19/8/24

مجروح: فہم و ادراک بنام رومان،مضمون نگار: سہیل کاکوروی

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024


ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں کچھ شاعر غزل کا پرچم بلند کیے ہوئے  تھے۔  مجروح ،  فیض کسی حد تک مجاز  لیکن ان میں غزل کے حوالے سے مجروح کا قد سب سے بلند ہے۔  ان کی چالیس سے کچھ اوپر غزلوں کا ایک دیوان غزل کے نام سے دستیاب ہے۔  اتنے کم کلام کے باوجود نہ تو شمس الرحمن فاروقی نے ان کو نظر انداز کیا نہ گوپی چند نارنگ کے قلم نے ان کی شاعری کے محاسن بیان کرنے سے گریز کیا اور کسی ناقد نے فلم سے ان کی وابستگی کو ان کی تخلیقیت سے متصادم نہیں پایا۔ مجروح  کے وجود میں نغمۂ سرمدی جاری و ساری تھے ان کی ہر غزل میں پرانی علامتوں نے نیا روپ بھرا ہے  اور غزل اپنے اصل معانی کے ساتھ ان کی تخئیل کے رنگوں سے سج کر وجود میں آتی ہے فکر کی بلند پروازی سے جس شاعری کی تعمیر ہوئی ہے جو شاعری کی تعمیر نو کا اشاریہ ہے۔  اس میں قد و گیسو کی نشاط انگیزی بھی ہے اور فتوت عشق کا وہ پہلو بھی ہے جو دار و رسن کے قصۂ معنی خیز کی صورت میں موجود ہے۔  مجروح قد و گیسو اور دار و رسن کو یکجا کرکے ایک ہی مصرع میں حسن کی نمود اور اور اسی میں سر دادگیِ عشق کی بات کرتے ہیں         ؎

جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے

قدو گیسو سے اپنا سلسلہ دار و رسن  تک ہے

دعا دیتی ہیں راہیں عشق کی مجھ آبلہ پا کو

میرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے  چمن تک ہے

دوسرے شعر میں بھی وہی بات بہ انداز دگر ہے۔ عشق کی راہیں بیاباں سے چمن تک جاتی ہیں،  ہجر کی وحشت صحرا نوردی کی صورت میں کبھی مقدر بنتی ہے اور کبھی اطمینان وصل گلگشت چمن سے ہم کنار کر دیتا ہے لیکن آبلہ پائی یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ گلکاری دونوں حالتوں میں اسی سے ممکن ہے۔ عشق کی راہیں دونوں سمت جاتی ہیں گلکاری سے یہ راہیں رنگین ہیں اور دعا عشق کی استقامت کو دی جارہی کہ جس میں آبلہ پائی بھی یوں کام کی ہے کہ اس کی گلکاری کی رنگ آمیزی سے مجروح کا جمالیاتی شعور شعر کا حسن  ہے ان کی فطرت میں زبردست بانکپن تھا جو ان کی شاعری کے اسلوب میں بھی پیوست ہے

اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں

موج کو گیسو  بھنور کو چشم جانانہ کہیں

ہر لفظ سے ایک علامت قائم ہو رہی ہے۔ مخاطب اہل طوفان ہیں ان کو یہ بتانا مقصود ہے کہ طوفان عشق میں نظارگیِ امواج گیسوئے جاناں کے حسن سے چشم جانانہ کے بھنور میں ڈوب جانے کا امکان  فنا اور بقا کی بات بلاغت متکلم کا آئینہ ہے جس غزل کا یہ مطلع ہے اس کے ایک شعر میں میری اور مجروح کی یادگار ملاقات کا ایک قصہ ہے ۔یہ واقعہ سنہ 1993 کا ہے۔  لکھنؤ کے معروف شاعر مرحوم بشیر فاروقی میرے والد کے شاگرد اور میرے عزیز دوست تھے۔  میں نے اپنی انجمن ادبی منچ کے زیر اہتمام ان کی شعری خدمات کے اعتراف کے لیے  ان کے جشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔ مجروح سے بشیر بھائی کی حقیقی خالہ زاد بہن منسوب تھیں اس رشتے کے سبب مجروح کے بشیر بھائی سے تعلق کی راہ تو کھلی لیکن تعلق خاطر بتدریج ارتقا پزیر ہوا اور مجروح کی طبیعت اور بشیر بھائی کی فطرت کی ہم آہنگی سے قربت کے پھول کھلے اور مجروح جشن میں آنے کو تیار ہوئے اور ان کا قیام اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس لکھنؤ میں ہوا۔ جشن کے دن بشیر  بھائی نے کہا آپ میزبان ہیں چلیے مجروح صاحب سے مل تو لیجیے۔  مجھے ایک آدھ بار انہیں دور سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا خیر بشیر بھائی ساتھ تھے میں پہنچ گیا۔  وہاں مجروح سفید کرتا پاجامہ زیب تن کیے  نیم دراز  تھے  پاکیزہ چہرہ دمک رہا تھا۔ سامنے ناقد اور شاعر  پروفیسر وارث کرمانی تشریف فرما تھے اور مجروح ان سے محو گفتگو تھے۔  بشیر بھائی سے خوش دلی سے ملے،  میرا سلام شاید قبول کر لیا۔جب میں دیر تک نظر انداز ہوا تو ایک ترکیب سوجھی،  میں نے خود ان کو مخاطب کیا اور ایک دم مذکورہ غزل کے ایک شعر کے متعلق کہا کہ جناب مجھے اس وقت  سے آپ سے ایک  شکایت ہے جب سے یہ شعر پڑھا۔ پوچھا کون سا شعر، میں نے کہا       ؎

سرخی مے کم تھی میں نے چھو لیے ساقی کے ہونٹ

سر جھکا ہے جو بھی اب ارباب میخانہ کہیں

میں نے کہا ساقی کے ہونٹ چھونے  کے بعد آپ پر رقص واجب تھا ارباب میخانہ کی طرف دیکھنا سمجھ میں نہیں آیا۔ مجروح اٹھ کر بیٹھ گئے اور اعتراف میں اور میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خود احساس ہو چکا  مصرع بدلنے کی کوشش کر لی ہو نہیں سکا۔ میری ترکیب کارگر ہوئی۔ وہ مجھ سے ہی مخاطب ہو گئے اور پوچھا کہ آپ بھی شعر کہتے ہیں ؟  میرا جواب اثبات میں تھا میں نے اس وقت جو تازہ غزل کہی تھی وہ سنانا شروع کی۔ میں دو ہی شعر سنا سکا اور غزل مکمل نہ ہو سکی اور جو ہوا اس کا بیان خودستائی کے زمرے میں آجائے گا لیکن مجروح اور پروفیسر وارث کرمانی کی کیفیات کا نظارہ حاصل دید ہو گیا  اور روح کا ماحصل ہو گیا۔ اس کی تفصیل میں نے مجروح کی حیات میں لکھی اور بشیر بھائی نے ان کو وہ مجلہ بھیج بھی دیا تھا جس میں میرے تاثرات چھپے تھے  اور مجروح پر اپنے کسی مضمون میں بشیر بھائی نے بھی پورا واقعہ لکھ دیا جس کو لکھنے سے گریز مجھ پر لازم ہے اب چلتے ہیں اسی غزل کے ایک اور شعر کی طرف جس میں مجروح کا عزم یوں ہے      ؎

دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلف صنم

سب ہمیں باہوش سمجھیں یا کہ دیوانہ کہیں

دار پر زلف صنم کا نعرہ اشاریہ ہے اس پھندے کا جو فہم عام کے مطابق فنا کے مقام کا تصور ہے لیکن یہ نزاکت دیکھنا ضروری ہے شاعرہمت حقیقی کے باعث خود دار پر چڑھا ہے اس نے مکتب عشق سے جانبازی کا سبق پڑھا ہے اور وہ زلف کے سائے میں بقا کے حصول کا یقین رکھتا ہے یہ پھندا کستا جائے اسی میں لطف ہے   یہاں مجھے اپنے ایک مشفق ماموں غلام مرتضی کیف کاکوروی کا شعر یاد آیا کہ        ؎

بانہیں ڈالے وہ گلے میں برسر پیکار رہے

زلف الجھی ہی رہے پھر بھی طرحدار رہے

لفظیات بھی الگ علامتیں بھی جدا لیکن اہل ذوق اس شعر کا مجروح کے شعر سے ربط پا لیں گے زلف کی طرحداری سے ہی اجرائے پیغام بقا ہے اور یہی سبب ہے بلندی نعرہ زلف صنم کا  ایک جسارت میں کر چکا ہوں اور اپنے خیالوں میں مجروح کو اپنا ہمنوا پاتا ہوں دراصل میں نے مجروح کے مشہور زمانہ شعر سے چھیڑ کی ہے        ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اپنی کتاب ’ تشکیل نو‘  اور ’ مجروح ایک بازدید‘ میں اس غزل پر میری غزل موجود ہے۔ یہ دونوں کتابیں بین المتونیت کے زمرے میں آتی ہیں کہ دستیاب متن پر توسیع کے طور پر متن کی تشکیل اس کے پہلے مصرع میں یوں ترمیم کی کہ:

جب تلک پرکھے نہ جائیں اس پہ اطمینان کیا

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

دانشوروں نے اس خیال کی تائید کی اور دعوے میں دلیل کی موجودگی کی تصدیق  بھی کی لیکن مجروح کے شعر کی عظمت میں کوئی کلام نہیں ہے اور پھر اسی غزل کے اس شعر میں          ؎

میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغر ہر خاص و عام

یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا

مجروح وہی چاہتے ہیں جو کہنے کی جرأت میں نے کی ہے جس طرح ہر ایک پیر مغاں بننے کا اہل نہیں ہوتا اسی طرح ہر کس و ناکس  وجہ تقویت کارواں نہیں ہو سکتا ۔اس بات سے ہٹ کر اس غزل میں مجروح کی فکر کے پر وقار رنگ دکھائی دیتے ہیں        ؎

شرح غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور

لفظ جو منہ سے نہ نکلا  داستاں بنتا گیا

اب چلتے ہیں فیض کے شعر کی طرف جو اکثر کوتاہ عقلوں کی ملامت کا نشانہ بنا          ؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

غزل کا دلچسپ شعر ہے اور  مابین حسن و عشق ایک ایسی فضا قائم کی گئی ہے جو ذہن سامع یا قاری کو مصروف فکر کر دیتی ہے لیکن یہ حصہ فسانہ عاشق ومعشوق کے لیے ہے اور اس کا رد عمل بھی معشوق کی ناگواری ہے یہی بات مجروح نے کہی شرح غم اس کے حضور کی لیکن اس اجمال کی تفصیل داستان بن گئی اور کسی بات کا داستان بن جانا اس کا لامحدود ہو جانا ہے مجروح نے  شرح غم کی اور وہ تفصیل کی راہ پر گامزن ہو گئی اور شرح غم کی گئی اس لیے جو لفظ منہ سے نہ نکلا  اسی میں  امکان تشکیل داستان ہے فیض اور مجروح دونوں عظیم بھی ہیں اور ہمعصر بھی شعر کس نے پہلے کہا یہ معلوم بھی نہیں اور اس کی تحقیق بھی عبث ہے

مجروح کا یہ دعویٰ تاریخ شعر و سخن  میں درج ہو گیا اور مورخ  نے اس سے اتفاق کرکے اس دور کی تاریخ میں درج کیا جس میں اصغر، جگر، حسرت، فانی اپنے اپنے رنگ میں غزل کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے بظاہر بیزار غزل گوئی جوش کی غزلیں بھی ناقابل فراموش ہیں نظم گو ہونے کے ساتھ وہ غزل گو بھی تھے ان کے انکار کی حد ان تک ہی تھی ایسے میں مجروح کو صف اول میں مذکورہ سخن وروں کی ہم نشینی حاصل ہوئی یہ وہ صحیح کہہ گئے ان کو اپنی ذات کا عرفان تھا وہی جو غالب کو تھا کہ   ع

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

ایسا کہنا نہ تعلّی ہے نہ مبالغہ یہ تو خود شناسی حاصل ہو جانے کے بعد اظہار حقیقت ہے       ؎

دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

 غالب کے بعد خیال بندی اور خیال آرائی میں جو بھی ہے مجروح کے بعد ہے وہ مشاعروں میں اپنی غزل ترنم سے پڑھتے تھے وہی ترنم جو جگر کی مقبولیت کی بنیاد ہوا لیکن مجروح کے اشعار ہر گز محتاج ترنم نہیں ہیں وہ اگر تحت میں بھی پڑھے جائیں تو بھی پڑھنے والے کے وجود میں پنہاں موسیقی سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ ان کے کلام کا جیسا اثر وجدان پر ہوتا ہے اس سے کچھ سوا فکر پر ہوتا ہے۔ یہ دو اشعار اس کی مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں         ؎

ملے جو وقت نواسنجیِ ہزاراں سے

ادھر بھی دیکھ تماشہ ہے میری کم سخنی

بہت جو کم ہے تو خال  رخ بہاراں ہے

میری نوا کو ملی ہے وہ داغ پیراہنی

یا             ؎

بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں

ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

یہ غزل فلم میں بھی شامل ہوئی اور بہت کامیاب ہوئی شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے یہ مطلع نہ سنا ہو        ؎

ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

بازار زندگی میں ذوق نظارگی پر خریداری ہاوی ہے اور یہی المیہ شعر میں بیان ہوا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مجروح کا شمار بائیں بازو کی فکر رکھنے والوں میں  ہوتا ہے۔ ارض ماسکو کی تحسین اپنی جگہ لیکن ان کی شاعری رومان کی پروردہ ہے ان کے یہاں متحرک تخیل کے ساتھ ان کی فہم ودانائی کا امتزاج معنی خیز ہے اوراس میں ایک  توازن ہے اور رومان کی سطح بہت بلند ہے

خنجر کی طرح بوئے سمن تیز بہت ہے

موسم کی ہوا اب بھی جنوں خیز بہت ہے

——

بہ نام کوچہ دلدار گل آئے کہ سنگ آئے

ہنسا ہے چاک پیراہن نہ کیوں چہرے پہ رنگ آئے

مجروح کے مزاج میں ایک خاص  وقار تھا وہ  اپنی ذات کی رعنائیوں میں گم رہتے تھے اس کو کوئی تکبر سمجھتا تھا تو سمجھا کرے میں حصول عرفان ذات میں اسے ان کی محویت سمجھتا ہوں اور ان کو جو کیفیات حاصل ہوئیں تھیں انھیں کا عکس جمیل ان کی شعری کائنات ہے جس کا لفظ لفظ  فروزاں ہے۔

مجروح کی شاعری کو دریا سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی یہ گہرائی میں بحرالکاہل اور وسعت معانی و مفہوم میں بحر اوقیانوس کا شکوہ کہتے ہیں۔ان کی شاعری میں تہہ داریاں ہیں اور ہمارے ناقد اکثر کسی کی شاعری میں سلاست  وروانی کا ذکر ضرور کرتے ہیں لیکن  مجروح  کے لیے صرف یہی الفا ط نہیں استعمال کیے جا سکتے ہیں کہ لفظیات اور استعمال لفظ کا تقاضائے آگہی ہے۔ اوراس کے علاوہ دل کے دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں جذبوں کو بیدار کرنا پڑتا ہے غزل دیکھیے        ؎

ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم ہیں پریشاں تم سے زیادہ

چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ

چاک جگر محتاج رفو ہے آج تو دامن صرف لہو ہے

اک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ

عہد وفا یاروں سے نبھایا ناز حریفاں ہم نے اٹھائے

جب ہمیں ارماں تم سے سوا تھا اب ہیں پشیماں تم سے زیادہ

جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لویں شمعوں کی کتر لو

زخم کے مہرو ماہ سلامت جشن چراغاں تم سے زیادہ

زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروح مگر ہم

کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں عالم زنداں تم سے زیادہ

احباب سے تخاطب کرتے ہیں۔ دل کا درد ان اشعار میں سمو دیا ہے۔ مطلع میں یقین کے ساتھ بتایا ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں زندگی میں صعوبتوں سے وہ زیادہ دوچار رہے ہیںیاروں سے عہد وفا نبھانا تو پھر بھی آسان ہے لیکن ناز حریفاں اٹھانابڑے جوکھم کا کام ہے۔ ایک نامعلوم وقت کا ذکر ہے شاعر کے ارمان جوان تھے اور ناز حریفاں اٹھانے کا عزم اب گذرے وقتوں پر پشیمانی مقدر ہو گئی ہے۔

اس کے بعد کے شعر میں پوشیدہ معنی لطف دے رہے ہیں۔ شمعوں کی لویں کترنے کا اذن دینا نیا خیال بھی ہے اور کچھ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا بام ان لووں سے روشن ہو جائے گا کہ جتنی روشنی کا اس کی دید کو ظرف ہے۔  اپنے لیے زخموں کے مہر و ماہ کا استعارہ لائے کہ وہی اپنی درخشندگی سے جشن چراغاںبرپا کر دے گا۔ اس شعر کے پہلے مصرعے کا اذن اور دوسرے مصرعے میں زخموں کے مہر و ماہ سے عشق کا عزم اور رجائیت کے پہلو روشن ہو رہے ہیں۔ یہ غزل میرے خیال سے آزادی سے قبل کہی گئی ہے۔ جیسا کہ یہ مصرع کہہ رہا ہے        ؎

کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں عالم زنداں تم سے زیادہ

خیالات کی نزاکت ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے اور اس غزل کو پڑھتے ہوئے بھی اہل نظر کو اس کا ادراک ہوتا ہے کہ جگر کی صحبت کا اثر ان کی شاعری کی نغمگی کو ضرور نکھار گیا لیکن شاعرانہ اصطلاحات اور تراکیب تراشنے میں ان کو انداز بیان غالب سے نسبت ہے۔ وہ تکمیل الطب کالج لکھنؤ سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرکے ایک طبیب حاذق کی صورت میں کامیاب تھے لیکن شاعری ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ اگر چاہتے بھی تو اس سے دامن نہیں چھڑا سکتے تھے۔ ان کے وجود میں غزل بسی ہوئی تھی اور سُر لفظوں میں ڈھل جاتے تھے۔ یہ اشعار معنی آفرینی کے حوالے سے بے حد مشہور ہوئے اور موسیقیت سے بھرپور بھی ہیں          ؎

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر

اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

پہلے شعر میں دوران عشق گرم و سرد ہوائیں چلتی رہتی ہیں منزلوں کے سہل ہونے کا سبب بہت دلکش بتایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادِ شُرط رواں ہوئی ہے۔ چراغ جلنا سرخوشی کی علامت  ہے  دوسرے شعرمیں جو فضا قائم کی ہے وہ ان کے رومان پرور دل کی قائم کی ہوئی ہے بہترین منظر کشی سوال شوق پر لجانا سر جھکا کر پھر نہ اٹھانا۔ سارا تجربہ بہت ترتیب سے بتایا گیا ہے اور شبوں کے راز کے مچلنے کا لفظ استعمال کرکے افشائے راز سے گریز کیا ہے۔ یہ طرز بیان شاعری کی بے پناہ ہنرمندی کی دلیل ہے ان کی بصیرت اس مادی پرشور محشر انگیز ہنگامہ آرا دنیا سے بہت الگ  دیار یار کی نظارگی کے عرق گلاب میں اپنے الفاظ ڈبو کر معاملات حسن و عشق کا بیان کرتے ہیںاور ان سے جاری خوشبو روح کو معطر کردیتی ہے۔ مجروح روح غزل کے محرم ہیں ان کے اشعار قاری کو شعر فہمی کی استعداد عطا کرتے ہیں ان کے یہاں کبھی جذب دل کا اظہار بہت سادگی سے ہوتا ہے اور اکثر اس کے برعکس بھی ہوتا ہے اور غزل کہتے وقت محبوب کا چہرہ ٔ رنگیں زیب و زینت نگاہ ہو جاتا ہے۔اور اسی فضا کے باعث مجروح کی شاعری پر تصوف کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ 

مجروح کے فلمی گیت بھی شعریت سے بھرپور ہیں اور ان کے دور کے ہدایت کار اور موسیقی کے ماہرین یہ جانتے تھے کہ جس صورت حال کے مطابق نغمہ لکھا گیا ہے اشعار کو ایسے سروں میں ڈھال دیا جائے جو ہر شعر کہتے وقت شاعر کے احساس میں پیوست ہے۔ ایک فلم کا مجرا ان کی اس غزل پر فلمایا گیا جس کا مطلع تھا         ؎

پہلے سو بار اِدھر اور اُدھر دیکھا ہے

تب کہیں جاکے تجھے ایک نظر دیکھا ہے

موسیقی سے سج کر یہ غزل سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ مجروح نے اپنی زندگی میں دولت، شہرت، ناموری حاصل کی۔ ایک اعلیٰ سطح تھی جس پر ہمیشہ رہے اور کسی بھی حالت میں اس سطح سے نیچے نہیں آئے۔شاعری میں محبت کے پیغام بھی دیے اور محبت میں ہوئے حسین تجربات سے ذہنوں کو رنگینی بھی عطا کی۔ مجروح اردو غزل کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آنے والی نسلیں اسی کی تفہیم کرنا اپنے لیے فخر سمجھیں گی۔

 

Mr. Suhail Kakorvi

C/o, National Tractors

City Hotel, B. N. Road, Lalbagh

Lucknow- 226001 (UP)

Email.: suhailkakorvi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...