشن خیالی کے علاوہ اُن کے نام بدل کر لکھنے کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ یہی نہیں انھوں نے ان کی بعض اصلاحی کہانیوں کاذکرکرنے کے علاوہ ’عصمت‘ نام کے اُس رسالے کاذکربھی کیاہے جس میں وہ اپنی یادداشتوں کوتحریرکیاکرتی تھیں۔ دوسری اورتیسری قسط میں پاکستان کے ذکرکے علاوہ مصنفہ کی پاکستان میں ملازمت دوستوں اورادبی محفلوں کے احوال بھی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے اسفارکے علاوہ ادبی محافل اورادبی شخصیات کاذکر بھی ملتاہے جن میں قرۃ العین حیدرکااُٹھنابیٹھناتھا۔

اپنے بچپن کی بھولی بسری یادوں کاذکربھی قرۃ العین حیدر ناول میں جگہ جگہ کرتی نظرآتی ہیں۔ادبی زندگی اورتخلیقات کاذکربھی قرۃ العین حیدرکی تینوں جلدوں میں جگہ جگہ کیاگیاہے۔یہ تمام چیزیں اس ناول کوفیملی ساگا کے زمرے میں کھڑاکردیتی ہیں۔قرۃ العین حیدرنے خود بھی اسے سوانحی ناول قراردیاہے:

’’عرصہ ہوا جب رالف رسل نے مجھ سے کہاتھاکہ مجھے ایک لائف اینڈٹائمزقسم کی چیز لکھناچاہیے۔ اس وقت اس کتاب کاکوئی تصورمیرے ذہن میں نہ آیاتھا لیکن جب لکھنے بیٹھو توتکنیک اورصنف ادب آپ ہی آپ بن جاتی ہے اورحقیقت افسانے سے عجیب تر ہے۔چنانچہ ایک سوانحی ناول وجودمیں آیا۔‘‘

)قرۃ العین حیدر:کارِ جہاں درازہے، ص31(

قرۃ العین حیدرکواس بات کااحساس تھاکہ اُردومیں سوانحی ادب کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے جبکہ مغرب میں اس قسم کاادب لکھنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اُردومیں اسی کمی کوپوراکرنے کے لیے انھوں نے کار ِجہاں دراز ہے جیسافیملی ساگا تحریرکیا:

’’مغرب میں کسی ادیب یا شاعر کا نام لے لیجیے۔ ہربرٹ ایڈ، ورجینا وولف، شان اوکیسی، ولیم پلومر، براوزبرٹ سٹ ویل، ایلزبتھ اسیندراثرووڈ، سارتر، سیمون، دوبووا (جوزف ہون ہیکتھ پیرسن، ہربرٹ گورمین وغیرہ پرمشتمل سوانح نگاروں سے قطع نظراوران کے لکھے ہوئے سوانحی ادب کاانبارآپ کومل جائے گا۔‘‘(ایضاً، ص 31(

اس ناول میں صرف قرۃالعین حیدر کی داستان حیات نہیں ہے بلکہ ان کے خاندان کی پوری تاریخ رقم کر دی گئی ہے اس لیے یہ ناول سوانحی ناول سے بلند تر چیز ہے۔ ناول کی تخلیق میں غضب تحقیقی کاوش موجود ہے۔ مصنفہ نے اسے تاریخی اورخاندانی دستاویزات کی بنیاد پر اپنے تخیل کی مدد سے تخلیق کیا ہے۔ یہی دستاویزیت اور تخیل کی آمیزش اس کو سوانحی دستاویزی ناول کے درجہ تک لے آتی ہے۔ قرۃالعین حیدر کی تاریخ اور اپنی جڑوں کی تلاش سے دل چسپی اوران ورثاء کی عادات کی بدولت تاریخی حقائق کی دستاویزات کا ایک خزانہ ان کے ہاتھ آ جاتا ہے۔ پھر قرۃ العین حیدر کا تاریخی شعور اور فنی پختگی اسے’کار جہاں دراز ہے‘ جیسے شاہکار میں ڈھال دیتا ہے۔  تاریخ کی کھوج اور دستاویزات کے حصول کے لیے مصنفہ کو خاندان والوں کی مدد بھی لینا پڑی۔ قرۃالعین نے اس ناول میں ایک اور دستاویزی انداز یہ اپنایا ہے کہ ہر باب کے آخر میں کسی تحقیقی مقالے کی طرح حوالہ جات بھی شامل کر دیے ہیں جہاں سے انھوں نے یہ تاریخی شواہد حاصل کیے ہیں۔ یہ اس ناول کی دستاویزیت کی ایک اور منفرد مثال ہے۔ ناول میں مختلف کردار ہیں جن کی زبانی ایک طرح داستانیں بیان ہوئی ہیں۔اس ناول میں خود قرۃالعین حیدر کا اپنا کردار ہے۔ جو ابتدائی جلد میں پس منظر میں رہتا ہے مگر آگے چل کر اس کی زندگی کی کہانی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا رہتا ہے مزید دلچسپ اور داستانی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت تاریخی واقعات و حادثات جب قرۃ العین حیدر کے قلم کے نیچے آتے ہیں تو ان میں خشکی کے بجائے ایک تری پیدا ہوجاتی ہے اور قاری تاریخی واقعات کو داستان کی طرح پڑھتا چلا جاتا ہے۔

مختصراً کارجہاں دراز ہے اُردوکاایک بہترین فیملی ساگاہے جس میں تجسس بھی ہے اوردلچسپی بھی۔قاری یہ ناول پڑھ کرکبھی حیرت زدہ ہوتاہے اورکبھی وہ مسرت کی کیفیت سے گزرکرحسرت اورعبرت،واقعات وحادثات کے تسلسل میں تمثیل حیات کے کرداروں کے ہمراہ زندگی کاسفرطے کرتاہوا ایک سیاح کی طرح مختلف حادثات اور مناظر کامشاہدہ کرتاجاتاہے اورقرۃ العین حیدرکی عظمت کااعتراف کرتاجاتاہے۔جس کی وجہ قرۃ العین حیدرکی بے مثال بصیرت اورفکرہے۔جوصدیوں پرمحیط داستان کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئی ہیںاوراگرمیں قرۃ العین حیدر کواُردومیں ساگاناول کا موجد کہوں تومبالغہ نہیں ہوگا۔ اُردومیں قرۃ العین حیدرنے ’کارِ جہاں درازہے‘لکھ کرپہلا اور آخری ساگاناول نگار ہونے کاشرف حاصل کیاہے۔ ان کی قائم کردہ اس روایت پراُردوکے کسی بھی ناول نگارنے ابھی تک چلنے کی کوشش نہیں کی اورمستقبل میں بھی یوں لگتاہے کہ ناول کی یہ اہم شاخ قرۃ العین حیدر تک ہی محدود ہوکررہ جائے گی۔

 

Prof. Shohab Inyat Malik

Prof. and Head, Dept of Urdu

Jammun University

Jammu- 180006 (J&K)

Mob.: 9419181351

Email.: profshohab.malik@gmail.com

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...