10/8/23

ڈاکٹر نسیم نکہت:غزل کا معتبر لہجہ(1958-2023): ماجد دیوبندی

شاعری ہمارے احساسات کا آئینہ ہے اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شاعر اپنی مختصر سی غزل کے ایک ایک شعر میں ایک کائنات سمو دیتا ہے۔شاعر اپنا کرب بیان کرتا ہے لیکن اصل میں وہ زمانے کا درد ہوتا ہے۔ زبان کو آسان بنانے کی کوشش میں ہم اس کی ساخت کو کمزور کرنے لگ گئے۔ اس کے باوجود غزل نے نہ اپنا حسن چھوڑا اور نہ اس کی نازکی کم ہوئی۔غزل میں فکر و فن کے حسین  امتزاج کو آگے بڑھاتے ہوئے شعر و ادب کی لطافتوں کواپنے احساسات کا وسیلہ بنانا بہت اہمیت کی بات ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں مرد شعر ا کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اس نرم و نازک صنف غزل میں خوب طبع آزمائی کی ہے۔ہندستان میں تہذیبی اسکول حیدرآباد کی چشم و چراغ 1768 میں پیدا ہونے والی پہلی ہندستانی شاعرہ ماہ لقا چندا ہیں جنھوں نے اپنی شاعری کا پہلا مجموعہ کلام شائع کیا۔ یہ شاعری ان کو اپنے والد راج کنور  سے وراثت میں ملی جو بہادر شاہ ظفر کے کورٹ میں بہادر خاں کے نام سے مشہور تھے۔ ہماری اس صدی میں خاص طور پر ملک کی آزادی سے آج تک شاعرات کی نمائندگی باقاعدہ ہوتی رہی۔ پاکستان  میں جن شاعرات کے نام بہت اہمیت کے حامل ہیں ان میں ادا جعفری، گلنار آفریں، زہرہ نگاہ، ریحانہ روحی، صائمہ بخاری، کشور ناہید اور اپنے لہجے، انداز اور سادگی میں پروین شاکر سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ ہندستان میں 1901 میں نواب سلطان  جہاں بیگم کے بعد عزیز بانو داراب وفا،حیا لکھنوی، بیگم ممتاز مرزا، مسعودہ حیات،نور جہاں ثروت، نسیم مخموری، تسنیم صدیقی، برکھا رانی اور ان میں سب سے معتبر اور خاص نسوانی لہجے کی پہچان ڈاکٹر نسیم نکہت کا نام لیا جا سکتا ہے جن کو ہندستان کی پروین شاکر بھی کہا جاتاہے۔ افسوس آج وہ ہمارے بیچ نہیں اور مجھے ان کو مرحوم کہتے ہوئے دل پر پتھر رکھ کر یہ تحریر لکھنی پڑ رہی ہے۔   

1980 میں سرائے میر ضلع اعظم گڑھ کے ایک مشاعرے میں جس کی نظامت حضرت عمر قریشی فر ما رہے تھے میری نسیم نکہت صاحبہ سے پہلی ملاقات تھی۔ غالباً یہ ان کا پہلا مشاعرہ تھا جس کا ذکر انھوںنے اپنے ایک مضمون میں بھی کیا تھا کہ انھوںنے 1980 میں پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔حسن کا یہ عالم کہ دیکھیں تو نظر چکرا جائے، اسٹیج پر بیٹھنا ایسا کہ ادب بھی فخر کرے، گفتگو ایسی کہ پھول جھڑ رہے ہوں۔ اس پر ستم یہ کہ جب مائک پر آئیں تو مشاعرہ آسمان کو  چھونے لگے اور سامعین دیوانہ وار ان کی شاعری پر تڑپنے لگے۔ ہندستان کے تمام اساتذہ اور بڑے نام اس مشاعرے میں موجود تھے۔ ہر شخص ان کی طرف متوجہ تھا اور ان کی سنجیدگی کی تعریف بہ آواز بلند اور ان کے حسن کی تعریف نیچی نظروں سے کرنے پر مجبور تھا۔ اس کے بعد سے ملاقاتوں کا سلسلہ ابھی تک   جار ی رہا۔ ابھی ایک ماہ قبل ان سے آخری ملاقات علی گڑھ نمائش کے سالانہ مشاعرے میں ہوئی تھی جہاں انھوںنے سخت علالت کے با وجود اپنا کلام پیش کیا تھا۔ گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بھی دشواری ہو رہی تھی لیکن ضرورت ان کو مشاعروں میں لایا کرتی تھی۔ہم لوگ دنیا بھر میں ساتھ رہے لیکن ان کی خوش مزاجی اور بزلہ سنجی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہر وقت ہنسنا، مذاق کرنا اور خوبصورت جملوں سے محفل کو باغ باغ کرنا ان کا مزاج تھا۔ علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت 10 جون 1958 کو اتر پردیش کے مشہور شہر بارہ بنکی میں پیدا ہوئیں۔بعد میں لکھنئو آ گئیں اور اسی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ زندگی کی آخری سانس اسی تہذیبی شہر لکھنؤ میں لی۔ تقریباً چالیس سال مشاعروں میں حکومت کرنے کے بعد بھی ان میں ذرا تکبر نہیں تھا۔ آج کے مشاعروں میں شاعرات کے تماشے دیکھ کر افسوس ضرور کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ ایک ہمارا زمانہ تھا اور ایک آج کا زمانہ جہاں نہ ادب ہے، نہ تہذیب اور نہ شعر پڑھنے کا سلیقہ۔بہت سے اردو روزناموں میں کالم لکھا کرتی تھیں۔ ادبی مضامین تو سیکڑوں کی تعداد میں لکھے ہیں۔ عرصہ دراز تک اردو روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے بھی منسلک رہیں۔ دنیا بھر میں اپنی پہچان اور خودداری کے ساتھ مشاعرے پڑھے اور کبھی اپنی انا کوٹھیس نہ پہنچنے دی۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ نسیم نکہت نے مشاعروں پر حکومت کی ہے اور اپنی معیاری شاعری سے ادب کو مالامال کر دیا۔ ان کی اہم تصنیفات میں ’دھواں دھواں‘ (شاعری1984)، ’خواب دیکھنے والو‘ (شاعری2002)،’ یادوں کے موسم‘( شاعری۔ ہندی) اور ’ اردو شاعری میں واقعات کربلا‘ (نثر2013) بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ان کا تحقیقی مقالہ بھی تھا جو کربلا جیسے اہم موضوع پر لکھا گیا۔

عالمی شہرت یافتہ شاعرہ نسیم نکہت نے کبھی اپنے فکرو فن اور پاکیزگی پر آنچ نہیں آنے دی۔  نثر ہو یا نظم  بھرپور لکھا اور خوب لکھا۔ ان کے سیکڑوں اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ شاعر ی کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ حمد، نعت، قصیدہ،مرثیہ،سلام،نعت کے علاوہ موضوعاتی نظمیں لکھنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ مختلف موضوعات پر خوب شعر کہتیں۔ ان کا لہجہ نسوانی احساسات اور ایک عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھانا تھا۔ زندگی کے الگ الگ  رنگوں پر ان کی شاعری اپنے معیار پر پوری اترتی تھی۔سکھ، دکھ، رنج و الم،خوشی و غم،درد دل، درد جگر، قوت احساس کی معراج ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز تھا۔ ظاہری اور باطنی حواس خمسہ کے ساتھ سماج اور معاشرے کے ہر منفی اور مثبت پہلو پر ان کی نظر تھی۔تخلیقی ذہانت کے ساتھ انھوںنے جو کچھ لکھا، معیار کا خیال رکھا۔وہ نادیدہ مناظر کو بھی اپنے الفاظ کی گرفت میں لاکر ایک تصویر بنانے کا فن خوب جانتی تھیں۔ شاعری میں نئی حرکت اور توانائی کا عکس ان کے یہاں جگہ جگہ موجود ہے۔اتنی شہرت، مقام، عظمت اورغزل کی پہچان کے طور پر اپنا دبدبہ بنانے والی   یہ پیاری شاعرہ زندگی سے ٹوٹ سی گئی تھی۔ اپنے گھر اور کرم فرمائوں کی طرف سے ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو شاید بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کرب کے باوجود وہ شعر کہتیں اور اپنا غم ہلکا کرتیں۔ نمونے کے طور پر ان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں ان کا فن،لہجہ اور سنجیدگی کی بھرپور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے         ؎

جو مچھلیوں کو  سکھاتا ہے  تیرنا نکہت

وہی تو ہے جو مچھیروں کو جال دیتا ہے

——

ملنا ہے تو آ جیت لے میدان میں ہم کو

ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے

——

سجدوں کو میرے پھر تری چوکھٹ نصیب ہو

منزل  تلک  پہنچنے  کا رستہ مجھے بھی دے

اردو شاعری میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے وقت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی سوچ کو جونیا جذبہ ا ور ولولہ بخشا ہے اس نے ایک نئی تاریخ کو جنم دیا اور اس میں گھر کے موضوعات کو غزل کا پیرایہ بخشتے ہوئے نرم و نازک خیالات پیش کیے جو بہت اہم بات ہے۔ آج کے دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ سفر کرتے ہوئے نئے انقلاب کو جنم دینا قابل قدر کام ہے۔نسوانی احساسات اور گھر آنگن کے مسائل کو غزل بنانا آسان بات نہیں۔ چار دیواری  سے نکل کر معاشرے میں اپنی پہچان بنانا معمولی جذبہ نہیں۔ آج کی شاعرہ نے گھر سے بغاوت کر کے ادب اور شاعری کو آگے بڑھایا ہے جن میں نسیم نکہت کا نام بہت اہمیت سے لیا جاتا ہے۔ دبستان لکھنؤ میں چند ایک شاعرات کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی فکر سے ادب کو مالامال کر دیا۔نسیم نکہت نے داد و تحسین کی فکر کیے بغیر معیاری اور ادبی روایات کو نبھاتے ہوئے اپنی پہچان بنائی ہے۔ان کی شاعری میں منصوبہ بندی نہیں بلکہ حقائق کی کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے جو اس دور کی بہت کم شاعرات کے یہاں ہے۔ تقریباً چالیس سال کے طویل عرصے میں انھوںنے ملک اور بیرون ملک اپنی شاعری کا جادو جگایا۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے قاری اور سامع ا زخود پیدا کیے۔ کسی کی مرہون منت نہ رہ کر اپنے علم اور شعری کاوشوں سے اپنا لوہا منوایا۔جس دور میں شاعرات کا مشاعرے میں جانا کچھ خاص اچھا نہ سمجھا جاتا ہو، نسیم نے اپنے حوصلے اور ہمت سے شعر و ادب کی خدمات انجام دیں۔انھوںنے خوف کے بتوں کو توڑ کر وقت کی آنکھ سے آنکھ ملا کر اپنا شعری سفر مکمل کیا۔یوں تو مختلف موضوعات پر انھوںنے شعر کہے لیکن نسوانی جذبات اور نرم و نازک خیالات کو غزل کا لہجہ دیا۔ان کے یہ اشعار دیکھیں            ؎      

مری آنکھوں سے نیندیں لے کے تم نے رت جگے بخشے

مرے تکیے مرے  بستر سے  راتیں  بات کرتی ہیں

——

زندگی جیسے بھی  جی چاہو گزارو لیکن

آئینہ سامنے آئے تو ندامت بھی نہ ہو

——

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں

وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے

شاعر اپنے کلام میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ اپنے عہد کو پیش کرتا ہے جس میں قدم قدم پر راستے کے کانٹوں اور پتھروں پر چل کر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔کسی کہکشاں کی خواہش نہ کرتے ہوئے اسے صرف اور صرف چلنا آتا ہے اور یہ چلنا اس کو منزل کی طرف لے جانے کا ہنر رکھتا ہے۔شاعری کیونکہ ادب کا ایک اہم جزو ہے، اس لیے ہر دور کی تاریخ کی جھلکیاں اس دور کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ہر دور کسی نہ کسی انقلاب سے گزرا ہے۔شاعر اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر اپنی زندگی میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ نسیم نکہت کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ انھوںنے بہر حال ادب کی پاکیزگی کو ملحوظ رکھا ہے ساتھ ہی اپنی شاعری سے ایک پیغام کا کام لیا ہے۔اس میں ان کو بہت سے کرب، مصائب اور طوفان سے گزرنا  پڑا ہے جو ان کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی  جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید مایوس ہو کر بیٹھ جاتا لیکن ان کے حوصلے نے ان کو جلا بخشی اور وہ آگے بڑھتی گئیں اور دلیری کے ساتھ نئی نسل خاص طور پر خواتین کو حوصلہ بخشا۔ جس طرح آگ میں  تپنے کے بعد سونا کندن بن جاتا ہے، اسی طرح نسیم نکہت نے خود کو گھلا کر زندگی کا وہ روپ پیش کیا ہے جو ایک نیا حوصلہ بخش لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں            ؎

اپنے چہرے کو بدلنا تو بہت مشکل ہے

دل بدل جائے گا آئینہ بدل کر دیکھو

——

مانا کہ میں ہزار فصیلوں میں  قید ہوں

لیکن کبھی خلوص سے مجھ کو بلا کے دیکھ

——

مجھ کو  یہ  در بدری  تو نے  ہی بخشی ہے مگر

جب چلی گھر سے تو میں نام ترا لے کے چلی

شاعر کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو جائے لیکن وہ خدائے سخن میر اور غالب کو فراموش نہیں کرتا بلکہ اپنی شاعری میں ان سے استفادہ کرتا ہے۔عورت کس طرح غزل میں بول سکتی ہے اس کی مثال نسیم کی شاعری سے دی جا سکتی ہے۔با وقار اور معتبر لہجے سے انھوںنے اردو شاعری میں نسوانی احساسات کو جلا بخشی ہے جو ان کو بہت سوں سے الگ مقام کی حامل شاعرہ بناتا ہے۔ان کے یہاں بلند حوصلے کی فراوانی ہے جہاں طوفان سے لڑنے کا عجیب جذبہ نظر آتا ہے۔ان کی شاعری اور زندگی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ  مسائل اور مصائب میں الجھنے کی عادی ہو گئی تھیں یہاں تک کہ ان کو خوف تھا کہ اگر یہ طوفان تھم گیا تو شاید ان کی زندگی کی کشتی ڈوب جائے گی۔زندگی بھر وہ اپنے عزیز و اقارب کے ہاتھوں مصائب کے گرداب میں الجھی رہیں لیکن حوصلہ نہیںچھوڑا اور آگے بڑھتی رہیں حتیٰ کہ ایک منزل پر پہنچ کر دم لیا جہاں ان کا قد ادب اور مشاعروں میں بہت بڑا ہو چکا تھا۔ان کے یہاں انسان کو انسان دیکھنے کی جو خواہش تھی بھرپور طور پر شاعری بن کر سامنے آئی۔ خود غرضی کے دور میں بھی انھوںنے اپنے وقار پر آنچ نہیں آنے دی اور یک رنگی اور جمود کی رفتار کو روک کر آگے قدم بڑھا کر خود کو زندہ کر دیا۔ نسیم نے اپنے عمل اور شاعری سے یہ ثابت کیا کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور مشکلات کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی دنیا آباد کریں۔انھیں معلوم تھا کہ کہ بلند حوصلوں کے آگے زندگی کے بڑے سے بڑے طوفان سر نگوں ہو  جاتے ہیںاور ایسے ہی جواں حوصلہ رکھنے والوں کا انتظار منزل خود کیاکرتی ہے۔ گرداب میں پھنس کر طوفان کا مقابلہ کرنے والی اس معتبر شاعرہ کو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اپنے میں جہانِ اضطراب اور ایک جہان آرزو رکھنے والی ظاہری و باطنی، مادی و روحانی، شعوری و لا شعوری،جاگتے اور سوتے بھی ایک ہمہ جہت حرکت رکھنے والی ڈاکٹر نسیم نکہت سب کو مایوس کر کے 29 اپریل 2023 کو اس دنیا ئے فانی سے چلی گئیں اور اپنے چاہنے والوں کو روتا ہوا غم کے ماحول میں چھوڑ گئیں۔ مضمون کے اختتام پر اُن کے چند مشہور اور خوب صورت اشعار حاضرِ خدمت ہیں          ؎

غالب کا رنگ میر سا لہجہ مجھے بھی دے

لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ مجھے بھی دے

——

سفر کا حوصلہ  کافی ہے  منزل تک پہنچنے کو

مسافر جب اکیلا ہو تو راہیں بات کرتی ہیں

——

بس احترام میں  پنجرے کے پر سمیٹے ہوں

جو پر پسار دوں پنجرے کی تیلیاں اڑ جائیں


Dr. Majid Deobandi

S-3/24, Meezan Road, Jogabai, Jamia Nagar

New Delhi-110025

Mob.: 9810859786

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

برہان پور میں نظمیہ شاعری، مضمون نگار: بسم اللہ عدیم برہان پوری

اردو دنیا، فروری2024 بابِ دکن، دارالعیار،برہان پور کا ادبی و شعری اسکول مستند مانا جاتا ہے   اور اس کا شہرہ بھی ہے۔ اس اسکول کے سر براہ مولا...