نویں
اور دسویں صدی ہجری میں گجری روایت کی ایک مقبول و معروف صنف کا نام ’جکری‘ہے۔ شیخ
بہاو الدین باجن نے سب سے پہلے اس صنف سخن کو متعارف کرایا اور اس کی ماہیت نیز مقصدپر
روشنی ڈالی۔ یہ صنف سخن گجری اردو کے ساتھ مخصوص ہے اور اردو شاعری کی پہلی اور قدیم
ترین روایت میں شمار ہوتی ہے۔ جکری دراصل ذکری کی گجری شکل ہے۔ متاخرین علمائے ادب
نے گجری روایت کے پیش نظر جکری کے طرز املاکو برقرار رکھاہے۔ اس صنف میں بنیادی طور
پر ذکر خدا، ذکر رسول، ذکر پیر و مرشد، ذکر تجربات باطنی اور واردات روحانی وغیرہ کو
عام فہم الفاظ میں لکھا جاتا ہے، جسے آسانی کے ساتھ گایا جاسکے اور سازپر بجایا بھی
جاسکے۔1تاکہ لوگوں کے اندر وجد و سرور طاری
ہو،اور وہ عشق الٰہی کے ولولے اوراس کے سوز و گداز کو اپنے دل میں محسوس کرسکیں۔ جکری
میںعشق و محبت کے جذبات اورایسے ناصحانہ مضامین بھی ہوتے ہیں جس سے طالبوں اور مریدوں
کی ہدایت بھی کی جاتی تھی۔
حضرت
شیخ بہاو الدین باجن نے ’خزائن رحمت اللہ‘ کے ’خزینہ ہفتم‘ میں جکری کی تعریف کرتے
ہوئے اس صنف نغمہ کے مقصد و ماہیت پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’درذکر اشعار کہ مقولہ این فقیر است، بزبان ہندوی جکری خوانند و قوالان
ہند آمنرادرپردہ ہائے سرودمی نوازند و می سرایند، بعضے در مدح پیر دستگیرو وصف روضہ
ایشان و وصف وطن خود کہ گجرات است و بعضے در ذکر مقصد خود و مقصودات مریداں و طالبان
وبعضے در ذکر عشق و محبت…‘‘
مذکوہ
بالا اقتباس کا مطلب راقم کے لفظوں میں یہ ہے کہ’’اِن اشعار کا تذکرہ کرتے ہو ئے جس
کے موضوع کا تعلق اس فقیر سے ہے وہ لوگ ہندوی زبان میں جکری گاتے ہیں اور ہندوستانی
شاعر پردے میں گاتے او ر بھجن کرتے ہیں۔کبھی کبھار عمر رسیدہ بزرگ قیدیوں کی تعریف
میں،یا ان کے مزارات کو بیان کرتے ہیں اور ان کاوطن گجرات بیان کر تے ہیں اور کبھی
اپنی منزل اور شاگردوں اور مریدوں کاذکر کرتے
ہوئے ان کے مقاصد کا تذکرہ کرتے ہیں.....‘‘
مذکورہ
اشعار جن کا تعلق اس فقیر سے ہے، جسے لوگ ہندوی زبان میں جکری کہتے ہیں اور ہندوستانی
شعرا ساز پر گاتے اور بجاتے ہیں۔ کچھ تو اپنے پیر کی مدح اور ان کے روضے کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ اپنے
وطن جو کہ گجرات ہے، کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے مقصد یا اپنے مریدوں یا طالب
علموں کے مفاد کو سامنے رکھتے ہیں یا کچھ لوگ جکری میں عشق و محبت کا تذکرہ کرتے ہیں۔
یہاں
یہ بات ہمارے ذہن میں رہے کہ اس اقتباس کے مطالعے سے حضرت شیخ بہاو الدین باجن کے موضوعات
کا علم ہوتا ہے جو انھوں نے اپنے کہے ہوئے جکریوں میں باندھے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی
پتہ چلتا ہے کہ جکری کا کوئی موضوع مخصوص نہیں۔ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی،قاضی محمود دریائی
کے ترجمے میں جکری کا تعارف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
صاحب
’خزینتہ الاصفیاء‘ کے حوالے سے محمود شیرانی نے جکری کی ایک اور تعریف نقل کی ہے۔ ملاحظہ
ہوں
’’اشعارعاشقانہ بزبان ہند فرمودے کہ قوالان آن دیار بوقت سماع اشعار
آنجناب بہ مجلس اصفیا میخو انند و بغایت موثر می باشند۔‘‘2
جکری
ہیئت کے اعتبار سے بھجن اور گیت ہی کی ایک شکل ہے، جس میں دوہروں کا بھی استعمال کیا
گیا ہے۔ گجری روایت میں اس صنف سخن کو متعارف کرانے والوں نے اس کے ارکان کو اپنے طور
پر برتا ہے۔ چنانچہ شیخ بہاو الدین باجن کے یہاں اس کے ارکان اس طرح ہیںکہ ابتدائی
اشعار جو ہم قافیہ ہوتے ہیں ’عقدہ‘ کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد تین تین چار چار مصرعوں کے
بند آتے ہیں، جنھیں ’پین‘کہا جاتا ہے۔ آخری بند جو عام طور پر تین مصرعوں پر مشتمل
ہوتاہے ’تخلص‘ کہلاتا ہے۔ پہلے دو مصرعے ہم قافیہ جبکہ تیسرا مصرع الگ قافیہ میں ہوتا ہے، لیکن
یہ تینوں ہم وزن ہوتے ہیں۔ ہر جکری میں عنوان کے تحت یہ واضح کردیا جاتا ہے
کہ اسے کس راگ کے مطابق لکھا گیا ہے۔مثلاً ’’عقد ہ در پردۂ صباحی، عقدہ درپردۂ بلاول
اور عقد درپردہ للت وغیرہ۔
عقدہ
درپردۂ صباحی کی مثال ؎
سب
پھل باری تو ہیں بھونرا بہو بھر لیوباس
راول
میرا راج کرے ری مندر کے پاس
باجن باجن باجن تیرا تجھ
باجیں ناجیون میرا
عقدہ
در پردہ بلاول کے نمونے بطور مثال
؎
شراب
محبت بھر بھر پیالے
آتش
عشقت نقل نوائے
پس
روئے رسول مالامالی
نبی
رسول کی چنوں چالی
بھکاری
آیاعیدی مانکے
ہیری
کا کچھ تجھ دھر سانکے
صحت
تن اور عمر دراز
رزق
فراخ توفیق نماز
اوکن
سکلی کن کر لیئیں
باجن
کو دیکھن لیئیں
عقدہ
کی مثال ؎
تبن پائیں دی رج بسلائییاد
بھرا کے اک کلال
خوب
ملیں صندلی رنگ نیلے پیلے کالے لال2
پین
کی مثال ؎
شہ
جو لایا چندناچوہا چولہ مہوکے
ہوئی
جو آئی نو شہ کی میرا جیو را ہو کے
جائی
جوئی موگرا چن چن لایا مالی
کچھ
کندری کچھ کھولے شہ تیری تائیںتھالی
مائی
بہنے مل کر دیو یوں آسیسا
یہ
بنابنی جیوری گور لگ پریسا
تخلص
کی مثال ؎
باجن
تیرا باؤلاتجھ کارن تپہے دھمکے
نبی
محمدمصطفی سیں نور جگ میں جھمکے
عقدہ
کے علاوہ مندرجہ بالا مثالیں جمیل جالبی کی تاریخ ادب اردو سے ماخوذ ہیں۔3؎
شاہ
علی محمد جیوگام دھنی نے جکری کی اسی ہیئت کو برقرا ررکھتے ہوئے عناصر ترکیبی کے نام
میں فرق کیا ہے۔ انھوںنے جکری کو مکاشفہ کا نام دیا ہے اور ہر بند کوـ
’نکتہ‘ قرار دیا ہے۔ جکری کی پوری نظم ’مکاشفہ‘ کے نام سے موسوم ہوتی ہے جب کہ شیخ
باجن نے اپنی نظم کو ’عقدہ‘ اور بند کو ’پین‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور آخرکے تینوں
مصرعوں کو ’تخلص‘ کا نام دیا ہے۔
جکری
کے ممتاز شعرا میں سے ایک شیخ بہاو الدین باجن نے ایک سو بائیس سال کی طویل عمر پائی۔
انھیں موسیقی سے گہرا لگائو تھا اسی لیے اپنا تخلص باجن اختیار کیا۔ فارسی میں ’خزائن
رحمت اللہ‘ کے نام سے ان کی ایک یادگار تصنیف ہے، جس میں شیخ باجن نے جا بجا اپنا اردو
کلام بھی درج کیا ہے۔ اس کتاب کے ایک باب کا نام ’خزینۂ ہفتم‘ ہے جس میں دوسروں کے اقوال کے ساتھ اپنے اشعاراور جکریاں بھی
درج کی ہیں۔ ان اشعار کی زبان نویں صدی ہجری کی زبان ہے، جن میں اسلامی اور ہندوی اثرات
مل جل کر ایک ایسی شکل اختیار کرتے ہیں جو گجری اردو کے ساتھ مخصوص ہے۔ان کی کتاب
’خزائن رحمت اللہ‘ کے بارے میں تبسم کاشمیری لکھتے ہیں
’’لسانی اعتبار سے باجن کی
تصنیف ’خزائن رحمت اللہ‘ بہت قدر و قیمت کی حامل کتاب ہے۔ اس کی اہم ترین قدر یہ کہ
یہ اردو کے قدیم ترین روپ کا مستند نمونہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ باجن کی ایک اور اہم
قدر یہ ہے کہ اس میں اردو غنائیہ شاعری کی روایت پروان چڑھتی ہے۔‘‘4
شیخ باجن کی جکریوں کے نمونے
حسب ذیل ہیں ؎
اللہ
سیتیں جے کوئی ہوئے
اللہ
اور جگ اس کا ہوئے
من
مراد گھر بیٹھے پاوے
اس
کو مار نہ سکھے کوئے
کوئی
اللہ سیتیں اللہ کسے
سہتیں
باجن درویش پر مناوے
اللہ
ہوں کوچہ سہتیں بیٹھی بھکیاوے
ایک
دوسری مثال میں عقدہ در پردۂ للت کا یہ بند ملاحظہ ہو ؎
کھولو
کھولو ری پار دکھلاؤمکھو
جس
مکھو دیکھیں میری نینو جی سکھو
جس
مکھو دیکھیں دکھ دلندر جاوے
شاہ
رحمت کا درسن باجن پاوے
اس
ادبی روایت کو مستحکم کرنے میں قاضی محمود دریائی کا بھی نام خاصا نمایاں ہے۔ گجرات
کے برگزیدہ صوفیامیں ان کا شمار ہوتاہے۔ قاضی صاحب بیرپور کے رہنے والے تھے، ان کی
شخصیت کی نمایاں خصوصیت ولولۂ عشق ہے۔ ’تحفۃ
الکرام‘ میں قاضی صاحب کے بارے میں لکھا ہے ’’ہنگام جوانی از مقام غوثیت درگزشتہ بمقام
محبوبیت در رسیدند۔‘‘5جمیل جالبی قاضی صاحب اور ان کلام کے بارے میں اپنی کتاب تاریخ
ادب اردو میں یوں تحریر کرتے ہیں
’’مزاج کی اس کیفیت اور عشق کی شدت کا یہ اثر ان کے کلام میں محسوس
ہوتا ہے۔ دین و دنیا کے سارے امور اسی محور پر گھومتے ہیں۔ عشق کی اس آگ کو وہ موسیقی
کی نرمی اور پھوار سے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ان کا بیشتر کلام گانے کے لیے لکھا گیا ہے اور
ان کا ایک ضخیم دیوان قلمی صورت میں موجود ہے۔ ‘‘6
صنف
جکری میںگجری کی مروجہ روایت کے مطابق ہندوی اثرات نمایاںہیں۔ قاضی صاحب نے اپنے کلام
کو مختلف راگ راگنیوں اور سروں کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ اسی اعتبارسے عنوان قائم کیے
ہیں۔ جیسے جکری درپردۂ بلاول، دردھناسری،دربھاکرہ، درسارنگ وغیرہ۔
نمونۂ
کلام درج ذیل ہے ؎
نین
رنگیلوں کے قربان
نین
چھبیلوں کے قربان
نین
جنجالوں کے قربان
نین
سلونوں کے قربان
جن
دیکھے سورہ کر دھولے آپس کرے ندھان
دیکھت
تین مرک میں موئی جھیل ہوئی نسران
پنکھی
پنتھی دیکھت ہوئی کالی کیتی جان
قاضی
محمود کا موضوع سخن عشق ہے اور اس عشق کی ہزار ادائیں ان کے کلام میںجھلکتی ہیں۔ ان
کا کلام پڑھنے سے زیادہ قوالوں کی زبان اور سازوں کی سنگیت میں اثر کا جادو جگاتاہے۔
قاضی
محمود دریائی بیر پوری کو اپنے والد سے انتہا درجے کی عقیدت تھی۔اپنے والد کو قاضی
محمد کے نام سے یاد کرتے ہیں اور نام کے ساتھ چالندہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں،جو ان
کے والد کا لقب تھا۔والد کے وصال پر جو جکری لکھی ہے وہ قاضی محمود کی اپنے والد سے
عقیدت و محبت کی دلیل ہے۔جس کی مثال درج ذیل ہے7
قاضی
محمد تن شاہ چایلندھاپیر لاگوںپائے
جکری
کی روایت کو مزیدمستحکم کرنے میں گجرات کے ایک اور نامور بزرگ شاہ علی محمد جیوگام
دھنی کا نام بھی شامل ہے۔ انھوں نے گجرات کی اس قدیم صنف سخن کو بام عروج تک پہنچایا۔
ان کی تصنیف کا نام ’جواہر اسرار اللہ‘ ہے۔ شاہ علی محمد جیوگام دھنی کا کلام فلسفہ
ٔ ہمہ اوست کا ترجمان ہے۔ گام دھنی بہت مشکل پسند شاعر ہیں، ہر بات کو صرف اشاروں میںبیان
کرنے کی وجہ سے ان کے کلام میں ابہام نمایاں ہے۔
ان کا سارا کلام واردات قلبی، عرفان ذات کے مسائل اور صوفیانہ تجربات میں ڈوبا
ہوا ہے۔ محمود شیرانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ صفات
سے گزر کر عین ذات میں محو ہیں۔‘‘8مثال کے طور پران کے کلام کے نمونے ملاحظہ کیجیے۔
جمال
جمال کھل بھل جاسی
جلال
جلال مل ایکچ تھاسی
جے
جس صفت دو مالی ہووے
وہی
صفت اس ذات ملاسی
جکری
کی روایت کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شاعری کا مجموعی مزاج ہندوی ہے، جس پر
ہندوی اثرات، روایات، صنمیات ا ور رمزیات کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ گجرات میں تصوف
نے جس طرح سے اپنا رنگ جماکر دلوں پر حکمرانی کی ہے اس کی نوعیت شمالی ہندسے مختلف
ہے۔ گہرے ہندوی اثرات نے اسلامی تصوف کے ساتھ مل کر ایک ایسی شکل اختیار کر لی، جو
صوفیوں اور شاعروں کے کلام میں نظر آتی ہے، گجری روایت میں موسیقی اور سازوں پر وجد
کرنے کا رجحان ملتا ہے، جکری اسی روایت کی پاسداری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن شاہ
علی محمد جیوگام دھنی کے آخری وقت میں اس صنف میں بھی فارسی روایت کے اثرات نمایاںہونے
لگتے ہیں، جس روایت کو بعد میں خوب محمد چشتی نے پروان چڑھایا۔ اس طرح جکری کی روایت
آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی اور معدوم ہو گئی۔اس طرح اردو دنیا ایک ایسی صنف سے محروم
ہو گئی جو ساز پر گائی جانے کے ساتھ ساتھ ہندوی
روایت کی امین بھی تھی۔
بقول
ڈاکٹر حبیب نثار ’’اس دور میں جکریاں بہت مقبول تھیں مجالس حال وقال میں قوال مزا میر
کے ساتھ گاتے تھے۔ جکریاں ہیئت میں نظم او رخیال کے اعتبار سے غزل ہوتی ہے۔ انھوں نے
اپنے مقالے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کے جکری کے موضوعات اور ان کے محل استعمال پر اظہار
خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جکری (جکری، ذکری کی گجری شکل ہے) میں بنیادی طور پر ذکر
خدا، ذکر رسولؐ، ذکر پیرو مرشد، ذکر تجربات باطنی و واردات روحانی کو اس طور پر ایسے
اوزان اور ایسے عام فہم الفاظ میں لکھا جاتا تھا کہ اسے گایا بھی جا سکے اور سازوں
پر بجایا بھی جا سکے۔ جکری کی حیثیت مختصر گیت یار اگ راگنیوں کے ان بولوں کی تھی جنھیں
گا بجا کر لوگوں کے اندر عالم وجد و سرور پیدا کیا جا سکے۔ اس میں عشق و محبت کے جذبات
بھی ہوتے تھے اور ایسے ناصحانہ مضامین بھی جن سے مریدوں اور طالبوں کی ہدایت ہو سکے‘‘۔
مشہور
ادبی مؤرخ محمود شیرانی جکری کی اصل کا قیاس کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’جکری دراصل ذکر‘کی بگڑی شکل ہے۔ اس کا اطلاق ایسی نظموں پر ہوتا ہے
جن میں اور مضامین کے علاوہ سلسلے کا شجرہ اور مشائخ کی مدح ہوتی تھی۔ پروفیسر گیان
چند جین جکری کے سلسلے میں ’شیرانی کی تاویل‘ کو صحیح قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی
یہی معلوم ہوتی ہے۔ بقول حافظ محمودشیرانی کتاب چشتیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ’’جکری
کے لیے ہندوستانی موسیقی کے چند راگ مخصوص ہیں یعنی للت، بلاول، دیساکھ، توڑی، سیام
بیراری، دھنا سری، اساوری، دیوگیری، پوربی، کلیان، کانڑا، بھاکرہ اور گنڈ۔
جکری
گجرات میں مقبول ہونے سے قبل شمال میں معروف تھی چنانچہ حضرت نظام الدین اولیا کو’جکری‘
سننے سے حال آیاتھا جس کے متعلق صاحب’سیرالاولیا‘ لکھتے ہیں
’’قوال جکری از مولانا وجہہ الدین بصوتے مرق می گفت و غالب ظن من آنست
کہ این جکری بود(پنیا بن بہاجی ایسا سکھ سیں باسوں) حضرت سلطان المشائخ را این ہندوی
اثر کرد‘‘
اس
مضمون کا خلاصہ یہ ہے جکری کی اپنی روایت اور ہئیت رہی ہے جو کہ موجودہ دور میں تقریباً
ختم ہو چکی ہے اور حد یہ ہے اس جانب ہمارے ادیبوںاور ادب پر کام کرنے والوں کا ذہن
نہیں جاتا کہ اس پر بھی کچھ کام کیا جا سکے۔تفصیلی مضمون بہت کم ہے بلکہ یہ کہا جا
ئے کہ نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔خال خال دو تین مضامین اس بابت ہیں یا اردو ادب کی
تاریخی کتابوں میں مقید ہیں۔اس طرف تھوڑی بہت
تفصیل ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تاریخ میں لکھی ہے۔جس کا چربہ ایک آدھ لوگوں نے اپنے
مضمون میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔جب کہ ہم سب بطور اردو کے طالب علم جانتے ہیں کہ کوئی
بھی صنف تب تک زندہ رہتی ہے جب تک اس کے برتنے والے باقی رہتے ہیں۔ورنہ وہ صنف اپنی
موت آپ مرکر تاریخی کتب کی نذر ہوجایا کرتی ہے۔اور پھر ماسوائے حسرت یاس کے اس صنف
کے عالموں کو کچھ نہیں ملتا۔
حواشی و حوالہ
- تاریخ ادب اردو،ج ۱،جمیل جالبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،ص86
- اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام،مولوی عبد الحق، انجمن ترقی ہند،2019،ص63
- تاریخ ادب اردو،ج 1،جمیل جالبی،ص88
- اردو ادب کی تاریخ،ابتدا سے 1857تک، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، 2003،ص60
- تحفۃ الکرام،ج 1، 79 بحوالہ ٔتاریخ ادب اردو،ج 1،جمیل جالبی،ص89
- تاریخ ادب اردو،ج ۱،جمیل جالبی،ص90
- اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام،مولوی عبد الحق، ص57-58
- مقالات حافظ محمود شیرانی، ج 1، مجلس ترقی ادب، لاہور 1987، ص284
- جکری: ہئیت وماخذ از ڈاکٹر حبیب نثار
Amir
Muzaffar Bhat
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں