6/11/24

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

 اردو دنیا، اکتوبر 2024

اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن قدیم بھی ہے اور صرف انہی زبانوں میں رائج ہے جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس میںہندسہ ’حرف‘ کی قیمت مقرر کرتا ہے اور حرف ’ہندسے‘ کو نہ صرف یادگار بناتا ہے بلکہ اس کی اہمیت و افادیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ نتیجتاً یہ کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ اور علم ہندسہ کا ادغام فنِ تاریخ گوئی کی اساس ہے۔ اس علم سے استفادہ کرتے ہوئے ہم حیات و ممات ، انسانی زندگی کا کوئی اہم واقعہ یا قومی سطح پر رونما ہونے والا کوئی کارنامہ، عمارات کے سنینِ تعمیر، افراد کی پیدائش، مختلف تحریروں کے سنینِ تالیفات و طباعت اور مادّی زندگی کے مختلف شعبوں کی کارکردگی نیز مہتم بالشان واقعات کو تاریخی مادّے کی شکل میں برآمد کرسکتے ہیں جو مرور ایام سے محفوظ رہ کر آسانی سے دماغ پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ گویایہ ہمارے گذشتہ لمحات کو چند اعداد میں مقید کردینے کا ایساعمل ہے، جو ماضی کا شاندار حوالہ بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل میں کسی اچھے عمل کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔علم بدیع کی اصطلاح میں ’تاریخ‘ اس فن کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی واقعے کا سنہ وقوع کسی لفظ، محاورے، فقرے یا مصرعے کے ذریعے بحساب جمل لگایا جائے۔ تاریخ گوئی کا اصطلاحی مفہوم مولوی نجم الغنی نے بحرالفصاحت میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’…اصطلاح میں تاریخ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی لفظ یا فقرہ یا عبارت، مصرع یا بیت ایسی تجویز کریں کہ اس کے مکتوبی حروف کے عددوں سے بہ حساب جمل سنہ اور سال کسی واقعہ، شادی یا وفات کے معلوم ہوں یا نکاح خواہ تولد فرزند یا تصنیف کتاب خواہ لڑائی یا بادشاہ کے جلوس یا کسی اور امر کے وقوع کا زمانہ سمجھا جائے۔‘‘

(بحر الفصاحت، مولوی نجم الغنی، مطبع منشی نولکشور لکھنؤ، اشاعت دوم 1927، ص996)

فن تاریخ گوئی ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے مادۂ تاریخ رقم کیا جاتا ہے اور اس کے لیے شعرا نے دیگر اصناف سخن کے مقابلے صنف ’قطعہ‘ کو زیادہ ترجیح دی۔قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں لیکن اصطلاحی معنوں میں یہ ایک صنف شعر ہے،جس میں قوافی کی ترتیب قصیدے یا غزل کے مطابق ہوتی ہے۔ یعنی تمام اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں لیکن غزل اور قصیدے کے برعکس قطعہ میں مطلع نہیں ہوتا اور مقطع بھی ضروری نہیں۔ قطعہ کے لیے کم از کم دو شعر کا ہونا ضروری ہے البتہ زیادہ سے زیادہ اشعار کی کوئی حدبندی نہیں۔ پھر بھی غزل کی طرح قطعے کی طوالت بھی دس بارہ شعروں تک ہی مناسب سمجھی جاتی ہے۔ قطعات میں عام طور پر ردیف سے کام نہیں لیا جاتاہے۔ بہرحال ’قطعہ‘ ایک ایسی صنف ہے جس میں تاریخ کہنا دیگر اصنافِ سخن کے مقابلہ زیادہ آسان ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صنف میں دیگر اصناف سخن کے مقابلے عروضی پیچیدگیاں نسبتاً کم ہیں۔ صنف ’قطعہ‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات مادۂ تاریخ کسی اور صنف میں نظم کیا گیا ہے لیکن عموماً اس پر عنوان ’قطعہ تاریخ‘ ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی غلطیاں بلند پایہ شعرا کے دیوان و کلیات کے مرتبین نے کی ہیں اور یہ اغلاط مثنوی اور رباعی کے ضمن میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ بہرحال یہ مسلم الثبوت ہے کہ تاریخ گوئی کے سلسلے میں اس صنف کا پلہ دیگر اصناف سخن کے مقابلے بھاری ہے۔ یہ ایسافن ہے جس کے ذریعے بحساب جمل حروف کے بامعنی مرکبات کی عددی قیمتوں اور مادۂ تاریخ کو اعداد کی شکل میں محفوظ کیاجاسکتا ہے۔ ہمارے قدیم تاریخ گو شعرا نے اس فن میں نہ صرف دلچسپ مادوں کی شکل میں ماضی کے جواہر پاروں کو محفوظ کیا بلکہ رباعیات اور قطعات کی شکل میں ان مادوں کو اتنا دلچسپ بنادیا کہ بعض مادے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ویسے تاریخیں نثر میں بھی رقم کی جاتی ہیں، جس میں ایک لفظ یا جملے سے مادۂ تاریخ نکالا جاتا ہے لیکن جہاں تک مختلف اصناف کی تاثیر کا سوال ہے تو شاعری کی فوری تاثیر مسلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن تاریخ گوئی کے آغاز سے ہی شعرا، اشعار اور مصرعوں میں موجود حروف و الفاظ سے تاریخیں برآمد کرتے رہے ہیں، اس میں کسی صنف کی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ شعرا نے کبھی مثنوی، رباعی، قطعہ، نظم اور غزل میں مادہ ہائے تاریخ نکالے لیکن جہاں تک صنف قطعہ کا تعلق ہے تو یہ دیگر اصناف کی بہ نسبت مخصوص اوزان و بحور کی قید سے آزاد ہے۔

تاریخ گوئی کے فن، روایت اور اس کے آغاز و ارتقا کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ انسانی معاشرہ اتنا قدیم ہے کہ اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب علم ہندسہ ایجاد ہوا ہوگا تو دوسری طرف علم تہجی بھی وجود میں آگیا ہوگا، جن کی ترقی یافتہ شکل ابجد ہے، جو تاریخ گوئی کی بنیادی ضروریات کو پوراکرتی ہے۔ یہ فطرتِ انسانی کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کی حیات و ممات اور اس کے کارنامے‘ اس کی زندگی کے بعد بھی برسہا برس یاد کیے جائیں۔ قدیم عمارات پر ہم اکثر سنین دیکھتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عمارت کی تعمیر کی تاریخ لوگوں کو معلوم رہے۔ جب کوئی کارنامہ تاریخ کا حصہ قرار پاتا ہے اور اس کارنامے کو جاوداں بنانے کے لیے انسان کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے کہ اس کو قائم و دائم رکھا جائے تب تاریخ گوئی کا وجود ہوتاہے۔ اسلامی دور کے مشہور تاریخی واقعات، فتوحات، سنین پیدائش و وفات، جلوس شاہانہ، تصانیف کتب وغیرہ یہ ایسے کارنامے ہیں جنھیں یادگار بنانے کے لیے قطعے کی صورت دے دی گئی، جس کے ایک ٹکڑے سے اس کی تاریخ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔کہاجاتا ہے کہ عربوں نے حروف کے اعداد مقرر کیے ،ان میں شعرگوئی کا بھی وافر رجحان تھا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عربوں ہی نے پہلے پہل تاریخ لکھی:

’’ابجدکے مقررہ کلمات کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ کلمات حضرت ادریس علیہ السلام کے وضع کردہ ہیں۔ فن تاریخ گوئی عربی اور فارسی سے ہوتا ہوا اردو میں پہنچا اور آج تک رائج ہے…۔‘‘

(سیدہ عندلیب زہرا کانپوری، خاتون پاکستان کراچی(مضمون بعنوان فن تاریخ گوئی) جلد 14، شمارہ3،ص:2)

اس فن کے اصول و قوانین اور شعریات کے سلسلے میں سب سے پہلے حروف ابجد کا تعین ضروری ہے کیونکہ ’ابجد‘ فن تاریخ گوئی کی اساس ہے۔فن تاریخ گوئی میں حروف سے ہندسوں کو برآمد کرنے کے لیے جن بنیادوں کو کام میں لایا جاتا ہے وہ ابجد کہلاتے ہیں ۔ان حرفوں کے اعداد بھی مقرر کیے گئے ہیں جنھیں حسابِ جمل کہاجاتاہے۔بعض لوگ اپنے بچوں کے نام بھی اسی قاعدے کے مطابق رکھتے ہیں جس سے پیدائش کا برس نکلتا ہے۔شان الحق حقی نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ’’ابجد حروفِ تہجی کی وہ ترتیب ہیں جو الف۔ ب۔د سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ابجد کی صورت درج ذیل ہے:

حروف ابجد کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے مخصوص معنی ہیں جس کے مطابق: ’ابجد‘ آغاز کیا، ’ہوز‘ مل گیا، ’حطی‘ واقف ہوا، ’کلمن‘ سخن گو ہوا، ’سعفص‘ اس نے سیکھا، ’قرشت‘ ترتیب دیا گیا، ’ثخذ‘ نگہبانی کی اور ’ضظغ‘ تمام کیا وغیرہ۔بعض لوگوںکاعقیدہ یہ ہے کہ ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام جب جنت الفردوس سے زمین پر آئے تو ایک بہشتی زبان اپنے ساتھ لائے جو اپنی اصل کے اعتبار سے عربی ہی کی ایک شکل تھی، اسی کو ابجد یاخالص عربی زبان کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ایک قول کے مطابق اباجادنامی بادشاہ کے نام کا مخفف ’ابجد‘ ہے اورباقی سات کلمے اس کے سات فرزندوں کے نام ہیں۔ ایک تصور یہ بھی ہے کہ’ابجد‘ ’مرامر‘ نامی شخص کے آٹھ فرزندوں کے نام ہیں،جبکہ بعض علما نے ان آٹھوں کلمات کو شیاطین کے ناموں سے تعبیر کیا ہے اوربعض نے سلاطین کے ناموں سے جبکہ عین ممکن ہے کہ یہ کلمے بامعنی نہ ہوں اورمحض ابجد کی ترتیب ظاہر کرنے کے لیے استعمال میں لائے گئے ہوں۔

تاریخ گوئی کے لیے عربی حروف کو بنیاد قرار دیا گیا ہے اور فارسی و ہندی حروف مثلاً پ، ٹ، چ، ڈ،ڑ،ژ اور گ کو ابجدمیں کوئی مقام نہیں مل سکا لہٰذا فارسی ، ہندی اور اردو کے تاریخ گو شعرا نے اپنے حروف کو ابجد کے ماتحت رکھتے ہوئے متذکرہ بالا حروف (پ، ٹ، چ، ڈ،ڑ،ژ اور گ )کو ان کی مساوی شکل ب، ت، ج، د، ر،ز اور ک کا ہم عدد قرار دیا اور مادہ تاریخ نکالنے کے لیے پہلا اصول یہ قرار پایا کہ تاریخ گوئی کے لیے حروف مکتوبی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح اس اصول کی پوری طرح پابندی کرنے میں تاریخ کہنے میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فن میں تلفظ سے زیادہ کتابت کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ابجدی کائنات میں بعض حروف ایسے ہیں جن کا مخرج یکساں ہے مثلاًالف اور عین، ت اور ط، ث،س اور ص نیز ز،ذ،ظ،ض وغیرہ۔

اس طرح محض حروف مکتوبی کو اساس بناکر مادہ تاریخ نکالا جائے گا خواہ وہ حروف مکتوبی‘ پڑھنے میں آئیں یا نہ آئیں۔ مثلاً؛ عبدالقوی کا (الف) اگرچہ بولنے میں نہیں آرہا ہے لیکن اس کے عدد شمار کیے جائیں گے کیونکہ یہ مکتوبی حرف ہے۔ اسی طرح عربی کے بعض الفاظ مثلاً ’آمنوا‘ اور بینوا‘ کے آخر میں ’الف‘ اگرچہ پڑھنے میں نہیں آرہا ہے لیکن اس کے بھی اعداد شمار کیے جائیں گے۔ بعض ایسے حروف جن پر تشدید واقع ہوتی ہے،وہ دو مرتبہ پڑھے اوربولے جاتے ہیں، لیکن مکتوبی اصول کے نقطۂ نظر سے انھیں صرف ایک ہی حرف شمار کیا جائے ،جیسے خرّم اور فرّخ میں صرف ایک (ر) کے عدد ہی شمار کیا جائے گا کیونکہ ان کی مکتوبی حالت ایک ہے یعنی ’ر‘ ایک ہی بار تحریر میں آرہا ہے اس لیے انھیں ایک بار شمار کیا جائے گا۔

بعض ہندی حروف جو دو حروف کا مرکب ہوتے ہیں جیسے بھ، پھ، دھ وغیرہ، مکتوبی قاعدے کے مطابق ان کے دو حروف شمار ہوں گے یعنی (بھ) میں ’ب‘ اور ’ہ‘ دونوں شمارکیے جائیں گے۔

الف ممدودہ (آ) کی لفظی ادائیگی (آا) کی صورت میں بنتی ہے لیکن چونکہ لکھنے میں ایک الف شمار کیا جاتا ہے لہٰذا الف ممدودہ اور الف مقصورہ کی قیمتیں یکساں ہوں گی یعنی ان کو ایک ہی عدد شمار کیا جائے گا۔اس سیاق میں اختلافات بھی ہیں، بعض حضرات الف ممدوہ کو دو عدد جبکہ بعض ایک ہی عدد شمار کرتے ہیں۔الف ممدوہ کو دو عدد شمار کرنے والوں کا خیال ہے کہ چونکہ :

1        عربی میں الف ممدودہ میں دو الف ہیں۔

2        فن عروض میں بھی ’آ‘ بروزن ’فا‘ شمار ہوتا ہے۔

3        فارسی کی تمام لغات میں حروف تہجی کے بیان میں الف ممدودہ اور الف مقصورہ کی فصلیں جدا جدا قائم کی گئی ہیں۔

4        الف ممدودہ پڑھنے میں دراز ہوتا ہے جیسے آمدن اور آوردن وغیرہ اس لیے دو عدد شمار کیے جائیں گے۔

 الف ممدودہ کو ایک عدد شمار کرنے والے حضرات اپنے موقف میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چونکہ:

 حساب جمل میں مکتوبی حروف کو ملفوظی حروف پر ترجیح دی جاتی ہے، لہٰذا ’آ‘ کو ایک ہی عدد شمار کرنا چاہیے۔

تائے مدورہ یعنی گول ’ۃ‘ کا معاملہ سب سے زیادہ نازک ہے۔ تا عربی رسم الخط میں دو طرح سے لکھی جاتی ہے:

1        دراز جیسے ’ت‘ جس کا نام عربی میں تائے مبسوط ہے۔

2        گول جیسے ’ۃ‘ اس کو عربی میں مدورہ، مربوط یا تائے تانیث کہتے ہیں۔

پھر تائے مدروہ’ۃ‘ کو دو طرح سے لکھنے کارواج ہے:

1        تائے مدورہ جو اپنے مابعد حرف سے متصل نہ ہو جیسے توبہ، کعبہ، حجہ، وغیرہ۔ ایسی صورت میں تائے مدورہ کے نقطوں کو حذف کردیا جاتا ہے اور پڑھنے میں ’ہ‘ کی آواز دیتی ہے۔

2        تائے مدورہ موصولہ جو اپنے مابعد حرف سے متصل ہو جیسے توبۃ النصوح، کعبۃ اللہ،حجۃ اللہ وغیرہ۔

 ابجد کے حساسب سے قرشت کی (ت) کے عدد چار سو ہیں جب کہ تائے مدورہ (ۃ) جب کسی مقام پر حالت ہائے ہوز میں تبدیل ہو تو اس کا عدد محض پانچ رہ جاتا ہے۔ اس لیے مورخین نے اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق اس مسئلے کا تدارک کرلیا لیکن بعد میں اس فن کے مستند ماہرین نے جو اصول متعین کیے اس کے مطابق (ت) کے ہر حالت میں چار سو عدد ہوں گے خواہ وہ تائے مدورہ (ۃ) ہو یا تائے قرشت (ت) جیسے مراۃ العروس کی ’ۃ‘ لہٰذا اس کے چار سو عدد لیے جائیں گے البتہ کبھی کبھار تائے مدورہ کو ہائے ہوز(ہ) میں تبدیل کرکے لکھا جاتا ہے جیسے روضہ، جلسہ تو ایسی صورت میں یعنی جب تائے مدورہ کو بشکل ہائے مختفی یعنی بغیر نقطوں کے لکھا جائے تو وہ ہائے ہوز(ہ) ہی شمار کی جائے گی اور اس کے عدد پانچ لیے جائیں گے۔

ہمزہ حروف ابجد کے قبیل سے خارج ہے۔ چونکہ ہمزہ الف کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اس کا کوئی عدد نہیں لیا جائے گا۔اس حرف کے بارے میں مورخین میں خاصا اختلاف ہے۔

کھڑا زبر، کھڑی زیر، تنوین، تشدیدوغیرہ کو حروف میں شمار نہیں کیاجاتا لہٰذا ان کے اعداد شمار نہیں کیے جائیں گے۔ کیونکہ یہ حروف نہیں بلکہ حرکات ہیں۔عیسیٰ، موسیٰ ،ذاتہٖ، لغیرہٖ، دفعتاً، یقینا، عزّت، تدبّر وغیرہ پر کھڑا زبر،کھڑی زیر، تنوین اور تشدید کی علامت لکھنے کے باوجود اس کے اعداد کو شمار نہیں کیا جائے گا ۔

زیرمیں خان شاہد اکبرآبادی جو سائل دہلوی کے شاگرد تھے، کا ایک قطعہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ قطعہ مولانا الطاف حسین حالی کی تاریخ وفات نکالنے کے سلسلے میں تخلیق کیا گیا تھا،اس کی خوبی یہ ہے کہ ایک ہی شعر سے ہجری اور عیسوی دونوں سنہ برآمد ہوتے ہیں    ؎

اس قدر برسے ہیں ان کی یاد میں آنکھوں سے اشک

آنکھ میں اشکوں کے جو سوتے تھے سب خالی ہوئے

کیوں نہ ہو شاہد لب تاریخ پر ’مغفور باد

                                                                   1333ھ

جاں نواز اردو ادب میں حضرت حالی ہوئے

                                                                                 1914

بہرحال فارسی اور اردو میں فن تاریخ گوئی حروف ابجدکی مرہون منت ہے ۔ فارسی شعرا اس فن کے ذریعے عرصۂ دراز سے کمالات کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے تھے۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ اس میدان میں بتدریج ترقی کا عمل جاری ہے۔ فارسی شاعری میں کامیابی کے بعد یہ فن برصغیر ہند وپاک میں آیا اور یہاں بھی اس کا آغاز فارسی زبان سے ہی ہوا۔ ہندوستان میں فارسی شعرا کی اتباع میں قطعات تاریخ رقم کرنے کا رواج رہا کیونکہ اردو تاریخ گوئی اصول و قوانین کے سلسلے میں فارسی تاریخ گوئی کی مرہون منت تھی۔ اس طرح اردو زبان نے وسیع پیمانے پر فارسی زبان سے استفادہ کیا اور وہ تمام اصطلاحیں جو فارسی تاریخ گوئی میں رائج تھیں من و عن لے لیں۔ فارسی زبان میں تاریخ گوئی کو زیادہ مقبولیت ملنے کا سبب یہ تھا کہ فارسی کی مخصوص اصطلاحات اور الفاظ و تراکیب کو اعداد کے نقطۂ نگاہ سے برتنا قدرے آسان تھا۔ اس طرح یہ سلسلہ سودا سے شروع ہوکر ناسخ اور ان کے تلامذہ تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ ناسخ اور جرأت اس میدان کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اردو زبان کا ابتدائی دور دکنی دور کہلاتا ہے ۔ اس دور میں بھی فارسی کے زیراثر تاریخیں کہنے کا رواج ملتا ہے البتہ ناسخ کے یہاں دو چار تاریخیں اردو میں اور دکنی دور میں چند مثالیں اردو تاریخ گوئی کی بھی مل جاتی ہیں۔سودا کے یہاں بہت کم تعداد میں ہی سہی لیکن فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کے قطعات تاریخ بھی ملتے ہیں۔ سودا کے بعد اساتذۂ دہلی کے طبقۂ متاخرین میں جرأت کے یہاں سب سے زیادہ قطعات تاریخ ملتے ہیں۔ اسی عہد میں قائم چاندپوری، ممنون اور راسخ کے یہاں بھی چند قطعات کا ذکر ملتا ہے۔

مرکز شاعری لکھنؤ منتقل ہونے کے بعد ناسخ اور آتش کا زمانہ آیا،جس میں ناسخ کا نام فن تاریخ گوئی کے بنیاد گزاروں میں اس لیے بھی سر فہرست ہے کہ ان کے تلامذہ نے اپنے استاد کی اتباع کرکے ناسخ کا نام روشن کیا۔ ناسخ کے شاگردوں میں وزیر، برق، رشک، بحر،منیر، آباد اور طاہر وغیرہ میں سے اکثر نے تاریخ گوئی میں اہم کارنامے انجام دیے۔ اس وقت کے عظیم مرثیہ گو میر انیس او رمرزا دبیر نے بھی تاریخ گوئی کے سلسلے میں فارسی قطعات پر اکتفا کیا۔ غرضیکہ دبستان لکھنؤ کے طبقۂ متقدمین میں اردو تاریخ گوئی کو اتنا عروج نہ مل سکا جتنا کہ دبستان دہلی کی دوبارہ بحالی پر غالب و مومن کے عہد میں حاصل ہوا۔

غالب اور مومن سے قبل شاہ نصیر دہلوی کے یہاں بھی تاریخیں ملتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر تاریخیں فارسی زمین میں ہیں۔ غالب کے یہاں بھی تاریخوں کی کثرت ہے۔ دیوان غالب ’نسخہ عرشی‘ میں اردو قطعات تاریخ کی تعداد چھ ہے۔ حصہ دوم ’نوائے سروش‘ میں دواور حصہ سوم ’یادگار نالہ‘ میں چار، جب کہ ان کے فارسی دیوان میں تاریخوں کی تعداد زیادہ ہے۔ فن تاریخ گوئی کے حوالے سے مومن خاں مومن کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں بھی فارسی قطعات کی کثرت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو تاریخ گوئی کو بھی نہایت بلند مقام عطا کیا۔ غالب کے بعد ان کے شاگردوں میں میرمہدی مجروح کے یہاں غالب کی نسبت زیادہ قطعات تاریخ ملتے ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر مکمل مصرعوں میں تاریخیں نکالی ہیں۔

1857کی جنگ آزادی کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے بہت سے شعرا ریاست رام پور اور حیدرآباد منتقل ہوگئے یہ دور امیرمینائی اور داغ دہلوی کا تھا۔ ان دونوں غزل گو شعرا کے یہاں اردو قطعات تاریخ کی بہتات نظر آتی ہے۔ ان کے بعد اردو میں قطعات تاریخ گوئی کے سیاق میں جن شعرا کا نام سر فہرست ہے ان میں ضامن علی جلال لکھنوی، صفی لکھنوی، دل شاہجہان پوری، ریاض خیرآبادی، جوش ملسیانی، ہادی مچھلی شہری، جلیل حسن جلیل مانک پوری، نسیم لکھنوی، احسن مارہروی، سائل دہلوی، بیخود دہلوی، ولی حیدرآبادی،نفیس لکھنوی، وسیم حیرآبادی، رفعت بریلوی، وجاہت حسین وجاہت جھنجھانوی، مسعود حسن مسعود، حفیظ ہوشیارپوری، شان الحق حقی، عرشی امرتسری،رئیس امروہوی، شاہ لکھنوی وغیرہ شامل ہیں۔ فن تاریخ گوئی کو مولانا الطاف حسین حالی جیسے مجتہد شاعر نے بھی فروغ دیا۔ کلیات نظم حالی میں ان کے قطعات تاریخ کی تعداد سات ہے، جس میں تاریخ دربار قیصری کی طباعت اورمولانا محمد حسین آزاد کی تاریخِ وفات عمدہ مثالیں ہیں ۔ حالی نے غالب کی وفات کی تاریخ جو ان کی مشہور غزل کے شعر سے نکالی ہے،وہ اس طرح ہے:

ناگاہ دی یہ غالب مرحوم نے صدا

سچ ہے کہ خواجہ راہنمائی میں فرد تھا

تاریخ‘ ہم نکال چکے پڑھ بغیر ’فکر

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

1285

آخری شعر سے 2796 کا عدد برآمد ہورہاتھا، لیکن اس میں سے ’فکر‘ کے 300 اور ’تاریخ‘ کے 1211 اعداد منہا کردیے گئے، اب نئی صورت میں1285 کا عدد برآمد ہورہا ہے، جو غالب کا سنہ وفات ہے۔اس طرح حالی نے بعض اعداد نکال کر پھراس میں سے بعض اعدادکو منہا کرکے متعینہ تاریخ برآمد کی ہے،جو قطعات تاریخ کی تکنیک میں نیا اضافہ ہے۔

مصادر مراجع:

1        قطعات ورباعیات، ترکیب بند از غلام رسول مہر، مجلس یادگار غالب لاہور 1969

2        فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور1984

3        اردو رباعی: فنی وتاریخی ارتقاڈاکٹر فرمان فتح پوری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، طبع دوم1982

4        اردو میں قطعہ نگاری، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، پولیمر پبلی کیشنز، لاہور 1975

5        اردو رباعیات، ڈاکٹر سلام سندیلوی، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، طبع اول 1963

 

Abdul Qavi

Asst Prof. Azeem Memorial

PG College, Biswan

Sitapur- 261201 (UP)

Mob.: 6396932929

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن...