25/11/24

قدیم بھارت کا عظیم سیاست داں اور ماہر معاشیات: کوٹلیہ، مضمون نگار: مقبول احمد مقبول

 اردو دنیا، اکتوبر2024

تاریخِ عالم  کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بعض لوگ ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک گزرے ہیں جن کی شہرت رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ ایسی ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل قدیم بھارت کے ایک شخص کا نام کوٹلیہ ہے۔تاریخی کتب اور سنسکرت لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ کوٹلیہ کا اصل نام وشنو گپت تھا لیکن آج اس کا یہ اصل نام غیر معروف ہے۔ وشنو گپت نہایت ذہین، چالاک اورزیرک آدمی تھا ۔ اس وصف کی وجہ سے اس کا نام چانکیہ پڑ گیا۔اس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’ارتھ شاستر‘ میں جگہ جگہ خود کو کوٹلیہ کہا ہے۔ آج ساری دنیا میں یہ شخص کوٹلیہ اور چانکیہ کے نام سے مشہور ہے۔ کوٹلیہ کی شہرت کا سارا دارو مدار اس کی کتاب’ارتھ شاستر‘ پر ہے ۔ کوٹلیہ ایک غریب برہمن خاندان کا فرد تھا۔لیکن اپنی زبردست ذہانت، حکمتِ عملی اور سیاسی شعور کی بنا پر موریہ سلطنت کے قیام کا ذریعہ بنا۔مورخین کے درمیان کوٹلیہ کے سالِ پیدئش میں اختلاف ہے۔کوئی 350ق م  بتاتا ہے تو کوئی 370 ق م بتاتا ہے، تو کسی کے نزدیک 375ق م اس کا سالِ پیدائش ہے۔اس کا سا لِ وفا ت 283  ق م اور مقامِ وفات پاٹلی پتر ہے جسے آج پٹنہ کہا جاتا ہے۔

کوٹلیہ اپنے وقت کا بڑادانشور،فلسفی، ویدوں کا زبردست عالم،معاشیات اور سیاسیات کاماہر، مدبر و منتظم اور جنگی حکمتِ عملی کا ماہر تھا۔وہ بہت ہی ذہین، دانا اور دور اندیش آدمی تھا۔کئی علوم و فنون کا ماہر تھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ یو نانی اور فارسی زبانیں بھی جانتا تھا۔

کوٹلیہ بھارت کے قدیم اور مشہور راجا چندر گپت موریا( 350ق م تا  295 ق م )کا ہمعصر،استاد،مشیر اور وزیر تھا۔چندر گپت موریہ کے راجا بننے سے قبل شمالی بھارت کے علاقے مگدھ پر نند خاندان کے راجادھانا نندکی حکومت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی تقریب میں اس راجا  نے کوٹلیہ کی تو ہین کی تھی۔ اسی وقت کوٹلیہ نے یہ ٹھان لیا تھا کہ وہ نند خاندان کی حکومت کو نیست و نابود کر دے گا۔اس غرض سے کوٹلیہ نے نند خاندان کے ایک نوجوان چندرگپت کی اپنی نگرانی میں تعلیم وتربیت شروع کی جو کسی وجہ سے راجا کی ناراضی کا عتاب جھیلتے ہوے جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔

کوٹلیہ کی تربیت،مشوروں اور رہنمائی کی بدولت چندر گپت نے اپنے پیشرو راجا دھانانند کی حکومت کا تختہ پلٹ کر مگدھ میں موریا سلطنت کی بنیاد رکھی اسے بہت وسیع کیا۔بھارت کا مشہور فاتح اور حکمراں اشوکِ اعظم چندر گپت موریا کا پوتا تھا جس نے اپنی حدودِ سلطنت کو اور بھی وسیع کر کے تاریخ ِ عالم کے عظیم فاتحوں اور حکمرانوں میں اپنا نام لکھوایا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عظیم موریا سلطنت کے قیام میں کوٹلیہ کی دانائی، حکمتِ عملی،سازش اور مشوروں کا بہت اہم کردار ہے۔موریا سلطنت کے قیام کے بعد ایک مدت تک کوٹلیہ چندر گپت کے وزیر کی حیثیت سے کار گزار رہا۔ کہا جاتا ہے کہ  تمام شاہی عیش وآرام میسر ہونے کے باوجود کوٹلیہ معمولی سی کٹیا میں نہایت سادہ زندگی بسرکرتا تھا۔

کوٹلیہ مصنف بھی تھا۔ممکن ہے اس نے اور بھی کتابیں لکھی ہوںلیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا’ارتھ شاستر‘ کوٹلیہ کی سب سے مشہور کتاب ہے جس کا موضوع علمِ سیاست ہے۔اکثرمحققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ارتھ شاستر 311 ق م سے 300 ق م کے دوران میں تحریر کی گئی ہے۔ بائیس صدیوں تک کوٹلیہ کی یہ کتاب گوشۂ گمنامی میں پڑی رہی۔ارتھ شاستر کے اردو مترجم شان الحق حقی کے مطابق بیسویں صدی کی ابتدا تک اس کتاب کا نسخہ دنیاکی نظروں سے اوجھل تھا۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

’’اگرچہ ارتھ شاستر کا ذکر ہندوستانی ادب اور شاستروں میں خاصے تواتر کے ساتھ آتا ہے لیکن کتاب کا نسخہ اس صدی کے شروع تک نا پید تھا۔ اسے پہلے ڈاکٹرشام شاستری نے دریافت کیا جوراج میسور کی  میوزیم لا ئبریری کے نگراں تھے اور 1909 میں اس کا پہلا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔

(عرضِ مترجم،ارتھ شاستر قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،2010 ص7)

پھر اس کے بعد دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ جیسا کہ کہا گیااس کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان کے مشہور لغت نویس اور مترجم شان الحق حقی نے کیا ہے جو پہلی بار 1991  میں کراچی سے شائع ہوا۔

کتاب ’ارتھ شاستر‘میں پندرہ ابواب ہیں اور ہر باب کئی اجزا پر مشتمل ہے۔ کتاب کی ابتدا ہی میں یعنی باب اول کے شروع ہونے سے پہلے ہی کتاب کی غرض وغایت، موضوع اور مقصد کی وضاحت کی گئی ہے۔لکھا گیا ہے کہ :

’’ یہ ارتھ شاستر ان تمام تالیفات کے خلاصے کے طور پر مرتب کیا گیاہے جو اس عنوان سے قدیم اساتذہ نے ملک گیری و ملک داری کے تعلق سے تحریر کی تھیں۔‘‘

(ارتھ شاستر مترجمہ شان الحق حقی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،2010،ص17)

مولف کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ :

1        کتابِ زیرِ بحث کا موضوع علمِ سیاست اور حکومت ہے۔

2        اس کتاب کی تصنیف یا تالیف کا مقصد مملکت کو حاصل کرنے اور اس کے تحفظ اور توسیع کے طریقوں سے آشنا کرنا ہے۔

3        یہ کتاب اس موضوع پر پہلی کتاب نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی اس موضوع پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ کتاب ان سب کتابوں کا عطرِ مجموعہ ہے۔

یہ کتاب تو بنیادی طور پر علمِ سیاست وحکومت پر مشتمل ہے لیکن اس میں کوٹلیہ نے تمدنی زندگی کی تقریباً ہر جہت پر بحث کر کے اس کے اصول  اورضوابط مقرر کیے ہیں۔مختلف علوم و فنون، فوج کشی، معیشت ،آئینِ حکومت،زراعت، تجارت، صنعت وحرفت، سماجی زندگی، شادی بیاہ، رسم و رواج،ٹوٹکے ،توہمات، علاج و معالجہ، ادویات سازی، فوج کشی، مجرموں کی سزائیں، جاسوسی کے طریقے، راجا کے اوصاف، حکومتی معاہدات اور ریاست کو مستحکم کرنے کے طریقوں جیسے اَن گنت موضوعات پر رہنمایانہ اصول مرتب کر کے کوٹلیہ نے اپنی غیر معمولی فہم وفراست،گہری سیاسی بصیرت،سماجی شعور اور نکتہ دانی ونکتہ رسی کا ثبوت دیا ہے۔ کوٹلیہ کی اس ہمہ گیر فکر اور اس کی حیرت انگیز ذہانت و فطانت پر دنیا حیران ہے۔

کتاب ارتھ شاستر کا پہلا باب راجا کی تربیت اور دستورِ حیات سے متعلق ہے۔اس باب میں راجا اور راجکماروں کی تعلیم وتربیت،منتریوںاور پجاریوں کے تقررات،والیِ مملکت کے فرائض جیسے کئی امور کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔ دوسرا باب عمّالِ حکومت( صوبوں کے حاکموں) کے فرائض پر مبنی ہے۔ تیسرے باب میں مختلف امور کے قوانین  بتائے گئے ہیں۔ چوتھے باب میں کاری گروں اوربیوپاریوں سے نبٹنے،بدمعاشوں کا صفایا کرنے،مجرموںکو رنگے ہاتھ یا شبہے کی بنیاد پر پکڑنے اور اس طرح کے کئی امور سے متعلق اصول وضع کیے گئے ہیں۔ پانچویں باب میں درباریوں کے آداب وقواعد بتائے گئے ہیں۔

چھٹواں باب’ملکی حاکمیت کے وسائل‘ کے عنوان سے ہے جس کے تحت حاکمیت کے بنیادی لوازم، حالتِ امن ا ورمہمات پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے،نیز حلیف اور حریف کی تعریف بیان کرتے ہوئے ان کی خصوصیات بتائی گئی ہیںاور یہ بتایا گیا ہے کہ ان سے کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ ساتویں باب میں چھ حکمت عملیاں اور اس کے مقاصد کی تفصیل بتائی گئی ہے۔کوٹلیہ نے اپنے گرو کے حوالے سے جو چھ حکمت عملیاں بیان کی ہیں وہ یہ ہیں:امن،جنگ، غیر جانبداری،حرکت ،اتحاد اور ایک کے ساتھ صلح تو دوسرے کے ساتھ جنگ۔ان شش گانہ حکمت عملیوں کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ کوٹلیہ کے مطابق انھی چھ حکمت عملیوں کے بر وقت اور درست استعمال سے ریاست کو استحکام اور بقا حاصل ہوتی ہے۔ آٹھویں باب میں مختلف قسم کی زمینی اور آسمانی آفتوں کے اسباب اور ان سے نبٹنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔

نواں باب حملہ کرنے کے وقت، جگہ،اپنی اور دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنے،اندرونی اور بیرونی خطروں کے سدِّباب،جان ومال کے نقصان کے جائزے جیسے امور پر مشتمل ہے۔دسویں باب میں جنگی کارِر وائی کے طریقوں، پیدل اور سوار دستوں کی ذمے داریوں،صف آرائی کی مختلف شکلوں اور دھوکے کی چالوں جیسے جنگ کے دوران میں پیش آنے والے دسیوں معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ فوج کشی اور جنگ کے تمام ممکنہ مسائل کو اس باب میں سمویا گیا ہے۔ گیارھواں باب ریاستی گروہوں سے نبٹنے کے طریقوں پر مشتمل ہے۔بارھویں باب میں طاقتور دشمن سے نبٹنے کے طریقے اور چالیں بتائی گئی ہیں۔ تیرھویں باب میں قلعے فتح کرنے کی تدابیر بتائی گئی ہیں۔

چودھویں باب میں دشمن کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں،پر فریب چالیں ،عجیب وغیب دوائیں ، زہر سازی کے عجیب عجیب نسخے،مختلف زہروں کا توڑ،جادو منتر، ٹونے، ٹوٹکے وغیرہ لکھے گئے ہیں۔ان چیزوں کو پڑھ کر عقل حیران ہو جاتی ہے۔ان ٹوٹکوں، منتروں اور طلسمات کو پڑھ کر آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ پندرھواں اور آخری باب بہت مختصر ہے جو کتاب کے اجزائے متن کی ترتیب وتالیف اور تقسیم پر مشتمل ہے ۔ اس باب کی ابتدا میں ارتھ شاستر کی تعریف کرتے ہوئے کوٹلیہ نے لکھا ہے کہ :

’’انسانی معیشت کا دارو مدار ارتھ یا دولت پر ہے۔ ارتھ دراصل زمین کا نام ہے اور یہی دولت بھی ہے۔وہ علم جو زمین کو حاصل کرنا اور اسے قابو میں رکھنا سکھاتا ہے،ارتھ شاستر ہے۔

(ارتھ شاستر مترجمہ شان الحق حقی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،2010،ص524)             

اس کے بعد کتاب کا متن جن اجزا پر مشتمل ہے ان کی فہرست دی گئی ہے ۔ زبان، صرف ونحو ،ادب وانشا میں استعمال ہونے والی اصطلاحات مثلاً جملہ، تمثیل، کنایہ، دلیل، حذف، اشتقاق وغیرہ کی تصریح وتشریح کی گئی ہے۔کتاب کے اختتامی جملوں میں لکھا ہے کہ یہ کتاب دنیا وآخرت کی بھلائی کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ دھرم،ارتھ اور کام کے حصول کا ذریعہ ہے اور جو باتیں ان کی ضد ہیں ان کو مٹاتی ہے۔کتاب کا آخری جملہ یہ ہے:

’’یہ شاستر اسی کا لکھا ہوا ہے جس نے اپنے جذبے سے شاستر اورشستر ودیّا کو نیا جیون دے کر دھرتی کو نند راجائوں سے چھڑایا۔‘‘(ایضاً ص528)

کتاب کے اس آخری جملے سے اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ کوٹلیہ نند راجائوں سے ناراض تھا اور یہ کہ اس نے نند راجاؤں کی حکومت کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

سولھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں میکیاولی (1469-1527) نام کامشہور مفکر و فلسفی گزرا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میکیاولی سیاست میں کوٹلیہ کی فکر سے بہت متاثر ہے۔اس نے’دی پرنس‘نامی کتاب لکھی ہے۔ اس میں حصولِ مقصد کے لیے تقریباً وہی تدابیر بتائی گئی ہیں جو صدیوں پہلے کوٹلیہ نے اپنی کتاب ارتھ شاستر میں لکھی ہیں۔اسی لیے کوٹلیہ کوانڈین میکیاولی بھی کہا جاتا ہے۔اس مناسبت سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میکیا ولی اٹلی کا کوٹلیہ تھا۔کتاب ارتھ شاستر دنیا میں پہلی بار بیسویں صدی کے دوسرے دہے میں منظرِ عام پر آئی جب کہ میکیاولی سولھویں صدی میں گزرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ارتھ شاستر کا اس کی نظر سے گزرنا تقریباً ناممکن ہے۔اس لیے یہ کہنا  غلط ہے کہ میکیاولی اپنے سیاسی نظریات میں کوٹلیہ سے متاثر تھا، لیکن دونوں کے نظریات میں جو مماثلت ہے وہ بڑی حیرت انگیز ہے۔ زماں ومکاں کی دوری اورزبان و مذہب کے فرق کے باوجود نظریات میںیہ مماثلت اور ہم آہنگی واقعی حیرت انگیز ہے۔

کوٹلیہ کی عیارانہ چالوں، مکارانہ روش، سفاکانہ اصول ،حریصانہ پالیسی، اقتدار کو اپنے قبضے میںرکھنے کے لیے ہر جائز وناجائزطریقوں کو اپنانے کی تعلیم جیسی باتوں کے پیش ِنظراس کی کتاب ارتھ شاستر اور خود اس کی ذہنیت ہدفِ تنقید بھی بنتی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوٹلیہ نے بائیس صدیوں قبل نظامِ حکومت کے لیے وسیع اور بسیط ضابطہ مدون کیا ہے۔ یہ ایسا ضابطہ ہے جس میں انتظامِ مملکت اور سماجی زندگی سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو چھوٹ گیا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بہت سے اصول وضوابط اخلاقی اور انسانی نقطۂ  نظر سے قابلِ تنقید ضرور ہیں۔

کوٹلیہ کے ایسے کئی اقوال مشہور ہیں جن میں حکمت اور دانائی پوشیدہ ہے۔ان میں سے کچھ اقوال یہاں پیش ہیں:

1        دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو، تم اپنی صرف خوبیوں کی بدولت زندہ نہیں رہ سکتے۔

2        اپنے راز کسی کو نہ بتاؤ ورنہ تباہ ہو جائو گے۔

3        کسی بھی شخص کو بہت زیادہ دیانت د ار نہیں ہونا چاہیے۔ سیدھے کھڑے ہوئے درختوں کو پہلے کاٹا جاتا ہے اسی طرح دیانت دار افراد کو بھی پہلے ناکارہ کیا جاتا ہے۔

4        انسان اپنی پیدائش سے نہیں اپنے کارناموں سے عظیم بنتا ہے۔

5        تعلیم بہترین دوست ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کی ہر جگہ عزت کی جاتی ہے۔ تعلیم خوبصورتی اور جوانی کو شکست دے دیتی ہے۔

6        ایک بدمعاش بیٹا سارے کنبے کو تباہ کر دیتا ہے.

کوٹلیہ کی موت 283  ق م میں ہوئی۔اس کی موت کے بارے میں مختلف روایتیں مشہور ہیں۔ایک یہ کہ چندر گپت موریا کی بیوی ملکہ ہیلینا نے اسے زہر دے کر قتل کروایا۔ دوسری کہانی کے مطابق راجا چندر گپت کی پہلی بیوی کے بیٹے راجا بندو سار کوجب یہ معلوم ہوا کہ اس کی ماں کی موت کا ذمے دار کوٹلیہ ہے تو بندو سار بہت غضب ناک اور غمگین ہو گیا۔اس کے دل میں کوٹلیہ سے سخت نفرت پیدا ہوگئی ۔بندو سار نے اسے خدمات سے سبکدوش کر کے کئی دن تک بھوکا رکھااور اسی میں اس کی موت واقع ہو گئی۔گویا راجا نے اسے بھوک مری کی سزا دی۔ایک تیسری روایت کے مطابق راجا بند وسار کے وزیر نے کوٹلیہ کو زندہ جلا دیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجا بندو سار کا وزیر، کوٹلیہ کی قابلیت اور شہرت سے جلتا تھا۔اسی لیے وہ راجا بندوسارکے دل میں کوٹلیہ سے نفرت پیدا کر کے اس کو موت کے گھاٹ اتروانے میںکامیاب ہوا۔ قدیم بھارت کا مشہور حکمراں اشوکِ اعظم (م: 232 ق م) اسی راجا بندو سار کا بیٹا تھا۔

 

Prof. Maqbool Ahmad Maqbool

Dept.of Urdu

Maharashtra Udayagiri Collge

UDGIR-413517

Dist: Latur (M.S)

Mob:9028598414E

mail:maqboolahmedmaqbool@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...