9/8/24

اودھ میں فارسی تاریخ نگاری کی روایت، مضمون نگار :انصاری عبدالرحمن

 سہ ماہی فکر وتحقیق، اپریل-جون2024


تلخیص

 ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کی ایک شاندار روایت رہی ہے جس کا آغاز سلاطین دہلی کے عہد میں ہوا اور مغلیہ عہد میں تاریخ نگاری نے ترقی کے مدارج طے کیے۔ مغل بادشاہوں کے بعد نوابین اودھ نے بھی تاریخ نگاری کی طرف قابل قدر توجہ دی ہے لیکن نوابوں کے ابتدائی دور میں لکھی گئی تواریخ کی تعدادبہت کم ہے۔نواب سعادت علی خان مبارزجنگ کو اس فن میں کافی دلچسپی تھی اور اسی وجہ سے اس دور میں لکھی گئی تواریخ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، تاریخ نگاری انگریزی افسران کی بھی دلچسپی کا موضوع رہا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے مؤرخین کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی۔ اس مقالے میں راقم سطور نے مخطوطات کی فہرست سے اودھ میں لکھی گئی تواریخ کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ بیشتر تواریخ غیرمطبوعہ یامخطوطات کی شکل میں موجود ہیںاس لیے ان کے محتویات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ 

کلیدی الفاظ

 فارسی تاریخ نگاری، شاہان اودھ، مغلیہ سلطنت،مخطوطہ شناسی، فہرست مخطوطات

—————

ہندوستان میں تاریخ نگاری کا فن کافی مقبول رہا ہے اور یہاں کے مختلف گوشہ و کنار کے تمام علمی مراکز میں اس فن کو سراہا گیا ہے۔ ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کی روایت کا آغاز سلاطین دہلی کے عہد میں ہوا جس میں عربی و ایرانی دونوں ہی طرز کے اجزا شامل تھے۔ مغلیہ عہد میں متعدد رسمی، غیر رسمی، عمومی، خصوصی، مقامی، اسلامی تواریخ  منظر عام پر آئیں جو اس دور کا قیمتی سرمایہ اور معتبر مآخذ ہیں۔

 اٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل سے ہی مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا اور انحطاط کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ مرکزی سلطنت کی زبوں حالی دیکھ کر اطراف و اکناف میں آزاد حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ یہ آزاد حکومتیں لوازمات شاہی کے علاوہ علم دوستی و ادب پروری پر بھی خصوصی توجہ دیتی تھیں۔ اسی روایت کے نتیجے میں ہندوستان میں  لکھنؤ، حیدرآباد، عظیم آباد، مرشدآباد جیسے بڑے علمی مراکز قائم ہوئے۔

 شمالی ہندوستان میں شاہان اودھ کا دربار کافی با رونق اور عظیم الشان تھا۔ 1722میں نواب برہان الملک سعادت علی خان (حک:1722 تا 1739) اودھ کے صوبے دار مقرر ہوئے اوریہاں کی باگ ڈور سنبھالی۔ نواب برہان الملک سیاسی مصروفیت کے باوجود، ادب پروری سے غافل نہیں تھے اورعلما، شعرا و مؤرخین کو اپنے دربار میں مدعو کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کے جانشین بھی ادبا کو اودھ مدعو کرتے اور صلہ و انعامات اور اپنی مالی سخاوت سے انھیں آسودہ حال کرتے تھے۔ نوابوں کی داد و دہش کی شہرت ملک و بیرون ملک میں ہر طرف پہنچنے لگی۔ دہلی میں چل رہی طوائف الملوکی اور سیاسی عدم استحکام سے پریشان ادبا اودھ کا رخ کرنے لگے۔ فکر معاش میں سرگرداں ایرانی ادبا بھی اودھ آنے لگے۔ بہ تدریج اودھ میں ادبا کا جم غفیر پیدا ہوگیا اور اس صوبے کا شمار ہندوستان کے اہم علمی مراکز میں ہونے لگا۔ 

مغل بادشاہوں کے بعد نوابین اودھ نے بھی تاریخ نگاری  کی طرف قابل قدر توجہ دی ہے لیکن نوابوں کے ابتدائی دور میں لکھی گئی تواریخ کی تعدادبہت کم ہے۔فہارس میں نواب برہان الملک کے عہد میں لکھی گئی صرف ایک تاریخی کتاب ’برہان الفتوح‘ کا ذکر ملتا ہے جسے 1148ھ/ 1735-36 میں محمد علی برہان پوری نے نواب برہان الملک کو معنون کیا تھا۔ نواب ابوالمنصور خان صفدرجنگ (حک: 1739تا 1754) کی زیر سرپرستی لکھی گئی کسی تاریخ کا ذکر نہیں ملتا۔ نواب شجاع الدولہ (حک: 1754 تا1775) کے عہد میں صرف 3 تواریخ ’ وقائع شجاعی‘،’ فرحت الناظرین‘ اور ’چہار گلزار شجاعی‘ کا ذکر ملتا ہے۔  نواب آصف الدولہ (حک:1775 تا 1795) نے تاریخ نگاری کی طرف خاص توجہ دی اور ان کے عہد میں’لب السیر و جہان نما‘،  ’ اوصاف الآصف‘،’تفضیح الغافلین‘ اور’ مثنوی آصف نامہ‘ لکھی گئیں۔

نواب سعادت علی خان مبارزجنگ (حک: 1798 تا 1814) کو اس فن میں کافی دلچسپی تھی اور اسی وجہ سے اس دور میں لکھی گئی تواریخ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ نواب سعادت علی خان نے اپنے عہد کے مشہور مؤرخ جملہ غلام علی رضوی سے نوابین اودھ کی تاریخ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ غلام علی رضوی نے 1223ھ/1808 میں نواب سعادت علی خان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا اور دو ماہ کی قلیل مدت میں یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچی اور نواب سعادت علی خان کو معنون کی گئی۔ عمادالسعادت اس عہد کی رسمی تاریخ ہے۔’تاریخ سعادت جاوید‘، ’معدن السعادت‘،’بہار اقبال‘، ’مثنوی اقبال نامہ‘، ’مثنوی تاریخ سعادت‘اس عہد کی دیگر تواریخ ہیں۔

تاریخ نگاری انگریزی افسران کی بھی دلچسپی کا موضوع رہا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے مؤرخین کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی اور اس کے عوض میں انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ مرزا ابوطالب اصفہانی نے 1797 میں کپتان رچرڈسن(Captain Richardson) کے ایما پر’ تفضیح الغافلین‘ تالیف کی۔ مارکویس آف  ہسٹنگز(Marquis of Hastings) کے1230ھ/ 1815 کے سفرکلکتہ و لکھنؤ کو بھی مرتب کیا گیا تھا لیکن اس سفرنامے کا سراغ نہیں ملتا۔ محمد صالح نے اڈورڈ پیجٹ (Edward Paget) کے 1833 کے سفر لکھنؤ کی روداد بہ عنوان ’وقائع حیدری‘ مرتب کی ہے۔ عبدالاحد نے لیفٹیننٹ جان ڈوزول شیکسپیئر (Lieutenant John Doeswell Shakespear) کی حسب خواہش ’وقائع دلپذیر‘ کو 1250ھ/ 1834-35میں مکمل کیا۔ کرنل جان لو (Colonel John Low) کے اشارے پر قاسم علی نیشاپوری نے 1254ھ/ 1838 میں ’تاریخ شاہیہ نیشاپوریہ‘ لکھی۔مذکورہ بالا تواریخ کے علاوہ بھی کچھ منظوم و منثور تواریخ ہیں جن کے سال تالیف، عنوان یا دیگر اطلاعات کا کچھ پتا نہیں چلتا۔

اودھ میں چار قسم کی تواریخ لکھی گئیں ہیں؛ عمومی، خصوصی، مقامی اور منظوم۔  راقم سطور نے مخطوطات کی فہارس کی مدد سے اودھ کی فارسی تواریخ کی تفصیلات یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ اکثر تواریخ غیر مطبوعہ ہیں اس لیے ان کے مخطوطات و محتویات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ اودھ میں لکھی جانے والی فارسی تواریخ مندرجہ ذیل ہیں:

عمومی تواریخ

1        برہان الفتوح: محمد علی برہانپوری کی تحریر کردہ عمومی تاریخ ہے جو1148ھ/ 1735-36 میں لکھی گئی اور نواب برہان الملک کو معنون کی گئی۔ یہ کتاب ایک مقدمہ، 18 ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ برٹش میوزیم لائبریری میں اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ OR:1884 محفوظ ہے۔

2        چہار گلشن یا چتر گلشن یا اخبار النوادر:راے چتر من کایستھ نے یہ تاریخ احمد شاہ ابدالی (حک: 1747 تا 1772) کے ہندوستان پر دوسرے حملے کے وقت غازی الدین خان عمادالملک (متوفی: 1800) کی خواہش پر تالیف کی تھی جس میں 1173ھ/ 1759-60 تک کے وقائع کو بیان کیا گیا ہے۔ چہار گلشن کی تالیف کے فوراً بعد مؤلف کا انتقال ہو گیا اور ان کے پوتے راے خان منشی نے 1204ھ / 1789-90 میں اس کو مکمل کیا اور ایک مقدمے کا اضافہ کیا۔ اس کتاب کو چار گلشن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے گلشن میں ہندوستان کے صوبوں کا ذکر، دوسرے گلشن میں دکن کے صوبوں کا ذکر، تیسرے گلشن میں دہلی سے مختلف شہروں کی مسافت اور فاصلہ، چوتھے گلشن میں ہندو مسلم درویشوں کے روحانی سلاسل کا ذکر ہے۔ خدابخش لائبریری میں اس کا ایک قلمی نسخہ، شمارہ: 542 اور برٹش میوزیم لائبریری میں چار نسخے OR:1791، OR:1989، OR:1937، OR:2056 موجود ہیں۔ 1؎

3        فرحت الناظرین: اس کتاب کے مؤلف محمد اسلم پسروری ہیں جنھوں نے 1182ھ/ 1768-69 میں سر ہنگ جنٹیل کی خواہش پر اس کتاب کو تحریر کیا اورنواب شجاع الدولہ کو معنون کیا۔ فرحت الناظرین ایک مقدمہ، 3  ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں پیغمبرؐ اور خلفاے راشدین کی تاریخ ہے۔ دوسرے باب میں ہندوستان کے قدیم عہد کے راجہ اور سلاطین دہلی کی تاریخ ثبت ہے۔ تیسرے باب میں مغلوں کی تاریخ شاہ عالم کے عہد تک بیان کی گئی ہے۔ خاتمہ میں ہندوستان کے اولیا و مشائخ کے احوال، نواب شجاع الدولہ کے اجداد وغیر کا ذکر ہے۔ فرحت الناظرین کے قلمی نسخے برٹش میوزیم لائبریری میں بہ شمارہ OR:1746، بوڈلین لائبریری میں Add.6942، Add.6943، Add.6945اور انڈیا آفس لائبریری میں 4193  موجود ہیں۔ پروفیسر محمدایوب قادری نے 1972 میں اس کتاب کے خاتمے کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے جس میں 36 مشائخ، 32 علمااور 45 شعرا کے احوال شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے مقدمہ میں فرحت الناظرین کے دو اہم نسخے؛ نسخہ کپورتھلہ (مخزونہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور) اور نسخہ کتب خانہ مولوی احسان الکریم بدایونی کا بھی ذکر کیا ہے۔2؎

4        چہار گلزار شجاعی: چہار گلزار شجاعی کے مؤلف ہرچرن داس میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ 1151ھ/  1738-39 میں نادر شاہ (حک: 1736 تا 1747) کے حملے کے بعد دہلی آئے اور نواب قاسم علی خان کی ملازمت اختیار کر لی۔ 1167ھ/1753-54 میں انہی کے ہمراہ فیض آباد آئے اور کچھ عرصے بعد نواب قاسم علی خان کا انتقال ہو گیا۔ ہرچرن داس نواب کی صاحبزادی بخت النسا خانم اور صاحبزادے حسین علی خان کی ملازمت میں یہ کتاب تالیف کرتے رہے۔ انہی کی خواہش پر یہ کتاب شجاع الدولہ کو معنون کی گئی۔

چہار گلزار شجاعی میں 1201ھ / 1786-87 تک کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ شروع کے چار ابواب میں ہندو مشاہیر کی داستانیں ہیں۔ پانچویں میں تاریخ ہے۔ پانچویں باب کو دو حصوںمیں تقسیم کیا گیا ہے؛ حصہ اول میں ہندوستان کی تاریخ قبل ازدہلی سلطنت اور حصہ دوم میں دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد کی تاریخ درج ہے۔ اس کتاب کے دو قلمی نسخے؛ OR:1731 برٹش میوزیم اور 453/pel/18 پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں محفوظ ہیں۔3؎

5        لب السیر و جہان نما: مرزا ابوطالب خان لندنی نے 1208ھ/ 1793-94 میں اس کتاب کو تحریر کیا اور نواب آصف الدولہ کو معنون کیا۔ لب السیر و جہان نما 4 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تاریخ انبیا، دوسرے باب میں تاریخ خلفا، تیسرے باب میں سوانح صحابہ، فلاسفہ، علما وغیرہ، چوتھے باب میںایران و اسلامی ممالک کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے تین قلمی نسخوں کا سراغ ملتا ہے؛ نسخۂ کتب خانہ آصفیہ، شمارہ: 1312، برٹش میوزیم لائبریری، شمارہ: OR:1871 اور ملک لائبریری، شمارہ: 4304۔

6        تاریخ سعادت جاوید: اس کے مؤلف ہرنام سنگھ نامی ہیں جنھوں نے 1221ھ/ 1806-07 میں اس کتاب کو تالیف کیا اور اسے نواب سعادت علی خان کو معنون کیا۔ سعادت جاوید چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ہندوستان کے قدیم عہد کی تاریخ، دوسرے باب میں غزنوی عہد سے شاہ عالم ثانی (متوفی: 1806) کے عہد کے واقعات، تیسرے باب میں نواب آصف الدولہ کے عہد کے امرا، نواب، راجہ، نواب آصف الدولہ کی روہیلوں پر فتح، نواب آصف الدولہ کی وفات، وزیر علی خان کا معزول ہونا، انگریزوں کی فتوحات،سکھوں اور جاٹوں کے احوال وغیرہ، چوتھے باب میں  ہفت اقلیم کا بیان اور حکایات شامل ہیں۔ برٹش میوزیم لائبریری میں سعادت جاوید کا ایک خطی نسخہ OR:1820 موجود ہے۔ 4؎

7        عبرت نامہ یا عالم آشوب: خیرالدین محمد الہ آبادی نے یہ تاریخ 1221ھ / 1806-07میں تالیف کی ہے جس میں شاہ عالم ثانی کے عہد سے 1221ھ/ 1806-07 تک کے واقعات درج ہیں۔ یہ کتاب سعادت علی خان مبارزجنگ کے بیٹے محمد علی خان بہادر کو معنون کی گئی ہے۔ عبرت نامہ ایک مقدمہ، تین دفتر اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں امیر تیمور سے عالمگیر ثانی کی تاریخ اور شاہ عالم کے ایام شاہزادگی تک کے واقعات درج ہیں۔ پہلے دفتر میں شاہ عالم کے عہد کے شروعاتی 20 سال کی تاریخ رقم ہے۔ دوسرے دفتر میں 21 تا 31 سال کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ تیسرے دفتر میں 1230ھ/1814-15کے واقعات، تخت کا چھن جانا، اور اس کے بعد 3 سال کی تاریخ درج ہے۔ آخر میں نواب محمد خان بہادر کی بندیل کھنڈ میں فتوحات کا بھی ذکر شامل ہے۔ برٹش میوزیم لائبریری میں عبرت نامہ کے تین ناقص نسخے OR:1931،OR:1932، OR:1762 موجود ہیں۔5؎

8        مفاتیح الریاست: سید محمد رضا بن ابوالقاسم حسنی حسینی نے یہ کتاب 1250ھ/ 1834-35 میں تالیف کی ہے جس میں 1151ھ تا 1250ھ/ 1739 تا 1834-35 یعنی نادر شاہ کے حملے سے نواب ناصرالدین حیدر (حک: 1827 تا 1837) کے عہد تک کے تاریخی واقعات ثبت ہیں۔ اس کتاب کے وسط میں نواب محمد علی شاہ (حک: 1837 تا 1842) کے احوال آئے ہیں جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہی مؤلف کے ممدوح ہوں گے۔ مفاتیح الریاست پانچ دفتر پر مشتمل ہے جس میں صرف چوتھے دفتر میں تاریخی واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ کراچی نیشنل میوزیم میں مفاتیح الریاست کا خطی نسخہN.M.427 اور برٹش میوزیم لائبریری میں OR:1752، OR:2058، OR:1743 موجود ہے۔ 6؎

9        دستور السیر: رضا لائبریری رامپور کی فہرست میں دستور السیر کے مؤلف کا نام  ’کامل ماہ‘ درج ہے اور یہ تاریخ نواب واجد علی شاہ (حک: 1847 تا 1856) کے عہد میں لکھی گئی تھی۔ دستور السیر دو باب پر مشتمل ہے؛ پہلے باب میں ہندوستان کے قدیم عہد کی تاریخ اور دوسرے باب میں دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد کی تاریخ درج ہے۔ 7؎

10      زینت الزمان فی تاریخ ہندوستان یا تاج التواریخ یا سلالۃ السیر: اس کے مؤلف عالی جاہ مرزا محمد ملک الکتاب شیرازی ہیں۔ زینت الزمان چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں ہندوستان کی تاریخ ابتدا سے سلاطین دہلی تک درج ہے اور اس  باب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں مغلوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفر (حک: 1837 تا 1857) کے عہد تک درج ہے۔ اس باب کو 18 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں اودھ کی تاریخ واجد علی شاہ کے عہد تک، 12 حصوں میں بیان کی گئی ہے۔ آخری باب میں مؤلف کے عہد کی تاریخ 54حصوں میں بیان کی گئی ہے۔ زینت الزمان 1310ھ/ 1893 میں چاپ سنگی کی شکل میں بمبئی سے شائع ہوئی ہے۔ سال 2021 میں مہرداد اکبری نے ایران میں اس کا تنقیدی متن بھی شائع کیا ہے۔ 8؎

خصوصی تواریخ  

1        عزم حیدری: نواب شجاع الدولہ کے عہد کی تاریخ ہے جسے 1189ھ میں تحریر کیا گیا اور نواب شجاع الدولہ کی نسبت سے یہ ’عزم حیدری‘ سے موسوم کیا گیا۔ اس کا مؤلف ناشناس ہے۔ عزم حیدری کا ایک قلمی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں بہ شمارہ H-38/7778 محفوظ ہے۔

2        وقائع شجاعی: نواب شجاع الدولہ کے عہد کی تاریخ ہے جسے 1193ھ/ 1779-80 میں تحریر کیا گیا ہے۔ وقائع شجاعی ایک مقدمہ، تین فصل اور ایک خاتمے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اٹون کالج (Eton College) کے کتب خانے میں بہ شمارہ 197 موجود ہے۔ وقائع شجاعی کے دوسرے قلمی نسخوں کا سراغ نہیں ملتا۔9؎

3        اوصاف الآصف: منشی انعام علی بن محمد خرم شاہ کی تالیف کردہ تاریخ ہے۔ منشی انعام علی نے آغاز شباب میں اسدالدولہ ناصرالدین حیدر خان (مقتول: 1750)کی وساطت سے نواب ابوالمنصور خان صفدرجنگ کی ملازمت اختیار کی اور تقریباًدس سال ان کی زیر سرپرستی شاہجہان آباد میں بسر کیے۔ اس کے بعد نواب شجاع الدولہ کی ملازمت اختیار کی۔ آخر عمر میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اپنے وطن بجنور لوٹ گئے۔ 

اوصاف الآصف 1199ھ / 1785میں مکمل ہوئی۔یہ تاریخ پانچ رکن پر مشتمل ہے۔ شروعاتی چار رکن میں  ابتدائی اودھ کے نوابوں کے عہد کی تاریخ بیان کی گئی ہے یعنی نواب برہان الملک سعادت علی خان کے عہد سے نواب آصف الدولہ کے عہد کی تاریخ (1722 تا 1784) بیان کی گئی ہے۔ آخری رکن میں وزیر علی خان (حک: 1797 تا 1798) کے ایام شاہزادگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اوصاف الآصف پانچ جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تھی جس میں مکاتیب، حکایات، غزلیات، قطعات وغیرہ کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن یہ کتاب دستبرد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکی اور اس کی صرف ایک جلد مشمولہ تاریخ اودھ، باقی رہ گئی ہے۔ اوصاف الآصف کا ایک اہم قلمی نسخہ OR:1707 مؤرخہ 1850 برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔ یہ نسخہ اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی کتابت اصل نسخے سے کی گئی ہے۔ ایک دوسرا قلمی نسخہ شمارہ: 1230مولانا ابوالکلام آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک کے کتب خانے میں موجود ہے۔10؎

4        تفضیح الغافلین یا تاریخ آصفی: مرزا ابوطالب اصفہانی فرزند حاجی محمد بیگ خان نے اس کتاب کی تالیف کو کپتان رچرڈسن (Captain Richardson) کی فرمائش پر 1211ھ/ 1796-97 میں تحریر کیا۔ 1965 میں عابد رضا بیدار نے اس کتاب کا تنقیدی متن شائع کیا ہے اور 1968 میں ڈاکٹر ثروت علی نے اس کتاب کا اردو ترجمہ دہلی سے شائع کیاہے۔

سی- اے- اسٹوری کے مطابق تفضیح الغافلین کے سارے قلمی نسخ تلف ہوگئے تھے۔ حسن اتفاق سے ولیم ہوے (William Hoey) کو اُنّاو شہر کے تعلّقدار دوست علی چودھری کے کتب خانے میں اس کے قلمی نسخے دریافت ہوئے اور انھوں نے’History of Asafud Daulah Nawab Wazir of Awadh‘  کے عنوان سے اس کا انگریزی ترجمہ1885میں الہ آباد سے شائع کیا۔ فہرستوں کے ذریعے تفضیح الغافلین کے دیگر تین نسخوں کی خبر ملتی ہے۔ پہلا نسخہ، شمارہ 1241رضا لائبریری رامپور کی فہرست میں درج ہے۔ دوسرا نسخہ جو کہ ناقص ہے، صولت پبلک لائبریری رامپور کی ملکیت ہے اور تیسرا مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں، شمارہ: 1232 موجود ہے۔11؎

5        معدن السعادت: یہ مغلوں اور نوابین اودھ کی مفصل تاریخ ہے جس میں 1218ھ/ 1803-04 تک کے وقائع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مؤلف سید سلطان علی الحسینی الموسوی الصفوی ہیں جو اردبیل کے باشندے تھے۔ نواب شجاع الدولہ کے عہد میں وہ اودھ آئے۔ 1213ھ/ 1798-99 میں امیر تیمور (حک: 1370 تا 1405) کے عہد سے محمد شاہ (حک: 1719 تا 1748) کے عہد پر مشتمل مغلوں کی تاریخ لکھنا شروع کی۔ اس کتاب کی تالیف کے لیے انھوں نے فارسی کی معروف تواریخ از جملہ ظفرنامہ،واقعات بابری، تاریخ الفی، تاریخ فرشتہ، عالم آراے عباسی، معدن اخبار احمدی، اکبرنامہ، اقبال نامۂ جہانگیری، تاریخ و سیر جہانگیری، طبقات اکبری وغیرہ سے رجوع کیا۔ معدن السعادت مکمل ہونے کے بعد نواب سعادت علی خان مبارزجنگ کو معنون کی گئی۔ یہ کتا ب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں امیرتیمور کے عہد سے بادشاہ اکبر (حک: 1556 تا 1605) کے پندرہویں جلوس (978ھ/  1570-71) تک کے واقعات درج ہیں۔ دوسری جلد میں بادشاہ اکبر کے سولہویں سے تینتالیسویں جلوس (979ھ تا 1006ھ/ 1571 تا 1597) تک کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔ تیسری جلد بادشاہ اکبر کے چوالیسویں جلوس سے اورنگزیب عالمگیر (حک: 1658 تا 1770) کے انتقال (1007ھ تا 1118ھ/  1572 تا 1707) تک کے وقائع پر مشتمل ہے۔ چوتھی جلد میں 1119ھ سے 1217ھ1708 تا 1803 تک کے تاریخی واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔ 

راقم سطور کو معدن السعادت کے فقط دو قلمی نسخوں کا سراغ ملا ہے۔ پہلا نسخہ چار جلدوں پر مشتمل ہے اور ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں بہ شمارہ 181 موجود ہے۔ دوسرا نسخہ OR:2057 برٹش میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔12؎

6        عمادالسعادت: 1223ھ/ 1808 میں نواب سعادت علی خان مبارزجنگ کی فرمائش پر سید غلام علی رضوی ابن سید محمد اکمل خان عمادالسعادت کی تالیف پر مامور ہوئے اور دو ماہ کی قلیل مدت میں یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ مؤلف نے اس کتاب میں 45 عنوان قائم کیے ہیں جن کے تحت اودھ کی تاریخ نواب برہان الملک سعادت علی خان کے عہد سے نواب سعادت علی خان مبارزجنگ کے عہد تک درج ہے۔ اس کتاب کا خاتمہ 1216ھ/ 1801 میں نواب سعادت علی خان مبارزجنگ اور مارکویس ولزلی (Marquess Wellesley) کی ملاقات پر ہوتا ہے۔ 

کچھ عرصے بعد غلام علی خان نے اس کتاب میں ضمیمے کی صورت میں 12 عناوین کا اضافہ کیا تھا جسے ہنری ایلیٹ (Henry Elliot) نے اپنی کتاب ’History of India as told by its own Historian‘ میں غلام علی خان کی دوسری تالیف ’نگارنامۂ ہند‘ کا نام دیا ہے۔ ظاہراً یہ ایک تسامح ہے کیونکہ یہ حصہ عمادالسعادت کا ضمیمہ ہے نہ کہ ایک الگ کتاب۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے مخطوطے اور نول کشور کے سنگی نسخے میں بھی یہ حصہ ضمیمہ کی شکل میں موجود ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں ایلیٹ سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ 

عمادالسعادت مطبع نول کشور سے 1864 اور 1897 میں چاپ سنگی کی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ خدابخش لائبریری میں اس کا ایک اہم مخطوطہ مؤرخہ 1223ھ بہ شمارہ 157 موجود ہے۔ اس مخطوطے کی کتابت مؤلف کے زمانے میں کی گئی ہے اور اس لحاظ سے یہ عمادالسعادت کا قدیم ترین مخطوطہ ہے۔ 13؎

7        گلدستۂ محبت: اس رسالے کے بارے میں عام طور سے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ 8 ابواب پر مشتمل تاریخی رسالہ ہے جسے قاضی محمد صادق خان اختر نے تحریر کیا ہے۔ اس رسالے میں مارکویس آف ہسٹنگز (Marquis of Hastings) کے 1230ھ/ 1815 کے سفر کلکتہ و لکھنؤ، اور نواب غازی الدین خان حیدر (حک: 1814 تا 1827) سے ملاقات کی روداد بیان کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت امر اس کے متضاد ہے۔ در اصل یہ کتاب مارکویس آف ہسٹنگز کے اوصاف حمیدہ کے بیان اور ان کی حکمرانی کے فوائد پر مشتمل ہے۔ کسی وجہ سے محققین حضرات اس کتاب کے بارے میں مغالطے کا شکار ہوئے ہیں اور اسے مارکویس آف ہسٹنگز کا سفرنامہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

بہرحال، مولوی عبدالعلی نے اپنے مقالے میں اس سفر سے متعلق ایمیلی ٹھاکرے (Emilie Thackeray)کی ایک بیاض کا ذکر کیا ہے جس میں مارکویس آف ہسٹنگز کے ہوگلی سے لکھنؤ کے سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔ اے اے اروین (A. A. Irvine)  نے مجلہ The National Review جولائی 1924 میں اس بیاض کی تلخیص بھی شائع کی تھی۔ راقم سطور کو اس بیاض کا کوئی سراغ نہیں ملا اور نہ ہی مجلہ The National Reviewکے شمارے تک رسائی ہو سکی۔ لیکن مولوی عبدالعلی نے اپنے مقالے میں اس بیاض کے کچھ ترجمہ شدہ اقتباسات نقل کیے ہیں جس سے یہ بات محکم ہو جاتی ہے کہ یہ وہی بیاض یا سفرنامہ ہے جسے ہمارے محققین حضرات نے گلدستۂ محبت سمجھ لیا ہے۔ گلدستۂ محبت  1239ھ/ 1823 میں مطبع سلطانی، لکھنؤ سے شائع ہو چکی ہے۔ 14؎

8        تاریخ فرح بخش:یہ فیض آباد کی تاریخ ہے جسے منشی فیض بخش کاکوروی نے تالیف کیا ہے۔ اس کتاب میں 1179ھ سے 1233ھ  (1766 تا1818) تک کے احوال درج ہیں۔ تاریخ فرح بخش کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اول مغلوں کی تاریخ تا مرگ بادشاہ فرخ سیر (حک: 1713 تا 1719) پر مشتمل ہے۔حصہ دوم میں فیض آباد کی تاریخ، نواب برہان الملک سعادت علی خان کے عہد سے مؤلف کے زمانے تک کے تاریخی و سیاسی احوال کو قلمبند  کیا گیا ہے۔ تاریخ فرح بخش کے دو قلمی نسخے OR:1015 اور OR:1762برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہیں۔ آخرالذکر کی کتابت 1247ھ/ 1831-32 میں ہوئی ہے۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے ذاتی کتب خانے میں بھی تاریخ فرح بخش کا ایک نسخہ موجود تھا جسے رضا لائبریری رامپور میں منتقل کر دیا گیا۔ ایک اور نسخہ نمبر 1237مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک کی زینت ہے۔ 

ولیم ہوے (William Hoey) کو لکھنؤ میں اس کتاب کا ایک مخطوطہ ملا تھا جسے انھوں نے 5 روپیہ میں خرید لیا اور برٹش میوزیم کے مخطوطوں سے مقایسہ کے بعد اس کا انگریزی ترجمہ بہ عنوان ’Memoirs of Delhi and Faizabad‘ 1888میں الہ آباد سے شائع کیا۔ پروفیسر شاہ عبدالسلام نے 2010میں نسخۂ رامپور کی مدد سے اس کا اردو ترجمہ کیا اور عکسی متن کے ساتھ شائع کیا۔15؎

9        روزنامچہ دربار ابوالمظفرغازی الدین حیدر بادشاہ اودھ: یہ روزنامچہ نواب غازی الدین حیدر کے دربار میں لکھا جاتا تھا۔ اس میں  1239ھ/ 1823-24 کے واقعات درج ہیں۔ اس کے قلمی نسخے کتب خانہ آصفیہ میں بہ شمارہ 704، نسخہ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں بہ شمارہ 1244 موجود ہیں۔ 16؎

10      وقائع حیدری: محمد صالح کا تالیف کردہ مختصر تاریخی رسالہ ہے جس میں اڈورڈ پیجٹ (Edward Paget) کے سفر لکھنؤ کی روداد ہے۔ اس رسالے میں 10 تا 9 صفر 1239ھ (15 اکتوبر تا 4 نومبر 1833) کے وقائع درج ہیں۔مؤلف کے خط کا ایک قلمی نسخہ سالارجنگ میوزیم میں بہ شمارہ 442 موجود ہے۔ دوسر ا قلمی نسخہ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں بہ شمارہ 1243 محفوظ ہے۔ 17؎

11      خلاصۃالتواریخ: خلاصۃالتواریخ از مفتی سعید عالم اسرائیلی سنبھلی، 1244ھ/ 1828-29 میں لکھی گئی اودھ اور بنگال کی مختصر تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے مؤلف کے بارے میں کہیں کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ محتویات سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ وہ مظفرالدولہ تہورجنگ کے اخلاف اور نواب وزیرالممالک کے دربارسے منسلک تھا۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں اودھ کی تاریخ، ناصرالدین حیدرشاہ کی حکمرانی کے دوسرے سال (1828) تک درج ہے۔ دوسرے حصے میں ناظمین بنگال کے احوال مرقوم ہیں۔

راقم سطور کو اس کتاب کے صرف ایک ہی مخطوطے کا پتا چل سکا ہے جو پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں بہ شمارہ 184 موجود ہے۔ 21 اوراق پر مشتمل یہ مخطوطہ مختلف کاتبوں کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ ترقیمہ میں کتاب کا عنوان اور مؤلف کا نام درج ہے۔ 18؎

12      وقائع دلپذیر:از عبدالاحد فرزند مولوی محمد فائق، بادشاہ بیگم (زوجہ نواب غازی الدین حیدر خان) اور شاہ زماں کی تاریخ ہے۔ اس کتاب کے مؤلف عبدالاحد 12 سال تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم رہے۔ لیفٹیننٹ جان ڈوزول شیکسپیئر (Lieutenant John Doeswell Shakespear) کی فرمائش پر اس تاریخ کو 1250ھ/ 1834-35 میں تحریر کیا۔ اس کتاب کے متعدد مخطوطے موجود ہیں۔ کچھ اہم مخطوطات کی تفصیلات یہاں درج کی جا رہی ہے۔ برٹش میوزیم لائبریری، شمارہ OR:1781، مؤرخہ 1266ھ۔ نیشنل میوزیم کراچی، شمارہ 449، مؤرخہ 29 صفر 1266ھ۔ کتب خانہ آصفیہ، شمارہ1273، مؤرخہ 1254ھ۔ سالارجنگ میوزیم، شمارہ 460 و 461، مؤرخہ 1256ھ۔ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک، شمارہ، 242۔ 19؎

13      تاریخ عمادالملک: اودھ میں لکھی گئی خصوصی تاریخ ہے۔ غلام قادر جائسی فرزند مولوی واصل علی خان نے اس مختصر تاریخی کتاب کو 1250ھ / 1834-35 میں تالیف کیا۔ یہ تاریخ ایک مقدمہ اور 13ابواب پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس میں نواب غازی الدین خان بہادر مخاطب بہ ’عمادلالملک‘ کے عہد کی تاریخ ثبت کی گئی ہے۔ خاتمہ میں نواب غازی الدین خان کے اولاد و اخلاف کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ خدابخش لائبریری میں بہ شمارہ 615 اور دوسرا نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری، لاہورمیں بہ شمارہ 148 موجود ہے۔ 20؎

14      تاریخ محتشم: اس کے مؤلف محمد محتشم خان ابن نواب محبت خان بہادر شہبازجنگ ابن حافظ رحمت خان بہادر ہیں۔ اس کتاب میں اودھ کی تاریخ، نواب برہان الملک سعادت علی خان کے زمانے سے ناصرالدین حیدرشاہ کے عہد تک درج ہیں۔ تاریخ محتشم میں نواب ناصرالدین حیدرشاہ کے عہد کے وقائع کو سال بہ سال بیان کیا گیا ہے اور یہ وقائع ان کی وفات اور نواب ناصرالدولہ محمد علی شاہ کی جانشینی بہ سال 1253ھ /1837 پر ختم ہوتے ہیں۔ مؤلف کے بیان کے مطابق یہ کتاب دو طبقات پر مشتمل تھی۔ خدابخش لائبریری میں تاریخ محتشم کا مخطوطہ، شمارہ: 605، مؤرخہ 1271ھ موجود ہے، لیکن اس میں صرف طبقۂ اول موجود ہے۔ تاریخ محتشم کا دوسرا مخطوطہ، شمارہ:  1245 مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں موجود ہے۔ 21؎

15      تاریخ شاہیہ نیشاپوریہ: قاسم علی نیشاپوری نے کرنل جان لو (Colonel John Low) کی فرمائش پر 1254ھ/ 1838-39میں اس کتاب کو تحریر کیا۔ تاریخ شاہیہ میں نواب برہان الملک سعادت علی خان کے عہد سے محمد علی شاہ کے عہد تک کی تاریخ ثبت ہے۔ خاتمہ میں انگلستان کے کچھ بادشاہ اور جزائر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ رضا لائبریری رامپور میں اس کتاب کا قلمی نسخہ، شمارہ: 2147 اور مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں نسخہ نمبر  1245 موجود ہے۔ڈاکٹر شاہ عبدالسلام نے سال 2000 میں اس تاریخ کو مع مقدمہ و تصحیح شائع کیا ہے۔ مقدمہ میں ایک اور مخطوطے کا ذکر ملتا ہے جو شاہ صاحب کے زیر مطالعہ تھا۔ 2011 میں شاہ صاحب نے اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیا جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک کے ساتھ مکتبہ جامعہ سے منظر عام پر آیا۔22؎

16      بہار اقبال: لکھنؤ کی عمارتوں کی تفصیلات پر مبنی ایک مختصر تاریخی رسالہ ہے جسے قاضی محمد صادق خان اختر نے ’سہ نثر ظہوری‘  کے طرز پر تالیف کیا ہے۔ یہ رسالہ 7 ابواب پر مشتمل ہے جس میں لکھنؤ کی مشہور عمارت ’بارہ دری‘ اور اس کے اطراف کے باغات اور حوض کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ رسالے کے خاتمہ میں مؤلف نے نواب سعادت علی خان مبارزجنگ کی مدح سرائی کی ہے۔ 16اوراق پر مشتمل بہار اقبال کا ایک قلمی نسخہ، شمارہ 65، مؤرخہ 17 ذیقعدہ 1245ھ بنارس ہندو یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے۔ راقم سطور نے اس کا عکس حاصل کر لیا ہے اور ان شاء اللہ عنقریب بہار اقبال کا تنقیدی متن شائقین کے لیے دستیاب ہوگا۔ 23؎

17      برہان اودھ: سید ابن الحسن خان بلگرامی نے 1258ھ/ 1842-43 میں اس کتاب کو مکمل کیا۔ مولوی صاحب مرزا غالب کے معاصرین میں سے تھے اور مرزا غالب سے خط و کتابت بھی کیا کرتے تھے۔ غالب نے انھیں’ مہر نیمروز‘ ہدیہ کی تھی۔

برہان اودھ میں نواب برہان الملک سعادت علی خان اور ان کے جانشین نواب صفدرجنگ کی تاریخ درج ہے۔ یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو جزو پر مشتمل ہے۔ پہلے جزو میں محمد امین سعادت خان برہان الملک کا ذکر اور دوسرے جزو میں نواب  ابوالمنصور خان صفدرجنگ کا ذکر ہے۔مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں اس کتاب کے دو قلمی نسخے 1239 و 1255 موجود ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائبریری میں بھی دو نسخے 14/ 954(سبحان اللہ کلکشن) اور 1/ 954 (احسن کلکشن) موجود ہیں۔ انھیں دو نسخوں کی مدد سے احتشام الدین صاحب نے اس کتاب کا تنقیدی متن تیار کیا اور 2019 میں اس کو شائع کیا ہے۔24؎

18      سلطان التواریخ: اودھ کی عمومی تاریخ ہے جسے فخرالدولہ رتن سنگھ زخمی نے تالیف کیا ہے۔ زخمی نے اس کتاب کو 12 ابواب میں منقسم کیا ہے اور اس میں محمد علی شاہ کے عہد تک کی تاریخ درج ہے۔ سلطان التواریخ کا ایک قلمی نسخہ نمبر  OR:1876 برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہے۔ زخمی نے یہ نسخہ ہنری ایلیٹ (Henry Elliot) کو ہدیہ کیا تھا۔ سلطان التواریخ کا دوسرا نسخہ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں بہ شمارہ 1247 موجود ہے۔ ڈاکٹر ناظر حسین نے اپنی کتاب ’راجہ رتن سنگھ زخمی: حیات و خدمات‘ میں ایک اور قلمی نسخے کی طرف اشارہ کیا ہے جو ٹیگور لائبریری لکھنؤ کی ملکیت ہے۔ 25؎

19      اعجاز السیر:پورن چند نے اس کتاب کو 1267ھ/1850-51 میں تالیف کیا ہے۔ مقدمہ میں مؤلف نے اعتراف کیا ہے کہ یہ کتاب اصل میں ’سلطان السیر‘ کی تلخیص ہے۔ سی اے اسٹوری کے مطابق انڈیا آفس لائبریری میں اس کتاب کا ایک مخطوطہ بہ شمارہ 3886 موجود تھا لیکن راقم سطور کو اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ 26؎

20      سلطان الحکایات: اودھ کی مختصر تاریخ ہے جسے لال جی فرزند سیتل پرشاد نے 1270ھ/ 1853-54 میں تحریر کیا ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں واقعات کو حکایات کی شکل میں بیان کیا ہے۔ راقم سطور کو اس کتاب کے صرف ایک نسخے کا سراغ ملا ہے جو انڈیا آفس لائبریری میں بہ شمارہ 3902 محفوظ ہے۔ 27؎

21        قیصرالتواریخ: سید کمال الدین حیدر حسنی حسینی تونی طبسی معروف بہ’سید میر محمد صاحب زائر‘ کی تالیف ہے جس میں اودھ کی تاریخ آغاز سے 1273ھ/ 1856-57 تک ثبت ہے۔ یہ کتاب دو جلد اور پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں نواب برہان الملک بہادر کے احوال،نواب  امجد علی شاہ (حک: 1842 تا 1847) کے عہد تک، دوسرے باب میں نواب واجد علی شاہ کے عہد کے تاریخی واقعات، تیسرے باب میں مرزا برجیس قدر (حک: 1857 تا 1858) کی چند روزہ سلطنت، چوتھے باب میں مرزا ولی عہد کی کلکتہ سے روانگی اور مراجعت، پانچویں باب میں  شاہجہان آباد کی بغاوت اور  بہادرشاہ ظفر کے رنگون میں قید ہونے کی داستان مرقوم ہے۔

قیصرالتواریخ نواب واجد علی شاہ قیصر کو معنون کی گئی تھی اور اسی مناسبت سے یہ کتاب ’قیصرالتواریخ‘ سے موسوم ہوئی۔ برٹش میوزیم لائبریری میں اس کتاب کے دو مخطوطے OR:1821 مؤرخہ 1849 اورOR:1822 مؤرخہ 1848 موجود ہیں۔ آخرالذکر نسخے کو مؤلف نے ہنری ایلیٹ کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ راقم سطور کے مطابق ان دونوں نسخوں کی تاریخ کتابت مشکوک ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں 1857 کی غدر کے واقعات بھی درج ہیں اور1857 میں ہی یہ کتاب پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس لحاظ سے ان دونوں نسخوں کی تاریخ کتابت مشکوک نظر آتی ہے۔

1857 میں جب یہ کتاب منظر عام پر آئی، انگریزی حکومت نے لکھنؤ میں چھاپہ خانوں کو مقفّل کر دیا تھا اور کسی بھی قسم کی تحریر بغیر انگریزی افسران کی منظوری کے نہیں چھپ سکتی تھی۔ اس کے علاوہ 1857 کی غدر میں کئی کتب خانے بھی نذر آتش ہو گئے تھے۔ انھیں وجوہات کی بنا پر قیصرالتواریخ کے سنگی نسخے کمیاب ہیں۔ ریو نے اپنی فہرست میں اس کتاب کا اندراج ’سوانحات سلاطین اودھ‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ سوانحات سلاطین اودھ اصل میں قیصرالتواریخ کا اردو ترجمہ ہے جو چار مرتبہ 1879، 1880، 1907 اور 2009 میں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے۔28؎

22      بوستان اودھ: ایک دیباچہ، 5 فصل اور ایک خاتمے پر مشتمل، درگا پرشاد سندیلوی مہر کی تالیف ہے جسے انھوں نے 1278ھ/ 1861-62 میں مکمل کیا۔ یہ کتاب پانچ  فصل پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں مغلوں کے ماتحت نوابین اودھ کے احوال، دوسری فصل میں اود ھ کے خودمختار بادشاہوں کے احوال، تیسری فصل میں 1857 کی غدر کے اثرات اودھ میں، چوتھی فصل میں مؤلف کی سوانح عمری اور آبا و اجداد کا ذکر اور پانچویں فصل میں سندیلہ اور  اس خطے کے عرفا و مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ بوستان اودھ چاپ سنگی کی شکل میں دو مرتبہ 1881 اور1892 میں چھپ چکی ہے۔29؎

23      وزیرنامہ:نواب واجد علی شاہ کے وزیر سید امیر علی خان بہادر کی تالیف ہے جسے انھوں نے 1288ھ / 1871-72 میں شروع کیا اور 1292ھ/ 1875-76 میں مکمل اور واجد علی شاہ کو معنون کیا۔ وزیرنامہ 4 ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں سلطنت قرا یوسف سے واجد علی شاہ کے عہد کے احوال، دوسرے باب میں بادشاہ جم جاہ کی والدہ ماجدہ کا سفر انگلستان، تیسرے باب میں مؤلف کی انگریزوں کے دربار میں حاضری اور چوتھے باب میں  مؤلف  اور استاد شعرا کے منتخب اشعار درج ہیں۔ وزیرنامہ چاپ سنگی کی شکل میں 1293ھ/ 1876 میں مطبع نظامی کانپور سے یہ کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔30؎

24      احوال نواب برہان الملک وغیرہ: اس کتاب کے چند اوراق باقی رہ گئے ہیں جس کا اندراج انڈیا آفس لائبریری کی فہرست میں بہ شمارہ (14) 527 ملتا ہے۔31؎

25      خلاصہ تاریخ وزیر علی: تاریخ وزیر علی کا تکملہ ہے۔ اس کتاب کا مؤلف ناشناس ہے۔ خلاصہ تاریخ وزیر علی کا ایک قلمی نسخہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کی لائبریری میں بہ شمارہ 183، اور دوسرا نسخہ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں بہ شمارہ 1234موجود ہے۔ 32؎

منظوم تواریخ

1        مثنوی تاریخ سعادت: 52 ابواب پر مشتمل منشی امام بخش بیدار کی تصنیف ہے جس میں نواب سعادت علی خان کے احوال کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کا ایک ناقص نسخہ 48359 امیرالدولہ پبلک لائبریری لکھنؤ میں موجود ہے جس پر مؤلف اور نوابین اودھ کی مہر ثبت ہے۔ ڈاکٹر سید احسن الظفر نے اس مثنوی کا اردو نثر میں ترجمہ کیا اور سال 2000 میں دہلی سے شائع کیا ہے۔33؎

2        اقبال نامہ: اس مثنوی میں نواب وزیر علی خان اور نواب سعادت علی خان مبارز جنگ کی تخت نشینی کو بیان کیا گیا ہے۔ بہار لائبریری میں اس مثنوی کا ایک قلمی نسخہ 423، مؤرخہ 1316ھ اور مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں نسخہ شمارہ: 1235، مؤرخہ 1215ھ موجود ہے۔ 24؎

3        آصف نامہ: اس مثنوی میں نواب آصف الدولہ اور غلام محمد خان کی جنگ کو بیان کیا گیا ہے۔ مؤلف کا تخلص’موزون‘ ہے جس کی شہادت مختلف مصرعوں میں ملتی ہے لیکن مؤلف کا نام نہیں پتا چل سکا۔  بُہار لائبریری میں اس مثنوی کا ایک مخطوطہ بہ شمارہ 421موجود ہے۔ ایک دوسرا مخطوطہ مولانا آزاد عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک میں بھی بہ شمارہ 1231 موجود ہے۔ اس نسخے پر نواب سلیمان جاہ (حک: 1827 تا 1837)، نواب امجد علی شاہ اور نواب واجد علی شاہ کی مہر ثبت ہے۔ 35؎

4        مثنوی وقائع غالب جنگ:  محمد عباس رفعت بھوپالی فرزند شیخ احمد شروانی کی مثنوی ہے جسے انھوں نے راجہ جے لال سنگھ کی حسب خواہش منظوم کیا۔ متن میں اس مثنوی کے اصل نام کا ذکر نہیں ملتا۔ ڈاکٹر سید عارف نوشاہی نے محتویات کی بنا پر اس کا نام ’وقائع غالب جنگ‘ بتایا ہے۔ اس مثنوی کا ایک ناقص نسخہ نیشنل میوزیم کراچی میں بہ شمارہ N.M.1968-77 موجود ہے۔ 36؎

5        مثنوی تاریخ قیصری مسمّی بہ’  بوستان اودھ‘:  نواب ضیغم الدولہ سید العابدین خان بہادر ضیغمی کی منظوم کرد ہ تاریخی مثنوی ہے۔ اس مثنوی میں تاریخ اودھ نواب برہان الملک سعادت علی خان کے عہد سے شاہزادہ برجیس قدر اور بیگم حضرت محل(متوفی: 1820) کے زمانے تک کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ مثنوی کے آخر میں مؤلف نے اپنے احوال، ایرانی بادشاہ ناصرالدین شاہ قاچار (حک: 1848 تا 1896) کے احوال اور اپنے سفر کربلا کو بھی جگہ دی ہے۔ یہ مثنوی چاپ سنگی کی شکل میں 1308ھ/ 1890میں مطبع مظہر العجائب لکھنؤ سے چھپ چکی ہے۔ 37؎

6         محبوب التاریخ: شیو پردھان مہاراجہ جے گوپال سنگھ بہادر متخلص بہ ثاقب کی تالیف ہے۔ اس مثنوی کا  ایک قلمی نسخہ مؤرخہ 1304ھ رضا لائبریری میں بہ شمارہ 2172 موجود ہے۔ 38؎

حاصل مطالعہ

خلاصہ کلام یہ کہ سرزمین اودھ میں فارسی تاریخ نگاری کی ایک شاندار روایت رہی ہے اور اس کا بیش بہا سرمایہ دنیا کے مختلف کتب خانوں میں قلمی نسخوں کی شکل میں موجود ہے۔ مذکورہ تاریخی کتابوں کے علاوہ، مختلف فہارس کی مدد سے اس صوبے میں لکھی گئی اور بھی فارسی تواریخ کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان میں سے کچھ متن کی تصحیح عمل میں آ چکی ہے لیکن ابھی بھی قلمی نسخوں کی ایک بڑی تعداد محققین کی توجہ کی محتاج ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جامعات میںریسرچ اسکالرز کی توجہ تصحیح و تدوین کی طرف مبذول کی جائے تا کہ ہماری علمی و ادبی وراثت کی بازیابی ممکن ہو سکے۔

حوالے

1        British Museum, Vol. III, p. 909-910, Elliot, Vol. VIII, pp. 255-256.

2        British Museum, Vol. I, p. 131;

3        فرحت الناظرین،مقدمہ، ص 15-38

4        British Museum, Vol. III, p. 912-913.

5        British Museum, Vol. III, p. 913.

6        British Museum, Vol. II, p. 946, 1026.

7        British Museum, Vol. II, p. 914, 1014;

8        فہرست نسخہ ہائے خطی فارسی، ص 745-46

9        فہرست نسخہ ہائے خطی فارسی کتابخانہ رضا رامپور، ج 1، ص611

10      زینت التواریخ، ص 3۔

11      Mughals in India: A Bibliographical Survey, Vol. 1, p. 532;  Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, p. 625; Catalogue of the Oriental Manuscripts in the Library of Eton College, p. 24.

12      A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 256; Catalogue of the Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. III, pp. 960-961;

13      فہرست نسخہ ہائے خطی فارسی، ج 6، ص 458۔

14      Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, p. 705; Catalogue of Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. III, pp. 960-961;

15      کتاب شناسی آثار فارسی چاپ شدہ در شبہ قارہ، ج 4، ص 1742؛ تاریخ آصفی (اردو) صص 16-17۔

16      Catalogue of Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. I, pp. 309-310; Concise Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts in the Collection of the Royal Asiatic Society of Bengal, p. 56; History of India as told by its own historians, Vol. VIII, p. 354.

17      Catalogue of the Arabic and Persian Manuscripts in the Oriental Public Library at Bankipore, Vol. VII, pp. 133-135.

18      کتاب شناسی آثار فارسی چاپ شدہ در شبہ قارہ، ج 4، ص 2؛ حیات اختر، زمانہ، جلد 46، شمارہ ۱، ص 6-8، جنوری 1925۔

19      Catalogue of Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. I, pp. 309-310; Vol. III, p. 1026; Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, pp. 706- 707; A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 257.

20      A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 259;

21      فہرست کتب عربی و اردو و فارسی مخزونہ کتابخانہ آصفیہ سرکار عالی، ج 3، ص 112۔

22      A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 259.

23      A Descriptive Catalogue of the Persian, urdu and Arabic Manuscripts in the Punjab University Library, Vol. I, Fasciculus I, pp. 124-125.

24      A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts in the Salar Jung Museum & Library, Vol. 1, pp. 518-519; Catalogue of the Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. III, p. 961;

25      فہرست کتب عربی و فارسی و اردو مخزونہ کتابخانہ آصفیہ سرکار عالی، ج 3، ص 112۔

26      A Descriptive Catalogue of Persian, Urdu & Arabic Manuscripts in the Punjab University Library, Vol. I, p. 99; Catalogue of the Arabic and Persian Manuscripts in the Oriental Public Library at Bankipore, Vol. VII, pp. 152-154.

27      Catalogue of the Arabic and Persian Manuscripts in the Oriental Public Library at Bankipore, Vol. VII, pp. 135-136; A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 259.

28      Catalogue of Persian Manuscripts, (Raza Library Rampur), Vol. I, p. 635; A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 259.

29      A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts in the Banaras Hindu University Library, p. 13.

30      برہان اودھ، (مقدمہ)، صص ل۔م

31      راجہ رتن سنگھ زخمی: حیات و خدمات، ص 218

32      Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, p. 711.

33      Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, p. 711.

34      Catalogue of the Persian Manuscripts in the British Museum, Vol. III, p. 962; Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, p. 711.

35      بوستان  اودھ، ص 3-4

36      وزیرنامہ، ص 16-17

37      Catalogue of Persian Manuscripts in the Library of the India Office, p. 210; Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus III, p. 713.

38      A Descriptive Catalogue of the Persian, Urdu and Arabic Manuscripts in the Punjab University Library, Vol. I, Fasciculus I, p. 124; A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 257.

39      فہرست مخطوطات عربی، فارسی و اردو (امیرالدولہ پبلک لائبریری)، ص 1۔

40      Catalogue of the Persian Manuscripts in the Buhar Library, Vol. I, p. 305; A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, p. 257.

41      Catalogue of the Persian Manuscripts in the Buhar Library, Vol. I, p. 304.

42      فہرست نسخہ ہائے خطّی فارسی، ص 664۔

43      کتاب شناسی آثار فارسی چاپ شدہ در شبہ قارہ، ج 4، ص 2452-53

44      Catalogue of Persian Manuscripts, (Rampur Raza Library), Vo. I, p. 643.

 

کتابیات

1        اصفہانی، مرزا ابوطالب، تاریخ آصفی (اردو ترجمہ تفضیح الغافلین) مترجم ثروت علی خان، مطبع صبح ادب، اردو بازار، دہلی، 1968

2        امیر، سید محمد، وزیرنامہ، مطبع نظامی، کانپور،1876

3        پسروری،محمد اسلم، فرحت الناظرین، مترجمہ و مرتبہ پروفیسر محمد ایوب قادری۔

4        حسین، ناظر، راجہ رتن سنگھ زخمی: حیات و خدمات، نعمانی پرنٹنگ پریس، لکھنؤ، 2019

5        سید، ابن الحسن خان بلگرامی، برہان اودھ،بہ تصحیح محمد احتشام الدین، مرکز تحقیقات فارسی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 2019

6        قوی، کمند، حشمت، فہرست کتب عربی و اردو و فارسی مخزونہ کتابخانہ آصفیہ سرکار عالی، ج 3، حیدرآباد، دکن، 1332ھ۔

7        مرادآبادی، محمد شفیق، فہرست مخطوطات عربی، فارسی و اردو (امیرالدّولہ پبلک لائبریری)،  ڈائمنڈ پرنٹرز، دہلی،2000۔

8        ملک الکتاب شیرازی، مرزا محمد، زینت التواریخ،بہ خط مرز ا مہدی  شیرازی، مطبع ندارد، بمبئی، 1310ھ۔

9        منزوی، احمد، فہرست نسخہ ہاے خطی فارسی، ج 6، مؤسسۂ فرہنگی منطقہ یی، تہران، 1353ش۔

10      مولوی عبدالعلی، حیات اختر، زمانہ، جلد 46 شمارہ ۱، ص 608، کانپور، جنوری 1925ء۔

11      مہر، درگار پرشاد، بوستان  اودھ، بہ اہتمام پنڈت بیجناتھ صاحب، مطبع ثمر، لکھنؤ، 1881

12      نوشاہی، سید عارف، فہرست نسخہ ہائے خطی فارسی موزۂ ملّی پاکستان کراچی، انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، مطبعہ المکتبہ العلمیہ، اسلام آباد، 1983

13      نوشاہی، سید عارف، کتاب شناسی آثار فارسی۔

14. Abdullah, S. M, A Descriptive Catalogue of the Persian, Urdu and Arabic Manuscripts in the Punjab University Library, Vol. I, Fasciculus, I, Lahore, 1942.

15. Abdul Moid Khan and Iftikharunnisa, A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts (Tonk), Vol. III, Maulana Abul Kalam Azad Arabic Persian Research Institute, Tonk Rajasthan, 2006.

16. Ashraf, Muhammad, A Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts in the Salar Jung Museum & Library, Vol. I, Hyderabad, 1965.

17. Downson, John, History of India as told by its own historians, Edited From The Posthumous Paper of the late Sir H.M. Elliot, Vol. VIII,  trubner & Co. London, 1877.

18. Ethe, Herman, Catalogue of Persian Manuscripts in the Library of the India Office, (2 Vol.), Oxford, 1903-1937.

19. Ishrat, Amrit Lal, A Descriptive Catalogue of Persian Manuscripts in the Banaras Hindu University, Varanasi, 1965.

20. Ivanow, Wladimir, Concise Descriptive Catalogue of the Persian Manuscripts in the Collection of the Royal Asiatic Society of Bengal, Asiatic Society Calcutta, 1928.

21. Khan Saheb, Maulavi Abdul Muqtadir, Catalogue of the Arabic and Persian Manuscripts in the Oriental Public Library at Bankipore, Vol. VII, Patna, 1921.

22. Margoliouth, D. S, Catalogue of the Oriental Manuscripts in the Library of Eton College, Oxford, 1904.

23. Marshal, D. N, Mughals in India: A Bibliographical Survey, Vo. I, Asia  Publishing House, Bombay, 1967.

24. Radavi, Maulavi Qasim Hasir, Catalogue of the Persian Manuscripts in the Buhar Library, Vol. I, Revised and completed by Maulavi Abdul Muqtadir, Calcutta, 1921.

25. Rieu, Charles, Catalogue of the Persian Manuscripts in the British Museum, Berlin, Vol. I, 1879, Vol. III, 1883.

26. Siddiqui, W. H, Catalogue of Perisan Manuscripts, Rampur Raza Library, Vol. I, 1996.

27. Storey, Charles Ambrose, Persian Literature: A Bio-bibliographical Survey, Section II, Fasciculus I, II and III, Luzac & Co. London, 1939.

 

Dr. Ansari Abdur Rahman

402, S. Ansari Apartment, Behind Hazaria Transformer

Najgaon 2, Bhiwandi

Distt.: Thane - 421302 (Maharashtra)

Mob.: 9910673095

a.ansari27@yahoo.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

کیا ناول نگار کشادہ ذہن ہوتا ہے؟ مصنف: ہاروکی موراکامی، ترجمہ: نایاب حسن

  اردو دنیا،دسمبر 2024   مجھے لگتا ہے کہ ناولوں   پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً ز...