29/11/24

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

 اردو دنیا، نومبر 2024

علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں  بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر اپنی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں انتہائی روشن اور تابناک منظر نامہ رکھتا ہے۔نواب فیض اللہ خاں بانیِ ریاست رامپور کے زمانے  1774  سے تا حال، علم و ادب کے میدان میں اس شہر نے ایسے گوہر نایاب پیدا کیے ہیں جن کی آب و تاب اور قدر و قیمت کا ایک زمانہ معترف ہے۔

رامپور کے ادبی پس منظر کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اردو شاعری کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ دہلی اور لکھنؤ جیسے بڑے شہروں کے بعد رامپور بھی اردو شاعری کا اہم مرکز رہا ہے۔

لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہاں صرف شاعری ہی کو فروغ ملا۔ یہاں علم و ادب کے ہر میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے گئے البتہ شاعری کی کثرت رہی اسی لیے شاعری کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

رامپور میں تذکرہ نگاری کی روایت بھی انتہائی قدیم ہے۔1774سے 1780کے درمیان دو اہم تذکروں کے نام ملتے ہیں جن میں ایک کا تعلق رامپور سے براہ راست ہے اور دوسرے کا بالواسطہ۔ بالواسطہ تکمیل پانے والا تذکرہ مولوی قدرت اللہ شوق کا ’طبقات الشعرا‘ ہے جس کو شوق نے لکھنؤ، بدایوں، آنولہ، بریلی، رامپور1 اور روہیل کھنڈکے دیگر شہروں میں رہ کر مکمل کیا۔چونکہ خصوصی طور سے رامپور میں یہ تذکرہ تکمیل کو نہیں پہنچا اس لیے اس تذکرے کو براہ راست رامپور کا تذکرہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔لگ بھگ اسی دور کا ایک اہم اور مشہور تذکرہ ’مخزن ِنکات‘ کا زیادہ تر حصہ مصنف نے آنولہ اور رامپور میں رہ کر ہی مکمل کیا ہے۔آنولہ 1774تک ریاست رامپور کا حصہ رہا جو بانیِ رامپور  نواب فیض اللہ خاں کے چھوٹے بھائی نواب محمد یار خاں کی جاگیر میں تھا۔  چونکہ نواب محمد یار خاں امیر انتہائی ادب نواز اور علم دوست شخص تھے اسی لیے ان کے حلقہ احباب میں مولوی قدرت اللہ شوق، قائم چاند پوری، غلام ہمدانی مصحفی اور دیگر مشہور شعراتھے۔قائم نواب کے دربار میں حاضر باش رہتے تھے اور اسی  دوران انھوں نے روہیل کھنڈ اور رامپور کے بہت سے شعراکے احوال اپنے تذکرے میں شامل کیے لیکن اس کے باوجودہم ’مخزنِ نکات‘کو خالص رامپور میں لکھا گیا تذکرہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس کے مختلف مندرجات دہلی، اودھ، اور شاہجہانپور میں رہ کر بھی  قائم نے مکمل کیے تھے۔

چونکہ ریاست روہیلہ کا قیام 1774میں عمل میں آیا اس لیے تذکرے کو رامپور سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ رامپور میں تحریر شدہ اولین تذکرے کے طور پر ’ہشت خلد‘کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مولف ’تذکرہ کاملان رامپور‘ اور موجودہ  دور کے سینئر اسکالر عتیق جیلانی سالک وغیرہ کی روایت کے مطابق رامپور میں تکمیل پانے والا اولین تذکرہ ’ہشت خلد‘ہے۔اس کے مولف روہیل کھنڈ اور رامپور کے استاد شاعر مولوی غلام جیلانی رفعت ہیں۔

عتیق جیلانی سالک نے تحریر کیا ہے:

’’نجو خاں ولد مستقیم خاں ولد کبیر خاں نے مولوی غلام جیلانی رفعت سے شعرائے اردوکا تذکرہ ہشت خلد مرتب کرانا شروع کیا، غلام جیلانی کی وفات ہو جانے  سے کا م رک گیا۔ نجو خاں نے تسلیم(محمدکبیر خاں تسلیم)، اکرم، عنبر، (عنبر شاہ آشفتہ و عنبر) جیسے علما و شعراکی ذمے داری لگائی کہ تذکرہ مکمل کریں... جب خود نجو خاں جنگِ دو جوڑا 1796 میں شہید ہو گئے اور ان کے بھائی سپہ سالار سنّو خاں کو بھی نواب محمدیار خاںنے محاذ ِجنگ سے واپس بلا لیا تو انھوں نے….اس تذکرہ کو1210ھ/ 1795-96 میں مکمل کیا۔2

اس کے بعد جو دوسرا تذکرہ تحریر کیا گیا اس کے مولف مشہور شاعر مولوی قدرت اللہ شوق ہیں جنھوں نے 1244ھ/1828-29میں ’تکملتہ الشعراالمعروف بہ جام ِجمشید‘تالیف کیا، اس تذکرے میں شعرائے عرب و عجم کے حالات اور کلام کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ دونوں تذکرے فارسی زبان میں ہیں اوررامپور رضا لائبریری میں بہ شکلِ مخطوطات موجود ہیں۔ ایک اور اہم تذکرہ ’تذکرہ شعرائے رامپور‘بھی ہے،اس  کے مولف کپتان جارج فانتوم ہیں۔جارج فانتوم بنیادی طور پر فرانسیسی تھے اور رامپور میں نواب احمد علی خاں رندکے معالج کی حیثیت سے قیام تھا، ان کو فارسی اور اردو  میں غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ ان کا تذکرہ 1275ھ 1858-59  سے قبل مکمل ہوا تھا۔3

2019میں اردو ترجمہ کی شکل میں اس تذکرے کی اشاعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سے ہو چکی ہے۔حالانکہ اس تذکرے میں بھی اردو شعراکے احوال اور کلام کو جمع کیاگیا ہے البتہ مروجہ دستور کے مطابق اس کی زبان بھی گزشتہ دونوں تذکروں کی طرح فارسی ہے جب کہ نمونہ کلام اردو میں ہی درج کیا گیا ہے۔

تذکرہ نگاری کے حوالے سے رامپور میں سب سے سنہری دورکہلانے کا مستحق نواب کلب علی خاں کا ہے۔ نواب خود بھی شاعر تھے اور علم و ادب کے بے حدقدر داں بھی تھے۔ان کے دور میں حکیم وحید اللہ نے ’تذکرہ حکومت المسلین‘ کے نام سے رامپور، ٹونک، کنج پورہ، شاہ جہانپور وغیرہ ریاستوں کی مختصر تاریخ لکھی ہے، اس تذکرے کی زبان اردو ہی ہے اور یہ تا حال مخطوطے کی شکل میں رامپور رضالائبریری میں محفوظ ہے۔ ’تذکرہ حکومت المسلین‘ میں ریاست رامپور کے قیام سے لے کر نواب کلبِ علی خاں کے دور حکومت تک کی تاریخ اور اہم واقعات لکھے گئے ہیں۔

نواب کلبِ علی خاں کے دور کا ہی اہم ترین کارنامہ انتخاب یادگارہے۔ امیرمینائی نے نواب کی فرمائش پر شعرائے رامپور کے حالات اور کوائف جمع کرکے 1879میں یہ تذکرہ ترتیب دیا۔اس تذکرے میں صرف اردو ہی نہیں بلکہ رامپور کے ہندی گو شعرابھی شامل  کیے گئے ہیں جن کی تعداد چار سو پندرہ کے قریب ہے۔ یہ تذکرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک تو وہ شعراجو نوابین یا ان کے خاندان سے متعلق تھے اور  دوسرے وہ جو عوامی حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔عوامی شعراکے مقابلے میں نوابین اور ان کے خاندان کے شعراکے زیادہ تفصیلی حالات اور کلام شامل کیا گیا ہے۔

’’یہ تذکرہ 4 ذی الحجہ 1297ھ مطابق کوتاج المطابع میں  زیور طبع سے آراستہ ہوا۔چونکہ امیر مینائی نے اسے نواب صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لکھا تھااس لیے اکثر عبارت آرائی کا کمال اور مبالغے کا مظاہرہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے شعراکے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ انتخاب یادگار کا دوسرا عکسی ایڈیشن 1982میں اترپردیش اردو اکادمی نے شائع کیاہے۔‘‘4

انتخاب یادگار میں امیرمینائی  نے قدیم تذکرہ نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے مسجع و مقفیٰ عبارت لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے تذکرہ کا حسن متاثر ہوا ہے اور تذکرے میں صرف عبارت آرائی کا کمال زیادہ نظر آتا ہے۔ تذکرے کے آغاز سے قبل تمہیدکے طور پر امیر مینائی نے روہیل کھنڈ اور رامپور کی تاریخ بھی درج کی ہے جو محض خانہ پری کہلا سکتی ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ اکثر واقعات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کے کچھ بعد کے دور میں ایک اہم تذکرہ ’تذکرہ کلیم‘ کے نام سے بھی ترتیب دیا گیا ہے، اس کا آغاز قدرت علی خاں قدرت رامپوری نے کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد منشی عتیق الرحمن کلیم نے ضروری حواشی اور شعراکے کلام اور حالات کا اضافہ کرکے  اس کو مکمل کیا۔ اس میں بھی رامپور کے شعراکے حالات لکھے ہیں۔تا حال یہ تذکرہ مخطوطے کی شکل میں رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔

نواب حامد علی خاں کے عہد حکومت میں رامپور کی نامور علمی و ادبی شخصیت حافظ احمد علی شوق نے ’تذکرہ کاملان رامپور‘ کے نام سے ایک اہم تذکرہ لکھا ہے جو رامپور میں لکھے گئے تذکروں میں سب سے زیادہ کارآمد سمجھا جاتا ہے اور بہت مشہور بھی ہے۔ اس تذکرے میںصوفیاو مشائخ، علما، اطبا، شعرا اور دیگر  اہم شخصیات کے کوائف جمع کیے گئے ہیں۔یہ تذکرہ 1929 میں مولانہ محمد علی جوہرکے ہمدرد پریس دہلی سے شائع ہوا۔ 1986میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن چند حواشی اور اضافوں کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ اس میں آغاز ریاست رامپور سے نواب حامد علی خاں کے دور کی اکثر اہم شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے، حالانکہ مولف کو اگر متعلقہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوتا تو کئی اہم شخصیات شامل ہونے سے نہ رہ جاتیں۔

 تمہید میں خود مولف نے تحریر کیا ہے:

’’مجھے اس کتاب کی تالیف سے کوئی نام آوری مد نظر نہیں ہے  بلکہ ابتدائے عمر سے یہاں کے اہل کمال کے حالات  سن کر یہ خیال دامن گیر ہوا کہ یادگار کے لیے جہاں تک ممکن ہو  بزرگوں کے حالات بہ طور یاد داشت لکھ دوں … چھ سو خط چھاپ کر شہر اور بیرون  جات میں تقسیم کیے تا کہ موجودہ اخلاف اپنے اسلاف       کا حال بتائیں لیکن  میری بدقسمتی دیکھیے کہ دس بارہ صاحبوں کے سوا کسی نے بھی مجھے جواب نہ دیا۔ مجبور ہوکر کتابوں کی ورق گردانی شروع کی اور اہل شہر سے زبانی روایات کو جمع کیا۔ 1914میں  اس کام کو شروع کیا تھا اور آج یہ ہدیہ حاضر خدمت ہے۔‘‘5

اس طرح  معلوم ہوتا ہے کہ احمد علی خاں شوق حسب خواہ حالات جمع نہ کر پا ئے ورنہ تذکرہ ضخیم بھی ہوتا اور  بہت سے اہم لوگ شامل ہونے سے نہ رہ جاتے۔ البتہ تذکرہ جس حالت میں بھی ہے وہ  بھی بہت اہم اور قابل قدر ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور تذکرہ ایسا نہیں ملتا جس میں اس قدر تفصیل  اور کثرت کے ساتھ اہل فضل و کمال کو یکجا کیا گیا ہو۔ رامپور منظرنامہ تاریخ و تہذیب و ادب کی مصنفہ کے بقول:

’’تذکرہ کاملان رامپور حافظ احمد علی خاں شوق کی رامپور سے والہانہ محبت کا روشن ثبوت ہے۔انھوں نے یہ تذکرہ محض ادب دوستی کی غرض سے لکھا یعنی نہ تو والیِ ریاست کے حسب فرامائش  پر اس کی تصنیف کی گئی اور نہ ہی کسی ذاتی غرض کی تکمیل کے لیے۔ اس تذکرے کے وسیلے سے شوق نے بے شمار مشاہیر رامپور کے علمی و ادبی کارناموں کاوہ ریکارڈ محفوظ کر دیا  جو ادبیات رامپور پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘6

رامپور کے آخری فرماں روانواب رضا علی خاں (1930-1947)   کے عہد  اقتدار میں بھی کئی تذکرے لکھے گئے جن میں مولانا محمد علی خاں اثر رامپوری کا تذکرہ ’خم کدہ شعر و سخن‘ ہے۔ یہ تذکرہ در اصل مولانا اثر رامپوری کے شعرائے رامپور پر  ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے انتہائی تحقیق اور عرق ریزی سے تحریر کیے تھے اور جو معارف، نقوش اور دیگر ادبی جرائد میں شائع ہوئے تھے۔عرصے تک یہ تذکرہ گمنامی میں رہا اور مسودے کی شکل میں ادھر ادھر منتقل ہوتا رہا لیکن چند سال قبل مولانا محمد علی خاں اثر کے فرزند ڈاکٹر شوق اثری نے لکھنؤ سے اس کو شائع کر دیا ہے۔اسی دورکا ایک مختصر تذکرہ رازیزدانی رامپوری کا بھی ہے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے رسالہ’نگار میں ’رامپور کا ماحول شعر و سخن کے نام سے کئی قسطوں میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا تھا جس میں رامپور کی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین رامپور کے دور حکومت کی نسبت سے کیاگیا ہے۔ یہ مقالہ بہت اہم ہے اور آج بھی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے بعد کو یہی مقالہ ’تاریخ ادبیات رامپور ‘کے نام سے شائع ہوا۔

نواب رضا علی خاں کے دور حکومت میں ہی رامپور کے  ایک بزرگ سید شمس الدین نے ’تذکرہ بزرگان رامپور‘ کے نام سے ایک تذکرہ لکھا جس میں رامپور کے مختلف صوفیائے کرام کے حالات درج ہیں۔ اس تذکرہ کا سنہ تالیف 1935 ہے۔حالانکہ یہ ایک مختصر تذکرہ ہے لیکن اپنے موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ اس کے دو نسخے ہیں ایک رامپور رضا لائبریری کے ذخیرہ مخطوطات اور دوسرا صولت پبلک لائبریری رامپور میں۔ لگ بھگ اسی عہد میں حشمت علی خاں رامپوری نے انساب کے حوالے سے ایک تذکرہ ترتیب دیا جس کا نام ’تخصیص الانساب معروف بہ بہار افغانیہ‘ہے۔ بہار افغانیہ میں رامپور کے بہت سے خاندانوں کے تفصیلی حالات اور کوائف اور نسلی سلسلے  درج کیے گئے ہیں۔ بہار افغانیہ کو اپنے موضوع کی مناسبت سے ایک اہم تذکرہ کہا جا سکتا ہے۔

صاحب زادہ تجمل علی خاں علیگ رامپوری نے کراچی پاکستان سے ’اردو شاعری کا تیسرا اسکول‘ کے نام سے ایک تفصیلی تذکرہ لکھا جس میں ابتدائی دور سے سنہ 2000تک کے اکثر شعرائے رامپور کے حالات اور نمونہ کلام شامل ہے۔اس تذکرے کے کراچی سے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ چونکہ صاحب تذکرہ خود نوابین کے خاندان  کے ہی  ایک فرد تھے اس لیے انھوں نے خاندان نوابین کے شعرا کو ہی نمایاں طور پر پیش کیا ہے البتہ اس تذکرے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپورسے 1950  کے بعد ہجرت کرکے جانے والے وہ شعرا بھی شامل ہو گئے ہیں جن کے نام رامپور سے تحریر شدہ تذکروں میں نہیں ملتے۔ اس تذکرے کی اولین اشاعت  1982میں ہوئی تھی جب کہ دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن جوہر اکیڈمی، کورٹ روڈ کراچی پاکستان سے 2001میں شائع ہوا۔ شعراکے نام اور نمونہ کلام کے اضافے کے متعلق مصنف نے خود بھی تحریر کیا ہے:

’’ضمیمہ اردو شاعری کا تیسرا اسکول کی اشاعت ثانی میں شعرائے ذیل کے حالات جو اشاعت اول میں  دستیاب نہ ہو سکے  تھے۔ضمیمہ کی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔‘‘7

اضافہ شدہ شعرا میں سید زین العابدین منصور رامپوری، محسن برلاس، انجم شادانی، رضوان عنایتی، بشیر درانی، رحمن خاور، شرر نعمانی، شاہد عشقی، انجم شیرازی رامپوری، سجاد سخن اور محمد ذاکر علی خاں شامل ہیں۔ ان تمام شعراکے احوال رامپور سے متعلق کسی دیگر تذکرے میں نہیں ملتے۔

رامپور کے صاحب لہجہ شاعر ہوش نعمانی صاحب نے شعرا و نثر نگاروں اور چند علماکے تعلق  سے ایک منفرد حیثیت کا تذکرہ ’ادب گاہ رامپور‘لکھا ہے جس میں شامل لوگوں کے حالات کو منظوم  پیرائے میں پیش کیا گیا ہے، اس تذکرے میں شعراہی نہیں بلکہ ہندی کوی اور نثر نگاران رامپور کو بھی جگہ دی گئی ہے جس سے اس تذکرے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔1997میں رامپور رضا لائبریری سے اس کی اشاعت ہو چکی ہے۔

1999 میں ایک تذکرہ ’رامپور کا دبستان شاعری‘ کے نام سے  رضا لائبریری رامپور سے شائع ہوا۔ اس کے مولف رامپور کے مشہور ادیب و شاعر شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ ہیں۔ اس میں بھی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین  کے دور حکومت کی مناسبت سے ہی کیا گیا ہے۔ حالانکہ بہت سے اہم شعراکے احوال اس تذکرے میں رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس تذکرے کا اصل مسودہ جو کافی ضخیم تھا اور رامپور رضا لائبریری میں اشاعت کی غرض سے جمع  کیا گیا تھا وہ کہیں غائب ہو گیا اور پھر مصنف نے دوبارہ میسر شدہ شعراکے کوائف اور کلام کے نمونے جلد از جلد  تیار کرکے پھر سے رضا لائبریری میں داخل کیے جس کی اشاعت ہوئی۔

بقول مصنف:

’’یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ رامپور کا دبستان شاعری کا واحد مسودہ چند سال ہوئے ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی افسر بکار خاص رضا لائبریری کو دیے جانے سے قبل کہیں گم گیا۔خرابی صحت کے پیش نظر دوبارہ لکھنا نا ممکن ہوتا تھا۔ لیکن احباب کے ہمت دلانے پر جس طرح بھی ہو سکا  لکھ کر پیش کر دیا۔جو اب شائع ہو رہا ہے۔‘‘8

ہوش نعمانی کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے  رامپور کے ایک اور کہنہ مشق شاعر ڈاکٹر فرید صدیقی نے بھی’آئینہ رامپور‘ کے نام سے قطعات پر مشتمل ایک تذکرہ چند سال قبل پیش کیا، اس میں شعرا کے علاوہ ادبا، علمااور عام سماجی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

تذکرہ نگاری کے حوالے سے ہی میں چند سال قبل سلیم عنایتی اور مشہور شاعر اظہر عنایتی نے مشترکہ طور پر ایک تذکرہ بنام ’دبستان رامپور‘ 2013 میں مرتب کرکے شائع کیا، اس میں رامپور کے ابتدائی دور سے موجودہ دور تک  کے شعراکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ یہ تذکرہ کسی بھی شاعر سے متعلق  تفصیلات سے خالی ہے  کیونکہ اس میں صرف شاعر کا نام، تاریخ پیدائش، تاریخ وفات اور تلمذ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس تذکرے میں 191 شعراکو  شامل کیا گیاہے  اور اس تذکرے کا امتیاز یہ ہے کہ دو  ایک شعراکو چھوڑ کر باقی تمام شعرائے رامپور کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس طرح سلیم عنایتی کا مرتبہ ایک اور تذکرہ جس میں نمائندہ شعرائے رامپور کے احوال و کوائف جمع کیے گئے ہیں غیر مطبوعہ حالت میں ہے۔اس کے علاوہ ’بقلم خود‘ اور ’تذکرہ شعرا‘ بھی غیر مطبوعہ ہیں جس کے مصنف کا نام عبد اللہ  خالد ہے۔

تذکرہ نگاری  کے متعلق عتیق جیلانی سالک کی کتاب’رامپور شناسی‘ کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں رامپور کی متعدد علمی و ادبی اور سماجی شخصیات کے کوائف درج کیے گئے ہیں۔ رامپور شناسی کی اشاعت 2012 میں شاہد پبلی کیشنر،کوچہ چیلان، دریا گنج نئی دہلی سے ہوئی ہے اور اس کے مشتملات میں ’امتیاز علی عرشی کے بعض مباحث‘کاظم خاں شیدا، رامپور کا ایک ادبی رسالہ نیرنگ، پدماوت کے اردو تراجم رامپور میں، منے میاں صابر(رامپوری)اور ان کا کلام، دارالسرور میں غالب، قدیم اخبارات اور ریاست رامپور، رامپور کی صحافت پر سرسری نظر، مومن خاں مومن اور روابط رامپور، رامپور کے قدیم آثار اور تہذیبی صورت حال، اردو کے فروغ میں رامپور کا حصہ‘میر مہدی مجروح اور روابط رامپور‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان موضوعات پر سیر حاصل معلومات جمع کی گئی ہیں اس کے علاہ شخصیات کے ذیل میں روہیلہ سردار عمر خاں بڑ مچھے، عابد رضا بیدار، شبیر علی خاں شکیب، ڈاکٹر ابن فرید، ہوش نعمانی، ڈاکٹر شوق اثری، بشارت علی خاں فروغ، اظہر عنایتی، پروفیسر حسن احمد نظامی، شبیر علی خاں ضیا، سسٹر آصف جہاں، مولانا فضل حق رامپوری، مولانا عبد السلام خاں رامپوری، مولانا وجیہ الدین خاں، مولانا عبد الحئی وغیرہ پر تفصیلی معلومات درج کی گئی ہیں۔

حال ہی میں رامپور کے سینئر اسکالر اور ادیب و شاعر رضوان لطیف خاں نے دو تذکرے ’تذکرہ سخنوراں‘ اور ’دستک دیے بغیر‘تالیف کیے ہیں۔ تذکرہ سخنوراں کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپور کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان میں مقیم بہت سے شعرا و شاعرات کے احوال درج ہیں۔ دوسرا تذکرہ ’دستک دیے بغیر، ایک مشہور مصرع طرح ’دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا، پر مختلف شعراکی طبع آزمائی کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے اور اس میں بھی ہندو پاک کے بہت سے شعرا و شاعرات کے احوال و مصرع طرح پر کلام موجود ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے زیادہ تر شاعری  پر  ہی کام  کیاگیا لیکن دیگر موضوعات تصوف، شکاریات، نثر نگاری، صنعت و حرفت کے تعلق سے بھی کئی اہم تذکرے لکھے گئے ہیں۔ تصوف کے متعلق شاہ محمد حسن صابری کا ’حقیقت گلزار صابری‘ معروف تذکرہ ہے جو 1960کے آس پاس ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رامپور کے شکاری اور شکاریات پر ناصر علی خاں علیگ کا ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے اور اسی موضوع پر رامپور رضا لائبریری نے مشہور افسانہ نگار مسعود الظفر خاں کا تذکرہ بھی شائع کیا ہے۔رضا لائبریری سے ہی صنعت و حرفت پر بھی’تذکرہ ہنر مندان رامپور‘شائع ہو چکا ہے جس کے مولف مشہور ادیب و افسانہ نگار ابن حسن خورشید ہیں۔ اس تذکرے میں بیشتر ایسے ہنر مند شامل ہیں جو یا تو ظروف سازی میں یکتا و یگانہ تھے یا پھر وہ ریاست کے ملازم تھے اور اسلحہ سازی مثلاً چاقو، تلوار، بھالا اور ڈھال وغیرہ بناتے تھے اور اپنے فن میں ایسے مکمل تھے کہ دور دور تک ان کی مشاقی اور مہارت کی تعریف تھی۔

نسبی اور خاندانی تذکروں میں’احوال خاندان مولوی غلام جیلانی خاں‘ مولف ارشاد اللہ خاں چیف جسٹس رامپور’آشیانہ رامپور‘مولف امتیاز اللہ خاں اور ’نقش جمیل‘ مولف محمد طارق خاں جیسے مطبوعہ تذکرے بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ تینوں تذکرے ایک ہی خاندان یعنی مولوی غلام جیلانی خاں رسالدار کے احوال و کوائف اور خاندانی سلسلے کے بیان پر مشتمل ہیں۔

فنی تذکرے کے بطور’چہار بیت‘از شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ 1994میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا ہے جس میں رامپور میں چہار بیت گوئی کے فن، چہار بیت گواور چہار بیت خوانوں کے حالات اور منتخب چہار ابیات شامل کی گئی ہیں۔حالانکہ اس سے قبل صبرتسلیمی رامپوری کا اسی موضوع پر ایک تذکرہ ’نوازش رضا‘کے عنوان سے تالیف  کیا جا چکا ہے لیکن وہ بہ شکل مخطوطہ رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔ خدابخش لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر  عابد رضابیدار کی تحریک پر شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ نے رامپور کے چہار بیت خواں اور چہار بیت گو شعرا کے حالات انتہائی تلاش و تحقیق کے بعدجمع کیے۔ خدا بخش لائبریری کی جانب سے ہی ’تذکرہ کاملان رامپور‘کی  جلد دوم اور سوئم بھی تیار کی گئی تھی جس میں رامپور کے بیشتر اصحاب کمال کے حالات ہیں لیکن ان دونوں جلدوں کے شائع ہونے کی نوبت نہ آئی بلکہ پروف کاپی کی شکل میں یہ جلدیں رامپور رضا لائبریری اور صولت پبلک لائبریری رامپور میں محفوظ ہیں۔

تاریخی تذکرے کے حوالے سے 2010میں نجّو خان شہید نامی ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے۔جس میں رامپور کے نامور  روہیلہ سردار اور رامپور فوج کے سپہ سالار غلام مصطفٰی خاں عرف نجّو خاں کے حالات، جنگ نجّو خانی 1794 9کا تفصیلی بیان اور نجّو خاں کے خاندان اور اولاد کا تصفیلی ذکر ہے۔

رامپور تاریخ و ادب‘ مولفہ سعود الحسن خاں روہیلہ اور’رامپور منظر نامہ تاریخ و تہذیب و ادب‘بھی تاریخی تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم کتب ہیں۔ ’رامپور تاریخ و ادب ‘  لاہور سے 2012میں شائع ہوا ہے جب کہ’رامپور منظر نامہ تاریخ و  تہذیب و ادب‘ نامی تذکرہ 2019میں آگرہ سے شائع ہوا ہے اس کی مصنفہ سعد یہ سلیم شمسی ہیں جنھوں نے اس تذکرے میں رامپور کی تاریخ، نثر نگاران رامپور کا تفصیلی تذکرہ اور رامپور کے شعرائے کرام کا مختصر تذکرہ اور نمونہ ہائے کلام درج کیے ہیں۔194 صفحات پر محیط یہ تذکرہ کئی لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے قبل رامپور کے نثر نگاروں کا اس طرح با قاعدہ کسی نے تفصیلی تذکرہ نہیں لکھا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں کہا جاتا سکتا ہے کہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے کافی اہم  اور قابل قدر کارنامے انجام دیے گئے ہیں بلکہ گزشتہ سطور میں بیان کیے گئے تذکروں کی خاصی اہمیت ہے اور وہ رامپور  ہی نہیں بلکہ بیرون رامپور  کے اہل فضل و کمال  کے لیے  حوالہ جاتی حیثیت رکھتے ہیں۔

محدود رقبہ والی ایک  چھوٹی سی  ریاست رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم  کارنامے  انجام دیے گئے ہیں وہ یقینا ادبی تاریخ میں تعریف و ستائش کے مستحق ہیں۔

حواشی

.1       شعرائے اردو کے تذکرے (نکات الشعرا سے گلشن بیخارتک) ازحنیف نقوی، ص 299،  رامپور کا دبستان شاعری از شبیرعلی  خاںشکیب، ص127

.2       رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک، ص 202 (ناشر:مصنف، رامپور، 2012 )

.3       تذکرہ شعرائے رامپور از جارج فانتوم،ص XIX (اردو ترجمہ مصباح احمد صدیقی2019)،رامپور کے فارسی گو شعرا از ساجدہ شیروانی صفحہ XX(اشاعت 2020 )

.4       رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک، ص 205 (ناشر: مصنف، رامپور، 2012)

.5       تذکرہ کاملان رامپوراز احمد علی خاں شوق، ص 08، (ناشر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ 1986 )

.6       رامپور منظر نامہ تاریخ تہذیب ادب از سعدیہ سلیم شمسی، سنہ اشاعت:2019، سعدیہ سلیم شمسی، غالب پورہ کلاں نذن سبھاش پارک، ایم جی روڈ، آگرہ، ص62

.7       اردو شاعری کا تیسرا اسکول از تجمل علی خاں  علیگ، ناشرجوہر اکیڈمی آر اے لائن، کورٹ روڈ، کراچی ، پاکستان، اشاعت 2001، ص177

.8       رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاں شکیب، ص10

.9       ایضاً، ص 22

 

Nizamul Hasan

Village Mohabbat Nagar

Tahseel Suar

District: Rampur- 9675221881 (UP)

Mob.: 9675221881

syednizam0096@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...