اردو دنیا، نومبر 2024
ایک نقاد کا کام ہوتا ہے کہ وہ ’جتنا آپ جانتے ہیں ‘
کے ساتھ ساتھ وہ بھی بتائے جتنا آپ نہیں جانتے ہیں۔
ہر قاری کی اپنی مطالعاتی ترجیحات ہوتی ہیں‘ کوئی راست
اسلوب کو پسند کرتا ہے اور کوئی علامتی یا استعاراتی اسلوب سے محظوظ ہوجاتا ہے اور
ادب میں دونوں کا چلن ہے۔ دراصل معیاری تخلیق سحرانگیز کیفیت کی حامل ہوتی ہے تو
شعر و فکشن میں یہ جادوتخیل آمیزتخلیقی فن کاری سے ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔اس ضمن
میں ان گنت مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جیسے غالب کی شاعری میں استعاراتی وتلمیحاتی
اور علامتی فن کاری کا یہ سحر، ان کے دیوان کی پہلی ہی غزل ’نقش فریادی ہے کس کی
شوخی تحریر کا‘ یا خلیل جبران کے فکشن یا سریندر پرکاش وغیرہ جیسے کئی اور افسانہ
نگاروں کے افسانوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں جب بھی اس قسم کے تخلیق کاروں کی
تخلیق پڑھتا ہوں تو دل و دماغ پرجادوئی کیفیت(Magical
Condition) طاری ہوجاتی ہے اور تخلیق کی یہی جادوئی کیفیت
فن کاری کہلاتی ہے۔ جس کی طرف غالب نے بھی اشارہ کیاتھا کہ ؎
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
سریندر پرکاش(مئی -1930نومبر2002)کا ایک شاہکار افسانہ
’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ ایم اے کے زمانے میں پڑھا تھا اور اس کے تخلیقی
اسلوب‘علامتی رچاؤ اور فنتاسی (Fantacy)کے تاثر نے سحر زدہ کردیا
تھا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سریندر پرکاش کا شمار اردو
کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی افسانہ نگاری کی فنی خوبی نے ہی انھیں بڑے
افسانہ نگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔جیسا کہ معروف فکشن نگار انورسجاد اس بات
کا اعتراف کرتے ہیں ـ:
’’ ۔۔۔سریندر پرکاش نے 60 کی دہائی سے اب تک نئے
افسانے کی تخلیق اور ارتقا میںاہم رول ادا کیا ہے اور اب وہ اردو افسانے کا ایک
معتبر نام ہے۔ ‘‘
(بحوالہ
کتاب سریندر پرکاش ۔شخصیت اور فن :مرتب مظہر سلیم، ص 390)
شعر میں شعریت اور افسانے میں افسانویت (Fictionality) ہونی چاہیے اور سریندر
پرکاش کے افسانوں میں افسانویت جگہ جگہ نظرآتی ہے اور ایک خوبی ان کے بیشتر
افسانوں میںیہ نظرآتی ہے کہ ان کاتھیم فی البدیہہ احساس کے ساتھ اس طرح کہانی میں
ڈھل جاتا ہے کہ افسانہ کسی قسم کے منطقی انجام
(Logical end)کے برعکس قاری کے ذہن کو ایک تحیر انگیز
فضا(Haunted Space)کے
حوالے کردیتا ہے اور پھر یہ تحیر و
استعجاب کی گرفت قاری کے ذہن کو کافی دیر تک جکڑکررکھ دیتی ہے۔بقول نقاد
اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی:
’’ان
]سریندر پرکاش[ کے افسانے کے واقعات میں
زمانی تسلسل اور نقطۂ آغاز و اختتام نہیں ہے۔یہ کوئی بنا بنایا قصہ نہیں کہتے
‘بلکہ ان کے قصہ کی حرکت گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے اور پیچھے دونوں طرف اس قدر
برابر مقدارمیں ہے کہ ٹھہرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ’دوسرے
آدمی کا ڈرائنگ روم، پیش لفظ، شمس الرحمن فاروقی، ص10)
اس ضمن میں کئی
افسانوں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔جیسے رونے کی آواز، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم،
رہائی کے بعد ،نئے قدموں کی چاپ، اپنے آنگن کا سانپ، پیاسا سمندر، تلقارمس،
بجوکا، سرنگ، آرٹ گیلری، چھوڑا ہوا شہر، تعاقب، بازگوئی، ہم صرف جنگل سے گزر رہے
تھے، جمغورہ الفریم، برف پر مکالمہ‘ علامت کے آرپار ، ساحل پر لیٹی ہوئی عورت،
بالکنی وغیرہ۔
سریندرپرکاش کے بیشتر افسانوں میںنفسی کشمکش (Psycho-struggle)کی فضاطاری ہے اور کردار
جیسے خواب کی دنیا میں چل پھر رہے ہیں اور افسانہ نگار کردار کی تحلیل نفسی(Psycho-analysis)کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
فن اور تکنیک کی سطح پر ان کے افسانے ‘اردو کے روایتی افسانے کے فنی اور تکنیکی
اسلوب سے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں اور اپنا عمدہ تاثر چھوڑجاتے ہیں۔مثلاً افسانہ
’بازگوئی‘ میں مرکزی کردار، جو کہ صیغہ واحد میں بطورراوی اپنی حاضر کردارنگاری
ظاہر کررہا ہے، حال اور ماضی کے فکری ، تہذیبی، علمی اورنفسیاتی انسلاک کی نمائندگی
کرتا ہے اور نفسیاتی سطح پر افسانہ نگار کردارکی نفسیاتی باز رسانی (Psychological feed back) کرتا
دکھائی دیتا ہے‘ تاہم اس دوران وہ تہذیب و تمدن کے آپسی انسانی رشتے کو اجاگر
کرتاہے نہ کہ کردار کی نجی نفسیاتی پیچیدگیوں کو مس کرنے تک محدود رہتا ہے۔ کردار
صدیوں پرانے ایک تاریخی شہر کے عجائب گھر میں جاتا ہے تو وہاں پر قدیم زمانوں کے
موجود عجیب و غریب رسم الخط کے نسخے اسے حیران کردیتے ہیں لیکن عجائب گھر کا افسر
جب اسے ایک شوکیس میں رکھا ہوا پرانا مسودہ دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ کئی ماہر
لسانیات اس مسودے کو پڑھنے اور سمجھنے میں سر کھپاتے رہے لیکن کچھ خاص ہاتھ نہ آیا،
کیونکہ یہ کوئی پرانی داستان ہے، مرکزی کردار اس مسودے کو غور سے دیکھتا ہے اور
پھر اسے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے یہ اسی کی تحریر ہے:
’’
میں اس کی بات غور سے سن رہا تھا اور میری نظریں مسودے
پر جمی ہوئی تھیں۔ مجھے وہ تحریر کچھ جانی
پہچانی لگی۔۔۔۔پھراس تحریر کے کچھ لفظ تصویروں کی طرح میرے ذہن میں ابھر
آئے۔۔۔پھر جیسے صحرا میں کوئی تیز بگولہ اٹھا۔۔۔۔ اور ساری بات آناََفاناََمیرے
ذہن میں ایک کلی کی طرح چٹک گئی، وہ میری ہی تحریر تھی۔میں غیر ارادی طور پر چیخ
اٹھا۔‘‘
لیکن یہ حرکت دیکھ
کرافسر اس کے تمتماتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔یہ سوچ کر کہ اس قدیم تحریر کو
ماہر لسانیات پہچانے میں ناکام ہوئے اور یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اسی کی تحریر ہے،
افسر اس کی نفسیاتی خوشی دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتا ہے:
’’
میں آپ کی قدر کرتا ہوں۔اپنے ورثے کو ہمیں اسی طرح
اپنانا چاہیے۔‘‘
کردار جب افسر کی حیرانی کو بھانپ جاتا ہے تو وہ روانی
کے ساتھ تحریر پڑھتا ہے اور افسر حیرت انگیز مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’آپ
نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا دیا ہے جناب والا! یہ ہزاروں سال پرانی تحریر
آپ پانی کی روانی کی طرح پڑھ
سکتے ہیں۔کیا آپ اس کا مطلب بیان فرمائیں گے؟‘‘
جب کردار اس قدیم داستان کے بارے میں بتاتا ہے تو افسر
خوش ہوکر عجائب گھر کے سارے عملے کو وہاں پر جمع کرتا ہے۔
اس کے بعد کردار مسودہ اٹھا کر گھر لے جاتا ہے اور کہتا
ہے کہ’’ ہزاروں سال پہلے کی اپنی زندگی کا ایک ایک واقعہ میرے دھیان میں آگیا
تھا۔‘‘
اردو کے چند اہم افسانے خصوصاً علامتی اسلوب کے حامل
افسانے پڑھنے ‘سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جیکف دریدا کی کتاب’
Acts Of Literature‘ اور رولاں بارتھ کی کتاب'The Pleasure Of The Text' کے
مباحث بڑے کارآمد نظرآتے ہیں۔دریدا کی کتاب فلسفۂ ردتشکیل
(Philosophy of deconstruction)کو بحث بناتے ہوئے ادبی
متون کے یک رخی معنی و تفہیم کو چیلنج کرتے ہوئے متن کے لسانی و ثقافتی اور متنوع
متون کے آپسی لسانی وتکنیکی اور معنوی و ثقافتی رشتوں کے تنقیدی ڈسکورس کوسامنے
لاتی ہے۔472صفحات پر مشتمل یہ کتاب1991میں شائع ہوئی تھی اور اس کی تھیوری نے تنقید
میں انقلاب برپا کردیاتھا۔رولاں بارتھ کی کتاب'The
Pleasure of the Text' 1973 میں سامنے آئی تھی۔اس
کتاب کے لسانی و تنقیدی مباحث اپنی جگہ‘تاہم بارتھ ایک قاری کو متن/تخلیق سے مسرت
حاصل کرنے پر زور دیتا ہے کہ کس طرح مطالعہ کرنے کے دوران انسان جمالیاتی مسرت
حاصل کرسکتا ہے۔
دریدا اور بارتھ کی
تھیوریز یا کتابوں کا حوالہ اس لیے مناسب لگا کیونکہ سریندر پرکاش کے کئی افسانے
لسانی اور فنی طور پر ردتشکیل مطالعے کی عکاسی کرتے ہیں اور قرأت سے لطف اندوز
ہونے کا سحر رکھتے ہیں۔ دریدا کی کتاب کے تعارف یا پیش لفظ میں Derek Attridge نے استفہامیہ انداز میں
اس کتاب کے مباحث اور کسی بھی تخلیق سے متعلق عمدہ بات کہی ہے کہ’’ کب اورکس طرح ایک
نقش/ تحریر ادب بن جاتی ہے اور وجود میں آنے کے بعد یہ کون سا مقام متعین کرتی
ہے۔‘‘
''When
and how does an inscription become literature
and what takes place when it does.'' (Book:Acts of literature, P.2)
اورمتن کی قرأ ت سے لطف اندوز ہونے سے متعلق رولاں
بارتھ نے اپنی کتاب'The pleasure of the text'میںخوبصورت
بات کہی ہے :’’ آپ کی تحریر خود ثابت کرکے میرے شوق مطالعہ کو ابھارے۔‘‘
''The
text you write must prove to me that it desires me.''
تو اس تعلق سے سریندر پرکاش کے چند اہم افسانوں کے تخلیقی
رچاؤ اور فنی ومعنوی خوبیوں کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ کچھ حد تک واضح ہوجائے کہ یہ
افسانے کیوں خود کو پڑھوانے کی دعوت دیتے ہیں اور دوران مطالعہ کس طرح کی لطافت
فراہم کرتے ہیں۔سریند پرکاش کے کئی افسانے پراسرار ماحول کا ایساتخلیقی جہاں معلوم
ہوتے ہیں جو قاری کے دماغ کو اس اسرار کے کھوجنے کے لیے فکری گشت پر لگادیتے ہی،جس
کی مثال علامتی و تجریدی افسانہ ’دوسرے
آدمی کا ڈرائنگ روم ‘ہے۔ یہ افسانہ علامتی اسلوب اور تجریدی فکر کا حامل ہونے کے
باوجود سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری کی پہلی شناخت بن گیا۔
افسانہ ’دوسرے آدمی کا
ڈرائنگ روم‘ تخیل اور تخلیقی اسلوب کا حامل ایک ایسا دلچسپ افسانہ ہے‘جس کی کہانی
میں سحرانگیز فضابندی نظر آتی ہے۔یعنی اس میں تخیل
(Imagination) اور تخلیقی فن کاری
(Creative artistry) اپنے عروج پر نظرآتی ہے اور جدید
افسانوں میں یہ ایک ایسا معیاری افسانہ ثابت ہوا جو آج بھی بڑے شوق سے پڑھا جاتا
ہے۔نہیں تو اس دور کے بیشتر افسانے تجریدی پن کی بھینٹ ہی چڑھ گئے۔ اس افسانے کے
فارم اور تکنیک کی خوبی اور دلکش بیانیہ پڑھنے والے کو محظوظ کردیتاہے۔معنوی ترسیل
میں مشکل ہونے کے باوجود پڑھنے کے بعد قاری پر فکشن کا خوشگوار تاثر چھوڑ جاتا
ہے۔رسالہ’تکمیل‘ (بھیونڈی۔ جنوری تا جون 2007) کے ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنے افسانوں کے بارے میں کہا تھا کہ:
’’آج
اردو میں تیس سال پہلے کی کہانی لکھی جارہی ہے جب کہ کچھ نیا ہونا چاہے تھا۔میں نے
ہمیشہ علامتی کہانیاں لکھیں لیکن وہ سپاٹ نہیں ہیں۔ان میں قاری کو پکڑنے کی طاقت
ہے۔نئی بات ہے۔ بڑا مشکل کام ہے علامتی افسانہ لکھنا۔‘‘
واقعی جب ہم ان کے علامتی افسانے پڑھتے ہیں تو ان میں
الفاظ و خیالات کا گورکھ دھندہ نظر نہیں آتا اور علامتی افسانہ ہر کس و ناکس کے
لکھنے کا کام نہیں ہے اور علامتی نوعیت کا افسانہ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘
اگرچہ اپنی ترسیل میں مشکل نظر آتا ہے لیکن ابتدا سے انجام تک قاری کو ضرور پکڑ
کررکھتا ہے۔ اس افسانے کی ابتدا نیم داستانی اسلوب میں اس طرح سے کی گئی ہے کہ قاری
پہلے ہی خیال سے خوش ہوجاتا ہے کہ کچھ خاص پڑھنے کو مل رہا ہے۔ راوی شروع میں ہی
کسی سفر یا ہجرت کرنے کانقشہ یوں کھینچتا ہے:
’’
سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کیے تو دیکھا کہ
پکڈنڈیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔میں ذرا رکا اوران پرنظر ڈالی
جو بوجھل سرجھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے
احساس سے لبریز ہوگیا۔۔۔۔ تب علیحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت
اختیار کی اور میں انتہائی غم زدہ‘ سرجھکائے وادی میں اتر گیا۔‘‘
یہاں پر افسانہ نگار نے روایتی افسانے کی ابتدائی منظر
نگاری کے برعکس تکنیکی سطح پر سیدھے قصے کاآغاز واقعاتی اسلوب میں کیا ہے اور قاری
کی سوچ کو شروع میں ہی اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوا ہے۔ضمائر کے استعمال
’ہم‘، ’ان‘ سے ظاہر ہے کہ راوی ایک قافلے کی طرف اشارہ کررہا ہے جس کا وہ بھی ایک
حصہ ہے لیکن ان سے اپنائیت کے جذبے کے باوجود وہ لوگ اپنی ہی زندگی کے جوکھم جھیلنے
میں نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ لوگ کس بنا پر سفر یا ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور
سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ اب راوی ان لوگوں کی سردمہری دیکھ کر
جدا ہونا ہی مناسب سمجھتا ہے اور غم زدہ ہوکر سرجھکائے ایک وادی میں اتر جاتا ہے۔لیکن
دوسرے ہی اقتباس میں افسانہ منفی سے مثبت ماحول کی منظر کشی کرتا ہے۔کیونکہ وہ پیچھے
مڑکر دیکھتا ہے تو وہ لوگ تھوتھنیاں اٹھائے
اسے دیکھ رہے تھے اور سر ہلاہلا کر اپنی رفاقت کا اظہار کررہے تھے۔ لیکن ان
کی گردنوں میں دھات کی گھنٹیاں تھیں، جو کہ ان کی مجبوری و لاچاری کی عکاسی کرتی
تھیں یا اپنی تہذیبی و ثقافتی جڑوں سے جڑے رہنے کا اشارہ کرتی تھیں۔ گھنٹیوں کی
آواز الوداع الودع کا اشارہ کررہی تھی۔ان لوگوں کی آنکھوں میںآنسو تھے جوجدائی
اور اپنائیت کا دکھڑا سنارہے تھے۔
اب یہاں تک افسانہ
ابہام آمیز ماحول میں ایک قافلے کی ہجرت، بے بسی اور اپنوں سے بچھڑنے کا منظر
دکھا رہا ہے۔ یہ قدیم دور سے جدید دور کی طرف قدم بڑھانے کا قصہ بھی ہوسکتا ہے اور
مجبور ہوکر اپنی زمین سے ہجرت کا درد بھی۔ یہیں سے افسانے کا متن ردتشکیل تھیوری
کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔کیونکہ یہاں پر متعین معنی
(Fixed meaning) کے بجائے غیر متعین معنی کا لسانی
منظر سامنے آرہا ہے۔ایک طرح سے افسانہ ابہامی کیفیت خلق کرکے معنوی تضاد (Semantic paradox) پیدا کررہا ہے اور
یہی خوبی افسانے کو تخلیقی رچاؤ کی حامل بنا دیتی ہے۔
اب افسانہ آگے بڑھتاہے اور ہجرت کرنے کے بعد وادی میں
داخل ہونے کی منظر نگاری سامنے لارہا ہے۔ یہاں پر ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ افسانے
کا پلاٹ کہیں پر ٹوٹتا نہیں بلکہ قصہ کردار کے سفر سے آگے بڑھ رہا ہے اور پھر نیا قصہ جو کہ عنوان ’دوسرے آدمی کا
ڈرائنگ روم‘ کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں سے افسانہ قدیم دور کی زندگی اور
جدید دور کی زندگی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اب کردار جس مکان کی منظر کشی کررہا ہے
وہ جدید سہولتوں سے مزین ہے۔ کمرے میں مصنوعی گل دان کی علامت جدید دور کے انسان کی
زندگی کے مصنوعی ٹھاٹ باٹ کا اشارہ کررہی ہے کیونکہ فطری زندگی میں زندگی بھی اپنی
ہوتی ہے اور احساس بھی اپنا لیکن یہاں پر راوی کہتا ہے
:
’’
ہاتھ میرا ہے اس لیے احساس بھی میرا ہے، لیکن گل دان نے
میرے احساس کو قبول نہیں کیا۔‘‘
زندگی میں جب احساس
کاجذبہ ہی ختم ہوجائے تو وہ بے مزہ ہوکر رہ جاتی ہے۔افسانہ مزید آگے بڑھتا ہے اور
افسانہ نگار مکان کی منظر نگاری کے دوران کہانی کو مختلف قسم کے پیش منظر شیڈز(Foregrounding shades)دے کر کچھ حد تک
ڈرامائی سین کی صورت دیتا ہے جیسے:
’’میں
نے اس تصویر کو اٹھا کر دیکھا ‘ایک خوش پوش آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو
اٹھائے بیٹھا ہے اور اس کے کندھے سے کندھا بھڑائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ دونوں
مسکرارہے ہیں۔‘‘
’’نہ
جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ کبھی ایسی ہی
تصویر کھنچوانے کے لیے میں بھی بیٹھا تھا اور فوٹو گرافر نے کہاتھا‘ ’’ذرا مسکرایئے!‘‘
ہم تینوں مسکرائے اور فوٹو گرافر نے کہا‘’’ تھینک یو‘‘
اور ہم بیٹھ گئے۔‘‘
افسانے کا یہ حصہ شعور کی
رو (Stream of consciousness)کی
عکاسی کررہا ہے کیونکہ راوی احساس کی سطح پر حال کے منظر میں ماضی کی یادکو دہرارہا
ہے۔کبھی وہ خود کا شعوری رشتہ سمندر سے جوڑ رہا ہے اور کبھی سمندر کے کنارے کے کسی شہر کو یاد کرتا ہے۔
افسانے میںمکان یا ڈرائنگ روم ایک ایسی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے جو
کردار اور پوری کہانی کے لیے فکشن گیلری بن جاتا ہے کیونکہ افسانے کا بیشتر پلاٹ
اسی ڈارئنگ روم کے اردگرد گھومتا رہتا ہے اور ایک طرح سے پورا قصہ ہی ڈرائنگ روم
کے اندر ایک اسٹیج کی طرح سامنے آتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو
افسانہ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ ‘ کا پلاٹ، فن اور تکنیک کی سطح پر توضیحی اسلوب (Expository style) کے بجائے علامتی
اسلوب (Symbolic style) پراستوار
ہوا ہے اور موضوعاتی طور پر ماضی کے قصے سے شروع ہوکر جدید دور کی زندگی، انسانی
رشتوں کی بے مائیگی، مادی وسائل کی آرائش کے باوجود انسان کی تنہائی، درد وکرب، بوڑھے کی کردار نگاری میں انسانی
زندگی کے گزرے ہوئے دور کی اپنائیت، سانپ کی صورت میں انسانی سوچ وفکر میں پھیلا
ہوا زہر‘اور انسان کا تنہائی کا کرب جھیلتے جھیلتے مصنوعی زندگی کے بجائے فطری زندگی
گزارنے کی طرف روحانی واپسی وغیرہ جیسے کئی موضوعات و مسائل کو فکشنائزکررہاہے،
جوکہ تفہیم میں مشکل محسوس ہونے کے باوجود اپنا افسانوی رنگ پوری چمک دمک سے سامنے
لارہا ہے اور قاری پڑھنے کے دوران افسانے کے سحر میں کھو سا جاتا ہے، یہ اس افسانے
کی ایک اہم تخلیقی خوبی قراردی جاسکتی ہے۔
سریندر پرکاش کے افسانوں کی موضوعاتی جہات متنوع
موضوعات و مسائل کی عکاسی کرتی ہیں جس میں قاری کو مختلف رنگ کی سماجی و انسانی
اور سیاسی و نفسیاتی تصویریںنظرآتی ہیں۔ سریندر پرکاش کے ایسے ہی افسانوں میں ان
کا افسانہ’بجوکا‘ (Scare Crow) بھی
شامل ہے جو اردو کے شاہکار افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس افسانے کی فنی خوبیوں میں
ایک تو افسانوی کہانی پن موجود ہے اور دوسراکردارنگاری میں علامتی رنگ بصورت
بجوکا، ہوری، درانتی، انگریز کا سرخ لباس اور ہیٹ وغیرہ نمایاں ہے اور اسی علامتی
رنگ نے افسانے کو فنی طور پر ایک معیار عطا کیا ہے۔ اس افسانے میں فکشن کے روایتی
اسلوب یعنی کہانی پن، کا ہی استعمال کیا گیا ہے نہ کہ افسانہ ’دوسرے آدمی کا
ڈرائنگ روم‘ کی جدید تکنیک کا، لیکن اس کے باوجودتنقیدی نقطہ نگاہ سے‘ افسانے کی
بنت کاری میں بین المتونیت (Inter- textuality) کے
عناصر واضح طور پر نظرآتے ہیں۔ بین المتونیت کا مطالعہ کسی بھی متن میں موجود کسی
دوسرے متن(Text)یا
کسی بھی ادبی تخلیق میں کسی اور تخلیق ‘چاہے وہ اس سے پہلے وجود میں آئی ہو یا اسی
دور سے تعلق رکھتی ہو، کا کوئی خیال، موضوع، تکنیک، اسلوب، کردار وغیرہ کی فنی
موجودگی (Artistic Existence) ظاہر
کرتاہے۔اس ضمن میں افسانہ ’بجوکا‘ موضوع اور کردار نگاری میں کسان ’ہوری‘ اور
استحصال کے جدید سرمایہ دارانہ نظام (Modern Capitalistic setup) بصورت
’بجوکا‘ بین المتن رشتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ افسانے کا مرکزی کردار’ہوری‘ بنیادی
طور پر پریم چند کے مشہور ناول ’گئودان‘ کے ہیرو سے ماخوذہے جو کہ ناول میں کسانوں
پر ہورہے استحصال کی نمائندگی کرتا ہے لیکن افسانے میں اسی کردار کو ملک کی آزادی
کے بعد ’جے کسان کے انقلابی نعرے‘ کے
باوجود نئے استعماری نظام کے زیر اثر بصور ت بجوکا اور اس کے انگریزی لباس کا غلام
اور مظلوم بن کر دکھایا گیا ہے اور افسانہ نگار کا مقصد واضح ہوجاتا ہے کہ پریم
چند کاناول1936 میں جس قسم کی اندوہ ناک صورت حال کو موضوع بنارہا تھا ، اتنے برس
بیت جانے اور ملک کی آزادی کے باوجود کسانوں کی وہ صورتحال کسی نہ کسی صورت میں
جوں کی توں موجود ہے۔افسانے کی یہی تخلیقی قوت اسے شاہکار افسانے کے زمرے میں شامل
کرتی ہے۔افسانے میں بجوکا نہ صرف ہوری کی کمائی ہوئی فصل کا چوتھائی حصے کا دعویٰ
دار بن جاتا ہے بلکہ نئے نظام بصورت پنچائیت کے فیصلے کو بھی اپنے حق میں کرواتا
ہے:
’’آخر
سرپنچ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ہوری کا سارا وجود کانپنے لگا۔اس نے پنچایت کے فیصلہ کو
قبول کرتے ہوئے فصل کا چوتھائی حصہ بجوکا کو دینا منظور کرلیا۔۔۔‘‘
افسانہ’بجوکا‘ بنیادی طور پر ملک کے جدید اقتصادی نظام
پر فنکارانہ طنز (Artistic Irony) ہے،
جس کی کہانی کی تخلیقی معنویت (Creative significance) یہ
ہے کہ اس میں ایک بے جان (Inanimate) بجوکاکو
جاندار (Animate) علامت
بنایاگیاہے اورمعاشی و معاشرتی اور سیاسی استحصال کو فن کے پیکر میں ڈھال کر علامتی
مقصد(Symbolic goal) کو
پورا کیا گیا ہے جس میں افسانہ نگار پوری طرح کامیاب ہوا ہے۔ کیونکہ اس افسانے کے
توسط سے جو پیام ترسیل ہوجاتا ہے وہ قاری کے سامنے کھل کر آتا ہے بقول فیض احمد فیض ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
مستند فن کار(Genuine
Artist) اپنی تخلیق میں خارجی ماحول کے مشاہدے کو
داخلی احساس کا حصہ بناکراپنے فنی تجربے
کے ساتھ پیش کرتا ہے‘ جب ہی تو وہ تخلیق اپنی مخصوص فنی صورت اختیار کرجاتی ہے اور
پھر وہ فنی سطح پر تصوری حقیقت (Conceptual realism) کی
مظہر بن جاتی ہے اور افسانہ تو اس تصوری حقیقت کا ایک ایسا تخلیقی روپ ہوتا ہے جو
کہانی کی صورت میں قاری کے حافظے کا حصہ بن جاتا ہے۔ سریندر پرکاش کے کئی افسانے ایک
مستند فن کار کے فنی تجربے کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں اور سماجی و نفسیاتی موضوعات و
مسائل کے تخلیقی روپ میں تصوری حقیقت کے نمونے بن گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ افسانے دہائیوں پہلے وجود میں
آکر آج بھی قارئین کے حافظے کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ
روم‘، ’بجوکا‘، ’بازگوئی‘ تو خاصے مقبول ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ بھی کئی اور
افسانے ہیںجو فن کاری کا عمدہ ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان میں رونے کی آواز، رہائی
کے بعد،نئے قدموںکی چاپ، اپنے آنگن کا سانپ، پیاسا سمندر، تلقارمس، سرنگ، آرٹ گیلری،
چھوڑا ہوا شہر ، تعاقب بازگوئی، ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے، برف پر مکالمہ،
علامتوں کے آرپار،ساحل پہ لیٹی ہوئی عورت ’بالکنی‘وغیرہ شامل ہیں۔
افسانہ’رونے کی آواز‘ کا افسانوی ماحول اس طرح سے تشکیل
دیا گیا ہے کہ جیسے پورا شہر رونے کی چیخ و پکار کا حصہ بن چکا ہے۔چند افسانوں میں
اساطیری ماحول بھی نظر آتا ہے جیسے افسانہ’ساحل پہ لیٹی ہوئی عورت‘۔ یہ افسانہ
داستانی اسلوب میں تخلیق ہوا ہے۔ اس کے مرکزی کردار ایک شکاری مرگول اور ایک
پراسرار سیاہ فام الف ننگی عورت ہیں۔ بنیادی قصہ انھیں دو کرداروں کے اردگرد
گھومتا ہے۔مرگول ایک ماہر شکاری ہونے کے باوجود قوت مردمی سے محروم ہوتا ہے لیکن
اس سیاہ فام عورت کو دیکھ کر اس کی مردانگی جاگ اٹھتی ہے اور وہ اس کے تعاقب میں ایک
غار تک جا پہنچتا ہے لیکن عورت اندھیری غار میں داخل ہوجاتی ہے اور مرگول اندر
جانے سے خوف کھاتا ہے اور اسے آواز دے کر باہر سے ہی اپنے عشق کا اظہا ر کرتا
ہے۔پھر قصہ آگے بڑھتا ہے اور پتھر مارنے کی شرط پوری نہ ہونے پر اسے مردانگی کے
بجائے اپنی بینائی سے محروم ہونا پڑتا ہے جو کہ ایک کالے ناگ کے ڈسنے سے ہوجاتا
ہے۔ ’سرنگ‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں کردار کی خارجی اور داخلی کشمکش کی تحیر انگیز
کیفیت کو خلق کیا گیا ہے۔ افسانہ ’بازگوئی‘ ایک طویل افسانہ ہے، ایک طرح سے اس
افسانے میں دوسرے کئی افسانوں کے چند کردار اور موضوعات کو فنی چابکدستی سے سمیٹ لیا
گیا ہے۔
سریندر پرکاش کے چارافسانوی مجموعے دوسرے آدمی کا
ڈرائنگ روم (1968)، برف پر مکالمہ (1981)، بازگوئی (1988)، حاضر حال جاری (2002)
شائع ہوچکے ہیں۔ان مجموعوں کے بیشتر افسانے تخلیقی پن سے مزین ہیں۔ابتدائی افسانوں
کے برعکس اگرچہ بعد کے افسانوں میں علامتی و تجریدی ابہام قدرے کم نظر آتا ہے لیکن
پھر بھی ہر افسانہ تخلیقی رچاؤ کا حامل نظر آتا ہے اور بیشتر افسانے کہیں نہ کہیں
اپنی علامتی ساخت برقرار رکھے ہوئے ہیں جس سے ان افسانوں کی فنی و تخلیقی اور تکنیکی
ندرت بڑھ جاتی ہے اور معنوی ہم آہنگی
(Semantic Coherence) میں استحکام پیدا ہوگیا
ہے۔
Dr. Reyaz Tauheedi
Wadipora Handwara
Kashmir 193221 (J&K)
Cell:9906834877
drreyaztawheedi777@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں