اردو دنیا، اکتوبر 2024
ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی
زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف زبان تک محدود رہے
بلکہ اِس نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ مثلاً ہندوستانی ناموں کے
بجائے ایرانی ناموں کا رواج عام ہونے لگا، کھانے پینے کی اشیا کے نام، رشتوں کے
نام، متعدد جگہوں کے نام، پھولوںا ور
پھلوں کے نام، اعضائے بدن، اسمائے بلاد و رجال،سواری او ر سفر میں کام آنے والی
اشیا کے اسما، ہندوستانی پیشہ و پیشہ وروں، عہدوں، عدلیہ و قانونی اصطلاحات، موسیقی،
تعمیراتی، معماری، تحریری اور کتابی اصطلاحات وغیرہ بھی ایرانی طرز پر استعمال
ہونے لگیں۔پروفیسر نذیر احمد1 نے اپنے مقالے میں ہندوستانی نام جو فارسی سے مستعار
ہیں، پر نہ صرف تفصیلی بحث کی ہے بلکہ ان اسما کی ایک طویل فہرست بھی پیش کی ہے۔ذیل
میں چند اسما بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں:
پرویز، دلنواز، آفتاب، ماہتاب، شاہنواز،شہریار، اورنگزیب،جمشید،
خورشید،فیروز، شیر خان،بہادر شاہ، دریا خان، خسرو، منیژہ، ناہید، نسرین، زینب، صغریٰ
، نوشین، شاہین، زرینہ، فرزانہ، نورجہاں،دردانہ، فاطمہ، آذرمیدخت، پروین، نسیم،
وغیرہ۔
اسی طرح اردو میں انسانی اعضائے بدن کے اسما بھی فارسی
سے مستعار ہیں۔ مثلاً: پیشانی، ناخن، خون، سینہ، دل ، پلک، بازو، خون، پنجہ، گردن،
کمر، سر، زبان ، حلق ، آبرو، مژگان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
غذا اور خوراک وغیرہ کے اسما: گوشت، سبزی، نان، چپاتی،
قیمہ، کوفتہ، دسترخوان، نہاری، یخنی، شیر ، بریانی، دم پخت، حلیم، قورمہ، دوپیازہ،
زردہ، پلائو، فالودہ وغیرہ۔
رشتے و رشتے داروں کے نام: داماد، باجی، بابا، برادر،
زوجہ، شوہر، پھوپھی زاد، خالہ،خالو،برادر نسبتی،
ہمشیرہ چچا زاد، خالہ زاد وغیرہ۔
ہندوستانی خطابات:
سالار جنگ، بہادر جنگ، آصف جنگ، شمشیر جنگ، خان بہادر، رائے بہادر، اور یاور
جنگ وغیرہ۔
ہندوستانی لباس وغیرہ کے متعلقات: عمامہ، پاجامہ، زیر
جامہ،چارجامہ، پوشاک، جراب، موزہ، شیروانی،کف، شلوار، قمیص،ازاربند،سینہ بند، عبا،
قبا، مخمل، پشمینہ، دامن، عرض، خیمہ،زربفت وغیرہ۔
ہندوستانی پھلوں کے نام : سیب، انار، انگور، امرود،
ناشپاتی، خوبانی، شریفہ، بادام، خربوزہ، تربوزہ، ہندوانہ، توت، شہتوت، کشمش وغیرہ۔
ہندوستانی پیشہ وروں کے متعلقات: حلوائی، درزی، حجام،
نانبائی،باورچی، قصاب، گورکن، کتاب فروش، سبزی فروش، ملاح، حلال خور، زرگر،
شتربان، گاڑی بان، پیلبان، قصاب،خانساماںبزاز وغیرہ۔
کھیتی اور زراعت کے متعلق: زمیندار، زمینداری، کاشتکاری،
کاشتکار،گندم، زاید، ربیع، فصل وغیرہ۔
جگہوں کے نام: احمد آباد، حسن آباد، حیدر آباد، فیروزآباد،
شاہجہاں آباد، الہ آباد، غازی آباد، فرخ آباد، فیض آباد، محمود آباد،شمس
آباد،احمد پور، شاہجہاں پور، حسن پور، جونپور، مرزا پور، کانپور، محمد پور وغیرہ۔
گھر وغیرہ کے متعلقات: نعمت خانہ، غریب خانہ، دروازہ،
دہلیز، برآمدہ، غسل خانہ، پاخانہ، چبوترہ، کرسی، تخت، چارپائی،دالان ،طاق، باورچی
خانہ وغیرہ۔
زیور اور خوشبو کی چیزوں کے نام: بازو بند، کمر بند، پا بند، گلوبند، ہار، دست
بند، انگشتری، پازیب، عطر، مشک نافہ، عنبر، زعفران وغیرہ۔
عدالتی اور قانونی اصطلاحات: کاتب، گواہ، ملزم ، شہادت،
گواہی، الزام، وکیل، مؤکل، وکالت، وکالت نامہ، بیعنامہ، رہن نامہ،عدالت، قانون،
مدعی، مدعا علیہ، منصفی، دیوانی،سزا، جرمانہ، ثبوت، حاضر ، حاضری، دستاویز وغیرہ۔
تحریر و کتابت کی اصطلاحات: قلم، دوات، سیاہی، روشنائی،
کتاب ، کاغذ، خط، املا، دستخط، سرورق، پشت، دیباچہ، مقدمہ، باب، سرخی، کتابت، جلد،
متن ، حاشیہ، فصل، سطر، طالب علم، استاد، درس مشق، وغیرہ۔
سواری اور سفر کے سلسلے کے الفاظ: رکاب، رکابدار، زین،
نعل، نعل بندی، راہ، میل، سوار، سواری، دور، نزدیک، راہ گیر،پیادہ، لگام وغیرہ۔
ہندوستانی گالیوں کے کلمات: بدمعاش، حرام زادہ، بے شرم، آوارہ، بے حیا، کمینہ،
بدذات، بیہودہ، احمق، بد بخت بد نصیب، بے شعوروغیرہ۔
تحسین کے کلمات:
شاباش، زندہ باد، سبحان اللہ وغیرہ۔
اردو زبان میں فارسی کے اِس قدر کثیر التعداد الفاظ سے
بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس قدر اِس زبان نے اردو کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو کی شاید ہی کوئی ایسی
تحریر ہو گی جو فارسی الفاظ کی آمیزش سے خالی ہو۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی
چاہیے کہ اردو زبان و ادب پر خالص فارسی کا ہی اثر نہیں ہوا بلکہ فارسی کی بدولت
عربی اور ترکی الفاظ بھی اردو میں شامل ہو گئے۔ لیکن اِس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں
کیا جا سکتاکہ اردو کو سب سے زیادہ فارسی زبان نے ہی متاثر کیا۔ اِس ضمن میں ڈاکٹر
عصمت جاوید اپنی کتاب ’اُردو پر فارسی کے لسانی اثرات‘ کے مقدمہ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اگر
چہ دنیا کی دیگر مخلوط زبانوں کی طرح اردو میں بھی کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے
ہیں... لیکن اِس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اردو نے ایک زبان اور صرف ایک
زبان کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا ہے اور وہ زبان ہے فارسی۔ یہ وہ فارسی ہے جو عربی
سے اپنا خزانہ بھر چکی تھی۔ اِس لیے اردو نے جہاں خود اِس زبان سے بیشتر الفاظ
قبول کیے وہیں اِس کے راستے سے کچھ ترکی اور اکثر و بیشتر عربی الفاظ بھی اردو میںداخل
ہو گئے... فارسی سے ہماری مراد ’’فارسی بحت یا فارسی باستان ‘‘ سے نہیں بلکہ اُس
اسلامی فارسی سے ہے جس پر عربی کی گہری چھاپ ہے‘‘ 2
فارسی نے صرف اردو زبان پر ہی نہیں بلکہ اردو ادب پر بھی
گہرے اثرات مرتب کیے۔ اردو کی تمام اصناف سخن یا تو براہِ راست فارسی سے مستعار ہیں
یا اگر عرب کی تخلیق ہیں تب بھی فارسی کے ذریعے ہی اردو میں داخل ہوئیں۔مثلاً قصیدہ
، غزل، مثنوی اور رباعی وغیرہ کا اردو ادب میں اچھا خاصا رواج ہے لیکن یہ اصناف بھی
فارسی کے توسل سے ہی اردو میں داخل ہوئیں۔ اِن اصناف کا طرز تحریر ، تشبیہات و
استعارات بلکہ اکثر و بیشتر اصطلاحات بھی فارسی سے ماخوذ ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں
امیر خسرو دہلوی کو اردو شاعری کا بابائے آدم سمجھا جاتا ہے۔ ان کے یہاں فارسی
تشبیہات و استعارات کے علاوہ متعدد غزلیات کے پورے پورے مصرعے فارسی زبان میں پائے
جاتے ہیں۔ ذیل میں چند اشعار بطورِ نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔3
زرگر پسرے چو ماہ پارا
کچھ گھڑیے، سنوریے پکارا
نقدِ دلِ من گرفت و بشکست
پھر کچھ نہ گھڑا نہ کچھ سنوارا
خسرو کی ایک اور غزل جو آج بھی اپنی شہرت کا لوہا
منوائے ہوئے ہے،اِس طرز کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے
جاتے ہیں۔4
ز حال مسکین مکن تغافل دو راہ نیناں بلائے بتیاں
چو تاب ہجراں ندارم ای جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے کہ جا سناوے پیارے پی سے ہماری بتیاں
شبان ہجران دراز چون زلف و روز وصلت جو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوںتو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
چو شمع سوزاں چوذرہ حیراں ہمیشہ گریاں بعیش آں مہ
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسرو
پست من کی دو راہے راکھوں جو چاے پائوں پیا کی کھتیاں
اسی طرح اگر اردو کے کسی
بھی شاعر کا کلام دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے نہایت ہی خوش اسلوبی کے
ساتھ فارسی شعرا کی پیروی کی ہے۔ نمونے کے طورپر اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کی
ایک غزل کے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیںجس کے تقریباً ہر مصرعے میں فارسی اصطلاحات
اور تشبیہات و استعارات کی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔5
مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگان کیے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریبان کیے ہوئے
پھر گرم نالہ ہائے شرر بارہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسشِ جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں خامہ مژگاں بہ خونِ دل
ساز چمن طرازی دامان کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جان کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشان کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیرِ بار منتِ درباں کیے ہوئے
مذکورہ غزل کے علاوہ دیوان غالب میں فارسی الفاظ ،
اصطلاحات، تراکیب، تشبیہات و استعارات سے بھرا پڑا ہے۔ نمونے کے طورپر ذیل میں چند
اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
غالب کے علاوہ میر تقی میر، مصحفی، حالی، اور علامہ
اقبال وغیرہ کی شاعری میں بھی فارسی الفاظ بلکہ تراکیب، اصطلاحات، تشبیہات و
استعارات کی بھرمار ہے۔ اردو شعرا نے فارسی شعرا کی پیروی کرتے ہوئے اِن کی ہی
اصطلاحات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا مثلاً
کاغذین جامہ یا کاغذین پیرہن عجز و انکساری کی علامت ہے۔ یہ وہ لباس ہوتا
ہے جسے فریادی پہن کر بادشاہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور بادشاہ اِن کی خستہ حالی
پر ترس کھا کر انھیں کچھ نوازتا ہے لیکن شاعری میں فریادی سے مراد عاشق اور بادشاہ
سے مراد معشوق ہوتا ہے۔ یہاں عاشق کی حالت زار کو دیکھ کر محبوب ترس کھاتا ہے اور
اسے وصل کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔ فارسی شاعری میں کاغذین جامہ یا پیرہن کی
اصطلاح بہت معروف ہے، جسے خاقانی شیروانی ، کمال اسماعیل اور حافظ شیرازی نے اپنے
اشعار میں نہایت ہی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ خاقانی اورحافظ شیرازی کا ایک ایک
شعر نمونے کے طورپر پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس اصطلاح کا استعمال ہوا ہے ؎
حاسدانم چون ھدف بین کاغذین جامہ کہ من
تیر شحنہ از پی امن شبان آوردہ ام
—خاقانی
کاغذین جامہ بہ خونابہ بشویم کہ فلک
رہ نمونیم بپای علم داد نکرد
—حافظ
اردو شعرا نے بھی اس اصطلاح کو اپنے اشعار میں نہایت
خوبی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اِس ضمن میں غالب کے دو اشعار بطور نمونہ پیش کیے
جاتے ہیں جن میں فارسی شعرا کی پیروی کرتے ہوئے اِس اصطلاح کو نہایت ہی خوبی کے
ساتھ استعمال کیاہے:6
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر تصویر کا
پہنے ہے پیرہن کاغذ ابر نیساں
یہ تنک مایہ ہے فریادی عبرشِ ایثار
اردو شاعری میں اس طرح کی مثالیں اکثر وبیشتر شعرا کے
کلام میں ملتی ہیں۔شاعری کے علاوہ اردو نثر پر بھی فارسی زبان کے گہرے اثرات مرتب
ہوئے۔فارسی نثر میں مسجع و مقفیٰ عبارت کے ابتدائی نقوش خواجہ عبداللہ انصاری اور
سعدی شیرازی کی نثری تصانیف میں ملتے ہیں۔اِس طرز تحریر پر بعد کے نثر نگاروں نے
بھی طبع آزمائی کی جو اِن کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا ۔آگے چل کراردو کے ادیبوں نے
بھی اس روش کی پیروی کی جس کی بدولت اردو نثر میں بھی اس کے نمونے دیکھنے کو ملتے
ہیں۔مثلاً ملا وجہی کی تصنیف ’سب رس‘ اردو کی پہلی داستان جو مسجع و مقفیٰ عبارت کی
بہترین مثال ہے۔اِس اسلوب نگارش سے ہٹ کر اردو نثر کی متعدد ایسی عبارتیں بھی ملتی
ہیں جن میں اردو کے بجائے فارسی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ اردو نثر کے
کئی شہ پاروں کے شروع یا آخر میں اردو کے چند الفاظ کا استعمال ہوا ہے اور بقیہ
عبارت میں فارسی الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ اِس قسم کی تحریروں میں میر تقی میر کی
ایک نثری عبارت کا کچھ حصہ بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے جس میں اکثر و بیشتر فارسی
الفاظ کا استعمال ہوا ہے:7
’’ضمیر
منیر پر آئینہ داران معنی کے مبرہن ہو کہ محض عنایت حق تعالٰے کی ہے جو طوطی
ناطقہ شیرین سخن ہو، پس یہ چند مصرعے کہ از قبیل ریختہ در ریختہ خامہ رو زبان انہی
سے صفحہ کاغذ پر تحریر پائے، لازم ہے کہ تحویل سخن سامعہ سنجان روزگار کرون تا
زبانی ان اشخاص کے ہمیشہ مورد تحسین و آفرین رہوں‘‘
اسی طرح غالب کے خطوط میں بھی جہاں ایک طرف فارسی الفاظ
کی بوچھاڑ ہے تو وہیں اِن کے بیشتر خطوط میں فارسی اشعار بھی پائے جاتے ہیں۔ اشعار
سے قطع نظر ایک خط کی چند سطور بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں، جن میں نہ صرف فارسی
الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے، بلکہ مقفیٰ نثر کی چاشنی بھی محسوس ہوتی ہے:8
’’
اب روئے سخن حضرت صاحب عالم کی طرف ہے خدمت خدام مخدوم
خادم نواز میں بعد تسلیم معروض ہے۔ تفقد نامہٗ نامی میں صورت عز و شرف نظر آئی۔
اللہ اللہ تم نے میری نظر میں میری آبرو بڑھائی۔ حضرت کی قدردانی کی کیا بات ہے۔
آپ کا التفات موجب مباہات ہے۔ یہ بات بطریق طی لسان زبان پر آئی ہے ورنہ قدردانی
کیسی یہ قدر افزائی ہے۔ نظیری علیہ الرحمہّ کا شعر ایک کاغذ پر لکھ کر میرے گلے میں
ڈال دیجیے اور زمرہٗ شعرا میں سے مجھ کو نکال دیجیے۔‘‘
اسی طرح مرزا مظہر جان جاناں کی خدمت میں انشاء اللہ خان انشا کی ایک درخواست سے اقتباس نقل کیا
جاتا ہے جس میں فارسی الفاظ کا استعمال کثرت سے ملتاہے :9
’’
ابتدائے سن صبا سے اوائل ریعان اور اوائل ریعان سے الی
الآن اشتیاق مالایطاقِ تقبیل عتبہ عالیہ نہ بحدے تھا کہ سلک تحریر میں منتظم ہو
سکے لہذا بے واسطہ و وسیلہ حاضر ہوا ہوں۔‘‘
مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں بہ آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا
جاسکتا ہے کہ فارسی نے نہ صرف اردو زبان کو بلکہ ارد و ادب کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر کوئی گوشہ
ایسا نہیں ہے جو فارسی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ممکن ہے ڈاکٹر قاری سید کلیم اللہ حسینی
صاحب کے پیش نظر بھی یہی وجوہات رہی ہوں جن کی بنا پر اُنہوں نے اپنی کتاب زبان
فارسی کا اثر زبان اردو پر، اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے :10
’’فارسی
نے اردو پر اپنا اتنا گہرا اثر ڈالا کہ اِس کو بالکل ہی مغلوب کر لیا اور دونوں ایک
دوسرے میں ضم ہو گئے اور اردو کی صرف و نحو اور قواعد کی کتابیں بھی فارسی طرز پر
لکھی گئیں‘‘
حواشی
1 فارسی
اور ہندوستان ،ڈاکٹر نذیر احمد،خدا بخش خطبات 1974، ص 9-16
2 مقدمہ
اردو پر فارسی کے اثرات، ڈاکٹر عصمت جاوید، مہاراشٹر پرنٹنگ اسکول سداشیو پیٹھ۔
پونا، 1987، ص 10
3 خسرو
شناسی،مرتبین، ظ۔انصاری، ابو الفیض سحر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1975،
ص216
4 خسرو
شناسی،مرتبین، ظ۔انصاری، ابو الفیض سحر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1975،
ص 245
5 دیوان
غالب،مرتبہ غلام رسول مہر،علی پرنٹنگ پریس لاہور۔ 1967، ص 289-90
6 دیوان
غالب، مرتبہ غلام رسول مہر،علی پرنٹنگ پریس لاہور۔ 1967، ص 20
7 زبان
فارسی کا اثر زبان اردو پر،ڈاکٹر قاری سید کلیم اللہ حسینی ، 1954، ص 27
8 ادبی
خطوط غالب: جناب مرزا محمد عسکری صاحب،
نظامی پریس وکٹوریہ اسٹریٹ ، 1929، ص 32
9 زبان
فارسی کا اثر زبان اردو پر،ڈاکٹر قاری سید کلیم اللہ حسینی ، 1954، ص 27
10 ایضاً، ص 6-7
Ali Zahid Malik
Research Scholar, Dept of Prsian
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202002 (UP)
Mob.: 9797552503
zahidamu93@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں