1/8/23

نیر مسعود کی غیرافسانوی خدمت: مہ جبیں خاں

نیر مسعود اردو ادب میں ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ان کے علمی و ادبی کارنامے مختلف النوع ہیں۔ ان کا شمار جہاں اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے وہیں اردو کے غیر افسانوی ادب یعنی تحقیق، تنقید،تدوین،خاکہ نگاری اور ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی وہ نمایاں اور ممتازحیثیت رکھتے ہیں۔ بالخصوص جن دو مختلف و متضاد میدانوں میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ان کی افسانہ نویسی اور تحقیقی و تنقیدی کارنامے ہیں۔ان کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں میں کون سا پہلو زیادہ اہم ہے یہ طے کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف ان کی افسانہ نگاری کے اعتراف میںانھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا جا چکاہے اور دوسری طرف ان کے تحقیقی کارنامے ’رجب علی بیگ سرور۔حیات اور کارنامے‘کے لیے میر اکادمی انھیں اعزاز سے سرفراز کر چکی ہے۔چنانچہ اپنے تخلیقی سفر اور ادبی حیثیتوں کی وضاحت نیر مسعود نے درج ذیل الفاظ میں کی ہے

’’اصل میں میرے دو ہی میدان رہے ہیںـتحقیق اور افسانہ۔بعض لوگ غالباً اس کو متضاد سمجھتے ہیںمگر یہ ہیں نہیں،یہ دونوں اصناف ادب ہیں اگر دو بالکل الگ قسم کی چیزوں میںانسان کو دلچسپی ہو سکتی ہے جیسے مرغی پالنے اور افسانے لکھنے سے تو پھر اصناف ادب سے کیوں نہیں ہو سکتی۔افسانے کے قاری بہت ہیں تحقیق کم لوگ پڑھتے ہیں۔لہٰذا اس حوالے سے لوگ زیادہ مانتے ہیں تعارف میں ضمناً لوگ لکھتے ہیں کہ تحقیق کا کام بھی کرتا ہوں ابھی افسانوں کی دو کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے ظاہر ہے کہ حیات انیس یا معرکہ انیس و دبیر کا ترجمہ کوئی نہیں کرے گامگر میں نے افسانے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تحقیق پر کام کیا ہے اس کی میں نے پرواہ نہیں کی کہ افسانے سے زیادہ فائدہ شہرت اور مقبولیت ملی۔‘‘1

 نیر مسعودکی ولادت 16؍ نومبر 1936 کو لکھنؤ میں ہوئی صغرسنی سے ہی انھیں مطالعے کا بہت شوق تھا۔ان کے گھر میں ادبی کتابوں کا ذخیرہ موجود تھااس لیے فطری طور پر ادبی کتابیںپڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ یہ کتابیں زیادہ تر ریسرچ کی اور اودھ کی تاریخ یا تنقید کی تھیں۔نیر مسعود کے والدسید مسعود حسن رضوی ادیب لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں پروفیسر تھے اور ان کی خصوصی دلچسپی تحقیق و تنقید جیسے موضوعات سے تھی اور اکثر کتابیں اسی قسم کی ان کے گھر میں موجود تھیں۔چنانچہ نیر مسعود پانچ سال کی عمر میں محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘جیسی ضخیم کتاب ہجے کے ساتھ پڑھ چکے تھے اور دس سال کی عمر تک آتے آتے’دربار اکبری‘اور اسی قسم کی کئی دوسری ضخیم کتابیں پڑھ چکے تھے۔ 2

نیر مسعود نے اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز اپنے تحقیقی کارنامے ’رجب علی سرور حیات اور کارنامے‘ سے کیا۔ اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد 1965  میں ان کے تحقیقی مقالے’رجب علی بیگ سرور اور ان کے قلمی آثار‘ کے کچھ حصے الہ آباد یونیورسٹی میگزین کی طرف سے شائع کیے گئے۔ بعد میں 1967 میں یہی مقالہ’رجب علی بیگ سرورحیات و خدمات‘کے عنوان سے کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔3  بلا شبہ رجب علی بیگ سرور اردو کے ان زندہ جاوید ادیبوں میں شامل ہیںجنھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی اور ان کی اس شہرت اور مقبولیت کی اصل وجہ فسانۂ عجائب ہے۔ لیکن قارئین کے حلقے نے فسانۂ عجائب کو جس قدر پڑھا اور پسند کیا اس کے مصنف پر خاطر خواہ توجہ نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ فسانہ عجائب کی اتنی مقبولیت کے باوجود سرور پر تحقیقی کام کم وجود میں آیا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نیر مسعود کے کارنامے ’رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے‘ سے پہلے اردو ادب میں سرور پر کوئی مکمل کتاب موجود نہیں تھی اور یہ بات بھی کہنے کی گنجائش ہے کہ نیر مسعود کے بعد بھی سرور سے متعلق کارناموں میں کوئی اہم اضافہ سامنے نہیں آیا ہے اس لحاظ سے سرور کی سوانح اور تصانیف سے متعلق اب تک کا سب سے جامع اور مکمل کارنامہ نیر مسعود کا ہے۔سرور پر تحقیقی کام کرنے والے تقریباً تمام محققین نے اپنی تصانیف میں نیر مسعود سے استفادہ کیا ہے اور ان کی پیش کردہ شہادتوں اورحوالوں کو مستندو معتبر تسلیم کیاہے۔نیر مسعود سے رجوع کرنے والے محققین میں اردو کے نامور محقق رشید حسن خاں، ڈاکٹر جمیل جالبی،ڈاکٹر گیان چند،پروفیسر حنیف نقوی، ڈاکٹر سید سلیمان اور پروفیسر ابن کنول وغیرہ کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

نیر مسعودنے تحقیق کے تمام اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت دیدہ ریزی اور ژرف نگاہی کے ساتھ سرور کی زندگی کے بکھرے ہوئے اوراق کو اپنی اس کتاب میں یکجا کر دیا ہے جس سے سرور اور ان کے احوال و آثار سے متعلق بہت سی مبہم باتیں مترشح اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ نیر مسعود کی شخصیت کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں مستند حوالہ جات اور شہادتوںکے بغیر کسی بات کا حتمی تعین نہیں کرتے، کتاب ’رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے‘ کے آخر میں شامل تتمہ اس بات کا ثبوت ہے جس میں سرور سے متعلق ایسے نکات زیر بحث لائے گئے ہیں جن پر ابھی مزید تحقیق درکار ہے۔سرور سے متعلق تحقیقی بحث حنیف نقوی کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔اس ضمن میں ان کی کتاب ’رجب علی بیگ سرور۔چند تحقیقی مباحث‘(1991)  اہمیت کی حامل ہے۔ 4

یہ بحث ہمیںنیر مسعود اور حنیف نقوی کے کچھ غیر مطبوعہ خطوط میں بھی ملتی ہے۔استاد محترم پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی عنایت سے راقمہ کو اپنے تحقیقی مقالے پرکام کرنے کے دوران ان غیر مطبوعہ خطوط کا مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ان خطوط میں نیر مسعو دنے سرور سے متعلق حنیف نقوی کی تحقیق کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ ان کی تحقیق کو داد و تحسین کا مستحق بھی قرار دیا ہے۔علاوہ ازیںنیر مسعود نے ان خطوط میں اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ ’رجب علی بیگ سرور۔حیات اور کارنامے‘کی اشاعت ثانی میں حنیف نقوی کی تحقیق کو بطور ضمیمہ شامل کرنا چاہتے ہیں۔نیر مسعود کی یہ تحریریں نہ صرف تحقیق میں ان کی دیانت داری اور غیر جانب داری کا ثبوت پیش کرتی ہیں بلکہ ان کی بے مثال شخصیت اور اعلیٰ ظرفی کی آئینہ دار بھی ہیں۔اس بات کا ذکر بھی یہاں ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ بعض ضمنی اختلافات سے قطع نظر حنیف نقوی نے نیر مسعود کی تحقیق کو معتبر اور مستندتسلیم کیا ہے اور نیر مسعود کو ’ماہر سروریات‘قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں سرور سے متعلق اپنے دیگر تحقیقی کارناموں(تصانیف سرور اورمقدمۂ کلام سرور)میں بھی حنیف نقوی نے بارہا نیر مسعود سے رجوع کیا ہے۔

تحقیق کے میدان میں نیر مسعود کا دوسرا بڑا اور اہم کارنامہ’ انیس۔ سوانح‘ہے۔ ان کی یہ معرکہ آرا تصنیف 2002  میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی سے اشاعت پذیر ہوئی۔انیس کی سوانح اور عہد پر یہ ایک مکمل اور جامع کتاب ہے۔نیر مسعود کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے لکھنؤ اوررثائی ادب سے وابستہ ادبا و شعرا کے حالات زندگی کو خاص طور پر اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور ان سے متعلق تمام تفصیلات کو مکمل اور جامع تحقیقی کارناموں کی شکل میں پیش کیا ہے۔نیر مسعود کی زیر بحث کتا ب ’انیس۔سوانح‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی کہی جا سکتی ہے۔ ’انیس۔سوانح‘ میر انیس کی حیات اور شخصیت سے متعلق نیر مسعود کا لاثانی کارنامہ ہے۔راقمہ کی تحقیق کے مطابق انیس صدی کمیٹی نے نیر مسعودسے پہلے ان کے والد مرحوم سید مسعود حسن رضوی ادیب سے اس کام کو کرنے کی فرمائش کی تھی لیکن نومبر 1975 میں ادیب کی وفات ہوجانے کے سبب نیر مسعودسے اس کام کے لیے رجوع کیا گیا۔5  انھوں نے اسی زمانے سے اس کام کا آغاز کر دیا تھا جس کی تکمیل 2000 کے وسط میں ہوئی۔اس طویل عرصے پر اگر غور کیا جائے تو نیر مسعود نے انیس کی حیات و شخصیت پر اس کام کو تقریبا25 سال کے عرصے میں مکمل کیا۔جتنی تعداد میں مآخذ اور حوالے اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں انھیں یکجا کرنا آسان کام ہرگز نہ تھا۔کیوں کہ یہ تمام حوالہ جات اور شواہد اپنی نوعیت کے اعتبار سے بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔نیر مسعود کا یہ کارنامہ غیر معمولی ہے کہ انھوں نے انیس کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی تحقیقی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔

نیر مسعود کی یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اردو ادب میں اولیت کا درجہ رکھتی ہے کہ اس میں پہلی بار انیس کی ادبی شخصیت و شاعری کے تشکیلی مراحل کو زمانے اور سنہ کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نیر مسعود نے کوئی بھی بات یا واقعہ صرف اپنی معلومات کی بنیاد پر نہیں لکھا ہے بلکہ اس واقعے سے متعلق جتنے بھی حوالے مل سکتے تھے انھیں تحریر کرنے کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ خواہ وہ انیس کا سنہ پیدائش ہو،ان کے اساتذہ سے متعلق تفصیلات ہوں،شعر گوئی کا آغاز ہو یا ان کے نام یا نام کے ساتھ میر و سید کے لاحقے ہوں ان کی تصدیق کے لیے نیر مسعود نے خاندان انیس کے مکتوبات،نکاح ناموں تک سے سندیں فراہم کی ہیں۔انیس کی مجموعی ہیئت،مجالس انیس کی تصویر کشی،سامعین کا مجمع،معرکۂ انیس و دبیر ان تمام موضوعات پر نیر مسعود نے جس مدلل انداز میں بحث کی ہے وہ ان کے وسعت مطالعہ کا واضح ثبوت ہے۔ جہاں کہیں بھی انھیں اشتباہ کی گنجائش نظر آتی ہے وہ کسی حتمی فیصلے سے احتراز کرتے ہیں اور تحقیقی احتیاط کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔کتاب کو ابتدا سے اختتام تک پڑھنے کے بعد انیس کی شخصیت کا ایک جیتا جاگتا مرقع قارئین کے سامنے آ جاتا ہے۔انیس کا رعب داب،ان کی نازک مزاجی،ان کے لطیفے اور ان کا حس مزاح ایسے موضوعات ہیں جو انیس کی مکمل شخصیت کو قارئین کے روبرو لا کھڑا کرتے ہیں۔انیس کی مجالس سے متعلق بیانات جس پر اثر انداز میں بیان کیے گئے ہیںقاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان مجالس کا حصہ ہیں۔نیر مسعود کی کتاب سے پہلے میر انیس کی جو سوانح لکھی گئیںوہ عام طور پر نصابی ضرورتوں کے تحت لکھی گئیںوہ انیس کی شخصیت کے بارے میں بعض ضروری معلومات تو فراہم کرتی ہیںلیکن اس عہد کے حالات اور تہذیب و ثقافت کو پیش نہیں کرتیں جس میں میر انیس اور مرزا دبیر سانس لے رہے تھے۔اس عہد کا لکھنؤ کیا تھااس وقت کی معاشی اور تہذیبی صور ت حال کیا تھی۔انتزاع سلطنت اودھ کا کیا اثرامرا،شرفا اور شعرا پر پڑا،انیسیے اور دبیریے کی سماجی نوعیت کیا تھی ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا جواب میر انیس پر لکھی جانے والی عام کتابوں میں نہیں ملتا۔نیر مسعود نے اس کتاب میں حیات انیس اور اس کے ذیلی متعلقات کو جس جامع انداز میں پیش کیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے۔نیر مسعود کی کتاب’ ’انیس سوانح‘‘ نہ صرف تحقیق کے تمام تقاضوں پر پوری اترتی ہے بلکہ تحقیق پر کام کرنے والوں کے لیے ایک مشعلِ راہ بھی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ تحقیق کو SystematicاورScientific طریقۂ کار کے ساتھ کس طرح کرنا چاہیے۔

تحقیق سے متعلق نیر مسعود کے دو اہم کارنامے ’مرثیہ خوانی کا فن‘(1990) اور’معرکۂ انیس و دبیر‘ (2000) ان کے مذکورہ معرکتہ الآرا کارنامے ’انیس سوانح‘کے ہی حصے ہیں۔چونکہ یہ سنجیدہ اور وسیع موضوعات تھے اور ان میں مفصل تحقیقی بحث و مباحثے شامل تھے،جس کی وجہ سے اصل کتاب ’انیس‘ کے سوانحی حصے کا توازن بگڑ رہا تھا اس لیے نیر مسعودنے ان ابواب کو ’انیس سوانح‘سے ہٹا کر علاحدہ کتابی صورت میں شائع کرنا مناسب سمجھا۔6  یہ دونوں کتابیں اصل کتاب ’انیس‘ سے پہلے منظر عام پر آئیں۔

مرثیہ خوانی کا فن‘ پہلی مرتبہ1990 میںمغربی پاکستان اردو اکادمی،لاہور سے شائع ہوئی بعد میں اس کی اشاعت ثانی 2005میں آج کی کتابیں،کے زیر اہتمام، سٹی بک پریس شاپ،کراچی سے ہوئی۔تحت الفظ مرثیہ خوانی کے فن پر لکھی جانے والی یہ پہلی مبسوط اور جامع کتاب ہے۔اس کتاب میں نیر مسعود نے فن مرثیہ خوانی کے  ابتدائی خد و خال اورتشکیلی عناصر سے لے کر اس کے عروج و زوال تک کی داستان تحقیقی حقائق کی روشنی میں بیان کی ہے۔نیر مسعود کا یہ کارنامہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ مرثیہ خوانی کے فن کے ساتھ نہ صرف تاریخ ِ ادب بلکہ ایک مکمل تہذیب وابستہ ہے۔مرثیہ خواں کا لباس،اس کا منبر پر آنا،سامعین کا مجمع،خواندگی کے دوران مرثیہ خواں کے حرکات و سکنات اور اس کا طرز خواندگی یہ تمام باتیں ایک مکمل تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں باوجود اس کے مرثیہ خوانی کے اصول و قواعد پر اردوکے سرمایہ ٔ ادب میں اب تک کوئی مکمل اور مربوط کتاب موجود نہیں تھی۔اس سمت میں پہلا اہم کارنامہ نیرمسعود کا ہے۔ انھوں نے اس کمی کا احساس کرتے ہوئے اس موضوع کو اپنی غور و فکر کا مرکز بنایا اوراپنی کتاب ’مرثیہ خوانی کا فن‘ میں مرثیہ گوئی کی صنفی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے مجالس میں اس کی خواندگی کے اصول و قواعد سے ہمیں روشناس کرانے کا گراں قدر کارنامہ انجام دیا۔مرثیہ خوانی سے متعلق نیر مسعود نے جو تحقیقی و تنقیدی بحث کی ہے ا س سے ان کی رثائی ادب سے گہری دلچسپی و وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔اور اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ صنف مرثیہ سے متعلق ایک بے حد اہم پہلو تھا جسے ہمارے ناقدین نے اپنی توجہ سے محروم رکھا۔نیر مسعود کا یہ کارنامہ نا قابل فراموش ہے کہ انھوں نے مرثیہ سے وابستہ ایک عظیم فن کی بازیافت کی اور اس کے اصول و قواعد کا تعین کیا۔

معرکۂ انیس و دبیر‘ محمدی ایجوکیشن،کراچی سے 2000 میں شائع ہوئی۔معرکۂ انیس و دبیر کا نام آتے ہی ہمارا ذہن شبلی کی’ موازنۂ انیس و دبیر‘(1907) کی طرف لازماً منتقل ہو جاتا ہے اور ہم یہ قیاس کرنے لگتے ہیں کہ شبلی کی طرح نیر مسعود نے بھی کلام انیس و دبیر کا فنی موازنہ و مقابلہ پیش کیا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کا باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعدیہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیر مسعود نے موازنے اور مقابلے سے ہٹ کر ایک الگ راہ کا سفر طے کیا ہے انھوں نے اس کتاب میںدونوں عظیم مرثیہ نگاروں کی معرکہ آرائی کے جملہ سماجی و تہذیبی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے جو اس معرکے کے اصل محرک تھے۔7یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ نیر مسعود نے انیس و دبیر کے کردار و شخصیت کے موازنے کو معرکے کا نام دیتے ہوئے تقابلی کارروائی سے گریز کیا ہے۔ انھوں نے تمام شواہد و حوالوں سے ان دونوں شخصیتوں کے کردار و عادات و خصائل قارئین کے سامنے آئینے کی طرح پیش کر دیے ہیں۔ نیر مسعود کا یہ کارنامہ نہ صرف تحقیق کے معیار پر پورا اترتا ہے بلکہ ان کے معتدل و متوازن انداز تنقیدکا بھی عمدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔

میر انیس‘’انیس سوانح‘کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ یہ دراصل نیر مسعودکی ضخیم کتاب’انیس سوانح‘ کی تلخیص ہے۔اس میں تحقیقی مباحث،حوالوں اور ماخذوں کی تفصیل وغیرہ حذف کر کے اختصار کے ساتھ صرف سوانح انیس کو برقرار رکھا گیا ہے۔اس کتاب کا مقصد آئندہ نسلوں کو اردو زبان و ادب کے بنیاد گزاروں کی علمی،ادبی و لسانی خدمات سے آگاہی اور واقفیت حاصل کرانا ہے۔

لکھنویات سے متعلق نیر مسعودکا ایک اور مستند کارنامہ ’یگانہ احوال و آثار‘ ہے۔یہ کتاب 1990 میں انجمن ترقی اردو (ہند )نئی دہلی سے شائع ہوئی۔اپنی ضخامت کے اعتبار سے نیر مسعود کا یہ مختصر کارنامہ موضوع اورمواد کے لحاظ سے بے حد اہم ہے۔اس کتاب میں نیر مسعود نے یگانہ کی شخصیت،فن اور ان کے ادبی معرکوں سے متعلق سات مضامین شامل کیے ہیں۔ان مضامین میں نیر مسعود نے نہایت معقول اور مدلل انداز میں یگانہ کی ذہنی کجروی اور پیچیدہ نفسیاتی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ دراصل یگانہ نے اپنی زندگی کے مشکل ترین دور میں ایک عرصے تک نیر مسعودکی رہائش گاہ ’ادبستان ‘میں ان کے والد مسعود حسن رضوی ادیب کے ساتھ قیام کیا تھا۔ 7 چنانچہ نیر مسعود کے لیے یگانہ سے متعلق معلومات کا سب سے معتبر اور بنیادی ماخذ ادیب کی ذات تھی۔ 8 علاوہ ازیں خود نیر مسعود نے یگانہ کی زندگی کے آخری چند برس بہت قریب سے دیکھے تھے لہٰذا نیر مسعود بہ ذات خود ایک بنیادی اور معتبر ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔نیر مسعود کو یگانہ سے متعلق مثبت اور منفی دونوںپہلوؤں کا علم تھا۔اوراس کتاب میں  انھوں نے یگانہ کے تعلق سے بعض ایسے حقائق بھی بیان کیے ہیں جن کا تذکرہ دیگرمحققین و ناقدین کے یہاں ناپید ہے۔علاوہ ازیںنیر مسعود نے یگانہ کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے اور نہایت غیر جانب داری کے ساتھ ان کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیتے ہوئے ادب کے قارئین کے لیے یگانہ شناسی کی راہیں استوار کی ہیں۔

یگانہ احوال و آثار‘میں یگانہ کی پیچیدہ اور نفسیاتی شخصیت سے متعلق تمام حقائق کو نیر مسعود نے جس معروضیت، منطقیت اور دقیقہ رسی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ تحقیق کی ایک عمدہ مثال ہے۔نیر مسعود کی یہ کتاب چند متفرق مضامین پر مبنی ہونے کے باوجود یگانہ کی زندگی کے بیشتر اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے نیر مسعودنے اپنے پیش روؤں کے لیے یگانہ شناسی کی راہیں استوار کر دی ہیں۔اس کی عمدہ مثال مشفق خواجہ کے مرتبہ ’کلیات یگانہ‘سے دی جا سکتی ہے جس میں انھوں نے مقدمے میں نیر مسعود کے بیانات کو بنیادی حوالے کے طور پر برتا ہے۔  چنانچہ ’یگانہ احوال و آثار‘ یگانہ کی سوانح بھی ہے اور یگانہ کی تحریروں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ بھی۔نیر مسعود کی یہ تحقیقی تصنیف یگانہ شناسی کی سمت میں ایک اہم اور معتبر کارنامہ ہے۔

تحقیق کے ساتھ ساتھ نیر مسعود کو تدوین سے بھی گہری دلچسپی ہے۔انھوں نے کئی پارینہ نسخوں اور مخطوطوں کو تحقیق و تدوین کے اصولوں کے مطابق مرتب کرنے کا مستحسن فریضہ انجام دیا ہے۔اس سلسلے میں ان کے کارنامے دولہا صاحب عروج(1980) اور شفاء الدولہ کی سرگزشت (1990) تحقیق اور تدوین دونوں اصناف پر مبنی ہیں۔

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کیا جا چکا ہے کہ رثائی ادب،انیس اور متعلقین انیس نیر مسعود کے دلچسپ تحقیقی موضوعات ہیں۔ان موضوعات پر نیر مسعود نے خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔نیر مسعود کی کتاب’دولہا صاحب عروج‘ (1980) اس سلسلے کی اولین کڑی کہی جا سکتی ہے۔ 1980  میں انھوں نے انیس کے پوتے اور لکھنؤ کے آخری باکمال مرثیہ خواں’خورشید حسن عرف دولہا صاحب عروج‘ کی سوانح عمری کو مرتب کرکے ’اردو پبلشرز،لکھنؤ‘سے شائع کروایا۔بعد میں اس سلسلے کومرثیہ خوانی کا فن، موازنۂ انیس و دبیر، انیس سوانح اور’ میر انیس‘ جیسی معرکہ آرا کتابوں نے آگے بڑھایا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے نیر مسعود کا یہ کارنامہ بے حد اہم ہے کیوں کہ دولہا صاحب عروج کی سوانح و شخصیت سے واقفیت کے لیے یہ کتاب ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔9

سید خورشید حسن عرف دولہا صاحب عروج میر انیس کے جانشیں،پوتے اور خاندان انیس کے آخری با کمال مرثیہ خواں تھے۔ان کے بعد لکھنؤ میں مرثیہ خوانی کے میدان میں کوئی قابل ذکر نام سامنے نہیں آیا۔چنانچہ اس کی اشد ضرورت تھی کہ دولہاصاحب جیسی بلند مرتبہ شخصیت پر تحقیقی حوالہ جات کی روشنی میں گفتگو کی جائے۔ نیر مسعود کا یہ کارنامہ قابل قدرہے کہ انھوں نے خاندان انیس اور صنف مرثیہ کی آخری وراثت کے بکھرے ہوئے اوراق کو یکجا کرکے تاریخ ادب میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔

تحقیق و تدوین سے متعلق نیر مسعود کا ایک اور لائق تحسین کارنامہ ’شفاء الدولہ کی سرگزشت‘ (1989) ہے۔ شفاء الدولہ حکیم سید افضل علی اودھ کے مقتدر رئیس ممتاز عالم دین اور طبیب حاذق ہی نہیںبلکہ ارد و،فارسی و عربی میں کامل دستگاہ رکھنے والے کثیر التصانیف بزرگ بھی تھے۔ ان کا شمار مشاہیر اودھ کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ نواب واجد علی شاہ کے طبیب خاص اور ہمہ وقتی ندیم بھی تھے۔نیر مسعود کی تحقیق کے مطابق واجد علی شاہ نے اپنی اکثر تصانیف میں بھی شفاء الدولہ کا ذکر کیا ہے۔چنانچہ نیر مسعود نے شفاء الدولہ کی شخصیت و علمیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان پر تحقیق کی روشنی میںگفتگو کی ہے۔ کتاب کے آخر میں انھوںنے شفاء الدولہ کی مثنوی  قصۂ عبرت مزیل وحشت‘کو مرتب کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔10

اپنے دائرۂ عمل میں نیر مسعود کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ تحقیق کی گتھیوں کو سلجھانے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور نظم و ضبط کے ساتھ دید و دریافت کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔بنیادی اور مستند مآخذ کے حوالے ان کی تحقیق کے لازمی عناصر ہیں۔بعض اوقات بنیادی اور مستند مآخذ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے قیاس یا داخلی شواہد کے ذریعے انھوں نے مسئلے کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن ایسے موقعوں پر وہ کوئی حتمی رائے پیش نہیں کرتے بلکہ قاری کو غور و فکر پر آمادہ کرتے ہیںنیر مسعود کا یہ تحقیقی رویہ تحقیق کے وقار کو قائم رکھتا ہے۔ تحقیق و تدوین سے متعلق اپنے تمام کارناموں میں نیرمسعود نے انھیں اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے۔

نیر مسعود کے تدوین سے متعلق کارناموں میں ’دیوان فارسی میر تقی میرتدوین و تصحیح‘ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ میر کا یہ فارسی دیوان نوادرات میں سے ہے۔ 1983 میں انھوں نے میر تقی میر کے غیر مطبوعہ فارسی کلام کی ترتیب و تصحیح کی۔ ان کا یہ کارنامہ مجلہ ’نقوش‘ لاہور،1983  کے میر نمبر3 میں شائع ہوا۔یہ بات قابل غور ہے خدائے سخن میرتقی میر کے یہ قلمی آثار جن کا مطالعہ ان کے اردو کلام کے مطالعے کے لیے بھی مفید اور بجائے خود بھی دلچسپ ہے ہنوز ناقدین ادب کی توجہ اور زیور طباعت سے محروم تھا نیر مسعود نے اس کی اہمیت و وقعت کا احساس کرتے ہوئے اس کی بازیافت کی اور میر کے اس ضائع ہوتے ہوئے سرمائے کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔نیر مسعود اردو کے ساتھ فارسی زبان وادب میں بھی اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔اردو کی بہ نسبت فارسی میں ان کی خدمات مختصر ہونے کے باوجود نہایت وقیع ہیں۔ فارسی زبان و ادب میں نیر مسعود کی خدمات کا اعتراف حکومت ہند نے انھیں صدر جمہوریہ اعزاز سے سرفراز کرکے کیا ہے۔ ’دیوان فارسی میر تقی میرتدوین و تصحیح‘ نیر مسعود کا دوسرا اہم فارسی کارنامہ ہے۔پہلا کارنامہ ان کا فارسی میںپی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس میں انھوں نے فارسی کے مشہور شاعر ’ملا محمد صوفی ما زندانی‘ کے دیوان کی ترتیب و تصحیح کی تھی۔نیر مسعود کا یہ کارنامہ ہنوز طباعت سے محروم ہے۔

تدوین سے متعلق ان کے دیگر اہم کارنامے خطوط مشاہیر بنام مسعود حسن رضوی ادیب، انتخاب بستان حکمت،  اسم اعظم، بزم انیس، آگ الاؤ صحرا11 اور ’دیوان سخن اشرف‘ ہیں۔ ان تمام کارناموں میں نیر مسعود نے تحقیق و تدوین کے تمام اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے علمی فرائض کو انجام دیا ہے اور اردو ادب کے گراں قدر سرمایے کے تحفظ کا فریضہ انجام دیا ہے۔

خطوط مشاہیر بنام مسعود حسن رضوی ادیب‘میں نیر مسعود نے اپنے والد مسعود حسن رضوی ادیب کے نام آنے والے مشاہیر ادب کے خطوط کو مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب 1984 میں اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی شخصیت اردو ادب میں محتاج تعارف نہیں۔وہ اردو کے بڑے محقق،جید عالم اور بلند پایہ ادیب ہیں اوران کے علمی اور ادبی کارناموں کا دائرہ نہایت وسیع و وقیع  ہے۔ یہ کتاب ’خطوط مشاہیر بنام مسعود حسن رضوی ادیب‘ نہ صرف مسعود حسن ادیب کی ادبی زندگی اور سوانحی گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ اردو کے بلند پایہ محققین و ناقدین کے درمیان ان کے اعلیٰ ادبی مرتبے کا تعین بھی کرتی ہے۔مشاہیر کے خطوط کے اس مجموعے کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس کے سرسری مطالعے سے بھی ہو سکتا ہے لیکن نیر مسعود کی یہ کوشش قابل تحسین ہے کہ انھوں نے اس کتاب کو مزید مفید اور دلچسپ بنانے کے لیے تقریباً تمام مکتوب نگاروں کی تحریر اور دستخط اور بعض جگہ مکتوب الیہ کی متعلقہ تحریروں کے عکس اس مجموعے میں شامل کر دیے ہیں جن سے ہمارے بہت سے مشاہیر کی اصل تحریری صورت اور شان خط سے ہمیں وقوف حاصل ہوتا ہے۔12  نیر مسعود کا یہ کارنامہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انھوںنے اپنے والد اور دیگر مشاہیر ادب کی شخصیت اور ا ن کے فکر و خیال کو ان خطوط کے ذریعے محفوظ کرکے آئندہ نسلوں کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ محفوظ کر دیا ہے۔

انتخاب بستان حکمت‘1988 میں اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں نیرمسعود نے فقیر محمد گویا کی تالیف’ بستان حکمت‘کے مخصوص حصوں کو منتخب کرکے اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا ہے۔نیر مسعود نے اردو اکادمی کی فرمائش پر طلبہ کی درسی ضرورت کے تحت یہ کتاب مرتب کی تھی۔ 13

علیاسم اعظم‘کاظم علی زیدی کی کتاب ہے جس میں انھوں نے حضرت علی کی سوانح کو موضوع بنایا ہے۔ کاظم علی زیدی ایک قابل قدر شخصیت تھے انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان کتابوں میں ’علی اسم اعظم ‘سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے چنانچہ نیر مسعود نے یہ کتاب 1993 میں مکتبہ کائنات،دہلی سے اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ ’بزم انیس‘ انیس کے منتخب مراثی کا مجموعہ ہے جو1998 میں رہبر پرنٹرز، لاہور سے اشاعت پذیر ہوا۔یہ ترتیب و تدوین سے متعلق نیر مسعود کا ایک اوراہم کارنامہ ہے جس میں انھوںنے انیس کے بارہ شاہکار مرثیوں کو شامل کیا ہے۔14 اور ان کے متن کی ترتیب و تصحیح کی ہے۔نیر مسعود کی ترتیب و تقدیم سے متعلق ایک اور گراں قدر کارنامہ ’سخن اشرف‘2006 ہے۔ جس میں انھوں نے واجد علی شاہ کے دوسرے دیوان  ’سخن اشرف‘کو اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا ہے۔  واجد علی شاہ کا دیوان ان کی زندگی میں ہی شاہی مطبع سے شائع ہو چکا تھا۔ چونکہ یہ دیوان اب نایاب ہے اور اس کا ایک ہی نسخہ’ امیر الدولہ پبلک لائبریری‘ لکھنؤ میں موجود ہے چنانچہ اردو ادب کے اس گراں قدر سرمایے کے تحفظ کے لحاظ سے  نیر مسعود نے اسے اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کروایا۔

نیر مسعود ایک محقق و مدون ہی نہیں ایک ناقد کی بہترین صلاحیتیں بھی رکھتے تھے۔وہ ایک وسیع النظر نقاد تھے ادب کی ماہیت،اس کے مقاصد اور اس کے طریقہ کار پر ان کی نظر گہری تھی اور وہ ادب کے جملہ مباحث کے متعلق اپنی ایک منفرد رائے رکھتے تھے۔نیر مسعودکی کتاب’تعبیر غالب‘کلام غالب اور فکر غالب سے ان کی شناسائی کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے۔’تعبیر غالب‘ کی پہلی اشاعت 1973 میں نظامی پریس،لکھنؤ سے ہوئی تھی۔

کلام غالب کی شرح پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف اردو میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے بلکہ نیر مسعود کی تنقیدی صلاحیتوں کا بھی عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔’تعبیر غالب‘ کی ان شرحوںکا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ نیر مسعود کو شاعری کے عیوب و محاسن کی روح کا ادراک تھا۔وہ لغات و الفاظ کے اصل و لغوی مفاہیم،لفظوں کے تعبیری پہلو، استعاراتی و کنایاتی زبان کی سمجھ،لفظ و معانی کے درمیانی رشتوں کی پہچان اور ان رشتوں میں اپنی طرف سے فکر انگیز اور نئی معنویت کے انسلاک کا شعور رکھتے تھے۔ نیر مسعود مغربی اصول نقد و نظر اور علوم و اسلوب کی آ گہی کے باوجود مشرقی آداب شعریات و نظریات انتقاد سے زیادہ کام لیتے ہیں۔اپنی اس کتاب میں انھیں اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے انھوں نے کلام غالب کی اصل روح تک رسائی حاصل کی ہے۔ کلام غالب کی متعدد شرحیں لکھی گئیں ہیںاور لکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میںغالب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کامیاب کوششیں کیں ہیں۔حالیہ برسوں میں بھی کئی اچھی اور دلچسپ شرحیں سامنے آئی ہیں۔نیر مسعود کی ’تعبیر غالب‘کا آخری حصہ اگر چہ غالب کے محض چودہ منتخب اشعار کی شرح ہے لیکن اپنے مباحث کے لحاظ سے بڑی وقیع اور مشرقی طرز تنقید کی انتہائی عمدہ کوشش ہے۔اس کتاب سے غالب شناسی اور شعر فہمی کی نئی جہات سامنے آ رہی ہیں جو اس حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ نیر مسعود جس کوچے میں گئے اپنی انفرادیت کے نقش روشن کر دیے۔15

تنقید سے متعلق ان کا دوسرا کارنامہ’ افسانے کی تلاش ‘ہے۔کتاب’افسانے کی تلاش‘ کی پہلی اور دوسری اشاعت با لترتیب 2017 اور 2018 عرشیہ پبلی کیشنز دہلی سے ہوئی ہے۔یہ کتاب نیر مسعود کے فکشن تنقید سے متعلق مضامین کا مجموعہ ہے جسے آصف فرخی نے مرتب کیا ہے۔ ان مضامین کے تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیر مسعود نہ صرف ایک بہترین افسانہ نگار تھے بلکہ افسانوں کے پارکھ بھی تھے۔ نیر مسعود کے یہ مضامین انھیں فکشن تنقید سے متعلق اہم ناقدین کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ 16

نیر مسعود کو تحقیق و تنقید اور افسانہ نویسی کے علاوہ بچوں کے ادب سے بھی خاص شغف رہا ہے۔ اس مو ضوع پر ان کی کتابیں ’ڈراما سوتا جاگتا‘، ’بچوں کا مشاعرہ‘ اور’ بچوں سے باتیں‘وغیرہ دلچسپ ہیں۔ ادب اطفال سے متعلق ان کا ڈراما ’سوتا جاگتا‘ اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ کی جانب سے 1985 میںشائع ہوا۔  مذکورہ اصناف کے علاوہ نیر مسعود نے اردو کی دیگر غیر افسانوی اصناف میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔جن میں ترجمہ نگاری،خاکہ نگاری اورسفرنامہ نگاری وغیرہ شامل ہیں۔17

نیر مسعود کا شمار اردو کے بڑے مترجمین میں ہوتا ہے۔انھیں اردو اور فارسی کے علا وہ انگریزی، فرانسیسی اورجرمن ادب سے بھی شغف تھا چنانچہ ان زبانوں کی متعدد تخلیقات کو انھوں نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔مغربی ادب میں ان کا مطالعہ وسیع ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے ایران کا سفر بھی کیا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے تہذیب و تمدن،زبان و بیان کی نفاست،اس کی باریکی اور تہہ داری سے وہ بخوبی واقف تھے۔

کافکا کے افسانے ‘ترجمہ نگاری کے حوالے سے ان کا لاثانی کارنامہ ہے۔پہلی مرتبہ یہ کتاب1978  میں ’شبستان پرنٹرز‘الہ آباد سے شائع ہوئی۔ نیر مسعود نے اس کتاب میں کافکا کے بیس افسانوں کا ترجمہ پیش کیا ہے۔کافکا کی تحریروں پر یوں تو اردو کے متعدد مترجموں نے طبع آزمائی کی ہے لیکن یہ ترجمے ان تمام کوششوں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔نیر مسعود ادبی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ دقیق النظر بھی تھے انھوں نے نہ صرف کافکا کے افسانوں کی معنویت پر غورر کیا ہے بلکہ اس کے طرز نگارش کو بھی گرفت میں لیا ہے اور معانی کی گہرائی تک پہنچ کر پوری مہارت کے ساتھ کافکا کے انگریزی افسانوں کو اردو کے قالب میں منتقل کیاہے۔18

ترجمہ نگاری سے متعلق نیر مسعود کادوسرا بڑا کارنامہ ’ایرانی کہانیاں‘ ہے۔اس میں نیر مسعود نے پندرہ جدید ایرانی افسانوںکا ترجمہ پیش کیا ہے۔نیر مسعود نے اس کتاب میں جن مصنفین کے آثار شامل کیے ہیں ان میں اسماعیل فصیح،بابا مقدم،جمال میر صادق،شین پرتو، صادق ہدایت، غلام حسین ساعدی،فریدون تنکابنی،فریدہ راری، محسن دامادی، منو چہر خسرو شاہی وغیرہ ہیں۔ نیر مسعود کا یہ کارنامہ لائق تحسین ہے کہ انھوں نے اس انتخاب کے ذریعے نہ صرف اردو کے سرمایہ ادب میں گراں بہا اضافہ کیا بلکہ شائقین اردو کو جدید ایرانی افسانے سے متعارف ہونے کا موقع بھی فراہم کیا۔’ترجمہ حکیم نباتات ‘ اور جارج لوئی بورخس کی نظموں کا ترجمہ ان کے دیگر اہم تراجم ہیں۔19

اردو کے غیر افسانوی ادب میں نیر مسعود نے ایک اچھے خاکہ نگارکی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ خاکہ نگار کی حیثیت سے ان کا مجموعہ’ادبستان‘ اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔’ ادبستان‘کے خاکے مربوط منصوبے کے تحت نہیں لکھے گئے یہ مختلف وقتوں میں حادثات و جذبات کے زیر اثر وجود میں آنے والی تحریروں کا مجموعہ ہے۔نیر مسعود کے اس مجموعے میں بارہ شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔جن میں رشید حسن خان، ڈاکٹر کیسری کشور، احتشام حسین، مسعود حسن رضوی ادیب،اور ادبستان سے متعلق خاکے خصوصاً  قابل تعریف ہیں۔20

نیر مسعود نے جس طرح اردو کی بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی اور بہت خوب لکھا اسی طرح انھوں نے سفرنامے کی روایت کی بھی توسیع کی اور سفرنامہ ’ خنک شہر ایران ‘ (1978)  لکھا۔1977 میں نیر مسعود نے ایران کا سفر کیا اور اپنے سترہ اٹھارہ دن کی مختصر روداد’خنک شہر ایران‘ کے نام سے قلم بند کی۔یہ سفر نامہ پہلی مرتبہ رسالہ ’اظہار‘بمبئی شمارہ4؍ 1978 میں شائع ہوا۔بعد میں یہ سفرنامہ ان کی کتاب ’نیر مسعود کے منتخب مضامین‘میں بھی شائع ہوا ہے۔یہ سفرنامہ نیر مسعود کے اسلوب بیان کا شاہکارہے۔نیر مسعود نے بیانیہ میں نہایت شائستہ و شگفتہ انداز بیان اختیار کیا ہے اور بسیار نویسی سے گریز کیا ہے۔ علاوہ ازیںنیر مسعود نے جو منظر نگاری کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ایرانی کلچر،وہاں کے لوگ، ان کا انداز گفگو، وہاں کی سڑکیں،وہاں کے عجائبات تمام چیزوں کا بیان نیر مسعود نے اس انداز میں کیا ہے کہ پڑھنے والے کاذہن ایران کی فضا کی سیر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔نیر مسعود کا یہ سفرنامہ دلچسپ اور معلومات سے پر ہے۔21

مکاتیب نیر مسعو د‘قارئین ادب کے لیے ادب اور مشاہیر ادب سے متعلق معلومات کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان مکتوبات میں نہ صرف ادب زندہ ہے بلکہ لکھنوی تہذیب بھی زندہ و متحرک نظر آتی ہے۔نیر مسعود کے متعدد خطوط ابھی تک مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کچھ خطوط رسالہ فیضان ادب،مئو،اتر پردیش، شمارہ اپریل تا دسمبر 2018 میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ کتابی صورت میں نیر مسعود کے خطوط ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ 22

نیر مسعود نے چند مخصوص کتابوں پر تبصرے بھی لکھے ہیں۔جو ان کے معتدل و متوازن انداز تحریر کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی ادبی خدمات میں اردو کی مشہور و معروف شخصیات کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔اپنی ان تحریروں میں انھوں نے ادب کے بہترین قاری ہونے کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے۔

نیر مسعود کی ادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق افسانوی اور غیر افسانوی ادب سے متعلق اب تک ان کی بتیس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں بائیس سے زائد کتابیں غیر افسانوی ادب سے متعلق ہیںاور مطبوعہ مضامین کی تعداد تین سو کے قریب ہے، جو ملک اوربیرون ملک کے نمائندہ ادبی جریدوں کی زینت بن چکے ہیں۔ان کتابوں اور مضامین کے مشتملات میریات، غالبیات، رثائیات، انیسیات، لکھنویات،شعریات،تاریخ اورادب جیسے مختلف اور متنوع موضوعات ہیں۔

نیر مسعود کی مذکورہ خدمات کا محاکمہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیر مسعود کی شخصیت اور ان کی خدمات مختلف جہات کو محیط ہیں۔ان کے علمی کارناموں کی دنیا نہایت وسیع و وقیع ہے۔عصری ادب کی جلوہ گاہ میں وہ اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔اور ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ نہ صرف ایک سحر طراز افسانہ نگار ہیں بلکہ ایک نکتہ رس محقق اور نقاد بھی ہیں۔ان کے تحقیقی و تنقیدی کارناموں کے غائر مطالعے اور مفصل تجزیے کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نیر مسعود عہد حاضر کے ممتاز و مستند محقق و ناقد ہیں اور ان کا یہ تحقیقی و تنقیدی سرمایہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔

حواشی

  1.     معرکہ انیس و دبیر،نیر مسعود،محمدی ایجوکیشن،کراچی 2000،ص 5
  2.       ساگری سین گپتا کے ساتھ انٹرویو۔منتخب مضامیننیر مسعود،نیر مسعود،ڈان پرنٹرز،کراچی،2009،ص 420
  3.       رجب علی بیگ سرورحیات اور کارنامے،نیر مسعود،اسرار کریمی پریس،جانسیں گنج،الہ آباد،ناشر شعبہ اردو،الہ آباد یونیورسٹی،الہ آباد،1967
  4.       رجب علی بیگ سرور،چند تحقیقی مباحث، حنیف نقوی، انجمن ترقی اردو ہند،نئی دلی،1991
  5.       انیس سوانح،نیر مسعود،زیر اہتمام آج کی کتابیں،ذکی سنز پرنٹرز،کراچی،2005(ابتدائیہ)
  6.       انیس سوانح،نیر مسعود،زیر اہتمام آج کی کتابیں،ذکی سنز پرنٹرز،کراچی،2005(ابتدائیہ)
  7.        معرکۂ انیس و دبیر ‘ نیر مسعود،محمدی ایجوکیشن،کراچی  2000 ،ص 7
  8.       یگانہ احوال و آثار،نیر مسعود،انجمن ترقی اردو ہند،نئی دلی، 1991 ص 24
  9.       دولہا صاحب عروج،نیر مسعو د،اردو پبلشرز،نظیر آباد، لکھنؤ، 1980
  10.     شفاء الدولہ کی سرگزشت،نیر مسعود،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2004(پیش لفظ)
  11.     آگ الاؤ صحرا، قمر احسن مرتبہ نیر مسعود،شب خون کتاب گھر،الہ آباد،1980
  12.     خطوط مشاہیر بنام سید مسعود حسن رضوی ادیب،نیر مسعود،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1985، ص 11,12
  13.     انتخاب بستان حکمت،نیر مسعود،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1988
  14.     بزم انیس مرتبہ نیر مسعود،رہبر پرنٹرز،لاہور،1990،ص ۱1
  15.     تعبیر غالب،نیر مسعود،نظامی پریس،لکھنؤ،1973
  16.     افسانے کی تلاش،نیر مسعود مرتبہ آصف فرخی،2017 عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی
  17.     ڈراما سوتا جاگتا،نیر مسعود،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1985
  18.     کافکا کے افسانے،نیر مسعود،زیر اہتمام آج کی کتابیں،ڈان پرنٹرز،کراچی،2009
  19.     ایرانی کہانیاں،مترجم نیر مسعود، آج کی کتابیں،کراچی،2002
  20.     ادبستان،نیر مسعود،شہزاد پرنٹرز،کراچی،2006
  21.     منتخب مضامین نیر مسعودنیر مسعود،آج کی کتابیں،ڈان پرنٹرز، کراچی، 2009،ص 381تا 405
  22.     سہ ماہی فیضان ادب،مؤ،یو پی،جلد نمبر3،شمارہ2,3,4، ص 368 تا 415

Mahjabeen Kha

Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001 (UP)

Mob.: 7007649374

 

 

 

 

 

 

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...