ناول ایک ایسانثری قصہ ہے، جس میں
زندگی کی تمام تر سچائیاں تخیل اور فن کی آمیزش کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ناول اور
افسانے میں بنیادی فرق یہی ہے کہ افسانے میں زندگی کے کسی ایک رخ کو پیش کیا جاتا ہے،
جبکہ ناول میں پوری زندگی کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر نورالحسن نقوی
نے بلیغ رائے کااظہار کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ناول ایک ایسا نثری قصہ ہے، جس میں ہماری حقیقی زندگی کا عکس نظر
آتا ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہماری امنگیں اور آرزوئیں جھلکتی ہیں، جس میں
یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سامنے کیا مشکلیں آتی ہیں اور ہم ان پر کس طرح قابو پاتے
ہیں۔ گویا ناول زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے۔‘‘
( تاریخ ادب اردو، ص 301، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 2007)
اردو ناول کا شمار مغرب سے درآمد
ہونے والی اصناف میں کیا جاتا ہے۔ ناول انگریزی اَدب کے راستے اردو زبان میں داخل ہوا
اور جب اردو کے قلم کاروں نے انگریزی ناول دیکھے، توان کو اِس میں اپنے دل کی دنیا
نظر آئی،چنانچہ انھوں نے داستان کو خیرباد کہا اور اس کی جگہ ناول کو اپنا لیا۔ ناول
اَطالوی زبان کے لفظ ’ناویلا‘سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نئے کے ہیں اور اردو والوں کے
لیے یہ ایک نئی چیز تھی جسے انھوں نے اپنے فکروخیال کا مرکز بنایا اور مغربی ادب سے
استفادہ کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر گراںقدر ناول لکھے۔
ابتدائی زمانے سے ہی قصے، کہانیوں
میں انسان کی دلچسپی رہی ہے۔ جب فراغت تھی اور وہ معاش کی فکر سے آزاد تھا تو اسے
ماورائی کرداروں کی حیرت انگیز طویل کہانیاں پسند تھیں۔ان کو ایسے قصے پسند تھے جن
میں جنوں، پریوں، دیویوں، بادشاہوں،شہزادوں اور شہزادیوں کا ذکر ہو، تاکہ اس کے تخیل
کو خوب سیرکرنے کا موقع ملے، ایسے قصے داستان کہلاتے ہیں لیکن جب زمانے کی ترجیحات
بدلیں اور لوگوں کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوا،تو خیالی باتوں سے ان کی دلچسپی
ختم ہونے لگی اور اس کی جگہ اصلی اور حقیقی دنیا کی باتیں کرنے لگا اور اِس طرح داستان
کی کوکھ سے ناول نے جنم لیا۔
ناول اور افسانے کے مقابلے میں
داستان ایک طویل نثری قصہ ہے جس میں طوالت،تحیر،تجسس، مافوق الفطری عناصر اور ماورائی
کرداروں کے محیرالعقول کارنامے اس کی خصوصیات میں شامل ہیں لیکن ناول کی دنیا اس کے
بالکل برعکس ہے۔ داستان کی دۡنیا خواب و خیال کی دنیا ہے جبکہ زندگی کے مسائل اور متعلقات
سے ناول کا گہرارشتہ ہے۔ ناول میں زندگی کا کینوس پھیلا ہوا ہوتا ہے، اس میں زندگی
کا ایک مربوط اور مکمل نقشہ پیش کیا جاتا ہے۔ داستان میں جہاں واقعات پر توجہ دی جاتی
ہے،تو وہیںناول میں کردار وں کی بنت پر زوردیاجاتا ہے۔یعنی ناول کے واقعات افراد کے
تابع ہوتے ہیں اور افراد قوانین قدرت کے پابند۔ داستان میں جہاں خیر و شر کا تصادم
ہوتا ہے،تو وہیں ناول میں افراد کی خارجی اور داخلی کشمکش کی پیش کش ہوتی ہے۔ ناول
میں اجتماعی زندگی کی ترجمانی کی جاتی ہے۔اس میں مرکزی قصہ تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن
اس کے ساتھ بہت سے ذیلی قصے بھی ہوتے ہیں تاکہ زندگی کے متعلق ناول نگار کا مطمح نظر
واضح ہو سکے۔ فنی اعتبار سے ’قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظر کشی یا ماحول
اور فضا، نقطہ نظر یا نقطہ عروج‘ ناول کے اجزائے ترکیبی قراردیے جاتے ہیں۔لیکن بعد
میں کچھ ایسے ناول بھی لکھے گئے جن میں مروجہ اجزائے ترکیبی سے یکسر انحراف کیاگیا۔بالخصوص
جدیدیت کے زیراثراردو میں جو ناول لکھے گئے، ان میں قصے،کہانیوںسے بغاوت کی گئی اور
کہا گیا کہ ناول میں قصے کا ہونا ضروری نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ ناول میں اگر
قصہ پن نہ ہو تواس سے قاری کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔کوئی فن پارہ لکھتے وقت ناول نگار
کے ذہن میں سب سے پہلے کوئی قصہ یا واقعہ آتا ہے جسے وہ تخیل کی آمیزش کے ساتھ صفحہ
قرطاس پر اتار دیتاہے۔فن کار کی یہ کوشش رہتی ہے کہ اس میں تحیر بھی ہو اور تجسس بھی۔چنانچہ
قارئین کی ساری توجہ اسی پر رہتی ہے کہ کیا ہوا اور آگے کیا ہونے والا ہے۔
اردو ناول کا آغازڈپٹی نذیر احمد
کے ناول ’مراۃالعروس‘ ( 1869) سے ہوتا ہے۔ نذیر احمد کے بعد ناول نگاری کی دنیا میں
رتن ناتھ شرشار نے قدم رکھا۔ ’فسانۂ آزاد‘ان کا شاہ کار ناول سمجھاجاتا ہے،جس میں
انھوں نے لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب وثقافت کو ناول کی اساس بنایا ہے۔ ڈپٹی نذیر اور
رتن ناتھ سرشار کے بعد اۡردو ناول کے ابتدائی دور میں جو نام واضح طورپر ابھر کرسامنے
آتا ہے، وہ عبدالحلیم شرر کا ہے۔ شرر اس لحاظ سے اردو کے پہلے ناول نگار ہیں کہ انھوں
نے سب سے پہلے ناول میں عشقیہ قصوں کی روایت قائم کی۔ فنی اعتبار سے شرر کے ناول متقدمین
میں بہتر ہیں۔ شرر کے بعد ہماری نظر ایک ایسے قلم کار پرٹھہرتی ہے جس نے اردو ناول
کو فنی اعتبار سے مضبوطی عطاکی۔ ہماری مراد ہے مرزا ہادی رسوا۔ مرزارسوا نے کئی ناول
لکھے مگر ان کی شہرت ’امراؤ جان ادا‘ کی بنیاد پر قائم ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ناول کا فن کسی حد تک پختگی
کی طرف مائل ہونے لگا۔یہی وہ دور ہے جب منشی پریم چند نے ناول کی دنیا میں قدم رکھا۔
پریم چند اردو کے پہلے ناول نگار ہیں،جنھوں نے زمینی مسائل و موضوعات کو ترجیحی طورپر
اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ان کے ناولوں میں ہمیں پلاٹ کی ترتیب میں پختگی دیکھنے کو
ملتی ہے اور زبان و بیان بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ صاف اور سلیس معلوم ہوتے ہیں۔
پریم چند کا پہلا ناول ’اسرارِ
معابد‘(8؍اکتوبر 1903) بنارس
کے ایک ہفتہ وار اخبار’آوازِ خلق‘ میں قسط وار چھپنا شروع ہوا۔ دوسرا ناول ہم خرماوہم
ثواب(1907 )، تیسرا ناول کشنا (1908)، چوتھا ناول جلوۂ ایثار( 1912)، پانچواں ناول
بازارِ حسن ( 1917)، چھٹا ناول گوشۂ عافیت (1920)، ساتواں ناول نِرمَلا(1921)، آٹھواں ناول چوگان ہستی (1924
)، نواں ناول پردۂ مجاز (1925)، دسواں ناول
بیوہ (1927)، گیارہ واں ناول غبن (1932)، بارہواں ناول میدانِ عمل (1932) تیرہواں ناول
گئودان( 1936)شائع ہوا۔ پریم چند کا پہلا ناول ’اسرارِ معابد‘ اور آخری ناول’منگل
سوتر‘ دونوں نامکمل ہیں۔’اسرارِ معابد‘ 1903 سے ہفتہ وار اخبار ’آوازِ خلق‘ میں بالاقساط
1905 تک شائع ہوتا رہا لیکن مکمل ہونے سے قبل ہی ان کی اشاعت روک دی گئی۔ ’منگل سوتر‘
کو پریم چند نے بسترِ علالت پر لکھنا شروع کیا تھا،لیکن ان کے انتقال کے باعث مکمل
نہ ہو سکا۔ ’اسرارِ معابد‘ کا موضوع عبادت گاہوں میں عوام کے اعتقادات سے فائدہ اٹھا
کر ان کا استحصال کرنا ہے۔ ’ہم خرماوہم ثواب‘ میںبیواؤں کا مسئلہ اور ہندوستانی سماج
میں معاشرتی برائیوں کو موضوع بنایا گیاہے،جبکہ ’جلوئہ ایثار‘ میں قومی مسائل اور ان
کے حل کے لیے قومی خدمت کی اہمیت وافادیت پر زور دیا گیا ہے۔ دراصل یہ ایک سوانحی ناول
ہے، جس میں پریم چند نے سوامی وویکانند کی زندگی اور شخصیت کو ناول کے قالب میں ڈھالنے
کی کوشش کی ہے۔ ’بازارِ حسن‘ پریم چند کا پہلا ضخیم ناول ہے،جس کا موضوع سماج پرحسن
فروشی کے اثرات کے علاوہ شہر میں رہنے والے متوسط طبقے کے مسائل ہیں۔’گوشۂ عافیت‘
میں دیہاتی زندگی کے بنیادی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ ’نِرمَلا‘ میں جہیز کی لعنت اور
بے جوڑ شادی سے معاشرے میںپیدا ہونے والی خرابیوں کو انتہائی خوبصورت انداز میں پریم
چند نے پیش کیا ہے۔ ’چوگان ہستی‘ میں اشتراکی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے، جبکہ ’پردئہ
مجاز‘کا موضوع ’پنرجنم‘ہے۔ ’بیوہ‘ میں بیوہ عورت اور اس کے مسائل کا حل بتایا گیا ہے
جبکہ ’غبن‘ میں عورتوں میں زیورات کے شوق کودِکھایا گیا ہے۔ ’میدانِ عمل‘ کا موضوع
ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی ہے جسے مصنف نے خوبصورتی کے ساتھ ناول کے قالب میں ڈھالا
ہے۔ پریم چندکا آخری ناول ’گئودان‘ہے جس کا موضوع ہندوستانی کسانوں کی بدحالی اور
ان کا استحصال ہے جسے فنی دسترس کے ساتھ پریم چند نے پیش کیا ہے۔ ’گئودان‘ پریم چند
کا شاہ کار ناول سمجھاجاتاہے۔ جسے انھوںنے 1932 میں لکھنا شروع کیا، 1935 میں مکمل
ہوا اور 1936 میں منظرعام پر آیا۔’گئودان‘ پہلے ہندی میں لکھا گیاتھا، بعد میں پریم
چند نے ہی اسے اردو کا پیرہن عطاکیا۔ ’گئودان‘ 596 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم ناول ہے۔اس
کے پلاٹ کو پریم چند نے 36 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
’گئودان‘کاشمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے،اس میں سماجی ناانصافی،ظلم
وجبر اور استحصال کو فنی پیرائے میں پیش کیاگیا ہے۔اس ناول سے ہندوستان کی مٹی کی خوشبوآتی
ہے۔ہوری اور دھنیا اس کے اہم کردار ہیں جس کے ارد گرد ناول کی پوری کہانی گردش کرتی
ہے۔’گئودان ‘کا خلاصہ یہ ہے کہ ’ہوری‘کاپانچ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا خاندان ہے۔اس
کی بیوی ’دھنیا‘ ہے جو ظلم وزیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ رکھتی ہے۔ ایک بیٹا
’گوبر‘ اور دو بیٹیاں ’سونا‘ اور ’روپا‘ ہیں۔ ہوری کے پاس چند بیگھا زمین ہے جو اس
کے خاندان کا گزر بسر کا واحد ذریعہ ہے۔ رات دن کی محنت اور سخت جدوجہد کے باوجود دو
وقت کی روٹی مہیا کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ ہوری سیدھا سادامحنت کش انسان ہے،جس کی دیرینہ
خواہش یہی ہے کہ وہ ’ اپنے دروازے پر ایک گائے کو بندھا دیکھے۔‘جہاںپریم چند نے ہوری
کو ایک عا م کسان دکھایاہے، وہیں انھوں نے کمال کی فنکاری کا ثبوت دیتے ہوئے ہوری کی
صورت میں انسان کے نفسیاتی تضادات کو بھی پیش کیا ہے۔ہوری اپنی خواہش، غرض اور ضرورت
سے مجبور ہو کر مکر و فریب اور خوشامد کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ایک ساتھی ’بھولا اہیر‘
کو دوسری شادی کا لالچ دے کر اس سے ایک گائے حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن اس کی یہ خوشی عارضی
ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہوری کا بھائی ’ہیرا‘ اس کی خوشی سے حسد کرنے لگتا ہے اور موقع
پا کر وہ گائے کو زہر دے دیتا ہے اور ہوری کی خوشی کافور ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف گائے
لانے کے سلسلے میں ہوری کے بیٹے ’گوبر‘ کو بھولا اہیر کی بیٹی ’چھنیا‘ سے محبت ہو جاتی
ہے۔ ایک دن موقع پا کر گوبر’ چھنیا‘ کو اپنے گھر میں چھوڑ کر ماں باپ کے ڈر سے شہر
فرار ہو جاتا ہے۔ چھنیا کو گھر میں رکھنے کی وجہ سے ہوری کی دشواریوں میں مزید اضافہ
ہو جاتا ہے۔ برادری کے لوگ اور مذہبی ٹھکیدار اِسے جرم قرار دیتے ہیں اور جرمانے کے
طور پر اس کی فصل کی ساری پیداوار پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ ہوری کی مصیبت اپنی انتہا کو
اس وقت پہنچ جاتی ہے جب بھولا اہیر اپنی بے عزتی کا انتقام لینے کے لیے ہوری کا بیل
کھول لے جاتا ہے۔ ایسے میں ہوری کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کاانتظام
مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد گوبر شہر سے کچھ روپے کما کر لوٹتا ہے،جس سے ہوری
کو تھوڑی سی راحت ملتی ہے۔ گوبر شہر جا کر اب کسان نہیں رہا بلکہ ایک شہری مزدور بن
گیا تھا۔ کسانوں کی اور خاص طور سے اپنے باپ کی حالت دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ زمین دار، ٹھیکیدار اور سرکاری عہدے دار تک غریب کسانوں کا استحصال
کر رہے ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ مل کر اس سسٹم کو بدلنے کے لیے کوشش کریں،لیکن ہوری
اور سارے کسان صبر وقناعت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں، اور دل کی پکار پر لبیک
نہیں کہتے۔پریم چند کے الفاظ میں ان کی معصومیت ’بے حسی‘ تک پہنچ گئی تھی۔جس سے دل
برداشتہ ہوکر گوبر اپنے بیوی بچے کے ساتھ شہر لوٹ جاتا ہے۔
ہوری کی بیٹیاں اب بڑی ہو چکی ہیں۔
بڑی بیٹی سونا کی شادی کی فکر بھی دامن گیر ہوئی۔ ہوری نے کسی طرح دوسروں سے ادھار
لے کر سونا کی شادی کا بندوبست تو کرلیا لیکن اس طرح سے وہ حد درجہ مقروض ہوگیا۔ ہوری
کے لیے اب گزر بسر کرنا مشکل ہوگیاتھا۔ بیل
نہ ہونے کی وجہ سے کاشت کاری کرنا ناممکن سا ہو گیا تھا۔ جو زمینیں بچ گئیں تھیں، ان
پر ساہوکار گدھ کی نظر لگائے بیٹھے تھے۔ ایسے میں اپنے پرکھوں کی نشانی کو بچائے رکھنے
کے لیے اپنی چھوٹی بیٹی روپا کو صرف دو سو روپے کے عوض بوڑھے رام سیوک کے ہاتھوںبیچ
دیتا ہے۔اتنی دشواریوں کے باوجودہوری کے مصائب وآلام کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں
لے رہاتھا۔وہ اپنے قرض کی ادائیگی اور دو وقت کے روٹی کے حصول کے لیے جی جان سے محنت
کرتا ہے۔ایک روزچلچلاتی اور تپتی ہوئی دھوپ میں کھیت پر کام کرنے کی وجہ سے لوٗ کا
آتشیں جھونکا اس کا کام تمام کر دیتا ہے اور اس طرح کبھی نہ ختم ہونے والی مصیبتوں
اور پریشانیوں سے ہوری ہمیشہ کے لیے نجات پالیتا ہے۔ اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے
لیے پنڈت گائے کا دان یعنی ’گئودان‘ کرنے کے لیے کہتا ہے۔ جو شخص زندگی بھر اپنے گھر
پر گائے بندھی ہوئی دیکھنے کا متمنی تھا،وہ اپنی اس ناکام حسرت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے
موت کی آغوش میں چلاجاتا ہے۔مذہبی ٹھیکیدار اور پنڈت ہوری کی بیوی پر دباؤ بناتے
ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی آتما کی شانتی کے لیے گائے دان کرنی ہوگی یعنی وہ ’گئودان‘
کرے۔ پریم چند اپنے اس ناول کااختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں
’دَھنیا مشین کی طرح اٹھی آج جو ستلی بیچی تھی، اس کی بیس آنے پیسے
لائی اور ہوری کے ٹھنڈے ہاتھ میں رکھ کر سامنے کھڑے ہوئے داتا دین سے بولی مہراج! گھر
میں نہ گائے ہے نہ بچھیا، نہ پیسہ، یہی پیسے ہیں، یہی اِن کا گئودان ہے اور غش کھا
کر گِر پڑی۔‘
بقول علی سردار جعفری’پریم چند نے بڑی سچی اور بے رحم حقیقت
نگاری سے کام لیا ہے اور ناول کو ہوری کی موت پر اس طرح ختم کیا کہ ایک سَنّاٹا چھا
جاتا ہے۔‘
پریم چند نے بہت سارے ناول لکھے
جن میں ’بازارحسن،گوشۂ عافیت، میدان عمل‘ اور ’گئودان‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان
میں بھی ’گئودان‘ ان کے فنی اِرتقا کا نقطۂ عروج ہے گو کہ انقلابی خیالات کی بنیاد
پر’میدان عمل‘ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ احتشام حسین کے خیال میں ’ترقی پسند ادیب اور نقاد
پریم چند کو ہمیشہ اپنی صف میں شمار کرتے رہے۔‘ ترقی پسندوں کی یہ کمزوری صرف پریم
چند کے ہی معاملے میں نہیں ہے بلکہ ہر قابل لحاظ ادیب پر یہ لیبل چسپاں کرنے کے لیے
وہ ادھار کھائے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ ادب جو زندگی کا ساتھ دے اور جس میں
روحِ عصر کارفرما ہو، اچھا ادب ہے، چاہے وہ ترقی پسندی کے ’صحیح ‘ معیار پر پورا اترتا
ہو یا نہ ہو اور اس لحاظ سے پریم چند یقینااچھے ادیب ہیں اور ان کی تصنیفات اچھے ادب
کے زمرے میں آتی ہیں۔بات صرف اتنی ہے کہ پریم چند کا ذہن ارتقا پذیر تھا۔ ان کے افکار
و نظریات زمانے کے مسائل اور عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ وہ ہندوستانی عوام
کے دکھ درداور اَفلاس و اضطراب کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اردو ناول نگاری میں ان کو
دیگر ناول نگاروں پر فوقیت حاصل ہے کہ آپ نے دیہی ہندوستان کو اپنے ناول کا موضوع
بنایا اور ان کے حقیقی نقشے کو اپنے ناولوں
میں فنی ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا۔
پریم چند نے ہندوستان کی دیہاتی
زندگی کے مطالعے اور دیہاتی لوگوں کو سمجھنے میں اپنی پوری زندگی صرف کر دی۔ وہ خود
بنارس کے گردونواح کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے، وہ دیہات کے رہن سہن،لوگوں کے جذبات
و خیالات سے بخوبی واقف تھے۔ اس سے زیادہ یہ کہ وہ احتیاج و افلاس کے تلخ گھونٹ خود
پی چکے تھے۔ ان عناصر نے نہ صرف یہ کہ انھیں زندگی کا عرفان عطاکیا بلکہ فنی اعتبار
سے حقیقت نگاری کی طرف راغب بھی کردیا۔
پریم چند انقلابی نہ تھے بلکہ مصلح
قوم تھے۔وہ توہم پرستی، چھوت و چھات، مذہبی تعصب اور معاشرتی تفرقہ کے خلاف تھے۔ انھوں
نے جابجا ان سماجی خرابیوں کی طرف نشاندہی کی ہے،گو کہ کہیں کہیں وہ اپنے جوش وعمل
سے تقدیر پلٹ دینا چاہتے ہیں جیسا کہ ’گئو دان‘ میں ہے لیکن مجموعی طور پر پریم چند
ایک اصلاح پسند اور مثالی ناول نگار ہیں۔ انھیں عوام کی غربت اور بدحالی کا پورا احساس
ہے مگر اس مسئلے کا حل انھوں نے’گوشۂ عافیت ‘ میں رام راج کے قیام کی شکل میں ڈھونڈا
ہے گو کہ سردار جعفری جیسے ترقی پسندنقاد اس کی تعبیر مارکس کی پرولتاری حکومت کے خواب
سے بھی کر سکتے ہیں۔
’گؤدان‘ فنی اعتبار سے پریم چند کا آخری مکمل ناول ہے اور جیسا اوپر
ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے فنی ارتقا کا نقطۂ عروج بھی ہے۔اس میں مصنف کا شعور، ادراک،
مشاہدہ اور فن سبھی کچھ اعلیٰ درجے پر ہے۔ بہت سی خامیاں بھی جو نہ صرف اردو ناول کی
روایت بن چکی تھیں بلکہ خود پریم چند کی ابتدائی تصانیف میں بھی ملتی ہیں۔ ’گئودان‘
میں پریم چند کے آدرش وادی نقطۂ نظر اور بعض نئے تصورات کا امتزاج ملتا ہے۔ اگر یہ
کہا جائے کہ اس ناول نے انھیں میدانِ سیاست کے شہ سوار کے طور پر ابھارا ہے تو غلط
نہیں ہوگا۔سامراجی حکومت ان کے نظریے کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اس کو دیکھنا بھی گوارہ
نہیں کرتے اس سلسلے میں کوئی مفاہمت اور اصلاح انھیں قبول نہیں۔
پریم چند ایک باشعورقلم کارتھے۔
ان کا ذہن حساس تھا۔ انھوں نے ہندوستانی عوام اور ان کے مصائب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔
مذہبی اور معاشرتی خامیاں بھی ان کے علم میں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند نے ناول
اور افسانے میں مجبور و مقہور اور ستم رسیدہ عوام کی ترجمانی کی اور ان کے مسائل کو
پیش کیا، ان کی خامیوں کی نشاندہی کی اور سماج کی دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھیں۔ اس
طرح ان کے ناول مقصدیت کے حامل ہیں۔ نذیر احمد اور عبدالحلیم شرر نے بھی بعض مقاصد
کو پیش نظر رکھ کر ناول لکھے لیکن پریم چند کی مقصدیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہے۔
پریم چند کے ناول کی دوسری خصوصیت
حقیقت نگاری ہے۔ انھوں نے اپنے چاروں طرف مظلومیت، ظلم اور استحصال کا بازار گرم دیکھا،
جس کی وجہ سے ان کے حساس ذہن اور فن کی مقصدیت نے انھیں حقیقت نگاری پر مجبور کر دیا۔
بعض جگہوں پر پریم چند کی مثالیت پسندی حقیقت نگاری پر غالب آجاتی ہے لیکن یہ بھی
سچائی ہے کہ حقیقت نگاری پریم چند کے ناول و افسانے کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔وہ زندگی
کی سچائی کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ پریم چند
کے ناولوں میں اعلیٰ درجے کی مرقع کشی ملتی ہے۔ گاؤں کی مرقع کشی میں انھیں مہارت
حاصل ہے۔ ان میں جا بجا نیاپن اور ذہانت کے عناصر ملتے ہیں۔ مرقع کشی کے سلسلے میں
بھی پریم چند کا ذہن سماجی شعور کا ثبوت دیتا ہے جیسے ’گئودان‘ میں ہوری کے گاؤں کی
مرقع کشی کرتے ہوئے انھوں نے واضح طور پر سماج کو ظالم و مظلوم دو طبقے میں بانٹا ہے۔
لیکن کہیں کہیں مرقع کشی کا اعلیٰ معیاربرقرار نہیں رہ پاتا۔ مثال کے طور پر’گئودان‘
میں شہری زندگی اور مزدوروں کی مرقع کشی کو پیش کیا جاسکتا ہے۔شاید اس کی وجہ پریم
چند کا شہری مسائل سے نسبتاً کم واقف ہونا ہے۔ پریم چند کی کہانی کہنے کا انداز پرانا
اور سیدھا سادا ہے لیکن اس کی پیشکش میں وہ مہارت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ’گئودان‘ کی کہانی
فنی اعتبار سے مربوط و مکمل ہے۔اس میں تدریجی ارتقا ہے لیکن یہی بات ان کے دوسرے ناولوں
کے بارے میں کلی طورپر نہیں کہی جاسکتی۔ پریم چند انسانی نفسیات سے پوری طرح آگہی
رکھتے ہیں، اس لیے کردار نگاری میں انھیں بڑی مہارت حاصل ہے۔ پریم چند کے ناولوں میں
مکالموں کی زبان اور اس کی ادائیگی کا فنکارانہ اظہار ملتا ہے۔ ہر طبقے کی زبان اور
اندازِ ادائیگی پر انھیں قدرت حاصل ہے، جو ان کے مکالموں میں حقیقت اور تنوع کا رنگ
پیدا کرتا ہے۔ کردار و واقعات کی پیچیدگی، اظہار خیال کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔پریم
چند کو دیہاتی باشندوں خصوصاً کسانوں کی زبان پر عبور حاصل ہے۔ خصوصیت کے ساتھ ’گئودان‘
میں ایسی مرقع کشی کی مثالیں مل جاتی ہیں،جہاں پر الفاظ کی سحر آفرینی اور مکالموں
کی فطری برجستگی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پریم چند کے مکالمے خاصے
طویل ہوتے ہیں لیکن ان کے مکالمے بڑے برجستہ اور پر اثر ہوتے ہیں۔ پریم چند اپنے ناولوں
میں جزئیات نگاری کے ذریعے تفصیلات کو بیان کرتے ہیں لیکن اس سے وہ کہانی اور کردار
کو متحرک بنانے کا کام لیتے ہیں۔ پریم چند کی تحریروں میں ایک متوازن ظرافت ملتی ہے
جو فنکارانہ اسلوب کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ چوگانِ ہستی کو پریم چند نے اپنا بہترین
ناول قرار دیا ہے۔ (واضح ہو کہ یہ بات 1934 کی ہے جب گئودان نہیں لکھا گیا تھا) اور
حقیقت بھی ہے کہ ’گئودان‘ کو چھوڑ کر ان کے باقی تمام ناولوں کی بہ نسبت یہ زیادہ فنکارانہ
ہے۔ اس عہد کے ملکی مسائل کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس کا ہیرو سور داس گاندھی
وادی ہے اور اہنسا سے ظلم کا مقابلہ کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ آخرمیں فتح سچائی کی
ہوگی۔ پریم چند کی بڑی خاصیت تھی کہ عام ہندوستانی کسانوں، مزدوروں اور غریب انسانوں
کو اپنے ناولوں میں ہیرو بناکر اور زندگی کی کھردری حقیقتوں کو پیش کرکے اردو ناول
کو جو سمت عطا کی ہے، اس پر آج بھی سفرجاری ہے۔ قمر رئیس ر قم طراز ہیں
’’پریم چند پہلے ادیب ہیں جنہوں نے ہندوستانی گاؤں کے کسانوں، کھیت،
مزدوروں اور ہریجنوں کی عظمت اور وقار کو سمجھا۔ ان کے لیے ادب کے کشادہ دروازے کھولے،انھیں
ہیروبناکر،ان کے دکھ سکھ کی گاتھا سناکر اردو کے افسانوی ادب کو نئی وسعتوں اور ایک
نئے احساسِ جمال سے آشنا کیا۔اِس طرح اردو ادب جو اب تک شہر کے اعلیٰ اور متوسط طبقے
کی ترجمانی کرتا تھا، سارے ملک کی متحرک زندگی، عوامی تحریکوں، سماجی آویزشوں اور
عام انسانوں کے مشغلوں اور معرکوں کا جاندار مرقع بن گیا۔‘ ‘
( اردو کا افسانوی ادب، بہار اردو اکادمی، پٹنہ،1987، ص126-127،)
منشی پریم چند کی زبان تصنع اور
بناوٹ سے یکسر پاک ہے۔ ان کا اسلوب اِنتہائی سادہ اور عام فہم ہے۔ انھوں نے عام بول
چال کی زبان میں کسانوں، مزدورں اور مظلوموں کے جذبات و احساسات کو زبان عطا کی ہے۔پریم
چند کی تخلیقی عظمت کی بنیاد یہی ہے کہ انھوں نے وقت کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ
کیا،اپنے گردوپیش کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ پریم چند کے ناولوں کے مطالعے کی
روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ گاندھی جی کے فکرو فلسفے سے متاثر تھے۔ یہ وہ
زمانہ تھا جب ملک میں ہر سو آزادی کے ترانے گونج رہے تھے اور پورا ملک سراپا احتجاج
بناہوا تو ایسے میں پریم چند خود کو اس سے کیسے دور رکھتے، چنانچہ انھوں نے انگریزوں
کی ملازمت کو خیرباد کہا اور تحریک آزادی کو فکری غذا فراہم کرنے میں منہمک ہوگئے۔
’میدان عمل‘ پریم چند کا ایسا ہی ناول ہے، جس میں آزادی کی لو کو شرر سے شعلہ بنتے
ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ پریم چند کے ناولوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کے ناول ہندوستان
کی مٹی، موسم اور آب و ہوا سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ ہندوستان کے دیہات کے جتنے رنگ
ہوسکتے ہیں وہ ان کے ناولوں میں دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ بلاشبہ پریم چند اردو
کے عظیم ترین ناول نگار بھی ہیں اور جدید ناول کے بنیاد گزار بھی۔
Dr. Sami Ahmad
Department Of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
Mob.: 9818334376
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں