اردو دنیا، اکتوبر 2024
چریہ پد بودھ سادھوؤں کے صوفیانہ نغمے ہیں جن میں بودھ مذہب کے مہایان فرقے کے فلسفۂ نجات کو شعری پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ بودھ سادھو ان نغموںکو مذہبی تقریبات میں گاتے تھے۔ ان گیتوں میں تشبیہوں، استعاروں اور بودھ مذہب کی مخصوص اصطلاحوں کا فنکارانہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے مذہبی موضوعات پر لکھے گئے یہ گیت ادبی فن پاروں کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان گیتوں میں ایک خاص اسلوب کا استعمال کیا گیا ہے جسے سندھیا بھاشا کہا جاتا ہے۔ ان گیتوں میں مرتاضوں کے لیے رہنما اصول اور طریقۂ ریاضت کا بیان ہے۔ تمثیلوںکا استعمال ان گیتوں کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ ان کی وجہ سے چریہ گیتوں میں معنی کی دو سطحیںملتی ہیں۔ ظاہری اور داخلی۔ یہاں دو چریہ پدوں کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
(1)
نصف شب کو کنول کھلا
بتّیس یوگینیوں کا تن بد
مست ہو گیا
اودھوتی مارگ میں چاند
اترا
مرشد کی رہنمائی میںسہج
کا فلسفہ کہتا ہوں
چاند بہتا ہوا نروان میں
داخل ہوا
کملینی کمل بہاؤ میں ہے
ورام آنند خالص اور
انوکھا
وہی بدھ ہو گیا جو اسے
سمجھا
بْھُسکو کہتا ہے میںملن میںسمجھا
مہا سکھ کے کھیل میں ہی
سہجانند ہے
(شاعر:بھُسکوپاد)
(2)
جہاں اونچے پربت ہیں وہیں
شبری حسینہ رہتی ہے
وہ مور کے پنکھ اور گْنجا
پھول کی مالا پہنتی ہے
وحشی شبر،پاگل شبر،شور نہ
کر فریاد نہ کر
(میں)
تیری گھر والی، نام سہج سندری
مختلف پھول اس پیڑ پر
کھِلے ہیں اور پیڑ آکاش چھوتا ہے
شبری تنہا اس دشت میں پھرتی
ہے
کان کی بالی پہنتی ہے یہ
وجر دھاری
تین دھاتوں کی کھاٹ بچھائی
گئی، شبر نے مہا سکھ کا سیج سجایا
عاشق شبر اور شبری نیرا
منی نے عشق میں شب بسر کی
دل پان کا پتّہ ہے مہا
سکھ کا کافور کھاتا ہے
وہ شونیہ نیرامنی کو حلق
میں لے کر مہا سکھ میں شب بسر کرتا ہے
مرشد کی ہدایت کو کمان
بناؤ اور اپنے من کو تیر
اور ایک ہی وار میں نروان
کو چھید ڈالو
بد مست شبر پہاڑ کی چوٹی
پر گْم‘ ڈھونڈوگے کیسے
(شاعر:شبرپاد)
ان گیتوں کی دریافت بنگلہ
زبان کے ادیب و محقق پنڈت ہر پرساد شاستری نے 1907میںکی۔ انھیں نیپال کی شاہی
لائبریری سے دوسرے مخطوطوں کے ساتھ پچاس چریہ پدوںکا ایک مخطوطہ ملا۔ وہ ایشیاٹک
سوسائٹی لائبریری کلکتہ کے شعبۂ مخطوطات سے وابستہ تھے۔ انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں
نیپال اور تبّت میں بودھ مذہب سے متعلق سنسکرت مخطوطے اور کتابیں دریافت
ہوئیں۔ پنڈت ہر پرساد شاستری کو بنگلہ ادب کی کم مائیگی اور تنگ دامانی کا احساس
تھا۔ اس احساس کا اظہار انھوں نے اپنی کتاب ’بودھ گان و دوہا‘ کے دیباچے میںکیا
ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جس
دور میں ہر چہار طرف بنگلہ اسکول قائم کیے جا رہے تھے اور لوگ ودیاساگر مہاشہ
کی ورن پریچے، چرتاولی اور کتھا مالا پڑھ کر بنگلہ سیکھ رہے تھے اس دور میں وہ
یہی سمجھتے تھے کہ ودیا ساگر مہاشہ ہی بنگلہ زبان کے جنم داتا ہیں۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ وہ لوگ صرف انگریزی کے ترجمے پڑھتے تھے۔ ان کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا
کہ بنگلہ زبان کا اپنا ادب بھی ہے اور اس کی اپنی ایک تاریخ بھی ہے۔ اس کے
بعد یہ بھی سننے میں آیا کہ ودیا ساگر مہاشہ کی آمد سے قبل رام موہن رائے اور
گُڑے گُڑے بھٹاچاریہ نے بھی بنگلہ ادب کی بہت خدمت کی اور ان خدمات کی دستاویز بھی
موجود ہے۔ اسی سلسلے میں رام گتی نیائے رتن مہاشہ کی تصنیف ’بنگلہ زبان کی
تاریخ‘ بھی شائع ہوئی۔ اس میںکاشی رام داس، کیرتی باس، کوی کنکن جیسے بنگلہ کے کئی
قدیم شعرا کا تذکرہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بنگلہ زبان میں تین سو سال قبل کچھ
نظمیںلکھی گئی تھیں۔ وہ بھی کچھ خاص اہمیت کی حامل نہیںتھیں۔ وہ زیادہ تر
سنسکرت سے ترجمہ شدہ تھیں۔ رام گتی نیائے رتن کی دیکھا دیکھی اور بھی دو چار بنگلہ
ادب کی تواریخ منظر عام پر آئیں لیکن وہ سب نیائے رتن مہاشہ کے ہی بنائے ہوئے
سانچے میں ڈھلی تھیں۔ ان سب تاریخی حقائق کے باوجود اسّی فی صد افراد کا تصور
یہی تھا کہ بنگلہ ایک جدید زبان ہے۔ اس لیے اس میں تمام طرح کے خیالات کا اظہار نہیں
ہو سکتا۔ اس میں ترجمے کے علاوہ کچھ نہیں چل سکتا۔ غور و فکر کر کے کوئی نیا
موضوع اس میں پیش نہیںکیا جا سکتا اور اگر لکھا بھی جائے تو نئی بات پیش کرنے کے لیے
نئی عبارت آرائی کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے اسے یا تو انگریزی یا پھر سنسکرت کے
سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ بہت دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘
(بودھ
گان و دوہا از پنڈت ہرپرساد شاستری، بنگیہ ساہتیہ پریشد، کلکتہ 2021)
لہٰذا، وہ بنگلہ زبان کی
قدیم کتابوں اور مخطوطوں کی تلاش و جستجو میں لگے رہتے تھے۔ نیپال اور تبّت میں
بودھ مذہب سے متعلق سنسکرت مخطوطوں کی دریافت سے ان کے دل میں یہ امید بندھی
کہ نیپال اور تبّت میں بنگلہ زبان کی کتابیں اور مخطوطے بھی ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا، انھوں نے اپنے معاونین کو بنگلہ زبان و ادب کی قدیم کتابوں اور مخطوطوں کے
حصول کی اہمیت بتائی اور خود 1897 اور 1898 میں نیپال گئے۔ وہاں انھیں دربار
لائبریری سے کئی سنسکرت مخطوطے ملے۔
1907 میں وہ تیسری بار نیپال گئے
اور اس بار انھیں بودھ مذہب و ادب سے متعلق چار مخطوطے ملے۔ وہ چار مخطوطے
تھے سراہا پاد کا دوہا کوش، کرشنا چاریہ یاکا مہاپاد کا دوہا کوش، چریہ اچریہ پتکا
اور ڈاکا رنب (ڈاکارنب کا معنیٰ بحر حکمت
ہے، یہ اپ بھرنش میں بودھ تنتر کی کتاب ہے) پنڈت ہر پرساد شاستری نے ان چاروں
مخطوطوںکی زبان کو قدیم بنگلہ زبان قرار دیا اور 1916 میں بنگیہ ساہتیہ پریشد کے زیرِاہتمام
’ہزار برس میں قدیم بنگلہ زبان میں بودھ گان و دوہا‘ کے نام سے ایک ساتھ شائع کیا۔
چریہ اچریہ ٹیکا کو انھوں نے چریہ اچریہ ونشچئے کا نام دیا جب کہ یہ نام مخطوطے میںکہیں
درج نہیں تھا۔ یہی چریہ اچریہ ٹیکا پچاس چریہ پدوں کا مخطوطہ تھا۔
چریہ پدوں کے اس
مخطوطے کے سرورق پر ناگری رسمِ خط میں ’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھا ہوا تھا اور اس
پرسرخ روشنائی سے تاریخ741بھاد سمبت لکھی ہوئی تھی جس سے عیسوی سنہ 1620-21نکلتا
ہے۔ اس سے قیاس لگایا گیا کہ نیپال کی شاہی لائبریری میں اس مخطوطے کو 1620 یا
1621میںمحفوظ کیا گیا تھا۔ مخطوطے کا اندراج نمبر 402تھا۔ چریہ پدوں کے اس
مخطوطے میں اصلاً پچاس چریہ پد تھے لیکن اس کے کچھ صفحات غائب تھے۔ اس لیے چریہ
پد22کا نصف متن، چریہ پد24، چریہ پد 25 اور چریہ پد 48 کا پورا متن دستیاب نہیں تھا۔
بعد کے دور میں بنگلہ زبان کے محقق پربودھ چندر باگچی نے اسی مخطوطے کا تبّتی
ترجمہ دریافت کیا جس میں ان چاروں چریہ گیتوں کا بھی تبّتی ترجمہ موجود تھا۔
لہٰذا، ان ترجموںکی مدد سے ان چاروں نایاب چریہ گیتوںکا بنگلہ متن تیار کر لیا
گیا۔
پنڈت ہر پرساد شاستری نے
چریہ گیتوں کا جو مخطوطہ نیپال سے دریافت کیا تھا اس میں ہر چریہ پد کے ساتھ اس کی
سنسکرت شرح بھی دی ہوئی تھی لیکن مخطوطے پر سنسکرت کے شارح کا نام موجود نہیں تھا۔
پربودھ چندر باگچی کے ذریعے دریافت شدہ تبتی ترجمے اور شرح کے مخطوطے پر ان کے
شارح کا نام مُنی دت درج تھا۔ منی دت کی حیات کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں صرف
اتنا پتہ چلتا ہے کہ ان کا دورِ حیات تیرھویں صدی عیسوی تھا۔ ان کی سنسکرت
شرح میں اس دور کی مختلف کتابوں کے اقتباسات اور مشہور شاعروں کے اشعار کی
موجودگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے ایک بڑے عالم تھے اور بودھ مذہب
اور اس کے فلسفے کا گہرا علم رکھتے تھے۔ نیز فنِ شاعری پر بھی ان کی گرفت مضبوط تھی۔
پربودھ چندر باگچی کے ذریعے
دریافت شدہ مخطوطے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بودھ سِدّھوں نے مختلف ادوار میںتخلیق کیے
گئے ایک سو نمائندہ چریہ گیتوں کا انتخاب ترتیب دیا تھا۔ اس انتخاب کو چریہ گیتی
کوش کہا گیا۔ بودھ مذہب کے عالم اور استاد اچاریہ منی دت نے ان ایک سو چریہ گیتوں میں
سے پچاس گیتوںکا انتخاب کر کے ان کی سنسکرت شرح اپنے شاگردوںکی درسی ضروریات کے
تحت لکھی تھی۔ انھوں نے اپنی سنسکرت شرح کا نام ’نَرمل گِرا‘ رکھا تھا۔
یہ چریہ گیت اور اس کی
سنسکرت شرح بودھ دھرم کے طالب علموں میں بہت مقبول تھی۔ اس لیے بعد
کے دور میںطلبہ کی سہولت کے لیے چریہ پدوں اور ان کی سنسکرت شرحوں کو ملا کر
ایک مخظوطہ تیار کیا گیا اور اس کی متعدد نقلیں تیار کر لی گئیں۔ ان
مخطوطوںکو چریہ گیتی کوش وِرِتّی کہا گیا۔ ان مخطوطوں میں ہر چریہ گیت کے ساتھ اس
کی سنسکرت شرح دی ہوئی تھی۔ پنڈت ہر پرساد شاستری نے جو مخطوطہ دریافت کیا
تھا وہ اسی چریہ گیتی کوش ورتّی کی ایک نقل تھا۔ مگر پنڈت ہر پرساد شاستری نے اس
مخطوطے کا نام اپنی طرف سے چریہ اچریہ ونشچئے رکھا جب کہ مخطوطے پر اس کا نام چریہ
اچریہ ٹیکا لکھا ہوا تھا۔
چریہ پدوں میں جو اسلوب و
انداز بیان استعمال کیا گیا ہے اسے اچاریہ مُنی دت نے سندھیا بھاشا کی اصطلاح عطا
کی۔ جس طرح سندھیا (شام) کے دھندلکے میں اشیاصاف طور پر نظر نہیں آتیں اسی
طرح ان چریہ پدوںکا معنی و مفہوم ایک عام قاری پر پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔
اس زبان و اسلوب کی وجہ سے چریہ گیتوں میں گہرائی، معنویت، تہہ داری اور تحیّر کا
عنصر پیدا ہو گیا ہے اور چریہ گیت صرف مذہبی گیت نہیں رہ گئے ہیں بلکہ
انھوں نے اعلیٰ ادبی فن پاروںکا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
ہندی اور بنگلہ کے محققین
نے ان چریہ پدوںکا دورِتخلیق آٹھویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔
چریہ پدوں کی زبان بنگلہ، میتھلی، اُڑیا اور آسامی کی ابتدائی شکل ہے۔ بنگلہ زبان
کے ماہرین نے چاروں مخطوطوں کی زبان کے لسانیاتی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا
کہ سراہا پادکادوہا کوش، کانہاپاد کا دوہا کوش اور ڈاکارنب قدیم بنگلہ زبان میں نہیں بلکہ
اپ بھرنش میں ہیں اور صرف چریہ پدوں کا مخطوطہ قدیم بنگلہ زبان میں ہے۔ بہر
حال، چریہ پدوں میں کسی بھی ایک ہندستانی زبان کی واضح صورت نہ ہونے کی وجہ سے
مختلف ہندستانی زبانوں کے ماہرینِ لسانیات نے انھیں اپنی زبان کا
اوّلین ادبی سرمایہ قرار دیا۔ مثال کے طور پر میتھلی زبان کے ادیب و محقق جے کانت
مشرا نے چریہ پدوں کو میتھلی زبان کی اولین شعری تخلیق قرار دیا جب کہ راہل سنکر
تائن اور دھرم ویر بھارتی نے چریہ پدوںکی زبان کو ہندی قرار دیا۔ یہ بات قابلِ غور
ہے کہ میتھلی زبان کے عظیم ادیب جیوتریشور ٹھاکر نے 1324میں تصنیف کردہ اپنی
کتاب ’ورن رتناکر‘ میں ابہٹ بولی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابہٹ بولی چند اپ بھرنش
اور جدید ہندستانی زبانوں بنگلہ، اڑیا، میتھلی اور اسمیا کی ابتدائی مخلوط شکل ہے۔
ابہٹ کی خصوصیات میں الفاظ کے وسط یا آخر میں نون غنّہ اور ’س‘ کی جگہ ’ہ‘ کی
آواز کا استعمال ہے۔ چریہ پدوںکی زبان میں یہ خصوصیات نمایاں ہیں۔ بنگلہ زبان کے
ماہر لسانیات اور محقق سْنیتی کمار چٹرجی نے چریہ پدوں کی زبان اوراس کے رسمِ
خط کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے قدیم بنگلہ زبان قرار دیا ہے۔ ان گیتوں
میں قدیم بنگلہ زبان کے عناصر اور اس کی نحوی ساخت نمایاں ہیں۔ نیز ان میں مستعمل
کچھ محاورے آج بھی بنگلہ زبان کا حصّہ ہیں۔
انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس قدیم بنگلہ زبان میں شورسینی اپ بھرنش
کا اثر نمایاں ہے۔ تاڑ کے پتوں کا یہ مخطوطہ جس رسمِ خط میںلکھا ہوا ہے وہ جدید
بنگلہ خط سے بہت حد تک مشابہ ہے۔ اس رسمِ خط کو کوٹل لپی کہتے تھے جو ہندستان
کے مشرقی خطے بشمول نیپال میں ساتویں صدی سے بارہویں صدی کے درمیان رائج تھا۔
کوٹِل رسمِ خط کو ہندی، بنگلہ اور اسمیا کی ابتدائی شکل مانا جاتا ہے۔
چریہ پدوں کے مخطوطے پر
ناگری رسمِ خط میں’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھا ہوا تھا۔ اس سے محققین نے یہ نتیجہ
اخذ کیا کہ جب یہ مخطوطہ تیار کیا گیا تھا اس وقت قدیم بنگلہ رسم الخط رائج تھامگر
جب مخطوطہ نیپال کی دربار لائبریری میںمحفوظ کیا گیا تب تک سرکاری زبان ناگری بن چکی
تھی۔ اس لیے شاہی لائبریری کے لائبریرین نے اس کا اندراج کرتے وقت اس کی شناخت کے
لیے سرورق پر ناگری رسم الخط میں ’چریہ اچریہ ٹیکا‘ لکھ دیا۔ واضح ہو کہ چریہ پد
کا مخطوطہ تیرہویں صدی کے اواخر یا چودھویں صدی کے اوائل میںتیار ہوا
تھا۔
چریہ پد چونکہ گیت ہیں
اور انھیں مذہبی تقریبات میں یا سادھوؤں کے اجتماعات میں گایا جاتا تھا
اس لیے مخطوطے میں ہر گیت کے خالق کے نام کے ساتھ اس گیت کے لیے مخصوص راگ کا
نام بھی درج ہے۔ ان گیتوں کو جن راگوں سے سجایا گیا ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:
راگ پٹ منجری، راگ گبڑا،
راگ ارو، راگ گرجری، راگ دیب کِری، راگ دیشاکھ، راگ بھیروی، راگ کامود، راگ دھنسی،
راگ رام کری، راگ بھیرب، راگ براڑی، راگ شبری، راگ مْلّاری، راگ مالشی، راگ مانسی
گبڑا، راگ کنہو گجری، راگ بنگال اور راگ اندر تال۔
بارہویں صدی میں
بنگال کے مشہور سنسکرت شاعر جے دیو نے سنسکرت میں گیت گوبند نامی طویل نظم
لکھی جو کئی ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کا ہر باب کسی مخصوص راگ پر مبنی ہے۔ اس میں جن
راگوں کا ذکر آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
راگ مالوگوڑا، راگ منگل
گرجری، راگ رام کِری، راگ گرجری، راگ دیشاکھ، راگ بھیربی، راگ دیسی براڑی۔ مندرجہ
بالا سارے راگ چریہ پدوں کو بھی گانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے اس
دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ چریہ گیت بنگال کی ہی قدیم زبان و ثقافت کا حصہ ہیں۔ اس
دور میں بنگال میںمذہبی گیتوں کے لیے یہی راگ مستعمل تھے۔ اس کے علاوہ ان گیتوں
میں مختلف سازوں کے نام بھی آئے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ
چریہ گیتوں کو سازوں کے ساتھ گایا جاتا تھا۔ بینا، کرتال، شنکھ، ڈمرو،
ڈھول،نگاڑا،پکھاوج وغیرہ کا ذکر کئی گیتوں میںآیا ہے۔
چریہ پدوں میںمصرعوں
کی تعداد عام طور پر دس ہوتی ہے۔ لیکن کچھ چریہ پدوںمیںمصرعوں کی تعداد اٹھارہ،
بارہ اور چودہ بھی ہے۔ شبر پاد کے دو چریہ پد اس مجموعے میں شامل ہیں اور
دونوں میں مصرعوں کی تعداد چودہ ہے۔ بھُسکو پاد کے بھی دو چریہ پد اس میں شامل ہیں۔
چریہ پد 21میں مصرعوں کی تعداد بارہ ہے جبکہ چریہ پد 43میںمصرعوںکی تعداد صرف
8 ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بودھ شعرا چریہ پدوں میںمصرعوںکی تعداد کی
پابندی کو لازمی نہیںسمجھتے تھے۔ ان کا سارا زور مضمون اور خیال کی ترسیل پر ہوتا
تھا۔ کانہوپاد بھی مصرعوںکی تعداد کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ ان کا ایک چریہ
(چریہ10) چودہ مصرعوں پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا چریہ پد10 مصرعوں پر مشتمل ہے۔
پنڈت ہر پرساد شاستری کی
کتاب ’بودھ گان و دوہا‘ نے بنگلہ کے ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ ان مخطوطوں
خصوصاً چریہ پدوںکی دریافت نے بنگلہ زبان و ادب میں موجود خلا کو پر کر دیا
اور اس کی قدامت کو ثابت کیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے بنگلہ زبان و ادب کی تاریخ کی
کتابیں فرسودہ قرار پائیں اور بنگلہ زبان و ادب کی تاریخ نئے سرے سے لکھنے کی
ضرورت پیش آئی۔ بنگلہ داں طبقے کو بنگلہ ادب کی کم مائیگی کا جو احساس تھا
وہ چریہ پدوںکی دریافت سیدور ہو گیا۔ ان کی زبان اور ادبی قدر و قیمت پر تحقیقی و
تجزیاتی کام ہونے لگا۔بنگلہ ادب کے محققین اور ماہرینِ لسانیات نے متفقہ طور
پر چریہ پدوں کو بنگلہ زبان کا اوّلین ادبی نمونہ قرار دیا۔
ہندستانی ادب خصوصاً
بنگلہ ادب میں چریہ پدوںکی اہمیت ان کی مذہبی نوعیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی
قدامت اور شاعری کے اعلیٰ نمونوں کی حیثیت سے ہے۔ ان کی ادبی قدر و قیمت اس لیے بھی
ہے کہ ان کی وجہ سے بنگلہ زبان کے ارتقا میں گم شدہ کڑیوں کی بازیافت ممکن ہو
سکی۔ چریہ پدوں نے بنگلہ شاعری ہی کو نہیںبلکہ ہندستانی شاعری کو بھی بہت حد تک
فکر و اسلوب کی سطح پر متاثر کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بودھ شاعری کے ان
نمونوں سے ہندستان کی بعد کی متاخر شعری روایتوں مثلاً ناتھ شاعری، بنگال کی باؤل
شاعری، ویشنو شاعری اور اسلامی صوفیانہ شاعری نے فیض حاصل کیا۔ امیر خسرو، بابا فرید،
کبیر، لالن فقیر، میرا بائی و دیگر صوفی شاعروںکی شاعری پر چریہ پدوںکا اثر بیش و
کم دیکھا جا سکتا ہے۔
Suhail Arshad
Mirza Ghalib Street
Rajabaandh
P. O. Raniganj- 713347
(West Bengal)
Mob.: 9002098517
s_arshad7@rediffmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں