اردو دنیا، اکتوبر2024
ہندوستان کے بیشتر زبان و ادب پرسنسکرت کا اثر تسلیم کیا
جاتا ہے۔ جس سے انکار وانحراف ممکن نہیں۔ اردو، ہندی زبان نے لسانیاتی میلان اور
ادبی ضرورتوں کے باعث سنسکرت بھاشا سے بے حد اثرات قبول کیے ہیں۔ اردو ہندی، لسانیات
کی رو سے انتہائی یکسانیت کی حامل ہیں ، کیونکہ جب ہم اردو ہندی زبان کے مشکل
الفاظ کے معنی ومفہوم کی وضاحت سہل زبان میں کرتے ہیں تو ان کے امتیازات مفقود
ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے اردو نے عربی، فارسی اور ہندی نے سنسکرت زبان کی لفظیات
اور رسم الخط سے براہ راست استفادہ کیا ہے۔ مگر دونوں زبانوں نے فعلی مادوں، فعلی
ترکیبوں، فعلیہ لاحقوں، حروف جار اور شخصی و غیرشخصی ضمائر وغیرہ کو بعینہٖ طور پر
ہنوز رائج رکھاہے۔ ان دونوں زبان میں امتیازی فرق رسم الخط، لفظیات اور معمولی طور
پر ابجدی صوتیات کا ہے۔
انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں اردو کو ہندی اور ہندوی
کے نام سے موسوم کیاجاتا تھا۔کیونکہ اس سے کئی صدی قبل کبیرداس، ملک محمد جائسی
اور تلسی داس وغیرہ جس زبان میں شاعری کرتے تھے، وہ بھاشا اور بھاکا کہلاتی تھی۔
تاریخِ لسانیات کے سیاق میں اردو ہندی کھڑی بولی کا روپ ہیں۔ ماہر لسانیات کی تحقیق
کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔یہ ضرور
ہے کہ اردو پر بیرونی زبانوں کے اثرات زیادہ ہیں مگر ہندی نے خالص ہندوستانی اور
عوامی زبان کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔
اردو شاعری میں سنسکرت ادب کے اثرات ہندی کے بالمقابل
کم مرتب ہوئے ہیں۔ شمالی ہند میں جنوبی ہند کے بالمقابل اردو پر مزید کم اثرات
دکھائی دیتے ہیں۔ اردو شاعری کی معروف صنف غزل نے سنسکرت ادب سے براہ راست کم، مگر
ہندی کے ذریعے ضرور اثرات لیے ہیں۔ ہاں ہمارے بزرگ اردو ادیبوں نے براہ راست
سنسکرت کے بیشتر اہم علمی و ادبی سرمایے کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً
اتھروید کا نوبت رائے شوخ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ رامائن سے متعلق اردو منظوم
تراجم کی فہرست ڈاکٹر محمد عزیز اور مظفر حنفی نے رقم کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر
تراجم موجود بتائے جاتے ہیں۔مزید رامائن کے ضمنی واقعات کے تراجم بھی موجود ہیں۔جیسے
برج نرائن چکبست کی نظم ’رامائن کا ایک سین‘ ظفر علی خاں کی ’ایک رشی کے داغ جگر کی
کہانی‘تلوک چند محروم کی ’سیتا ہرن‘اور شاد عارفی کی’ دسہرا اشنان‘ وغیرہ۔گیتا کے
تراجم میں ’کشن گیتا، ارجن گیتا‘ کے نام سے گیارہ صدی ہجری میں سید مبین نے، ’
نغمۂ الہام ‘کے نام سے یوگی راج نظر،’نسیم عرفان‘ کے نام سے منشی بشیشور پرشاد
منور لکھنوی...بہت سے حضرات نے کیے ہیں۔
ہندورسم وروایت کی رو سے پرشوتم رام وشنوجی کے ساتویں
اوتار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اردو شاعری میں رام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پربڑے
احترام وعقیدت میں نظمیں لکھی گئیں ہیں۔ خواجہ الطاف حسین حالی ’حب وطن‘ نظم میں
رام کے بن باس کا ذکر کرتے ہیں۔تو انسان کے فطری جذبہ واحساس کابیان غربت کے پس
منظر میں کیا خوب کرتے ہیں ؎
قدر اے دل وطن میں رہنے کی
پوچھے پردیسیوں کے جی سے کوئی
جب ملا رام چندر کو بن باس
اور
نکلا وطن سے ہو کے اداس
باپ کا حکم رکھ لیا سر پر
پر
چلا ساتھ لے کے داغ جگر
پانو اٹھتا تھا اس کا بن کی طرف
اور کھنچتا تھا دل وطن کی طرف
گزرے غربت میں اس قدر مہ وسال
پرنہ بھولا اجدھیا کا خیال
دیس کو بن میں جی بھٹکتا رہا
دل میں کانٹا سا اک کھٹکتا رہا
تیر اک دل میں آ کے لگتا تھا
آتی تھی جب اجدھیا کی ہوا
کٹنے چودہ برس ہوئے تھے محال
گویا
ایک ایک جگ تھا اک سال
علامہ اقبال نے دنیا کی اہم دانشور شخصیتوں کے احترام میں
اپنے تاثرات کااظہار کیا ہے۔ رام کے تعلق سے علامہ کا حسن عقیدت ملاحظہ کیجیے ؎
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا
مولاناظفر علی خاں ہندوستان کی تہذیبی شناخت، راجہ رام،
سیتا اور لکشمن کی شان عظمت کے باعث سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے تاثرات کچھ اس طرح پیش
کرتے ہیں ؎
نہ تو ناقوس سے ہے اور نہ اقسام سے ہے
ہند کی گرمیِ ہنگامہ ترے نام سے ہے
ساغر نظامی نے والہانہ وطن پرستی اورصلح کل طبیعت کے
باعث ہندوستان اور رام کو مثالی انداز میں شعری پیکر میں ڈھالا ہے ؎
ہند کے مرکز سے نکلی شاہ راہ زندگی
سب سے پہلی ہے یہی تفسیر گاہ زندگی
ہندیوں کو فیض قدرت سے ہوا عرفانِ نفس
جامِ ہندی میں چھلک اٹھی مئے ایقان نفس
ہندیوں کے دل میں باقی ہے محبت رام کی
مٹ نہیں سکتی قیامت تک محبت رام کی
زندگی کی روح تھا روحانیت کی شان تھا
وہ مجسم روپ میں انسان کے عرفان تھا
نظیر اکبرآبادی ہندوستانی مشترکہ تہذیبی روایت کے بڑے
شاعرہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں باہمی رواداری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے۔ وہ
کرشن جی کی پیدائش و بچپن، حیات و زیست اور بانسری کے تعلق سے کیا خوب تاثرات قلم
بند کرتے ہیں ؎
تھا نیک مہینہ بھادوں کا اور دن بدھ گنتی آٹھن کی
پھر آدھی رات ہوئی جس دم اور ہوا نچھتر روہن کی
سب ساعت نیک مہورت سے واں جمنے آ کر کرشن جی
اس مندر کی اندھیاری میں جو اور اجالی آن بھری
اب دیو سے بولیں دیو کی جی مت ڈر بھومن میں کھیر کرو
اس بار اس کو تم گو کل میں لے پہنچو اور مت دیر کرو
نظیراکبرآبادی کا کرشن جی سے خلوص وعقیدت کا یہ عالم
ہے کہ وہ بانسری کے سرکی لے میں اس قدر محو اوربے خود ہوجاتے ہیں ؎
جب مرلی دھر نے مرلی کو اپنی ادھر دھری
کیا کیا پریم میت بھری اس میں دھن بھری
لے اس میں رادھے نام کی ہردم بھری بھری
لہرائی دھن جو اس کی ادھر اور ادھر ذری
سب سننے والے کہہ اٹھے جے جے ہری ہری
ایسی بجائے کشن کنہیا بانسری
حیدرآباد کے مہاراجہ کشن پرساد شاد نے مثنوی ’جلوئہ
کرشن‘ تخلیق کی ہے، جس میں انھوں نے کرشن جی کی مکمل حیات کو اجمالی طور پر قلم
بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس میں ان سے
والہانہ عقیدت اور محبت کا خوب اظہارکرتے ہیں۔ انھوں نے مثنوی میں مولود کرشن کو
’صبح صادق‘ کے عنوان سے کیا خوب سراہا ہے
؎
ہشیار کہ شیر کی ہے آمد
عالم کے دلیر کی ہے آمد
بنیادِ ستم کا ڈھانے والا
احکامِ خدا سنانے والا
پیدا ہوا پیشوا مبارک ہو
پورا ہوا مدعا مبارک ہو
اک چادرِنور تن گئی وہ
اب کنس کی انجمن گئی وہ
مولانا حسرت موہانی اسلامی شعار پرستی کے باوجود کرشن
نگری میں دھونی رمانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں ؎
تن من دھن سب وار کے حسرت
متھرا نگر چل دھونی رمائی
تلوک چندمحروم کو قوم، وطن اور مذہب سے بڑی محبت تھی۔
وہ کرشن کی بانسری سے بڑاوالہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ انھوں نے نظم ’بانسری کی کوک‘ میں
کیا خوب بیان کیاہے ؎
لعل معجز نما سے بنسی
اے لو وہ شام نے لگا دی
پیدا ہوا اک نفس سے اعجاز
اب اس سے زیادہ کون سا ساز
ہر ایک ترانہ دلربا ہے
جنگل نغموں سے گونج رہا ہے
مرزا جعفر علی خاں اثر نے گیتا کا گہرا مطالعہ کیا اور
اس کے عظیم مقاصد کو قلب وجگر میں بسالیاتھا۔ انھوں نے کرشن کی وحدت ایمانی کی تعلیم
کو والہانہ محبت کے ساتھ اردو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے۔ ان کے نزدیک
کرشن کی مرلی سے فضاؤں کو محبت سے سرشار کرنے والے نغمے پھوٹتے ہیں۔ جو خوابیدہ
روحوں کو بیدار اور سنوارنے والے ہیں
؎
ترا نام پیارا، ترا بول بالا
تری پریت سمرن تری یاد مالا
ہوا من کے درپن میں تجھ سے اجالا
وہ دیوکی کی آنکھوں کا تارا دلارا
کمل نیں امرت ہے جس کا اسارا
سری کرشن موہن، منوہر کنہیاں
بہاری مراری مدھر مرلی والا
حفیظ جالندھری کوبھی گوپال کرشن سے بڑا شغف تھا۔
ترقی پسند شاعر شہاب جعفری کو سری کرشن سے بڑی والہانہ
عقیدت تھی۔ انھوں نے کرشن لیلا کو بطور علامت اپنی شاعری میں برتا ہے۔وہ اپنے بھجن
میں راجستھان کی ایک رانی ’میرا‘ کو سری کرشن سے ہوئے عشق کی واردات کا بیان کرتے
ہیں۔کیونکہ وہ دیوانگی کی حالت میں کرشن کی یاد میں گھوما کرتی تھی۔
یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ اردوشاعری میں فارسی روایت
کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ فارسی روایت کے اثرات کم ہوئے
بعد ازاں اردو نے سنسکرت اور ہندی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات قبول کیے اور
ہنوزاستفادہ کررہی ہے۔ اردو شعرا رامائن اور مہابھارت کے اساطیری کرداروں کو اپنے
کلام میں برت رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سنسکرت ادب کی تلمیحات یعنی ہندوی تہذیب کو
شعوری یا غیر شعوری طورپراردو زبان و ادب میں برتا جارہاہے۔ اردو شاعر رامائن اور
مہابھارت کے اہم کرداروں سے بخوبی واقف ہیں۔ اردو شاعروں نے عام ہندوئی تہذیب کے
مطابق رام اور سیتا کو نیکی اور راون کے کردار کو بدی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف غزل بھی اچھوتی نہیں ہے۔
جاں نثاراختر حیات و زیست کے حصار میں خود اپنی امیدوں
کے اجڑجانے پر رام کے بن باس جیسا محسوس کرتے ہیں ؎
اجڑی اجڑی ہوئی ہر آس لگے
زندگی رام کا بن باس لگے
رفیعہ شبنم عابدی زندگی کی حقیقت کے عملی پہلوؤں کو
سمجھتے ہوئے کس خوب صورتی سے رام اور سیتا کے کردار کے ذریعے خیالی دنیا سے گریز
کا مشورہ دے رہی ہیں ؎
تم کوئی رام نہیں میں بھی نہیں ہوںسیتا
پھر یہ بن باس اٹھانے کی ضرورت کیسی
رفعت سروش بڑے حوصلے کے ساتھ بن باس مانگتے ہوئے نظر
آتے ہیں ؎
فرشتوں کو تری جنت مبارک
مرے حصے میں تو بن باس لکھ دے
اثرغوری راجہ رام کے بن باس کے مد نظر غزل کے شعر میں کیا
خوب حوصلہ دکھاتے ہیں ؎
کوئی سچائی دل کے پاس رکھ دو
بدن میں رام کا بن باس لکھ دو
اردوزبان وادب پرسنسکرت زبان وادب کے گہرے اثرات ہیں،
جو روز افزوں ہیں۔مگر اب یہ اثرات ہندی کے توسط سے اردو پر مرتب ہورہے ہیں۔قدیم
دور میں اس کے زیادہ اثرات دکنی اردو ادب پر نمایاں طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں یہ
ضرور ہے کہ شمالی ہند کے قدیم اردو ادب پرکم اثرات نظر آتے ہیں، کیونکہ آبرو،
حاتم، میر، سودا، خواجہ میردرد، ذوق، مومن اور غالب کے کلام میں سنسکرت کے اثرات
قدرے مفقود ہیں مگر بعد کے اردو شعرا کے یہاں
بالواسطہ طور پر یہ اثرات وقت کے ساتھ بڑھے ہیں۔
Dr. Sarfaraz Javed
R-155, Third Floor, Gali No: 6
Sir Syed Road, Jogabai Ext
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi- 110025
Mob.: 9971895740
javedsarfaraz@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں