بیسویں صدی عیسویں میں تدوین متن ایک شعبے کی حیثیت سے ادب
میں متعارف ہوا۔اس شعبے نے اپنے تہذیبی و تمدنی عرفان کو برقرار رکھنے کے لیے قدیم
علمی و ادبی متون کو از سر نو کھنگال کر انھیں اہل ادب کے پیش نظر کیا۔متن کی تدوین
ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے اس کے لیے نہ صرف وسیع علم،ژوف نگاہی کی ضرورت ہے بلکہ
اس شعبے کے لیے صبر اور طویل وقت درکار ہوتا ہے۔ اس دشوارگزار گھاٹی میں جہاں مردوں
نے کارہائے نمایاں انجام دے کر رشید حسن خان جیسے خدائے تدوین پیدا کیے وہیں سیدہ جعفر
اور ایسی ہی متعدد اعلیٰ پایہ کی خواتین بھی پیدا کی ہیں۔
عہد قلی قطب شاہ سے ہی ایسی ہنر مند خواتین کا تذکرہ آتا
ہے جن کی پرورش و تربیت نے وجہی، نصرتی، ملک خوشنود اور رستمی جیسے شعرا پیداکیے۔ ان خواتین میں بھاگ متی قلی قطب شاہ کی
ملکہ جن کو وجہی نے مشتری کا لقب دیا ہے۔ اسی طرح عادل شاہی خاندان کی مشہور ملکہ خدیجہ
سلطان اور قلی قطب شاہ کی بیٹی حیات بخشی بیگم خاص ہیں۔ادب کے متعدد شعبوں میں خواتین
نے اپنے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ افسانوی، غیر افسانوی، شاعری، تنقید،تحقیق یہاں
تک کہ تدوین متن کے میدان میںنہ صرف قدم رکھا بلکہ اپنے قدم جمائے ہیں۔اس سلسلے میں
پروفیسر معین الدین عقیل لکھتے ہیں
’’دکنیات
کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس جانب خواتین نے بھی خصوصی دلچسپی لی ہے۔بلکہ یہ واقعہ
ہے کہ کسی اور دبستان یا علاقے کو خواتین اہل قلم کی اتنی تعداد میسر نہ آئی۔اس کا
ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ مملکت آصفیہ میں نسوانی تعلیمی ترقی حکومت کی ترجیحات میں
ہمیشہ شامل رہی... جامعہ عثمانیہ اور پھر ڈاکٹر زور کی شخصیت اور ان کی مساعی کا بھی
یہ اعجاز ہے کہ انھوں نے خواتین میں بھی دکنیات کے مطالعے و تحقیق کا ذوق و شوق عام
کر دیا۔ لہٰذا متعدد خواتین نے دورانِ تعلیم اور فراغت تعلیم کے بعد بے حد دلچسپی اور
مستعدی کے ساتھ دکنیات کے مختلف موضوعات پر معیاری مطالعات و تحقیق کو اپنا وظیفہ بنا
لیا‘‘ 1
تحقیق کے لیے تدوین کا ہونا لازم نہیں لیکن تدوین متن میں
تحقیق کے تمام تر اوصاف کو پیش نظررکھنا ضروری ہے،اور اس کے ذریعے متن اور مصنف کے
متعلق تمام تحقیقی امور کو پیش کرنا ناگزیر ہے،یوں تدوین کے لیے تحقیقی امور ذریعہ
خاص بن جاتے ہیں۔ مدون متن کو مصنف کے ایک ایک لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنے اور پرکھنے
کے لیے سو کنویں جھانکنے کے بعد اپنے تنقیدی شعور سے الفاظ کو ترتیب دینا پڑتا ہے۔گو
مدون متن کو تحقیقی صلاحیتوں کے ساتھ تنقیدی بصیرت سے بھی بہرہ ور ہونا ضروری ہے۔ان
تمام اوصاف کا مجموعہ ہمارے ادب کو رشید حسن خان،نورالحسن ہاشمی،جمیل جالبی،حنیف نقوی
اور تنویر احمد علوی جیسے محققین و مدونین میسر آئے جنہوں نے متون کی ترتیب تنقیدی
و تحقیقی شعور کے ساتھ کی وہیں خواتین بھی اس شعبے میں پیش پیش نظر آئیں۔تحقیق و تدوین
کی نمائندہ خواتین کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔
باقاعدہ تدوین متن کا سلسلہ آزادی کے بعد شروع ہوتا ہے۔خواتین
مدونین میںسب سے پہلے ڈاکٹر خالدہ بیگم2 کا نام آتا ہے ان کا تدوینی کارنامہ اورنگ آباد
کے استاد سخن اور سراج اورنگ آبادی کے ہمعصر داؤد اورنگ آبادی کا دیوان ہے۔یہ دیوان
مرتبہ کے مختصر و جامع دیباچے کے ساتھ 1958میںنیشنل فائن پرنٹنگ پریس سے شائع ہوا۔مرتبہ
نے متن کی تصحیح و ترتیب دیوان کے تین نسخوں کی مدد سے کی اور غزلیات کو دریف وار ترتیب
دیا۔خواتین کے علم و ادب کی آبیاری میں جامعہ عثمانیہ نے سب سے پہلے اور سب سے اہم
کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ3اسی شعبے کی ایک قابل قدر محقق ہیں۔ تدوین متن
میں ان کے متعدد کارنامے سامنے آئے ہیں۔اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’اردو نثر کا آغاز
و ارتقا‘ کی تحقیق کے دوران بیجاپور کے صوفی شاعراور اردو کے اوّلین معمار برہان الدین
جانم کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق‘ کی طرف توجہ ہوئی،مرتبہ نے رسالے کو چار نسخوں کی
مدد سے مرتب کر کے 1961میں ادارہ تحقیقات اردو سے شائع کیا ہے۔ مرتبہ نے اس پر ایک
جامع و مبسوط مقدمہ تحریر کیا، مقدمہ میں مصنف کے سوانح و کوائف، تصانیف اور اسلوب
کتاب کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے بعد1967 میں مسعود حسین اور شری ڈی رامانج راؤکی
تحریک پر ’دکنی نثر پارے‘قدیم دور کے دکنی مصنفین کے نثری شہہ پاروں کو گنجینہ فکر،وجدان
فن،اور سبد گل کے عنوانات کے ساتھ مرتب کیا۔ مرتبہ نے اس پر ایک عالمانہ مقدمہ تحریر
کر کے شائع کیا۔ نثر پاروں کی تدوین کے ساتھ انھوں نے حافظ عبد الرحمن خان احسان کے
کلیات کو1968 میں تصحیح و ترتیب دے کر شائع کیا۔ مرتبہ کا اس دور زرّین کے ’جگت استاد
احسان‘کے کلام کی ترتیب کلاسیکی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے احسان نے میر، سودا، غالب
اور ذوق تک کا عہد دیکھا اور دربار دہلی کے نامور شعرا ذوق، ممنون اور شاہ نصیر سے
معرکے بھی کیے ہیں۔ یہ عربی و فارسی کا ماہر،علم عروض کا استاد کہلاتا تھا۔ مرتبہ کا
یہ اہم کارنامہ کہ اس گمنام استاد شاعر کو
اہل ادب سے متعارف کرایا۔
زینت ساجدہ4 ایک بالیدہ شعور کے ساتھ طالب علمی کے زمانے
میں ہی ابھر کرسامنے آئیں۔دوران تعلیم 1947 میں ایک افسانوی مجموعہ جل ترنگ شائع ہوا۔
تدوین متن کے سلسلے میں دو اہم کارنامے انجام دیے ہیں پہلا ’کلیات شاہی‘ دوسرا ’مثنوی
نوسرہا ر ’اول الذکر 1962 میں منظر عام پر آیا۔کلیات کی ترتیب و تدوین کے ساتھ مرتبہ
نے ایک سو چودہ صفحات کا مقدمہ درج کیا ہے۔ مقدمہ کلیات، مرتبہ کی لسانیات پر عمیق
نظر کا واضح ثبوت ہے۔اس میں عادل شاہ ثانی کی حیات اور کلام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا
ہے،ساتھ ہی عہد عادل شاہی کی لسانی خصوصیات اور رسم الخط کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔قدیم
متون کی تدوین جدید کے اہم جزء فرہنگ کا بھی مرتبہ نے اہتمام کیا ہے۔
ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ’مثنوی نو سرہار‘ کی تنقیدی تدوین
ہے جو 1973 میں پیش کیاہے۔مرتبہ نے قدیم ادب کی اس خاص مثنوی، اس کے مصنف اشرف بیابانی
کے حالات اور متن سے مماثل دیگر متو ن کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔متن کی فنّی خصوصیات
پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ترتیب کے دوران غلط روایات کی نشاندہی اور داخلی و خارجی دلائل
سے متن کے وضاحت کی ہے۔ڈاکٹر آمنہ تحسین ان متون کی ذیل میں لکھتی ہیں
’’یہ
لسانی جائزہ قدیم اردوزبان کے متعلق کئی اہم نکات کی نشاندہی کرتا ہے۔لیکن افسوس کہ
یہ مقالہ ابھی تک شائع نہیں ہوا۔اسی لیے وہ تمام اہم معلومات عام قاری کی دست رس میں
نہیں ہیں ‘‘5
دکنی متون کی تدوین کے علاوہ زینت ساجدہ نے کئی اور کارنامے
انجام دیے ہیں ان میں خاص ’حیدرآباد کے ادیب ‘(دو جلد) تراجم وغیرہ ہیں۔
ساٹھ کی دہائی سے تدوین متن کا کام زورپکڑتا ہے اور ایک
اہم نام ثمینہ شوکت کا آتا ہے۔انھوں نے جامعہ عثمانیہ سے تحقیق کا آغاز کیا تحقیق
کے ساتھ ہی ان کا رجحان تدوین کی طرف بڑھا اور ’مثنوی لطف‘موسوم بہ نیرنگ عشق 1962میں
مجلس تحقیقات اردو حیدرآباد دکن سے شائع ہوا۔جدید اصول تدوین کے مطابق مرتبہ نے متن
کے مختلف نسخے تلاش کر کے متن کی ترتیب و تصحیح کی ہے، اس سلسلے میں متن کے چار نسخے
دستیاب ہوئے۔ متن کی ترتیب سے قبل فاضل مرتبہ نے 95 صفحات کا پر مغزمقدمہ تحریر کیا ہے مقدمہ میں لطف
کے تمام حالات و کوائف کا تحقیقی تجزیہ پیش کیا ہے۔تحقیقی مقالے کے ساتھ ساتھ مرتبہ
نے تدوینی طریقہ کار کو بھی بہ حسن خوبی پیش کیا۔ متن کی چھان پھٹک میں انھوں نے بڑی
سلیقہ مندی سے کام لیا ہے تمام نسخوں کے مقابلے و موازنے کے بعد متن کو مصنف کی منشا
کے مطابق پیش کیا ہے۔ مرتبہ کے اس تحقیقی ذوق کی داد پروفیسر عبد القادر سروری نے پیش
لفظ میں دی ہے۔’’ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے بڑی محنت اور ذوق کے ساتھ مثنوی کے سارے نسخوں
کا مقابلہ کر کے ایک مستند متن تیار کر لیا ‘‘
6
مرتبہ کے تحقیقی ذوق کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ 1959 میں
ممکنہ مآخذ اور حوالوں کی بنیاد پر مہ لقا بائی چندا کو اردو کی اوّلین صاحب دیوان
شاعرہ ثابت کیا ہے۔ اگرچہ بعد میں اسد علی تمنا کی بیگم لطف النساء بیگم پہلی صاحب
دیوان شاعرہ قرار پائی اوّل الذکر کا دیوان 1214ھ
اور موخر الذکر کا 1213ھ میں منظر عام پر آیا ہے۔
مثنوی لطف پر مرتبہ کو متعدد مشاہر ادب نے داد تحسین پیش
کی ہیں جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین،پروفیسر سعید احمد اکبر آبادی،ماہر لسانیات مدون و
محقق پروفیسر مسعود حسین،پروفیسر ہارون خان شیروانی اور گیان چند جین وغیرہ شامل ہیں۔
مرتبہ کا تدوین کے ضمن میں ایک اہم کام’شکار نامہ‘ہے اس متن کی اہمیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شکار نامہ کو جموں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔مرتبہ
ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز مماثل مثالیئے و رسالہ جنونیہ
1963 میں مرتب کر کے سلسلۂ مطبوعات ِمجلس تحقیقات اردو حیدرآباد دکن سے شائع کیا
ہے۔رسالے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے۔آخری حصے میں رسالے سے متعلق ضمیمہ شامل کیا
ہے۔ترتیب متن کا اندازہ پروفیسر عبد القادر سروری کے پیش لفظ میں درج اس بیان سے ہوتا
ہے۔
’’مجھے
اس کا اعتراف ہے کہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت نے مختلف نسخوں سے رسالے کے متن کے مقابلے اور
اس کی تدوین کے علاوہ اختلاف نسخ اور حوالوں کے اندراجات کے صبر آزما کام کو نہایت
حسن خوبی اور جدید ترین طریقہ تحقیق کے اصولوں پر مکمل کیا۔اس طرح شکار نامہ کا ایک
مستند متن ہماری دست رس میں آگیا ہے‘‘ 7
پروفیسرسیدہ جعفر8 ہمارے دکنی ادب کے ایک بڑے ذخیرہ کی امین
ہیں اس کی وجہ حیدر آباد کی علمی و ادبی فضا ہے اسی فضا کے استفادے سے ان کا شمار
ہندستان کی دانشور خواتین کی فہرست میں ہوتا ہے۔وہ ایک ادیب، انشاپرداز،محقق،نقاد اور
مخطوطہ شناس تھیں۔سرمایہ ادب میں ان کا اضافہ ساٹھ کی دہائی سے شروع ہو کر اپنی آخری
عمر تک ہوتا رہا۔دیگر ادبی کاوشوں کے ساتھ تدوینی کارناموں میں شاہ تراب کی مثنوی
’من سمجھاون‘کوچھ مخطوطات کے مقابلے و موازنے سے مدون کر کے ایک بسیط مقدمہ کے ساتھ
سلسلہ مطبوعات ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدر آباد سے 1964 میں شائع
کیا۔ 1966 میں ’دکنی رباعیاں ‘ اس میں مرتبہ نے 36 شعرا کی رباعیوں کی تدوین میں ان کے اختلافات کو
حواشی میں درج کیاہے۔ حصہ اوّل میں مرتبہ نے فن رباعی پر نہایت جامع بحث کی ہے۔ اس
طرح انھوں نے تحقیق اور تدوین کا بہترین امتزاج پیش کیا ہے۔ 1967 میں بیجاپور کے صوفی
شاعرسید میراں شاہ ابو الحسن القادری کی مثنوی ’سکھ انجن‘کو دو مخطوطات کی مدد سے مرتب
کیا اور لطف الدولہ اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد سے شائع کیا۔سلسلۂ تدوین جاری
رہا اور1983 میں دبستان گولکنڈہ کی پہلی مثنوی شیخ احمد گجراتی کی’یوسف و زلیخا‘ کو
مرتبہ نے اپنے 193 صفحات کے بسیط مقدمہ اور فرہنگ کے ساتھ شائع کیا۔ تدوین متن کا اہم
ترین کارنامہ 1985 میں کلیات محمد قلی قطب شاہ ہے۔مرتبہ نے متن کی تصحیح و ترتیب کے
ساتھ281 صفحات کا طویل و بسیط مقدمہ اور ساتھ53 صفحات کی فرہنگ بھی شامل کی ہے۔ آخر
میں ایک ضمیمے کے تحت بارہ غیر مطبوعہ نظمیں درج کی ہیں۔مرتبہ نے اس مفصل کام کو دو
حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں حمد، نعت، منقبت،مناجات اور عیدیں وغیرہ درج ہیں۔حصہ
دوم میں اصل متن غزلیات، ریختی، قصائد، رباعیات، قطعہ، مراثی، مثنوی کے علاوہ دو مطلعے
اور ایک شعر درج ہیں۔ 823 صفحات کا یہ مفصل کام مرتبہ نے جس محنت و مشقت سے کیا ہے
اس کا اندازہ کلیات اور اس کے مقدمہ کے مطالعے سے ہی ہوسکتا ہے۔اس کے بعد پے در پے
قدیم متون کے تدوینی کارنامے منظر عام پر آتے رہے 1986 جنیدی کی مثنوی ماہ پیکر کو
حزم و احتیاط سے مرتب کیا اور 70 صفحات کے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ان کے
علاوہ کلام قلی قطب،مثنوی جنت سنگار،مثنوی گلدستہ وغیرہ جیسے نمونے پیش کیے۔
تدوین متن کے جس تناور درخت کو دکن نے ثمردار بنایا اس کی
جڑوں کو انیسویں صدی کی علی گڑھ تحریک نے سینچا۔بانی تحریک نے تدوین کا اوّلین نشان
’آئین اکبری‘ کی صورت میں پیش کیا۔بعد میں اسی تحریک کے نامور محقق مولانا شبلی نعمانی
نے لطف کے تذکرہ ’گلشن ہند‘ کی تدوین سے اس روایت کو آگے بڑھایا،یوں علی گڑھ نے ادب
کے دیگر شعبہ جات کے ساتھ تدوین کے شعبے میں کارہاے نمایاں پیش کیے۔علی گڑھ نے مولوی
عبدالحق، نور الحسن نقوی، رشید حسن خان اورحنیف نقوی جیسے مدونین کے ساتھ خواتین مدونین
کی بھی پرورش کی جن میں خان شمیم فاطمہ کا نام اہم ہے۔انھوں نے دیوان احسن الدخان کی
ترتیب و تدوین کا کام1974 میں انجام دیا۔ مرتبہ نے دیوان پر عالمانہ مقدمہ تحریر کر
کے احسن الدخان کی حیات پر روشنی ڈالی۔ متن کے مقابلے و موازنے کے بعد اختلافات کو
حواشی میں درج کیا ہے اورآخر میں ایک فرہنگ بھی درج کی ہے۔1977 میں کامنی بیگم نے ممتاز محقق و مدون نور الحسن
نقوی کے زیر نگرانی’دیوان میر‘ جلد دوم ؍سوم
کی ترتیب و تدوین مع مقدمہ،حواشی اور فرہنگ کے ساتھ کی ہے۔ 1981 میں صابرہ بیگم نے
اطہر پرویز کے زیر نگرانی حافظ دہلوی کے دیوان کو تدوین و ترتیب سے آراستہ کیا۔مرتبہ
نے دیوان پر مقدمہ تحریر کیا، متن کے متعلق حواشی اور فرہنگ بھی درج کیے۔ذکیہ جیلانی
نے شعبہ اردو علی گڑھ سے نواب یوسف علی خان ناظم کے دیوان کی تنقید و تدوین مع مقدمہ
کی ہے۔مرتبہ نے دیوان کی ترتیب میں حواشی اشاریہ اور فرہنگ کا اہتمام کیا ہے۔شعبہ اردو
علی گڑھ کے تدوین شدہ ان تمام متون میں مدونین نے تدوین کے جدید اصولوں کو پیش نظر
رکھ کر متون کی تصحیح و ترتیب کا کام انجام دیا ہے۔
وحیدالنساء بیگم نے میسور یونیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ
سے ایم اے کے بعدتحقیق وتدوین کی طرف توجہ کی۔
تدوین متن میںان کا اہم اضافہ محب کی مرتب کردہ بیاض’دیدہ نم‘ کی ترتیب ہے یہ
بیاض بارہویں صدی ہجری کے تقریباً 34 شعرا کے مراثی کا مجموعہ ہے مرتب نے دو اہم شعرا
شاہ وردی بیگ محب اور میر محمد ہاشم سالک کے مرثیوں کی تصحیح و ترتیب کر کے حیدرآباد
سے 1976 میں شائع کیا۔متن سے قبل مرتبہ نے شاہ وردی محب کے متعلق 23 صفحات پر معلومات
بہم پہنچائی ہے۔ ان کے بعد دوسرے شاعر میر محمد ہاشم سالک کے متعلق مدونہ نے 18 صفحات
کا معلومات سے پر مضمون درج کیا، اور آخر میں فرہنگ مراثی محب و سالک چھ صفحات میں
درج کی ہے۔ آرکاٹ کے ان دونوں صاحب دیوان شعرا کے متعلق حقائق مرتبہ کے تحقیقی ذوق
کی دلیل ہے۔ مرتبہ خود لکھتی ہے کہ یہ ان کی پہلی تحقیقی و تدوینی کا وش ہے۔
’’دیدۂ
نم میری تحقیقی کاوشوں کا نقش اول ہے۔ مرثیہ اور بالخصوص دکنی مرثیہ میرا محبوب مضمون
رہا ہے۔ پیش نظر بیاض کے دکنی مرثیوں کو محفوظ کرنے کا شوق ایک طویل مدت سے تھا۔’دیدۂ
نم‘اسی سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔‘‘9
مرتبہ بیاض اور اس میں دونوں شعرا کے متعلق بیان کردہ حقائق
کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بہتر سعی ہے۔
تحقیق تدوین میں حمیرا جلیلی ایک اہم نام ملتاہے۔ انھوں
نے بابائے اردو مولوی عبد الحق کے مرتبہ قدیم نثری نمونہ ’سب رس‘ کو از سر نو مرتب
کیا۔مرتبہ کو متن کی ترتیب و تدوین میں مولوی عبد الحق کے مرتبہ نسخے کے علاوہ تیرہ
نسخے دستیاب ہوئے جن میں سے سات نسخوں کی مدد سے متن کی ترتیب کی۔ مرتبہ نے اس پر ایک
عالمانہ مقدمہ تحریر کیا اور 1983 میں شائع کیا ہے۔متن کی بنیاد کتب خانہ سالار جنگ
کے نسخے کو بنایا یہ نسخہ مصنف کے سب سے قریبی دور کا تھا۔تدوین کی ذیل میں ان کا دوسرا
کارنامہ امین الدین علی اعلیٰ کے نثری رسالہ ’کلمۃ الاسرار‘ کی تدوین 1997 میں کی ہے۔اس
رسالے کو مرتبہ نے چار نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے39 صفحات کا مقدمہ درج کیا ہے۔طویل
و مختصر اختلافات کو حواشی میں درج کر کے ایک مختصر فرہنگ اور اصطلاحات تصوف بھی دی
ہے۔ تیسرا کارنامہ وجہی کی مثنوی ’قطب مشتری‘ 2001کی ترتیب و تدوین ہے۔
اسی کی دہائی تک آتے ہوئے ادب کے تمام شعبوں میں انقلاب
آیا۔ مغرب نے جہاں تنقید پر اپنا اثر ڈالا وہیں تدوین متن کے اصولوں کی تلاش بھی مغرب
سے کی جانے لگی۔ڈاکٹر صبیحہ نسرین شاعر،افسانہ نگاراور دکنی ادب کی محقق و مدون ہے،دکنی
مثنویوں پر ایم فل اور دکنی شاعر شاہ میراں جی شمس العشاق کے فن پر پی ایچ ڈی کا مقالہ
تحریر کیا،اسی تحقیق کے دوران انھیں نیشنل میوزیم کراچی پاکستان سے ایک بیاض میں میراں
جی شمس العشاق کی مثنوی ’وصیت النور‘ دستیاب ہوئی مرتب نے مثنوی کو اپنے مقدمے کے ساتھ
1988 میںمرتب کر کے شائع کیا یہ دکنیات میں ایک اضافہ کیا ہے۔
پروفیسر اشرف رفیع محقق، نقاد، شاعر اور لسانیات پر گہری
نظر رکھتی تھیں۔تحقیق میں ان کا اہم کارنامہ لطف النسا امتیازکا اردو کی پہلی شاعرہ
ہونے کا انکشاف ہے۔ دکنیات میں ان کا اہم اضافہ’دکنی مثنویوں کا انتخاب‘ 1990 ہے۔یہ
انتخاب مرتبہ کے ایک طویل اور عالمانہ مقدمے کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔دوسرا کارنامہ
’تلاش زبان ادب‘ 1999 میں ترتیب دے کر پیش کیا۔یہ دکنی ادب کے متعدد گوشوں کے انکشافات
پر مشتمل نو مضامین کا مجموعہ ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی خواتین نے تحقیق و تدوین کے ذریعے اردو
زبان و ادب کو وسعت دی ہے۔پدم شری پروفیسر شریف النسا انصاری نے حیدر آباد کی ادبی
فضا میں پرورش پائی اور دکنی متون کی تدوین میں ان کا کارنامہ مثنوی شاہنامہ کلیم ہمدانی
اور مثنوی تحفہ عاشقان کی تنقیدی تدوین 2010 ہیں۔مرتبہ نے مقدمے میں مثنوی کے ادبی
و لسانی محاسن کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور آخر میں فرہنگ بھی درج کی ہے۔اسی طرح صالحہ
بیگم کا مرتبہ ’دیوان باغ‘ از کاظم علی باغ، فرحت فاطمہ’دیوان یقیں‘، فائزہ منصور
’کلیات طالب علی خاں عیش‘، یوسف النسا ’ مثنوی نہ سہہ درپن‘، ڈاکٹر شمیم فاطمہ ’دیوان
احسن اللہ خان بیان‘، صابرہ بیگم ’دیوان حفیظ دہلوی‘، رفیعہ صدیقی ’دیوان سلطان‘ سیدہ
ہاشمی مجیب ’کلیات ایماں ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قدیم ادب کی تحقیق و تدوین کی اس عظیم تاریخ میں مندرجہ
بالا خواتین کے سرسری جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ سخت جانفشانی اور دیدہ
ریزی کے اس میدان ’’بقول رشید حسن خان تدوین
دراصل تحقیق کے آگے کی چیز ہے۔‘‘11 میں خواتین مدونین کی کاوشیں انفرادی اہمیت کی
حامل ہیں۔ خواتین نے ادبی حقائق کی بازیافت کرنے اور قدیم ادب کی ترتیب و تصحیح میں
جس ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے،تدوین متن کی تاریخ اس کو فراموش نہیں کر سکتی۔
حواشی
- اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے،پروفیسر معین الدین عقیل، مقتدرہ قومی زبان،پاکستان،2008،ص209
- دکنی ادب کے محققین و محسنین،(ابتدا تا حال)،ڈاکٹر مسز عسکری صفدر،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی 2012
- ایضاً
- ایضاً
- حید رآباد میں اردو کا نسائی ادب،ڈاکٹر آمنہ تحسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی 2016،ص243
- مثنوی لطف موسوم بہ نیرنگِ عشق، مرتبہ ڈاکٹرثمینہ شوکت، مجلس تحقیقات اردو،حیدر آباد،دکن 962
- شکارنامہ،حضرت سیّد حسینی بندہ نواز گیسو دراز،مرتبہ ڈاکٹر ثمینہ شوکت،مجلس تحقیقات اردو حیدر آباد 1963،ص9
- دکنی ادب کے محققین و محسنین،(ابتدا تا حال)،ڈاکٹر مسز عسکری صفدر،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی 2012
- دیدۂ نم حصہ اول، مراثی محب و سالک،مرتبہ وحید النسا، نیشنل فائن پرنٹنگ پریس،حیدر آباد،1976،ص6
Rehana
Hassan
Research
Fellow, Dept of Urdu
Aligarh
Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں