اردو دنیا، اکتوبر 2024
نیر مسعود کا شمار برصغیر میں فارسی ادب کے علاوہ اردو
ادب کے چند اہم دانشوروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کی نثر بظاہر بہت صاف شفاف اور
آرپار دکھائی دینے والی کیفیت سے معمور ہے، مگر اس میں خیال کی تہہ داری، پیچید گی
اور معنوی گہرائی پائی جاتی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے لیکن ان کی تصنیفات
میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے افسانوں کی ہے۔ جدید ادب میں ان کی شہرت ایک جدید
افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ہیں۔ جن میں پہلا مجموعہ ’سیمیا‘(1984)،
دوسرا ’عطر کافور‘ (1990)، تیسرا ’طاؤس چمن کی مینا‘ (1998)، چوتھا ’گنجفہ‘ (2008) اور’آخری دھول بن‘ ہے جو2011میں شائع
ہوا۔
نیر مسعود نے افسانہ نگاری کی عام روش سے ہٹ کر منفرد
انداز اختیار کیا۔ لہٰذاا ردو افسانہ نیر مسعود کے عہد میں جن اسالیب سے پہچانا گیا
ان میں ایک اہم اسلوب نیر مسعود کے افسانوں کا تھا۔
انھوں نے اردو افسانے میں اپنے علامتی انداز بیان کے
مختلف تجربے کیے اور اپنی فنی مہارت سے لفظوں کی نئی قبا ئیں تراشیں اور ان کے معنی
کو نئے پیراہن عطا کیے۔ نیرمسعود کی افسانہ نگاری کے متعلق کچھ دانشوروں کی رائے یہ
ہے کہ انھوں نے اردو افسانے میں علامتی بیا نیے کا ایک نیا درکھولا ہے۔ سہیل وحید
کو ایک انٹرویو کے دوران جواب دیتے ہوئے نیر مسعود نے کہا تھا:
’’... ایک اور خیال رکھا ہے کہ استعارہ اور
علامت نہ آنے پائے کہانی میں۔ کہا نی کا علامتی مفہوم نکالا جاسکتا ہے لیکن میں
نے علامتی کہانی تو شاید لکھی نہیں، استعارہ
تو تقریباً ہے ہی نہیں۔ میرے یہاں تشبیہ ہوگی بہت لیکن استعارہ نہیں۔ استعارہ کا
عمل دوطرفہ ہوتا ہے کہ جوچیز ہے اسی کو کچھ اور بتا ئیں۔ استعارہ شاعری کے لیے منا
سب ہے نثر کے لیے نہیں۔ استعارہ میں ٹھیک سے ترسیل نہیں ہو پاتی۔‘‘
(انٹرویوسہیل وحید،ماہنامہ آجکل،نئی دہلی
جولائی، 2008،ص6)
دوسری طرف معروف فکشن نگار سید محمد اشرف صاحب نیر
مسعود کے افسانوںمیں تشبیہ کے متعلق یوں رقم طراز ہیں :
’’جنرئیات نگاری کے ساتھ ساتھ نیر مسعود کی
کہانی کے بیا نیہ میں وضاحت اور طوالت شاید اس لیے ضروری ہیں کہ وہ زبان کے دیگر
ہتھیاروں کا استعمال کہانی کی نازک سی فضاکے لیے قاتل سمجھتے ہیں تبھی تو ان کے بیان
میں تشبیہ اور استعارے بہت کم ہیں۔ دونوں کتابوں میں مشکل سے اتنی تشبیہیں ہوں گی
جتنی ہمارے ہاتھوں میں انگلیاں۔ تشبیہیں تعداد میں بھی کم ہیں اور بنفسہٖ بہت
اہتمام کے ساتھ یا عمدہ طریقے پر استعمال بھی نہیں ہوئی ہیں۔ ان کے یہاں تشبیہوں کی
کمی اس لیے بھی ہے کہ تشبیہ کسی ایسی چیز کے لیے دی جاتی ہے جو موجود بھی ہو اور
محسوس بھی ہو۔ نیر مسعود کے یہاں معاملہ یہ
ہے کہ ان کی کہانی میں بیشتر چیزیں موجود ہیں بھی اور نہیں بھی۔ اس لیے ان کے یہاں
تشبیہوں کا استعمال بجا طور پر کم بہت کم ہے۔ استعارہ تو ان کی نثرمیں تشویش ناک
حدتک عنقا ہے۔غالبًا وہ استعارے پرصرف شاعری کا اجارہ سمجھتے ہیں۔‘‘
(نیر مسعود کی کہانیاں، کھوئے ہووں کی جستجو،
سیدمحمد اشرف،ص 10,11)
جب کہ نیر مسعود کے افسانوں کے مطالعے کے بعد راقم
الحرو ف کی اپنی رائے یہ ہے کہ نیر مسعود کے کہنے کے مطابق نہ تشبیہوں کی تعداد
بہت ہے اور نہ سید محمد اشرف صاحب کے کہنے کے مطابق اتنی کم کہ انگلیوں پر گنی جا
سکے۔تشبیہیں ہیں لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں کہ افسانے کے بیانیے کی خوبصورتی مجروح
ہوجائے اور نہ ہی اتنی کم کہ افسانے کے بیانیے کی رفتار رک جائے ۔
نیر مسعود کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر
باب جہاں سے شروع ہوتا ہے اور جہاں ختم ہوتا ہے اور پھر جہاں سے دوسرا باب شروع
ہوتا ہے سب میں ایک ربط اور تسلسل ہے اور یہ تسلسل تخلیقی، فکری اور معنوی نوعیت
کا ہے۔ ہر باب اپنی جگہ مکمل ہے اور ہرباب دوسرے باب سے مربوط بھی ہے۔ان کے
افسانوں میں کچھ ایسی صفت ہے کہ وہ آغاز سے انجام تک ایک تاثر نہیں دیتا بلکہ
افسانے کا متن قاری کو بار بار پڑھنے پرمجبور کرتاہے۔ نیر مسعود ایک ایسے ادیب تھے
جن کی تحریروں کو کماحقہ سمجھنے والا قاری آج تک نہیں مل سکا۔کیونکہ انھوں نے واقعات
کی بنت ایسے الفاظ کے ذریعے کی ہے جواپنے اندر معنی کی نئی نئی جہتیں چھپائے ہوئے
ہیں۔ اس لیے ان کی کہانیوں کے بطون میں چھپی ہوئی بات کو سمجھنا ہر قاری کے بس کی
بات نہیں ہے۔ ان کے فن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد سریت پر استوار ہے
جس کی و جہ سے افسانے تفہیم کی سطح پر ذرا مشکل ہی سے کھلتے ہیں اور یہی پیچیدگی
ان کے افسانوں کی خوبصورتی ہے۔نیر مسعود کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کا
آغاز وانجام ایک جیسا نہیں ہوتا، یعنی آغاز اگر بہت واضح ہے تو انجام بہت الجھا
ہوا نظر آتا ہے۔ بعض اوقات تو سمجھ میں نہیں آتا کہ افسانہ یہاں کیوں کر ختم ہو
سکتاہے۔
نیر مسعود کے افسانوں کے کردار اپنے لیے ڈھالی جانے والی
فضا میں پہنچ کر ویسے نہیں رہتے جیسا کہ وہ عام زندگی میں ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔
افسانہ نگار کا بیانیہ انھیں مختلف کردیتا ہے، عجیب طرح کا مختلف کہ بظاہر وہ ویسے
ہی ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی عام زندگی میں ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے، مگر بیا نیے کی بنت
کے اندر ایک عجب اسرارداخل ہوجاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں خوا بناک فضاکی موجودگی
قاری کے لیے دلکشی کا باعث بنتی ہے، انھیں خوابوں سے جیسی انسیت رہی اسے دیکھ کر
محسوس ہوتا ہے کہ خواب، خواب نہ ہوں بلکہ حقیقت کا ایک دوسرا روپ ہو۔ نیر مسعود نے
خوابوں کو پرچھائیوں کی شکل میں پیش نہیں کیا اور اسی لیے ان کے یہاں کردار پرچھائیں
کی صورت اختیار نہیں کر سکے،جس کا اظہار 2007کا سر سوتی سمان قبول کرتے ہوئے انھوں
نے کہا تھا:
’’سن 70ء کے قریب میں نے ایک مکمل اور مربوط
خواب دیکھا۔ محسوس ہوا کہ یہ تواچھا خاصا افسانہ بن سکتا ہے۔ میں نے اس خواب کو
معمولی ردو بدل کے بعد لکھ دیا۔ یہ میرا پہلا مکمل افسانہ ’نصرت‘ تھا۔ افسانے میں کچھ خواب کی اور کچھ دھند لکے
کی کیفیت تھی جو میرے کئی دوسرے افسانوں میں بھی محسوس کی گئی۔ مجھے خود یہ کیفیت
بہت پسند نہیں ہے لیکن یہ خود بخود آجاتی ہے، شاید اس لیے کہ میرے بہت سے افسانوں
کی بنیاد میرے خوابوں پرہے، مثلاً مارگیر، اوجھل، مراسلہ، سلطان مظفر کا واقعہ نویس،
ندبہ، اکلٹ میوزیم، شیشہ گھاٹ، علام اور بیٹا، خالق آباد، خوابوں پر مبنی ہیں۔‘‘
(پروفیسرنیر مسعودادیب دانشور، شاہد ماہلی،
غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،ص26,27)
نیر مسعود کا اردو افسانے پربہت بڑا احسان ہے کہ انھوں
نے اس مادّی دنیا میں رہتے ہوئے ایک ایسے فطری، قدرتی اور وجودی مظہر کو موضوع بنایا
جوہمیں کسی اور دنیا سے مربوط کرنے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا موضوع ہے۔ دنیا
کا کوئی انسان ایسا نہ ہوگا جس نے کبھی خواب نہ دیکھا ہو۔ آخر خواب میں جس تجربے
سے ہم گزرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اس بات کو سمجھانے کے لیے انھوں نے خواب کو اپنے
افسانے کا وسیلہ بنایا۔ ان کا مقصد خواب کی
حقیقت کو سمجھانا ہے، جس سے اس حقیقت کا اندازہ ہوجائے کہ اس جسم کے ماورا کوئی
اور بھی حقیقت ہمارے جسم میں پائی جاتی ہے۔جو چیز ہم اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتے
ہیں وہ توموجود ہے ہمارے سامنے، لیکن جس چیز کو ہم خواب میں دیکھتے ہیں وہ بھی کہیں
ہے اور ہم جودیکھتے ہیں بند آنکھوں سے تواس بات کی نشاند ہی ہے کہ ہمارے اندر بھی
کوئی قوت ہے۔جب ہم کسی ادیب اور ادب کو پڑھتے ہیں تو صرف اس کے متن تک محدود نہیں
رہتے بلکہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس سے اٹھنے والے علمی، فنی، فکری، نفسیاتی، اخلاقی،
عرفانی، وجودی، وجدانی مسائل پر غور کرتے چلے جائیں اور یہ تمام سرمایے ہمارے پاس
نیر مسعود کے کلام میں،ان کی تصنیفات میں،ان کی نثر میں اوران کے افسانوں میں ملتے
ہیں۔
پورے اردو ادب کے نثری سرمایے کو دیکھا جائے تو یہ بات
بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ سب سے مضبوط، مستحکم اور حقیقی نثر نیر مسعود نے ہی
لکھی ہے۔ ان کی نثر میں سادگی وپر کاری ہے۔ کون سی صنعت ہے جو ان کے یہاں نہیں ہے،
مگر وہ دکھائی بھی نہیں دیتی کیونکہ اس سادگی سے انھوں نے برتا ہے جیسے بہتے ہوئے
شفاف پانی میں ہائیڈروجن اور آکسیجن نہیں دکھائی دیتے۔ نیر مسعود کے پاس پوری
معروضیت کے ساتھ موزونیت گہرائیوں میں اترتے چلے جانے کا ہنر تھا اور ان کا یہی
وصف اپنی پوری موزونیت کے ساتھ ان کے افسانوں میں نظر آتاہے۔ان کے افسانوں کی خوبی
کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے پورے علمی، فکری اور دانشورانہ سفرطے
کرنے کے بعد افسانہ لکھ کر اشارہ کیا ہے کہ دیکھو جب ایک دانشور افسانہ لکھتا ہے
تو کیسے لکھتا ہے۔
نیر مسعود تخلیقی نثر لکھنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ ایک
فضا بنا نا جانتے تھے، تاثر کوگہرا اور دیرپابھی کر دیتے تھے۔ فنا یا موت کا احساس
ان کا مرکزی تخلیقی تجربہ تھا۔ وہ اپنے افسانوں کے ذریعے مٹنے والے و جود اورہستی
کی باز یابی کا تجسس اور انتظار لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کے یہاں دیکھنے
سے زیادہ سونگھنے، سننے اور چھونے کی حسیات کے ذریعے ہمہ وقت تحلیل ہوتی ہوئی اس
دنیا کو بازیاب کرنے کی خواب نما امنگ ملتی ہے۔ان کے زیا دہ ترافسانے واحدمتکلم کے
ذریعے بیان ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے لکھنوی تہذیب
کے پس منظر میں اپنے تاریخی اور اسطوری تجربے، مشاہد ے اور مطالعے کی روشنی میں
تصورات اور تخیلات کی ایک ایسی دنیا تعمیر کی ہے جس میں قدیم روایات اور اقدار کے
ساتھ ایک پورے دور کی تاریخ زندہ ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ ان کی زبان سادہ، تراشیدہ،
صاف شفاف اور کہا نی بیان کرنے کا اسلوب تمثیلی یا استعاراتی الجھاؤ سے پاک
ہے۔ نیر مسعود کے زیادہ تر افسانوں میں محض کسی ایک قصے کا بیان
نہیں ملتا بلکہ اس سے جڑے اور قصوں کا بیان بھی شامل رہتا ہے۔ ان کے یہاں پلاٹ کا
باضابطہ التنرام نہیں ملتا۔ انھوں نے وحدت تاثر اور مربوط پلاٹ پراستوار یک رخے
افسانے لکھنے سے احتراز کیا ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ اکہرے نہیں ہوتے بلکہ ذیلی
پلاٹ اصلی پلاٹ پرحاوی ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا یہ فنی کمال ہے کہ اختتام کے وقت
اس کا اصلی پلاٹ پھر کسی نہ کسی صورت میں سامنے آجاتاہے اور تمام ذیلی پلاٹ کے
نقوش دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں زیادہ تر طلسم، حیرت، جادو، دہشت
اورخوف پایا جاتا ہے۔نیر مسعودکی تصنیفات میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے افسانوں کی
ہے۔ جدید ادب میں ان کی شہرت ایک جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ ان کو منفرد
اسلوب میں لکھے ہوئے افسانوں کی بدولت غیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی۔ نیر مسعود نے ہمیشہ
موضوع کے مقابلے میں ہیئت کو اہمیت دی، اور ان کی اسی خوبی نے ا نھیں ایک الگ مزاج
کا تخلیق کا ربنا دیا۔ ان کی کہانیوں کا انداز بیان اور ہرصفحہ پر موجود تجسس طویل
سے طویل افسانے کو بھی پڑھنے پرقاری کو مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کبھی
اپنے مطالعے اور آگہی کی نمائش نہیں کرتے، ان کے یہاں انسانی تجربے کی حقیقت کا
ادراک اتنی آہستگی اور خاموشی کے ساتھ افسانہ بنتاہے کہ کہیں علم نمائی کی دھندلی
سی شکل بھی سامنے نہیں آنے پاتی۔ ان کا مقصد اپنے قاری کی معلومات میں اضافہ کرنا
نہیں بلکہ اس کو پہلے سے زیادہ حسّاس بنانا ہے اور اس کی گم ہوتی ہوئی تہذیب و
انسانیت کو بحال کرنا ہے۔ انھیں وہ سب کچھ دکھا ناہے جو بالعموم نظر نہیں آتا۔ اسی
لیے سیمیا، عطر کا فور، طاؤس چمن کی مینا،
گنجفہ اور ’دھول بن‘ کے قصّے ہمارے سامنے ایک خواب کا سامنظر نامہ ترتیب دیتے ہیں۔
آج انسان اپنے اجتماعی سفر میں جن تجربوں سے گزر تا ہوا موجودہ عہد کی و حشت ناک
و بے راہ روی جیسی اجاڑ زندگی تک پہنچا ہے۔ نیّر مسعود نے ان سب کا احاطہ کیا ہے۔
جب تک ان کی پوری کہانی یکسوئی کے ساتھ نہ پڑھی جائے اس وقت تک ان کے اشارے فہم
وادراک کی گرفت میں نہیں آتے۔
نیّر مسعود کی پہلی کہانی ’نصرت‘ہے۔ یہ کہانی اس لحاظ
سے اہمیت کا درجہ رکھتی ہے کہ ان کی افسانہ نگاری کی بیشتر خصوصیات اس میں موجود ہیں۔
یہ کہانی رسالہ ’شب خون‘ 1971میں پہلی بارشائع ہوئی ۔یہ ایک بیانیہ انداز سے شروع
ہوکر ڈرامائی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کہانی کی جب شروعات ہوتی ہے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیدھا سادہ
قصّہ بیان کیا جارہا ہے مگر جب کہانی اپنے عروج پرپہنچتی ہے توذہنی کشمکش و جذ باتی
کیفیت کی طرف مائل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ نیّر مسعود نے اس کہانی میں راوی اور
نصرت کے درمیان محبت کا اظہار بڑے ہی محتاط انداز میں کیا ہے۔
نیر مسعود نے نصرت کے انداز گفتگو، عادات واطوار، تہذیب
و شائستگی کے حوالے سے اس وقت کے معاشرے کی بھر پورنمائندگی کی ہے۔ انھوں نے اپنی
کہانیوں میں متضاد صورت حال کویکجا کردیاہے،جس سے کسی بھی تصویر کا کوئی ایک نقش
ابھر کر سامنے نہیں آتا۔ جیسے نصرت کی سبک خرامی کے ساتھ بہارکے موسم کا ذکر، نیک
لوگوں کے ساتھ بدکار عورت کا ذکر وغیرہ، یہ وہ متضاد چیزیں ہیں جو نیّر مسعود کے
افسانوں میں اکثر نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے پیرایۂ اظہار میں بھی
انوکھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ موت کی صراحت کے بجائے اس کی تصویر کے ذریعے موت کی فضا
پیدا کردی ہے، جس سے واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مرگئی ہے۔ لیکن راوی جب
نصرت کو مراہوا پاتا ہے تو چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ نصرت
سے بے پناہ محبت بھی کرتا ہے۔ یہاں نیّر مسعود قاری کے ذہن کو الجھا دیتے ہیں۔ ان
کی کردار نگاری پرجب غور کرتے ہیں تو ان کے فنکارانہ اور محتاط رویے کا نقش ابھرتا
ہے۔ انھوں نے اپنے کرداروں کے حوالے سے بہت احتیاط سے کام لیا ہے، کیونکہ ان کا ایک
ہی کردار کئی افسانوں میں ملتا ہے۔ افسانہ ’نصرت‘ کا بھا گاہوا کر دار ان کے ایک
شاہکار افسانے ’مارگیر‘ میں پایا جاتا ہے جو رسالہ ’شب خون‘ اکتوبر 1978 میں پہلی
بار شائع ہوا تھا۔ یہ سیمیا میں شامل تیسرا افسانہ ہے۔ اس افسانے کی شروعات بھی
واحدمتکلم سے ہوتی ہے۔ جب ہم افسانہ ’مارگیر‘ میں شکار کی نوعیت اور مارگیر کے
علاج کی مختلف تفصیلات کو پڑھتے ہیں تو ہمیں ایک ایسے جملے سے سابقہ پڑتا ہے جس سے
ہمیں ’نصرت‘ کا کردار یاد آنے لگتا ہے، جیسے راوی ایک جگہ کہتا ہے ’میں ایک مری
ہوئی لڑکی سے بھاگ رہا تھا۔‘ اور وہ اس تذبذب میں مبتلا ہے کہ وہ واقعی مری ہوئی
تھی یا اسے مری ہوئی معلوم ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ فیصلہ نہیں کرپاتا اور اس لڑکی سے بھاگتا ہوا ایسے جنگل کی طرف
نکل پڑتا ہے، جہاں مارگیر سے ملاقات ہوتی ہے۔ مارگیر اسی جنگل میں سانپوں کی تلاش
اور جڑی بوٹی کی کھوج میں دن گزار تا ہے
اور گھر بیٹھے مارگزیدوں کا اپنی جڑی بوٹی سے علاج کرتا ہے اور راوی اس بستی کے لوگوں کا مسیحا ہے۔ اس
کہانی میں ہمیں ایک جگہ اس وقت دھچکا لگتا ہے جب راوی کو سانپ ڈس لیتا ہے تومارگیر
اس کا علاج کرتا ہے اور کہتا ہے ’’تمہارے زخم کا نشان باقی نہیں، اب تمھیں یاد نہیں
رہے گا‘‘ تو راوی کہتا ہے۔ ’’مجھے یاد رہے گا‘‘۔توپھر مارگیر کہتا ہے ’’یہ پرانے
لفظ ہیں انھیں میں پہلے بھی سن چکا ہوں۔‘‘ اس جملے سے ہمارے ذہن میں ’نصرت‘ والا راوی یاد آتا ہے جو اس میں مارگیر کے روپ
میں موجود ہے۔ دوسری جگہ وہ مارگیر جو سانپوں کے زہر کا علاج کرتا ہے، وہ خود کہتا
ہے ’’مجھے سب سے زیادہ خوف زہر مہرہ سے ہوتا ہے۔‘‘ کہانی کے آخر میں ایک اور اہم
موڑ آتا ہے جب مار گیر کو سانپ کاٹ لیتا ہے۔ مگر وہ خود اپنا علاج نہیں کرپاتا
اور مرجاتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیّر مسعود نے اپنی کہانیوں میں ہی بھول
بھلیاں سی کیفیت ظاہر نہیں کی ہے بلکہ کردار کے حوالے سے بھی قاری کو التباس میں
ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ انھوں نے افسانے کے اختتام میں مارگیر کی بھی وہی
حالت دکھا ئی ہے جوبقیہ افسانوں کے مرکزی کرداروں کی دکھائی ہے۔ یعنی اس کی موت،جس
کی وجہ سے کہانی ایک المیے کی شکل میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
نیر مسعود کا ایک افسانہ ’بائی کے ماتم دار‘ ہے جو ان
کے افسانوی مجموعے’طاؤس چمن کی مینا‘ میں شامل ہے۔ یہ افسانہ دوحصوں پر مشتمل ہے لیکن
انھوں نے اپنے زور بیان سے دونوں حصوں کو ایک کردیا ہے۔ افسانہ ایک دلہن کی موت سے
شروع ہوتاہے اور ایک بوڑھی عورت ’بائی‘ کی موت پر ختم ہوجاتا ہے۔ دونوں کی موت کی
وجہ بالکل مختلف ہے مگر دونوں کے واقعات میں ایک گہرا رشتہ پایا جاتاہے۔ اس افسانے
کا بنیادی خیال انسانی خواہشوں کی تکمیل اور اس تکمیل کے لیے کی جانے والی جائز
ونا جائز کوشش ہے۔ اس افسانے میں نیر مسعود نے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کیا
ہے۔ افسانے کے آخری پیراگراف میں کچھ پرانے خیالات کے لوگ جن میں سماجی اقدار،
تہذیب و تمدن موجود ہے،اسے نیر مسعود نے ’بائی‘ کے شوہر کے روپ میں دکھایا ہے۔ ’وہ
صاحب‘ اپنی بیوی کی موت کے بعد جب گھر چھوڑ کر جاتا ہے تو دروازہ بند کر کے ایک پیتل
کا بڑا سا تالا لگاتا ہے اور کنجی ایک بزرگ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ ’صاحب‘ کا گھر
چھوڑ کرجانا مٹتے ہوئے تہذیب و تمدن اور بزرگ کے ہاتھ میں کنجی دینا اپنے تہذیب و
تمدن کو بچانے کی آخری کو شش کی علامت ہے۔ کیوں کہ آج سائنس کی بڑھتی ہوئی روشنی
نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے کرپرانی قدروں کو مسمار کر چکی ہے۔ نتیجتاً لو گ اپنے تہذیب و تمدن کو بھول چکے ہیں
اور ان کے اندر حرص و لالچ اپنا آشیانہ بنا چکی ہے۔ اس بات کو نیّر مسعود نے اپنے
افسانے میں بالکل واضح طورپر دکھایا ہے۔ حالانکہ افسانے میں کردارکی اہمیت زیاد ہ
نہیں ہے لیکن انھوں نے اپنے زور بیان سے افسانے کو شاہکار بنا دیا ہے۔
ان کا ایک اور افسانہ ’طاؤس چمن کی مینا‘ ہے جو اردو
ادب میں منفرد شناخت کاحامل ہے۔ اس افسانے میں نیر مسعود نے بڑی گہری بات کو بہت
سادگی سے بیان کیا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار کا لے خان ہے جوایک نواب کے یہاں
ملازم ہے۔ کالے خان کی ایک لڑکی ہے جو پہاڑی مینا کے لیے ضد کرتی ہے مگر کا لے خان
کی مالی حالت ایسی نہیں ہے جو مینا خرید سکے۔ اس لیے وہ نواب کی پہاڑی مینا کو کچھ
دنوں کے لیے چرا لیتا ہے۔
اس افسانے میں لکھنوی تہذیب، نوابوں کے چونچلے اور
گوروں کو خوش کرنے کے لیے کیے گئے خرچ، زبان کا سلیقہ و نزاکت سب کچھ دیکھنے کو
ملتا ہے افسانے کے اختتام پر لکھنؤ میں دل نہ لگنے کا ذکراور ایک مہینے کے اندر
بنارس میں آرہنا، سنتاون کی لڑائی، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا وغیرہ میں
اس وقت کے لکھنؤکا زوال آمادہ ماحول اور تہذیب کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
نیر مسعود نے احساس فنا اور اشیا کی نا پائیداری کو اپنے افسانے کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔ گہری رمزیت کے ساتھ
پرکشش اور تہ داراسلوب ان کے فن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ وہ عہد حاضر کے ایک ممتاز
اور منفرد افسانہ نگار ہیں۔ نیر مسعود نے مغربی افسانہ نگاروں سے بھی خوب استفادہ
کیاہے اور ان کی خصویات کو اپنے افسانوں میں سمونے کی حتی الامکان کوشش بھی کی ہے۔
کافکا اور بورخیس کی جتنی خصوصیات ان کے افسانوں میں پائی جاتی ہیں وہ ان کے ہمعصر
افسانہ نگاروں کے یہاں نہیں ملتیں۔
Asfa Zainab
Research Scholar,Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Mob:7739267865
E-mail:asfazainab0@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں