29/11/24

سائبر پنک لٹریچر( مشینی دور کا نیا ادبی رجحان)، مضمون نگار: خواجہ محمد اکرام الدین

 اردو دنیا، نومبر 2024

اکیسویں صدی کی تیسری دہائی نے تخلیقی ادب کو ایک نیا رجحان دیا ہے۔ یہ دراصل ٹیکنالوجی کے بڑھتے دائرۂ اثر اور بازاری دنیا سے کارپوریٹ دنیا میں  صارفیت کی اجارہ داری اور انسانی ذہن کے دوش بدوش مصنوعی ذہانت کی بالادستی نے انسانی معاشرے کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جسے ہم انسان اور مشین کے انضمام کا دور کہہ سکتے ہیں۔ آن لائن دنیا میں انسانی اور ڈیجیٹل تعاملات یا اشتراک اور برقی لین دین کی وجہ سے انسان اور مشین کے درمیان ایک حیرت انگیز طور پر  فرق مٹ رہا ہے۔ ایسے اقتصادی اور ثقافتی ماحول میں ادب کا تخلیقی رویہ کئی جہتوں سے تبدیل ہوا ہے۔

اس نئے رجحان کی افہام و تفہیم سے قبل یہ پیش نظر رہے کہ اد ب خواہ کسی بھی دور کا ہو اس میں معاصر عہد کا عکس کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتا ہے اور بہت نمایاں طور پر موجود ہوتا ہے، کیونکہ ادب خلا میںپید ا نہیں ہوتا ادب کی تخلیق ہم عصر معاشرے کے مزاج، اس کے  تقاضے، مطالبات اور رجحانات پر ہوتی ہے  کیونکہ مصنف یا تخلیق کار اپنے سماج اور معاشرے سے ہی سے مواد حاصل کرتا ہے۔ لہٰذاجیسا معاشرہ ہوگا ویسا ہی ادب تخلیق ہوگا۔ ماورائی اور تخیلاتی د نیا سے زندگی  کی اصل تصویر کشی، انسان اور انسانی زندگی کی تفہیم و تعبیر کی گتھیوں کو سلجھانے کی کاوشوں  تک کا سفر، ادب  کے تخلیقی رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تخلیقی سطح پر یہ تمام تبدیلیاں   فطری بھی معلوم ہوتی ہیں۔

لیکن اس کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ادب کیا ہے اور تخلیق کیا ہے ؟ ادب کے  بارے میں کہا جاتاہے کہ تحریر کی اعلیٰ شکل جس میں احساسات و تجربات، مشاہدات، تفکرات اورتخیلات کو جمالیاتی انداز میں پیش کیا گیا ہو وہ ادب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’شعر وادب تفسیر زندگی بھی ہے اورتصویر زندگی بھی‘۔ ایک  لسانی حقیقت یہ بھی ہے کہ زبان کسی خاص خطے کی نمائندہ  ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اس مخصوص خطے کا ادب اپنے مخصوص علاقے کے تہذیب و تمدن کا ہی عکاس ہوتا ہے۔ اس کلیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادب میں علاقے اور خطے کے تہذیب و تمدن کی پیشکش  لازمی ہے۔ اس  لحاظ سے دیکھیں تو اکیسویں صدی کے تخلیقی   ادب میں ایک نمایاں تبدیلی  یہ آئی ہے کہ اس میں گلوبل دنیا کی عکاسی او ر ترجمانی اس طرح ہورہی ہے کہ اس میں کسی مخصوص خطے کے بجائے عالمی گاؤں کی ترجمانی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ٹیکنالوجی کا غلبہ اور کارپوریٹ ورلڈ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ  ادب کو بھی متاثر کررہا ہے۔ سائنس فکشن کی تیزی سے مقبولیت در اصل تفریحی ادب کی تخلیق کے ذریعے حصولِ زر اہم مقصد بن گیا ہے اور اب سائبر پنک لٹریچر نے ایک نیا ادبی رجحان اور رویہ  پیش کیا ہے۔ ادب انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو معاشرتی بیانیہ ہے۔ ہر دور میں انسانی ذہن معاشرتی ترقی اور نشیب و فراز کے تحت اثر پذیر ہوتا ہے۔ نتیجتاً ادبی رویے اور رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں۔عصر حاضر میں ادب کے بدلتے تخلیقی رویے  دراصل ہم عصر معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کا اشاریہ ہیں۔

موجودہ دور برقی وسائل کی ان  ترقیوں کا دور ہے جو وہم و گمان سے بھی پرے ہے، جس تیزی سے ٹیکنالوجی ہمیں حیرت زدہ کررہی ہے، اسی تیزی سے ہماری زندگی کو بھی متاثر کررہی ہے۔ ادب میں تنقیدی نظریات ادب کی پرکھ کے لیے ہیں اور تخلیقی رجحانات معاشرتی ترقی کا اشاریہ ہیں، اس لیے بدلتے دور کے تمام تخلیقی رجحانات ورویے کو سمجھے بغیر ادب کی قدرو قیمت کا تعین مشکل امر ہے۔ آج کے سائبر دور نے ادبی تخلیق کو ایک نئی سمت دی ہے۔ بالکل ایک نیا رجحان عالمی ادب میں سامنے آرہاہے۔ اسے ’سائبر  پنک لٹریچر‘ کہا جاتا ہے۔

اردو ادب کے سرمائے کو اگر دیکھیں تو آج کی جو اصطلاح سامنے آرہی ہے وہ تو موجود نہیں، لیکن اردو میں ایسے تخلیقی سرمایے موجود ہیں جو آج کے سائبر پنک لٹریچر کے دائرے میں آتے ہیں۔ ( اردو میں اس تخلیقی رجحان اور  اس سرمایے پر آگے گفتگو ہوگی)

سائبر پنک لٹریچر

سائبر پنک لٹریچر جدید دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ممکنہ نتائج پر غور کرنے کا ایک تخلیقی زاویہ ہے۔ سائبر پنک کی اصطلاح ’سائبرنیٹک‘  اور ’پنک‘ کے مجموعے سے بنی ہے۔ ’سائبرنیٹک‘ کا تعلق کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سے ہے، جب کہ ’پنک‘ ایک ثقافتی تحریک کی نمائندگی کرتا ہے جو عام طور پر سماجی اصولوں اور روایات کے خلاف ہوتی ہے۔ سائبر پنک کی کہانیوں میں ایک طرف انتہائی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی دکھائی جاتی ہے، جب کہ دوسری طرف سماجی ناانصافی اور اخلاقی بحران کی صورت حال بیان کی جاتی ہے۔ (ماخوذ: برقی وسائل کے حوالے  )

یہ ایک نئی  ادبی صنف ہے یا تخلیقی رجحان ہے جو مستقبل کی ٹکنالوجی، ڈیجیٹل کلچر اور سائبرنیٹکس (Cybernetics) کے مسائل کو موضوع بناتا ہے۔ سائبرنیٹکس کے لغوی معنی  ’’مشینوں اور جانداروں دونوں میں مواصلات اور خودکار کنٹرول سسٹم کا سائنس ہے۔‘‘(بحوالہ آن لائن انگلش ارود ڈکشنری)  اور ادبی اصطلاح میں سائبرنیٹکس ایک نئی اصطلاح ہے جس کے تحت  معنی بین العلومیت ، بین موضوعاتی تحریر و تخلیق کا تجربہ کیا جاتاہے جومتعدد سیاق وسباق کا حامل بھی ہوتا ہے جیسے ماحولیاتی، تکنیکی، حیاتیاتی، علمی اور سماجی نظام اور برقی وسائل کی عملی سرگرمیاں اس میں مطالعے میں خصوصی طور پر شامل ہوتی ہیں۔ ڈیجیٹل عہد میں ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ فیڈ بیک نظام میں آؤٹ پُٹ بھی اِن پٹ  ہوجاتا ہے۔ ایسا ادبی رجحان  عام طور پر ایک ڈیستووپیائی دنیا (Dystopian) میں ترتیب دیا جاتا ہے جہاں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے دور میں انسانی حالت کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ کیمبرج  ڈکشنری کے مطابق  ڈیسٹوپیئن کا مفہوم ہے ’’ایک بہت برا یا غیر منصفانہ معاشرہ جس میں بہت زیادہ مصائب ہوتے ہیں، خاص طور پر مستقبل میں ایک خیالی معاشرے کا تصور جو خوفناک حد تک منعکس  ہو۔‘‘  اور ووکیبلری ڈاٹ کام کے مطابق ’’یوٹوپین ایک ایسے معاشرے کی وضاحت کرتا ہے جس پر کامل ہونے کا تصور کیا جاتا ہے۔ ڈسٹوپین اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ ایک ایسے خیالی معاشرے کی وضاحت کرتا ہے جو انتہائی  غیر انسانی اور ممکن حد تک ناخوشگوار ہے۔‘‘ اس طرح  ڈیسٹووپیائی دنیا (Dystopian) کی یہ کہانیاں ایک ایسی دنیا میں ترتیب دی جاتی ہیں جہاں معاشرتی اور سیاسی صورت حال بہت خراب ہوتی ہے۔ایک ڈیسٹوپیئن معاشرہ وہ ہوتا ہے جو ناپسندیدہ یا خوفناک ہوتا ہے، جس میں اکثر وسیع پیمانے پر مصائب، جبر اور ایک کامل معاشرے کا وہم ہوتا ہے۔ یہ یوٹوپیا کے برعکس ہے، جو ایک مثالی معاشرہ ہے جہاں سب کچھ کامل ہے۔

سائبر پنک لٹریچر ایک ذیلی صنف ہے جو سائنس فکشن میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ صنف ٹیکنالوجی اور سائبرنیٹکس کے عناصر کو انسانیت اور سماجی مسائل کے تناظر میں بیان کرتی ہے۔ سائبر پنک لٹریچر عام طور پر مستقبل کی دنیا کی تصویریں پیش کرتا ہے جہاں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے ہر پہلو میں رچ بس چکی ہوتی ہے۔

سائبر پنک لٹریچر فکشن کی صنف ہے جو مستقبل میں ٹیکنالوجی، کمپیوٹرنیٹ ورکنگ، مصنوعی ذہانت اور سائبرنیٹکس کی ترقی کے ساتھ ہونے والی سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کو موضوع بناتی ہے۔ یہ لٹریچر عام طور پر ایک ڈیسٹوپیائی مستقبل کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں اعلیٰ ٹیکنالوجی اور معاشرتی زوال ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

نئی صدی کا  نیا ادبی رجحان ’سائبر پنک  لٹریچر‘ مذکورہ معاشرتی عناصر میں ان شناختوں کی حدود کو تلاش کرتا ہے اور ان کی دوبارہ وضاحت کرتا ہے۔اس کے کردار تضادات اور پیچیدگیوں کی تجسیم ہے جو ایک ایسے دور میں موجود ہے جہاں حقیقت اور نقل، انسان اور مشین، خود اور غیر کے درمیان فرق ممکنہ حد تک موہوم ہے۔ سائبر پنک ادب میں خصوصی طور پر ان خطوط پرا دب کی تشکیل ہوتی ہے۔لیکن سائبر پنک لٹریچر نہ صرف تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ یہ قارئین کو ٹیکنالوجی اور مستقبل کے بارے میں گہرے سوالات پر غور کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔

سائبر پنک لٹریچر کے موضوعات

انسان اور مشین کا انضمام، ڈیجیٹل کلچر اور شناخت، ٹیکنالوجی کا استحصال، کارپوریٹ کنٹرول (اقتصادی اجارہ داری)، معاشرتی اور اقتصادی عدم مساوات وغیرہ ہیں۔

سائبر پنک لٹریچر کی خصوصیات

ٹیکنالوجی کا غلبہ: سائبر پنک کہانیوں میں انتہائی جدید اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا غلبہ ہوتا ہے۔

اینٹی ہیرو کردار: ان کہانیوں کے مرکزی کردار اکثر روایتی ہیرو سے مختلف ہوتے ہیں اور انھیں اینٹی ہیرو کہا جاتا ہے۔

انسانیت کا  بیانیہ : سائبر پنک لٹریچر میں انسانی حالت، شناخت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی تعلقات کا گہرا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

سائبر پنک کے مشہور مصنفین

ولیم گبسن: ’نیو رومانسر‘ (Neuromancer) ان کی مشہور ترین کتاب ہے جو سائبر پنک لٹریچر کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔’بروس اسٹرلنگ‘ کی کتابیں بھی سائبر پنک موضوعات سے متعلق ہیں اور ان کے مضامین میں اس صنف کی تاریخ اور فلسفہ بھی شامل ہے۔ 

اردو ادب کے تخلیقی سرمایے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اردو میں اس نئے ادبی رجحان کے تحت ابھی تک کوئی تحریر سامنے نہیں آئی ہے، مگر اردو کے  افسانوی ادب میں پہلے ہی سے ایسی تخلیقات موجود ہیں جن کواس دائرے میں لا سکتے ہیں۔ایسی تخلیقات میں تقلیب، جسم اور ماورائی دنیا کی مہمات اور کسی  قدر مستقبل کی دنیا کی تعبیر  و تفہیم کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ جس طرح ارود ادب نئے ہمیشہ نے رجحانات کا استقبال کیا ہے، اس سمت میں بھی پہل ہوگی اور نئے رجحان   کے زیر اثرایسی تخلیقات سامنے آئیں گی۔

 

Dr. Khwaja Md Ekramuddin

Professor, Centre of Indian Languages

School of Language

Literature and Culture Studies, JNU

New Delhi- 110067

Mob.: 9717977743

khwajaekram@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...