اردو دنیا، مارچ 2025
لوک گیت زیادہ تر مقامی بولی میں پائے جاتے ہیں اور ایک
پردیش میں کئی کئی بولیاں علاقائی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک پردیش میں بھی
بولی اور لب و لہجے کے لحاظ سے گیت یکساں نہیں ہوتے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ مضامین میں
جذبات میں پوری یکسانیت اور یگانگت ہوتی ہے چونکہ لوک گیت علاقائی بولیوں اور لب و
لہجے میں ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے پردیش میں بھی یہی حال ہے کہ پورے پردیش میں ایک
بولی میں نہیں پائے جاتے۔
ہمارے پردیش میں جو علاقائی بولیا ںہیں ان کے بارے میں
ہم آگے چل کر لکھیں گے۔ کوروی یا کھڑی بولی، روہیلی، قنوجی، برج بولی، پچھمی اور
پوروبی اودھی، بھوج پوری، بندیلی، بھوج پوری کی شاخ کاشکا اور پہاڑی مشہور بولیا
ںہیں۔
گیتوں کی زبان علاقائی اور مقامی ہوا کرتی ہے۔ الفاظ کے
تلفظ اور لب و لہجے پر بھی مقامی اثرات پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گیتو ںکی
زبان تھوڑے بہت تفاوت سے جدا جدا ہوتی ہے۔ گیتوں کی زبان کا ایک امتیازی وصف یہ ہے
کہ جو الفاظ لوک گیت کاروں اور ان کے بھائی بندوں کی زبان پر چڑھ گئے، وہ انھیں
الفاظ کو استعمال کرتے ہیں، خواہ وہ کسی زبان کے ہوں۔ وہ نہ تو متروکات کے قائل ہیں
اور نہ مختارات کے نہ وہ وضع اصطلاحات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نہ ان کے ماخذوں
کا دھیان کرتے ہیں وہ شہر نہ سہی سہر استعمال کریں گے، انھیں نگر کی پروا نہیں۔
نگر توڑ موڑ کر نگری، نگریا بھی بولیں گے۔ ان کے یہاں محل اپنی جگہ برقرار رہے گا۔
بھون کی پروا نہیں یہ بات دوسری ہے کہ وہ محل کو محلا، دومحلا سے بدل دیں، چٹھی،
چٹھیا تو ہوسکتی ہے مگر خط نہیں پتر، پاتی، پتر، پتیا کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
حال، حوال ہی رہے گا۔ سماچار نہیں پنچھی، پچھی بے تکان استعمال کرلیں گے مگر پکشی
نہیں۔ وہ رستم افراسیاب کی داستانیں نہیں گاتا بلکہ کنہیا لال ہی کی جے بولتا ہے
(خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو) عورتیں گاتے وقت ہو مورے رام، راما ہو کی ٹیک لگاتی ہیں۔
مختصر یہ کہ گیتوں کے الفاظ نہایت صاف، سادہ، اور
زبانوں پر منجھے ہوئے ہوا کرتے ہیں، خواہ ان کے دفوں میں تبدیلی ہی کیوں نہ ہوگئی
ہو اور بیمار برام، تصفیہ، تفصیہ یا پتسیہ ہی کیوں نہ بن گیا ہو۔
بعض بعض گیت تو اتنے صاف اور سادہ الفاظ میں ہیں کہ شاید
سارے ملک میں سمجھ لیے جائیں ؎
الّاہ میاں ہمیں نہ دل سے بھول
سب پھولوں میں پھول بڑا ہے
سب سے بڑا گلاب
سب کپڑوں میں کپڑا بڑا ہے
سب سے بڑا رومال
الّاہ میاں ہمیں نہ دل سے بھول
لمبی لمبی دھوتیا پہ اودی اودی پگیا
ہم جانا رجپوت
جات کا پہنا مری گوئیاں
دگا چھل دے گئو مری گوئیاں
دلی سہر کی لاگی بجریا
ہم جانا کچھ لئی ہے بسائی لاڈ روئیا
جات کا بہنا مری گوئیاں
دگاچھل دے گئو مری گوئیاں
سام ہوئی دن بتین لاگو
ہم جانا کچھ کہی ہے مری گوئیاں
دھنن لاگو روئیا
دگا چھل دے گئو مری گوئیاں
سادگی الفاظ کا بہترین نمونہ لوریا ںہیں جو ماں، دادی،
نانی اور دوسری خاندانی عورتوں کے دلوں سے مامتا اور محبت سے بھرپور نکلتی ہیں ؎
الّاہ الّاہ لوریاں
دودھ بھری کٹوریاں
کٹوری گئی پھوٹ
چندا ماما گئے روٹھ
کٹوری آئی اور
چندا ماما آئے دوڑ
میاں آویں دور سے
گھوڑا باندھیں کھجور سے
میاں آویں علی علی
پھوک بکھیروں گلی گلی
میاں آویں دور سے
پاؤں جھاڑوں دھور سے
آگرہ ملتان صدقے
سارا ہندوستان صدقے
کابل کندھار صدقے
لونڈی کا گھر بار صدقے
محاورات اور ضرب الامثال کا بڑی خوبی اور برجستگی سے
استعمال کرجاتے ہیں ؎
چور چراوے مال کھجانا
پیا چراوے سکھی نینوں سے نندیا
ماروں گا بے ماروں گا
جا دلّی پکاروں گا
دلی ہے تو کالے کوس
جہاں پڑی ڈھلم کی چوٹ
لوک گیتوں کے الفاظ سادہ، لوچ دار اور نرم و نازک ہونے
کے باوجود لوک گیت کار کے خیال میں ترسیل جذبات میں جب کبھی کمی کرتے دکھائی دیتے
ہیں تو وہ عام شاعری کے مثل تشبیہوں اور استعاروں سے بھی کام لیتا ہے اور وہ ترسیل
جذبات میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی تشبیہیں اور استعارے روزمرہ کی زندگی میں دیکھی
بھالی چیزوں سے لیے جاتے ہیں جو واقفیت اور حقیقت سے نہ صرف بہت قریب بلکہ حقیقی
ہوا کرتے ہیں۔ ان میں ماورائیت کم اور مادّیت اور حقیقت زیادہ ہوتی ہے۔
کوئی کمسن لڑکی اسّی سال کے بڈھے سے بیاہی جارہی ہے اور
دولہا کو اس کی مانگ میں سیندوربھرنا ہے۔ اب دیکھیے کہ لوک گیت کار اس بڈھے کی جو
کیفیت دکھانا چاہتا ہے اس کے لیے کیا لفظ استعمال کرتا ہے؟ لڑکی کے لیے اجگر بتاتا
ہے۔
عورتوںکے جھرمٹ سے کسی عورت کی زبانی وہ کہلاتا ہے ؎
پانچ برس کی موری رنگ رنگیلی اسّی برس کا داماد
ٹکر نہ آؤ تو، رنگ رنگیلی اجگر اٹھاڑو داماد
آنگن کچ کچ بھیتر کچ کچ
بوڑھا گرامنہ بائے
سات سکھی مل بڑھوا اٹھائن
بڑھوا سیندور پھراؤ
ایک دوسرا گیت پڑھیے۔لڑکی جوان ہے۔ اس کا شوہر بچہ ہے۔
اس کے چھوٹے چھوٹے دو دیور ہیں۔ چوہے اور جوئیں کی جسامت میں جو فرق ہے صاف ظاہر
ہے۔ جوان لڑکی اپنے شوہر کو موس (چوہا) اور دیوروں کو چیلر (جو آں) ٹھہراتی ہیں ؎
چیلر اس دوئی دیورا ہمار موری گوئیاں
مسوآ اس بلما ہمار موری گوئیاں
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوک گیت کار کا انداز فکر تجرید
سے زیادہ تجسیم کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی لیے گیتوں کی تشبیہں اور استعارے مجرد
سے زیادہ مجسم ہوتے ہیں۔ کنواری لڑکی کو گائے اور کلی سے، جنگل میں پھیلی ہوتی بیل
سے، خوب صورت چہرے کو چاند سورج سے، خوب صورت اور سفید دانتوں کو چاولوں سے، گھنی
اور پھیلی ہوئی داڑھی کو سوپ سے، بڑی بڑی آنکھوں کو بیل کے دیدوں اور آم کی کیریوں
او رپھانکوں سے، ماں کو گنگا سے، بچھریا (پشت پناہ) بہن کو پگڑی بھائی کو بجھا
(بازو) محبت کو رس، بوڑھے شوہر کو اجگر، بھووں کو کمان، اتحاد دل کو دودھ اور پانی
کے ملنے سے، دکھوں اور مصیبتوں میں ہونے کو لوہے کی بھٹی سے، مصیبتیں سہتے سہتے جسم خراب ہوجانے کو
کوئلے سے، سسرال کو لوہار کی دکان سے، ریل گاڑی کو سوتن سے، موٹر کوبن دھواں کی
گاڑی، بیوی کو پیروں کی خاک سے ؎
ہم تو رے بابل کھونٹے کی گئیاں
جدھر ہانکو ہنک جائیں رے
ہم تورے بابل بیلے کی کلیاں
گھر گھر مانگی جائیں رے
ہم تورے بابل روکھن کی چڑیاں
رات بسے اڑ جائیں رے
بن ماں پھولی بیلیا اب روپ اگاری
ملیاہاتھ پسارا تو ہوئی ہے ہماری
چندا سورج اَس بہنی
جرجر بھئی کوئلا
لوہا جرے جیسے لوہرا دکینا
موری بہنی جرے سسر یارے
چوں نندی کا اونٹھوا چاو راس دنتوا
جیسے دودھ میں پانی ملت ہے
اُوسئی ملوں تورے ساتھ
جیسے اکاس میں چڑیاں اڑت ہیں
اُوسئی اڑوں تورے ساتھ
ماخذ: اترپردیش کے لوک گیت، مصنف: اظہر علی فاروقی، دوسرا ایڈیشن: 1998، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں