22/11/24

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

 اردو دنیا، اکتوبر 2024

انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ جب ہم انسانی سماج کی ورق گردانی کرتے ہیں تو حضرت انسان کو روزِ اوّل سے ہی مختلف سماجی امور میں سر گرداں پاتے ہیں  مثلاً جنگلوں میں مختلف گروہوں کی شکل میں بودوباش اختیار کرنا ، ٹولیاں بنا کر جانوروں کا شکار کرنا وغیرہ۔

یہ بات نہایت قطعی اور حتمی طور سے کہی جاسکتی ہے کہ انسان کسی بھی انسانی سماج کی پہلی اکائی ہے۔ اس کے بغیر سماج کا تصور عنقا ہے کیونکہ انسانی جماعت ہی ایک سماج کی تعمیر و تشکیل کرتی ہے۔ فرد اور سماج کے آپسی ربط اور سماج کے ارتقا کے بارے ماہر سماجیات ہربرٹ اسپنسر نے انیسوی صدی میں (Organismic Theory of Society)کا نظریہ پیش کیا جس کا خلاصہ ڈاکٹر محمد عبدالقادر عمادی اپنی کتاب میں اس طرح کرتے ہے:

’’اسپنسر کے نظریہ کی رو سے جس طرح ایک بیج سے تناور درخت نشوونما پاتا ہے اسی طرح افراد کے بین عمل بتدریج سماج کا ارتقا ہوا جو روز برروزپیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔  درخت کی شاخوں اور پتوں کی طرح سماجی ادارے اور افراد درخت کی نشوونما کے لیے ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ درخت پتوں کی ضمانت دیتا ہے اور پتے درخت کی۔ دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے۔‘‘(ابتدائی سماجیات ، ڈاکٹر محمد عبد القادر عمادی ، ص65 )

یعنی انسان کا وجود ہی سماج کو تشکیل دیتا ہے۔ اسی بات کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سماج اور سوسائٹی سے کاٹ کر یکا و تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ یہ دراصل اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان رہے ۔ ان سے اپنا ربط و تعلق بنائے،  ان سے مختلف معاملات میں گفت و شنید رکھے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کے اندر انسانی خصلتیں سماج کے اندر رہ کر ہی پیدا ہوتی ہیں اسی لیے تقریباًتمام ماہرین سماجیات و بشریات (Sociologists and Anthropologists) کا اس بات پر کلی طور سے اتفاق ہے کہ انسان اور سماج ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔مشہور یونانی فلسفی ارسطو نے آج سے ہزاروں سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ انسان ایک سماجی جانور(Social animal) ہے۔ جو بغیرسماج کے بھی زندہ رہ سکتا ہے وہ یا تو جانور ہے یا پھر خدا(God) ہے جو اس سے بالا تر ہے ۔ اسی کے مماثل پروفیسر پارک نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ"(man is not born human but to be made human). یعنی کوئی بھی آدمی پیدائشی طور انسان نہیں ہوتا بلکہ اسے انسان بنایا جاتا ہے ۔ مذکورہ حوالوں سے یہ بات اخذکی جا سکتی ہے کہ انسان کو انسان بننے کے لیے اس سماج میں جاری انسانیت (Humanity) کے عمل (Process) سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اسے وہ سارے نشیب و فراز چڑھنے اور اترنے ہوتے ہیں جن سے یہ انسانی سماج گزرتا ہے ۔ مرزا غالب نے تقریباً اسی خیال کو اپنی غزل کے ایک شعر میں یوں پیش کیاہے      ؎

 بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا 

 ( دیوان غالب ، ص38)

انسان کو انسانی خصوصیات سے آراستہ ہونے کے لیے اسے سماجی اصولوں پر عمل پیرا  ہونا نیز اس کے تحت خود کو ڈھالنا ضروری ہے ۔ یہ سماج ہی ہے جو ایک انسان کو باشعور بناتا ہے ۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتا ہے۔عقل ودانش کی بالیدگی کاسبب بنتاہے ۔ یہی چیز سماجی اصطلاح میں ’سماجی شعور ‘ (Social Consciousness)کے نام سے موسوم ہے ۔سماجی شعور لسانی اعتبار سے دو الفاظ کا مجموعہ ہے ’سماج‘ اور ’شعور‘۔  ذیل میں دونوں الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔

لفظ ’سماج ‘ سنسکرت زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے ’ سم ‘ اور ’ آج ‘ ۔ سم کے معنی ’اکٹھا ‘اور آج کے معنی ’رہنا‘ کے ہیں۔ یعنی لفظ سماج کے لغوی معنی ہیں ’ ایک ساتھ رہنا‘ انگریزی میں سماج کے لیے (Society) لفظ کا استعمال ہوا ہے جس کے معنی’اکٹھا ہونا‘کے ہے ۔ شعور عربی زبان کے مادہ ش ع رسے نکلا ہے جس کے معنی ’جاننا اور محسوس کرنا‘کے ہیں۔ اردو میں لفظ شعور کے معنی ’سمجھ بوجھ، احساس، دانائی، آگاہی ‘ وغیرہ کے ہیں۔ یعنی سماجی شعور کے معنی سماجی حالات و مسائل کی آگہی ہوتا ہے ۔

اردو ادب کے مشہور تنقید نگارکلیم الدین احمد اپنی فرہنگ ـ’ادبی اصطلاحات‘  میں سماجی شعور کی تعریف میں لکھتے ہیں :

’’سماجی شعور یا آگہی۔Social consciousness ‘‘

(فرہنگ ادبی اصطلاحات ، پروفیسر کلیم الدین احمد ، ص179)

اردو لغت میں سماجی شعور کی کی تعریف یوں کی گئی ہے:

’’ سماجی شعور :معاشرتی حالات و مسائل وغیرہ کی آگاہی‘‘ (اردو لغت، وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان، 1990)

سائنسی اشتراکیت(Marxism) کے بانی کارل مارکس نے سماجی شعور کی معاشی توضیح کی ہے ۔ وہ اس ضمن میں رقم طراز ہیں کہ :

 "Human beings enter into certain production, or economic releations and these releations lead to the form of social consciousness."                    

یعنی انسان دراصل چند پیداوری اور معاشی تعلقات سے ایک دوسرے سے وابستہ ہوتا ہے اور یہی تعلقات سماجی شعور کی ایک شکل کا باعث بنتا ہے ۔

وکی پیڈیا کے مطابق سماجی شعور کی تعریف یوں ہے :

’’سماجی شعور وہ شعور ہے جو سماج کے افراد (ممبران ) کے مابین مشترک ہوتا ہے ۔ ‘‘ (وکی پیڈیا)

انگریزی کے مشہور آن لائن لغت Collinsکے مطابق:

’’سماجی شعور دراصل ان مسائل سے آگہی اور واقفیت کا نام ہے جو سماج میں موجود لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو متاثر کرتے ہیں ۔ مثلاً غربت ، بے سرو سامانی ، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان کی حتی الامکان مدد بھی کرنا ۔‘‘

مذکورہ بالا متعدد تعریفات سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ سماجی شعور دراصل معاشرتی حالات ومسائل کی آگہی اور حتی الوسع ان کو سلجھانے کا نام ہے ۔ سماجی طور پر با شعور ہو نے کا مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اپنے آس پاس کے لوگوں کے بارے میں گہرائی سے آگاہ ہونا ۔آپ آس پاس کے لوگوں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ آپ کو کیسے متاثر کرتے ہیں ۔ سماجی شعور آپ کو دوسروں کے لیے ہمدردی کا احساس دلا سکتا ہے اور اس وجہ سے یہ ذہن نشین کراسکتا ہے کہ آپ کے اعمال ان پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں ۔

سماجی شعور کی اہمیت

ایک مہذب انسانی سماج میں ’سماجی شعور ‘ کی اہمیت اور اس کی افادیت مسلم ہے۔ یہ سماجی شعور ہی ہے جو ایک سماج کے لوگوں کو زندہ دل بنا تا ہے۔ لوگوں کے مسائل سے واقفیت ہونا، ان کے دکھ درد میں شرکت، ان کی معاشرتی حالات کی آگہی اور عملی طور پر مسائل کی گتھیوں کو سلجھانا ہی دراصل وہ پیمانہ ہے جو انسان کو حیوان کی صفتوں سے باہر نکالتا ہے ۔ اس طرح :

v        سماجی شعور دراصل اخلاقیات (Ethics) اور حسن اخلاق کا نام ہے جس کو سماجی شعور سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔

v        سماجی شعور سماجی تبدیلی کا ضامن ہے۔ انسانی سماج کے مسائل تب تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ان کے اندر سماجی شعور بیدار نہیں ہوتا، جس دن یہ شعور جاگ اٹھے گا اسی دن سے معاشرے میں تبدیلی شروع ہوگی ۔

v        سماجی شعور دراصل ایک سماجی ذمہ داری ہے ۔ انسان بس سماج میں اپنے شب وروز گزارتا ہے ۔ اگر وہ اس کے ایشوز اور مسائل سے بے بہرہ اور ناواقف ہے تو ایک مثالی انسان ہونے کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ سماجی شعور کے حامل افراد ہر آن انسانی سماج کو ایک بہترین جگہ بنانے میں سرگرداں نظر آتے ہیں جو کہ عین مطلوب ہے ۔

v        سماجی شعورسماج میں موجود ناانصافیوں کے خلاف علمِ بغاوت ہے۔ زندہ دل افراد سماج میں کسی طرح کی ناانصافی اور دھاندلی کو جیتے جی قبول نہیں کرتے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  سماجی شعور کا حامل فرد سماج کے اندر کسی بھی طرح کی نا انصافی کو قبول نہیں کر سکتا ۔ وہ اس کے خلاف حتی الوسع بغاوت کرتا ہے ۔

v        سماجی شعور انسانی وقار کا حصہ ہے ۔ اس کرۂ ارض پر انسان کا درجہ اشرف المخلوقات (Exalted creation) کا ہے ۔ اگر وہ اپنے سماج میں موجود برائی کی تمیز نہ کر سکے، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جرات نہ رکھتا ہو، تو پھر انسانی اور حیوانی سماج میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ انسانیت کا وقار مجروح ہو کے رہ جائے گا۔ لہٰذا سماجی شعور سے خود کو مزین کرنا انسانی وقار کا حصہ ہے ۔

سماجی شعور کی اصطلاح سمجھنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ شعور اور لاشعور کے مابین فرق کی وضاحت کر دی جائے۔ شعور (Conscious)سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن سے ہم کسی نہ کسی طرح سے واقف ہوتے ہیں اور جو ہمارے شب وروز کے مشاہدات سے بچ کر نکل نہیں سکتیں۔  دوسری طرف لاشعور (Unconscious) وہ اشیا ہیں جن کے بارے میں ہم کو کچھ معلوم نہیں ہوتا اور جو ہمارے شب و روز کے مشاہدات میں بھی نہیں ہوتیں۔ ہمارے کردار پر اثر انداز ہونے والے زیادہ تر میکانزم کافی حد تک ہمارے شعور اور لاشعور پر مبنی ہوتے ہیں ۔

سماجی شعور

سماجی شعور سے مراد وہ آگاہی ہے جو معاشرے کے ہر فرد کی فلاح و بہبود کے تعلق سے ہو اور اس اثر معاشرے کے دیگر افراد کی فلاح و بہبود کی کوشش کے لیے ہو ۔ مشہور ماہر سماجیات کولن (Colin)سماجی شعور کی تعریف کے ضمن یوں لکھتے ہیں :

’’سماجی شعور کو معاشرے کی آگاہی بھی کہا جا سکتا ہے جو کہ دراصل خود آگاہی کے تصور سے وابستہ ہے ۔ ‘‘

( امریکن جرنل آف سوشیولوجی ، جلد 12، پروفیسر چالس ایچ کولن ، ص675)

سماجی شعور دراصل کسی انجمن ، تنظیم یا معاشرے کو درپیش مسائل کی گتھیاں سلجھانے اور اس کا حل پیش کرنے کی تدابیر کرنے کی ایک اجتمائی جدو جہد کا نام ہے۔ پروفیسر کولن نے سماجی شعور کی مثال دیتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ :

’’سامانتھا (Samantha) نے اپنے شہر کے مسائل پر توجہ دینے کی کوشش کی کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ ایک شہری ہونے کے ناطے اس کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اس کے شہری سماجی طور پر باشعور ہوں اور ذاتی طور پر اس کی اصلاح کرنے کی عملی تدابیر اختیار کرنے اور انھیں نافذ کرنے میں فعال کردار ادا کریں ۔ ‘‘ (ایضاً، ص 695)

سماجی طور سے با شعور ہونے کا مفہوم

سماجی طور سے باشعور ہونے کا مطلب ہے کہ ہر آن آپ کو یہ شعور رہے کہ آپ معاشرے کے ایک رکن ہیں ۔ اس ناطے سے آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ آپ لوگوں کے احوال و کوائف اور ان کے مختلف مسائل سے واقف ہوں۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہے کہ آپ کی کمیونٹی کے دیگر افراد بھی اسی احترام و عزت کے مستحق ہیں جس کی آپ ان سے توقع رکھتے ہیں ۔ سماجی طور سے باشعور انسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے صرف اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے جذبات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے ۔

لوگوں کا ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ سماجی طور سے باشعور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے بہت سے دوست اور رفقا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کثیرالروابط ہو، حالانکہ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ اس کے برعکس سماجی شعور انسانی سرگرمی کی بجائے دماغ کی ایک کیفیت اور حالت کا نام ہے ۔ یہ تو ممکن ہے کہ آپ کے دوستوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بن سکتی ہے لیکن اگر آپ کی اس دوستی سے سماج کے اوپر اگر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا تو آپ شعوری طور پر سماجی یا سماجی طور پر باشعور فرد کے طور پر کامیاب نہیں ہوں گے۔

سماجی شعور کا ایک مفہوم ماحولیاتی طور پر باشعور ہونا بھی ہو سکتا ہے اس طور سے کہ یہ سمجھنا  معاشرے کو غیر پیدا شدہ نسل کے لیے محفوظ رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ خلاصے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے سماجی شعور دراصل سماجی ضمیر کی ترقی یافتہ شکل ہے اور سماجی ضمیر کو اگر بروئے کار نہ لایا جائے تو یہ محض ایک نظریے تک محدود رہ سکتا ہے ۔

 

Irfan Amin Ganie

S/o Mohammad Amin Ganie

R/o Arwani, Tehsil Bijbehara District.Anantnag-  192124 (J&K)

Cell.:  9149672422

irfanamin9945@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...