2/8/23

اردو نثر کا ارتقاایک سرسری جائزہ: ارشاد سیانوی

ہندوستان کو زبانوں کا عجائب گھر کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میں اردو کو وہ مقبولیت حاصل ہے جو کم زبانوں کے حصے میں آتی ہے۔ سماج کا ہر فرد اردو زبان کی شیرینی کو پسند کرتا ہے یہی وجہ کے کہ آج اردو شاعری کو ہندومسلم سکھ عیسائی سب پسند کرتے ہیں۔ اردو میں لکھے گئے گانے ہوں یا نغمے، ترانے ہوں یا گیت سب کے دل جیت لیتے ہیں۔ اردو زبان ملک ہندوستان کے گوشے گوشے میں پسند کی جانے والی زبان ہے۔ اردو واحد ایسی زبان ہے جس نے دیگر کئی زبانوں مثلاً عربی، فارسی، سنسکرت وغیرہ سے اثر قبول کیا۔ جس طرح اردو شاعری کا آغاز دکن سے تسلیم کیا جاتا ہے اسی طرح اردو نثر کے اولین نمونے بھی ہمیں دکن میں نظر آتے ہیں۔ اردو نثر کو بنیاد فراہم کرنے والے صوفیاء کرام کی فہرست بھی طویل ہے۔

پندرھویں صدی سے اردو نثر کو ادبی حیثیت حاصل ہوئی۔ قدیم اردو کی تاریخ بہمنی سلطنت سے شروع ہوئی۔ دکن میں بہمنی سلطنت اردو ادب میں پہلی تخلیقی تجربہ گاہ تھی۔ بہمنی دور میں تصانیف و تالیف کا خوب کام ہوا۔ دکن کے پہلے نثر نگاروں میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے ابتدائی نثر نگاروں میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، میراںجی شمس العشاق، برہان الدین جانم، فضل علی فضلی، میر محمد حسین عطا خاں تحسین، میرامن وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ بہمنی سلطنت حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، شاہ میراں جی شمس العشاق وغیرہ صوفیوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ یہاں ایسے تخلیق کار پیدا ہوئے جنھوں نے نثر اور نظم کے سدا بہار چمن کی خوبصورتی میں اضافہ کیا۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اوائل عمر میں دولت آباد آئے۔جب والد کا انتقال ہو اتو واپس دہلی چلے گئے اور حضرت نظام الدین اولیا کے مرید بن گئے۔ حضرت نظام الدین اولیا کے کہنے پر دکن گئے۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تمام تصانیف مذہبی تھیں جو صوفیانہ خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ بہمنی دور میں حضرت خواجہ گیسو دراز کو وہ ادبی مقام حاصل تھا جو بہت کم ادبا وشعرا کے حصے میں آتا ہے۔ آپ نے دکن میں چشتیہ سلسلے کو آگے بڑھایا اور تصوف کے نئے دور کی شروعات کی۔ نئی تحقیق کی رو سے اگر دیکھا جائے تو اردو نثر کی پہلی تصنیف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی ’معراج العاشقین‘ ہے۔ حالانکہ آپ کی کئی دیگر تصانیف بھی ہیں جو قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں جیسے ہدایت نامہ، شکار نامہ تلاوۃ الوجود وغیرہ۔ کتاب ’معراج العاشقین‘ میں ہندی، عربی الفاظ کی آمیزش سے کچھ پے چیدگی محسوس ہوتی ہے۔ دکنی الفاظ کی بھر مار زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دکن نے ہمیشہ صوفیاء کرام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کا احترام کیا۔ خواجہ بندہ نواز کو جس احترام اور قدر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے وہ ان ہی کا حق ہے۔ ان کی پہلی نثری کتاب ’معراج العاشقین‘ کی عبارت مشکل ضرور ہے لیکن قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس کتاب کی عبارت کا ایک نمونہ دیکھیے:

’’نبی کہے تحقیق خدا کے درمیان تے ستر ہزار پردے اوجیالے کے ہور اندھیارے کے اگر اس میں تے یک پردہ اٹھ جاوے تو اس کی آنچ تے میں جلوں۔ ہورایک وقت ایسا ہوتا ہے اور دیکھ بے پردہ اندھیارے کے اوجیالے کے عارفان پرہے واصلان پر پردے نورانی۔ دے وا صلان کا صفا پردہ ہوتا ہے۔‘‘  (معراج العاشقین(

خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے پوتے سید محمد عبداللہ حسینی بھی اپنے عہد کے ممتاز نثر نگار تھے۔ آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔آپ اپنے زمانے کے بڑے صوفی بھی تھے۔ آپ نے اپنے مریدوں اور لوگوں کی ہدایت کے لیے شیخ عبدالقادر جیلانی کے رسالے ’نشاۃ العشق‘ کا دکنی (قدیم اردو) میں ترجمہ کیا۔

اسی زمانے میں یعنی پندرھویں صدی میں شاہ میراں جی شمس العشاق بھی ایک اہم صوفی گزرے ہیں جن کے مریدوں کی تعداد کافی تھی۔ آپ کی نثری تصانیف کے ساتھ ساتھ شعری تصانیف بھی منظر عام پر آئیں۔ عادل شاہی دور میں آپ کو پہلا نثر نگار قرار دیا گیا ہے۔ آپ کی نثری تصانیف ’جل ترنگ، گل باس، خوش نامہ، شہادت الحقیقت، شرح مرغوب القلوب وغیرہ میں تصوف کے مسائل ملتے ہیں۔ آپ ہندی زبان سے واقف نہیں تھے مگر نبیؐ کے فیضان سے آپ کو ہندی زبان پر دسترس ہو گئی۔ ان کی تصانیف اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوئیں۔

برہان الدین جانم نے بھی دکنی نثر و نظم میں کمال پیدا کیا۔ آپ نے اپنے والد سے علوم ظاہری و باطنی حاصل کیا۔ آپ نے اپنے والد کے مبارک کام کو آگے بڑھایا۔ ’کلمتہ الحقائق‘ اور ’ہشت مسائل‘ ان کی نثری تصانیف ہیں۔ ’کلمۃ الحقائق‘ میںسوال و جواب کی شکل میں تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں جو مکالمے کی شکل میں ملتے ہیں۔ اس رسالے میں برہان الدین جانم نے اپنے مریدوں کو بتایا کہ انسانی ذات وصفات خدا اور اس کے وجود کو کس طرح جان اور پہچان سکتے ہیں۔ ’کلمۃ الحقائق‘ کی عبارت کا یہ نمونہ ملاحظہ کیجیے:

سوال صحیح ولیکن اس کا بھی شاہد تو ںہوں۔

جوابنو توں شاہد نور تھا نہ کہ عقل۔

سوالشاہد گواہ دارواصل شاہد سوج عقل۔

جوابصحیح۔ وہ ہدایت قدیم مستقیم سویو فہم ہے اماعارف الوجود نھوے۔

سوال اصل نور کا حال اصل کے نو تاریخ کا یہ شناس کیوں چاکھنا؟

جواب اصل حال وہ کہ جس وقت تیراتج میں سماؤ۔

سوالتو میرا رہن کہاں بتاؤں ہورکہاں سماؤ ہورکہاں اُپاؤ۔

جوابتجھے قدرت میں سماؤ ہورقدرت میں اپاؤ۔

سوالپرچوکیوں؟

جواباپنا پرچیت اپس میں دیکھ۔ تمھیں بول پر پرچولیکھ۔

امین الدین اعلیٰ نے بھی تصوف کے عمدہ خیالات کو اپنی تصانیف میں پیش کیا ہے اور خاندان کی ادبی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ آپ نے قادریہ اور اس کے بعد چشتیہ سلسلے میں بیعت حاصل کی۔ آپ کی کافی نثری تصانیف ہیں۔ شاعری کے مقابلے میں آپ کا نثری کلام زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خاندانی روایت کے پیش نظر آپ نے تصوف کے گہرے خیالات کو نثری تصانیف میں اُجاگر کیا اور اپنی صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے فضا تیار کی۔ آپ کی نثر میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔ امین الدین اعلیٰ کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے، انھیں مربوط نثر لکھنے کا سلیقہ معلوم تھا۔ یہ تہذیبی روایات سے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ نثر میں لکھے رسالے ’گفتار شاہ امین‘ اور ’ گنج مخفی‘ کا موضوع بھی تصوف ہے۔ ’گفتار امین الدین‘ میں اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی اکرمؐ کے تعلق سے تشریحات ملتی ہیں۔ جو ان کے مریدوں کے لیے تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں۔رسالہ ’کلمۃ الاسرار‘ شاہ امین الدین کا طویل نثری کارنامہ ہے۔ جس میں اصطلاحات تصوف بہت ہیں۔ اس رسالے کے علاوہ بھی کئی رسالوں کا پتہ چلتا ہے۔ مگر ان رسالوں کے مصنّفین کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی فیصلہ کرنا دشوار ہے۔ مگر بعض مشاہیر ادب ان رسائل کو اسی عہد کی تصانیف قرار دیتے ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں:

’’آپ نے نثر میں بھی چند رسالے لکھے ہیں۔ ایک کا نام رسالہ ’گفتار شاہ امین‘ ہے اور دوسرے کا نام ’گنج مخفی‘ ہے۔ ان کا موضوع بھی تصوف ہے۔

انجمن ترقی اردو وغیرہ کے کتب خانے میں اس کے مخطوطات موجود ہیں۔ عبارت کا نمونہ پیش ہے۔

 ’’اللہ تعا لیٰ گنج مخفی کوں عیاں کرنا چاہا تو اول اس میں سوں ایک نظر نکلی۔ سوا س سے امین دیکھ ہوا۔ اس سے شاہدکہتے ہیں۔ یو دونوں ذات کے دوطور ہیں۔

اس عہد کے دو اور رسالوں کا پتہ چلا ہے جو نثر میں ہیں۔ لیکن ان کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوتا مگر مخطوطہ کی اندرونی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اسی زمانہ کی تالیف ہیں۔‘‘

)دکن میں اردو، نصیرالدین ہاشمی، ص257,58، NCPUL نئی دہلی 1985(

شمال میں نثری تصانیف میںفضلی کی ’دہ مجلس‘ بھی اہم تصنیف ہے، جو فارسی ’روضتہ الشہدا‘ کا ترجمہ ہے۔ یہ ایک مذہبی کتاب ہے۔ ’دہ مجلس‘ میں بارہ مجلسیں ہیں۔یہ اس عہد کی ایک عمدہ کتاب ہے مگر جملے پے چیدہ اور مقفیٰ ہیں۔

بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن کے بادشاہوں نے نثر و نظم کو کافی فروغ دیا۔ عادل شاہی خاندان نے 1490 میں بیجاپور میں اپنی حکومت قائم کی۔اس عادل شاہی حکومت میں کل آٹھ بادشاہ ہوئے جن میں تین بادشاہوں نے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی، محمد عادل شاہ اور علی عادل شاہ ثانی کا عہد قابل ذکر ہے۔ عادل شاہ خاندان کے بادشاہوں نے اردو کو کافی فروغ دیا۔ ابراہیم عادل شاہ خود بھی شاعر تھے۔ گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان نے 1508 میں اپنی خود مختار حکومت میں اردو کے فروغ کے لیے بھر پور کوششیں کی۔ عادل شاہی خاندان کی طرح قطب شاہی خاندان میں بھی آٹھ بادشاہ ہوئے جن میں چار بادشاہ اردو شعر وادب میں دلچسپی لیتے تھے۔ گولکنڈہ کا پانچواں بادشاہ محمد قلی قطب شاہ 1580 میں تخت پر بیٹھا۔ اسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے عہد میں ملا وجہی نہایت معروف شاعر اور نثر نگار گزرا ہے۔

ملا وجہی کا اصل نام اسد اللہ اور تخلص وجہی تھا۔ ملا وجہی نے قطب شاہی دور کے چار بادشاہوں یعنی ابراہیم قطب شاہ، سلطان محمد قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور سلطان عبداللہ کا زمانہ دیکھا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ملا وجہی نے طویل عمر پائی تھی۔ اسی دور میں ملا وجہی کی ’سب رس‘ منظر عام پر آئی جس کا قصہ نہایت دلکش اور زبان سادہ وسلیس ہے۔ یہ اردو کی پہلی داستان ہے جو ملا وجہی نے عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر 1635 میں لکھی جو تصوف کی اچھی کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ عشقیہ اور تمثیلی داستان دکنی زبان میں لکھی گئی۔ یہ ایک فرضی قصہ ہے مگر اس میں انسانی جذبات و احساسات کی سچی ترجمانی ملتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا شگفتہ اسلوب ہے۔ عبارت مقفی مسجع ہے لیکن سلاست اور سادگی ہی اس کی خاصیت ہے۔ ’سب رس‘ کے بعد اسرار توحید بھی اہم تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ ’تاج الحقائق‘ بھی ملا وجہی کی اہم تصنیف ہے۔ ’تاج الحقائق‘ کا تذکرہ مولانا عبدالحق نے کیا ہے جو تصوف اور نثر پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی عبارت پیش نظر ہے:

’’عشق خداکوں بھید یا تو اس کی خاطر آسمان زمین ہو یدا کیا۔ عشق خدا کوں بھیدیا۔ تو اپنا حبیب کرمحمدؐ کوں پیدا کیا اگر محمد ؐ ناہوتا تو آسمان زمین ناہوتا اگر محمدؐ نہ ہوتا تو ماہ پیردیں نہ ہوتا، اگر محمد ؐ نہ ہوتا تو دنیا ہوردیں نا ہوتا۔ صاحب طہٰ ویٰسین صاحب رحمتہ العالمین جس کے نور تے عالم نے پایا۔ ‘‘

شمالی ہند میں فضلی کی ’کربل کتھا‘ بھی کافی مقبول ہوئی۔ شمالی ہند کی یہ پہلی تصنیف ہے جو قدیم وجدید اردو نثر کے درمیان کڑی تسلیم کی جاتی ہے۔ 1875 میں عطا حسین خاں تحسین نے ’نوطرز مرصع‘ تحریر کی جو فارسی قصہ ’چہار درویش‘ پر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی عبارت بھی رنگین اور مقفی نظر آتی ہے۔ اسے اردو کی عمدہ کتاب تسلیم کیا جاتا ہے، جس میں فارسی جملوں کی بھر مار ہے۔ جو ملا حسین واعظ کاشفی کی کتاب ’ روضتہ الشہدا‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین کی شہادت کو منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ’نوآئین ہندی‘بھی شمالی ہند میں لکھی جانے والی ایک اہم داستان ہے جس کے مصنف مہر چند ہیں۔

اردونثر کے فروغ میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ اسی کالج کے سربراہ تھے۔ فورٹ ولیم کالج میں ترجمے کا بڑا کام کیا گیا۔ اردو زبان و ادب کی بڑی خدمات انجام دینے والے اس کالج کا مقصد انگریزوں کو یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن سے روشناس کرانا تھا۔ جدید اردو ادب کی خدمات میں اس کالج کا بڑا ہاتھ ہے۔ آرائش محفل، طوطا کہانی، لیلیٰ مجنوں، باغ وبہار، قصہ مہر افروز و دلبر وغیرہ اس کالج سے شائع ہونے والی تصانیف ہیں مگر اس کالج کی تصانیف میں جو مقام و مرتبہ میرامن کی ’باغ وبہار‘ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ مجموعی طور سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو نثر کے ارتقا میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے لے کراردو نثر کا سفر سید محمد عبداللہ، میراں جی شمس العشاق، برہان الدین جانم، امین الدین اعلیٰ، فضل علی فضلی، ملاوجہی سے گزرتا ہوا فورٹ ولیم کالج تک پہنچا تواس کالج سے ایسے ادیب اور ترجمہ نگار پیدا ہوئے جنھوں نے بہت سی کتابوں کے ترجمے عربی اور فارسی سے اردو کی سادہ نثر میں کیے اور اردو نثر کو وقار عطا کیا۔ جدید اردو نثر کی بنیاد میں اس کالج کا اہم رول رہا۔ فورٹ ولیم کالج میں جتنی بھی تصانیف منظر عام پر آئیں ان پر فارسی کا اثر رہا۔ اس لیے زیادہ تر تصانیف میں سادگی اور سلاست کی کمی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرامن دہلوی کی باغ و بہار میں سادگی اورسلاست نظر آتی ہے مگر اس داستان کو چھوڑ کر دیگر تخلیقات میں سادگی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

Irshad Sayanvi

Dept of Urdu

Chaudhary Charan Singh University,

Ramgarhi

Meerut- 250001 (UP)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...