1/11/24

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی، مضمون نگار: یاسمین رشیدی

 اردو دنیا، اکتوبر2024

بیتال پچیسی کو 1803/1805 میں مظہر علی خاں ولا نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کہانیاں راجا جے سنگھ سوائی،جے نگر کی فرمائش پر سورت تام کبیشور نے سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل کی تھی۔ ڈاکٹر گیان چند جین 1نے ان کا نام سورتی مشر لکھاہے جبکہ گوہر نوشاہی نے صورت نام کیشور2اور جمیل جالبی نے سورت تام کبیشوربتایاہے:

ولا نے لکھا ہے کہ’بیتال پچیسی‘ کو راجا جے سنگھ سوائی کے کہنے سے سورت تام کبیشورنے سنسکرت سے برج بھاشا میں کہا۔3

یہ کہانیاں سنسکرت کی کلاسیکی روایت کتھا سرت ساگر(1063-1081) (سوم دیو) اور برھت کتھا (گناڈھیہ)پراکرت میں لکھی گئی) کا ایک سلسلہ/حصہ کہی جا سکتی ہیں۔گیان چند جین نے اپنی کتاب ’اردو کی نثری داستانیں ‘ میں بارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان بیتال پچیسی کے مرتب ہونے کی بات لکھی ہے۔ انھوں نے اس سے پہلے اس قصہ کے شمیندر اورسوم دیو کی کتابوں میں شامل ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔جبکہ سنگھاسن بتیسی کا زمانہ تصنیف انھوں نے تیرھویں صدی یا اس کے بعد کا زمانہ بتایا ہے:

قصوں کا ایک عظیم مخزن گناڈھیہ کی برہت کتھا تھی جو پشاچی پراکرت میں لکھی گئی۔ یہ 500ء سے بعد کی نہیں۔ اب یہ ناپید ہے۔ اس کا آخری یعنی آٹھواں حصہ سنسکرت تراجم کے ذریعے محفوظ رہ گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلا بدھ سوامی کا برہت کتھا اشلوک سنگرہ ہے جو آٹھویں نویں صدی عیسوی کا ہو سکتا ہے۔ گیارھویں صدی میں شمیندر نے برہت کتھامنجری کے نام سے مختصر منظوم ترجمہ کیا۔1063-1081کے بیچ سوم دیو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب کتھا سرت ساگر لکھی۔بارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان بیتال پچیسی مرتب ہوئی۔لیکن اس سے پہلے یہ شمیندر اور سوم دیو کی کتابوں میں بھی شامل تھی۔تیرھویں صدی میں یا اس کے بعدسنگھاسن بتیسی تصنیف ہوئی۔  4

 گیان چند نے اپنی اس کتاب میں ’طوطاکہانی‘ کی چوبیسویں کہانی کا ذکر کیا ہے جو کم و بیش ذرا سے فرق کے ساتھ بیتال پچیسی کی ایک کہانی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بیتال پچیسی کو لوک کہانیوں کے زمرے میں رکھا ہے۔ یہ لوک کہانیاں ادبی روایت میں نہ صرف اہم مقام رکھتی ہیں بلکہ ادب میں ہندوستان کے اس کلچر کی ترجمانی کرتی ہیں جو اس کی مخصوص شناخت سے عبارت ہے۔ ان کہانیوں میں ہندوستان کی مٹی بولتی ہے،ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ندیاں بہتی ہیں۔ یہ کہانیاں قدیم ہندوستان کے تمدن کا بیانیہ ہیں۔

کہانیوں کی روایت ہندوستان میں بہت پرانی ہے۔ تحریر کردہ کہانیوں سے الگ کہانی سننے اور سنانے کی روایت بھی کافی پرانی ہے۔ علاقائی زبانوں میں مشہور قصے اس لوک روایت کی ترجمانی بھی کرتے ہیں جس کی بوقلمونی کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ عوامی روایت کی نظیر یہ کہانیاں اپنی اصل میں اس تہذیب کی پروردہ ہیں جس کے لیے ہندوستان جانا جاتا ہے۔ بوقلمونی جس کی تہذیبی خصوصیات میں داخل ہے۔ عوامی قصے، سنسکرت کی کتھا روایت، عربی فارسی کہانیوں کے اثرات، ہندوستانی کہانیوں نے ہر اثر کو آتم سات کیا۔ اسے اپنے رنگ میں ڈھالا اور ایک نیا قالب عطا کیا۔

کچھ کہانیاں ہندوستانی مٹی میں پیدا ہوئیں تو کچھ نے یہاں کی مٹی میں کھیل کر اپنے خدوخال پائے ہیں۔ ان طبع زاد قصوں کہانیوں میں وہ روایات بھی داخل نظر آتی ہیں جو خالص ہندوستانی نہیںبلکہ ہندوستانی روایت سے مل کر ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے، جس میں ہندوستانی روایت بھی ہے اور اس کا مخصوص رنگ بھی۔

تمام انسانی علم ان کہانیوں پر منحصر ہے، جنھیں ماضی کے تجربات کے گرد تشکیل دیا جاتا ہے اور نئے تجربات کی تفہیم و تعبیر پرانی کہانیوں کے معنوی سیاق میں کی جاتی ہے۔5

بیتال پچیسی میں25 کہانیاں ہیںجو بیتال (لاش/ بھوت)راجا بکرماجیت کو سناتا ہے۔بیتال اپنی ہر کہانی کے آخر میں بکرماجیت سے ایک سوال پوچھتا ہے۔جس کا جواب بکرماجیت کی سوجھ بوجھ اور علم و دانش سے عبارت ہے۔یہ کہانیاںہندوستانی مٹی میں سانس لیتی ہیں۔نصائح اوراخلاقی درس ہر کہانی میں موجود ہے۔ برسوں کے انسانی تجربات و مشاہدات کو پیش کرتی یہ کہانیاں زندگی اور اس کے رمز کا بیانیہ کہی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پندرھویں کہانی میںراجکمارکہتا ہے: ’’برکش چھایا کرتے ہیںدوسروں کے اوپر اور آپ دھوپ میں بیٹھتے ہیں۔پھولتے پھلتے ہیں پرائے واسطے۔بھلے لوگوں اور برکشوں کا یہی دھرم ہے۔جو یہ دیہہ غیر کے کام نہ آوے تو اس شریر سے کیا پروجن ہے۔مثل مشہور ہے کہ جوں جوں چندن کو گھستے ہیں، توں توں دونی سگندھ دیتا ہے۔‘‘

اکیسویں کہانی میں ایک مثال کچھ یوں ہے کہ ’’بدھ بنا بدّیاکسی کام کی نہیں۔بلکہ بدیا سے بدّھ بڑھ کر ہے اور بُدّھ ہین اسی طرح مرتے ہیں جیسے سنگھ کے ِجلانے والے موئے۔‘‘ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عقل کے بنا علم کسی کام کا نہیں ہوتا۔علم و حکمت کی اسی طرح کی کئی باتیں ان کہانیوں میں موجود ہیں۔ ایک کہانی میں اچھے لوگوں کی پہچان یوں بیان کی گئی ہے:

اتم لوگ جو ہیں سو پران جانے سے بھی اپناسُبھاؤ نہیں چھوڑتے۔انھیں کسی نے بھلاکہا تو کیا اور بُرا کہا تو کیا۔دولت رہی تو کیا جو نہ رہی تو کیا۔ابھی مرے تو کیا اور پھر مرے تو کیا۔جو لوگ نیاؤ کی ریت سے چلتے ہیں کچھ ہو اور راہ پر پاؤں نہیں دھرتے۔غرض جس کی شریر میں اپکار نہ ہو اس کا جینا نرپھل ہے۔ 6

قدیم ہندوستانی سماج بیتال کی کہانیوں میں نمایاں ہے۔ کہاوتیںاور محاورے بھی اپنے مخصوص سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔بیتال پچیسی کی کہانیاں قدیم ہندوستانی سماج اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کی کہانیاں ہیں۔ سولھویں کہانی میںدھوماوتی کی خوبصورتی کا بیان دیکھیے:

حسن ایسا گویا اندھیرے گھر کا اجالا۔آنکھیں مرگ کی سی،چوٹی ناگنی سی۔بھویں کمان کی سی۔ناک طوطے کی سی۔بتیسی موتی کی سی لڑی۔ہونٹھ کندوری کے مانند،گلا کپوتھ کا سا،کمر چیتے کی سی،ہاتھ پاؤں کومل کنول کے سے،چندرمکھی چمپک برنی، ہنس گنی،کوکل بینی۔جس کے روپ کو دیکھ اندر کی اپسرا بھی لجائے۔ 7

ہندو دیومالااورتہذیب و ثقافت کامخصوص رنگ ان کہانیوں میں موجود ہے۔اخلاقی درس سے پُر یہ کہانیاں ایک ایسے معاشرے میں سانس لیتی ہیں جہاں ہر شخص کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتا ہے اور سماج نے اس طبقے کی خصوصیات طے کر رکھی ہیں۔ایک مثال دیکھیے:

راجہ نے کہا جیموت باہن ذات کا چھتری ہے۔اسے جی دینے کا ابھیاس ہو رہا ہے۔اس سے اسے جان دینی کچھ کٹھن نہ معلوم دی۔ 8

یعنی چھتری کے لیے اپنی جان دینا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ یہ خوبی ان کے گروہ سے وابستہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ خوبیاں کسی اور میں نہیں ہو سکتیں۔پندرھویں کہانی میںسنکھ چوڑ کا کردار مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہر فرداپنے گروہ/ طبقے کے مطابق مختلف خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے۔مثلاراجا کو کیسا ہونا چاہیے،راج دھرم کیا ہے، عورت،مرد، سیوک کا دھرم کیا ہونا چاہیے۔ جہاں سیوا کے دھرم کویوگ دھرم سے بھی مشکل قرار دیا گیا ہے وہیںاسجّن سوامی کی سیوا کو برا بھی کہا گیا ہے۔ غرض کہ ہر شخص کی خصوصیات سماج/شاستروں نے طے کر رکھی ہے اور اس پر کھرا نہ اترنے کی صورت میں وہ لعن طعن کا مستحق ہے۔ برا کرنے والوں کا برا انجام اور اچھا کرنے والوں کا اچھا انجام گویا ان کہانیوں کا اخلاقی درس ہے۔

ہندوستانی پس منظر میں لکھی یہ کہانیاں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کرتی ہیں۔قدیم ہندوستانی سماج کے راجا مہاراجا کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی اور سماج کا عکس بھی ان کہانیوں میں موجود ہے۔ہندو تہذیب و معاشرت کا مخصوص رنگ ان کہانیوں میں نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ قصہ در قصہ کی تکنیک بیتال پچیسی کی کہانیوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔تمام کہانیاں بیتال سناتا ہے۔ آخر میں راجا کی بہادری اور سوجھ بوجھ سے خوش ہوکر راجاکو جوگی کی حقیقت اور اسے مارنے کا طریقہ بھی بتا دیتا ہے۔

بیتال پچیسی کا ابن آدم کا کیا ہوا ترجمہ مظہر علی خاں ولا کے نول کشور پریس سے شائع شدہ نسخے، وقار عظیم کے ترتیب کردہ نسخے اورگوہرنو شاہی(مرتبہ)والے نسخے سے کافی مختلف ہے۔ کئی جگہ کہانی اور واقعہ میں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔مثال کے طور پر پہلی کہانی کو ہی لے لیں۔ابن آدم والے ترجمے میں کہانی کے آخر میںپدماوتی کے والدین کی موت کا ذکر ہے اور بیتال کا سوال بھی اسی پر مبنی ہے۔جبکہ باقی  نسخے میں پدماوتی کے والدین کی موت کا ذکر نہیں ہے۔ اور والدین بھی ابن آدم والے ترجمے سے الگ ہیں۔گوہر نوشاہی،وقار عظیم والا نسخہ نول کشور پریس والے نسخے سے قریب ہے لیکن ابن آدم والے ترجمے میں کم و بیش ہر کہانی تبدیل نظرآتی ہے۔مترجم کے مطابق:

 مراٹھی زبان کے مذکورہ بالا نسخے،ایک ہندی و انگریزی نسخے اور چند تحقیقی و تنقیدی کتب سے استفادہ کرکے میں نے ان قصوں کو حالیہ اردو زبان کا حسین پیرہن عطا کرنے کی سعی کی ہے۔ 9

ممکن ہے مراٹھی زبان میں انھیں یہ کہانیاںاسی صورت میں ملی ہوں۔زبان و بیان کی بات کریں تو ’اردو وانے ‘کے عمل میںکہانیوں کا پس منظر،قدیم ہندوستانی تہذیب جو بیتال پچیسی کی کہانیوں کی خصوصیت ہے، فوت ہو گئی ہے۔علم و حکمت کی وہ باتیں جو برسوں کے انسانی تجربے کے بعد سماج میں رواج پاتی ہیں،جن سے انسان کے تجربے اور علم و حکمت کا پتہ چلتا ہے، اور جو بیتال پچیسی کی کہانیوں کی ایک نمائندہ خصوصیت کہی جا سکتی ہیں، انھیں بھی ابن آدم نے اپنے ترجمے سے باہر رکھا ہے۔ یہ ترجمہ مظہر خاں ولا والی بیتال پچیسی سے بہت دور نظر آتا ہے اورشاید اپنی الگ شناخت قائم کرنے کے چکر میں اپنی شناخت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو:

اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی فضا ثقیل اردو کی تاب نہیں لا سکتی۔کیوں کہ ان میں سنسکرت عہد کی تہذیب کا بیان ہے جس کے لیے آسان زبان ہی زیادہ مناسب ہے،ایسی زبان جس میں نہ زیادہ عربی فارسی ہو نہ اجنبی سنسکرت۔10

 بیتال پچیسی کے اسلوب بیان کے بارے میں جمیل جالبی ر قمطراز ہیں:

’’بیتال پچیسی‘‘اردو زبان میں ہندوستانی کلچر کے اردو روپ،اپنے طرز ادا، لفظیات، تشبیہات، استعارے اور تلمیحات کی وجہ سے منفرد ہے۔یہاں نہ صرف ہندو اور مسلم کلچر بلکہ اردو اور ہندی زبانیں خلوص وفراخدلی کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہیں۔اس سے اسلوب بیان کا ایک نیا امکان ابھرتا ہے… ’مادھونل‘ اور’بیتال پچیسی ‘جس زبان میں لکھی گئی ہے وہ ایسی ہی زبان میں پیش کی جانی چاہیے تھی۔11

شاید یہی وجہ ہے کہ ابن آدم کے ترجمہ میں کہانیوں کے اعتبار سے فضا اور اسلوب بیان ان- فٹ معلوم ہوتے ہیں۔رہی سہی کسرکہانیوںکے درمیان ان کے فوٹ نوٹ نے پوری کر دی ہے۔مثال کے طور پراگر کہانی میںکسی دیوی کی پوچا کا ذکر ہے تو وہاں ان کا فوٹ نوٹ ملے گاکہ:اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔اسی طرح کے کئی نوٹ ترجمے میں موجود ہیں۔ چند مثالیں:

1        اسلامی عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد انسان دنیا میں نہیں آتابلکہ عالم برزخ میں رہتا ہے۔

2        مردہ جسم میں داخل ہو کر کوئی روح مردہ جسم کو زندہ نہیں کر سکتی۔

3        غیر اللہ کے لیے قربانی شرک ہے۔

4        اسلام میں شراب حرام ہے۔

5        صرف سلیمان علیہ السلام ہی کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سمجھنے کا علم عطا کیا تھا۔

حالانکہ کتاب کے پیش لفظ میںانھوں نے لکھا ہے کہ’’اس ترجمے سے کسی مذہب و عقیدے کی تبلیغ قطعی مقصود نہیں بلکہ تفریح مہیا کرنا ہے۔‘‘12جبکہ ان کے نوٹس کا بیانیہ ان کی اس بات کے برعکس ہے۔کسی ادبی نوعیت کی کتاب میں اس طرح کے نوٹ شامل کر کے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرنا کم از کم میری سمجھ سے پرے ہے۔

سنگھاسن بتیسی کی بات کریں توبیتال پچیسی کی طرح ہی یہ کہانیاں بھی سنسکرت اور برج بھاشا کے راستے اردو میں آئیں۔جسے للو لال اور کاظم علی جوان نے اردو کا جامہ پہنایا۔سہیل بخاری لکھتے ہیں:

اس کی بنیاد سنسکرت کے ایک قصے پر رکھی گئی ہے۔1631ء میں عہد شاہ جہانی میں سندرداس کوی نے اس قصے کو سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل کیا تھا۔ برج بھاشا کے نسخے سے للو لال جی اور کاظم علی جوان نے مل کر 1804میں اردو میں ترجمہ کیا۔13

پرکاش مونس نے سنگھاسن بتیسی کے تین سنسکرت نسخوں کا ذکر کیا ہے جن کے مصنف نا معلوم ہیں۔ انھوں نے 1633میںان کہانیوں کے سنسکرت سے برج بھاشا میں منتقل ہونے کی بات کہی ہے۔

سنسکرت سنگھاسن بتیسی کو سندرداس کوی نے 1633ء کے لگ بھگ برج بھاشا کا جامہ پہنایا۔ سندرداس گوالیار کا برہمن تھا اور شاہ جہاں کے دربار میں باریاب تھا۔14

سنگھاسن بتیسی کی پہلی کہانی کچھ اسی انداز میں سیکھ دیتی ہے کہ قسمت کا لیکھا مٹتا ہے نہ ٹلتا ہے۔ اس لیے انسان کو کسی بھی حالت میں گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے کہ اوپر والا جب چاہے اس گھمنڈ کو پاش پاش کر سکتا ہے۔ بڑے بڑے راجا مہاراجا بھی اس سے نہیں بچ پائے۔ بنیادی طور پر یہ کہانیاں حکایات کہی جا سکتی ہیں۔ جس میں زندگی اور اس کے متعلقات کا بیان ملتا ہے۔ زندگی کو کس طرح جئیں کہ رہتی دنیا تک اور مرنے کے بعد بھی لوگ یاد کریں۔

سنگھاسن بتیسی کا مرکزی کردارراجا بھوج اور راجہ بکرم کو کہا جا سکتا ہے۔بنیادی کہانی کچھ یوں ہے کہ راجا بھوج جب سنگھاسن پر بیٹھنا چاہتا ہے اس کے چاروں اطراف موجود پتلیاں اسے ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور ہر پتلی اسے بکرماجیت کے مختلف کارناموں کی ایک کہانی سناتی ہے۔متعدد کوششوں اور 32 کہانیاں سننے کے بعد بھی راجا بھوج سنگھاسن پر نہیں بیٹھ پاتا اورآخر کارمجبورہو کر سنگھاسن دوبارہ وہیںگڑوا دیتا ہے جہاں سے نکالا گیا تھا۔اور راج کاج چھوڑ کر بیراگ لے لیتا ہے۔

 راجا بکرم کا کردار ہندوستانی لوک کہانیوں میں ایک آدرش کردار ہے۔ جس کا راج اور انصاف دور دور تک مشہور تھا۔ سنگھاسن بتیسی کی دوسری کہانی دراصل بیتال پچیسی کی بنیادی کہانی ہے۔ سنگھاسن بتیسی کے کچھ قصے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بیتال پچیسی میں بھی ملتے ہیں۔یہاں بھی راجا بکرم ہیرو کی بھومیکا میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہ کہانیاں اس لوک روایت کا حصہ ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں اور گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی معنویت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ دنیا کے مکر و فریب کو جس طور پر راجا بھر تری نے محسوس کیاتھااور اپنا راج تج کر جنگل کی راہ لی۔ وہ اب بھی قائم ہے۔ دنیا شاید اب بھی ایسی ہی ہے۔ جس پر اس دنیا کی حقیقت کھل جائے وہ جنگل کی ہی راہ لے۔

 بیتال پچیسی کے بنیادی قصے کا مختصراً ذکر سنگھاسن بتیسی کی ایک کہانی میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہاں بیتال کا ذکر صرف ایک لاش کے طور پر ہوا ہے جو سرس کے درخت سے لٹکی ہوئی ہے جسے بکرماجیت جوگی کی لاش کے ساتھ دیوی کو بھینٹ چڑھاتا ہے۔

 سنگھاسن بتیسی کے تمام قصے راجا بکرماجیت کی شجاعت اور سخاوت کے مختلف واقعات ہیں۔ جو اس سنگھاسن کے چاروں طرف موجود پتلیاں راجا بھوج کو سناتی ہیں۔ جس پر راجا بکرم بیٹھا کرتا تھا اور جو اس کے راج کی بھویتا کی ایک مثال کہی جا سکتی ہے۔

راجہ بکرم کو یہ تخت راجا باہوبل نے دیا تھا۔ اور باہوبل کو راجا اندر نے۔ اس سنگھاسن میں جڑے جواہرات بکرم کے راج اور خود اس کے اندر موجود خوبیوں کا بیانیہ کہے جا سکتے ہیں۔ تخت کے ہر طرف بیٹھی ہوئی آٹھ پتلیاں راجا بکرم کی خصوصیت کہی جا سکتی ہے کہ ہر پتلی راجا بھوج کو راجا بکرم سے جڑا ایک ایسا واقعہ سناتی ہے جس میں راجا بکرم کے اوصاف کا بیان ہوتا ہے۔

ہر پتلی کے ہاتھ میں کنول کے پھول کا ہونا ہندوستانی اساطیر میں کنول کے پھول کی اہمیت اور معنویت کو واضح کرتا ہے۔کنول کا پھول ہندو دیومالا میں خوبصورتی، خوشحالی اورزرخیزی کی علامت مانا جاتا ہے۔ پتلیوں کی خوبصورتی کا بیانیہ بھی ہندوستانی نسائی جمالیات کی طرف اشارہ ہے:

پتلیاں بن کر ایسی کھڑی ہوئیں کہ گویا ابھی بولتی ہیں۔آنکھیں ہرن کی سی،کمر چیتے کی سی،پاؤں کا یہ انداز جیسے ہنس کی چال جنھوں نے صورت ان کی دیکھی اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں جگہ دی۔15

 پتلیوں کا راجا بھوج کا راجا بکرم سے موازنہ کرنا اور انھیں تخت پر بیٹھنے کے لائق قرار نہ دیناگویا اس بات کا اعلان ہے کہ کلجگ میں راجا بکرم جیسی صفات والا کوئی نہیں۔جیسا کہ کہانی میں ذکر ہوا ہے کہ ’راجا بکرما جیت کی برابری ’اندر ‘بھی نہیں کر سکتا‘۔

اس تخت پر وہی بیٹھ سکتا ہے جو بکرماجیت کے جیسی خوبیاں رکھتا ہو۔ زیادہ تر واقعات راجا بکرم کے سخی، فیاض ہونے کی کہانی سناتے ہیں، جو دان دکشنا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ مشکلات سے حاصل کی گئی چیزیں بھی یوں دان میں دے دیتا ہے جیسے وہ اس نے دینے کے لیے ہی حاصل کی تھی۔ مشکلیں زندگی کا حصہ ہیں۔ جو ان کے ساتھ جینا جانتا ہو دراصل وہی زندگی کوصحیح معنوں میں جیتا ہے۔ ہر رشتہ ایک موہ مایا ہے۔ جو انسان کو باندھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دولت، دوست، احباب یہ سب وہ بندھن ہیں جو انسان کو موہ مایا میں لپت کر کے صحیح راہ سے بھٹکا سکتے ہیں۔ لیکن جو اس مایا کو توڑ کر زندگی اور اس کے معنی کو سمجھتا ہے دراصل وہی اس تخت پر بیٹھنے کے قابل ہے۔

 بکرماجیت کا کردار ایک مثالی کردار ہے جو ہر طرح کے اوصاف کا مجموعہ ہے۔ ایسے کردار قدیم قصے کہانیوں میں شاید اس لیے جنم لیتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں ان کا ہونا مشکل ہے۔ انسان کی ادھوری خواہشات کسی نہ کسی روپ میں سامنے آتی ہی ہیں۔

ہر پتلی کا ایک نام ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ راجا بکرم کی ہر خوبی یکتا ہے۔ جیسے ہر فرد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے حالانکہ سب کے دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک اور ایک منھ ہی ہوتے ہیں۔ راجا بکرما جیت کی ہر خوبی ایک فرد کی خوبی کے مماثل ہے اور ایک فرد کی تشکیل میں مختلف خوبیاںکا ملنا بعید از قیاس نہیں۔

’’جو شخص اپنا غصہ نہ مار سکے اس کا یہی حشر ہوتا ہے اور غصہ کرنے کے بعد وہ بہت پچھتاتا ہے۔ ‘‘اس طرح کی کئی باتیں لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ ہم آج بھی زندگی کی انھیں قدروں کو سن کر،پڑھ کر، محسوس کر کے بڑے ہوتے ہیں۔ گویا ان کہانیوں کی معنویت میں کوئی کمی نہیں آئی کہ آج بھی زندگی ان قدروں سے خالی نظر آتی ہے۔ اور ایسی کہانیوں کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اب وہ دادی، نانی کی کہانیوں کا چلن کم ہو گیا ہے کہ شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی نے ہماری کہانیوں کو بھی لیل لیا ہے۔

ان کہانیوں میں عوامی محاوروں کا بھی خوب استعمال ہوا ہے۔ جس سے عوامی زندگی کی ایک تصویر قاری کے سامنے آتی ہے۔

منشی نول کشور پریس سے شائع شدہ سنگھاسن بتیسی کے دواردو ترجمے میری نظر سے گزرے۔ دونوں میں کئی جگہ پر تبدیلی نظر آتی ہے۔ پروفیسر احمد صدیق مجنوںگورکھپوری کی تالیف کردہ کاپی میں واقعات میں کچھ تبدیلی نظر آتی ہے۔ یوں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے کچھ اشعار اور الفاظ کا غیر ضروری استعمال کر کے نثر تبدیل کرنے کی کوشش میں کئی ایسی چیزیں چھوٹ گئی ہیں جن کا ذکر متن میں ہونا چاہیے تھا۔ بطور مثال دسویں کہانی میں جس راج کنیا کا ذکر ہوا ہے جس کا بیان پہلے کیا جا چکا ہے اس کا راجا کو اس بات کے لیے شکریہ ادا کرناکہ اس کی وجہ سے اس کی شادی ہوئی اور وہ اپنے باپ کی اس شرط سے چھوٹی۔اس کا بیان مجنوںگورکھپوری والی کاپی میں سرے سے غائب ہے۔ اس طرح کی کئی تبدیلیاں ہیں۔ زبان کو سلیس بنانے کے نام پر کی گئی یہ تبدیلیاں کہیں کہیں کھٹکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’رتی‘ کی جگہ لفظ ’ستانا ‘استعمال کرنا۔ میری ناقص فہم میں توستانا اور رتی دو مختلف لفظ ہیں،جن کے معنی بھی کافی مختلف ہیں۔لیکن رتی کی جگہ رتی استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟جبکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے بھی ’رتی‘لفظ کا استعمال ہی درست معلوم ہو۔

سنگھاسن بتیسی میں انسان کے جانور میں بدلنے کے قصے بھی ہیں۔اس کے علاوہ سنگھاسن بتیسی کے قصوں میں ہندوستانی اساطیر کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔ شیو، پاروتی اور دوسرے دیوتائوں کا ذکر کئی بار آتا ہے۔ انسان اور دیوتا کا رشتہ آدم و حوا کی تخلیق جتنا پرانا ہے۔ انسان دیوتا کو پوجتا ہے اور دیوتا انسان کا ہی ایک روپ ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کو دیوتا ماننے کا عقیدہ اس کی طرف ایک اشارہ ہے۔ یہ عقیدہ تھا کہ بادشاہوں کو وہ طاقت حاصل ہے جس کے بنا پر وہ اپنی رعایا کو پالتا پوستا ہے۔ یہ طاقت عام انسان کو حاصل نہ تھی۔ عام آدمی کی اپنے بادشاہ سے اسی قسم کی توقعات وابستہ تھیں جو انسان کو دیوتائوں سے ہوتی ہے۔ راجا بکرم کا کردار اسی عقیدے کی ایک مثال کہا جا سکتاہے۔ ان سے مدد مانگنے آنے والے لوگوں کی یہ توقع کہ راجا بکرم ان کے سارے دکھ دور کر دے گا اس کی مثال ہے۔ متن میں کئی دفعہ راجا بکرم کو ’اندر ‘سے بھی بڑا دانی کہا گیا ہے ایک ایسا راجا جس کا مقابلہ خود اندر بھی نہیں کر سکتاجو خود King of the Godsکہلاتا ہے۔

 اس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بکرماجیت کا کردار کس قدر گُنی اور گیانی تھا۔ اس کے دان پُن کا بیانیہ سنگھاسن بتیسی میں ہے جبکہ اس کی سوجھ بوجھ کے واقعات(کچھ جوابات کو چھوڑ کر) بیتال پچیسی میں بیتال کو دیے گئے جوابات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہر تہذیب میں اخلاقی کہانیاں اور پندو نصائح کی کتھائیں جنم لیتی رہی ہیں۔ راجا بکرم کے مختلف واقعات بیان کرتی یہ پتلیاں جو دراصل ست یگ سے کلجگ میں آئیں ہیں۔ان کے بقول اس یگ میں راجا بکرم جیسا کوئی نہیں اس لیے جب جب راجا بھوج اس تخت پر بیٹھنے جاتا ہے وہ سامنے آکر اس کا راستہ روکتی ہیں۔ گویا یہ تخت ست یگ کی اچھائیوں کاپرتیک کہا جا سکتا ہے۔ کہانیوں کے توسط سے جو درس دیا گیا ہے وہ کم و بیش آج بھی اسی صورت میں زندہ ہے۔ مرنے کے بعد کوئی کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاتا بلکہ اس کے اچھے کام ہی دنیا میں یاد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے خیال آج بھی اخلاقی کہانیوں میں زندہ ہیں۔ اور ہمیں بچپن میں پڑھائے جاتے ہیں۔ پتلیوں کے ذریعے سے اخلاقی درس دینا جو بے جان ہوتی ہیں۔ گویا انسان کو غیرت دلانا ہے۔ بے زبان جانوروں کے ذریعے سنائی گئی کہانیاں بھی اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ بکرماجیت کے اوصاف بے زبان پتلیوں کے ذریعے سے کہلانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس تخت پر کسی اور کا بیٹھنا نا ممکن ہے کیونکہ کوئی اور ان اوصاف کا اہل نہیں جو راجا بکرم میں تھی۔ آدمی کو غیرت دلانے اور سبق حاصل کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر کوئی خیال نہ ہو۔ شاید اسی لیے راجا بھوج کو روکنے کے لیے پتلیوں کا بول اٹھنا معنی خیزبھی ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے ’دنیا افسانہ ہے‘ اور ہم سب اس افسانے کے مختلف کردار۔

قصہ مختصریہ کہ بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی قدیم ہندوستانی رسم و رواج کی عمدہ عکاسی ہی نہیں کرتی ہیں، بلکہ اخلاقی درس کے باب میں بھی اس کی اپنی سی اہمیت ہے۔ گیان چند جین ان متون کو ہندو تہذیب کے نام پر قبول کرتے ہیں :

اردو میں ہندو تہذیب کے نمونے بہت کم ہیں۔ بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی جیسی کتابیں شوکت پارینہ کی ایک جھلک دکھاتی ہیں۔ان سے ہند قدیم کی شادابی کا حال معلوم ہوتا ہے۔کہانیوں میں کسی قسم کے غم روزگار کا ذکر نہیں شاید یہ عصر کی شادابی نہیں بلکہ مصنف کی مستی،غفلت اور فراری ذہنیت کا نتیجہ ہو۔16

بلاشبہ گیان چند جین کی باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس نوع کے متن کو پڑھتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہاں آداب معاشرت میں شامل قدریں، جنسی تعصبات، صنفی امتیازات اور سب سے بڑھ کر پدر سری  نظام کے بیانیہ کی تمام تر سیاسی تدبیریں یوں ہی نہیں ہیں، ان کی اپنی منطق ہے اور اس منطق کو توڑنا اور انسان کو اس کے مرتبے کے ساتھ دیکھنے کا رویہ ہی عصری قرات کو با معنی بنا سکتا ہے۔گویا کہ کوئی بھی سادہ اور اکہری قرات گمراہ کن ہو سکتی ہے، اس لیے کسی بھی متن کو اس کی سیاسیات سے الگ کرکے پڑھنا ادبی مطالعات کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوسکتی۔

حواشی

1        گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:370

2        گوہر نو شاہی(مرتبہ):بیتال پچیسی از مظہر علی خاں ولا، مجلس ترقی ادب،لاہور:1965،ص:17

3        ڈاکٹر جمیل جالبی:تاریخ ادب اردو(جلد سوم)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی:2007،ص:515

4        گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:38

5        ناصر عباس نیر: مابعد نوآبادیات،اردو کے تناظر میں، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس،2013،ص:57

6        مظہر علی  خاں ولا: بیتال پچیسی،نول کشور پریس، 1939، لکھنؤ،ص:23

7        پروفیسر سید وقار عظیم (ترتیب نو):بیتال پچیسی،(ترجمہ) مظہر علی خاں ولا،اردو اکیڈمی سندھ، کراچی: 1987،ص: 63

8        مظہر علی خاں ولا:بیتال پچیسی،نول کشور پریس، لکھنؤ: 1937، ص:47

9        ابن آدم (مترجم):بیتال پچیسی،رحمانی پبلی کیشنز، مہاراشٹر:  2013، ص:7

10      گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:383

11      ڈاکٹر جمیل جالبی:تاریخ ادب اردو(جلد سوم)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی:2007،ص:515،521

12      ابن آدم (مترجم): بیتال پچیسی، رحمانی پبلکیشنز، مہاراشٹر: 2013، ص:7

13      ڈاکٹر سہیل بخاری: اردو داستا ن (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد:1987،ص :134

14      ڈاکٹرپرکاش مونس: اردو ادب پر ہندی ادب کا اثر، اترپردیش  اردو اکادمی،لکھنؤ:1978،ص:372

15      سنگھاسن بتیسی، نول کشور پریس،لکھنؤ:1953،ص:5

16      گیان چند جین:اردو کی نثری داستانیں،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ:1987،ص:383

 

Dr. Yasmeen Rashidi

Assistant Professor, T.P College

BNMU,

Madhepura - 852113 (Bihar)

Cell.: 9968549837

rashidiyasmeen@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...