سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل -جون 2024
تلخیص
اردو غزل اپنی رنگارنگی اور عشقیہ مضامین کی دل آویزی،حسن
کلام اورلب و لہجے کی نرمی کی وجہ سے ہر دلعزیز رہی ہے۔ اردو غزل میں عشقیہ شاعری
کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں تلذذ اور محبت کا گہرا امتزاج ہے جس کی وجہ سے بے
شمار اشعار جو عشقیہ واردات سے لبریز نظر آتے ہیں وہ امتداد زمانہ سے غزل میں رچ
بس کر اردو شاعری کی جان بن چکے ہیں۔ کلاسیکی غزل کی رسومیات ان چند تصورات پر مبنی
ہے جن کو عشقیہ مضامین کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے کلاسیکی غزل کی تعبیر و تفہیم
بھی آسان ہو جاتی ہے۔ کلاسیکی غزل ہو یا جدید غزل یہاں بہت سے کرداروں کی
کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے،جہاں کوئی اپنا مدعا بیان کرتا ہے تو کوئی اس مقدمے کی
روداد سنتا ہے اورکوئی اس ماحول میں تنفر پیدا کرنا چاہتا ہے۔اسی طرح کچھ کردار
اپنی بے جا نصیحتوں سے طنز کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔اردو کی غزلیہ شاعری میں موٹے
طور پر یہ چار طرح کے کردار نظر آتے ہیں۔ عاشق،معشوق، رقیب اور غزل کے دیگر
کردار۔جیسے، زاہد،ناصح، محتسب،واعظ وغیرہ۔اس طرح غزلیہ شاعری کی تشکیل میں یہ
کردار کسی نہ کسی نہج پر اپنا ایک اہم رول ادا کرتے ہیں،جن سے غزل کی عشقیہ فضاسازی
اور جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔یہ کردار وقت اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔یعنی
ان کے فکر و عمل اور رد عمل میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔غزل کا تخلیق کار یعنی شاعر
کا خود عاشق ہونا ضروری نہیں ہے، جیساکہ شعر پڑھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے،بلکہ کبھی
کبھی کسی حقیقت یا معاملے کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا غزل کی رسومیات اور
تصورات کو عشقیہ مضامین تک محدود رکھنا چاہیے۔
کلیدی الفاظ
غزل، عاشق،معشوق،رقیب، زاہد، محتسب،،غم جاناں،غم دوراں
و غم روزگار، حب الوطنی، ولی، سراج، میرتقی میر، مرزاسودا، میردرد،
ذوق،مومن،غالب،خلیل الرحمن اعظمی،حسرت،جگر،جاں نثار اختر۔
———
غزل بالخصوص کلاسیکی غزل کی دنیا فی الواقع چند تصورات
اور رسومیات پر مبنی ہے۔ ان تصورات اور طے شدہ رسومیات کی بدولت غزل کاقاری یا
سامع،غزل میں مذکور ضمائر سے، ان کے مراجع غیر مذکور تک اور معنی و مفہوم تک رسائی
حاصل کرتا ہے۔غزل کی مذکورہ تصوراتی دنیا ’میں‘، ’تم‘ اور ’وہ‘ یعنی عاشق،معشوق
اور رقیب سے تشکیل پاتی ہے۔ مذکورہ کرداروں کی فکری نہج،عمل اور رد عمل ہماری کلاسیکی
شاعری میں طے شدہ ہے تاہم غزل کے دوسو سالہ سفر میں مذکورہ تینوں کرداروں کی سیرت،
عادت، سوچنے کے انداز، عمل اور رد عمل میں بتدریج تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ اردوغزل
کی دنیا ایک تصوراتی دنیا ہے جہاں واقعات حقیقی بھی ہوتے ہیں؛ لیکن واقعات کی عکاسی
میں انفرادی کیفیات یا جذبات، عشقیہ انداز ِبیان میںایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
غزل نے متنوع اورر نگارنگ عشقیہ کیفیات کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے اور ان جذباتی
تقاضوں کی تکمیل سے ان عشقیہ کیفیات میں آفاقیت پیدا ہو گئی ہے۔غزل کے اسی لچک پن
اور وسعت کے بارے میں احتشام حسین لکھتے ہیں:
’’اصناف ادب میں سے بعض ایسے سخت جان اور لچک
دار ہوتے ہیں کہ مخالفت کے باوجود کبھی شکل اور کبھی رنگ بدل کر زندگی کا یقین
دلاتے رہتے ہیں۔اردو غزل کا بھی یہی حال ہے...غزل کے اشعار میں تہہ در تہہ اتنے
خارجی اور داخلی بناؤ ہوتے ہیں کہ اس کو دلچسپی کی نظر سے دیکھنے والے حسن و
لطافت کے انداز میں ڈھونڈ لیتے ہیں... غزل بھی دوسری ادبی شکلوں کی طرح مخصوص سماجی
اور ذہنی اثرات کے ما تحت پیدا ہوئی۔ اس نے بھی بدلتے ہوئے حالات سے آب و رنگ لے
کر نیرنگیوں کا لباس پہنا اس پر بھی سیاسی،معاشی اور معاشرتی اثرات کا سایہ پڑتا
رہا اور اس میں بھی شاعروں کے تبدیل ہوتے ہوئے تجربات اور جذبات کی کشمکش رونما
ہوتی رہی۔‘‘1؎
اردو غزل کے عشقیہ مضامین میں مستعمل کرداروں پر غور کریں
تو پتہ چلتا ہے کہ غزل میں چار طرح کے کردار اہم
ہیں۔ غزلیہ شاعری میں معنوی جہتیں بالعموم عاشق،معشوق،رقیب اور دیگرغزلیہ
کرداروں سے ادا ہوتی ہیں۔اردو غزل کی رسومیات انہی چار کرداروں کی ترتیب و امتزاج
(Permutation and Combination) سے
خلق پاتی ہیں؛ لیکن یہاں صرف عاشق اور معشوق کے کردار کے حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔
غزل کا بنیادی حوالہ عشقیہ جذبات، معاملات اور واردات
ہے۔ انہی پردوں میں غم دوراں اور غم روزگار بھی موضوع غزل بنتے ہیں۔مذکورہ سارے
موضوعات بالعموم شاعر(شعری شخصیت سے قطع نظر) یا غزل کے مرکزی کردار؛عاشق کی زبان
سے ادا ہوتے ہیں،جو وصال معشوق کے لیے بے قرار اور اس کی نظروں میں سرخ رو ہونے کے
لیے بے تاب نظر آتا ہے۔اس راہ پر خطر سے گزرتے ہوئے اسے نت نئی مشکلات، نیز مختلف
النوع تجربات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔جہاں اسے بیشتر شب ہجراں اور ناکامی تو کبھی
کبھار کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح معشوق کہ جس کا شیوہ ہے رحم و کرم کے
بجائے ظلم و ستم کرنا،جذباتِ عشاق کا مذاق اڑانا۔ غزل کی اسی دھوپ چھاؤں نے اسے
عقل و شعور سے کہیں زیادہ احساسات و جذبات کا ترجمان بنا یا۔احساسات اور جذبات کی یہ
دھوپ چھاؤں، بلکہ ہجر و وصال کے بے شمار مدارج اور مختلف کیفیات تقریبا تمام غزل
گو شعرا کے کلام کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن غائر
مطالعے سے، غزل کے اس کردار میں مرور وقت کے ساتھ تبدیلیوں کا احساس ہوتا
ہے۔ کلاسیکی غزل میں موجود کرداروں کی تفہیم عشقیہ حوالے سے آسان ہے،گرچہ مضامین
کی نوعیت حالات کے اعتبار سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے۔کلاسیکی غزل میں ان
کرداروں کی اہمیت اور کسے مرکزیت حاصل ہے، اس کی تفصیلات پروفیسر احمد محفوظ کے
مضمون ’کلاسیکی غزل کی تفہیم کا معاصر رویہ‘
میں کچھ یوں ہیں:
’’کلاسیکی غزل کی تفہیم کے معاصر رویے یا
معاصر اندازِ نظر کا تعلق چند ان باتوں سے ہے،جو غزل کی رسومیات کا حصہ ہیں،اور یہ
بھی واضح رہے کہ غزل کی رسومیات کا بڑا حصہ عشقیہ مضامین سے متعلق ہے۔انھیں آسانی
کے لیے ہم غزل کی عشقیہ رسومیات یاغزل کے عشقیہ تصورات سے موسوم کرتے ہیں۔چونکہ
غزل کی دنیابالخصوص عشقیہ دنیا مخصوص تصورات سے معمور ہے،اس لیے غزل بڑی حد تک ایسی
تصوراتی شاعری کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے،جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔غزل
کی عشقیہ رسومیات سے متعلق حسب ذیل چند باتیں بطور مثال بیان کی جا سکتی ہیں:
1
غزل کی عشقیہ دنیا میں مخصوص کرداروں کا وجود۔
2
ان میں معشوق اور عاشق کے کرداروں کا مرکزی ہونا۔
3 ہر
کردار سے وابستہ مخصوص صفات جن سے انحراف خلاف اصول سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً معشوق کے
کردار کا غالب ہونا اورعاشق کے کردار کا مغلوب ومحکوم اور انفعالی ہونا۔
4
غزل میں معشوق کے کردار کامتکلم کی صورت میں بیان نہ کیا جانا۔
5
عشقیہ مضامین پر مبنی اشعار میں عام طور سے عاشق کا متکلم ہونا۔
6
رقیب کا ہمیشہ منفی کردار کی صورت میں بیان ہونا۔
7
شیخ،واعظ اور ناصح وغیرہ کے کردار کا ناقابل تحسین ہونااور انھیں قابلِ نفریں بیان
کرنا۔
غزل کی عشقیہ دنیا میں مذکورہ بالا کرداروں کے علاوہ
کچھ اشخاص بھی ہیں،جن کی حیثیت اگرچہ کردار کی نہیں،لیکن ان کی موجودگی بہت سے
اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اشخاص میں عاشق کے مہربان رفیقوں کے علاوہ ایسے
لوگ بھی ہیں، جو عاشق کی حالت زار سے فکر مند رہتے ہیں،اور اس سے ہمدردی کا اظہار
کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور لوگ ہیں،جو معشوق کی جفا شعاری وغیرہ سے باز رہنے کی
اسے تلقین کرتے ہیں۔‘‘2؎
اردو غزل کی رسومیاتی کائنات میں عاشق کی متعدد صفات بھی
مذکور ہیں۔جیسے محب،درویش صفت، مظلوم،ستم زدہ، فریب خوردہ وغیرہ۔ غزل میں یہ صفات
عاشق کی دلی کیفیات کی جذباتی پیشکش میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کم و بیش ہر عہد میں
عاشق کی یہ صفات دکھائی دیتی ہیں؛لیکن کلاسیکی عہد میں عاشق کا کردار رسمیاتی طور
پر محض انھیں صفات کا حامل دکھائی دیتا ہے،جب کہ جدید عہد میں عاشق اور معشوق کے
کردار اپنی بقا کے لیے اور بھی بہت سے نئے پہلووں کو جگہ دیتے ہیں۔ عاشق کو معشوق
کی ستم ظریفی اور رقیب کی بد سلوکی بہت کھٹکتی ہے اور عاشق ان دونوں سے نالاں بھی
رہتا ہے۔خاص کر رقیب سے عاشق کے تعلقات بہت اچھے نہیں سوائے چند شعرا کے،جیسے مومن
اور غالب کہ جنھوں نے رقیب سے بدکلامی اوربد زبانی نہیں کی ہے۔ڈاکٹر آصف زہری
اپنے مضمون ’کلام غالب میں رقیب‘ میںلکھتے ہیں:
’’تثلیث عشق کے ان کرداروں کے باہمی روابط و
تعلقات بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ عاشق معشوق پر فریفتہ ہے،لیکن معشوق عاشق کا ایسا دشمن
ہے کہ اس کی عداوت میں وہ غیر یعنی رقیب کو بھی کھو دیتا ہے۔دوسری جانب عاشق رقیب
کو نا پسند کرتا ہے۔ہر چند کہ بر سبیل شکایت ہی رقیب کا ذکر کیوں نہ ہو،لیکن اسے یہ
بھی گوارا نہیں۔وہ رقیب سے اس قدر نالاں ہے کہ مرضِ عشقِ محبوب میں مبتلا ہونے کے
باوجود خود کو ’کشتۂ دشمن‘ یعنی کشتۂ رقیب قرار دیتا ہے۔شاید اسی وجہ سے،کسی بھی
صورت،وہ زیرِ بارِ احسانِ رقیب نہیں ہونا چاہتا تاہم طوعاًو کرہاً ہی سہی،اسے بار
بار،جذبۂ دل سے مجبور کر،درِ رقیب پر جانا پڑتا ہے۔‘‘3؎
دکنی
شاعری میں قلی قطب شاہ کی غزلوں کا '' عا شق'' اپنے شاہی مزاج کے سبب محبوب کے ناز
و نخرے کم ہی اٹھاتا ہے،جب کہ ولی کے یہاں یہی عاشق اپنی وارفگتی ِ عشق میں معشوق
پر جان نثار کرنے کو بھی تیار ہے،بلکہ یہی مدعائے زندگی ہے اور اس مقتضائے عشق میں عاشق کے لیے آہ و زاری اس کا
مقدر بن جاتی ہے۔جگہ جگہ ولی کی شاعری میں عاشق کی کیفیت متغیر ہوتی دکھائی دیتی
ہے۔کہیں یہ عاشق سب کچھ فنا کر دینا چاہتا ہے تو کہیں اپنے دل کی جلن اور غم کی
شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔کہیں کہیں ولی کی غزلوں میں عاشق کا کردار شگفتگی کا
اظہار بھی کرتا ہے۔ان کے یہاں عاشقی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک عاشق آہ و زاری کرتا
رہے اور تب تک کرتا رہے جب تک کہ وصال یار نصیب نہ ہو جو کہ ممکن بھی ہے،لیکن ہوتا
نہیں۔اسی لیے ولی کی غزلوں میںعاشق اپنی بات معشوق کو بار بار سنا کر اپنی طرف
متوجہ کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ؎
اے ولی ہونا سریجن پر
نثار
مدعا ہے چشمِ گوہر بار کا
نہ پوچھو آہ و زاری کی حقیقت
عزیزاں عاشقی کا مقتضا ہے
تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کوں کیا کاجل
یہ روشنی افزا ہے انکھیاں کوں لگاتی جا
سراج
اورنگ آبادی کے یہاں ’عاشق‘کی وارفتگی اور محبت یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ عاشق اور
معشوق کی دوئی ہی ختم ہو جاتی ہے،جس کو جذبہ عشق کی معراج قرار دیا جا سکتا ہے۔اس
دوئی میں بھی عاشق، معشوق/ محبوب کے دیدار کی آگ میں جلتے رہنے کو اپنا مقصود
سمجھتا ہے۔خوشی ہو کہ رنج ان احوال کے در پردہ چشم عاشق نم ہی رہتی ہے۔سراج کے
متصوفانہ رویے سے صرف نظر ان کا مجازی عشق ہی ہے جس نے سراج کو عاشقِ غمِ جاناں
بنا دیا۔ بقول محمد حسن:
’’سراج کو صوفی شاعر کہا جاتا ہے وہ مزاجاََ
اور عملاََ صوفی تھے لیکن ان کی شاعری پر تصوف کا ٖغلبہ نظر نہیں آتا۔وہ زندگی کو
ایک عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے اُن کے کلام میں حسن پرستی اور والہانہ
پن کا ایک انوکھا امتزاج ملتا ہے۔ان کی رندی اور مستی آج کے پڑھنے والے سے انھیں
بہت قریب لے آتی ہے۔‘‘4؎
سراج کے یہاں عاشق کی دوئی میں کوئی تیسرا قابل برداشت
نہیں،اسی لیے وہ جگہ جگہ رقیب کو بوالہوس،کہیں زاغ تو کہیں خار سے تشبیہ دیتے ہیں ؎
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
تھا ذوقِ سراج آتشِ دیدار میں جلنا
صد شکر کہ پروانہ کا مقصود بر آیا
ترے فراق میں اے نور دیدۂ یعقوب
کیا ہے دل کی زلیخا نے صبر جیوں ایوب
دیکھ سکتا نہیں میں گل کوں ہر یک خار کے ساتھ
اپنے ہمراہ رقیبوں کوں نہ لا ہائے نہ لا
شمالی ہند کے ابتدائی دور میں شاہ مبارک آبرو کا
’عاشق‘ سراج کے مقابل معشوق سے نسبتا فاصلہ قائم کرتا ہوا نظر آتا ہے،کہیں کہیں
ہلکی سی تلخی کا شائبہ بھی ہوتا ہے۔یہاں عاشق وصال یار سے زیادہ محبوب کے ہجر میں
تڑپتا ہے۔ عاشق کا تصورہے کہ وصال کے مقابلے ہجر زیادہ افضل ہے۔ اس طرح وصل و ہجر
کی وجہ سے یہ عاشق دور بیٹھ کر بھی محبوب سے اپنے دل کے جذبات بیان کرتا دکھائی دیتا
ہے اور زہر و امرت آبرو کے عاشق کے یہاں ایک ہی محسوس ہوتے ہیں ؎
دل نے وصال چھوڑ کیا ہجر کوں قبول
امرت کوں چھوڑ زہر کا پیالا گٹک گیا
وصل ہو یا ہجر اس کے حق میں دونوں ایک ہیں
آبرو کوں ہو
گیا ہے یار سیں اب اتحاد
دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں
اس طرح حال دل
کا کہتا ہوں
شاہ حاتم کے یہاں ’عاشق‘کا کردار نسبتا سنجیدہ ہے اور
معشوق روایتی طور پر بے مروت ہے۔ تاہم عاشق صوفیانہ مزاج کا حامل ہے۔نیز عاشق
مذکور معشوق کے جور و جفا پر شاکی ہے۔گرچہ عاشق کے دل پرزخم داغ مفارقت اورمعشوق کی
ظلم و زیادتی کی وجہ سے لگا ہے،مگر پھر بھی عاشق اس ظلم کے عوض مسکراتا
ہے۔معشوق کے جور و جفا اور بے گانہ پن نے عاشق کو رسواو خوار کیا،جس سے وہ شکستہ
دلی و مجروح احساسات کے ساتھ بے یار و مددگار بیمار ہوکر معشوق/ محبوب سے التفات کی
امید کرتا ہے؛ کیونکہ معشوق کے گھر کی دیوار کا سایہ عاشق کی پہچان بن گیا ہے ؎
ہاتھ میں دیکھ کر ترے مرہم
میرے
سینے کا داغ ہنستا ہے
رسوا و خوار و خستہ و مجروح و ناتواں
بے بس اسیر و بے کس و بیمار دیکھنا
بود
و باش اپنا بتاؤں میں تمھیں کیا یارو
ساکنِ سایہ ٔ دار ہوں کن کا،اِن کا
میر کے یہاں سوز و گداز کے ساتھ دلی کیفیت کا اظہار بڑا
ہی پر جوش،کاٹ دار ہے۔میر کے یہاں عشق کی مختلف کیفیتیں موجود ہیں۔یہ عشق کہیں
معشوق کو عاشق بنا دیتا ہے تو کہیں عاشق کو معشوق اور مدعی و مدعی ٰ میں دونوں کے
حالات بھی مختلف ہیں۔دراصل میر کے یہاں عاشق کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا
ہے،اس کی وجہ خود میر کا عاشقی اور دل لگی کرناہے۔میر کے یہاں عاشق کا کردار اپنی
دل سوزی کے نغمے گاتا ہے اور شکوہ و شکایت بھی کرتا ہے۔میر کا عاشق چوں کہ اسی دنیا
کا رہنے والا ایک چلتا پھرتا انسان ہے۔اس لیے وہ حقیقی واقعات کی روداد پیش کرتا
ہے۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’میر کے عاشق کی انفرادیت دراصل یہ ہے کہ وہ
روایتی عاشق کی تمام صفات رکھتا ہے، لیکن ہم اس سے ایک انسان کی طرح ملتے ہیں،کسی
لفظی رسومیاتVerbal convention
کے طورپر نہیں۔یہ انسان ہمیں اپنی ہی دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے،جب کہ رسومیاتی
عاشق کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ بالکل مثالی اور خیالی ہوتا ہے۔‘‘5؎
معشوق پر دل جاں نثار بھی کرتا ہے اور اس پر تہمت بھی
دھرتا ہے۔اس طرح دل اور اس کی ویرانی میر کا مدعاو مقصود بن کر سامنے آتا
ہے۔محبوب کے تیور و جلال سے میر کا عاشق خود کو خاکستر کیے بیٹھا ہے۔ میر کا عاشق
با ادب اور با شعار ہے کہ وہ محبوب کے ذکر پر اس کو جلی کٹی سنانے کے بجائے اپنے
ستم زدہ دل کو جوسو مرتبہ لوٹا گیا، جذبات کی ڈور سے تھامے رہتا ہے ؎
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
زخم جھیلے،داغ بھی کھائے بہت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
سودا کا عاشق درد اور میر سے قدرے مختلف ہے،جس کے فکر و
عمل میں میر سے مشابہت ہے اور کہیں درد کے مانند صوفی مشرب نظر آتا ہے۔مذکورہ
دونوں طرزِ فکر کے علاوہ مرزا رفیع سودا کا ’عاشق‘ وسیلہ برائے شعر گفتن کے علاوہ
معاملہ بندی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں:
’’اپنی ذات کے مختلف اللون پہلوؤں کا عکس
ڈال کر اور روایتی افکار و واقعات کو تخیلی تجربے کی سان پر چڑھا کر وہ ایسے اشعار
بھی کہہ گزرے ہیں جن میں روایتی محبوب کی روایتی بے وفائی،گل و بلبل کی رسمی کہانی
اور عاشق کی ہجراں نصیبی کے باوجود دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے...بعض مواقع ایسے
بھی ہیں،جہاں روایتی صورت تراشی کی بجائے سودا روایت سے کنی کاٹ کر صاف نکل
گئے یا پھر انھوں نے روایت کے بتوں کو
توڑا بھی ہے۔رسمی تصورات کی عام روش کی جگہ اپنے مخصوص ذوق اپنی نفسی کیفیتوں اور
ذاتی ناکامیوں کو اچھوتے پیرائے میں پیش کیا ہے۔‘‘6؎
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سودا کے غزلیہ کرداروں میں
تنوع،ما قبل شعرا کے مقابل کہیں زیادہ ہے۔سودا کی شوخ طبیعت مسلسل غم جاناں کی
متحمل نہیں ہو سکتی،اسی لیے کہیںکہیں ان کا لہجہ بھی تیکھا دکھائی دیتا ہے ؎
رات جب غصہ ہو میرے پاس سے اٹھ کر چلا
میں نہ چھوڑا گو کہ دامن وہ جھٹکتا ہی رہا
جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاوں گا
ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاوں گا
عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں
دو چار گھڑی رونا دو چار گھڑی باتیں
درد کی شناخت ایک صوفی مشرب شاعر کی حیثیت سے ہے،جو
راحت کے بجائے تکالیف، وصال کے مقابل ہجر کو ترجیح دیتا ہے۔درد کی شاعری کو محض
صوفیانہ رنگ دینا بے جا ہوگا۔اسی لیے شمس الرحمن فاروقی،مجنوں گورکھ پوری اور خلیل
الرحمن اعظمی نے دردکو خالص صوفی شاعر ماننے سے انکار کیا ہے۔ لہٰذا درد کی شاعری
کو عشق مجازی کی شاعری کہنا ہی بجا ہوگا۔اس حوالے سے ان کی شاعری کی تفہیم بھی
آسان ہو جاتی ہے۔ظہیر احمد صدیقی نے بھی یہی لکھا ہے:
ـ’’میر
درد کے دیوان اردو میں تقریبا نصف عشق مجازی کی طرفہ کاریوں کے لیے وقف ہے اور یہ یہ
حقیقت ہے کہ اس میں ان کی لطافت پسند اور معنی یاب طبیعت نے یادگار نمونے چھوڑے ہیں۔بادی
النظر میں دیکھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ میر درد سے اور اس نوع کی شاعری سے کیا
تعلق۔یا تو یہ مانا جائے کہ ان کی شاعری کا یہ حصہ تمام تر روایتی ہے یا اگر نہیں
تو پھر میر درد کے منصب فقر پر حرف آتا ہے۔‘‘7؎
درد کے یہاں عاشق زار کا نیاز مندانہ رویہ سب سے زیادہ
عیاں نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں ہلکا پھلکا طنز بھی عاشق کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ
عاشق کا انجام جو ہو مگر معشوق کے لب کبھی مسیحائی نہیں کر سکتے۔ یہاں عاشق کا
مقدر اور مقصد محبوب کے عشق میں خود کوفنا کر دینا ہے ؎
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
ذوق، مومن اور غالب کے یہاں عاشق اپنی شخصیت اور ذات کا
مظہر بن گیا۔ وہ صوفی بھی ہے اور عشق مجازی کا نمائندہ بھی۔یہ وہ عہد ہے جہاں ہمیں
عاشق کے مزاج،عاد ات و اطوار اور غزلیہ رسومیات میں کافی حد تک تبدیلیاں ہوتی
دکھائی دیتی ہیں۔اس عہد کے غزلیہ کرداروں کا عمل اور رد عمل دونوں ہی واضح ہے
اورساتھ ہی معشوق کے ہر عمل میں عاشق کا
رد عمل بھی دکھائی دیتا ہے۔ذوق کے یہاں
عشق کی پاکیزگی محترم شے بن جاتی ہے۔وصال یار نصیب نہ ہو تب بھی عاشق کی عشقیہ کیفیات
میں فرق نہیں پڑتا۔عاشق کی عشقیہ وارفتگی ذوق کے یہاں قدرے مختلف ہے،وہ یہ کہ عاشق خدا کے حضورپیش
آنے والے سوالات میں بھی معشوق کے ستم سے مکر جاناچاہتا ہے تاکہ معشوق کو کسی طرح
کی تکلیف نہ ہو۔ کہیں کہیں جذبۂ عشق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ عاشق کی بے قراریاں اسے
مرنے کے بعد بھی سکون نہ بخش سکیں۔ جذبہ عشق میں عاشق کی دلی کیفیات اس قدر زیادہ
ہو جاتی ہیں کہ غم کی حسرتیں مزید بڑھتی جاتی ہیں ؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر
کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بڑھ
گئی ہے عشق میں حرص اس قدر اپنی کہ ہے
غم پہ غم کی آرزو’حسرت پہ حسرت کی طلب
موت ہی سے کچھ علاجِ دردِ فرقت ہو تو ہو
غسل میت ہی ہمارا غسل صحت ہو تو ہو
غالب کے یہاں عاشق امن پسند اورشوخ جو کبھی کبھی معشوق
سے چھیڑ چھاڑبھی کرتا ہے،کہیں صوفی منش،صبر و بردباری کا حامل،خود اپنے عشق پر
مسلسل سوالات کھڑے کرکے ان کے حل کا متلاشی بن جاتا ہے۔کبھی دل ناداں سے خطاب کر
تا ہے تو کہیں تکلیفوں کے باوجودفرصت کے لمحات تلاش کرکے تصور جاناں کیے رہتا ہے۔
غالب کا عاشق نگاہ نازدیکھ کر شکوہ شکایت کا رویہ بھی بھول جاتا ہے۔کبھی جو معشوق
اپنے جور و جفا سے پشیماں بھی ہوتا ہے تو اس وقت جب عاشق کے ارمانوں کا خون ہو
جاتا ہے۔ غالب نے اپنے متقدمین شعرا سے بہت سے خیالات میں اپنا الگ رخ اختیار کیا
ہے۔مظفر علی سید نے اپنے ایک مضمون ’غالب کی بغاوت ‘میں لکھا ہے:
ـ’’اردو ادب کی جدید تحریک
جس کا آغاز ہی غالب سے ہوتا ہے اب اپنی فکری نہج اور فنی اظہار کے سانچوں کے
سلسلے میں غالب سے بہت دور جا چکی ہے، پھر بھی غالب کی رہبری کو تسلیم کرنا ضروری
ہے۔ تاکہ ہم نت نئے تجربوں کی دھن میں اپنی تہذیب اور اس کے کمالات سے بالکل ہی
لاتعلق ہو کر ہوا میں معلق نہ ہوجائیں۔ بغاوت کے لیے بھی مضبوط فکری بنیاد کی
ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہماری سب شوریدگی ہوا میں ہی تحلیل ہوکر نہ رہ جائے۔ یہاں اس
حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بغاوت کے لیے مضبوط فکری اور تہذیبی
بنیادیں قائم کرتے وقت ماضی کے بعض عناصر کو خام مواد کی حیثیت سے کام میں لانا
صرف اختیاری مسئلہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے جبر کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے رو
گردانی شاید کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔‘‘8؎
غالب کے یہاں ایک بڑا بدلاؤیہ بھی ہے کہ معشوق جو عاشق
پر ظلم روا رکھتاتھا،غالب نے اس تصور کو بدل دیا اور اب عاشق میں اتنا حوصلہ آ گیا
ہے کہ محبوب کو شرمندہ کرتادکھائی دیتا ہے
؎
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں،گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کرکے اپنی یاد،شرما جائے ہے مجھ سے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
مومن کے یہاں عشقیہ واقعات فرضی نہیں ہیں اور نہ ہی محض
تصوراتی ؛کیونکہ ان کے معاشقے حقیقی تھے۔مومن کی شاعری کا ایک خاص وصف نزاکت خیال
ہے جس کی بدولت انھوں نے اپنے شعری سرمائے میں نئی طرز و روش کو جگہ دی ہے۔ یہاں
عاشق ہجر و وصل کی خواہش میں تڑپتا رہتا ہے۔اب عاشق میں ہمت و حوصلہ آ گیا ہے جو
معشوق کے ناز و نخرے سننے کے ساتھ ساتھ اسے ڈرا دھمکا بھی دیتا ہے اور جگہ جگہ کچھ
شکوہ و شکایت بھی کرتا ہے۔ یہاں عاشق،اپنے عشق کی رسوائی نہیں چاہتا۔مومن نے اپنے
تخلص سے عاشق و معشوق کے متعدد حجابات کی پردہ کشائی کی ہے۔ مومن نے کوچۂ معشوق کی
ہوا کو عاشق کے دل میں لگی عشق کی آگ میں زیادتی سے تعبیر کیا ہے ؎
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خواب عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
اس کوچے کی ہوا تھی،کہ میری ہی آہ تھی
کوئی تو دل کی آگ پہ پنکھا سا جھل گیا
میں نے تم کو دل دیا تم نے مجھے رسوا کیا
میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا
جدیدکلاسیکی عہد میں عاشق کے کردار میں جو تبدیلیاں
واقع ہوئیں،وہ جدید عہد کی شاعری میں پیش خیمہ کا حکم رکھتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ
عہد غالب کے بعد جن شعرا کا مزاج کلاسیکیت زدہ تھا ان کے یہاں کلاسیکی رنگ بھی ہے
اور جہاں عشق و محبت کے فسانوں کے علاوہ عاشق کی زندگی میں زمانے کی گرم رفتاری
اوردیگر غم ہیں،وہاں عاشق بالکل غائب ہو جاتا ہے۔مبہم اشارات عاشق کے دلِ زار کی کیفیتیں
بیان کرتے ہیں۔عہدِغالب کے بعد عاشق کہیں دھندلکوں میں کھو سا گیا ہے؛کیوں کہ ابھی
عاشق کے لیے عشق کے اور بھی امتحان کے علاوہ پہلی سی محبت کی رمق بھی باقی ہے۔جدید
عہد کے شعرا نے عاشق کے کردار میں یہ معاملہ بھی اختیار کیا ہے کہ انھوں نے اپنے پیش
رو شعرا سے جو دیکھا سیکھا وہ بھی بیان کیا اور جو نئی روشنی تھی اس حیثیت سے بھی
عاشق کو پیش کیا۔حسرت کا سلسلہ تملذ مومن تک جاتا ہے تو فانی میر کے رنگ میں حد
درجہ آگے بڑھ گئے،جب کہ خلیل الرحمن اور ناصر کاظمی میر کے رنگ میں مست ہو کر بھی
عاشق کی قنوطیت نہیں بڑھنے دیتے۔جدیدعہد کے ترقی پسند شعرا میں حسرت،جگر،جذبی،خلیل
الرحمن اعظمی،جاں نثار اختر،فیض احمد فیض وغیرہ اہم نام شمار ہوتے ہیں۔ان کے یہاں
عاشق خود دار ہے؛کیوں کہ اس عہد کی تبدیلیوں نے عاشق کو نئی آزمائشوں میں مبتلا کررکھا ہے۔اس عہد میں عاشق کا ذکر کہیں
مبہم ہے تو کہیں کہیں صرف اشارات ملتے ہیں۔غزل کے یہ تینوں کردار جدید عہد کے نئے
تقاضوں میں سیاسی،سماجی اور معاشرتی اہمیت بھی رکھتے ہیں۔اس عہد میں ایک طرف روایتی
محبت دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف برق رفتار زمانہ نے عاشق کو پیکر سیمیں سے ہٹ
کروطن،انقلاب اور آزادی جیسے محبوب بھی عطا کیے ہیں۔کلاسیکی عہد اور جدید عہد میں
عاشق کے کردار میں بہت سے نمایاں فرق موجود ہیں۔کلاسیکی غزل میں محبوب کے عشق کی
تپش سے عاشق پگھلا جاتا ہے،جو صرف غم جاناں کو اپنا ہمدرد و مسیحا سمجھ کر خیال یار
سے باہر نہیں آتا،جب کہ جدید عہد کی عشقیہ کائنات محض تصوراتی دنیا نہیں ہے،بلکہ
اس عہد کاعاشق بیش تر زمینی حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے۔اسی طرح عاشق کے سامنے جدید
عہد میں نت نئی آزمائشیں بھی ہیں،جنھوں نے عاشق کو روایتی معشوق سے انحراف کرنے
پر ابھارا۔اس عہد میں زندگی،حب وطن،قوم کی ترقی،انقلاب اور آزادی وغیرہ معشوقی حیثیت
بھی رکھتے ہیں۔یعنی کلاسیکی عہد سے جدید عہد تک عاشق،معشوق اور رقیب اور دیگر
کرداروں میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ پروفیسراحتشام حسین اس بابت لکھتے ہیں:
’’محبت کا حقیقت پسندانہ تصور عاشق و معشوق
کو نئی شکل میں جلوہ گر کرتا ہے۔امرد پرستی،رقیب دشمنی کے ساتھ ہی ساتھ روایتی
ظالم و مظلوم محبوب و عاشق بھی ختم ہو گئے۔ ان کی جگہ انسانی معیارسے قریب تر
کردار وجود میں آگئے ہیں...عشق، عاشق اور معشوق سب بدلے ہیں آزاد محبت کے جذبے
نے،رفاقت کی جستجو نے،غم عشق اور غم روزگار کی کش مکش نے ان کرداروں ہی میں تبدیلی
نہیں پیدا کی بلکہ زاہد اور محتسب،ساقی اور مغبچوں کا کردار بھی بدل دیا ہے۔‘‘9؎
اقبال کے یہاں عاشق محبت کے اعلی منازل پر دکھائی دیتا
ہے،جہاں نہ یہ خود مکمل اورنہ اس کا عشق مکمل۔ کہیں وہ دیوانہ نظر آتا ہے تو کہیں
عشق کا فلسفی دکھائی دیتاہے۔یہ عاشق مختلف الجہات کیفیات رکھتا ہے اورپرانے عشاق
سے قدرے مختلف بھی ہے؛کیوں کہ یہ عاشق محض روایتی رسومیات کا پابند نہیں ہے،بلکہ ایک
خاص فکری و عملی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔کہیں کہیں میر درد کا صوفیانہ رویہ بھی
محسوس ہوتا ہے۔اقبال کا عاشق دیوانہ وار روتا گڑگڑاتا نہیں ہے بلکہ وہ جذبے کی شدت
اور احساس کی تازگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ؎
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
جدید عہد کے ایک اہم شاعر حسرت موہانی ہیں۔ان کے یہاں
عاشق ملک کی آزادی اور ترقی اس کا حقیقی عشق ہے۔ وہ محض دوشیزاؤں کی زلفوں کا اسیر
نہیں ہے۔کہیں کہیں وہ اپنے اس عشق کو خود غرضی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔روایتی عاشق
بھی حسرت کے یہاں ہے؛لیکن وہ زیادہ دیر توجہ طلب نہ رہ سکا۔ حسرت نے اردو غزل میں
معشوق کاقدیم تصور بھی بدل کر پیش کیا ہے۔اس کا اندازہ ان کی غزلوں سے لگایا جا
سکتا ہے۔حسرت کا عاشق اپنی روایتی معشوقہ کے بجائے اب دوسری معشوقہ یعنی(آزادی)کو
از حد محبوب رکھتا ہے۔ اس کے لیے صعوبتیں اٹھانے اور جیل جانے کو بھی تیار ہے؛
طعنۂ احباب سنے سر زنش خلق سہی
ہم نے کیا کیا تری خاطر سے گوارا نہ کیا
ہے آج کیا بات کہ بے ساختہ حسرت
یاد آتی ہے رہ رہ کے عزیزان وطن آج
حسن بے پرواکو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
مرا عشق بھی خود غرض ہو چلا ہے
ترے حسن کو بے وفا کہتے کہتے
اس عہد کی ایک اہم کڑی جگرکی شخصیت ہے۔ان کے یہاں حسن و
عشق کے علاوہ حقائق و معارف بھی بیان ہوئے ہیں۔ابتدائی شاعری میں یہ عاشق ایک بے
خودی اور کیف و سرور کے عالم میں مست رہتا ہے۔جگر کے یہاں عاشق، معشوق کو کسی جرم
کا سزاوار نہیں ٹھہراتا،بلکہ خود کو گرفتاریِ عشق کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔جگر کے عشقیہ
انداز میں سوقیانہ پن نہیں ہے؛کیوں کہ عشق ان کے یہاں ایک محترم چیز ہے؛لیکن جلد ہی
زمانے کے تغیر و تبدل نے عاشق کو مقام سپردگی سے دور کہیں الجھا دیا ہے۔عاشق زلفوں
کی شکن دور کرنے سے زیادہ عزیز وطن کی
شکست وریخت کو درست کرنا چاہتا ہے ؎
میرا جو حال ہو،سو ہو،برق نظر گرائے جا
میں یوں ہی نالہ کش ہوں،تو یوں ہی مسکرائے جا
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
دل تھا ترے خیال سے پہلے چمن چمن
اب بھی روش روش ہے مگر پائمال ہے
ابھی ہے دل کو مقام سپردگی سے گریز
اک اور بھی سہی گیسوئے عنبریں میں شکن!
غزل کے جدید عہد میں میر کے لہجے کی بازیافت ہمیں ناصر
کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی کے یہاں ملتی ہے،مگران کے لب و لہجے میں حوادث زمانہ
نے تلخی اور کرختگی پیدا کر دی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کے یہاں عاشق اپنی پریشانیوں
میں ایسا گھرا ہوا ہے کہ اپنے معشوق کے پہلو میں ہوتے ہوئے بھی اسے یاد کرتا
ہے۔زمانے کی تبدیلیوں نے عاشق کے وجود کو
حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے،جہاں معشوق کی بے وفائی اسے ایک عام سی چیز لگتی ہے۔کہیں
معشوق کا خیال ہی عاشق کو بہلا دیتا ہے تو کہیں یہ خیال بھی زمانے کی تبدیلیوں سے
دھندلکوں میں سما جاتا ہے ؎
ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں
تیرے پہلو میں تیری یاد آئی
ہم نے تو خود کو بھی مٹا ڈالا
تم نے تو صرف بے وفائی کی
جی تو بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پہ ہم تنہا چلے آئے
ناصر کاظمی کی زندگی میں رونما ہوئے کچھ صبر آزما
واقعات نے ان کی تخلیقی شخصیت کو کافی حد تک متاثر کیا۔ اپنے عہد کے مخصوص تہذیبی
و معاشرتی حالات و واقعات کا ان پر گہرا دباؤ رہا؛ لیکن شعری قوت مغلوب نہ ہوئی۔ پیش
آمدہ واقعات ان کے تخلیقی ذہن کو فعال بنانے میں کارآمد ثابت ہوئے۔ ناصر کاظمی کی
شاعری میں بھی عاشق کی کیفیت ایسی بے حال و بے بس دکھائی دیتی ہے جسے جان سے پیارے
رشتے بھی یاد نہیں؛کیونکہ بدلتے زمانے میں عاشق کے لیے نئے نئے چیلنجز ہیں،اس کو
عاشقی کے لیے روایتی معشوق کے علاوہ بھی کوئی دوسرا معشوق درکار ہے ؎
رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
شہر یار کے یہاں عاشق کے دلی جذبات بھی کافی مجروح نظر
آتے ہیں۔عاشق تنہائیوں کاستم خوردہ ہے۔اس لیے عاشق کو معشوق پر بھروسہ نہیں رہا۔یہاں عاشق کو دو چار پل اپنائیت کے بھی نصیب نہیں
ہوتے ؎
یا تیرے
علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں مجھ کو
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
کوئی ہے جو ہمیں دو چار پل کو اپنا لے
زبان سوکھ گئی یہ صدا لگاتے ہوئے
جاں نثار اختر کے یہاں عاشق کی جاں گدازی اپنے عہد کے
تقاضوں کی وجہ سے ہے۔جاں نثار اختر کا لہجہ کہیں کہیں کافی سخت نظر آتا ہے۔کبھی
عاشق کی آنکھوں کے خواب ہی اس کی تذلیل کے اسباب بنتے ہیں اور کہیں یہی خواب اس کی
زندگی کی نشو و نما کے لیے از حد ضروری بن جاتے ہیں ؎
آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے
چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم
کچل کے پھینک دو آنکھوں میں خواب جتنے ہیں
اسی سبب سے ہیں ہم پر عذاب جتنے ہیں
ایک بھی خواب نہ ہو جن میں وہ آنکھیں کیا ہیں
اک نہ اک خواب تو آنکھوں میں بساؤ یارو
جذبی کے یہاں عاشق کی خود داری کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔
جذبی کی شاعری میں اس بکھراؤ کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
زمانے کے ستائے ہوئے عاشق کو اپنے غموں سے فرصت ہی نہیں
ملتی ؎
کیا کیا تم نے کہ درد دل کا درماں کر دیا
میری خود داری کا شیرازہ پریشاں کر دیا
مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی
اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے
ملے مجھ کو غم سے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر
سے مے عشرت شبانہ
جب محبت کا نام سنتا ہوں
ہائے کتنا ملال ہوتا ہے
فانی کے یہاں عاشق کا
لب و لہجہ میر جیسا ہے،جہاں سوز و گداز وبال جان دکھائی دیتا ہے۔ یہاں میر
کے لہجے کا عکس ضرور ہے؛مگر میرکے یہاں کہیں کہیں شگفتگی کا احساس تو ہوتا ہے،جب
کہ فانی کی شاعری میں قنوطیت اور دلی کسک بڑھتی ہی جاتی ہے۔معشوق کی بے وفائی نے عاشق کو زہر
کھانے پر بھی مجبور کر دیا اور کیفیتِ جذب اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ عاشق کے ساتھ
تمنائے عاشق بھی مرجاتی ہے۔ فانی کے یہاں اس عاشق کے لیے نئے زمانے میں عشق کی مصیبتوں
کے علاوہ بھی ہزاروں پریشانیاں ہیں؛لیکن پھر بھی اس عہد کا عاشق ہنستے مسکراتے مصیبتیں
برداشت کر لیتا ہے ؎
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
دبی زباں سے مرا حال چارہ ساز نہ کہہ
بس اب تو زہر ہی دے، زہر میں دوا نہ ملا
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے
اوپر ہم نے دیکھا کہ کس طرح شعرا کے یہاں عاشق کا کردار
اپنے تصورات اور احوال زمانہ کے پیش نظر بدلتا گیا، اب ہم غزل میں معشوق کے بدلتے کردارپر نظر
ڈالتے ہیں:
غزل کی تصوراتی اوررسومیاتی کائنات کا اصل محور و مرکز
معشوق/محبوب ہی ہوتا ہے۔اس کی چند صفات جیسے سنگ دل،ظالم،بت،کافراور قاتل وغیرہ ایسی
ہیں جو عاشق کے لیے بے اعتنائی،بے توجہی اوربے مروتی ظاہرکرتی ہیں،جب کہ کچھ صفات
ایسی بھی ہیں جوعاشق کے دل پر مرہم کا کام کرتی ہیں۔ جیسے خوباں،دلبر،ساقی وغیرہ۔
روایتی /کلاسیکی شاعری میں بیش تر مقامات پر بظاہر عاشق کے دلی جذبات کابیان ہوتا
ہے،مگر دراصل وہاں عاشق کا مخاطب معشوق/محبوب ہی ہوتاہے۔ معشوق/محبوب کی یہ صفات اردو غزل میں علامات
کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ معشوق کی ان صفات نے اردو شاعری میں ایسے ہزاروں منفرد
اور انوکھے مضامین کوجگہ دی ہے، جن کا شاعری کے علاوہ برتا جانا بے جا معلوم ہوتا
ہے۔ اردو کی شعری روایت میں ہمیں سب سے اہم کردار معشوق کا نظر آتا ہے اور عاشق
اس کا تابع،جب کہ رقیب کی اہمیت ایسے نفسیاتی کردار کی ہے جو خودمعشوق کے حصول کا
متمنی ہے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ عاشق کو اس کا وصال نصیب ہو۔ شعرا کے یہاں یہ
معشوق ایک روایتی پیکر ہے جس کو اس کے احوال و کوائف کے اعتبار سے جانا پہچانا جا
سکتا ہے،مگریہ کردار اپنے اندر ہزاروں راز ہائے سر بستہ لیے ہوئے ہے۔غزل کے محبوب
میں ہزارہا صفات پنہاں ہیں۔جیسے،حسین و جمیل عورت کی، حاکم وقت کی،طوائف کی
اورامردپرستی وغیرہ کی صفات کسی ایک سطح پراسی معشوق سے تعلق رکھتی ہیں۔غزل کاعاشق
کبھی مرد نہ ہو کرایک مؤنث یعنی عورت/لڑکی بھی ہوتی ہے،اسی طرح کبھی کبھی محبوب
عورت ہی نہیں مرد بھی ہوتا ہے۔یہ معاملہ کلاسیکی شاعری میں واضح طور پر دکھائی دیتا
ہے۔ اردوکی کلاسیکی شاعری میں کہیں کہیں معشوق کانفسیاتی جھکاؤ عاشق کی طرف بھی دیکھنے
کو ملتا ہے۔یہ نفسیاتی جھکاؤ روایتی /کلاسیکی شاعری میں کم نظر آتا ہے،جب کہ جدید
کلاسیکی عہد میں تھوڑا زیادہ دکھائی دیتا ہے۔عاشق، معشوق کی ہر ادا اور ممکنہ
معاملات پر غائر نظر رکھتا ہے۔اسی وجہ سے معشوق کا معاملہ بھی عاشق کے ساتھ کہیں
محبت کا ہوتا ہے توکہیں بے توجہی اور بے وفائی کا۔ اسی لیے ہر عہد میں معشوق کے
مختلف اندازمیں بے گانہ پن، سنگ دلی اورروٹھنا وغیرہ مختلف خیالات کی شکل میں شعرا
کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ شعرا غزل میں معاملاتِ عشق کو پیش
کرتے ہیں، مگر ضروری نہیں کہ وہ خود بھی عاشق ہوں،بلکہ ہو سکتا ہے تفنن طبع یا پھر
کسی کیفیت کا اظہار ہو۔ بدلتے زمانے نے معشوق کے کردار میں بھی بہت سی تبدیلیاں پیدا
کر دیں اور جدید عہد تک آتے آتے یہ
محبوب اپنے روایتی تصور کو یکسر کھوتاہوا دکھائی دیتا ہے۔
دکن کے شاعروں میں معشوق کی حیثیت قلی قطب شاہ کے یہاں
مختلف ہے۔قلی قطب شاہ معشوق کو تلذذ کی نظر سے دیکھتا ہے؛لیکن محبت کا جذبہ معشوق
کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ولی نے اپنے محبوب کے سراپا پر بھی خاص توجہ دی
ہے۔وزیر آغالکھتے ہیں:
’’ولی کے ہاں ’بت پرستی‘کی روش کے تحت محبوب
کو درجنوں ناموں سے مخاطب کیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محبوب کا سراپا ہی
اس کی غزل کا سب سے اہم موضوع ہے، چنانچہ محبوب کے لیے سریجن، پیا، دلبر، شیریں،
بچن، موہن، سجن، پی، وغیر الفاظ موجود ہیں۔‘‘10؎
ولی کے یہاں معشوق کی طرف سے یہ جذبہ ختم ہوتا ہوا
دکھائی دیتا ہے اور معشوق بے توجہی، سنگ دلی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے،جب کہ عاشق
محبوب کے حسن کے علاوہ دنیا میں کسی کو لائق توجہ نہیں سمجھتا ؎
عشاق مستحقِ ترحم ہیں اے عزیز
ان کے غریب حال پہ سختی روا نئیں
غم سوں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولی
ظلم کو چھوڑ سجن شیوۂ احسان میں آ
اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا
سراج کے یہاں معشوق فریبی بھی ہے اور کبھی کبھی
ظلم و زیادتی بھی کرتا ہے۔معشوق کا تصور
عاشق کا قبلہ توہے؛لیکن معشوق شوخی و بے
باکی رکھتاہے۔عاشق،معشوق سے بار بار التفات نظر اور قلب و جگر کی شادمانی کی گہار
لگاتا ہے۔معشوق کا وصال ہی عاشق کا مطلوب و مقصود ہے؛کیوں کہ ہجر نے دل میں ڈر اور
خوف پیدا کر دیا ہے ؎
تغافل ترک کر اے شوخ بے باک
تلطف کر، نوازش کر، مدارا
نہ ملے جب تلک وصال اس کا
تب تلک فوت ہے مرا مطلب
مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم
دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہو ل آج
شمالی ہند کے ابتدائی دور میں معشوق کی صورت حال کچھ یوں
ہے کہ وہ شوخ اور چنچل ہے۔ عاشق اور معشوق کی ڈرامائی کیفیتیں شمالی ہند میں زیادہ
رائج ہیں کہ محبوب بات بات پر ناراض ہوتا ہے۔ آبرو کے یہاں معشوق بار بار روٹھتا
ہے۔آبرو نے معشوق کی کیفیتوں کے اظہار میں نشاطیہ عنصر کو جگہ دی ہے۔
آبرو کا عاشق بھی کچھ شوخ ہے،وہ جانتا ہے کہ معشوق
کوناراض کرنے سے اسے جلدی معافی بھی نصیب نہیں ہوگی۔ اسی لیے کہیں کہیں عاشق،معشوق
کی ان اداؤں پر جان دینے کو بھی تیاررہتا ہے
؎
مشتاق عذر خواہی نہیں آبرو تو کیا ہے
یوں روٹھ روٹھ چلنا، چل چل کے پھر ٹھٹھکنا
یہ رسم ظالمی کی دستور ہے کہاں کا
دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا
عاشقاں دیکھ تیری سنگ دلی
جان دیتے ہیں دم بدم مر مر
شاہ حاتم کی شاعری میں ہمیں معشوق کا انداز ستم گراور
ظالم معلوم ہوتا ہے۔ معشوق کی عادتوں میں عاشق کو نظر انداز کرنا اور ایک ہنسی
بھرے لہجے میں گالیاں دینا بھی ہیں۔
اس لیے عاشق ان معاملات میں تشویش کا شکار نہیں
ہوتا ؎
ہم تری راہ میں جوں نقش قدم بیٹھے ہیں
تو تغافل کیے اے یار چلا جاتا ہے
مسکراتا گالیاں دیتا اکڑتا مست ناز
ایسے عالم سے تو آتا ہے کہ عالم دنگ ہے
دوستوں سے دشمنی اور دشمنوں سے دوستی
بے مروت بے وفا بے رحم یہ کیا ڈھنگ ہے
ادا و ناز و کرشمہ جفا و جور و ستم
ادھر یہ سب ہیں ادھر ایک میری جاں تنہا
میر
کے یہاں معشوق ستم گر سے زیادہ کچھ نہیں کہ جس سے حسنِ توقع یا التفاتِ نظررکھنے کی
امید بھی نہیں کی جا سکتی۔
کہیں کہیں معشوق کے جورو جفا کو دیکھتے ہوئے عاشق کہتا
ہے کہ میرے جیسا شکستہ اور ناتواں شخص تمھارے ظلم کی تاب اگرچہ نہیں لا سکتا،تاہم
دعا ضرور کر سکتا ہے،تم جیسے ظالم کو تم جیسا ظالم عاشق نصیب ہو۔میر کا یہ عاشق
اپنے معشوق کی اداؤں کا ذکربھی بڑی شگفتگی سے کرتا ہے ؎
گل ہو،مہتاب ہو،آئینہ ہو،خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی
دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا
کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
کیا کہوں میں میر اس عاشق ستم محبوب کو
طور پر اس کے کسو دن کوئی خوں ہو جائے گا
سودا کی شاعری میں معشوق ہمیں ایک طرح سے شوخ و بے نیاز
دکھائی دیتا ہے ؎
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو اِدھر بھی
مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا
اے گل اندام ترے ہاتھ نہ میں ہوں نالاں
کون
بلبل ہے چمن میں کہ نہیں فریادی
خواجہ میر در د کی شاعری میں مجازی معشوق کاانداز بیاں
بڑا ہی پر کیف ہے۔درد نے معشوق کے ناز و نخرے سہے ہیں اور جانتے ہیں کہ محبوب کے
روٹھ جانے سے ایک عاشق کے دل پر کیا گزرتی ہے۔درد کے یہاں کہیں کہیں معشوق بھی عاشق
کا طرف دار دکھائی دیتا ہے ؎
قتلِ عاشق، کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر، ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا،خیر یہ مذکور نہ تھا
یک بہ یک نام لے اٹھا میرا
جی میں کیا اس کے آ گیا ہوگا
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں
جدیدکلاسیکی عہدکی غزلیہ شاعری میں کلاسیکی /روایتی
شاعری کے بر عکس معشوق کی متعدد خوبیوں کی تعریف کے علاوہ عاشق اس کی خامیوں پر
طنز بھی کرتا ہے۔ غالب نے عاشق اور معشوق کے مکالمات میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کی
ہے،جس سے کلام میں مضمون آفرینی اور خیال بندی سے ایک نیا رنگ دکھائی دیتا
ہے۔غالب کے یہاں عاشق،معشوق اور رقیب کے کرداروں میں تبدیلی آئی ہے کہ خود معشوق
بھی کبھی کبھی عاشق بن جا تا ہے اور کبھی وہ عاشق کے مرنے پر بھی راضی نہیں
ہوتا،جب کہ عاشق کومعشوق سے حال زار کہے بنا طمانیت قلب بھی نہیں ہوتی۔ معشوق، عاشق
کو سکون و اطمینان دینا بے جا سمجھتا ہے۔ خصوصاً میر کے بعد غالب کے یہاں ’میں‘یعنی
عاشق کی زبان حال معشوق کا ستم بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہے ؎
تم سے بے جا ہے،مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ ٔخوبیِ تقدیر بھی تھا
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں
بات بنائے نہ بنے
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مومن کی شاعری میں معشوقانہ کیفیت اپنے عصر بلکہ اپنے
ماقبل شعراسے بھی کافی حد تک الگ ہے۔ مومن نے معشوق کے معاملات کو بڑے ہی پر کشش
انداز سے پیش کیا ہے۔مومن نے محبوب کی برابری کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔عاشق
بار بار معشوق کو اپنی پرانی سرگزشتیں سنا
سنا کر بتانا چاہتا ہے کہ عشق تو صرف ہم نے کیا تھا اور بے مرادی نصیب ہوئی۔
عاشق،معشوق کی بے وفائی پر بھی نادم نہیں۔ کہیں عاشق معشوق سے کہتا ہے جس نے بے
وفائی کی ہے کہ تم بھی جب سچا عشق کروگے تو ہماری طرح روؤگے ؎
معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا،تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد
ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا،تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
شیخ
ابراہیم ذوق کی شاعری میں محبوب کا تصور دل خراش نظر آتا ہے،مگر کہیں کہیں ذوق کی
مضمون آفرینی نے محبوب کے بہترین پیکر تراشے ہیں ؎
ستم گر تو نے روکا سب کو میرے پاس آنے سے
اجل بھی اب یہاں آوے تو شاید کچھ بہانے سے
پھر خواب میں آتی ہے نظر صورتِ معشوق
پھر رنج ہمیں دینے لگی صحبتِ معشوق
ہے ان کی چشم کی گردش پہ گردشِ عالم
جدھر ہو ان کی نظر سب اُدھر کو دیکھتے ہیں
قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
چشم پر آب سے آئینے وضو کرتے ہیں
جدید عہد میں معشوق کے روایتی تصور کے علاوہ
انقلاب،آزادی اوروطن بھی محبوب کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں۔کلاسیکی غزلوں میں
معشوق نہ تو بہ آسانی گھر سے نکل سکتا تھا اور نہ وہ اپنے عاشق سے مل جل سکتا
تھا۔ایک کھڑکی عاشق کا قبلہ ہوا کرتی تھی۔ مگر جدید عہد میں معشوق حقیقت سے زیادہ
مشابہ ہے،وہ گھریلو بھی ہے اور بہ آسانی عاشق سے کہیں بھی مل سکتا ہے۔کلاسیکی
غزلوں کا اصل محور و مرکز معشوق تھا کہ جس کا ذکر جلی غزلوں کی رونق تھا۔ جب کہ جدید
عہد میں روایتی معشوق بس کہیں کہیں مبہم
طور پر مذکور رہتا ہے،جب کہ اس کی جگہ معشوق کے دیگر عادات و اطوار پر زیادہ زور دیا
گیا ہے۔
مثال کے طور پر جگر اور حسرت کی شاعری میں اس عہد کے
نئے تقاضے موجود ہیں۔ اس لیے محبوب کا ماورائی ارضی تصور حسرت اور جگر کے یہاں بہت
واضح ہے۔جگر نے روایتی شاعری کو دیکھتے ہوئے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ زمانہ ترقی کر
رہا ہے اور ہم معشوق کی زلف دراز میں الجھے ہوئے ہیں۔جگر اور حسرت کے سامنے انقلابات تھے اور ملک غلامی کی زنجیروں
سے آزاد ہو رہا تھا، ایسے حالات میں زلف معشوق سے ہٹ کر کوئے آزادی کی طرف جانا
بھی محبوبیت ہی کا مقام ہے۔ دونوں کی شاعری میں معشوق کا روایتی تصور بھی موجود
ہے،جب کہ تقسیم کے بعد ملک، معشوق کی حیثیت سے زیادہ مرکز نظر رہا۔حسرت کی روایتی
شاعری میں یہ تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے کہ
روایت کے خلاف معشوق غیروں کی پروا نہ کرکے کوٹھے کی چھت سے عاشق کو بلانے آجاتا
ہے ؎
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا
(جگر)
زمانہ گرم رفتارِ ترقی ہوتا جاتا ہے
مگر اک چشم شاعر ہے کہ پرنم ہوتی جاتی ہے
(جگر)
ناز جس خاک وطن پر تھا تجھے آہ جگر
اسی جنت میں جہنم کا گمان ہوتا ہے
(جگر)
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ تیرا چوری چھپے راتوں کو آنایاد ہے
(حسرت)
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاوں آنا یاد ہے
(حسرت)
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی اور خواہش حب وطن تمام
(حسرت)
رسم جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے
(حسرت)
ایسے بدلتے دور میں اقبال کے یہاں معشوق کی حیثیت روایتی
بھی دکھائی دیتی ہے اور نئی روشنی بھی نظر آجاتی۔ان کے یہاں اصل معشوق زندگی ہی
ہے کہ جس کو ثبات و دوام دینا ایک عاشق صادق کی ذمے داری ہے ؎
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفا دار نہیں
ہم وفا دار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں
ناصر کاظمی کے یہاں عاشق ومعشوق کی دوئی نہیں ہے۔یہاں
ترک محبت ہی تقاضائے وقت تھا؛ لیکن عشق کی تپش پھر بھی محسوس ہوتی ہے ؎
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
خلیل الرحمن اعظمی کے یہاں معشوق ایک نئی امید ہے۔
انھوں نے ہجر،شب،صبح وغیرہ کو محبوب بنا کر اپنی شاعری میں پیش کیا ہے ؎
زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمھیں بھلا دیتے
مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے
یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوب صورت ہے
یہی کیفیت جذبی کے یہاں بھی موجود ہے کہ معشوق اور
محبوب صرف گوشت پوست والا نہیں،بلکہ آزادی اور انقلاب معشوق بن گئے ہیں۔یہاں روایتی
معشوق بھی کہیں کہیں مل جاتا ہے ؎
تری رسوائی کا ہے ڈر ورنہ
دل کے جذبات تو محدود نہیں
جب تجھ کو تمنا میری تھی تب مجھ کو تمنا تیری تھی
اب تجھ کو تمنا غیر کی ہے تو تیری تمنا کون کرے
خاموش ہو کیوں نالہ کشان شب ہجراں
یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے
جاں نثار اختر کے یہاں معشوق کا حسی پیکر بھی موجود ہے
اور کہیں کہیں اس سے بیزاری بھی ظاہر ہوتی ہے
؎
دل کا وہ حال ہوا ہے غم دوراں کے تلے
جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
فانی کے یہاں معشوق کافی حد تک روایتی ہے ؎
بزم الست، دارِ فنا،
جلوہ گاہِ حشر
پہنچی ہے لے کے ان کی تمنا کہاں کہاں
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا
عشق و محبت کی قلبی واردات /جذباتی پیش کش اورعاشق و
معشوق کی متغیر کیفیتیں غزل کے رنگ و آہنگ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غزل
کے نشیب و فراز اور عاشق و معشوق کی مختلف کیفیتیں اپنے داخلی اور خارجی مسائل سے
غزل کو نئے نئے موضوعات عطاکرتی ہیں۔اس طرح اردو غزل اپنی وسعت بیاں اور تخیلات کی
گہماگہمی سے ایک نئی دنیا تشکیل دیتی ہے۔جہاں غزل کا کرداربحیثیت عاشق در پیش
ہزاروں جذباتی اوردنیاوی معاشی و معاشرتی مسائل سے نبردا ٓزما غزل کے دامن کو وسیع
کرتا جاتا ہے۔ہر عہد کا عاشق گرچہ کیفیت عشق میں ایک ہے،مگر بہ تقاضائے حالات و
ضروریات یہ کیفیت مختلف بھی ہوتی جاتی ہے۔ولی نے غزل کی روایت میں جو اطوار اپنائے
اور محبوب کی مختلف الجہات صفات کے ذکر میں جو طریقہ اختیات کیا، وہی طریقہ شمالی
ہند میں ایہام گو شعرا نے اپنایا اور غزل کو منفردرنگ و آہنگ عطا کیا،یہاں تک کہ
اصلاحِ زبان کی تحریک کے بعد بھی یہ رواج عام رہا۔ شمالی ہند میں دبستان دہلی و
لکھنؤ کی غزلیہ شاعری میں عاشق اور معشوق کی صفات،جذبات و خیالات، کیفیات
اورحرکات و سکنات سبھی کچھ مل جاتے ہیں۔لکھنو ی شعرا نے سراپائے معشوق میں رعایت
لفظی پرخاص توجہ دی،جس سے اعضائے معشوق اور سراپائے محبوب کی منظر کشی میں چاشنی
اور لطف اندوزی سے کام لیا گیا،جب کہ دہلوی شعرا نے داخلیت اور معنویت پر زور دیا،جس
سے غزلیہ کلام میں ایک آہنگ پیدا ہوا اور معشوق کی مختلف کیفیتوں کی منظر کشی میں
دل اور جذبات کی شکست و ریخت دیکھنے کو ملتی ہے۔
اردو غزل کی رسومیات /تصوراتی کائنات میں عاشق،معشوق
اور رقیب کی تثلیث جزوِ لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ کلاسیکی غزل سے لے کر جدید غزل تک عاشق شکست و
ریخت کی وادیوں کا ہم نشیں کہیں ہنستا مسکراتا ہے تو کہیں اس کا وجود محض ہجر و
وصل کی لکیروں سے تشکیل پاتا ہے۔عاشق کا کردار ہر لحاظ سے اس لیے بھی اہم ہے؛کہ
محبت بھی تبھی ممکن ہے جب کوئی اس غم جاں گزیں کو برداشت کرنے والا ہو اور عاشق اس
اعتبار سے اپنا منفرد کردار ادا کرتا ہے۔سب کچھ فنا کردینا اس کا خاصہ بن جاتاہے
اور ان خرابات پر مسکرانا اس کی ضرورت بن جاتی ہے۔نئے تصورات و ضروریات نے عاشق کے
کردارمیں بہت سی تبدیلیاں بھی کی ہیں جن کااوپر ذکر ہو چکا ہے۔عاشق کا کردار غزل کی
تثلیث کا ایک اہم حصہ ہے۔معشوق کی حیثیت غزل کے محور و مرکز کی ہے کہ جس کے بنا
عاشق بھی لکیر کا فقیر دکھائی دیتا ہے۔معشوق کی محبت و رواداری اور مروت و وفا
شعاری غزل کی رسومیات کا اہم حصہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح عاشق کا کردار بھی
اپنی تمام تر صفات سے غزلیہ شاعری کا اہم حصہ بن جاتا ہے۔بلاشبہ غزلیہ شاعری میں
ان کرداروں کے تہذیبی اور ثقافتی اثرات نے اسی طرح ان کے عمل اور ردِ عمل کی نہج
اورشناخت نے غزل کی زمین کو نئے نئے امکانات و تصورات سے مالامال کیا ہے۔
حواشی
1 اعتبار
نظر:احتشام حسین، لکھنؤ، اترپردیش اکادمی:2010،ص77
2 کلاسیکی
غزل کی تفہیم کا معاصر رویہ: پروفیسر احمد محفوظ، ادبی میراث
3 عہد
حاضر میں غالب کی شاعری کی معنویت کا مسئلہ اور غالب: ــڈاکٹرا
ٓصف زہری، نئی دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ،
2016،ص112
4 انتخاب
سراج اورنگ آبادی: محمد حسن، نئی دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،1969
5 میر
کی غزل میں عاشق کا کردار: شمس الرحمن فاروقی، مشمولہ:غزل فن اور فن کار، مرتبہ:
ثریا حسین، 1986، ص90-91
6 انتخاب
دیوان سودا: ڈاکٹر وحید قریشی، 1957،ص 14,12
7 دیوان
درد (مرتبہ): ظہیر احمد صدیقی،اردو،نئی
دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،طبع ثانی، 1963، ص 67
8
رسالہ، فنون،لاہور: شمارہ 51 اشاعت، مئی، جون1996
9
اعتبار نظر: احتشام حسین، لکھنؤ: اترپردیش اکادمی،2010،ص84,82
10 تنقید
اور احتساب: وزیر آغا، ص 81
Mohammad Arif
Room No.: 51, Sabarmati Hostel, JNU
New Delhi- 110067
Mob.: 7897184132
ma9815330@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں