25/11/24

ابن قتیبہ کا تصور ادب، مضمون نگار: محمد شہباز عالم

 اردو دنیا، اکتوبر 2024

ابن قتیبہ (وفات:889) صرف ایک مؤرخ، فقیہ اور ادیب ہی نہیں تھے، بلکہ ان کے نظریات نے اسلامی علوم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کی تصانیف جیسے’عیون الاخبار‘ اور ’ادب الکاتب‘ نے ادب کو ایک اخلاقی، تعلیمی اور سماجی فریضے کے طور پر پیش کیا۔ ادب، ابن قتیبہ کے نزدیک، نہ صرف جمالیاتی پہلوؤں کا مظہر تھا، بلکہ یہ ایک ایسا وسیلہ تھا جس کے ذریعے اخلاقی و معاشرتی اقدار کو فروغ دیا جاتا تھا۔

ابن قتیبہ کی پیدائش 828میں عراق کے شہر کوفہ میں ہوئی، جو اس وقت اسلامی علوم و فنون کا ایک اہم مرکز تھا۔ ان کے والد قاضی تھے، اور اس علمی ماحول نے ابن قتیبہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنے والد اور دیگر اساتذہ سے علم حاصل کیا اور عربی زبان، ادب، نحو، فقہ، اور حدیث کے علوم میں مہارت حاصل کی۔

ابن قتیبہ کی زندگی کا بیشتر حصہ بغداد میں گزرا، جو عباسی خلافت کا علمی مرکز تھا۔ بغداد میں ابن قتیبہ نے نہ صرف علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی، بلکہ وہ یہاں مختلف علمی اور تعلیمی اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ بغداد میں قیام کے دوران ان کی ادبی، فقہی اور تاریخی تصانیف نے اسلامی علوم میں نئی جہتوں کو متعارف کروایا۔

ابن قتیبہ کی اہم تصانیف میں ’عیون الاخبار‘، ’ادب الکاتب‘ اور ’تاویل مختلف الحدیث‘ شامل ہیں۔ ’عیون الاخبار‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ادب، تاریخ، اور اخلاقیات کا امتزاج ملتا ہے، جبکہ ’ادب الکاتب‘ نے اسلامی ادب میں ایک نئی روح پھونکی اوراہل قلم کے لیے ایک عملی رہنما کتاب ثابت ہوئی۔

اسلامی کلاسیکی دور میں ’ادب‘ کی اصطلاح بہت وسیع اور جامع تھی۔ ادب کا مطلب صرف فنون لطیفہ یا زبان و بیان کی مہارت تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس کا دائرہ اخلاقیات، سماجی آداب اور معاشرتی اصولوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اسلامی معاشرتی نظام میں ادب کا ایک اہم مقصد لوگوں کو اخلاقی تربیت دینا اور ان کی شخصیت کو معاشرتی معیار کے مطابق ڈھالنا تھا۔ ابن قتیبہ اس تصور کے ایک اہم ترجمان تھے۔

ابن قتیبہ کے نزدیک ادب کا مقصد محض زبان و بیان کی خوبیوں کو اجاگر کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا ذریعہ تھا جس کے ذریعے انسانوں کی اخلاقی اصلاح ممکن تھی۔ انھوں نے ادب کو سماجی، سیاسی اور اخلاقی مسائل کے حل کے لیے ایک موثر وسیلہ سمجھا۔ ان کی کتب میں اخلاقی نصائح اور معاشرتی اصلاح کے پہلوؤں کو نمایاںطور پر بیان کیا گیا ہے۔

ابن قتیبہ کے نزدیک ادب کا ایک اہم پہلو اس کی اخلاقی حیثیت تھی۔ ادب کے ذریعے معاشرتی اصلاح ممکن تھی اور لوگ اپنی زندگیوں میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ادب کو وہ محض ایک تفریحی سرگرمی کے بجائے ایک اصلاحی آلہ سمجھتے تھے۔

عیون الاخبار‘ ابن قتیبہ کی اہم تصانیف میں سے ایک ہے جو ادب اور تاریخ کا ایک حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اخلاقی نصائح اور حکمت آموز حکایات شامل ہیں۔ ابن قتیبہ نے اس کتاب میں مختلف سیاسی، سماجی اور اخلاقی موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ کو ایک ایسی اخلاقی تعلیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے لوگ عبرت حاصل کر سکیں۔

ادب الکاتب‘ ابن قتیبہ کی دوسری اہم تصنیف ہے جو لکھنے والوں کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے زبان کی درستگی، فصاحت اور بیان کی خوبصورتی پر زور دیا ہے۔ ابن قتیبہ کے نزدیک ایک قلم کار کا کام صرف الفاظ کے انتخاب میں مہارت کا مظاہرہ نہیں تھا، بلکہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری بھی ضروری تھی۔ ان کے نزدیک قلم کار کو اپنے علمی کام میں صداقت اور اخلاقی معیارات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

تاویل مختلف الحدیث‘ ابن قتیبہ کی ایک اور اہم تصنیف ہے جس میں انھوں نے حدیث کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ہے۔ اس کتاب میں ابن قتیبہ نے اسلامی علوم میں تنقیدی فکر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اس کی درستگی اور تحقیق پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ابن قتیبہ کے نزدیک ادب کا ایک اہم مقصد معاشرتی اصلاح تھا۔ ان کی تصانیف میں یہ پہلو نمایاں طور پر سامنے آتا ہے کہ ادب کے ذریعے نہ صرف لوگوں کی تفریح کی جائے، بلکہ ان کی اصلاح بھی کی جائے۔ ’عیون الاخبار‘ اور ’ادب الکاتب‘ میں انھوں نے مختلف تاریخی واقعات اور حکایات کے ذریعے لوگوں کو اخلاقی اور سماجی اصلاح کے اصول بتائے ہیں۔

ابن قتیبہ کے نزدیک تعلیمی نظام میں ادب کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کے نزدیک ادب ایک ایسا فریم ورک تھا جس کے ذریعے تعلیمی اور اخلاقی اصولوں کی تربیت دی جا سکتی تھی۔ ابن قتیبہ نے اس بات پر زور دیا کہ علم کا مقصد صرف ذہنی مشقت نہیں، بلکہ اخلاقی تربیت بھی ہے۔

ابن قتیبہ کی علمی اور ادبی خدمات کا سب سے اہم پہلو ان کا عربی نثر پر گہرا اثر ہے۔ ان کی تصانیف نے عربی ادب کو ایک نیا رخ دیا، خاص طور پر نثر کی روایت کو مضبوط کیا۔ عربی ادب کے عہدِ زریں میں ان کی تصانیف کو بے حد سراہا گیا اور ان کے کاموں نے بعد میں آنے والے مصنفین، ادبااور دانشوروں کو متاثر کیا۔ ابن قتیبہ نے ادب کو صرف جمالیات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے سماجی، اخلاقی اور تعلیمی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ ان کا اسلوب سادہ، عام فہم اور پراثر تھا، جس نے انہیں عوام میں بھی مقبول کیا۔

ان کی تحریریں ادب کے مختلف شعبوں پر محیط تھیں، جس میں تاریخ، فقہ، اخلاقیات، اور تعلیم شامل تھے۔ ان کی تصانیف نے اسلامی دنیا میں علمی مکالمے کی روایت کو فروغ دیا، اور ان کے ادبی و فکری کاموں کو علمی دنیا میں ایک مستقل مقام ملا۔ ’ادب الکاتب‘ میں ان کے بیان کردہ اصولوں نے نہ صرف اس زمانے کے لکھنے والوں کو متاثر کیا، بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے نظریات کو ادب کی تعلیم و تدریس میں ایک بنیاد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

ابن قتیبہ کی فکر اور نظریات آج کے جدید دور میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی کہ ان کے اپنے وقت میں تھی۔ موجودہ دور میں، جہاں ادب، تاریخ، اور فلسفہ کی فکری بنیادیں تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہیں، ابن قتیبہ کے تصورِ ادب کی اخلاقی اور سماجی حیثیت کا احیا اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ادب اور علم کا اصل مقصد انسانیت کی اخلاقی تربیت ہے اور معاشرتی بھلائی کے لیے اسے ایک ذریعہ بنایا جانا چاہیے۔

ابن قتیبہ کا زور ہمیشہ علمی اصولوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی معیارات پر بھی رہا ہے۔ آج کے دور میں جب ادب کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، ابن قتیبہ کی فکر ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ادب کی ایک سماجی اور تعلیمی ذمے داری بھی ہے۔ ان کی تصانیف ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے ادب کو استعمال کیا جانا چاہیے اور یہ کہ ادب کا مقصد لوگوں کو اخلاقی تعلیم دینا بھی ہے۔

ابن قتیبہ کے نظریات موجودہ علمی و ادبی معاشرے میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ علمی و ادبی دنیا میں جب سماجی اور اخلاقی مسائل پر غور کیا جاتا ہے تو ابن قتیبہ کے نظریات کو رہنما کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو صرف زبان کی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ سماجی ترقی کے لیے بھی ایک اہم وسیلہ سمجھا جانا چاہیے۔

آج کے تعلیمی نظام میں ابن قتیبہ کی فکر کو اپنانا اور اسے علمی معاشروں میں نافذ کرنا تعلیمی نظام کی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کے تصورات اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ تعلیمی نصاب میں ادب کی اخلاقی اور تعلیمی اہمیت کو مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے، تاکہ طلبانہ صرف علمی مہارت حاصل کریں، بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہوں۔

جدید دنیا میں، جہاں ادب کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے، ابن قتیبہ کی فکر ہمیں ادب کے ساتھ اخلاقیات کے گہرے تعلق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ انھوں نے ادب کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا جو معاشرتی اقدار کو فروغ دینے اور سماجی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آج کے دور میں، جب ادب کو ایک ثقافتی اور سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، ابن قتیبہ کا تصور ادب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ادب کو اخلاقیات اور سماجی فلاح کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

ابن قتیبہ کے نزدیک ادب کی تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو فرد کی شخصیت کو نکھارتا ہے اور اسے معاشرتی و اخلاقی معیارات کے مطابق ڈھالتا ہے۔ آج کے دور میں بھی، جب کہ دنیا مختلف سماجی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہی ہے، ابن قتیبہ کی فکر ایک رہنما کے طور پر سامنے آتی ہے اور ہمیں ادب کی اخلاقی اور تعلیمی ذمے داریوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

آج کے دور میں بھی ابن قتیبہ کی فکر اور نظریات ادب کے میدان میں ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ادب کا مقصد نہ صرف تفریح فراہم کرنا ہے، بلکہ معاشرتی اصلاح اور اخلاقی تربیت کرنا بھی ہے۔ ابن قتیبہ کا تصورِ ادب آج کے جدید دور میں بھی ایک ایسی روشنی فراہم کرتا ہے جو ہمیں ادب کے اصل مقصد کو سمجھنے اور اس کے ذریعے معاشرتی بھلائی کو فروغ دینے میں معاون بن سکتی ہے۔

ابن قتیبہ کے ادب اور اخلاقیات پر مبنی نظریات آج بھی اسی طرح اہمیت رکھتے ہیں جیسا کہ ان کے اپنے وقت میں تھے۔ ان کی تحریریں اور نظریات علمی و ادبی دنیا میں ادب کے مقام و مرتبے کو نہ صرف واضح کرتے ہیں، بلکہ اس کے ذریعے معاشرتی اور اخلاقی فلاح و بہبود کو بھی فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔

حوالہ جات

1        عبداللہ ابن قتیبہ: عیون الاخبار، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1986

2        عبداللہ ابن قتیبہ: ادب الکاتب، تحقیق: محمد التنجی، بیروت، دارالفکر، 1996

3        عبداللہ ابن قتیبہ: تاویل مختلف الحدیث  القاہرۃ: دارالکتب العلمیۃ 2006

4.       Kennedy, Hugh: The Early Abbasid Caliphate: A Political History, London: Croom Helm, 1981.

5.       Lecomte, Gérard. "Ibn Qutaybah.": Encyclopaedia of Islam, Second Edition, edited by P. Bearman, Th. Bianquis, C.E. Bosworth, E. van Donzel, and W.P. Heinrichs. Leiden: Brill, 1986.

6        محمد عابد:  اسلامی فکر میں ادب کا مقام، دارالعلم، کراچی 2010

7.       Rosenthal, Franz: Knowledge Triumphant: The Concept of Knowledge in Medieval Islam,  Leiden: Brill, 1970.

8.       Lyons, Jonathan: The House of Wisdom: How the Arabs Transformed Western Civilization, New York: Bloomsbury Press, 2009.

9.       Ashtiany, Julia, et al., editors. :Abbasid Belles Lettres (The Cambridge History of Arabic Literature)., Cambridge University Press, 1990

 

Mohammad Shahbaz Alam

Dept of Arabic

Sitalkuchi College, Sitalkuchi

Cooch Behar- 736158 (West Bengal)

Mob.: 9064502370

shahbazslkc@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...