اردو دنیا، اکتوبر 2024
محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی
تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی کی حیثیت سے اردو
دنیا میں انفرادی شان رکھتے ہیں۔ سوغات کی ادارت کے ذریعے آج سے ربع صدی قبل تک
ان کے نام اور کام کی گونج سنائی دیتی رہی۔ ادبی صحافت سے ہمہ وقت وابستگی کی وجہ
سے ان کی شعری و ادبی کاوشیں مقدار کے لحاظ سے کم ہیں مگر معیار و اعتبار کے لحاظ
سے انفرادی شناخت کی حامل رہی ہیں۔ محمود ایاز کی اولین شعری تخلیق (غزل) رسالہ
’چمنستان‘ میں 1945 کو شائع ہوئی۔ اس کے بعد ان کی شعری تخلیقات اس دور کے معیاری
رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔ان کے انتقال کے بعد ان کا کلام ’نقش برآب‘ کے نام سے
2001 میں منصہ شہود پر آیا۔یہ شعری
مجموعہ ان کی تخلیقات کا انتخاب ہے۔ اگرچہ ان کی بہت سی تخلیقات اس میں شامل ہونے
سے رہ گئی ہیں، تاہم اس مجموعے میں شامل نظمیں اور غزلیں نہ صرف ان کے تخلیقی
اختصاص کے مطالعے کی دعوت دیتی ہیں بلکہ انفرادی حیثیت سے پُر ایک گم شدہ لہجے کی
بازیافت پر دال ہیں۔
محمود ایاز کی ادبی تخلیقات کے بنیادی محرکات اور عوامل
سے کماحقہ واقف ہیں۔ان کی شاعری درون ترسیل اور مصاحبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔
سچا تخلیق کاراپنی داخلی شخصیت سے ہم کلام ہوتا ہے تاہم اس کے ہرگز یہ معنی نہ لیے
جائیں کہ وہ خارجیت سے بے نیازی دکھاتا ہے بلکہ وہ اپنے خارجی مشاہدے کی بنیاد پر
اپنے داخلی احساسات و جذبات کو لفظوں کا پیراہن عطا کرتا ہے اور قاری اس کے فکر
وفن کے نہاں خانے تک پہنچ کر داد وتحسین پیش کرتا ہے اور یہی وصف شاعر کی شخصیت
اور فکر وفن کی عکاسی کرتے ہوئے جذباتِ حقیقی کو شعری جامہ پہناتا ہے اور سنجیدہ
قاری کے فکر و احساس کو ممیز بھی کرتا ہے۔محمود ایاز تخلیق کے اصل راز سے واقف ہیں اور وہ جدید شاعری بالخصوص جدید نظم کی روایت،
ارتقائی مراحل اور مسائل اور اس کی اصل فکر کے مرکزی دھارے سے بڑی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔ جدید نظم کے ان عناصر کا جائزہ لینا
ایک تفصیلی بحث کا تقاضا کرتا ہے۔راقم الحروف فی الحال ان تفصیلات میں جائے بغیر
جناب محمود ایاز کی کچھ نظمیں جیسے نیا سفر، انتظار اور آخری منزل سے اقتباسات پیش
کرتا ہے تاکہ ان کی فکر اور اسلوب کی عکاسی ہوسکے ؎
تعلقات کا فسوں کدورتوں کا غبار
دلوں کا بغض محبت کے دائروں کا حصار
مسرتوں کا ہر اک رنگ’غم کا ہر لمحہ
گزرتی موج کے مانند اُبھر کے ڈوب گیا
)نظم
: نیا سفر، ص21(
یہ دل جو زندگیِ نو کے خواب دیکھتا ہے
یہ غم جو روح کی پہنائیوں میں جاگتا ہے
تری نگاہ سے چھٹ کر سکونِ جاں نہ ملا
نفس نفس میں امیدوں نے زہر گھولا ہے
)نظم:
انتظار،ص28(
تعلقاتِ جہاں کی ستم گری سے الگ
غم و نشاطِ تمنا کی دسترس سے دور
تمام عمر کی جہدِ حیات سے تھک کر
ہزاروں حسرتیں مشتِ غبار میں ڈھل کر
کچھ ایسے سوئی ہیں خاموشیوں کے مرقد میں
کہ تا ابد کوئی آواز پاجگانہ سکے
)نظم:
آخری منزل،ص33(
مذکورہ نظموں کے مطالعے سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے
کہ جدید شاعری جو میراجی، راشد،فیض اور اخترالایمان وغیرہ کے فکر وفن کے ساتھ سفر
کرتے ہوئے آگے بڑھی اور ردو قبول کے کئی مراحل طے کرتی رہی۔ محمود ایاز بھی اسی
راہ کے مسافر رہے چنانچہ یہ نظمیں جہاں
اپنے مخصوص تخلیقی تصور اور ہیئت کے لحاظ سے کلاسیکی لفظیات کا تانا بانا بنتے
ہوئے نئے امکانات کا پتہ دیتی ہیں وہیں شاعر کے تخلیقی ذہن کے فنی و لسانیاتی
تصورات اور نئے جہانوں کی سیر کرواتی ہیں۔ محمود ایاز نے اپنی نظموں کے ذریعے نظم
کے تاریخی و تدریجی نقطئہ نظر کو ملحوظِ خاطر رکھا اور لسانی معیار و اعتبار کی
مروجہ حدود کو بامعنی اور تر و تازہ بنانے کی سعی کرتے رہے۔اس عمل میں انھوں نے
لفظی ترتیب سے زیادہ کام لیا ہے جومعنویت سے پر نظر آتی ہیں۔اس طرح ان کا رشتہ فنی
جہتوں سے بھی منسلک ہوجاتا ہے۔
محمودایاز کی شاعری ترقی پسند تحریک کے دور میں فروغ
پائی۔ ظاہر ہے کہ شاعر اپنے عہد کے تقاضوں سے متاثر ہوتا ہے، لہٰذان کے کلام میں
اس دور کے مروجہ لفظیات و نظریات راہ پانے لگے۔ایسے میں ان کا رنگ انفرادیت کاحامل
ہوا اوران کی نظموں کو جمال اورعصر کا امتزاج قرار دیا جانے لگا۔اس طرح ان کا اپنا
اسلوب تشکیل پایا، فنی و فکری لحاظ سے بھی ان کلام عمدہ ہے۔ شا عروں میں ایاز صاحب
غالبا فیض اور اختر الایمان سے متاثر نظر آتے ہیں، اس کے باوجود ان کا اپنا طرز
نمایاں ہے اس ضمن میں اکرام باگ لکھتے ہیں
:
’’محمود
ایاز کا زمانہ شاعری ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔فیض اردو شاعری کے قد
آور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔میراجی اور راشد کی آوازیں بھی پہچانی جانے
لگی تھیں۔اخترالایمان کو ابھرتے شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جارہا تھا۔غزل میں
فراق اور ناصر کاظمی نے اپنی شعری پہچان بنالی تھی۔ محمود ایاز کلاسیک شعرا کے
پارکھ تھے اور اقبال کے فکر و فلسفے نے ان پر گہرا اثر ڈالا تھا۔محمود ایاز کی
شاعری پر مذکورہ شعرا کے اثرات مختلف انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایاز صاحب کی
شاعری میں وقت کا تصور اقبال اور اخترالایمان
کے امتزاج سے ایک نئے زاویے سے ظہور پذیر ہوا ہے۔فراق اور فیض کا اثر ان کی لفظیات
سے مترشح ہے۔‘‘
)تحقیقی
مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی: محمود ایاز اور سوغات کا دور سوم (تدوین و تحقیق) ،ڈاکٹر
اکرام باگ ،2006،ص49(
اردو شاعری کا مزاج غزل کا مزاج رہا ہے ۔ اشارے اور کنا
یے کی جتنی مثالیں غزل میں پا ئی جاتی ہیں اتنی شاید کسی اور صنف میں نہیں ملتیں۔
محمود ایازنے بھی ان صفات شعری سے خوب فائدہ اُٹھا یا۔ انھوں نے ان خصوصیات کو نہ
صرف غزل بلکہ اپنی نظموں میں بھی استعمال کیا ۔
اشارات کے سلسلے میں میراجی نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’سچی
شاعری وہی ہوتی ہے جو اشاراتی(علامتی) ہو... بات کو دھندلکے میں رکھنے سے ایک حسن
پیدا ہوجاتا ہے علامت خیال سے بڑھ کر آپ روپی صورت ہے، اشاراتی شاعری اظہار کا ایک
ایسا فطری طریقہ ہے جو ہماری ہستی کی
گہرائیوں سے امڈ کر نمودار ہوتا ہے۔‘‘
میراجی کا مذکورہ بالا اقتباس محمود ایاز کی نظمیہ شاعری
پر بھی صادق آتا ہے، ابہام و اشارت سے انہوں نے اپنی شاعری کو سجا یا ہے۔ اشاروں
اور کنایوں میں بہت کچھ کہہ دیا ہے جب ہم کسی شاعر کے مزاج و منہاج سے واقف ہو تے
ہیں تو قاری کا رابطہ اشاراتی زبان کے وسیلے سے ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں ایازکی
چندنظموں کے اقتباسات مثالاً پیش کی جا تی ہیں ؎
چاندنی سطح سمندر پہ رواں
ریگ پہ آسودہ ہے
ساحلِ بحر کے سناٹے میں
دورافتادہ جزیروں میں اسیر
بین کرتی ہوئی موجوں کی صدا آتی ہے
)نظم:
ایک تصویر،ص38(
سیہ رات میں ٹمٹماتے ستاروں کے نیچے
خروشاں سمندر کی موجیں تجھے ڈھونڈتی ہیں
خروشاں ہوا کی صدائوں میں تیری صدا ہے
مرادل تجھے ڈھونڈتا ہے
)نظم:
نوحہ، ص40(
...اس
سے پہلے بھی کئی بار
یہ بے کیفیِ ایام کی رو دیکھی ہے
مگر اب کے نہ بچیںگے
یہ گماں ہے دل کا
)نظم:
اندیشئہ گماں ہاداشت،ص52(
اردو نظمیہ شاعری کی جدید گرمی سے لبریز مذکورہ نظمیں
جہاں شاعر کے داخلی کرب کا منظر بیان کرتی ہیں وہیں نئے انسان اور نئے دور کے
مسائل و مراحل کے مختلف ابعاد کی جانب ذہن و دل کو راغب کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان
نظموں میں عہد نو کی جہتوں اور مدارج کا احساس ہوتا ہے ان کے یہاں ماضی ،حال سے
مربوط و مبسوط ہوکر مستقبل کا پتہ دیتا ہے۔غرض یہ نظمیں شاعر کے لسانی و لفظیاتی
مطالعے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی جمالیات کو بھی نمایاں
کرتی ہیں۔ شاعر ی میں علامتوں کا استعمال ایک ضروری شے گردانا گیا ہے، شعری اظہارات
کا اختصار علامتوں کا متقاضی ہوتا ہے، یہ علائم و استعارات اور ابہام و اشارات کے
توسط سے تخلیق پاتے ہیں۔ محمودایاز نے بھی اپنی نظمیہ شاعری کو علا متوں کے وصف سے
سجایا اور سنوارا ہے اُن کی علامتیں منفرد ہیں اور ان میں ابہام اور اشارت بھی نمایاں
ہے ۔ بقول شمس الرحمن فاروقی:
’’اجمال
اور جدلیاتی لفظ کے بعد ابہام شاعری کی تیسری اور آخری معروضی پہچان ہے۔[موزونیت
اور اجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے] ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگر کسی شعر میں
صرف ابہام ہی ہے تو بھی وہ شاعری ہے۔ عام طور پر جدلیاتی لفظ اور ابہام ساتھ ساتھ
آتے ہیں لیکن جس طرح تنہا جدلیاتی لفظ شعر کو شاعری میں بدل دیتا ہے،اسی طرح تنہا
ابہام بھی شعر کو شاعری بنادیتا ہے۔شعر میں ابہام یا تو علامت سے پیدا ہوتا ہے یا
ایسے الفاظ کے استعمال سے جن سے سوالات کے چشمے پھوٹ سکیں۔جتنے سوالات اٹھیں گے
شعر اتنا ہی مبہم اور اتنا ہی اچھا ہوگا۔‘‘
)شمس
الرحمن فاروقی،شعر ،غیرشعر اور نثر، ص 96، (2005)،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
،نئی دہلی(
محمودایاز کی شاعری ابتدا ہی سے فکر وفن کے تقاضوں سے
ہمکنار رہی۔ اُن کی نظموں میں ابہام و اشارت اور علائم کا خلاقانہ استعمال ملتا ہے
اس کے علا وہ پیکر تراشی کا تخلیقی اور فنکارانہ استعمال بھی ان کے یہاں نمایاں
رہا ہے۔ لفظوں کا صوتی آہنگ اُن کی شاعری کا خاصہ ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسات کو
پیش کر نے کے لیے پیکر سازی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ان کے یہاں پیکر تراشی کی بے
شمار مثالیں مل جاتی ہیں ۔ ان کی بیشتر نظمیں صفتِ پیکر پر دلالت کرتی ہیں ؎
کرب کی رات اٹل ہے
لیکن
نیند آجائے تو دم بھرسولوں
)نظم:نیا
سسی فس،ص57(
بسوں کا شور دھواں دھوپ کی شدت
بلند بالا عمارات سرنگوں انساں
تلاشِ رزق میں نکلا ہوا یہ جم ِ غفیر
لپکتی بھاگتی مخلوق کا یہ سیلِ رواں
ہر اک کے سینے میں یادوں کی منہدم قبریں
ہر ایک اپنی ہی آوازِ پا سے روگرداں
یہ وہ ہجوم ہے جس میں کوئی کسی کا نہیں
یہ وہ ہجوم ہے جس کا خدا فلک پہ نہیں
)نظم:شبِ
چراغ،ص46(
محمود ایاز نے مختلف فنی جہتوں کا تعین کیا ہے ۔ان کی
نظموں کے علائم واستعارے کی معنویت کو پیش نظر رکھیں تو ان کے فنی اختصاص کی وسعت
کے ساتھ ساتھ ان کے فکری نہاں خانے کے بعض عناصر جیسے شکست و تنہائی،حزن و ملال، حیات
و ممات کی کشاکش وغیرہ کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غرض ایاز صاحب کی نظمیہ شاعری
کے جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی نظمیں کسی طے شدہ راہ پر نہیں چلتی
اور نہ ہی شعری نظریات کی تابع ہوتی ہیں، بلکہ ان کی کچھ اپنی مخصوص لفظیات و
مرکبات، اشاراتی و علامتی طرز، جدید ذہنی و جذباتی رویے اور نئی شعری جمالیات کا
دلچسپ منظر نامہ پیش کرتی ہیں جو ان کے شعری سفر میں ان کی نظموں کاشناخت نامہ بن
گئی ہیں۔
Manzoor Ahmed Deccani
H. 5-38, Bakshi Haveli , Roza (B)
Dargah Road, Beside Inamdaar Petrol Pump
KALABURAGI-585104
Cell: 9964801454
Email: drmnzrd@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں