اردو دنیا۔ اکتوبر 2024
فن تعمیر
آٹھویںصدی تک مندر کے نقشے اور اس کے لازمی اجزا کا تعین
ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تعمیری سرگرمی کا ایک دور شروع ہوا جس میں بیسیوں مندر، جو
فن کے بہت اچھے نمونے کہے جاسکتے ہیں بنائے گئے۔ مندر کے نقشے کا مرکز و من، وہ
حصہ تھا جس میں بت رکھا جاتا اور وہ خاص کمرہ جس میں بت ہوتا گربھ گریہہ کہلاتا
تھا۔ گربھ گریہہ کا دروازہ مشرق کی طرف ایک ہال میں کھلتا تھا جسے منڈپ کہتے تھے۔
پہلے ومن اور منڈپ الگ الگ رکھے جاتے تھے، پھر انھیں ایک پیش دالان (انترالا) کے
ذریعے ملا دینے کا رواج ہوگیا۔ منڈپ کے داخلے کے دروازے کی طرف ایک برساتی بنائی
جاتی (اور وہ منڈپ) اور دائیں بائیں بغلوں
میں کمرے ( مہا منڈپ) بنا کر منڈپ کو اور وسیع کردیا جاتا تھا۔ مندر کا ایک عام
نقشہ بن جانے کا ایک سبب معماروں کی برادریاں تھیں، دوسرا سبب فن تعمیر کے اصول،
جو ’وستو شاستروں‘ میں مرتب کرلیے گئے تھے۔ معماروں کی جماعتیں ملک کے ایک حصے سے
دوسرے میں بلائی جاتی ہوں گی۔ اڑیسہ اور کھجوراہو کے مندروں کو تاریخی سلسلے سے دیکھا
جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے بنانے والوں نے تجربے سے کس طرح سبق لیا اور ہرنیا
کام پچھلے کام سے بہتر کیا۔ اس مشق کی پشت پر تعمیر کے اصول تھے جن کی بنیادی خصوصیت
یہ ہے کہ ان میں مندر کا خوش نما ہونا ایک ضمنی بات ٹھہرائی گئی اور اس کے نقشے کا
دینی اور فلسفیانہ پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
برہمن علما فن تعمیر کو بھی اپنے قابو میں رکھنا چاہتے تھے۔ معمار وستوشاستر کو
حفظ کرلیتے، کام کرتے وقت اس کی ہدایتوں کو دہراتے رہتے اور اس طرح ان کی ایک
اصطلاحی زبان بن گئی جو پورے ہندوستان میں سمجھی جاتی تھی لیکن کسی فن یا صنعت کا
مقررہ اصولوں کا اس صورت سے پابند ہوجانا جو برہمنوں کے پیش نظر تھی ہرگز مفید نہیں،
کیونکہ ایسی پابندی انفرادی اپج کو بالکل زائل کردیتی ہے۔ ہندوستان کے معماروں نے
’’اپنے فن میں شاستروں کی مدد سے نہیں بلکہ ان کے باوجود جان ڈال دی۔‘‘
باہر سے دیکھا جائے تو مندر کی عمارت بہت پیچیدہ معلوم
ہوتی ہے۔ اصل میں ہندوستانی معماروں نے عمارت کو ایک نامیہ سمجھا جو ہم شکل خلیوں
سے مرکب ہو۔ کبھی پورا مندر اور اکثر ومن اپنی ہی شکل کے چھوٹے نمونوں کا مجموعہ
ہوتا ہے اور اس طرح روکار اور آرائش اچھی نہ ہو تب بھی ناموزوں نہیں ہوسکتی۔ بعض
آرائشی خیال بدھ متی عمارتوں سے لیے گئے، جیسے کہ چیتیا محراب۔ مندر کا گنبد
استوپ کے گنبد کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ معماروں کے پیش نظر خطوط کا حسن نہیں بلکہ
جسامت تھی، وہ روشنی اور سایے کی کیفیتیں بڑی خوبی سے پیدا کرتے تھے اور چٹانوں کو کاٹ کر غار بنانے کی روایتوں اور
مشق کا نئے دور میں اثر یہ ہوا کہ معمار پتھر کی عمارتیں بناتے وقت بھی یہ سمجھتے
رہے کہ وہ ایک بڑی بھاری چٹان کو تراش رہے ہیں، چنانچہ بعض مندروں کے اندر صرف وہ
دھندلکا سا نہیں ہے جو عبادت کرنے والے کے دل کو متاثر کرتا ہے بلکہ انتہائی تاریکی
ہے۔ ان چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو مندر کی عمارت میں کوئی بھید نہیں رہتا۔
تعمیر کے قاعدے بہت سادہ تھے۔ معمار عمارت کے وزن کو تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کرتے
تھے۔ انھوں نے اس کا کوئی حل نہیں سوچا کہ بالائی حصے کے وزن سے جو ’پھینک‘ یا افقی
دباؤپیدا ہوتا ہے اسے کس طرح تعدیل کیا جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پتھر کافی وزنی
ہوا تو وہ اپنی جگہ پر رہے گا اور اگر چنائی میں پتھر ایک دوسرے سے پھنسا دے گئے
تو پوری عمارت قائم رہے گی۔ وہ بس اس کا اہتمام کرتے تھے کہ سارا دباؤ اوپر سے نیچے
کی طرف ہو اور ’پھینک‘ پیدا ہی نہ ہونے پائے لیکن ان کی تدبیرا یسی عاجز بھی نہ تھی
جیسا کہ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے۔ اڑیسہ کے مندروں میں پتھر کے ان شہتیروں کو جن
سے لنٹلوں کا کام لیا گیا ہے اور مضبوط کرنے اور چھت کو قائم رکھنے کے لیے پہلے
لوہے کے گارڈوں کا ایک ڈھانچہ سا بنایا گیا تھا۔ ان گارڈوں میں سے بعض 35 فٹ لمبے
اور 7 انچ موٹے ہیں۔ مندروں کے ساتھ جو تالاب بنتے تھے ان کی تعریف حکیم البیرونی
نے اس طرح کی کہ ’’انھوں نے اس فن میں بڑا کمال پیدا کرلیا ہے اور ہمارے آدمی (یعنی
مسلمان) جب انھیں دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کی کوئی چیز خود بنانا
تو درکنار، وہ یہ بھی نہیں سمجھا سکتے کہ یہ تالاب کس طرح سے بنائے گئے ہیں۔‘‘
بنیادی طور پر مندر کا نقشہ پورے ہندوستان میں ایک سا
تھا، طرز کے اعتبار سے مندر دو قسموں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، ایک شمالی یا ہندی
آریائی دوسرا جنوبی یا دراوڑی۔ دراوڑی طرز کے نمونے صرف جنوبی ہندوستان میں، اور
ہندی آریائی طرز کے شمالی ہند اور دکن میں بھی ملتے ہیں۔ یہ مقام کے لحاظ سے سات
حصوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، اڑیسہ، کھجوراہو، راجپوتانہ اور وسطی ہند، گجرات اور
کاٹھیاواڑ، برندابن اور دکن۔ دکن کی تعمیرات پر اگلے باب میں تبصرہ کیا جائے گا،
گوالیار اور برندابن کا کام بعد کاہے ا ور زیادہ نمایاں حیثیت نہیں رکھتا۔ باقی
چار قسموں پر ایک سرسری نظر ڈال لینا چاہیے۔
اڑیسہ میں مندروں کی تعمیر کا سلسلہ آٹھویں صدی کے وسط
سے شروع ہوا اور تیرہویں صدی کے وسط تک جاری رہا۔ بیشتر مندر بھونیشور میں بنے، ایک،
جو جگن ناتھ کہلاتا ہے، پوری میں اور ایک سوریا (سورج) کا مندر کو نارک میں ہے، جو
پوری کے پچیس میل شمال مشرق میں ہے۔ بھونیشور کے مندروں میں مقام اور عمارت کے
لحاظ سے سب سے ممتاز لنگ راجا ہے، جو ایک ہزار عیسوی کے قریب بنا ہوگا، یہ اونچی
جگہ پر ہے، اور اس کے گرد اور بہت سے چھوٹے مندر اسی طرح بنے ہیں جیسے کہ بدھ متی
ستوپوں کے گرد خانقاہوں اور چھوٹے ستوپوں کی بستی بس جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے جس
جگہ یہ تعمیر کیا گیا وہاں پہلے بدھ متیوں یا
جینیوں کی عبادت گاہیں تھیں۔ غالباً پوری کا مشہور مندر جگن ناتھ بھی پہلے
بدھ متی ستوپ تھا۔ کوہن کی رائے میں وہاں کا چوبی بت، جس کا بہت شاندار جلوس نکلتا
ہے، کسی بدھ متی بت کو کاٹ چھانٹ کر بنایا گیا ہوگا۔ مندروں کا بہترین نمونہ کونارک
کا سورج مندر ہوتا اگر اس کی تکمیل کی جاسکتی۔ اب صرف اس کا منڈپ (جو اڑیسہ کی
اصطلاح میں جگ موہن کہلاتا ہے) اور ومن کی کرسی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھیوں اور
گھوڑوں کے مجسمے ہیں جو مندر کے صحن میں ایک خاص ترتیب سے رکھے گئے ہیں۔ مورتوں کو
دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ غالباً مندر ایسے فرقے کے لوگوں نے بنوایا تھا جن کا
مذہب شہوانیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے وہ آبادی سے دور بنایا گیا۔ اب اس کے
گرد ایک ویرانہ ہے جسے سال میں ایک دن زائر
اِھر اُدھر سے آکر آباد کردیتے ہیں۔
کھجوراہو کے مندروں کی تعمیر کا زمانہ 950 عیسوی سے
1050 تک تھا، جب اس علاقے میں چنڈیل راجاؤں کی حکومت تھی۔ ان کو تعمیر کا بڑا شوق
تھا اور مندروں کے علاوہ اس زمانے کے بنے ہوئے تالاب وغیرہ بھی ان کے شوق کی یادگار
ہیں۔ کھجوراہو کے مندروں میں کوئی بہت بڑا نہیں ہے۔ ان کی خصوصیت ڈیزائن کی خوبی
اور کام کی نفاست ہے۔ ہر عمارت کی کرسی اونچی ہے اور نقشہ ایسا کہ معلوم ہوتا ہے
کہ عمارت فضا کی بلندیوں میںا ٹھتی چلی جارہی ہے۔ شکھرا (گنبد) اپنی شکل کے چھوٹے
شکھروں سے مرتب کیا گیا ہے، اس طرح کہ پہاڑوں کی چوٹیوں کی شباہت پیدا ہوجاتی ہے۔
اڑیسہ کے مندروں میں عمارت کے اندر روشنی پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا بس
کہیں کہیں چوکور کھڑکیاں ہیں جن میں جالی کے بجائے مجسمے ہیں، اور ان میں سے بہت
کم روشنی گزر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کھجوراہو کے بیشتر مندروں میں ایسے در رکھے گئے
ہیں جن سے کافی روشنی عمارت کے اندر جاسکتی ہے اور کھلی سطح عمارت کے نقشے میں بڑا
تنوع پیدا کردیتی ہے۔ اڑیسہ کے مندروں میں باہر بھرپور آرائش ہے، اندر انتہائی
سادگی، کھجوراہو میں عمارت کے اندرونی حصوں کو بھی نیم مجسموں اور گہری منبت کاری
سے آراستہ کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے وہ ستون اور لنٹل جن پر چھت کا بوجھ ڈالا
گیا ہے عمارت کے حسن کو دوبالا کردیتے ہیں۔ مندروں میں سب سے خوبصورت کانڈریا مہادیو
اور ایک جینی عبادت گاہ ہے جو گھنٹی مندر کہلاتی ہے۔ کونارک کی طرح کھجوراہو کے
مندروں کو جن میں شیومتی، وشنو متی، جینی سبھی ہیں، ایسے لوگوں نے بنوایا ہوگا جن
کی عبادت کا مرکز شہوانی رسمیں تھیں۔ اسی وجہ سے ان میں بھی اب نہ بت ہیں نہ پجاری
اور ان کو آبادی اور انسان کی ہوا تک نہیں لگتی۔
وسطی مغربی ہند، راجپوتانہ اور گجرات میں سیاسی
انقلابوں کی وجہ سے بہت کم مندر سلامت رہ سکے ہیں، لیکن ساگر، اران، جیراسپور، اوسیہ
(جودھپور کے 33 میل شمال مغرب میں) اور دو ایک جگہ منتشر طور پر ایسے نمونے ملتے ہیں
جن سے یہاں کے فن اور خاص محاوروں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اودے پور، ریاست گوالیار،
میں گیارہویں صدی کا بنا ہوا۔ اودیشور مندر چھوٹا مگر نہایت خوبصورت ہے۔
شمالی گجرات اور کاٹھیاواڑ کے مندر بیشتر گیارہویں
بارہویں اور تیرہویں صدی کے ہیں، جب یہاں سولنکی خاندان کی حکومت تھی۔ مندروں کے
علاوہ چند دروازے اور مینار، تالاب اور باؤلیاں تعمیر کرائی گئیں۔ ان تعمیرات میں
جو کچھ خرچ ہوتا اس کا ایک حصہ حکومت دیتی تھی، باقی رعایا سے اس کی رضامندی کے
ساتھ محاصل اور چندوں کے ذریعے وصول کیا جاتا۔ اس طرح تعمیر کے
منصوبے جماعتی اور اعلیٰ تہذیبی حیثیت رکھتے تھے۔ گجرات کی آبادی اس زمانے میں
بہت مالدار تھی، عمارتوں میں بہت اچھا پتھر لگایا اور ان کی تہذیب کا کام دل کھول
کر کرایا جاسکتا تھا۔ مودھرا (ریاست بڑودہ) کا سورج مندر تخیل کی اس بلند آہنگی کی
مثال ہے جو وسائل کی فراوانی پیدا کرسکتی ہے لیکن گجرات میں عام طور پر عمارتوں کی
آرائش میں اتنا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ اس کا طبیعت پر ویسا ہی اثر پڑتا ہے جیسا
کہ مٹھاس کی زیادتی کا۔ وادنگر اور دابھوئی کے دروازے فن تعمیرا ور منبت کاری کے
انوکھے نمونے ہیں۔
جینیوں کی تعمیرات میں چتوڑ کا مینار، جو بارہویں صدی میں
تعمیر کرایا گیا اور کوہ آبو کے مندر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مینار قریب 80 فٹ
اونچا ہے اور آٹھ منزلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا حسن ایک ثبوت ہے کہ
ہندوستانی معمار ایسی تعمیرات میں بھی جن کے الگ قاعدے اور نمونے نہ تھے اپنے فن
کا کمال دکھا سکتے تھے۔ کوہ آبو کے مندروں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ پورے سنگ مرمر
کے ہیں، باہر سے بالکل سادے ہیںا ور اندر ان کی پوری سطح پر بڑی دیدہ ریزی سے منبت
کاری کی گئی ہے مگر اس منبت کاری میں فن کے سچے نمونوں کی سی جان یہیں ہے، نظر اسے
دیکھ کر اتنی خوش نہیں ہوتی جتنی کہ حیران ہوتی ہے۔
شمالی ہندوستان کے طرز سے بالکل الگ کشمیر کا طرز تھا۔ یہاں
بھی تعمیر کا کام بدھ متی ستوپوں اور انقاہوں سے شروع ہوا، لیکن بہترین عمارتیں
آٹھویں اور نویں صدی میں للت آدتیہ اور آونتی ورمن کے عہدوں میں بنیں، اب وہ بیشتر
کھنڈر ہیں، مگر ان کے آثار سے بھی ان کے نقشے اور ان کے معماروں کے منصوبے ظاہر
ہوجاتے ہیں۔ ان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ فن تعمیر کے نمونے ہیں، سنگ تراشی کے
نہیں یعنی ان کے معماروں کے ذہن پر یہ خیال حاوی نہ تھا کہ عمارت پتھر کی چٹان کو
کاٹ کر بنائی جاتی ہے، بلکہ انھوں نے یہ سوچا کہ پتھر کے ٹکڑوں کو تراش اور چن کر
کسی طرح عمارت کی شکل بنائیں۔ ان کا نقشہ صحیح نقشہ تھا اور انھوں نے اپنے مسالے
سے وہی کام لیا جس کے لیے وہ موزوں تھا۔ کشمیر کی عمارتوں میں پتھر کے جو ٹکڑے
لگائے گئے وہ بہت بڑے تھے، بعض کا وزن 64 ٹن ہوگا اور یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ
اتنے وزنی پتھروں کو اتنا صاف تراشا گیا اور ان کی ایسی چنائی کی گئی کہ اس میں
کوئی ناہمواری نظر نہیںا ٓتی۔ کشمیر میں چنائی کے لیے چونا بھی استعمال کیا گیا، جس کا ہندوستان میں اس
وقت رواج نہیں ہوا تھا۔ روم اور مغربی ایشیامیں البتہ اس کا رواج عام ہوگیا تھا
اور غالباً کشمیریوں نے چونا اس وجہ سے استعمال کیا کہ ان کے مغربی ممالک سے
تعلقات تھے۔ مارتاندادر دوسرے مندروں کے نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معماروں
پر یونانی اور رومی تعمیری طرز کا بہت اثر تھا۔
سنگ تراشی
گپت عہد میں جس معیار کا کام ہوا تھا اس کے بعد ایک طرح
کی تکان لازمی تھی۔ ساتویں صدی کی سنگ تراشی دیکھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا بہار
کا زمانہ ختم ہوگیا ہے، بس آخری پھول نکل رہے تھے، جن میں اور سب کچھ ہے مگر
شادابی نہیں۔ سنگ تراشوں کے دل امنگوں سے خالی معلوم ہوتے ہیں۔ سارناتھ کے صناع،
جو سب سے زیادہ مصروف رہے تھے، کوئی نئی چیز نہیں بناتے، ان کا تخلیقی ذوق نئی راہیں
تلاش نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی تک یہ تھکن دور ہوگئی، صناعوں کا تخیل پھر جاگ اٹھا
مگر کسی اور نئے کام کے لیے تیار ہوگیا۔ یہ نیا دور قرون وسطیٰ کہلاتا ہے۔
اس وقت بدھ مذہب زوال پرتھا اور نئے کام میں بدھ متی دل
سے شریک نہیں ہوئے۔ ساتویں سے نویں صدی تک جو بدھ متی مورتیں بنیں ان میں بتوں کی
صفت تھی، یعنی وہ علامات کے مجموعے تھیں جنھیں معلوم قدرتی شکلوں سے کوئی تعلق نہ
تھا۔ فاہیان کے زمانے میں بھی ایک دیوی پرنگیا، پارمتا (عقل کامل) اور مختلف بودھی
ستوون کی، جن میں مائتریا، منجو سری اور اوَلوکت ایشور سب سے ممتاز تھے، پوجا کی
جانے لگی تھی۔ آٹھویں اور نویں صدی میں نسوانی بودھی ستووں کا خاص چرچا تھا۔
اَوَلوکت ایشور کی بیوی تارا کی بہت سی مورتیں ملی ہیں جو انھیں دو صدیوں میں بنی
تھیں، اور ان میں سے بعض بہت خوبصورت ہیں ۔ ایک دیوی ماریچی کی بھی اس زمانے میں
پوجا کی جاتی تھی۔ اس کے تین چہرے ہیں، جن میں سے ایک سور کی تھوتنی تھی اور آٹھ
ہاتھ بنائے جاتے۔ بودھی ستووں اور دوسرے دیوتاؤں اور دیویوں کی بھی مورتیں بنتی
تھیں جن کے کئی سر اور ہاتھ پاؤں ہوتے تھے۔ اس روش میں بدھ متیوں نے برہمنوں کی
نقل کی، مگر ان کے اصل عقیدے، اور ان کے مذہب کا رنگ اور رجحان ایسے تصورات کے
خلاف تھا اور وہ اس نئی وضع کو نباہ نہ سکے۔ ان کا روایتی نصب العین کامل سکون
تھا، برہمنی علامتیں دوامی حرکت اور مافوق الفطری قوت ظاہر کرتی تھیں، اور ان
دونوں کو ایک ہی مورت میں دکھانا ممکن نہ تھا۔ بنگال کے پال راجاؤں نے بدھ مذہب کی
سرپرستی کی، خاص خاص مرکزوں میں پتھر اور دھاتوں کی مورتیں بنانے کا کام بہت ہوا،
مگر اس میں تازگی نہ اپج نہ وہ شدت اور خلوص جو گپت عہد اور اس سے پہلے کی سنگ
تراشی اور منبت کاری کو اجاگر کرتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں مو رت سازی اور منبت کاری کا بیشتر کام
مندروں کی تعمیر کے سلسلے میں ہوا ضمنی یا آرائشی طور پر نہیں بلکہ اس طرح کہ
معلوم ہوتا ہے کہ عمارت کی پوری سطح پگھل کر مورتیں اور بیلیں اور روشنی اور سایے
کی بساط بن گئی ہے لیکن عمارت کی مجسم اور نیم مجسم مورتوں اور دوسری منبت کی ہوئی
شکلوں کا ربط بڑھنے کے بجائے اور گھٹ گیا۔ بھارہت اور سانچی میں منبت کاری کے ذریعے
داستانیں بیان کرنے کی کوشش کی گئی، گپت عہد میں مذہبی داستانوں کے خاص خاص منظر
دکھائے گئے۔ قرون وسطیٰ میں مورتوں کی حیثیت انفرادی ہوگئی، یہاں تک کہ ہر مجسم
اور نیم مجسم مورت ایک الگ موضوع بن گئی۔ قرون وسطیٰ کے سنگ تراش بہت اچھا جمالیاتی
ذوق رکھتے تھے، مگر ان کے تصورمیں وہ پاکیزگی اور صفائی نہیں پائی جاتی جو گپت عہد
کی مورتوں کو جنس کی تفریق اور مادہ اور روح کی تقسیم سے بالاتر کرکے خالص جمال کا
مظہر بنا دیتی ہے۔ ا س کو روحانی بلندیوں پر پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ وہ تصورات کو بیان
کرنے میں بڑا کمال رکھتے تھے، انھیں اپنی فنی مہارت پر بھروسا تھا، ان کا ہاتھ کبھی
خطا نہ کرتا، مگر ان کے فن اور عقیدے میں کامل ہم آہنگی نہ تھی، ان کے دل بے چین
سے معلوم ہوتے ہیں، گویا کام کی تکمیل سے انھیں کوئی تسکین نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے
وہ ہاتھ کی صفائی کے خیال کے بجائے کام کی خوبی پر زیادہ توجہ کرنے لگے۔ گیارہویں
صدی تک مورت سازی تصورات سے قریب قریب خالی ہوگئی، ضمنی باتیں موضوع پر حاوی ہوگئیں۔
اصل چیز تفصیلات میں چھپ گئی۔
گپت عہد کے معیار کا اثر سب سے زیادہ اور دیر تک بنگال
اور بہار کے کام پر رہا۔ مجموعی طور پر قرون وسطیٰ کے کام کی یہ ایک خصوصیت یہ ہے
کہ سنگ تراش جو کچھ بناتے وہ اپنی طبیعت سے نہیں بلکہ نمونوں اور قاعدوں کو ذہن میں
رکھ کر۔ ان کے کام میں آمد کے ساتھ ایک بہت بڑا عنصر آورد کا تھاجو آہستہ ا
ٓہستہ بڑھتا رہا۔ انھوں نے نئے تصورات اور احساسات کو بھی نئے اندازمیں نہیں، بلکہ
پرانے طریقے پر بیان کیا ہے،اپنی شخصیت ایسی باتوں میں ظاہر کی جو بالکل ضمنی تھیں،
ترتیب میں، آرائش میں، تفصیلی نکات میں۔ یہ خصوصیت بنگال اور بہار کی سنگ تراشی میں
بہت نمایاں ہے۔ فنی مہارت کے لحاظ سے یہاں کے کام میں کوئی عیب نہیں، لیکن بہترین
نمونے بھی اس کا ثبوت ہیں کہ یہاں کے صناع گپت عہد کے اندوختے پر گزر کر رہے ہیں،
اپنی طرف سے انھوں نے کوئی اضافہ نہیں کیا اور آخرکار فنی باریکیوں میں الجھ کر رہ
گئے ۔
اڑیسہ کے ابتدائی کام میں گپت عہد کے محاوروں اور کسی
قدر دکن کا بھی اثر دکھائی دیتا ہے، مگر یہ اثر بہت جلد اڑیسہ کے خاص طرزمیں محو
ہوگیا، جس کا اپنا الگ معیار تھا۔ اس معیار کے مطابق حسن کے معنی تھے نرمی، فراوانی،
حرکت کے معنی تھے رقص اور ایسا رقص کہ جس میںانسانی ذبات اعضا کی ساخت سے مجبور نہ
تھے۔ پرس رام ایشور مندر کے دو روشن دانوں میں منبت کی ہوئی مورتیں، دتیل دیول میں
مہیش مردنی کی مورت، کونارک کے ہاتھی اور گھوڑے مثالی نمونے ہیں۔ اس پیمانے پر سنگ
تراشی کا کام کیا جائے جیسے کہ اڑیسہ کے مندروں میں تو ایک معیار قائم رکھنا مشکل
ہوجاتا ہے، لیکن یہاں اچھے اور معمولی نمونوں میں بھی بڑی اپج ہے اور تیرہویں صدی
کی بعض مورتیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اڑیسہ کے سنگ تراش فنی روایات کو
چھوڑ کر عوام کے تصورات جو طبعی میلانات کی طرف جھک رہے تھے۔ اڑیسہ کے مقابلے میں
کھجوراہو کے کام میں نفاست بہت زیادہ ہے۔ یہاں کے صناعوں نے جسم کو ایک نگینہ
سمجھا جس کی قیمت تراشنے اور جلا دینے سے بڑھتی ہے، انھوں نے ایک خاص اعصابی کیفیت
دکھائی ہے جو شاید ان کی اپنی کیفیت بھی تھی، جس کی وجہ سے بدن تن گئے ہیں، پٹھے
ابھر آئے ہیں۔ انھوں نے جو چہرے بنائے ہیں وہ جہاں دیدہ لوگوں کے ہیں، جن کی ہلکی
سی مسکراہٹ میں کچھ گھمنڈ ہے، کچھ سیری ہے، جیسے کوئی عیاش جو جانتا ہو کہ عیاشی میں
کچھ دھرا نہیں ہے، بھولے بھالے آدمی کو دیکھ کر مسکراتا ہے لیکن ان لوگوں کی نظر
دنیا ہی پر ہے، ان کے جذبات کی قوت ان کے جسموں کے اندر ہی گرفتار ہے، وہ نکلنا
چاہتی ہے اور نکل نہیں سکتی، اس لیے کہ سرور بن گئی ہے جو ان کی نیم باز آنکھوں
سے شعاعوں کی طرح نکلتا ہے، ایک ابھار جس
نے بدن میں غضب کی شگفتگی پیدا کردی ہے۔ شاید یہ کیفیت ان لوگوں کے عقیدوں نے پیدا
کی تھی جنھوں نے کھجوراہو کے مندر بنوائے اور جن کا مسلک تھا کہ گناہوں کے ذریعے
ثواب، نفسانی لذت کے ذریعے روحانی سکون حاصل کریں۔ ممکن ہے یہ اس زمانے کی تہذیب
کا پر تو ہو جو پکے پھل کی طرح شاخ سے ٹپکنے والی تھی۔
کھجوراہو سے ہم وسطی ہند، گجرات اور راجپوتانہ کی طرف
جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہی اعصابی کیفیت
جو کھجوراہو میں نمایاں ہے اور سخت ہوتی جاتی ہے۔ جسم پوری کھنچی ہوئی کمانیں ہیں،
اقلید سی شکلیں ہیں، مورتوں کے مجموعے اعضا کی نفیس اور نازک جالیاں۔ جنوبی
راجپوتانہ اور گجرات میں سنگ مرمر افراط سے تھا، اور اس نے فن کی باریکیاں دکھانے
کا اور بھی موقع دیا، شکلوں کا اعصابی تناؤ بڑھتا گیا اور اسی کے ساتھ وہ بے جان
ہوتی گئیں۔
ماخذ: تاریخ تمدن ہند، مصنف: محمدمجیب، تیسرا ایڈیشن:
1999، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں