نگارستان لکھنؤ میں واقع ’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘ کے پہلے، منعقد کل ہند سطح کے اجلاس کی کارروائی شروع ہوا چاہتی تھی۔ ہال سامعین سے کھچاکھچ بھرا تھا،کیونکہ اس کی صدارت، بابائے افسانہ اور اس عہد کے نامورترین ادیب،’ منشی پریم چند‘ کررہے تھے۔
یہ کانفرنس دودن جاری رہی اور پھر ایک پرمغز، آفاقی خیالات،گہرے
اور طویل المدت تجربات، باشعور، بالغ نظراور جامع افکار پر مشتمل صدارتی خطبے پر اس
کا اختتام ہوا۔خطیب کا نام’منشی پریم چند‘ تھا — پریم چند کا یہ خطبہ نہ صرف اس کانفرنس اور تحریک
کا دستور ومنشور تھا بلکہ ادیبوں کے لیے کیمیائے سعادت اور اکسیر بھی تھا۔
یہ خطبہ محض ایک[رسم ]اورتقریر ہی نہ تھا بلکہ نئے عہد
کی ادبیات کا مکمل لائحہ عمل بھی تھا،نئی زمینوں اور نئے دیار کی تخلیقات کا ایک دستوری
نظام تھا،نو آبادیات کے عمرانیات اور آئین کی اہم دفعہ تھا،اسی طرح نئے زمانے کے
اُردو اور ہندی لٹریچر کا ایک Mark Land تھا۔جس نے سوتوں کو جھنجھوڑ کر جگا دیا،دیوانوں کو
ہوشیار کردیا، مُردہ ذہنوں میں جان ڈال دی،زنگ زدہ فکروں کو جِلا بخش دی،نئے لکھنے
والوں کو نئی راہ اور سمت دکھا دی،ان میں آشا کی جوت جگائی اور امید کی کرن بیدار
کردی، کمزوروں کو توانا کردیا، مصلحت کوش ادیبوں کو کلمۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ اور
بوتا عطا کیا۔وقت کا دھارا بدل کر رکھ دیا،غرض ادب کو ایک نیا ذہن اور نیا آہنگ عطا
کیا۔
اگر مزید گہرائی سے دیکھاجائے تو اندازہ ہو گاکہ یہ خطبۂ
صدارت پریم چند کی پوری ادب نگاری کا’ مقدمہ‘ ہے۔مقدمہ عموماً کتاب کی ابتدامیں ہوتا
ہے حالانکہ اس کا اصل مقام کتاب کا آخری حصہ ہے؛کیونکہ اس میں ساری کتاب کا نچوڑاور
’حاصل‘ رہتا ہے۔ساری کتاب کا نچوڑ ظاہر ہے کتاب کی تکمیل کے بعد ہی برآمد ہوتا ہے
یا اس تک رسائی اسی صورت میں ممکن ہے جب کتاب کا مکمل مطالعہ کرلیاجائے۔ منشی پریم
چند نے یہ خطبہ بھی اپنی عمر کے آخری حصے میں بلکہ وفات سے چند ماہ قبل تحریرکیا اور’اردو‘کی
ایک عظیم الشان ’کانفرنس‘ کے تاریخی اجلاس میں پیش کیا تھا۔گویا انھوں نے اپنے عہد اور اپنے ادب کا بھر پور جائزہ لینے
کے بعد،انتہائی عرق ریزی اور محنت سے اسے لکھا تھا۔تو یقیناً یہ کہا جاسکتاہے کہ جس
طرح حالی کی شہرہ آفاق کتاب’مقدمہ شعر و شاعری‘ اردو شعری تنقید کی پہلی کتاب اور
منشورِ ِشاعری ہے؛ اسی طرح یہ خطبۂ صدارت بھی اردو فکشن یا اُردو نثر کی’ پہلی تنقید‘
یا کم از کم ’تنقیدی کاوش‘ کا اولین نقش ضرور قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ اس کا حق بھی
ہے۔اس سے قبل یا آج تک غالباً اس کو صرف ایک نظریاتی یا فکری تقریر ہی گردانا گیا۔وگر
نہ یہ صرف تقریر ہی نہیں بلکہ نثر یا فکشن کی ایسی کسوٹی ہے جس پر فکشن یا نثر کو پرکھا
جاسکتا ہے۔اسی طرح اسے ادب کوجانچنے اورڈھالنے والی ٹکسال بھی قرار دیا جاسکتاہے۔
یہ خطبہ علم وادب، سماجیات، سیاسیات، اقتصادیات، عمرانیات،
طبعیات ومابعد الطبعیات، جدیدیت، مستقبل کے امکانات اور حال کے مبینہ خدشات کے اظہارات
پر مبنی ہے۔اندازہ لگائیے کہ اسے پریم چند نے کس قدر عرق ریزی سے تحریرکیا ہوگا،انداز
تو ایسا ہے کہ شعلہ سا لپک جائے ہے اور ایک بھی لفظ ایسا نہیں جسے زائد یا اضافی اورمحض
عبارت آرائی کہا جاسکے،اعلا درجے کا ڈکشن، عمدہ طرزِ ترتیب اور متناسب سجاوٹ، گویا
پریم چند نے اس خطبے میں چاندی جیسے کاغذ پر حرفوں کا سونا پگھلایا ہے، ایک ایک لفظ
جیسے چن چن کر ورق ِسفید پر رکھا گیا ہو،یا کسی گلدستے میں نہایت ِسلیقے سے پھول چن
کر سجائے گئے ہوں۔معاً یہ مقالہ تحقیقی اور تنقیدی بھی ہے جس میں معاصر اور ماقبل کی
ادبیات پر نہایت متناسب انداز میں تنقید کے ساتھ ساتھ تحقیقی رموز کا سراغ لگانے کی
بھی سعی کی گئی ہے۔نیز مضمون اپنی تکنیک نگارش میں بھی بدرجۂ اَتم اور کمال ہے۔
اس خطبے میں چند نکات نہایت تفصیل اور غور طلب، قابل نظر
اور قابل وضاحت بھی ہیں۔ان کی وضاحت، توسیع ادب کی نقیب اور ادبی تقاضوں کی تکمیل کی
جانب راہ نما ہے۔یہ وضاحتیں اور یہ توسیعات آج کے عہد میں زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی
ہیں۔
اس خطبے کا ایک ایک لفظ،ایک ایک نکتہ ایسا ہے جسے سونے سے
لکھا جانا چاہیے۔تاہم ان میں بھی چند نکات ایسے ہیں جو وضاحت و صراحت طلب ہیں اور کیونکہ
ان میں لامتناہی وسعتیں پنہاں ہیں۔
- ’’ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں لیکن میرے خیال میں اس کی بہترین تعریف تنقید حیات ہے۔ چاہے وہ مقالوں کی شکل میں ہو یا افسانوں کی یا شعر کی، اسے ہماری حیات کا تبصرہ کرنا چاہیے۔‘‘
یہ مکمل مقولہ، ادب،اد ب کی مقصدیت وجوازاور اس کی عمل کاری
و عمل داری کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔ ادب کے ’تنقید حیات‘ بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ
نرا ناقد حیات نا ہو بلکہ اس کا ’محاسب‘ ہو’مستفسر‘ہو’نگہ
بان‘ ہو، اگر وہ غلط رخ پر چلے تو اسے روکے ٹوکے،اسے اس کی حدوداور ضابطے،مناہج و مقاصد،انجام
و نتائج سے آگاہ کرے۔اسی وقت ادب صحیح معنوں میں ادب ہوگا۔پریم چند کی یہ بات کل جس
قدر اہم تھی، آج بھی ہے۔
مذکور بالا وضاحتوں کے بعد اس فقرے میں پریم چند کا نظریہ،یہ
برآمد ہوتا ہے کہ ادب کا مقصد یا منصب یہ ہوکہ وہ اپنے قاری میں مثبت فکرو نظر پیدا
کرے،صحیح مذاق پیدا کرے اور وہ روحانی اور ذہنی تسکین کا موجب بن جائے جس سے قاری میں
قوت و حرکت پیدا ہو،کچھ کر گزرنے کی صلاحیت اس میں آجائے اور اس کے ساتھ ہی حسن کا
جذبہ بھی جاگے۔ادب میں وہ کیفیت ہو کہ فن کار اور قاری میں اورحق و باطل میں تمیز کرنے
کی قوت پیدا ہو،وہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکے اور جب وہ صداقت کو پالے یا سمجھ
لے تو اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے،بلکہ مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال
اسی صداقت سے آسکتا ہے۔
- ’’مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ میں اورچیزوں کی طرح آرٹ کو بھی افادیت کی میزان پر تولتا ہوں۔‘‘
متن کی یہ عبارت آرٹ کو، افادیت کی میزان پر تولنے کی ہدایت
کرتی ہے۔ منشی پریم چند تو یہ بات کہتے ہوئے غیر متامل ہیں،مگر عصرحاضر اور ماقبل کے
ادیبوں کو اس میں تامل ضرور تھابلکہ کچھ تحفظات بھی تھے،جو ذاتیات،مفادات،من تراحاجی
بگویم کی مجبوری اور ایسے ہی علائم سے عبارت ہے۔یہ کل بھی ضروری تھاا ور آج بھی کہ
ہر چیز کی مانند ’آرٹ‘کو بھی ’افادیت‘کی ’میزان‘پر تولنا چاہیے۔اس وقت آرٹ زندگی
کے لیے افادی بن جائے گا اور اس کا مقصد تحریر بھی حاصل ہوگا۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ
آرٹ کا تعلق حیاتِ انسانی سے ہے۔ حیات انسانی جو کہ ازل ہے اور ازل کا استعار ہ ہے؛اسی
طرح آرٹ،حیات کا استعارہ اور لازمہ ہے۔صغریٰ اور کبریٰ ملا کر نتیجہ یہ برآمد ہوتاہے
کہ آرٹ حیات ہے اور حیات آرٹ! اور یہ دونوں چیزیں انسان،یعنی روح کے لیے لازمہ ہیں،چنانچہ
جس طرح انسان کے جسم سے روح نکل جائے تو وہ لاشہ اور بے جان جسم بن کر رہ جاتاہے،اسی
طرح جب آرٹ کو حیات سے نکال دیا جائے تو وہ بھی لاش اور بے جان بن کر رہ جاتاہے۔
- ’’ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘
یہ جملہ اپنے اندر حرکی قوتیں اور بجلیاں رکھتا ہے۔ اس کا
اختصار اس کی طوالت کا غماز ہے۔پریم چند نے اس کے ذریعے اپنے عہد کے ’معیار حسن‘ کی قباحتوں اور اصلیتوں کا پردہ چاک
کیا ہے نیز اپنے عہد کے عوارض کا تذکرہ کیا ہے، مگر ہمارے عہد میں اس جملے کو ان تمام
لوازمات و حقائق سے الگ ہی انداز سے پڑھا جانا چاہیے۔ ہم حسن کہاں دیکھیں؟ہر اس چیز
میں جسے فطرت اور عام صنعت گرنے بھی خوب صورت سانچے میں ڈھال کر بنایا ہے، پہاڑ، جنگل،
درختوں، جھرنوں، ندیوں کے مناظر، اسی طرح نقش گری، پینٹنگس، تصاویر، عمارات، مصنوعی
سلطنتوں،فن وفکر،اسلوب،اندازبیاں و ترسیل وغیرہ،ان میں بھی حسن دیکھیں اور اسے اپنے
ادب وتحریر میں جگہ دیں؟ اگر یہ سوال ہے تو اس کا جواب ’ہاں!‘ ہے۔ بالکل، امروزکے تقاضوں
کے مطابق ہمیں ان سب چیزوں کا ذکر کرکے ’حسن کا معیار‘ تبدیل کرنا ہوگا اور اسے حسن
تسلیم کرنا ہوگا جس کے پیچھے ہر خالق [حقیقی و مصنوعی] کی قدرت و صلاحیت اور خلاقیت
وتخلیقت کارفرما ہے۔حسن کے متعلق پریم چند کا نثریہ یہ ہے کہ وہ نام ہے توازن اور آہنگ
کا۔ایک اقتباس دیکھیں
’’ہماری
ترکیب ہی عناصر کے توازن سے ہوتی ہے اور ہماری
روح ہمیشہ اسی توازن اور ہم آہنگی کی تلاش کرتی ہے۔ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی
ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے۔تخریب نہیں وہ ہم میں وفا اور خلوص
اور ہمدردی اور انصاف اور مساوات کے جذبات کی نشو ونما کرتی ہے۔جہاں یہ جذبات ہیں وہیں
استحکام ہے،زندگی ہے،جہاں ان کا فقدان ہے وہیں افتراق،خود پروری ہے اور نفرت اور دشمنی
ہے اور موت ہے۔ ‘‘
یہاں پریم چند نے ادب اور ادیب کے باہمی رشتے کو واضح کرتے
ہوئے حسن کے متعلق اظہارِ خیال کیا کہ یہ ایک ادیب یاآرٹسٹ میں توازن اور ہم آہنگی
پیدا کرتاہے،کیوںکہ انسان کی تخلیق بھی اسی ہم آہنگی اور توازن سے کی گئی ہے،اس کی
عکاسی برج نرائن چکبست نے کیا خوب کی ہے
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب!
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا!!
چنانچہ انھیں یہ یقین تھا کہ ادب میں یہ قوت ہوتی ہے جو
کمزوروں کو توانا اور تونگر بنا سکتی ہے۔
ادیب یا آرٹسٹ جو خود ایک انسان ہوتا ہے ؛اسے چاہیے کہ
وفا،خلوص،ہمدردی،محبت،انصاف اور مساوات سے کام لیتے ہوئے،انسانوں کے اندر جھانکے،اس
کا مطالعہ کرے،اسے اپنا موضوع ِ خاص بنا کر اس کے افادی اور معروضی پہلوؤں کو منظرِعام
پر لائے اور اسے معراجِ ادب کا شہ سوار بنادے۔علاوہ ازیں انسان کے مسائل ودرد سے واقفیت
حاصل کر نے کے بعد ان کا مناسب اور زودراحت رساں چارہ جوئی بھی کرے۔ نیز اس کے اندر
موجود مثبت فکر وںسے اپنی تحریروں کو مزین کرے،کیوں کہ یہی زندگی کی علامت ہے اورپریم
چند نے اسے زندگی سے تعبیر کیا ہے،جب کہ افتراق،خود پروری،نفرت اور دشمنی کو موت سے
تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ تخریبی عناصر ہوتے ہیں اور ادب یا حسن، تخریب کے نہیں بلکہ
تخلیق کے ضامن ہوتے ہیں۔جبکہ’ ادب‘ اور’ حسن‘ انسان اور آدمیت سے عبارت و مستعار ہیں۔
پریم چند نے ایک فنکار کی نظر سے اپنے معاشرے کو،معاشرے
میں رونماہونے اور پنپنے والے مسائل کو اور،شعور ی و غیر شعوری،دانستہ و اتفاقیہ، تبدیلیوں کو،بہ نظر غائر دیکھا اور محسوس کیا تھا،اسے
پھر اپنے ادب اور تحریروں کے ذریعے ان کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ خودان کے محسوسات
نہیں رہے بلکہ قاری کے محسوسات بن گئے اور قاری نے اس کو دل و جان سے لگا لیا۔
- ’’ہمیں اپنے ادب کا علمی معیار اونچا کرنا پڑے گا تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبے سے بحث کرسکے۔‘‘
ایک ایسی تلقین ہے جو ادب، خود ہمارے لیے اور ہمارے قاری
جیسے مثلث کے لیے لازم ہے۔ انداز ایسا ہے جیسے کوئی بزرگ اپنے زیرتربیت بچے کو کچھ
مفید باتیں سکھاتا ہے اور زمانہ و دنیا کے اونچ نیچ سمجھاتا ہے۔ پریم چند کا مدعا یہ
ہے کہ ہمارے ادب کو وہ مقام ملے جو اس کا حق ہے اور زندگی اس سے مانوس ہوجائے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کا اثر ہو اور اس طرح تعمیری
تخلیقی ادب بھی منظرعام پر آئے گا۔ یہ عمل اور طریق بقول پریم چند اس لیے بھی ضروری
ہے کہ
- ’’ہمارا مدعا ملک (وطن) میں ایسی فضا قائم کرنا ہے جس میں مطلوبہ ادب پیدا ہوسکے اور نشو و نما پاسکے۔‘‘
بہرحال منشی پریم چند کے یہ نظریات اور افکار ان کے پورے
ادب میں جھلکتے ہیں اور ان کے ادب کا نچوڑ
یہ صدارتی خطبہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس بات کو دو لفظوں میں کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا
ہے کہ زندگی کو ادب اور ادب کو زندگی بتانا چاہیے۔ ادب اور زندگی الگ الگ نہیں بلکہ
انھیں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو بن جانا چاہیے۔
اور پھر اس خطبے کے آخری کلمات، جو اس کا حاصل ہیں،جو ا س کا ماحصل ہیں اور جو یہ اعلان کررہے ہیں کہ ہاں! اب ہمارا ادب نہایت اعلیٰ پائے گا۔
Imran
Akif Khan
Govt College, Lasman Gargh
Seekar- 332311 (Rajasthan(
Mob.: 9911657591
Email.: imranakifkhan@gmail.com
عمدہ تجزیہ مبارکباد و نیک خواہشات
جواب دیںحذف کریں