12/8/24

سنسکرت ادبی شہ پاروں کے فارسی تراجم, مضمون نگار: محمد رضا اظہری

 سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل جون2024



 تلخیص

مسلمان اور ہندو کئی سو برس سے شانہ بہ شانہ ہندوستان میں جسم اور روح کے تعلق کی نمائندگی کررہے ہیں۔ سناتن دھرم کا مطالعہ اس ملک میں مسلمانوں کی روایت بھی رہی ہے ۔ہندوستان کے مذہبی ذہن و فکر رکھنے والے مسلم بادشاہ بھی سناتن دھرم کی واقفیت کی فکر رکھتے تھے۔ سلطان محمد تغلق سناتن دھرم اور جین مذہب سے متعلق معلومات کی تلاش میں لگا رہا۔وہ ان مذاہب کے علما اور فضلا کو اپنی مجلس میں مدعو کرتا اور ان سے نیم شب تک مذہبی گفتگو کرتا تھا ۔فیروز شاہ نے ہندوؤں کے علوم سے متعلق کتابوں کا فارسی ترجمہ کروایا۔ یہ کتابیں فلسفہ،علم نجوم اور الٰہیات سے متعلق تھیں۔کشمیرمیں سلطان زین العابدین کو ہندی اور تبتی زبان پر بڑا عبور تھا ۔اس نے اپنے دربار میں سنسکرت کے فضلا کو متعین کیا اور انھوں نے سلطان کے حکم سے سنسکرت میں کشمیر کی تاریخ لکھی۔اس کے علاوہ ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا گیا جہاں سنسکرت کتابوں کا فارسی میں اور فارسی کتابوں کا سنسکرت میں ترجمہ ہوتا رہا۔مغلیہ دور حکومت کے ہمایونی دور میں محمد گوالیاری نے سنسکرت کی مشہور تصنیف امرت کنڈ کا فارسی ترجمہ بحر الحیات کے نام سے کیا۔اکبر نے سنسکرت کی کلاسیکل کتابوں کو فارسی میں منتقل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اس کے حکم سے نقیب خان،ملا عبدالقادر بدایونی،ملا شیری اور سلطان حاجی تھانیسری نے مہابھارت کا فارسی ترجمہ کیا اور اس کا نام رزم نامہ رکھا گیا۔پھر عبدالقادر بدایونی نے مسلسل چار سال کی سعیِ پیہم کے بعد رامائن کا ترجمہ کیا۔ اتھروید کا فارسی ترجمہ حاجی ابراہیم سرہندی نے کیا۔ملا شیری نے فارسی میں ہربنس کا ترجمہ کیا۔شاہ جہان کے دور میں مولانا عبد الرحمن چشتی نے بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔

کلیدی الفاظ

سنسکرت ادب، فارسی ادب، فارسی تراجم، رگ وید، اتھروید، اوپنشد، مہابھارت، رزم نامہ، رامائن، بھگوت گیتا،نل دمینتی، شکنتلا، وکرم اوروشیم، رگھو ونشم، سنگھاسن بتیسی، جوگ وشست(یوگ بشست)، پانچ تنترہ (پنج تنتر)،شنکر بھاشیا،مرآۃ المخلوقات،شوکسپتتی، راج ترنگنی، تاجیکا، لیلاوتی،امرت کنڈ، بریھت کتھا،تودرنندا،سنگیتا درپن،راگ درپن،آگاد تنتر وگیان،کتھا سرت ساگر،بیتال پچیسی۔

———

 

تاریخ اقوام میں جن قوموں کا ذکر تاریخی کتب کے اوراق پر محفوظ ہے ان میں چین، مصر، بابل، ایران اور ہندوستان کی اقوام خاص طور سے سر فہرست اور قابل ذکر ہیں، مگر ان تمام اقوام کے درمیان ہندوستانیوں کو ایک طرہ ٔ امتیاز حاصل ہے۔  انھوں نے اپنے آبا و اجداد کے قدیم علمی اور ادبی کارناموں کو زمانے کے دست برد سے محفوظ رکھا اور اپنے اسلاف کے فکر و فن کی تابناکیوں کو اسی شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ باقی رکھا۔

ہندوستان کے علمی و ادبی خزانے اغلب منظوم صورت میں ہیں اور ایک بڑے پیمانے میں نسل در نسل محفوظ رہتے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں۔ان ادبی فن پاروں کی گیرائی اور جاذبیت کو بڑھانے کے لیے سنسکرت جیسی غنی زبان کا جامہ زیب تن کیا گیا اور دنیا کے ادبی حلقوں میں ’ویدوں‘ کے نام سے روشناس کرایا گیا۔

ہندوستانی (ہندو) عالموں کا قدیم علوم جیسے ریاضی،طب اور نجوم میں ماہر ہونا سبب بنا تاکہ ایران کے ساسانی بادشاہ ان سے متاثر ہوکر ہندوستانی علما،حکما اور اطبا کو ان علوم کی تعلیم کے لیے ایران میں اس وقت کے سب سے بڑے علمی مرکز یعنی ’جندی شاپور دار الحکمہ‘ میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لیے مقرر کیا گیا اور کچھ علمی اور حکمی کتابوں کو سنسکرت سے پہلوی زبان میں ترجمہ کیا گیا ۔

آٹھویں صدی ہجری میں حکیم ’ماکانا‘ وقت کے خلیفہ ہارون رشید کی دعوت پر بغداد گئے اور اس کے دانشمند وزیر ’یحییٰ بن خالد برمکی‘ کی خواہش پر ’چاناکیا‘ جو خود ’چندر گپت موریا‘ کا وزیر اعلیٰ تھا اور طب پر ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی، اس کا ترجمہ فارسی میں انجام دے کر خلیفہ کے حضور پیش کیا۔ گیارہویں صد ی عیسوی کے اوائل میں ’ابوریحان بیرونی‘ نے بھی کچھ سنسکرت کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا جو بعد میں فارسی میں منتقل ہوئیں،نیز دہلی کے بادشاہ فیروز شاہ تغلق کے دور میں ’نگرکوٹ‘ شہر کے فتح میں کچھ سنسکرت کتابیں دستیاب ہوئیں جو فارسی میں ترجمہ کرائی گئیں۔ (اہل ہند کی مختصر تاریخ؛ڈاکٹر تارا چند،اردو اکیڈمی،دہلی،ص217)

سنسکرت شہ پاروں کے فارسی ترجموں کے پیش نظر ہندوستا ن کے عارفوں،مفکروں اور دانشوروں کے افکار و خیالات تجربات اور برسوں پرانے تفحصات کا ایک خزانہ فارسی دانوں کے دامن میں سمٹ گیا اور اس طرح ایک گراں بہا خزینہ فارسی زبان و ادب کے خزانوں میں اضافہ ہوگیا۔

.1       رگ وید:  ’رگ‘نظم کے اس بند کو کہتے ہیں جو کسی کی تعریف میں لکھا ہو اور وید کے معنی علم کے ہوتے ہیں۔رگ وید ’’اگنی دیوتا‘‘ کی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔ اندر، اگنی، ورن جیسے دیوتاؤں کی تعریف سے یہ وید بھرا ہوا ہے۔ پروفیسر عباس مہرین شوشتری نے 350 مذہبی نظموں کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے مگر ابھی تک ان کی علمی کوشش زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکی ۔آپ میسور یونیورسٹی کے شعبہ ٔ فارسی سے وابستہ رہے اور متعدد تصانیف کے مالک بھی ہیں ۔

.2       اتھر وید: اتھرو وید چوتھا وید ہے۔ ا س کتاب کو سب سے پہلے عبدالقادر بدایونی نے نو مسلم ’بھاون خان‘ کی مدد سے فارسی میںترجمہ کیا مگر کچھ خاص مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔اس کے بعد’حاجی ابراہیم سرہندی‘ نے ایک بار پھر اسے فارسی میں ترجمہ کیا اور اس کا نام ’اتاربان ‘ رکھا مگر یہ ترجمہ بھی اکبر کے مزاج کے موافق نہ رہا۔

.3       اپنشد (اپنیشد): اپنیشدسنسکرت کے تین لفظوں اُپ +نی + شدکا مرکب ہے جس کے معنی قریب نیچے بیٹھنا ہے، بہ الفاظ دیگر مرشد کے قدموں میں معرفت و حصول علم کے واسطے بیٹھنا۔ اپنیشد کسی ایک کتاب کا نہیں بلکہ سلسلہ کتب اور فلسفے کا نام ہے جو موضوع کے اعتبار سے مابعد الطبیعیاتی اور اسلوب کے لحاظ سے شعری ادب کا حسین مرقع ہے۔ اپنیشد کی تعلیمات کا منبع توحید، حق پرستی اور عرفان ذات ہے۔ خود آگاہی،حقیقت اولی کی تلاش اور تقویٰ پر زور دیتی ہے۔ اوپنشد بشری علم و دانش کے انمول موتی ہیں اور انسانی فکر کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اوپنشدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان میں سے 12اوپنشد سب سے قدیم ہیں اور 13 تھوڑا متاخر ہیں ۔زمانے کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیااور اس کی تعداد مجموعی طور پر 108 اوپنشد قرار پائی۔

شاہزادہ دارا شکوہ نے کچھ علما کی مدد سے 50 اوپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور یہ ترجمہ سب سے پہلے راجستھان کے شہر جے پور سے تین جلدوں میں اشاعت پذیر ہوکر منظر عام پر آیا۔نیز 1801 میں دارا شکوہ کا یہ ترجمہ جو ’سر اکبر‘ کے نام سے مشہور تھا ایک فرانسیسی جوان ’انکٹیل ڈپرون‘ کے ہاتھوں لاطینی اور فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوا اور یہ ترجمہ1882ء میں جرمنی زبان میں منتقل ہوا۔ انھیں ترجموں کے ذریعے ہندوستان کے قدیم ادبی آثار کا باب مغرب کی جانب کھلا اور مغربی لوگ یہاں کی تہذیب و ثقافت اور علمی کارناموں سے آشنا ہوئے ۔

سر اکبر ’ڈاکٹر تارا چند‘(ماہر تاریخ و فلسفہ اور ایران میں ہندوستانی سفیر)اور سید محمد رضا جلالی نائینی کے باہمی تعاون سے 840 صفحات پر مشتمل مقدمہ و حواشی نیز تعلیقات و لغت نامہ اور فہرست ِ اعلام کے ساتھ تہران میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔ اس کے علاوہ ’ڈاکٹر رضازادہ شفق‘ ایران کے نامی استاد نے ’گزیدہ ٔ اوپانیشادہا‘ (منتخب اوپنشدیں) کے نام سے ’روبرٹ ارنسٹ ہیوم‘ کی کتاب سے فارسی میں ترجمہ کیا اورمقدمہ و حواشی اور فہرست لغات کی شمولیت کے ساتھ 500 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو منظر عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ۔

.5       مہابھارت: یہ کتاب اٹھارہ ابواب اور ایک لاکھ سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔مہابھارت ایک بے مثال اور بیش بہا کتاب ہے اور شاہنامہ ٔ فردوسی کے بعینہ ہندوستان کے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کو ابتدا سے زمانۂ تالیف تک ترسیم کیا ہے۔ اس کا خالق ’ویاس‘ نامی حکیم اور دانشمند شاعر ہے۔ مہابھارت موضوع کے اعتبار سے انتہائی متنوع ہے جس میں جنگ،راج دربار،محبت اورمذہب سبھی شامل ہیں۔

مہابھارت کا80 فیصد حصہ قدیم داستانوں اور حوادث پر مشتمل ہے جو سنسکرت کے دیگر مشہور و معروف کارنامے جیسے بھگوت گیتا، شکنتلا، نل دمنی کے مصنفوں کے لیے پیش خیمہ اور الہام بخش ثابت ہوا۔ ہندوؤںکے عقیدے کے مطابق مہابھارت ایک ایسی کتاب (حماسہ ) ہے کہ ایسی کوئی چیز دنیا میں نہیں جو اس کتاب میں موجود نہ ہو اور ایسی کوئی چیز اس کتاب میں نہیں جو اس دنیا میں موجود نہ ہو! بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے حکم سے اس کا فارسی ترجمہ عمل میں آیا۔ ’نقیب خان‘ اس مہم کا چیف انچارج تھا مگر ملا عبدالقادر بدایونی نے بھی اپنے حصے کی خدمات پیش کیں اور بالآخر چار مہینہ محنت و لگن کے بعد اٹھارہ ابواب منثور فارسی میں ترجمہ ہوئے۔ اس کام میں ملا شیری اور حاجی سلطان تھانیسری نے بھی شرکت کی ۔اس طرح متعدد لوگوں کی شرکت و مساعی سے یہ کام منزل تکمیل تک پہنچا اور اکبر نے اسے ’رزم نامہ‘ نام رکھنے کی تجویز پیش کی اور مہابھارت کی کہانیوں کے جنگی مناظر بھی اکبر کے نقاشوں کے توسط سے اس کتاب میں شامل کیا گیا۔ ابوالفضل فیضی نے اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام 995ھ کو اختتام پذیر ہوا۔

.5       رامائن: یہ پراچین بھارت کا ایک سنسکرت مہاکاویہ نظم ہے۔ اس کا خالق ’مہرشی والمیکی‘ ہے جو آٹھ سو سال قبل مسیح زندگی بسر کرتا تھا۔ اس میں 24000 ابیات(شلوک) موجود ہیں۔

اس کہانی کو 20 لوگوں سے زائد افراد نے فارسی میں ترجمہ کیا۔ عبدالقادر بدایونی نے اکبر شاہ کے حکم سے رامائن کے ترجمے کا آغاز کیا اور بادشاہ کے حضور میں پیش کردیا۔ اس کے علاوہ جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں اس کا ایک منظوم ترجمہ عمل میں آیا جسے ’رام و سیتا‘ کے نام سے موسوم کیا گیا،یہ ترجمہ شیخ سعد الدولہ مسیح (یا مسیحا) خیرانوی پانی پتی نے انجام دیا، نیز اسی زمانے میں دوسرا ترجمہ ’گردھر داس کایستہ دہلوی‘ نے انجام دیا اور بادشاہ وقت کو پیشکش کیا۔ ایک اور ترجمہ ’دیبی داس کاتیہ‘ نے مرحلۂ تکمیل کو پہنچایا۔ ایک ترجمہ اور جس کا سراغ ملتا ہے اورنگ زیب کے دور کا ہے جسے ’امرسنگھ منشی‘ نے انجام دے کر ’امربد پرکاش ‘ نام رکھا۔ علاوہ ازیں ایک اور منظوم ترجمہ ہوا جسے ’منشی منوھر سنگھ‘ نے انیسویں صدی عیسوی میں تخلیق کیا،نیز ایک ترجمہ ’راجیشور راؤ‘ کے توسط سے انجام پایا جو مطبع اختر دکن حیدرآباد سے شائع ہوا۔

.6       بھگوت گیتا:بھگوت گیتا یا شریمد بھگود گیتا (لفظی ترجمہ:الوہی نغمہ) ہندو مت کا سب سے مقدس الہامی صحیفہ ہے۔ 18 ابواب اور 700  شلوک پر مشتمل ۔اس صحیفے کے تمام تر حصوں میں فلسفی اور مذہبی مباحث نیز عرفانی افکار و خیالات پر گفتگو ہوئی ہے۔  اس شہ پارے کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے ہوتا ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کا ترجمہ وجود میں آچکا ہے۔ اس صحیفے کے دو مرکزی کردار یعنی ’ارجن ‘ اور ’کرشن‘ کے مابین جنگ سے پہلے جو گفتگو ہوتی ہے اسے پیش کیا گیا ہے۔

گیتا کا اولین ترجمہ اکبر کے کچھ درباریوں سے منسوب ہے جو گمنام ہیں۔گیتا کا دوسرا ترجمہ جو مکمل ہے مگر اس کے خطی نسخے پر سنہ ترجمہ یا کتابت کا کوئی سراغ نہیں ملتامگر اس کو شیخ ابوالفضل فیضی اور داراشکوہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس ترجمے کے دو فارسی نسخے برٹش میوزیم میں آج بھی محفوظ ہیں۔ دونوں کا انتساب مختصر عبارتوں کے تفاوت کے ساتھ شیخ ابوالفضل کی طرف ہے (گیتا؛ ترجمہ ڈاکٹر محمد علی موحد، بنگاہ نشر و ترجمہ کتاب تہران،ص16) اس کا دوسرا ترجمہ جو ایجاز و اختصار کے ساتھ ’مرآۃ الحقائق‘ کے نام سے ہوا ہے عبد الرحمن ابن عبدالرسول ردولوی (متوفی 1094ھ؍1631) کے توسط سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ایک اور ترجمہ ’نغمہ ایزدی‘ کے نام سے مشہور ہے جو کہ استاد عباس مہرین شوشتری نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے اور اس کا دوسرا ایڈیشن 1346شمسی میں 312 صفحات پر مشتمل اشاعت پذیر ہوا ۔ایک اور ترجمہ جو زیب دید ہوا ’ڈاکٹر محمد علی موحد‘ کا ہے جو ہندوستانی فلسفے اور مذاہب کے اصول اور مبانی پر مبنی ایک ہمہ گیر فصیح و بلیغ مقدمے کے ساتھ 140 صفحات پر مشتمل 1344 شمسی میں تہران سے شائع ہوا۔اکبر کے دور کے فارسی ترجمے کے بعد تو گویا دبستان کھل گیا۔اردو میں بھی اس نظم کے کم از کم پچاس ترجمے ہوچکے ہیں۔

.7       نل دمنیتی:عشق و محبت کی ایک جانگداز کہانی جو خود مہابھارت کا ایک حصہ ہے اور دنیا کی دلاویز عشقیہ داستانوں میں اس کا شمار کیا جاتا ہے ۔

اکبر کے دربار کا ملک الشعرا یعنی فیضی فیاضی نے بادشاہ کے حکم سے اس کا فارسی ترجمہ کیا اور اس کا نام ’نل و دمن‘ رکھا۔ یہ منظوم ترجمہ چار ہزار دو سو ابیات پر مشتمل ہے۔ اس کے ترجمے کا کام محض چھ مہینے میں انجام پایا تھا۔ عبد القادر بدایونی نے اپنی تالیف منتخب التواریخ میں فیضی کی اس کوشش کو بہت سراہاہے۔ (منتخب التواریخ؛ عبدالقادر بدایونی:ج2،ص396) یہ مثنوی ہندوستان کے مختلف شہروں کے مطابع جیسے کلکتہ و لکھنو ٔ سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔ تہران ایران میں بھی ’علی قویم‘ کی کوششوں سے شاعر کے احوال اور شاہانِ تیموریہ کی تاریخ کے الحا ق کے بعد 1335شمسی میں شائع ہوئی۔فیضی کے منظوم ترجمہ کے پیش نظر بعد میں ’عشرتی عظیم آبادی‘ نے 1831-33 میں اسے فارسی نثر میں منتقل کردیا۔

.8       شکنتلا:سنسکرت کلاسیکی ادب میں عظیم شاعر و ڈرامہ نویس ’کالی داس‘ کے طویل منظوم ڈرامے اور اس کے مرکزی کردار کا نام ہے۔سنسکر ت میں شکنتلا کا لفظی مطلب ہے :مامون اور محفوظ۔ کہانی کا پلاٹ کالی داس نے مہابھارت سے لیا ہے۔ شکنتلا ایک رشی(سادھو) کی لڑکی تھی۔ وہ ’مناکا ‘ نامی پری کے بطن سے تھی۔ جب پیدا ہوئی تو جنگل میں پھینک دی گئی۔ وہاں سے ’رشی کنوا‘ اسے اٹھاکر لے گیا اور پرورش کی۔ یہ سادھو ہردوار کے قریب ایک چھوٹی سی ندی مالینی کے کنارے رہا کرتا تھا۔جب شکنتلا جوان ہوئی تو ایک روز جبکہ سادھو کہیں باہر گیا ہوا تھا، راجا دشینت نے ایک انگوٹھی یادگار کے طور پر شکنتلا کی انگلی میں پہنادی اور روانہ ہوگیا۔کچھ دنوں بعد جب شکنتلا اپنے شوہر کے پاس گئی تو اس نے یہ دیکھ کر کہ اس کے پاس میری نشانی (انگوٹھی)نہیں ہے (کیونکہ انگوٹھی راستے میں آتے ہوئے ایک تالاب میں گر پڑی تھی)اسے دربار سے نکال دیا گیا۔ شکنتلا مصیبت کی ماری جنگل میں چلی آئی۔ یہاں اس کے بطن سے شہزادہ ’بھرت‘ پیدا ہوا۔ بھارت کا نام اسی شہزادے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کچھ عرصے بعد ایک ماہی گیر نے اس تالاب میں جال پھینکا تو ایک نہایت خوبصورت مچھلی جال میں پھنس گئی۔ ماہی گیر نے مچھلی کو جب چیرا  تو اس کے پیٹ سے انگوٹھی برآمد ہوئی جسے دیکھتے ہی دشینت کو اپنا قول و قرار یا دآیا اور شکنتلا سے کی گئی زیادتی پر نادم ہوا۔ وہ جنگل میں گیا اور بھرت اور شکنتلا کو تلاش کرکے محل میں لے گیا اور تینوں کی باقی زندگی راحت سے گزری۔

اس منظومہ کی شہرت اس وقت ہوئی جب ایک انگریز مفکر اور دانشمند نے ایک سو ستر سال قبل اس کے مطالعے کے بعد اس کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا اور انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے دنیائے مغرب کو اس سے روشناس کرایا۔ زبان و بیان کی لطافت و ظرافت، معانی کی گہرائی اور لفظوں کی رقت اور بہت سی جہات سے یونانی کلاسیک ڈراموں سے شباہت رکھتا ہے۔ ہندوستان کے نامی اور ہر دلعزیز نوبل انعام یافتہ شاعر ’رابیندر راناتھ ٹیگور‘شکنتلا کی توصیف میں رقم طراز ہیں: ’’یہ منظوم داستان قصہ اور افسانہ نہیں بلکہ ایک باطنی روشنی اور روحانی تابندگی ہے جس کی کرنیں عالم غیب کے سراپردہ پر پڑتی ہیں اور شاعر کی زبان سے پھوٹ کر باہر آتی ہیں۔جرمن کا مشہور شاعر ’گوئٹے‘ اس کے مطالعے کے بعد اس شہ پارے کی مدح میں لکھتا ہے:’’اس منظوم کا مطالعہ میری ادبی زندگی کا سب سے بڑا اور حسین اتفاق تھا۔‘‘ اور ایک مدحیہ رباعی بھی اس نظم کے تئیں لکھی۔

ڈاکٹر علی اصغر حکمت (ایران کے سابق سفیر) نے شکنتلا کا فارسی ترجمہ نظم و نثردونوں میں کیا اور ’سر رادھا کرشنن‘ ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ کے پیش لفظ کے ساتھ 175 صفحات پر مشتمل دہلی یونیورسٹی کی جانب سے 1957 میں منظر عام پر آئی۔ اس کا دوسر ا نثری فارسی ترجمہ مرحوم و مغفور ڈاکٹر ہادی حسن (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق صدرِ شعبہ ٔ فارسی) کے ذریعے انجام پایا اور 1956 میں ممبئی سے اشاعت پذیر ہوا۔ اس کے علاوہ ایک اور منظوم ترجمہ ’ڈاکٹر ایندو شیکھر‘ (سابق استاد شعبۂ سنسکرت اور ہندوستان شناسی، تہران یونیورسٹی،ایران) کے ہاتھوں ہوا اور تہران سے شائع ہوا۔ یہ ترجمہ171 صفحات پر مشتمل تھا۔

.9       وکرم اوروشیم:یہ شاہکار بھی کالی داس سے منسوب ہے ۔یہ بھی ایک مشہور ناٹک ہے اور شکنتلا کی طرح حسنِ کلام و آرائش اور شیرینی بیان کی حیثیت سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔یہ کہانی دنیا کے ہر گوشے میں اقبال مند ہوئی اور کم و بیش تمام زندہ زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کا فارسی ترجمہ ’ڈاکٹر سید امیر حسن عابدی ‘(سابق استادشعبہ ٔ فارسی دہلی یونیورسٹی) کے باکمال ہاتھوں سے انجام ہوا۔ یہ ترجمہ مرحوم مولوی محمد عزیز مرزا کے اردو ترجمہ سے ہوا اور1924  میں 216 صفحات پر مشتمل شائع ہوا۔ اس ترجمے میں جناب ’محمد تقی مقتدری‘ (ایران کے ادبی و ثقافتی سفیر) کے دیباچے اور مترجم کے عمیق و محیط تفصیلی مقدمے سے آراستہ ہوکر ایران اور دہلی کے مشترکہ تعاون سے 1959میں منظر عام پرآگئی۔

.10     رگھو ونشم:یہ بھی کالی داس کے اہم کارناموں میں شمار ہوتاہے۔اس کہانی کو ’محمد تقی مقتدری‘ (ممبر منسٹری آف اکسٹرنل افیرز،ایران) نے اس کتاب کوایک جشن جو کالیداس کے پندرہ سو سال یوم پیدائش کے تقریب کے موقع پر جو 1958 میں منعقد ہوا تھا حکومت ہند کو ہدیہ کیا تھا ۔اس کہانی کا فارسی ترجمہ’دودمان راگو‘ کے نا م سے مع تعلیقات شائع ہوا تھا ۔

.11     سنگھاسن بتیسی:کہانیوں کا ایک دلچسپ مجموعہ جو اصل زبان سنسکرت میں sinhasandwatrinshati کے نام سے تھا مگر افسوس اس کا مصنف گمنام ہے ۔ سنگھاسن بتیسی میں تخت پر نصب بتیس پریوں جیسی پتلیاں کہانیاں سناکر ’راجا بھوج‘ کو سمجھاتی ہیں کہ وہ اس تخت پر بیٹھنے کے لائق نہیں۔ بتیس چونسٹھ کا نصف ہے۔ پرانے زمانے میں چونسٹھ کا کوئی خاص معنی تھا جو اب ہمیں معلوم نہیں ۔یہ تخت ’راجہ وکرامادیت‘ کا تھا جو ان کی موت کے بعد زمین میں دھنس کر مدفون ہوگیاتھا مگر گیارہویں صدی میں راجہ بھوج نے اسے ڈھونڈ نکالا اور اس پر بیٹھنے کا ارادہ کرلیا۔

سنگھاسن بتیسی کی کہانی پہلی بار اکبر شاہ کے دور میں ملا عبدالقادر بدایونی کے ہاتھوں ’خرد افزا‘ یا ’خردافروز‘ کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوا اور 1003 ھ میں اس پر نظر ثانی کی گئی ۔اس کتاب کا دوسرا ترجمہ مہر چندساکن کے بیٹے ’چیتر بھوج داس کایتی‘ ساکن سونی پت کے ہاتھوں ہوا اور اس کا نام ’شاہنامہ ‘ قرار پایا۔ان دونوں تراجم کے علاوہ ایک اور ترجمہ اورنگ زیب کے دور سلطنت میں راجہ مل مہتری کے بیٹے ’بہاری مل‘ نے انجام دیا۔

.12     جوگ بشست:یہ کتاب در اصل ’رام چندر‘اور ’رشی وششت‘ کے مابین ایک مکالمہ ہے جو تصوف و عرفان کے معنی و مطالب پر مبنی ہے۔

اس کتاب کا بھی فارسی ترجمہ ہندوستان کے زرین عہد یعنی اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں ہوا اور ’نظام الدین پانی پتی‘ نے اس کام کو انجام دیا۔ اس کے علاوہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں دارا شکوہ کی سرپرستی میں اس کا ایک اور فارسی ترجمہ ہوا جسے ’اطوار در حل اسرار‘ کا نام دیا گیا اور مطبع نامی نولکشور سے شائع بھی ہوا۔ چاپ نولکشور میں یہ کتاب دس اطوار پر مشتمل ہے :طور اول در بیان تجرید،طور دوم در بیان آن کہ عالم خیال محض است، طور سوم در بیان آزادی، طور چہارم در بیان جمعیت دل، طور پنجم در بیان رفع خواہش (آرزو)، طور ششم در بیان نفس، طور ہفتم در بیان معرفت حق،طور ہشتم در بیان یافت نفس، طور نہم در بیان معرفت حال، طور دہم در بیان کمال معرفت۔اس کتاب کا سب سے متاخر فارسی ترجمہ صفوی دور میں ہوا البتہ یہ ترجمہ ایک منتخب ہے جسے ’میر فندرسکی‘ نے انجام دیا اور اس پر ایک شرح بھی لکھی۔

.13     پنچ تنتر (پنجہ تنترہ):قدیم ہندوستان کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں جانوروں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ تیار کیا گیا ہے جس میں شاعری اور نثر میں ایسی کہانیوں کو ترتیب دیا گیا ہے جس میں اخلاقی اور سماجی پہلو ہیں ۔یہ کتاب عربی اور فارسی میں کلیلہ و دمنہ کا ماخذ بھی ہے ۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ ’وشنو شرما‘ نے تیسری صدی قبل از مسیح میں اسے لکھا تھا ۔اس کتاب کا سب سے پہلا فارسی ترجمہ نوشیرواں عادل کے زمانے میں اس کے درباری طبیب ’حکیم برزویہ‘ کے توسط سے مکمل ہوا۔اس کے علاوہ اور بھی فارسی تراجم ہوئے جو مندرجہ ذیل ہیں:1۔رودکی کا منظوم ترجمہ2۔ چھٹی صدی ہجری میں ابوالمعالی نصر اللہ منشی کا منثور ترجمہ 3۔ احمد بن محمود قانعی طوسی کا 618ھ؍1221 میں ’مثنوی کلیلہ و دمنہ‘ کے نام سے۔یہ منظوم ترجمہ تھا۔ 4۔ ’عیار دانش‘ تالیف ابوالفضل علامی۔یہ نثری ترجمہ 996ھ میں مکمل ہوگیا تھا اور 1879 میں منشی نولکشور کے مطبع سے شائع ہوا۔5۔’نگار دانش‘ در اصل عیار دانش کا خلاصہ ہے6۔ ’گلشن آرا‘ تالیف میرزا عبدالوہاب ایران پور (مدیر روزنامہ اختر مسعود) 7۔’شکرستان ‘یا ’منظومۂ انوار سہیلی‘ تالیف خسرو دارایی (ایرانی بادشاہ فتح علی شاہ قاجار کے پوتے)8۔انوار سہیلی تالیف ملا حسین واعظ کاشفی ۔ (پنج تنترہ؛ڈاکٹر ایندو شیکھر:ص20)

.14     شنکر بھاشیا :’شنکر‘ نامی شخص نے سنسکرت کتاب ’برہماسوترا‘ جو ’’دریانا‘کا کارنامہ ہے اس پر ایک تفسیر لکھی جسے ’شنکر بھاشیا‘ کا نام دیا۔ یہ تفسیر انیسویں صدی عیسوی میں لکشمی نرائن کے ہاتھوں سنسکرت سے منثور فارسی میں ترجمہ ہوئی اور اس کا نام ’حدائق المعرفہ‘ منتخب کیا گیا ۔ اس کا ایک خطی نسخہ لاہور پبلک لائبریری میں موجود ہے ۔(ادبیات فارسی میں ہندوؤں کاحصہ،ڈاکٹر سید عبد اللہ،ص215)

.15     مرآۃ المخلوقات: در حقیقت یہ کتاب ایک سنسکرت کتاب کا فارسی ترجمہ ہے جس کامحوری موضوع گفتگو در اصل ’مہادیو اور پاروتی‘ کے مابین تخلیق کائنات اور اس کے باشندوں کے بارے میں تبادلہ خیال کی صورت میں ایک مکالمہ ہے۔ اس کتاب کے مترجم ’عبدالرسول چشتی ردولوی‘ کے بیٹے ’عبدالرحمن‘ ہیں۔  اس کا ایک خطی نسخہ ممبئی لائبریری میں محفوظ ہے۔ (فہرست نسخہ ہای خطی فارسی بمبئی؛تالیف دکتر سید مہدی غروی،ص134)

.16     شوکسپتتی:اس ادبی فن پارے کا مصنف ’چنتامنی بھٹ‘ ہے جسے ’خواجہ ضیاء الدین نخشبی بدایونی‘ نے ’طوطی نامہ‘ کے نام سے چودہویں صدی میں فارسی میں ترجمہ کیا ۔نخشبی کا طوطی نامہ 52  افسانوں پر محیط ہے۔ نخشبی کی عبارت غیر سلیس و ثقیل تھی اس لیے عوام کی فہم کے لیے ’سید محمد خداوند قادری ‘ نے اسے آسان زبان میں منتقل کیا،(سبک شناسی ؛ملک الشعرا بہار، ج3،ص260) اس کے علاوہ ہر کہانی سے مربوط زیادہ تر اپنے اشعار اور دیگر شعرا کے اشعار مرصع کیے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد دارا شکوہ نے بھی اسے آسان زبان میں منتقل کی ۔یہ کتاب انگریزی ترجمہ کے ساتھ لندن سے شائع ہوئی۔

.17     راج ترنگنی: راج ترنگنی تاریخ پر ایک مستند اور قدیم ترین تاریخی کتاب ہے جسے ’پنڈت کلہن‘ نے تحریر کیا۔ اس کتا ب میں ابتدائی دور سے لے کر بارہویں صدی عیسوی تک کے شمال مغربی برصغیر کے فرمانرواؤں کی زندگی پر عموماً اور کشمیر کے راجاؤں اور مہاراجاؤں پر خصوصاً ایک ضخیم تاریخی کتاب لکھی گئی۔ یہ کتاب ’بحر الاسما‘ کے نام سے’ملا محمد کشمیری‘کے توسط سے فارسی میں ترجمہ ہوئی مگر اس کے باوجود ایک بار پھر اکبر شاہ کے حکم سے ’مولانا شاہ محمد شا ہ آبادی‘ کی کوششوں سے فارسی میں ترجمہ ہوئی اور اس کا ایک انتخاب بھی ’شیخ عبدالقادر بدایونی‘ کے ہاتھوں عمل میں آیا،نیز ’نارائن کول عاجز‘ نے بھی اسے فارسی میں منتقل کیا اور اس کا نام ’تاریخ کشمیر‘ رکھا۔

.18     تاجیکا: یہ کتاب ’نیل کانتھا‘ کی ایک معتبر تخلیق ہے جو علم نجوم پر لکھی گئی ہے ۔یہ کتاب اکبر شاہ کے زمانے میں ’مکمل خان گجراتی‘ کی محنتوں سے فارسی میں ترجمہ ہوئی۔

.19     لیلاوتی: یہ کتاب ’بھاسکر آچاریہ‘ کی فن ریاضی اور ہندسہ پر مبنی ایک سنسکرت علمی کتاب ہے۔ اس کتاب کے علاوہ ’سدھانت شرومنی ‘ بھی جو نجوم کی بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے اسی مصنف کی ہے۔ بھاسکر آچاریہ نے لیلاوتی کو ریاضیات اور نجوم کے علما کی مدد سے تدوین کیا اور اس کا نام اپنی بیٹی لیلاوتی کے نام پر رکھ دیا۔اس کتاب کا فارسی ترجمہ فیضی فیاضی نے ایک بار پھر بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا اور 158 صفحات پر مشتمل کلکتہ سے شائع ہوئی ۔اس کے علاوہ اورنگ زیب کے دور حکومت میں بھی ریاضی پر مبنی ایک رسالہ’بدائع الفنون‘ جس کی بنیاد لیلاوتی اور ایک طرح سے اس کی تفسیر بھی قرار پائی ’دھرم نارائن‘ کے ذریعے بادشاہ کی خدمت میں پیش کی گئی ۔

.20     امرتا کنڈ:علم یوگا،مذہبی عقائد اور فلسفیانہ مباحث پر محیط سنسکرت زبان کی ایک کتاب ہے مگر بدقسمتی سے مولف گمنام ہے ۔اس کا فارسی ترجمہ سب سے پہلے’علی مردان خلجی‘ کے زمانے میں منظر عام پر آیا۔ یہ ترجمہ ’قاضی رکن الدین سمرقندی‘ نے انجام دیا مگر آج جو فارسی ترجمہ ہمارے درمیان دستیاب ہے ’محمد غوث گوالیاری‘ کی ’حوض الحیات‘ ہے اور بنگال میں پہلی فارسی کتاب کا عنوان بھی پایا۔(مجلہ ثقافت پاکستان)

.21     بریھت کتھا: حیدر آباد دکن کے مرکزی کتب خانے میں بریھت کتھا کا ایک فارسی ترجمہ (نمبر 3642) محفوظ ہے۔علم دوست بادشاہ اکبر کے دور میں اس کتاب کو ’مصطفی خالقداد عباسی‘ نے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا اور ’دریای اسمار‘ کے نام سے ادبی حلقے میں روشناس کرایا۔ اس کا مصنف ’گُندھیا‘ ہے جو بادشاہ ’ستواہانا‘ کے دربار سے وابستہ تھا ۔

.22     تودرنندا:یہ کتاب راجہ ’ٹوڈرمل‘ سے منسوب ہے۔یہ تخلیق در اصل ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) ہے جوسنسکرت زبان میں لکھی گئی اور مدنی،مذہبی، نجوم،طب اور فلسفہ جیسے مباحث پر مبنی ہے۔ اس کا فارسی ترجمہ ’خازن اسرار‘ کے نام سے ہوا۔اس کتاب کا ایک خطی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود ہے ۔ (ادبیات فارسی میں ہندوؤں کا حصہ ؛ڈاکٹر سید عبداللہ،ص37)

.23     راما شوامیدھا:یہ کتاب ’مدانا شاعر‘ کی ہے جو ’رام ‘ کے شرح و احوال کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں ’مکھن لال ظفر‘ نے اس کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا اور اس کاعنوان ’جہان ظفر‘ رکھا۔(ادبیات فارسی میں ہندوؤں کا حصہ ؛ڈاکٹر سید عبداللہ،ص215)

.24     سنگیتا درپن: اس کتاب میں موسیقی اور رقص کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔اس کا مولف ’پنڈت دامودر‘ لکشمی دھارا کا بیٹا ہے ۔اس کے لغوی معنی ’موسیقی کا آئینہ‘ ہے۔اس کا فارسی ترجمہ ’غنیمۃ المنیہ‘ کے نام سے ہوا ہے ۔

.25     راگ درپن: یہ کتاب بھی ہندوستانی فن موسیقی کے بارے میں ہے جو کہ’محمد شا ہ رنگیلا‘ کے دور حکومت میں ’فقیر اللہ سیف خان‘کے ہاتھوں سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ ہوئی۔

.26     آگاد تنتر وگیان: یہ کتاب علم طب اور ہندوستانی طریقہ ٔ علاج سے مربوط ہے ۔یہ کتاب سکندر شاہ لودھی کے دور ملوکیت میں سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ ہوئی۔یہ کام ’بھواوت خان ‘ کے ذریعہ انجام پایا اور اس کا نام ’طب سکندری‘ یا ’معد ن الشفای سکندر شاہی‘ رکھا گیا ۔

.27     کتھا سرت ساگر:سنسکرت کہانیوں کا مجموعہ جس کا خالق ’سومادیوا‘ہے ۔ یہ کتاب شیخ فیضی نے فارسی میں ترجمہ کیا ۔

.28     بیتال پچیسی: یہ سنسکرت الاصل کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے ۔اس میں پچیس کہانیاں ہیں جو ایک بیتال (بھوت) راجہ ’بکرم اجیت‘ کو سناتا ہے اور اس میں ان کی اقبال مندی اور ظفر کابھی اشارہ کرتا ہے۔

اس میں ہندوستانی سماج اور عوام نیز ہندوستان کے قدیم راجاؤں کے جاہ و جلا ل کے بارے میں بتایا گیا ہے۔جہانبانی کے بہت سے رموز سے گرہ کھولی گئی ہیں۔یہ کتاب اورنگ زیب کے دور میں ترجمہ ہوئی اور ’راج کرن‘ نے اسے فارسی میں ترجمہ کرکے ’تحفہ المجالس‘ کے نام سے ارباب ذوق کے سامنے پیش کردیا۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے سنسکرت اور فارسی زبان کے باہمی تعلقات بلکہ اگر یو ںکہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان اور ایرا ن کے آپسی تعلقات جغرافیائی قید و بند،رنگ،ذات اورپات سے بہت آگے اور اوپر اٹھ کر ایک علمی اور ادبی حصار میں بندھے ہوئے تھے اور دونوں ملکوں کے تعلقات اس قدر گہرے اور وسیع تھے۔اگرچہ مذہبی اعتبار سے دونوں ملک کافی الگ طرز خیال رکھتے تھے مگر یہ اختلافِ سلیقہ کبھی بھی دونوں قوموں کے درمیان دوری اور انفصال کی وجہ نہ بن سکا اور علمی نقطہ ٔ نظر سے یک جہتی دیکھی جاسکتی تھی ۔سنسکرت زبان کے ادبی شہ پاروں کے فارسی زبان میں متعدد تراجم اس دور کے ماہرین فن کی صلاحیتوں نیز فارسی زبان کی وسعت دامنی پر بیّن دلیل ہیں۔

کتابیات

1        فارسی ادب میں ہندوستان کا حصہ جدید تحقیقات کی روشنی میں ؛پروفسیر امیر حسین عابدی:ناشر خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،1982۔

2        اہل ہند کی مختصر تاریخ ؛ڈاکٹر تارا چند:اردو اکیڈمی،دہلی،1968۔

3        الفہرست؛ترجمہ فارسی از م،رضا،تجدید چاپ،تہران،1343شمسی۔

4        سبک شناسی یا تاریخ تطورنثر فارسی ؛محمد تقی بہار:ج اول،امیر کبیر پبلی کیشنز،تہران،1349شمسی۔   

5        گیتا ؛ترجمہ ڈاکٹر محمد علی موحد:ناشر بنگاہ نشر و ترجمہ کتاب،تہران،1398شمسی۔

6        منتخب التواریخ ؛عبدالقادر بدایونی :مترجم علیم اشرف خان،ج2و3،ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،طبع اول،دہلی،2008۔

7        پنج تنترہ ؛ڈاکٹر ایندو شیکھر :ناشر دانشگاہ تہران،1385شمسی۔

8        سبک شناسی ؛محمد تقی بہار :ج سوم،امیر کبیر پبلی کیشنز،تہران،1349شمسی۔

 

Mohammad Reza Azhari

D/O Persian,  A.M.U, Aligarh

Room No 83, Aftab Hostel, Aftab Hall, A.M.U

Aligarh- 202002 (UP)

Mob.: 7985371677

azhari.reza110@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...