اردو دنیا، اکتوبر 2024
اب ہم ایسے دور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جبکہ سرکار آصفیہ
کی سرکاری زبان فارسی سے اردو ہوگئی تھی، اردو کے رسالے اور اخبار شائع ہونے لگے
تھے اس دور کے ہندوشعرا کی تفصیل گزرچکی ہے۔ اس دورمیں ہندو ادیبوں اور
انشاپردازوں کی پوری صراحت تودشوار ہے کیونکہ شعرا کی طرح ان کے حالات کسی نے جمع
نہیں کیے ہیں ہماری تحقیقات اور معلومات سے جن اصحاب کا سردست پتہ چلتا ہے ان کا
تعارف کردیا جاتاہے۔ ممکن ہے آئندہ مزید اضافہ ہوسکے۔
مہاراجہ کشن پرشاد: مہاراجہ کشن پرشاد یمین السلطنۃ
آنجہانی کا تذکرہ شعرا کی ذیل میں کردیا گیا ہے مگر آپ ایک قادر الکلام شاعر کے
ساتھ ساتھ زبردست ادیب صاحب فن نثرنگار اوربہترین انشاپرداز بھی تھے، مہاراجہ کی
نثرکی کتابوں میں ناول، سفرنامے، مقالے اور خطوط ہیں جن کی تعدا دخاصی ہے، آپ کے
ناولوں میں خاکہ اورکردارنگاری دونوں کے اچھے نمونے موجودہیں، سفرنامے دلچسپ ہونے
کے علاوہ معلومات آفریں ہیں، ان میں تاریخی تحقیق بھی ہے اور سماجی ومعاشرتی امور
کی صراحت بھی ، درویشوں وفقیروں اور اللہ والوں کا حال بھی لکھا ہے اور سیاسی
اورسماجی لیڈروں کا بھی، مہاراجہ کے خطوط میں تبسم وقہقہہ بھی ہے اور متانت بھی ،
کبھی آپ کی نثرمیں نظم کی نقش افرینیاں ملتی ہیں،ظفر علی خاں صاحب نے ایک مرتبہ
اپنے رسالہ دکن ریویومیں مہاراجہ کی تالیفات پرتبصرہ کرتے ہوئے حسب ذیل صراحت کی
ہے جو بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے:
’پنڈت
رتن ناتھ کے مذاق طبیعت کے لحاظ سے مہاراجہ کی تحریرپر بھی اثر پڑاہے جو طرز تحریر
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے اس کا عکس مہاراجہ کشن پرشاد کی شاعری ونثر میں بھی
نظرآتاہے۔(مہاراجہ کشن پرشاد، ص 238)
مہاراجہ کے سفرنامے دوقسم کے ہیں ایک تو روزنامچے کے
طورپر لکھے گئے ہیں اور دوسرے سفرنامے میں مہاراجہ کی سرکاری رپورٹیں بھی دلچسپ
اور معلومات آفریں ہیں بہرحال مہاراجہ کی نثراپنی روانی، بیساختہ پن، شگفتگی کے
لحاظ سے قابل قدر اور لائق ستائش قرار پاتی ہے۔
آپ کی نثرکے بعض نمونے یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
خطوط: ایک دوست کو لکھتے
ہوئے اس امر کا جوا ب دیا گیا ہے کہ بعض اصحاب ان پر اعتراض کرتے اور آپ کے ادبی
کارناموں کو پنڈت رتن ناتھ کی طرف منسوب کرتے تھے۔
’بیشک
میں شاعرنہیں، نثار نہیں مگرایسا بھی نہیں کہ بغیرکسی سہارے کے ٹٹونہ چل سکے۔
آزمائش منظور ہے توقلم ودوات لیں، کوئی مضمون یا خط یا کوئی سین وہ بھی لکھیں
بندہ بھی گھسیٹتاہے اس وقت قلعی کھل جائے گی۔ یہ میں نے مانا کہ میں منشی نہیں
ہوں، انشاپردازی مجھے نہیں آتی اور نہ مجھے ابوالفضل یا نعمت خاں حالی ہونے کا
دعویٰ ہے مگرہاں مرزاعلی باباشیرازی الاصل کا شاگرد ہوں۔ سیدھی سادھی نثرلکھتا ہوں
مگرانشائے خلیفہ اور مادھورام سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔ نظم میں نہ ذوق ہوں نہ مومن نہ امیرہوں
نہ داغ نہ غالب ہوں نہ بیدل نہ حافظ ہوں نہ سعدی مگراپنے مطلب کو نظم میں موزوں
کرلیتاہوں۔ اردو نثر لکھنے میں یا ناول نویسی میں پنڈت رتن ناتھ سرشار لکھنوی ۔ ان
کا نام میں نے اس وجہ سے نہیں لکھا ہے کہ میرے ہاں موجود ہیں۔ یا بقول آپ کے دوست
کے وہ مجھے نظم ونثر لکھ دیا کرتے ہیں نہیں نہیں ان سے پوچھ لیا جائے کہ جب وہ حیدرآباد
آئے اس وقت میری ارد وزبان کیسی تھی، اور ان کا میری نسبت کیا خیال تھا۔ الغرض میں
ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ مگر بھیا معمولی مکتوبات نویسی وغیرہ میں اگرغالب مرحوم
کا چربانہ اتارا توہارجاؤں ۔ الغرض جوکچھ میں نے سیکھا استادوں سے سیکھا ۔ صحبت
اہل علم وفضل کی رہی ہے، یہ میرا کلمہ غرور کا نہ سمجھیے۔ میں توہیمچداں ہوں۔۔۔‘‘
(ایضاً، ص 237)
اورایک خط میں غالب کارنگ ملاحظہ ہو:
’مہربان
دوستان سلامت، تلوار پہنچی۔ میں توارمغان سمجھا تھا مگر خط کے دیکھنے سے معلوم ہوا
کہ ابھی مول نہیں لی گئی۔ صرف میرے امتحان اور پسند کے لیے بھیجی ہے۔ اس قدردانی
کا شکریہ، میں اس قابل تونہیں ہوں کہ پرکھوں ۔ مگرحضرت عباس کی قسم عمدہ عباسی ہے،
جو ہروارقوت بازوئے سپہ سالار اس کی شان ہے۔ فتح وظفر اس کا دم بھرتے ہیں، تعریف
تویہ ہے کہ دشمن بھی جان دیتے ہیں اور اس پر مرتے ہیں۔ اور یہ ان کے خون کی پیاسی
واہ ری عباسی آبداری میں گوہر آبدار لولوے شاہوار جس کے نخل ہستی میں آب رسانی
کی اس کا چمن سوکھ کر کاٹا ہوگیا۔ گویا خزاں کے جھونکوں سے نیست ونابود توکیا ویران
وتباہ ہوگیا۔ باڑھ ہے کہ سمندر کی دھار ہے۔ خم ابرو سے کم نہیں، قبضہ بھی عمدہ
ہاتھ آیا ۔ اچھے پر قبضہ پایا ۔ تینی شاہی کام ہے شاہوں کے قبضہ قدرت میں رہنے کا
سہام ہے۔ اللہ مبارک کرے۔ (ایضاً، ص 238)
آپ بیتی حالات: ’’اگرچہ ہرفرد بشر جس کی استعداد علمی
زیادہ ہو یا کم وہ اپنے سرمایۂ استعداد کے موافق نثرلکھ ہی لیتاہے۔ مگرنثاری کافن
بالکل جداگانہ ہے جو آج کے زمانے میں لٹریچرسے موسوم کیا گیا ہے۔ ہرکس وناکس نثار
نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے عالم فاضل دیکھے گئے ہیںکہ وہ باوجوداس لیاقت وفضیلت کے نثار
یا منشی نہیں پائے جاتے اردو کی دنیا میں اگرچہ نثاری کی بنیاد مدت سے پڑچکی تھی۔
مگر متاخرین میں مرزاغالب مرحوم کی اردوئے معلی نے اردو زبان کے تن بیجان میں روح
پھونک دی ۔ اردو معلی پہلی کتاب ہے جو متاخرین کے زمرے میںمستند سمجھی گئی
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ اکثر اردو ناولیں جو مشہور مصنفین
کے انمول مضامین تھے ان کا مطالعہ کیا ۔ اور التزام کے ساتھ ان کے روز مرہ محاورات
دلچسپ فقرات اور ضرب المثل کو قلم بند کرتا گیا۔ جب اس سے فارغ ہوا توان کو از
برکرلیا۔ گواس وقت میری عمر کے سفر کے ساتھ فراموشی بھی ہوتی گئی۔ مگر ایک اقتضائے
سن دوسرے شوق کی امنگ نے مجھ کو نچلا نہ رہنے دیا۔ میں نے ایک چھوٹا سا رسالہ
موسوم بہ ’سرمایہ سعادت ‘ لکھ کر شائع کرایا۔ یہ رسالہ کسی اہل زبان کی محک نظر میں
کسا نہیں گیا۔ یوں ہی اس کو طبع کرادیا یہ ایک قصہ دو بھائیوں کا ہے جس میں ایک
خواندہ او ردوسرا ناخواندہ ہے۔ ان کی طرز معاشرت اور اتفاق ونفاق کا نتیجہ دکھلایا
ہے۔ اس عرصے میں رتن ناتھ سرشار کا فسانۂ آزاد اودھ اخبار میں طبع ہونا شروع
ہوا۔‘‘
اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوسکتاہے کہ مہاراجہ کی افسانہ
نویسی پنڈت رتن ناتھ سرشار سے پہلے شروع ہوچکی تھی۔ مہاراجہ کے ایک سفرنامہ کا
نمونہ بھی پیش کیا جاتاہے جس میں ناگپور کے سفر کے حالات ہیں مگرہم اس سے ایک ایسا
اقتباس پیش کرتے ہیں جو مہاراجہ کے تصوف کے شغف کو بھی ظاہر کرتاہے۔
’اللہ
تعالیٰ کی یکتائی اور اس کی وحدت کاثبوت ہم کو ہروقت اور ہرآن ملتاہے۔ مگرغفلت
کاپردہ عقل پرایسا پڑا ہواہے کہ ہم محسوس نہیں کرتے۔ دنیوی تعلقات اور اس کی نیرنگیوں
کے تماشوں کو ماسوا اللہ کی شان میں دیکھ دیکھ کر اپنی اوقات کو خراب کرتے ہیں ۔
ورنہ اگر بغور تمام اور بہ نظر تعمق دیکھا جائے توا س کی وحدت ہی کاسارا تماشا ہے۔
ادھر زہرہ بی نے جانے کی خبردی اور اس کے اسباب بظاہر ایسے جمع ہوئے کہ ناگزیرسیروتفریح
کا قصدمصمم ہوا۔۔۔۔۔ الغرض چلتے چلتے راجہ کے باغ کی طرف پہنچے جہاں شاہ صاحب رہتے
تھے۔ اور خبرلی کہ شاہ صاحب ہیں کہ نہیں معلوم ہوا کہ موجودہیں، فوراً میں اترکر
پہنچا۔ دیکھتا کیاہوں کہ زائرین کا تانتا لگا ہوا ہے، اور منتظرفضل باری ہیں
اورمجذوب کے مظہر کواپنا قاضی الحاجات سمجھ کر امید کادامن پھیلائے ہوئے ہیں اور
مظہر ذات نامتناہی عبودیت کے خلعت سے مزین ہوکر مجذوب کی تصویر بن کر ہرایک کے درد
کی دوا کرنے میں اپنی مسیحائی دکھا رہاہے جل جلالہ، جل شانہ، اس وقت شاہ صاحب دوسری
طرف متوجہ تھے میرے پس پشت کھڑے ہوتے ہی چونک کر فوراً میری طرف دیکھ کر نظر ملائی
بقول شخصے ؎
نین چھپائیں نہ چھپیں پٹ گھونگھٹ کے اوٹ
چترنار اور سورما کریں لاکھ میں جوٹ
نظرکا ملنا تھا کہ میرے قلب پرایک ایسی کیفیت طاری ہوئی
جس کا اظہار قلم سے ممکن نہیں۔‘‘
مانک راؤ: پنڈت مانک راؤ وٹھل راؤ صاحب کانام بحیثیت
مورخ تاریخ دکن میں یادگار رہے گا۔ ضلع گلبرگہ آپ کا آبائی وطن تھا۔1867میں
ولادت ہوئی، گھر پر اردو ،فارسی، انگریزی اور مرہٹی کی تعلیم کا انتظام ہوا، گھر کی
تعلیم کے بعدمدرسہ اعزہ میں شریک ہوئے اور کچھ عرصہ تک تعلیم کے بعدملازمت کے
سلسلے میں منسلک ہوگئے۔ چونکہ آپ کے خاندان کو پائگاہ خورشید جاہی سے تعلق تھا اس
لیے آپ بھی یہاں ہی ملازم ہوئے امراپائگاہ کی مصاحبین کے ساتھ ساتھ مہتمی تعلیمات
پائگاہ پھر رکن فوج رہے 1939تک ملازمت کاسلسلہ باقی رہا۔ سنہ مذکور میں وظیفہ حاصل
کرکے خانہ نشین ہوئے۔
مانک راؤ صاحب کی علمی خدمت کا سلسلہ ملازمت کے پہلے ہی
سے شروع ہوتاہے۔ ان کی پہلی کتاب تفریح الحیات 1896میں شائع ہوئی اور 1932 تک
کتابوں کی تصنیف اور اشاعت کاسلسلہ باقی رہا۔ آپ کے تصانیف کی فہرست حسب ذیل ہے:
شمار نام کتاب فن
1 تفریح
الحیات اخلاق
2 امیرانہ
اور غریبانہ زندگی اخلاق
3 راجہ
اشوک کاجیون چرتر تاریخ
4 دیدورنتی مذہب
5 بستان
آصفی سات جلدیں تاریخ
6 اقوال
بدھ مذہب
7 دستورحکمرانی فن
8 مفید
الخواتین نسوانیات
9 حالات
ومقالات سقراط سوانح
وفلسفہ
10 خیابان آصفی تاریخ
11 مرہٹوں کاتمدن تاریخ
مانک راؤ صاحب کی تصانیف کو تاریخ اوراخلاق پر تقسیم
کرسکتے ہیں جن میں تاریخی کتابوں کا حصہ زیادہ ہے، مختلف سائزکے 4489صفحات پر مانک
راؤ صاحب کی کتابیں مشتمل ہیں۔ آپ کی تصانیف میں بستان آصفی کو بہت زیادہ اہمیت
حاصل ہے۔ یہ کتا ب تاریخ دکن خصوصیت سے سلطنت آصفیہ کی مفصل تاریخ ہے اس میں نظم
ونسق حکومت او ردیگر تاریخی امور کے متعلق جس قدر مواد موجودہے بہت کم کسی دوسری
کتاب سے حاصل ہوسکتاہے۔
شمس العلما مولانا ذکاء اللہ جیسے مورخ نے اس کتاب کے
متعلق جورائے دی ہے وہ قابل ملاحظہ ہے:
’اس
بستان آصفیہ میں ایسے چمن وگلشن تاریخ لگے ہوئے ہیں جن کی بہار سے دل کی کلیاں
کھلتی ہیں، اس میں عموماً دکن کے سلاطین کے خاندانوں اور خصوصاً خاندان آصفیہ کے
اس بسیط وتفصیل سے حالات لکھے ہیں کہ اس کے مطالعے کے بعدپھر کسی اور تاریخ دکن سے
سلاطین ماضیہ وحال کے حالات بڑی لیاقت وقابلیت وجاں فشانی وعرق ریزی سے استنباط
کرکے لکھے ہیں غرض وہ حیدرآباد نظام کے کلیات وجزئیات حالات کا آئینہ ہے۔‘‘
گویہ صحیح ہے کہ اس ضخیم کتا ب میں چند خامیاں بھی ہیں
مگروہ ایسی نہیں ہیں جن کی وجہ سے مانک راؤ صاحب کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا
جائے۔ جو ذخیرہ تاریخی اس میں مل سکتا ہے وہ کسی اورجگہ ہمدست نہیں ہوسکتا۔ جب تک
اردو زبان زندہ رہے گی مولف کا کارنامہ باقی رہے گا۔ ان کی زبان سادہ سلیس اور
بامحاورہ ہے۔
مانک راؤ صاحب کی عبارت کانمونہ حسب ذیل ہے:
’ابوالخیر
خاں کاسلسلہ نسب حضرت شیخ فرید شکر گنج تک پہنچ کر حضرت عمرؓ سے ملتاہے، آپ کے
پدر بزرگوار کا نام شیخ بہاؤ الدین خاں تھا، او روہ مع اپنے چھوٹے فرزند کے شکوہ
آباد ضلع مین پوری میں مسکن گزیںتھے، عنفوان شباب میں ذی اقتدار ہوئے، اور
محمدشاہ بادشاہ دہلی کے حضور سے ’خان بہادر‘ کاخطاب پایا اور جس زمانے میں حضرت
آصف جاہ اول عازم دکن ہوئے تووہ بھی ان کے ساتھ ہوئے حضرت موصوف نے انھیں دوہزار
منصب پانچ سو سواراور تین ہزار سپاہ کی جاگیر مرحمت فرمائی۔ سب سے پہلے جو اہم کام
انھوں نے کیا وہ یہ تھا کہ آٹھ ہزار سواروں کے ساتھ باپو نانک کا مقابلہ کیا
اورفتح پائی۔ جب نواب ناصرجنگ اپنے والد ماجد حضرت آصف جاہ اول سے معرکہ آرا
ہوئے انھوں نے اپنا طرفدار بنانا چاہا لیکن انھوں نے بایں الفاظ انکار کردیا کہ
باپ کا جوملازم ایسی حالت میں بیٹے کا شریک ہوگا وہ نہ صرف گناہ کبیرہ ہی کا مرتکب
نہیں بلکہ دنیا میں بھی سخت سزاپائے گا۔ (بستان آصفی جلد دوم ص548)
راجہ راجیشور راؤ: راجہ راجیشور راؤ صاحب کا تذکرہ
شعرا کے ساتھ ہوا۔ آپ کوشاعری سے زیادہ نثرنگاری سے رغبت تھی مختلف فنون میں سے زیادہ
کتابیں تصنیف وتالیف فرمائی جن میں بعض حسب ذیل ہیں:
شمار نام فن
1 محبوب
الاخلاق اخلاق
2 حدیقۃ
الاخلاق اخلاق
3 گلبن
دانش اخلاق
4 گلزاردانش اخلاق
5 ریاض
دانش اخلاق
6 کشف
الاسرار تصوف
7 ہدیۃ
الملوک اخلاق
8 تاریخ
جہانگیری تاریخ
9 معالجات
کلب حیوانات
10 تشریح انفرس حیوانات
11 گنجینۂ امثال لغت
12 کارنامہ تاریخ
13 نجم اللغات لغت
14 مفتاح اللغات لغت
15 افسراللغات لغت
16 فرحت کدہ آفاق لغت
17 قران السعیدین لغت
18 مجمع البحرین لغت
19 نغمہ عنادل نظم
20 تاریخ ہند تاریخ
21 طبقات اکبری تاریخ
22 مجموعہ ضرب
الامثال لغت
23 مجمع الالفاظ لغت
24 فرہنگ فارسی جدید لغت
25 گلدستہ مصوری آرٹ
26 راماین تاریخ
27 مہابھارت تاریخ
28 کشکول لغت
29 القاموس لغت
30 الخط عثمانی آرٹ
باقی تصانیف فارسی میں ہیں اس لیے ان کو نظرانداز کردیا
گیا ہے ا س فہرست سے واضح ہوسکتاہے کہ راجہ راجیشور صاحب نے کس طرح مختلف فنون میں
خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ لیکن آپ کو زیادہ تر ’لغت‘ سے دلچسپی تھی اسی فن پر آپ کی
تصانیف کازیادہ حصہ مشتمل ہے۔ آپ کی علمی یادگاروں اورقلمی کارناموں کے کئی ہزار
صفحات ہیں جو شائع ہوچکے ہیں مگراس کے علاوہ راجہ صاحب نے بلحاظ حروف تہجی عربی،
فارسی اور اردو کی ایک لغت تیار فرمائی تھی جس کی چھبیس جلدیں مکمل ہیں۔ مگرافسوس
ہے کہ اس ضخیم کتاب کی اشاعت نہیں ہوئی ہے۔ مانک راؤ صاحب کی طرح آپ کانام بھی
دنیائے اردو میں باقی رہے گا۔ آپ کااسلوب بیان بھی صاف سادہ اور عام فہم ہوتاہے۔
عبارت کا نمونہ حسب ذیل ہے۔
’جس
وقت جنگجوبہادروں کے اجسام ہتھیار پہننے کے لیے بے چین ہورہے تھے اس وقت جنگ کے
باجوں کی آوازوں نے ان لوگوں کے دلوں میں شجاعت کی روح پھونک دی تھی جس سے سب کے
دماغوں میں یہی دھن سمائی ہوئی تھی کہ کب جنگ شروع ہواور کب اپنے دل کی امنگ نکالیں۔
اس وقت ارجن نے اپنے دوست بھگوان سری کرشن سے جو ان کا رتھ چلا رہے تھے کہادوست
ذرا رتھ کوایسے مقام پر لے چلو جہاں سے میں طرفین کے بہادران کارآزما کو اچھی طرح
دیکھ سکوں۔ بھگوان سری کرشن نے ارجن کے منشا کے موافق رتھ کو دونوں افواج کے درمیان
لے جا کر کھڑاکردیااور ہرایک بہادر مرنے اور مارنے کے لیے بخوشی تیار تھا۔ چاروں
طرف دریائے شجاعت کی لہریں موجزن تھیں سب کے چہروں پر رونق جھلک رہی تھی۔ یعنی سب
کے منھ سے یہی آواز نکل رہی تھی کہ بزن وبکش‘‘ (مہابھارت ص110)
راجہ تیج رائے: راجہ تیج رائے صاحب برہم چھتری قوم سے
تعلق رکھتے تھے، آپ کے اجداد پائگاہ کے متوسل تھے رائے خوب چند آپ کے مورثِ اعلیٰ
تھے جو نواب ابوالفتح خاں شمس الامراکی سرکارمیں ایک ذمے داری کی خدمت پراپنے
انتقال تک ماموررہے۔ رائے خوب چند کے بعد ان کے فرزند سروپ چنداور ان کے بعدان کے
نواسے راجہ تلجاپرشاد پائگاہ آسمان جاہی سے متعلق رہے۔
راجہ تیج رائے تلجا پرشاد کے فرزند تھے جو 1281ھ میں حیدرآباد
میں تولدہوئے حسب رواج قدیم اردو فارسی اور انگریزی کی تعلیم پائی ، بچپن میں والد
کاسایہ سرسے اٹھ گیا۔ اسی لیے اعلیٰ تعلیم نہیں پائی بلکہ ملازمت کے دائرہ میں
منسلک ہوگئے۔ آسمان جاہ نے آپ کو آبائی خدمت پرمامور کردیا۔ اولاً مہتمم خزانہ
اورسررشتہ دار فوج بنے پھر جب مجلس پائگاہ مرتب ہوئی توآپ کو رکن فوج کی خدمت دے
دی گئی آسمان جاہ کے انتقال کے بعد پادشاہ بیگم صاحبہ اورنواب معین الدولہ کے
زمانے میں اسی خدمت کو انجام دیتے رہے۔ جب راقم الحروف کے نانامولوی حسین عطاء
اللہ صاحب (جومیر مجلس پائگاہ تھے) کا 1327ھ میں انتقال ہوا توراجہ تیج رائے صاحب
ان کی جگہ میر مجلس پائگاہ بنائے گئے جس کی انھوں نے اپنے انتقال تک جو 1935میں
ہواانجام دیتے رہے۔
راجہ تیج رائے کو اردو ادب سے دلچسپی تھی، اور کتابوں
اوراخباروں کا دلچسپی سے مطالعہ کرتے تھے، اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنے
مربی اور محسن آقا نواب سرآسمان جاہ کی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ کیا اور 1320ھ
میں اس کی ترتیب شروع ہوئی اورنہایت محنت اورجانفشانی سے اس کا مواد مرتب کیا۔ اس
سوانح عمری کو آپ نے ’صحیفہ آسمان جاہی‘ سے موسوم کیا ہے اس کے دوحصے ہیں ایک میں
آسماںجاہ کی سوانح عمری ہے جس میں امرائے پائگاہ کے مختصر حالات اور آسماںجاہ کی
وزارت کا تذکرہ اورمختلف سفروں وغیرہ کے حالات لکھے گئے ہیں اور دوسرے حصے میں
آسمان جاہ کے سفر یورپ کے حالات کو جس کو نواب صاحب نے خود قلم بند کیا تھا درج کیا
ہے۔
1321ھ میں یہ کتاب شائع ہوئی ۔ حیدرآباد کے
اخبار نویسوں نے اس پر اچھی تنقیدیں کی ہیں، نواب محسن الملک اور وقار الملک جیسے
اصحاب نے بھی اس کی ستائش کی ہے۔ چنانچہ نواب محسن الملک نے لکھا ہے کسی نے نواب
سالار جنگ کی لائف نہ لکھی آپ نے حق خدمت خوب ادا کیا۔ نواب آسمان جاہ کی ایسی
عمدہ لائف لکھ کراپنی لیاقت اور سعادت ثابت کی۔ صحیفہ آسمان جاہی کی عبارت
کانمونہ پیش ہے۔
آسمان جاہ کی شادی کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’روز
دوشنبہ کوصاحب عالیشان رزیڈنٹ صاحب بہادر کی دعوت مع ایک سودیگر صاحبان انگریزوافسران
بلوارم وسکندرآباد کی بڑے تکلف سے جدیدحویلی میں کی گئی۔ لہٰذا سانچق ومہندی وشب
گشت وبازگشت بھی یہاں کے رواج ودستور کے موافق اس دھوم دھام اورتکلف سے آئے اور
گئے کہ جس کاحال قلم بند کرنا یا توناول نویسوں کاکام ہے یا نثاروں کا نہ مجھ میں
اتنی لیاقت ہے نہ قابلیت اس کا فوٹو کھینچ سکوں اورنہ میرا ارادہ اس قسم کی رنگ
آمیزی کا ہے۔ حتی الامکان اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ سچے واقعات کو سلیس عام
فہم عبارت میں ظاہر کیا جائے اور مبالغے سے کوسوں دور رہوں۔‘‘(ص34)
شمس الامر اکے حالات میں تذکرہ کرتے ہیں:
’آپ
کے محل میں اب تک بھی کیمیاوی تجربات کے آلات موجودہیں جو انگلستان اوریورپ کے دیگر
ممالک سے بصرف زر کثیر منگوائے گئے تھے۔ ان آلات کو آپ نے نمائش کے طورپر نہیں
منگوایا تھا بلکہ ہرایک آلہ کو خوداستعمال کرنے کی لیاقت اور قابلیت رکھتے تھے
آپ کی تعمیر کردہ عمارت موسوم بہ جہاں نما اس زمانے میں واقعی اسم بامسمیٰ تھی
دور دور سے شائقین اس کو دیکھنے کی غرض سے آتے تھے۔ اب تک اس مکان کی شہرت تھی ،
اس زمانے میں حیدرآباد میں اس کی مثل کوئی ایسی عالیشان سجی ہوئی عمارت نہیںتھی۔‘‘
)صحیفہ
آسماںجاہی، ص9(
پنڈت رتن ناتھ سرشار:اگرچہ سرشار حیدرآباد کے نہیں تھے
بلکہ کشمیر کے باشندہ تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں 1897میں حیدرآباد آگئے اور یہاں
ہی 1902میں ان کا انتقال ہوا۔ اس لحاظ سے حیدرآباد کے ادیبوں میں ان کا تذکرہ
کرنا نامناسب نہیں ہے۔
پنڈت سرشار کی ادبی خدمات کی تفصیل ہمارے مختصرصفحات میں
دشوار ہے۔ انھوں نے ’فسانہ آزاد‘ لکھ کر دنیائے اردومیں اپنا سکہ بٹھا دیا اور جب
تک اردو زبان باقی ہے اس وقت تک سرشار کا نام بھی تاریخ اردو میں سنہرے حروف میں
ثبت رہے گا۔
سرشار ایک نہایت خوشگوار شاعر بھی تھے اور مزاحیہ نگار
نثار بھی ان کی حسب ذیل تصانیف بہت مشہورہیں۔
فسانہ آزاد ، سیر کوہسار، جام سرشار، کامنی، خدائی
فوجدار، کڑم دھم بچھڑی دلہن، ہشو، طوفان بے تمیزی، رنگیلے سماں،پی کہاں شمس الضحیٰ
وغیرہ
ان میں سے بعض حیدرآباد میں تصنیف ہوئی ہیں۔ سرشار کی
کردار نگاری مشہور ہے اگرچہ وہ اصلیت کے ساتھ مبالغے سے کام لیتے ہیں۔
سرشار کی عبارت کا نمونہ حسب ذیل ہے:
ــ’’لوگوں نے سمجھایا کہ
صاحب ابھی بندرگاہ تو آنے دیجیے ۔ بی شتاب جان اور کرم بحق اس سے کیونکر سن لیں گی۔
کہااجی ہٹو بھی تم کیا جانو کبھی کسی پردل آیا توسمجھو۔ ارے نادان عشق کے کان
دوکوس تک کی خبرلاتے ہیں اور کون کو س کڑی منزل کے کوسن لیا شتاب جان نے آواز نہ
سنی ہوگی، واہ بھلا کوئی بات ہے، مگر جواب کیوں نہ دیا۔ یہ پوچھو اس میں ایک لم
ہے۔ پوچھووہ کیا وہ یہ کہ معشوق پن نہیں اگر اتنی کچی نہ ہو۔ اگرآواز کے ساتھ ہی
آواز کا جواب دیں توبندے کی نظروں سے گرجائیں۔ مزاجب ہے کہ ہم بوکھلائے ہوئے ادھر
ادھر ڈھونڈتے اور آو ازیں دیتے ہوں کہ بی شتاب جان صاحب ابی بی صاحب اوروہ بے خبری
میں پیچھے سے ایک دھول جمائیں اورتنک کرکہیں مونڈی کاٹا آنکھوں کا اندھانام نین
سکھ غل مچاتا پھرتاہے۔
درد:رگھوناتھ راؤ بھی اس دور کے شاعرہیں، زیادہ دوہرے
نظم لکھا کرتے، افسانہ نگاری سے بھی دلچسپی تھی، رسالہ ’تاج‘ کے نائب مدیر کی حیثیت
سے کام کرتے تھے۔
درد کاوطن بیدرتھا جہاں وہ 11اکتوبر1891کو تولد ہوئے ان
کے بچپن میں والد کا انتقال ہوگیا، حیدرآباد آکر ماموں کے زیر پرورش رہے اردو
فارسی کی تعلیم پائی وکالت کابھی امتحان دیا۔ مطالعے کا ذوق تھا اردو کے مشاہیر
مولانا نذیراحمد ، مولانامحمد حسین آزاد اور سرشار کی کتابوں کو شوق سے دیکھا
کرتے، اس سلسلے میں رسالہ تاج اور ادیب الاطفال کے ایڈیٹروں کے اصرار پر مضمون نویسی
شروع کردی ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کرتے رہے بیدرگزٹ کی ایڈیٹری بھی کچھ عرصے تک
کرتے رہے۔
ثمرۂ محنت، یتیم کی عید، بیوہ کی عید، صدائے بیکس، پیکروفا،
تازیانہ عبرت، ظہور قدرت، سچا محسن، نیرنگی وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں۔
افسوس ہے کہ ان کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا اور اس سے
زیادہ افسوسناک یہ امر ہے کہ بجز دوتین افسانوں کے باقی افسانے ہمدست بھی نہیں
ہوتے۔
درد کے افسانے طبع زاد ہیں ان کے افسانوں میں رنج والم
زیادہ ہے۔
’ہیراسنگھ
نے جوئے اور شراب خواری کی لت سے چوری کرنے کا پیشہ اختیار کیا اس کا ساتھی
امرسنگھ اچکا تھا ، ہیرا سنگھ گوطبعاً نیک تھا مگر امرسنگھ کی صحبت کا اثریہ ہوا
کہ یہ بھی پکا جواری اور چوربن گیا پھر شراب کی عادت پڑگئی، گھر سے چار چار روز
غائب رہنے لگا گھر میں بیوی اور ایک شیر خوار بچہ دوتھے۔ اگردل میں آیا روپیہ دو
روپیہ گھر میں دے دیا ورنہ چلتا پھر تانظر آیا بیوی (درو پدی) کرتی توکیا کرتی
اگرکچھ چوں چرا کرتی تولاٹھی یا جوتی سے مدارات کی جاتی۔
فاقے پر فاقے گزرتے تھے لیکن صبروشکر کے ساتھ زندگی کے
دن کاٹ رہی تھی، محنت مزدوری اس وقت ممکن ہے جب کہ پیٹ میں کچھ ہو ، جہاں تین تین
دن کے فاقے گزرتے ہوں وہاں کیا ہوسکتاہے۔
چھوٹا دیال بیمار ہوگیا ماں کے کلیجہ پر سانپ لوٹنے لگا
کوئی پرسان حال نہیں اس کے لیے دنیا تاریک تھی، بیمار کے لیے حکیم اور دوا کی
ضرورت تھی لیکن ان کے بھینٹ چڑھانے کے لیے یہاں کچھ بھی نہ تھا۔‘‘
رائے بیجناتھ:بیجناتھ صاحب شمالی ہند کے باشندہ تھے مگر
سرکاری ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد آکر بس گئے اور مرنے تک حیدرآباد میں رہے،
آپ کا تعلق سررشتہ قانون سازی سے رہا اس کے علاوہ آپ لاکلا س (قانونی جماعت) کو
سالہاسال تعلیم دیتے رہے، اس طرح آپ کے شاگردوں کی تعداد حیدرآباد کے تمام اضلاع
میں پھیلی ہوئی ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے لیے آپ نے کئی کتابوں کاترجمہ کیا اس کے
علاوہ اکثر قانونی کتابیں تالیف کی، جامعہ عثمانیہ کے قانونی کالج میں لکچردیتے
رہے کئی کتابوں کے مؤلف ہیں آپ کی نثر کا نمونہ پیش ہے۔
’دھرم
شاستر کے مضمون کی اہمیت اور قانون پیشہ حضرات کے لیے اس کی ضرورت محتاج بیان نہیں
ہے۔ اس مضمون پر اصل کتابیں توسنسکرت زبان میں ہیں لیکن بہت کم قانون پیشہ حضرات ایسے
ہیں جو اصلی کتابوں کا مطالعہ فرماسکتے ہیں، یا جن کو اس قدر فرصت ہے کہ ان سے
ضرورت کے وقت کسی نزاعی مسئلہ کے متعلق صحیح اصول اخذکرسکیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے
کہ انگریزی زبان میں بالخصوص ٹیگور لکچروں کے ذریعہ بہت کافی سامان مہیاہوگیا ہے لیکن
اردوزبان میں اب تک کوئی ایسی کتاب میرے دیکھنے میں نہیں آئی جس سے طلبا اور نیز
قانون پیشہ حضرات کی علمی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ (دھرم شاستر مطبوعہ 1916)
ماخذ: دکنی
ہندو اور اردو، مصنف: نصیرالدین ہاشمی،
تیسری اشاعت: 2023، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں