17/12/25

یوگا کی روحانی اور مادی اہمیت ،مضمون نگار: عبدالعلیم

 اردو دنیا،جون 2025


موجودہ حالات و معمولات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج کا انسان ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے بے اطمینانی کا شکار ہے، اس کی یہ بے چینی محض خارجی عوامل کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس کی باطنی اتھل پتھل اور کشمکش کا زیادہ حصہ ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر انسان اپنے طور پرمضبوط ہوتاہے۔ یعنی اس کی باطنی طاقتیں اگر قوت بخش ہیں تو خارجی حالات سے وہ نبرد آزما ہو جاتا ہے۔ لیکن جب اس کی خارجی اور باطنی دونوں سطحیں اس کے لیے اطمینان بخش نہیں ہوتی ہیں تو اس کے اندر بے چینی، الجھن، خود سے فرار، عدم تشکیک، نا کامی کا جذبہ،کچھ نہ کر پانے کی اہلیت جیسے تصورات جنم لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ترش مزاجی، جھنجھلاہٹ، چڑچڑا پن،بدن درد جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب سے نپٹنے کے لیے انسان طرح طرح کی ترکیبیں اختیار کرتا ہے۔ مثلا لوگ علاج کے لیے ڈاکٹروں کا رخ کرتے ہیں جو کچھ نسخے تجویز کرتے ہیں لیکن ایک جزوی طریقہ کار ہوتا ہے کلی نہیں۔

مذکورہ تمام منفیات سے بچنے اور ایک توانا جسم اور پرسکون ذہن کے حصول کے لیے ’یوگا‘ کو اپنایا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے روحانی اور جسمانی دونوں طرح کا سکون حاصل ہو تاہے۔ یہ انسانی جسم و ذہن اور روح کو ملانے کا ایک طریقہ کار ہے اور ان تینوں کے ادغام سے سالم پیکر وجود میں آتاہے۔ یہ ایک جسمانی اور روحانی تعلیم ہے جو خود کو سنوارنے اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ فراہم کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہو ا کہ یوگا صرف چند حرکات و سکنات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط بھی اس کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔

یوگاکیاہے؟ ایک سوال ہے، یوگا ایک قدیم ورزش ہے جس کا آغاز ہندوستان سے ہوا اور یہیں سے بیرون ممالک پہنچا اور وہاں کے لوگ متعدد فوائد کے پیش نظر اس کواختیار کررہے ہیں۔ یوگا دراصل جسمانی اعضاء اور ذہنی نظم و نسق پر مشتمل ایک ورزش ہے جو ہمیں تندرست چست اور متحرک رکھتی ہے اور جس کے سبب ہمارے اندر مثبت پہلو جنم لیتا ہے جو ہمیں زندگی کے بارے میں اور تمام موجودات کے بارے میں نفع بخش نظریہ قائم کرنے اور لوگوں کے تئیں اچھا سلوک کرنے پر ابھارتا ہے۔ گرچہ ہزاروں سالوں سے آج تک اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس نے ہمیشہ انسان کو خود پر قابو پانے اور باطنی اتھل پتھل اور ذہنی الجھن کو کنٹرول کرنے پر قادر بنایا ہے۔

یوگا کی مشقیں ہر عمر میں کی جا سکتی ہیں خواہ وہ کسی بھی عمر کا ہو۔ یہ ایک سماجی نظام ہے جسے ہر کوئی اپنے من مطابق کر سکتا ہے ،یوگا کی بہت ساری اقسام ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے جدا بھی نہیں ہیں۔ یوگا کرنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس حقیقت کے قائل ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار نشیب و فراز ہیں جن سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ لہٰذا ان ناسازگار حالات میں بھی خود کیسے معتدل رہیں اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اپنے ذہنی توازن کو کیسے برقرار رکھیں، یہ تبھی ممکن ہے جب یوگا کے ذریعے خود پر قابو پایا جائے مشہور شاعر جان ڈون(John Donn) لکھتا ہے:

’’کوئی انسان ایک جزیرے کی طرح بالکل الگ تھلگ نہیں ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ انسان سماج اور معاشرے کا ہی ایک فرد ہوتا ہے۔ معاشرے کے لوازمات اور وہاں بسنے والے بے شمار انسانوں سے اس کا روزانہ سابقہ پڑتا ہے جن سے وہ خود کو الگ نہیں کر سکتا ،یہی ایک ہونے کا احساس یوگا ہمارے اندر ابھارتا ہے جو کہ یوگا کا مقصد بھی ہے۔

یوگا انسان کے ذہن کی صحت مندی کا ضامن ہے اور اس کی نشوونما بھی بہتر طور پر کرتا ہے چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھی جانے والی ایک شاہکار کتاب بھگود گیتا میںیوگا کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :

یوگا کامیابی اور ناکامی کے درمیان توازن کا نام ہے ۔

یوگا ہماری زندگی کا سب سے خفیہ راز ہے ۔

یوگا اس دنیا میں سلیقے سے زندگی گزارنے کا نام ہے ۔

یوگا عظیم تر خوشیوں اور شادمانیوں کو جنم دیتا ہے ۔

یوگا تکلیف اور بیماری کو ختم کرتا ہے اور یوگا ذہنی سکون اور اطمینان کا نام ہے ۔

(یوگا سب کے لیے، تلخیص و ترجمہ ،صدف ناز رابعہ بک ہاؤس، لاہور ،ص7-8)

یوگا کی ایک تعریف کتھا اپنشد میں یوں بیان کی گئی ہے:

’’جب سکوت کے باعث حوا س خمسہ ساکن ہوتے ہیں تو اسی سکون کو یوگا کہتے ہیں۔‘‘

مذکورہ تعریفات سے یہ اندازہ ہوا کہ یوگا چند حرکات و سکنات کے ذریعے قوی جسم ہی حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے ہم داخلی سکون بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلا ایک چکی کے اندر دو پاٹ ہوتے ہیں اگر وہ دونوں صحیح و سالم ہیں یعنی ان میں موجود دانت اپنا کام کر رہے ہیں تو اس میں ڈالا گیا اناج لائق خورد ہوگا اوراگر وہ دونوں صحیح وہ سالم نہیں ہیں تو اس میں ڈالا گیا اناج کھانے کے لائق نہیں رہے گا بلکہ وہ موٹا جھوٹا قسم کا رہ جائے گا۔ اسی طرح جب ہمارے باطن میں رشہ کشی کی کیفیت ہوگی تو ہم اطمینان میں نہیں رہ سکتے اور نہ ہی کسی چیز کے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اپنے ملنے جلنے والوں سے اچھا سلوک بھی نہیں برت سکتے اسی لیے پہلے خود پر قابو پانا اشد ضروری ہے اور یہ یوگا کی مشق سے ممکن ہو سکتا ہے۔

یوگا کی اقسام

یوگا کی بہت ساری قسمیں ہیں، ظاہر ہے مکمل طور پر یوگا کی اقسام کو نہیں اپنایا جا سکتا ہے۔لیکن یوگا  چند رائج الوقت شکلوں کا بھی نام نہیں ہے۔ میرے اس مضمون کا مقصد اعمال کے ذریعے حاصل ہونے والی ظاہری توانائی سے زیادہ داخلی توانائی یا باطنی موجودات پر قابض ہونا ہے جس کے حصول سے ایک انسان بہتر طور پر خود کو تبدیل کر سکتا ہے۔خود میں تغیرکے بغیرسماج کو بدلنے کا خیال محال ہے۔ یوگا کی مندرجہ ذیل اقسام انہی سے عبارت ہیں۔

یاما:اس میں جن احکامات پر زور دیا گیا ہے وہ ہے حرص،طمع ،چوری،خواہش، غصہ اور حسد پر قابو رکھنا اور منفی اثرات کے زیر اثر کوئی غلط قدم نہ اٹھانا۔ اس کے تحت پانچ اصول بیان کیے گئے ہیں جو ذہن اور کردار کی طہارت کرتے ہیں اور سماجی حیثیت سے بھی ان کی معنویت ہے:

(1)     اہنسا( عدم تشدد): کسی بھی ذی روح کو دکھ، تکلیف نہ پہنچانا نہ زبان سے اور نہ ہی ہاتھ سے اور نہ ہی عمل سے یہ تب ممکن ہوگا جب آپ کے خیالات ،اعمال اور اقوال میں پاکیزگی اور نرمی ہو گی، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس کا  احترام بھی لازم ہے

(2)     ستیہ( سچ بولنا): اپنی باتوں میں ایسے اجزاء کا شامل نہ کرنا جن سے سامنے والا دھوکے میں پڑجائے۔ الفاظ صاف اور واضح رکھنا تاکہ سننے والا وہی سمجھے جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔

(3)     استیہ( چوری نہ کرنا): یعنی دوسروں کے مال کو چپکے سے ہتھیانا ہی چوری نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے بغیر اجازت کے کسی دوسرے کی اشیا کو لے لینا۔ مثلا کسی کے کام کو اپنا کام بنا لینا، اپنے کام میں مستعد نہ رہنا وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔

(4)     برہم چریہ( جنسی ہیجان سے پرہیز): غیراخلاقی جنسی معاملات میں ملوث نہ ہونا اور نہ ہی ایسی سرگرمیوں میں پڑناجو جنسی ہیجان کے ابھار کا سبب بنیں۔ اپنی جسمانی مضبوطی اور ذہنی قوتوں کی نشونما کے لیے ان سے پرہیز کیا جائے اور ان قوتوں کو سماج کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ مہارشی پتنجلی نے برہم چریہ پر بہت زور دیا ہے کیونکہ ان کی نظر میں اس سے اجتناب مختلف سماجی خرابی اور کئی قسم کی برائیوں کا خاتمہ کرتاہے ۔

(5)     اپری گرہ (قناعت پسندی): اس کا مطلب یہ ہے کہ بقدر ضرورت چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی جائے ضرورت سے زیادہ ذخیرہ اندوزی سے آپ لوگوں کو ان کے حق سے محروم کر دیں گے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس خاطر خواہ طور پر نہیں ہو پائے گا۔

نیاما :اس میں سادگی ،قناعت ،مطالعہ ،خدا پر یقین شامل ہیں اس میں بھی چند اصولوں کی پابندی لازمی ہے :

(1)     شوچ( پاکی و صفائی): اپنے جسم کو پاک رکھنا، جسمانی اعضا کی صفائی کرنا، اچھی اور بہتر غذاؤں کا استعمال کرنا تاکہ آپ کا جسم زہریلے جراثیم سے محفوظ رہے۔ اسی کے ساتھ ذہنی صفائی بھی اس میں شامل ہے۔ ذہن کو صاف رکھنے کے لیے فلسفیوں نے چند باتوں سے پرہیز کرنے کی تلقین کی ہے جو ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں:کام (خواہشاتِ نفس پر لگام)، کرودھ (غصہ)، لوبھ (لالچ)، موہ(فریفتگی)، مد(انا) اور متسر (حسد) ان عوامل سے باز رہنے سے ذہن صاف اور شانت رہتا ہے

(2) سنتوش (قناعت): یعنی آپ ہر حالت میں اپنے آپ کو خوش رکھیں ،صبر و شکر کرتے رہیں، ہو سکتا ہے کوئی شخص آپ سے بھی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہو، اس لیے اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھ کر اپنی حالت پر قانع رہیں اور شکر کریں جیسا کہ پتنجلی نے ’یوگا سوتر‘ میں کہا ہے کہ:

’’صبر و شکر انسانی زندگی میں اعلی ترین خوشیاں لانے کا موجب بنتا ہے۔‘‘

(یوگا سب کے لیے، ترجمہ و تلخیص، صدف ناز، ص ،22)                

(3)     تپ (لگن): یعنی اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیے فضولیات سے بچنا ۔یوگا کے راستے پر چلنے کے لیے اپنے ذہن کو مرکوز کرنا،خواہشات پر کنٹرول رکھنا ۔اسے self control کہہ سکتے ہیں ۔

(4)     سوادھیائے( خود مطالعہ یا محاسبہ): اس میں دو چیزیں شامل ہو سکتی ہیں ایک یوگا کے اصولوں کو اگر خود نہیں سمجھ پاتے تو کسی عالم سے رجوع کریں دوسرے محاسبہ یعنی اپنی ذات پر غور و فکر کرنا ،اپنے جذبات اور اپنے کاموں کا گہرائی سے جائزہ لینا۔ سوادھیائے کا عمل خود کی زندگی کو بہتر بنانے اور سمجھنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔

(5)     ایشور پراندھان: یعنی خدا کی عبادت کرنا اور ہمہ وقت اس کا دھیان بھی رکھنا ،ہم کوئی بھی کام کریں اس کی رضا کی خاطر کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ مالک ہمہ وقت ہم سب کو دیکھ رہا ہے ۔

بھگود گیتا کے تین یوگ

بھگود گیتا میں یوگا کے تین اہم اصول بتائے گئے ہیں یعنی تین قسم کے یوگا کی بات کی گئی ہے :

(1) جنانا یوگ (2) کرمایوگ (3) بھکتی یوگ

جنانا یوگ:اس یوگا کا تعلق عقل سے ہے اس کے لیے مکمل انہماک کی ضرورت ہے۔ اس علم کے حصول کے لیے غور و خوض ،معرفت اور نفس کشی لازمی ہے ۔

کرما یوگ:اس کا تعلق عمل سے ہے اور بغیر عمل کے کچھ بھی ممکن نہیں۔عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں مثبت اور منفی۔ یوگا چونکہ انسان میں مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے اور سکون و اطمینان بخشتا ہے اس لیے منفی اعمال کی یہاں کوئی جگہ نہیں کیونکہ منفی عمل کرنے والے کو سکون و چین نصیب نہیں ہو سکتا۔کرماکا مطلب یہ ہوا کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر عمل کرنا اور اس کے صلے میں کسی بھی طرح کی توقعات نہ رکھنا اس کی بہترین مثال۔ نیکی کر دریا میں ڈال ہو سکتی ہے

بھکتی یوگ:خدا سے محبت اور عقیدت رکھنے والا شخص کبھی ضائع نہیں ہوتا ہے اور اس راستے پر وہی چل سکتا ہے جو کرما اور جنانا کو حاصل کر چکا ہو ۔

 جسمانی یوگا

 یوگا کے ہر ٓاسن کا جسم کے ہر حصے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ،یوگا کے آسن سے ریڑھ کی ہڈی اور مختلف ہڈیوں کے جوڑ میں لچک رہتی ہے جسم میں مدافعاتی قوت نمو پذیر ہوتی ہے اور جسم توانا اور چاق و چوبند رہتا ہے۔ ہم لاشعوری طور پر بھی کچھ ایسی حرکات و سکنات کرتے ہیں جن سے ہم اپنے جسم کو تھوڑی راحت بخشتے ہیں۔ مثلا سو کر اٹھتے ہی انگڑائی لینا یا گہری سانس لینا، بدن کو توڑنا مروڑنا وغیرہ یہ تمام چیزیں ہم بے خیالی اور بے ترتیبی کے ساتھ کرتے ہیں، خود کو آرام دینے کے لیے۔ لیکن اگر انہی چیزوں کو مرتب ڈھنگ سے روزمرہ کے معمولات میں شامل کرلیں اور کچھ وقت اس پر صرف کریں تو ذہن و جسم کو کتنا سکون ملے گا۔

اب ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ یوگا کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک جو ظاہری حسن کو سنوارتا ہے اور دوسرا جو داخلی نظام میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے  یہ خیال رہے کہ محض یوگا کے ایک پہلو پر عمل کرکے ایک بہتر اور مکمل انسان نہیں بنا جا سکتا  اس لیے ضروری ہے کہ اس کے دونوں پہلوئوں کو اختیا ر کیا جائے تاکہ اپنی ذات کی اور سماج کی بھلائی عمدہ طریقے  پر ہو اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔

Abdul Aleem

B-23, Gali No: 3, Fourth Floor

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

aleema913@gmail.com

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

یوگا کی روحانی اور مادی اہمیت ،مضمون نگار: عبدالعلیم

  اردو دنیا،جون 2025 موجودہ حالات و معمولات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج کا انسان ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے بے اطمین...