اردو دنیا، اکتوبر 2024
’مآثرر حیمی‘ میں تحریرہے ’’جب تیندوے نے
انسانوں کو آتے دیکھا، وہ غصّے سے لپکا۔ سپہ سالارنے سب سے زیادہ تلوار کے ہاتھ
اس تیندوے کو مارے اور اس کے سر کو دو نیم کر دیا۔‘‘
سیّد منصور علی سہروردی کے ذریعے کیے گئے مآثررحیمی کے
اردو تر جمہ میں صفحہ نمبر 206 پر جرأت و بہادری کی روشنی بکھیرتی اس تحریر میں
موجود سپہ سالار شکاری کوئی اور نہیں مرزا عبدالرحیم خانخاناں ہیں۔ خانخاناں ایک
اچھے شکاری، رزم و بزم کے دھنی اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
عبدالرحیم خانخاناں کی ولادت اکبر اعظم کے اتالیق و سپہ
سالار بیرم خاں کے یہاں 1556 میں لاہور
میں ہوئی تھی۔ رحیم نے 71 برس کی عمر پائی۔ ایک روایت کے مطابق 1626اور ایک دوسری
روایت کے مطابق 1627 میں رحیم نے جانِ عزیز جاں آفریں کے سپردکی۔
عبدالرحیم کی یادگاروں میں سب سے بڑی یادگار
فارسی کتاب ’مآثررحیمی‘ ہے جو عبدالرحیم کے حکم پر برہان پور میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے مصنّف ملا عبدالباقی نہاوندی ہیں۔
قابل مصنف نے اس کتاب میں بیرم خاں اور عبدالرحیم کے کوائف نیز دیگر سیاسی،
سماجی حالات تفصیل سے تحریر کیے ہیں۔لیکن عبدالرحیم سے متعلق صرف 1616تک کے حالات
ہی تحریر کیے جاسکے ہیں۔ بیرم خاں کی رحلت کے بعد عبدالرحیم کی پرورش چار سال کی
عمر سے بطور’ خانہ زاد ‘ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبر اعظم کی دیکھ ریکھ میں ہوئی۔
عبدالقادر جاوید انصاری نے ’تاریخ زرنگار برہان پور‘ میں لکھا ہے:
’’ اکبر بادشاہ نے بیرم خاں کی خدمات کو پیش
نظر رکھتے ہوئے مرزاعبدالرحیم کی پرورش اور تربیت اپنی خاص نگرانی میں کرائی۔ مرزا
نے اپنی ابتدائی عمر کا حصہ حصول تعلیم میں صَرف کیا اور لہو لعب سے دور رہا۔ جب
سن شعور کو پہنچا تو علمی ماحول نے اس کے ذہنِ رسا کو حیرت انگیز تابانی بخشی۔‘‘
(تاریخ زر نگار برہان پور، ص 255)
مآثر رحیمی میںہے کہ عبدالرحیم نے بغیر کسی استاد کی
مدد کے گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ جب وہ 16کے سن کو پہنچے تو
ان کی جنگی مہارتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں سپہ سالار بنا دیا گیا۔
مسلسل تربیت اور مشق و ممارست کے ساتھ جیسے جیسے
خانخاناںکی عمر بڑھتی رہی بادشاہ سلامت انھیں کسی نئی خدمت پر متعین کرتے
رہے۔ جب خانخاناں 28 برس کے ہوئے تو انھیں
شہزادہ جہانگیر کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ مآثر رحیمی سہروردی کے ترجمہ میں ہے۔’’
بادشاہ نے جب ان کے احوال اور نئے پن کا مشاہدہ کیا تو آزمائش کے لیے خدمات پر
معمور فرمایا …چنانچہ 28 برس کی عمر میں شہزادہ کامگار یعنی جہانگیر کی اتالیقی پر
جو اس زمانے میں شیخو کے نام سے مشہور تھا، مقرر کیا ۔‘‘
( مآثررحیمی…مترجم سید منصور علی سہروردی، ص
88)
ملکی دارالخلافہ کی طرح دکن کے دارالسلطنت برہانپور سے
عبدالرحیم خانخاناں کی گہری وابستگی رہی۔ اس دیار میں عبدالرحیم خانخاناں نے بعد
کے دورمیں اپنی عمر کا بہترین زمانہ گزارا۔ خانخاناں کے برہان پور قیام اور
دکن کی صوبیداری کے دور میں محققین کے درمیان اختلاف ہے۔ ’رحیم گرنتھاولی‘ میں
خاندیش (برہان پور ) میں گذارے گئے ان کے وقت کی میعاد 30 سال تحریر کی گئی ہے۔
مولوی معین الدین ندوی نے بھی یہ مدت 30 برس بتائی ہے۔ عبدالقادر جاوید انصاری نے
خانخاناں کی صوبے داری کی مدت 32 سال تحریر کی ہے۔ دکن کی صوبے داری کے زمانے کی
جہاں تک بات ہے یہ قلمدان خانخاناںکو اکبر اعظم کے انتقال 1605 کے بعد عہد جہانگیر
میں میسر آیا تھا۔ اس سے قبل عبدالرحیم وزارت کے عہدے پر فائز تھے۔ ’مآثر‘ میں
ہے جب خاندیش بنایا گیا اس کا پہلا صوبیدار دانیال اور وزیر عبدالرحیم خانخاناں
مقرر ہوا۔ احقر کے تحقیقی مقالے برہانپور کی اردو شاعری پر ’دبستانِ لکھنؤ کے
اثرات‘ میں صفحہ نمبر32 پر تحریر ہے:
’’ مغل شہنشاہ اکبر 27اکتوبر 1605کو فوت ہوا
اور مغلیہ سلطنت کا اگلا تاجدار سلیم جہانگیر آگرہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔
جہانگیر نے جنوب کی ساری ذمہ داریاں عبدالرحیم خانخاناں کو سونپ دیں۔ ‘‘
جہانگیر کے ہاتھوں خانخاناں کو صوبیداری کی
ذمے داری سونپے جانے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس منصوبے پر 1605 یا اس کے بعد ہی
عمل در آمد ہوا تھا۔ 1605 کے بعد خانخاناں کے 1627تک بقید حیات رہنے یعنی 22 سال
تک مزید زندہ رہنے کے شواہد ملتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے
کہ موصوف اپنی زندگی کے آخری برسوں میں دکن یا برہانپور میں موجود نہیں
تھے۔ ان شواہد کی روشنی میں خانخاناں کی صوبے داری کے دورانیے اور برہانپور قیام
کے زمانے کا تعین کرنا سہل ہو جاتا ہے۔
خانخاناں کے قیام برہان پور کے دور میں ایک وقت ایسا
بھی آیا کہ محل سرا میں گروہ بندی کی وجہ سے انھیں دارالسلطنت برہان پور سے واپس
بلا لیا گیا۔ تاریخ جہانگیر میں ہے، ’’ نور جہاں کے گروہ نے یہ انتظام کیا کہ
شہزادہ پرویز کو الٰہ آباد تبدیل کر دیا اور خانخاناں کو واپس بلا کر دکن کی مہم
شہزادہ خرم کے سپرد کر دی۔ ‘‘ ( تاریخ جہانگیر : ڈاکٹر بینی پرساد :ص 264)
اتنا ہی نہیں حکومت مغلیہ کے ماتحت رہتے ہوئے خانخاناں
کو برہانپور سے کئی باروقفے وقفے سے دیگر علاقوں کا سفر بھی کرنا پڑاتھا، جو کئی
کئی مہینوں اورسالوں پر محیط تھا۔ اس
لیے مسلسل تین دہائیوں تک خانخاناں کی برہانپور میں اقامت کا دورانیہ بھی ہمیں
سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
خانخاناں کے اوصاف کی بات کریںتو الگ الگ دور میں ان کی
طبیعت میں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ’مآثر‘ میں سہروردی کے اردو ترجمہ میں ہے:
’’سحرخیزی سے لطف اندوز ہونا ان کی عادت ہے۔ فرائض و سنن کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ
اٹھا نہیں رکھتے۔ سلطنت ہوتے ہوئے بھی ہوس سے دور، تقویٰ و صلاح کے قریب تھے۔
خلق اللہ کے اہم کاموں اور ضروریات کی تکمیل کواپنے کاموں پر ترجیح دیتے ہیں۔
‘‘
( مآثر رحیمی ...ترجمہ سہروردی، ص 197)
خدمت خلق کے جذبے کے تحت رحیم نے عوامی حمام اور نہر خیر
جاری المعروف خونی بھنڈارہ کی تعمیر کروا کر تاقیامت یاد رکھا جانے والاکارنامہ
انجام دیا تھا جس کے سبب ہر دور کے عوام کی نظر میں خانخاناں کا قد بلند ہونے کے
ساتھ ان کا احترام بھی بڑھ جاتا ہے۔
برہانپور میں عہد مغلیہ میں جو تعمیرات ہوئیں ان میں سے
متعدد شاہجہاں کے عہد شہزادگی اور صوبے داری کے دور میں ہوئیں۔ محل گل آرا کی
عمارتیں، شاہجہانی عیدگاہ، قلعۂ ارک سے منسلک خوبصورت حمام ان میں خاص ہیں۔
عبدالرحیم خانخاناں نے برہان پور میں جو عمارتیں بنوائیں ان میں جہانگیری حمام (
عوامی حمام ) نہر خیر جاری، مسجد اور جہانگیری سرائے، دوسری جہانگیری سرائے
جسے اکبری سرائے بھی کہا جاتا ہے، صحن جامع مسجد، مقبرہ شاہنواز خاں اور
باغات وغیرہ ہیں۔ عبدالرحیم نے اپنی صوبے داری کے زمانے میں دارالسلطنت
برہانپورمیں عوامی حمام موجود نہ ہونے کی وجہ سے محسوس کی جانے والی پریشانیوں کے
پیش نظر شہر کے میدان کے سرے پر ایک حمام تعمیر کروایا تھا جسے جہانگیری حمام کہا
جاتا ہے۔ یہ حمام محلہ بیری میدان میں بوہرہ جماعت کی زکوی حویلی کے نزدیک زمانے
کے سرد و گرم سہتا ہوا آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ گرگ خراسانی کے زیر اہتمام
رفاہِ عام کے لیے تیار ہوئے اس حمام سے فیض یاب ہوتے ہوئے فقرا، مساکین اور عوام خانخاناں کی
فرماں روائی کے لیے اکثر دعا کرتے تھے۔
عبدالرحیم خانخاناں کی تعمیرات میں ایک اہم کارنامہ نہر
خیر جاری کی تعمیر ہے۔ اس نہر کو عرف عام میں خونی بھنڈارہ کے نام سے یاد کیا جاتا
ہے۔ کہا جاتا ہے اس زمانے میں برہانپور میں پانی کی قلّت تھی۔
خانخاناں نے ست پڑا کی پہاڑیوں میں میٹھے پانی کے چشمے تلاش کر کے تقریباً دس کلو میڑ زمین
دوز نہر بنوائی تھی۔ گچ اور پتھروں سے بنی یہ نہر زیر زمین ہونے کے ساتھ دور تک پھیلی
ہوئی ہے۔ تعمیری اعتبار سے یہ اپنی مثال آ پ کہی
جاتی ہے۔ مآثر رحیمی، تاریخ زرنگار برہانپور اور دیگر کتب میں اس کی تفصیلات
موجود ہیں۔
خانخاناں نے فاروقیوں کے دور کی فن تعمیر کا اعلیٰ
نمونہ کہی جانے والی جامع مسجد کے برباد ہوتے دالان کو اپنے دورمیں نئے سرے سے تعمیر
کرنے کا حکم دیا تھا۔ انگریز سفیر تھامس رو جب
1615میں برہانپور میں موجود تھا،
اس نے عوام کے مٹی سے بنے ہوئے مکانات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سفر نامے میں
شہزادہ پرویز، امرا اور خانخاناں کے پکے مکانات بشکل محلات موجود ہونے کا ذکر کیا
ہے۔ لکھا ہے ’خانخاناں جب برہانپور میں تھے، انھوں نے ایک وسیع محل بنوایا
تھا۔ اس کا بلند گنبد، اس کی زیب و زینت، اس کا رنگ برنگا فرش، مختلف رنگوں سے سجی
اس کی چھت قابل تعریف ہے ‘‘
(مآثرِ رحیمی : ترجمہ سہروردی : ص
227)
اسی طرح سنگ خاراکا حوض، جہانگیری سرائے اور دوسری
جہانگیری سرائے کی تعمیر بھی خانخاناں کے دورمیں ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ مقبرہ
شاہنواز خاں بھی رحیم خانخاناں کے دور کا فن تعمیرکا بہترین نمونہ ہے۔ یہ
مقبرہ در اصل خانخاناںکے پانچ فرزندان میں سے سب سے بڑے بیٹے مرزا ایرج یعنی
شاہنواز خاں کا مدفن ہے جو اتاؤلی ندی کے کنارے سطح زمین سے کافی اونچائی پر
موجود ہے۔ آج کل محکمۂ آثارِ قدیمہ نے اس احاطے میں ایک باغ لگوادیا ہے جس
کے سبب یہ برہانپور کے سیاحتی مراکز میں سے ایک اہم مرکز کے بطور جانا پہچانا جانے
لگا ہے۔ یہ عمارات چار صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی آثارِ قدیمہ کے بطور اپنے وجود
کا احساس کراتی ہے۔ کچھ عمارات ضرور ایسی بھی رہی ہوںگی جن کا وجود وقت کے طوفان میں
ختم ہو کر رہ گیاہو۔
ان شواہد کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ خانخاناں کو فن
تعمیر سے گہرا لگاؤ تھا۔ ساتھ ہی وہ شاعری اور فنون لطیفہ میں بھی معاصرین میں
نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ فن سپہ گری، جنگلی جانوروں کے شکار کا شوق، فن تعمیراور
شعر و ادب سے گہری دلچسپی مل کر عبدالرحیم خانخاناں کوانوکھا اور نرالاثابت کرتے ہیں۔
شاید ان صلاحتیوں کے پیش نظرہی جہانگیر کو اپنی تزک میں تحریر کرنا پڑا تھا۔
’’خانخاناں قابلیت اور خوبیوں میں سارے عالم میں نرالا تھا۔‘‘ خانخاناں شاعر و ادیب
ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا شاعر نواز بھی تھا۔ اس نے اپنے دربار میں دیگر سلطنتوں
اور ممالک کے شعرائے کرام کو جمع کر رکھا تھا۔ مولوی معین الدین ندوی لکھتے ہیں :
’’نوعی، شاعر برہانپور میں عبدالرحیم
خانخاناں کے دربار سے وابستہ تھا۔ اس نے ایک مرتبہ خانخاناں کی تعریف میں ایک
قصیدہ لکھ کر سنایا تو خانخاناں نے اسے دس ہزار روپے نقد، ایک ہاتھی، ایک
عراقی گھوڑا اور خلعت فاخرہ عطا کیا تھا۔ ‘‘
(دارالسرور برہان پور: مولوی معین ندوی : ص
20 )
عبدالرحیم خانخاناں کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل
تھی، وہ فارسی کے علاوہ برج بھاشایعنی ہندی میں بھی شعر کہتے تھے، نیز فارسی ہندی
کے اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ہندی فارسی سے لذت آشنائی کے بعد زبان کا ذائقہ تبدیل
ہوا تو خانخاناں نے اردو کی تشکیل کے دور میں ہندی فارسی لفظوں کے سہارے
ریختہ یا قدیم اردو میں اشعار کہے۔ نکات الشعرا، تذکرۂ ریختہ گویاں، مجموعۂ نغز،
مخزن نکات اور آبِ حیات وغیرہ میں بکھرے اشعار اس بات کی دلیل ہیںکہ خانخاناں نے
قدیم اردو میں شعر کہے ہیں۔ بطور مثال دو شعر حاضر ہیں ؎
ارے ناداں نین اپنے سجن کو کیوںرٹھایا ہے
روٹھاکر پیوںکو جگ میں کسو نے ذوق پایا ہے
بہت پچھتائے گا میری نصیحت مان کہتی ہوں
سکھی کو رات سبوہی سیپیاریکو جو بھایا ہے
خانخاناں کو فارسی ہندی زبانوں کے علاوہ دیگر زبانوں پر
عبور حاصل ہونے کے سلسلے میں مآثر الامراسے یہ اقتباس حاضر خدمت ہے :
’’ خانخاناں در قابلیت و استعداد یکتائے
روزگار بود، عربی و فارسی و ترکی و ہندی رواں داشت۔ شعر خوب می فہمید و گفت
‘‘ (ترجمہ ) خانخاناں قابلیت و استعدادمیں
یکتائے زمانہ تھا۔ اس کی عربی، فارسی اور ترکی اور ہندی رواں تھی۔ شعر سمجھنے
اورتخلیق کرنے میں اسے مہارت حاصل تھی۔
عبدالرحیم خانخاناں کی ہندی شاعری میں انھیں بطور خاص
ہندی دوہوں کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔ عہد حاضر میں زبان زد خاص و عام چند دوہے
حاضر خدمت ہیں ؎
رحیمن پانی راکھیے، بن پانی سب سون
پانی گئے نہ اوبرے، موتی، مانش چون
بگری بات بنے نہیں، لاکھ کرو کن کوئے
رحیمن پھاٹے دودھ کو، متھے نہ ماکھن ہوئے
حیرت کی بات ہے نہاوندی نے رحیم کے ہندی دوہے ’مآثر‘ میں
کہیں نقل نہیں کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے شاید وہ زبانِ ہندی سے ناواقف تھے۔ اس ضمن میں
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ رحیم کے یہ دوہے بیسویں صدی کی دریافت ہیں اور محققین ان
کی صحت پر مزید تحقیق کی گذارش کر تے ہیں۔
مختصر یہ کہ مغلیہ سلطنت کے فرما نرواؤں اکبر اعظم،
جہانگیر اور شاہجہاں کے مقرب و معززکہے جانے والے
عبدالرحیم خانخاناں فارسی، ہندی، اردو اور ترکی میں شعر کہنے کے ساتھ اپنی
متعدد صلاحیتوں کے سبب بھی اپنے دور میں نمایاں رہے۔ خانخاناں نے خاندیش کے
دارالسلطنت برہان پور میں اپنی سکونت کے دور میں نہ صرف متعدد علاقوں کو فتح کیا
اور عمارات بنوائیں بلکہ غریبوں کے آنسو پوچھنے کے ساتھ ادبی دنیا کو محبتوں بھری
ایسی تخلیقات سے نوازاجس کی ادبی دنیامیں دوسری مثال نہیں ملتی۔رحیم کے اس
دوہے پر بات تمام کہ ؎
رحیمن دھاگا پریم کا، مت توڑو چٹکائے
ٹوٹے سے پھر نہ جڑے، جڑے گانٹھ پری جائے
ماخذات
1
مآثر رحیمی ( خانخاناں بیرم اور عبدالرحیم کی سوانح ) مصنف: عبدالباقی نہاوندی،
مترجم : سیّد منصور علی سہروردی مطبع: معارف پریس، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، 2017
2
تزک جہانگیری (نورالدین جہانگیر بادشاہ )، مترجم: مولوی احمد علی صاحب رامپوری ،
مطبع : مکتبہ الحسنات دہلی ، 2001
3 تاریخ جہانگیری
، مصنف : ڈاکٹر بینی پرساد، مترجم : رحم علی الہاشمی، مطبع ترقی اردو بورڈ، نئی
دہلی، سن اشاعت 1979
4 مآثر
رحیمی ، مصنف : عبدالباقی نہاوندی مترجم :
محمد اسماعیل فہمی برہانپوری، مطبع: مکتبہ دیوبند، سنہ اشاعت: 2020
5
تاریخ زرنگار برہانپور، مصنّف جاوید انصاری
شائع کردہ : حمید الحق فہمی، 2021
6 رحیم
گرنتھا ولی (ہندی ) مصنّف ودیا نواس
مشر مطبع : وانی پرکاشن دہلی
7
دارالسرور برہانپور ، مصنّف : مولوی معین الدین ندوی مطبع : سردار پریس مالیگاؤں، 1978
8
برہانپور کی اردو شاعری پر دبستانِ لکھنؤ کے اثرات، مصنف : ڈاکٹر عارف انصاری،
ناشر : فاضلی اردو لٹریری اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، برہانپور ، 2018
Dr. Arif Ansari
34/ 274, New
Bus Stand Road
Jai Smith
Burhanpur- 506244 (MP)
Mob.: 9993994141
drarif786aa@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں