اردو دنیا، اکتوبر 2024
عظیم الشان عہد:
گپت شہنشاہوں کے دور حکومت کو اکثر ہندو تاریخ کے عہد زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس میں کئی بڑے قابل، ذہین اور طاقتور حکمرانوں کا دور حکومت شامل ہے جنھوں نے
شمالی ہند کے ایک بڑے حصے کو ایک سیاسی چھتری کے نیچے لاکر متحد و مستحکم کردیا
اور باقاعدہ حکومت اور ترقی کے ایک نئے
دور کا آغاز کیا۔ ان کی حکومت میں اندرونی تجارت کو بھی فروغ ہوا اور غیرملکی
تجارت کو بھی اور ملک میں دولت کی فراوانی ہوگئی۔ اس اندرونی سکون و اطمینان اور
خوشحالی و فارغ البالی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب، ادب اور علم و فن کی ترقی
کے لیے نئی شاہراہیں کھل گئیں۔
مذہب، برہمن مذہب:
اس عہد میں برہمن مذہب کا زور کافی بڑھ گیا۔ اس کی وجہ ایک بڑی حد تک تو یہ ہوئی
کہ گپت راجاؤں نے جو برہمن مذہب کے پیرو تھے اور وشنو سے عقیدت رکھتے تھے، برہمن
مذہب کی سرپرستی کی لیکن خود برہمن مذہب میں جو حیرت انگیز لچک اور اثرپذیری کی
داخلی صلاحیت موجود تھی اسے بھی اس کی کامیابی میں بڑا دخل تھا۔ برہمن مذہب نے ان
تمام عقائد، رسوم اور قدیم دیسی توہمات پر جنھیں عام مقبولیت حاصل تھی اپنی چھاپ
لگا کر عوام کو اپنی طرف جیت لیا۔ اس کے علاوہ غیرملکی حملہ آوروں کو جو ذات پات سے بے نیازتھے۔ اس نے اپنے وسیع دامن میں
پناہ دی جس سے اس کی قوت میں اضافہ ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیش بندی کے طور
پر اپنے مدمقابل یعنی بدھ مذہب کی بعض لطیف تعلیمات کو اپنے اندر سمو کر اور بدھا
کو اپنے دس اوتاروں میں شامل کرکے اس نے بدھ مذہب کے منصوبوں کو مکمل شکست دے دی۔
چنانچہ جب یہ تمام نئی باتیں اس میں داخل ہوگئیں تو برہمن مذہب نے وہ صورت اختیار
کرلی جسے آج ہندو دھرم کہتے ہیں۔ مختلف و متنوع دیوتاؤں کی پرستش اب اس کا شعار
ہوگیا۔ جن میں وشنو،جسے چکر بھرت بھی کہا جاتا ہے، گدادھر، جناردَن، نارائن، واسودیو،
گووند خاص طور پر نمایاں تھے۔ دوسرے دیوتا جنھیں عام مقبولیت حاصل تھی وہ شیو،
شمبھو، کارتکیہ اور سوریہ تھے۔ دیویوں میں لکشمی درگا یا بھگوتی اور پاروتی وغیرہ
قابل ذکر ہیں۔ برہمن مذہب قربانیوں پر زور دیتا تھا۔ کتبوں میں ان قربانیوں کی طرف
جابجا اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً آشومیدھ، واج، پئیہ، اگنیش ٹوم، آپ متریام، اتی
راتر، پنچ مہایگیہ وغیرہ وغیرہ۔
بدھ مذہب
فاہیان جوہر چیز کو بدھ مذہب کی عینک سے دیکھتا تھا اپنی
سیاحت کے دوران کوئی علامت تنزل کی نہ دیکھ سکا، لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ
گپت دورِ حکومت میں بدھ مذہب مدھیہ پردیش میں رو بہ زوال ہوچکا تھا۔ گپت حکمرانوں
نے کسی قسم کے جبر و تشدد سے نہیں لیا۔ وہ ویشنومت کے سچے پیرو کار تھے لیکن انھوں
نے اپنی میزان عدل کو متضاد عقائد کے مابین ہمیشہ متوازن رکھا۔ رعایا کو مکمل طور
پر آزادی ضمیر حاصل تھی۔ چندر گپت کے بدھ سپہ سالار آترکارود کی مثال تو خیر
منفرد ہے لیکن اس طرح مملکت کے تمام اعلیٰ عہدوں کے دروازے بلا امتیاز مذہب و ملت
ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ موضوع سے ذرا ہٹ کر، بدھ مذہب کے زوال کے اسباب کی
بحث میں الجھنے کی بجائے اس مقام پر صرف اتنا کہہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدھ
مذہب کی فرقہ بندیوں اور بدھ سنگھ میں خرابیوں نے اس کی قوتِ حیات کو بالکل سلب
کردیا تھا، اس کے علاوہ بدھا اور بودھی ستوؤں کی مورتی پوجا، بودھ دیوتاؤں کی
مجموعی حیثیت سے پرستش کے رواج، مذہبی رسوم کی ادائیگی اور مذہبی جلوسوں نے بدھ مت
کو اس کی دیرینہ لطافت و پاکیزگی سے اس قدر دور ہٹا دیا تھا کہ عام آدمی کے لیے
اس میں اور ہندومت میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہا تھا۔ چنانچہ اس کے ہندومت میں
ضم ہونے کے لیے زمین خوب ہموار ہوگئی۔ آج اس مشابہت و مماثلت کی بہترین مثال نیپال
میں پائی جاتی ہے جہاں بقول ڈاکٹر ونسٹ اسمتھ ’’ہندو دھرم کا عفریت اپنے شکار یعنی
بدھ مت کو آہستہ آہستہ ہڑپ کیے جارہا ہے۔‘‘
جین دھرم:
کتبوں سے جین مت کے وجود کا بھی پتہ چلتا
ہے لیکن جین مت کچھ اس لیے کہ اس میں نظم و ضبط کی پابندیاں زیادہ تھیں اور کچھ اس
لیے کہ شاہی سرپرستی اسے حاصل نہیں تھی، زیادہ نمایاں نہیں تھا۔ جین مت اور دوسرے
مذہبوں میں اتفاق و اتحاد پایا جاتا تھا، کیونکہ ایک شخص نذر نامی جس نے پانچ
مجسمے جین پتر تھنکروں کے نام منسوب کیے تھے۔ برہمنوں کے مذہبی پیشواؤں کی محبت
کا بے پناہ جذبہ اپنے دل میں رکھتا تھا۔
مذہبی خیراتیں: نیک
اور مخیر لوگ دنیا اور عقبیٰ میں سکون و مسرت حاصل کرنے کی غرض سے بڑی فیاضی
کے ساتھ برہمنوں کو رہائش کے لیے قیام گاہیں (ستر) دان کرتے اور سونے اور دیہی زمینوں
(اگر ہار) کی نذریں گزارتے تھے۔ مورتیاں اور مندر تعمیر کرکے بھی لوگ اظہارِ عقیدت
کرتے تھے۔ مندروں کے لیے وہ مستقل رقمیں جمع کردیتے تھے (اکشیہ نی وی) جن کے سود
سے مندر میں تمام سال روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ جیسے پوجا کا ضروری جز سمجھا
جاتا تھا اسی طرح بدھ اور جین مذہب والے علی الترتیب بدھا اور تیر تھنکروں کی مورتیاں
خیرات کے طور پر نصب کراتے تھے۔ بدھ مذہب کے لوگ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے خانقاہیں
(وہار) تیرا کرتے تھے جہاں ان کے لیے کھانا اور کپڑا مفت فراہم کیا جاتا تھا۔
سنسکرت کا احیا:
برہمن مت کی تجدید کے ساتھ ساتھ سنسکر ت کا استعمال اور اثر بھی بہت تیزی سے بڑھا۔
اس احیا کی بالکل ابتدائی منزل کی ایک سند جوناگڑھ میں رودر دامن کے طویل چٹانی
کتبہ میں ملتی ہے جس پر 72 (شک سمیت؟) مطابق 150 پڑا ہوا ہے لیکن اب اسے مستقل طور
پر سرکاری زبان کی حیثیت سے لوحی دستاویزات اور مسکوکاتی شعبوں میں وقیع مقام دیا
جانے لگا۔ پہلے پانی ذریعۂ اظہار تھی لیکن اب بدھ مصنفین بھی مثلاً وسوبندھو اور
دگ ناگ سنسکرت کو پالی پر ترجیح دینے لگے۔
ادبی ارتقا:
گپت عہد کا مقابلہ عام طور پر تاریخ یونان میں پیرئی کلینر کے عہد سے اور تاریخ
انگلستان میں ملکہ ایلزبیتھ کے عہد سے کیا جاتا ہے۔ گپت دورِ حکومت اس جہت سے
ممتاز تھا کہ اس میں بہت سے نامور علما و فضلا موجود تھے جن کی تخلیقات نے
ہندوستانی ادب کی مختلف اصناف کو مالامال کردیا۔ گپت حکمراں علم و فضل کی ہمت
افزائی کرتے تھے اور خود بھی بہت تعلیم یافتہ تھے۔ ہم نے گذشتہ صفحات میں الہ
آباد کے ستونی کتبہ کی سند پر سمدگپت کے شاعری اور موسیقی میں کمالات کی طرف
اشارہ کیا۔ اس کے علاوہ وہ آفاقی روایت جس میں ’نوہیروں‘ (نورتن) کو قصوں کہانیوں
والے وکرمادتیہ سے ربط دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ چندر گپت دوم وکرمادتی کے
دربار کے اس عظیم الشان ادبی حلقے نے عوام کے دل و دماغ پر کتنا گہرا اثر مرتب کیا
تھا۔ ان میں سب سے زیادہ ممتاز شخصیت بلا شبہ مشہور و معروف شاعر و تمثیل نگار،
کالیداس کی تھی جو غالباً مالوہ کا ساکن تھا۔ بدقسمتی سے اس کی تاریخ اب تک مشتبہ
ہے، یہاں تک کہ بعض عالم اس پر بضد ہیں کہ وہ 57 ق م کی شخصیت ہے لیکن کافی مضبوط
قرائن ہمارے پاس اس رائے کے حق میں موجود ہیں کہ کالیداس کا تعلق گپت عہد سے تھا،
نیز یہ وہ چندرگپت دوم یاکمار گپت اول کا معاصر تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ چندر گپت دوم
کی فتوحات کا ایک حوالہ گھوونش میں رگھو کی ’دگ وجے‘ کی مبالغہ آمیز تفصیلات میں
دستیاب ہوتا ہے۔ کالیداس کی ایک اور رزمیہ نظم کمار سمبھو ہے؛ رِتو سنگھار اور میگھ
دوت اس کی غنائی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ اس کے ناٹکوں میں ہم مال وکاکنی
متروکرم اروشی اور شکنتلا کے بارے میں جانتے ہیں۔ آخرالذکر تو اس درجہ دلکش ہے کہ
اس نے دنیا بھر کے عظیم ترین ادبی نقادوں سے خراج تحسین حاصل کیا ہے۔ گپت عہد میں
اور بھی بہت سے پایہ کے شعرا موجود تھے لیکن کالیداس کی عظمت نے ان کے فن کو پھیکا
کردیا، ہری شین اور ونس بھٹی، علی الترتیب سمدرگپت اور کمار گپت کے معاصر تھے۔ ان
کی تخلیقات پتھر کی سلوں پر کندہ ہیں اور بدستور ہم تک پہنچ گئی ہیں۔ مدراراکشش کا
مصنف، وشاکھ دت، فرہنگ نویس، امر سنگھ جس نے امرکوش مرتب کی، مشہور و معروف طبیب
دھن ونتری اور عظیم بدھ عالم جن کا ذکر ہم نے گذشتہ سطور میں کیا، سب اسی عہد سے
تعلق رکھتے تھے۔ مزید برآں، برہمنوں نے اپنے ادب کو اپنے بے شمار عقیدت مندوں کے
جذبات سے ہم آہنگ کرنے اور ان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی غرض سے اس پر اسی
زمانے میں نظرثانی کی۔ پرانوں کے جن میں گپت خاندان کا ذکر ہے، اسی عہد میں اصلاح
و تصحیح کے بعد وہ شکل اختیار کی جو آج تک موجود ہے۔ اسی طرح منوسمرتی میں بھی
ترمیم کی گئی جو تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں انھیں مذہباً جائز قرار دینے کے لیے
دوسری سمرتیاں مثلاً یاگیّہ ولکیہ سمرتی،بھاسیہ، یا سوتروں کی تفسیریں لکھی گئیں۔
ہیئت اور ریاضیات کے میدان میں بڑے جم کر کام ہوا اور آریہ بھٹ (ولادت 476)، ولا
آہ مبر (505-587) اور برہم گپت (ولادت 598) نے سائنسی ادب کی مختلف اصناف میں حیرت
انگیز اضافے کیے۔ معلوم ہوتا ہے وہ یونانی ہیئت سے بھی واقف تھے کیونکہ اپنی تصانیف
میں انھوں نے بہت سی یونانی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔
تعلیم: اس عہد کی علمی
اور ادبی سرگرمیوں کے نتائج کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ رائج الوقت نظامِ
تعلیم بہت عمدہ اور باقاعدہ تھا۔ بدقسمتی سے اس موضوع پر ہماری معلومات بہرحال مایوس
کن حد تک ناکافی ہے۔ کتبوں سے معلوم ہوتا کہ استادوں کو اس وقت آچاریہ اور اپادھیائے
کہا جاتا تھا، لیکن برہمن عالموں کے لیے بھٹ کا لقب بھی استعمال ہوتا تھا۔ برہمنوں
کی امداد کے لیے جاگیر میں گاؤں دیے جاتے تھے اور مخیر لوگ اپنے عطیات سے بھی انھیں
نوازتے تھے۔ برہمنوں کے تمام چیلے جو ششیہ یا برہم چارن کہلاتے تھے۔ شاکھاؤں اور
چرنوں یعنی ان ویدی مدرسوں میںجمع ہوجاتے تھے جو کسی مخصوص وید کے اصلاح شدہ نسخے
کی تعلیم دیتے تھے۔ ان اصلاح شدہ نسخوں میں سے کتبوں میں میشرائے فیئے، تیتری لیے
اور واجس نِئے اور بعض دوسرے نسخوں کا ذکر آتا ہے۔ رہا مضامین کا سوال تو ان کے
بارے میں ہماری معلومات یہ ہے کہ اس وقت چودہ علوم (چتردش ودیا) کی تعلیم دی جاتی
تھی۔ یعنی چاروں وید، چھ ویدانگ، پران می مان سا، نیائے اور دھرم یا قانون۔ کبتوں
میں شالاتری یہ (پانیتی) کی دیاکرن (اشٹ
آدھیائی) اور شت ساہیئری سن ہِتا یعنی مہابھارت کا بھی ذکر آتا ہے۔ ان مضامین کے
علاوہ یقین ہے کہ غیرمذہبی اور دنیاوی ادب کا جو ذخیرہ موجود تھاا س کی ضرور تعلیم
دی جاتی تھی۔
زمانے کے روادارانہ مزاج کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا
ہے کہ بودھ علوم کے عظیم مرکز نالندہ کی
بنیاد شکرادتیہ، غالباً کمار گپت اول نے رکھی، جس نے تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے
وسط میں ایک خانقاہ وقف کی۔ اس کے بعد بدھ گپت تتھا گت گپت، بالادتیہ اور دوسرے
گپت حکمرانوں نے مزید عطیات سے اسے نوازا۔ نالندہ میں نصاب تعلیم بہت جامع تھاا ور
کچھ بعد تو اس کا مقام اتنا بلند ہوگیا کہ نہ صرف ہندوستان کے گوشے گوشے سے بلکہ بیرونی
ممالک سے سیکڑوں تشنگان علم اپنی علمی و روحانی پیاس بجھانے یہاں آتے تھے۔
گپت عہد کے سکے: سمدرگپت (یا چندر گپت اول؟ ) کے سب سے پرانے سونے کے سکے 118 سے 122 گرین تک
وزن رکھتے ہیں، شکل و صورت اور وزن میں کشن راجاؤں کے سکوں سے بہت مشابہ ہیں،
سکوں پر غیرملکی اثر اس سے ثابت ہے کہ گپت عہد کے کتبوں میں کشن نام ’دینار‘
استعمال ہوا ہے جو لاطینی ڈنیریس سے مشتق ہے۔ بہرحال چندرگپت دوم نے جس کے سکوں کا
وزن 124 سے 132 گرین تک تھا کشن (رومی)
سکوں والے وزن میں تبدیلی کردی؛ اور بعد ازاں اسکندگپت نے اس وزن کو بالکل
ترک کردیا اور ہندو سورون کا معیاری وزن (146 گرین) اختیار کرلیا۔ کشترپ علاقوں کی
فتح کے بعد گپت راجاؤں نے شک معیار کے مطابق چاندی کے 32 گرین والے سکے بھی جاری
کیے، بعد میں اسکندگپت نے ان کا وزن بڑھا کر کارشاپان کی برابر کردیا، اس مقام پریہ
کہہ دینا بھی مناسب ہے کہ گپت راجاؤں کے تانبے کے سکے بہت کم یاب ہیں اس کی وجہ
غالباً یہ ہے جیسا کہ فاہیان نے بھی لکھا ہے کہ چھوٹے موٹے لین دین میں کوڑی بطور
سکہ کے استعمال ہوتی تھی۔
فن تعمیر:
گپت راجاؤںکے عہد حکومت میں فن تعمیر کو بہت فروغ ہوا، لیکن کئی سبب ایسے جمع
ہوگئے جن کے باعث اس دور کے آثارِ باقیہ زیادہ تعدادمیں موجود نہیں ہیں۔ گپت عہد
کی بہت سی عمارتیں دست بردزمانہ کی نذر ہوگئیں۔ بعض کا ملبہ لوگوں کی تعمیری ضروریات
میںکام آگیا۔ باقی جو مسلم افواج کے راستے میںا ٓگئیں، وہ ان کے مذہبی جنون کا
شکار ہوگئیں، اس لیے ہماری افواج کا دار ومدار اس عہد کے چند باقیات الصالحات ہیں
اور وہ بھی سب مذہبی عمارتیں ہیں، غیرمذہبی ان میں کوئی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ونسنٹ
اسمتھ نے ایسے دو مندروں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک جو دیوگڑھ (ضلع جھانسی) میں
ہے اس کی دیواروں کی منبت کاری میں نقاشی کے خوبصورت نمونے موجود ہیں، دوسرا
بھترگاؤں (ضلع کانپور) میں ہے جو اینٹ اور مسالے سے بنی ہوئی مورتیوں کے لیے
مشہور ہے۔ اس مقام پر اجنتا کے غاروں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو گپت عہد کے فنی کارناموں کی بہترین مثال
ہیں۔ ان میں سے اکثر مختلف زمانوں میں ٹھوس پتھر سے تراشے گئے ہیں، لیکن بعض ایسے
ہیں جو غالباً زیرنظر عہد میں زمین کھود کر بنائے گئے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں
ہے کہ وہ گپت عہد کے انجینئروں کی فنی صلاحیتوں کی زبان حال سے شہادت دے رہے ہیں۔
مجسمہ سازی:
سارناتھ اور دوسرے مقامات پر جو دریافتیں ہوئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ گپت عہدمیں
مجسمہ سازی کا فن معراج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس عہد میں گندھارا فن کے اثرات
رفتہ رفتہ زائل ہونے لگے اور اب جو مجسمے بدھا کے بنائے گئے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ
وہ نورانی بالوں سے مزین ہیں، بدھا کو چست لباس پہنایا گیا ہے جس میں جلد بدن
جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور بالوں کو خاص انداز سے ترتیب دیا گیا ہے۔ سارناتھ
میں جوبے شمار مجسمے گپت دور کے ملے ہیں ان میں سب سے زیادہ دیدہ زیب اور خوبصورت
شاید وہ ہے جس میں بدھا کو وعظ دینے کے انداز میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ (دھرم
چکرمدرا) اپنے آقا کی زندگی کے مختلف مناظر کے علاوہ ہندو دیومالا کے جو واقعات پیش
کیے گئے ہیں ان میں غیرمعمولی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر گپت عہد کے
فنکاروں کی امتیازی شان یہ ہے کہ ان کا عمل حرکت و زندگی سے مملو، آورد کے عیب سے
پاک، اور تکنیک کے اعتبار سے مکمل ہے۔
مصوری: اجنتا (ریاست حیدرآباد) کے غار جن کے اندرونی حصے کو
بہ افراط دیواری تصویروں سے آراستہ کیا گیا ہے، ظاہر کرتے ہیں کہ مصوری کے میدان
میں بھی فنکاروں نے مہارت کا اعلیٰ معیار حاصل کرلیا تھا۔ ان غاروں کی تاریخ پہلی
صدی عیسوی سے ساتویں صدی عیسوی تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح بعض غار یقینا اس عہد سے
بھی متعلق ہیں۔ ایک صاحب ذوق مبصر کی رائے میں ’’اجنتا کی مصوری کمال فن کا بہترین
نمونہ ہے، اس میں روایت پسندی ہے مگر وضع داری کے ساتھ۔ اس کے نقش و نگار میں تنو
ع ہے جن سے شستگی جھلکتی ہے؟ اور رنگ روپ اور شکل و صورت میں حسن و دلکشی اس قدر
نمایاں ہے کہ اسے قدیم دنیا کے بہترین فن کے زمرے میں شامل کیے بغیر چارہ نہیں
ہے۔‘‘ اجنتا کے مدرسۂ فن کا حلقہ ٔا ثر آگے بڑھ کر ریاست گوالیار میں باغ کے
غاروں تک پہنچ گیا۔ باغ کے غاروں کی تصویریں
بھی اعلیٰ معیار رکھتی ہیں اور بے پناہ تنوع کی مظہر ہیں۔
دھات کا کام:
گپت عہد کے کاریگر دھات کے کام میں بھی
ماہر تھے۔ یہ بات بدھا کے تانبے سے بنے ہوئے کئی دیوپیکر مجسموں، نیز دلی کے قریب
مہرولی کے آہنی ستون کی دریافت سے ثابت ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گپت عہد
کے کاریگر خام دھاتوں کو صاف کرنے کے فن میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ حیرت انگیز بات
یہ ہے کہ صدیوں تک دھوپ اور بارش کی زد میں رہنے کے باوجود ستون ابھی تک زنگ آلود
نہیں ہوا ہے۔
حرکت و عمل کے اسباب: اب ہم گپت عہد کے تہذیب و تمدن پر
تبصرہ ختم کررہے ہیں اس لیے لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ علمی اور فنی
سرگرمیوں کا جو طوفان اٹھا تو اس کے آخر اسباب کیا تھے۔ ڈاکٹر ونسنٹ اسمتھ کی
رائے ہے کہ ’’غیرملکی تہذیبوں سے ربط و تعلق اس کا خاص سبب تھا‘‘ اس حقیقت کو
بلاشبہ بڑی آسانی سے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان اور
ہندوستان اور مغربی دنیا کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ مستقل جاری رہا کیونکہ فاہیان
جیسے عقیدت مند زائرین سرزمین بدھا کی زیارت کے لیے پے در پے آتے رہے اور اسی طرح
ہندوستان نے بھی کمارجیو جیسے ممتاز دانشوروں کو بدھ مذہب کی تبلیغ کے لیے اس
آسمانی بادشاہت میں بھیجا (383ء) مزید برآں گپت سلطنت کے حدود بڑھ کر جب سوراشٹر
اور گجرات کے بندرگاہوں تک پہنچ گئے تو مغرب کے ساتھ ہندوستان کی غیرملکی تجارت کو
فروغ ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ خیالات کے بہاؤ کا ایک سلسلہ
شروع ہوا جس کا ردعمل ہندوستانی دماغ پر بہت اہم ہوا، لیکن ان تمام تر قیوں کے لیے
سب سے بڑا محرک وسیع النظر اور کشادہ دل گپت راجاؤں کی حکومت تھی جس میں خوشحالی
اور فارغ البال کا دور دورہ رہا۔ گپت راجاؤں نے جس والہانہ انداز میں علم و فن کی
سرپرستی کی ایک بڑی حد تک اسی کی بدولت اتنے شاندار و کارآمد نتائج برآمد ہوئے۔
ماخذ: قدیم ہندوستان کی تاریخ، مصنف: رما شنکر ترپاٹھی،
مترجم: سید سخی حسن نقوی، چوتھی طباعت: 2019، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو
زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں