7/8/23

اردو ادب میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی: صدف فاطمہ


 سید عابد حسین ’قومی تہذیب کا مسئلہ ‘ میں زبان کی تشکیل اور اس کے مزاج  کے تعین کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مشترکہ زبان کی حیثیت کسی زبان میں اتنی ہی نہیں کہ وہ اس کے افراد کے درمیان تبادلہ خیالات اور اشتراک عمل کا ذریعہ ہے بلکہ وہ اس تہذیبی روایت کے طور پر بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ ایک طلسمی شراب ہے جس کے اندرجماعت کے مشترک احساسات جذبات، روایت دستور کی روح کھنچ کر آگئی ہے اور جس کو پی کر جماعت کے افراد ایک ہی کیف میں ڈوب جاتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی ملک میں صحیح معنوں میں قومی تہذیب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سارے ملک کی زبان ایک ہو گئی ہو یا کم سے کم  دیگر زبانوں کے ساتھ ایک مشترک زبان بھی پیدا ہو چکی ہو۔ـ‘‘

  • (اردو کا تہذیبی تناظراور معاصر تہذیبی صورت حال: شمیم حنفی، پنجاب یونیورسٹی لاہو اورینٹل کالج لاہور2010، ص91)

اردو زبان اپنی ساخت میں اس تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہے جومختلف اقوام نیز مختلف تہذیبوں کی باہم یکجائی سے وجود پذیر ہوئی، ابتدائی شواہد کی روشنی میں اردو زبان کے تشکیل پانے سے لے کر عروج کے عہد تک یعنی 13ویں صدی سے لے کر 17ویں صدی تک اردو زبان نے ہندوستان میں تشکیل پانے والی ہر بھاشا سے اپنے چشمے کو سیراب کیا اور ایسی زبان کی صورت میں ہمارے شعور کا حصہ بن گئی جس میں تہذیبی اکائیاںکثرت میں وحدت کا نقش ظاہر کرر ہی تھیں۔ 13 ویں صدی میں پائے جانے والے صوفیوں کے ملفوظات اس جانب واضح اشارہ ہیں کہ اردو زبان نے ہندوی رنگ کو اختیار کیا اور اسے معیار اور استحکام بخشا۔                                   

ہر زبان کا ادب مخصوص جغرافیائی حدود کا تابع ہوتا ہے اور یہی جغرافیائی حدود ادب میں خاص طرح کا تاثر پیدا کرتی ہیں جسے ہم آفاقیت کے مد مقابل رکھتے ہیں۔ اردو زبان  کے ادب میں سماجی و تہذیبی نقش گری کی تلاش سے قبل یہ سمجھنا لازمی امر ہے کہ اردو زبان نے اپنے تشکیلی عمل میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ مختلف زبانوں اور بولیوں کو اپنایا۔ اس نے اپنے تشکیلی دور میں ناہی کلیتاً عربی زبان پر انحصار کیا نا ہی سنسکرت کی طرح خود کو دیگر زبانوں کے دھارے سے شامل ہونے سے باز رکھا۔یہی اشتراک زبان کے ساتھ ساتھ اس میں تخلیق کیے جانے والے ادب کا بھی خاصہ بن گیا۔ اردو ہند آریائی زبان ہے جو ملی جلی ادبی روایت اور کلچر کی پروردہ ہے۔ جو اپنی نقش گری خود کرتی ہے،عوام کی بولی ٹھولی  سے مل کر صوفیا کی خانقاہوں  میں پرورش پاتی یہ زبان جب ہندوستانی زبان کا روپ دھارتی ہے تو تخلیق کردہ ادب  میں  اس ملواں صورت کی نقش گری کرتی ہے جس کی مثال دکن سے لے کر شمالی ہند تک کے شعرا کے کلام میں بھری پڑی ہے۔ دکن میں قلی قطب شاہ سے غواصی  عادل شاہ شمال میں امیر خسرو سے لے کر ولی، میر، نظیر اکبر آبادی، اکبرالٰہ آبادی اور علامہ اقبال، پریم چند،قرۃ لعین  حیدر اور انتظار حسین تک  ان گنت ادبا نے اس زبان میں داد سخن دی ہے اور وہ اس کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی پروردہ اردو زبان ہے۔ہندوستان کی سرزمین نے نوواردان کے لیے فراخدلی اور رواداری کا ثبوت پیش کیا یہی رواداری اردو زبان کی بنت میں بھی سرایت کر گئی چونکہ زبان اور تہذیب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اس لیے، باہمی یگانگت اور اتحاد کا یہ عمل تخلیق میں بھی نظر آتا ہے۔ ہندوستانی کلچر کی تلاش کرتے ہوئے ہم بیشتر ہولی،دیوالی،شب برات، عید، مہابھارت اور کربلا جیسے موضوعات کا  احاطہ کرنے والی نظموں اور غزلوں کی بات کرتے ہیں لیکن کیا تہذیب کی عکاسی محض نظموں تک محدودہے یا اردو بولنے والے  غیر مسلم شعرا  کے کلام  میں اسلامی رجحانات  کی عکاسی اور مسلم شعراو ادیب کے کلام میں شو، پاربتی،مہابھارت اور دیگر اصنام ہندی کا ذکر۔          

ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی تلاش سے قبل یہ جاننا  ضروری ہے کہ تہذیب کیا ہے۔ تہذیب و کلچر فکر و خیال کی سرگرمی اور احساس سے اثر پذیری کا معاملہ ہے۔ اس میں ماحولیاتی تربیت سے بننے والے ذہن کے علاوہ جغرافیائی حالات ماضی کا ورثہ اور اجتماعی لاشعور یت کی جڑیں پیوست ہوتی ہیں جو کسی بھی ملک کے باشندوں کے طور طریقے اور رسم و رواج وغیرہ   یاکسی قوم یا گروہ  انسانی کے اعلی مظاہرجواس کے مذہب، نظام اخلاق، علم و ادب اور فنون میں نظر آتے ہیں ان کے ذریعے آشکار ہوتی ہے، جدلیاتی قوت کی حامل یہ قدریں ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش میں باہم متحارب اور بر سر پیکار رہتی ہیں۔ کلچر جب کمزور ہو تو دوسرا ا س پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے اس کی بہترین مثال آج ہمارے سامنے ہے۔ہندوستانی معاشرے میں تہذیبی کثرت جس میں وحدت کا تاثر ہے وہ ایک مدت مدید کے شکست و ریخت کے عمل کے بعد نتھری شکل میں ہمارے سامنے آئی ہے۔تہذیب و ثقافت کا مطالعہ بنیادی طور پر انسانی ہستی کی وحدت اور اس کی معاشرتی زندگی کی وحدت کا مطالعہ ہے۔جس ماحول اور ذہنی فضا میں اس تہذیب کی تشکیل ہوئی اس کی بھی بیک وقت کئی سطحیں اور کئی زوایے ہیں،یہ تہذیب اپنے آپ میں ایک دنیا ہے مختلف رنگوں، ذائقوں، موسموں، اشیا، مناظر اور موجودات کا احاطہ کرنے والی ہندوستانی تہذیب کی کوئی ایک متعین اور مخصوص شکل نہیں شمیم حنفی صاحب اپنے مقالے میں تہذیب کی معرفت جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ

’’علوم اور ادبیات اور فنون لطیفہ اور اسالیب زندگی کے ملے جلے عناصر سے کسی عہد کی مجموعی تصویر بنتی ہے۔ اسی مزاج کی روشنی میں ہم تہذیب کے بارے میں اپنے تناظر کی تشکیل کرتے ہیں ۔‘‘ (ایضاً، ص 9)

ہر ادبی و تہذیبی روایت کی روح ایک خاص علاقے کی صدیوں کی تاریخ کا شاخسانہ ہوتی ہے۔جس کا تعلق اپنے علاقے کے جغرافیہ، موسم، ماحول، رسوم و روایات، مظاہر اقدار اور عقائدسب سے ہوتا ہے، ہندوستانی تہذیب کی ہمہ گیریت نے اردو زبان میں بھی یہی لوچ اور کشادہ قلبی پیدا کی جس کے سبب اس زبان میں ایک ساتھ کئی روایتوں کے رنگ شامل ہو گئے جس میں بہمنی عہد میں سنسکرت کے اصول و قواعد کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کا پیچ روایت میں توانائی کا سبب بنتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب کی بنیاد میں دو قومیں ایک دوسرے پر بہت اثر انداز ہوئیں و ہ مغل اور فارس سے آنے والے لوگ تھے یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی ثقافت کو دو تہذیبوں کا سنگم قرار دیا جاتا ہے۔

تہذیبی نقوش شعری کاوشوں میں نظر آتے ہیں، زبان و بیان کے طور طریقے میں نمایاں ہیں نیز حکایات اور افسانوی اسلوب میں جھلکتے  اور طرز معاشرت کے بیان میں مترشح  ہیں۔ ہولی دیوالی بسنت مشترکہ تیوہار کی صورت میں ابھرے۔ لباس کی ملی جلی شکل کا اظہار معاشرتی سطح  پر تو نظر آتا ہی ہے تخلیقی سطح پر بھی اس کے متعلق کئی نظمیں غزلیں اور میر انیس کے مرثیے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ شاعری میں ایسی اَن گنت مثالیں ہیں جس کے ذریعے اس تہذیب کا اظہار ہوتا ہے جسے مشترکہ تہذیب کے ضمن میں رکھا گیا ہے ایسی مثالیں اردو شاعری کے ذخیرے میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔

تلمیحات کے استعمال سے اردو غزل کا دامن مالا مال ہے گرچہ اولیت فارسی تلمیحات کو ہی حاصل رہی لیکن ولی اور دکنی اردو شاعری نے اس ضمن میں جو خاطر خواہ کوششیں کیں اس سے اردو زبان میں ہندوستانی ادبی اور عوامی تلمیحات کو شامل کیا گیا، استعارے، تشبیہیں، محاوروں کو برتا گیا، ایسی اصناف پر طبع آزمائی کی گئی جنھیں خالصتاً ہندوستانی ہونے کا شرف حاصل ہے مثلا دوہے، بارہ ماسہ، رتو سنہار، چوپائی، جھولنا شبد اشلوک، ساکھی، گیت، مکرنی و کہہ مکرنی اس کے علاوہ موضوعاتی سطح پر چکی نامہ،سہاگن نامہ،آدمی نامہ،روٹی نامہ وغیرہ سبک ہندی کے نام سے شعری پیرایہ بیان وجود میں آیا غرض کہ زندگی کرنے سے لے کر تخلیقی اظہار کے ہر زاویے پر ہندوستانی تہذیب کا رنگ ہے۔

تہذیب و ثقافت کا اختلاط مزاج، رویے اور فکر کو ایک سمت فراہم کرنے کا کام کرتا ہے جس کا پرتو  ادیبوں کی تخلیقات میں بھی جھلکتا ہے میر کے کلام میں تنگ نظری، تعصب اور قوم پرستی کا شائبہ تک نہیں اس کی وجوہ میں وہ رویے ہیں جو مشترکہ تہذیب کے عناصر تھے۔جہاں مذہبی، مسلکی اور نظریاتی علاحدگی پر زور نہیں وسیع المشربی، قلندری،رواداری کی صفت کو برتا جاتا ہے۔ بڑے بڑے غازی اور سالار ہندوستان کی سرزمین میں قدم رکھتے ہیں رہبانیت اور تصوف کے لبادے کو زیب تن کرتے ہیں تو اس کا سبب یہاں کا روحانی اور فلسفیانہ مزاج بنتا ہے جب میر کہتے ہیں کہ       ؎

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام  کیا

یہ وسیع المشربی اور اخلاقی  وسعت ہندستانی ماحول کو اپنے اندر تحلیل کرنے کے سبب سے ہے جس میں فلسفیانہ مزاج  کے ساتھ رہبانیت کا دخل رہا ہے۔ 

نظیر اکبر آبادی کی نظم ’بنجارا نامہ ‘ہندستانی تہذیب کا استعارہ ہے جس میں زندگی کی ناپائیداری اور فلسفے کی آمیزش نیز لفظیات کی چاشنی سحر انگیزی پیدا کر رہی ہے۔یہ متصوفانہ مزاج ہندی مزاج کی عطا ہے۔ جہاں عمل کی اہمیت ہے لیکن خواہش دنیا کبھی غالب نہ رہی یہاں زبان کی سطح پر ایک قوم کے روزمرہ کا اظہار ہے۔ چونکہ تصوف اور بھکتی تحریک کا ہمارے ذہنوں پراثر انداز ہونا مزاج کی اکائی کا غماز تھا۔تقریباً اردو کے ہر شاعر نے تصوف کو برتا اس کے سبب کے طور پر دیکھا جائے تو صرف فارسی مزاج ہی ایک وجہ نہیں بلکہ ہندوستان کی سر زمین کا نطفہ بھی شامل ہے جس کے تحت یہ رویے پروان چڑھ سکے تصوف میں بھگتی اور دیگر رہبانی فرقوں کے رنگ بھی چڑھے ہوئے ہیں۔ ولی اورنگ آبادی، فائز دہلوی، سراج اورنگ آبادی، میر تقی میر،مصحفی، میر انیس، میر حسن غرض یہ کہ اٹھارہویں صدی کے شعرا کے کلام میں ہندوستانی تہذیب کے ہر رنگ کا اظہار ہو رہا ہے، میر انیس کے مرثیے کا مطالعہ کرلیجیے تواندازہ ہوتا ہے کہ سر زمین عرب میں وقوع پذیر سانحے کو بیان کرتے ہوئے بھی وہ اس تہذیب کی نقشہ گری کرتے ہیں جو عجمی ہے، شعر میں بیان ہونے والا پیکر ہماری مانوس تہذیب کا ایک حصہ ہے، جنگ پر جاتے ہوئے جوانان کا وداع لینا اسی ہندوستانی تہذیب کی غمازی کرتا ہے دعائیں دینے کا انداز وہی ہے،صحیح سالم وخیر و عافیت سے لوٹ آنے کے لیے دعا میں اٹھنے والے ہاتھ کا انداز مناجات ویسا ہی ہے جو ہماری  معاشرت کا جانا پہچانا رویہ ہے۔جسے ایک تہذیبی اکائی کی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے       ؎

رشتہ داران علی سب ہیں گرفتار محن

شرم کے مارے موئی جاتی ہے اک شب کی دلہن

دم بدم ساس بھی سر پیٹتی ہے ساتھ اس کے

ابھی کنگنا نا کھلا تھا کہ بندھے ہاتھ اس کے

زینب کی یہ دعا ہیکہ اے رب ذو الجلال

بچ جائے اس فساد سے خیر النساء کا لال

بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے

صندل سے مانگ بچوں  سے گودی بھری رہے

یہ دعائیں اور رسمیں ہندوستانی تہذیب کی غماز ہیں جن میں ان رسموں کا حوالہ ہے جو خالصتاً ہمارے یہاں کی پروردہ ہیں۔ لگن دھرنا،کلاوا، آرسی مصحف جہیز اوررخصتی وغیرہ جیسی برتی گئی رسموں کے اظہار کے علاوہ  انیس کے مرثیے میں اودھی دوہوں کا رنگ نظر آتا ہے یہ مثال محض یہیں تک محدود نہیں بلکہ مراثی انیس کے علاوہ اردو مثنویوں میں ابھرنے والے قصے داستانوی رنگ کا اظہار قدیم دکنی اور شمال ہند میں تخلیق کی جانے والی مثنویاں غرض یہ کہ ایک طویل شعری روایت ہے جس میں ہندوستانی تہذیب میں رچ کر نکلنے والے قصہ کہانیوں کے علاوہ لفظیات استعارے تلمیحیں –جن میں رام سیتا، ارجن،  ہنومان، شو، پاربتی، کام دیوا اور دیگر کرداروں کے علاوہ محاوروں کا ایک جہان معانی میں ابلا پری ہونا، الٹی گنگا بہنا، آنچل میں باندھنا، بھرم رکھنا  جگ بیتنا، پلیتھن نکلنا چولی دامن کا ساتھ، شگون دیکھنا جیسے لا تعداد محاورے ہیں جن پر دو تہذیبوں کی ایسی پیوندکاری کی گئی ہے کہ وہ ہماری روایت کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں جنھیں شعری کاوشوں میں باندھا گیا تو احساس ہوتا ہے کہ روایات اور عقیدے معاشرت میں، جذبے اور رویے کی صورت میں ڈھلنے کے لیے طویل مسافت طے کرنے کے بعد تخلیقی سطح پر اظہار پاتے ہیں مثلاً ولی کے یہ اشعار       ؎

یودھا جگت کے کیوں نا ڈریں تجھ سوں اے صنم

ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج

کوچہ یار عین کاشی ہے،جوگئی دل وہاں کا باسی ہے

اے صنم تجھ جبیں اپر یہ خال ہندوئے ہر دوار باسی ہے

ان میں کچھ محاوروں کی مثال دیکھیے مثلاً شگون دیکھنا جیسی خالص ہندی تہذیب اب ہندستانیت کا رنگ اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے  جس میں ہمیں پرایاپن یا اجنبیت کا احساس نہیں کہ یہ تہذیب کی اس صورت کو پیش کرتے ہیں جس میں وقت کا نامیاتی تصور موجود ہے      ؎

جس جگہ بیٹھے ہیں با دیدہ غم اٹھے ہیں

آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھے ہیں

جدائی کے زمانے کی سجن کیا زیادتی کہیئے

کہ اس ظالم کی ہم پر جو گھڑی بیتی سو جگ بیتا

فراق کا اسی قبیل کا شعر بھی ہندوستانی تہذیب کا غماز ہے کہ   ؎

ترک محبت کرنے والو کون بڑا جگ جیت لیا

عشق سے پہلے کے دن سوچو کون بڑا سکھ ہوتا ہے

مشترک تہذیب کی بنیاد مشترک زبان ہوتی ہے۔ یہ اردو تہذیب در اصل اسی ہندوستانی تہذیب کی پیداوار ہے اسے ایک ہی سکے کے دو رخ کے طورپر سمجھا جا سکتا ہے کہ اردو جسے ایک وقت تک ہندستانی کے نام سے یاد کیا جاتا رہا یہ زبان ایک نئی تہذیب کے وجود میں آنے کا سبب بھی بنی اور اس کی ترویج میں ان تمام اوصاف اور اخلاقی خوبیوں سے خود کو متصف کیا جو اس وقت کے مخلوط سماج میں نمو پا رہے تھے۔ قدیم ہندوستانی تہذیب کے بہت سارے اوصاف اور عناصر کو اپنی حسیت کا حصہ بنالینے اور بر صغیر کے اسلوب فکر میں اور تہذیبی اقدار میں اردو زبان  نے جو وسعت پیدا کی ہے اس کے بیان میں ہم نے بخیلی سے کام لیا ہے۔ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو اگر غیر منقسم ہندوستان کی تہذیب کہا جائے توکچھ بیجا نہ ہوگا کہ اب اس تہذیب کو برتنے اور سنجونے والے رخصت ہو گئے معاشرے اور فرد کی ٹوٹ پھوٹ  نے تہذیب کی جگہ لے لی ہے۔


Sadaf Fatima

JNU

New Delhi- 110087

Mob. 7752990487


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...