11/8/23

ادب کا مہر و ماہ: پروفیسر شاداب رضی:عبدالباسط حمیدی

 

شاداب رضی نے 12؍ جنوری 1955ء میں آنکھیں کھولیں۔ وہ بچپن ہی سے ذہین تھے۔ ربّ قدیر نے انھیں بے پناہ ذہانت وفطانت سے نوازا تھا۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آکسفورڈ آف دی ایسٹ (Oxford of the East) کا رخ کیا اور پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کی، ایم اے کی تعلیم میں سب سے عمدہ کارکردگی کی بنا پر طلائی تمغے سے نوازے گئے۔ انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ نگراں اول پروفیسر کلیم الدین احمد کی وفات کے بعد شیدائی جمالیات پروفیسر لطف الرحمن کی نگرانی میں مکمل کیا۔ ان کے مقالے کا نام ’اردو تنقید میں نئے رجحانات صوبۂ بہار کے حوالے سے‘ تھا۔

شاداب رضی مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت مشفق استاذ، بلند پایہ شاعر، معتبر ناقد محقق اور سخنوری کے رمزشناس تھے۔ ان کی باضابطہ ملازمت 1980 میں پوسٹ گریجویٹ شعبۂ اردو بھاگلپور یونیورسٹی میں ہوئی اور وہ اسی یونیورسٹی سے پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو کے عہدے سے جنوری 2020 میں سبکدوش ہوئے۔ ابتدائی ملازمت سے ہی انہوں نے طلبا کی ہمہ جہت تعلیم وتربیت میں وافرحصہ لیا اور اس کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔ ملازمت سے سبک دوشی جنوری 2020میں ہوئی، سبکدوشی کے چند مہینوں بعد 13؍ ستمبر 2020 بہ مقام بھاگلپور اس دارِ فانی سے دارالقرار کے لیے رخصت ہوگئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

یہ واضح رہے کہ تنقید ہی ان کے درس وتدریس کا موضوع بالخصوص شعبۂ اردو میں رہا۔ تخلیقی اور تنقیدی صلاحیت خدا داد تھی۔ ان کی شعری تخلیقات، تنقیدی نگارشات اور تحقیقی مقالے مؤقر جرائد ورسائل آج کل، فکر وتحقیق، اکادمی، شاعر، اوراق، شعر وحکمت، ایوانِ ادب، علی گڑھ میگزین، ادیب وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کوثر صدیقی نے ’علم ودانش‘ کے خصوصی شمارے میں نئی غزل کی ایک معتبر آواز، شاداب رضی کو قرار دیا ہے۔ پروفیسر منظر اعجاز نے اپنے مضمون ’نئی غزل میں تلمیحات کی معنوی وسعت‘ مطبوعہ سہ ماہی فکر وتحقیق نئی غزل نمبر 16؍ ص 31 میں اسّی کی دہائی سے ترتیب پانے والا غزل کے منظر نامے میں معروف شاعروں کی فہرست پیش کی ہے۔ شاداب رضی کا نام اس میں بھی شامل ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ نکہت ریحانہ خان نے اپنی کتاب، اردو مختصر افسانہ فنی وتکنیکی مطالعہ صفحہ 93 ؍ میں کرشن چندر کے لیے شاداب رضی کے اقتباس کو شامل کرکے اپنے مضمون کو مدلل بنایا ہے۔

پروفیسر شاداب رضی کے شاگردوں کی لمبی فہرست ہے جو مختلف دانش گاہوں میں خرد افروزی کررہے ہیں اور شمعِ محفل بنے ہوئے ہیں۔ وہ مختلف یونیورسٹیوں میں موڈریشن بورڈ کے ممبر کے ساتھ پی ایچ ڈی کے ممتحن بھی رہے۔ وہ بہار اردو اکادمی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے پیش نظر بہار اردو اکادمی پٹنہ نے بھی اعزازیہ کے ساتھ سند اعتراف پیش کیا ہے۔ بھاگلپور کی ادبی تاریخ میں علمی وادبی فضا کی آبیاری کے سلسلے میں حلقۂ ادب بھاگلپور کے صدر پروفیسر شاداب رضی اور سکریٹری حبیب مرشد خاں کی کاوشیں 20ویں صدی کی آخری دہائی میں ناقابل فراموش ہیں جو نہ صرف ادبی سطح پر سرگرم رہے بلکہ اردو کے تحفظ وبقا کے لیے سعی پیہم کرتے رہے۔

’جدیدیت کی جمالیات‘ پروفیسر لطف الرحمن کی تنقیدی تصنیف ہے جو 1993 میں شائع ہوئی۔ اس اہم کتاب کے مرتب پروفیسر شاداب رضی ہیں۔ جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ یہ کتاب کئی جگہ داخل نصاب ہے۔ انھوں نے کیف عظیم آبادی، پروفیسر سید رفیق الزماں، پروفیسر قمر الہدیٰ وغیرہ کی کتابوں پر تقاریظ وتبصرے لکھے۔ جن کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں فن کارکے پورے تخلیقی رویے کو سمیٹ لینے کے ساتھ ساتھ ان پر مثبت رائے زنی بھی کی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ تعمیری تنقید کے حامی تھے۔ تخریب کاری سے ان کو دور دور تک کا واسطہ نہ تھا۔

شاداب رضی نے صحافت سے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کی۔ عملی زندگی میں درس وتدریس کو ہی، حِرزِ جاں بنائے رکھا۔ انھوں نے مشاعروں کو بھی اپنی موجودگی سے زینت عطا کی ہے۔ وہ سمپوزیم اور سمینار میں بھی شریک ہوتے رہے۔ گوناگوں حصولیابیاں جہد مسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی شخصیت بلاشبہ خود ساز تھی جسے انگریزی میں Self Made سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں پروفیسر شاداب رضی فن شاعری کے رمز شناس اور قادر الکلام شاعر تھے ’خواب دیکھتی آنکھیں‘ ان کا شعری مجموعہ ہے۔ یہ دھیان رہے کہ اِسی نام سے ہمامختار کا ایک ناول بھی ہے۔ انہوں نے اس دشت میں اس وقت سے سیاحی شروع کردی تھی جب وہ گریجویشن میں داخل ہوئے تھے۔ ان کی شعری تخلیقات میں پابند اور معّریٰ نظموں کے علاوہ آزاد نظمیں بھی ہیں۔ دو ہے، گیت، قطعہ اور غزلیات بھی صوری، معنوی محاسن اور غنائیت سے مملو ہیں ان کی غزلیں اور نظمیں ماہنامہ شاعر، سب رس، شب خون، مریخ، زبان وادب اور آج کل وغیرہ ماہناموں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ ایک بلند پایہ شاعر کے شعروسخن میں جو بھی خوبیاں ہوسکتی ہیں کم وبیش ان کے یہاں موجود ہیں۔ ان کے یہاں ایسے غزلیہ اشعار کی کثرت ہے جو زندگی کے گہرے اور رنگارنگ تجربات کی بناپر ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔

گم صُم گم صُم لب یاد آئے

تم یکلخت غضب یاد آئے

ایک اداسی ہے پہروں سے

یاد نہیں تم کب یاد آئے

خود کو اکیلا پایا ہوں میں

محفل میں جب تم یاد آئے

رات میں تلِ تلِ دن کی الجھن

دن میں غبار شب یاد آئے

کم نہ آئے اپنے پیارے

یاد آنے کو سب یاد آئے

بات چلی جب نام وروں کی

کچھ بے نام ونسب یاد آئے

تم شاداب رضی کیا جانو

کیوں بچپن جب تب یاد آئے

ہرتخلیق کار اپنی تخلیق کے رگ وپے میں پیوست رہتا ہے۔ اس کی انفرادیت کی لے میں شب وروز اور عصری زندگی کے تجربے شامل ہوتے ہیں۔ کُووِڈ-19  پروفیسر شاداب رضی کی آخری شعری تخلیق ہے جو آج کل دسمبر 2020 میں شائع ہوئی۔ یہ منفرد نظم عصرِ حاضر کی زخمی، روح فرسا اور بے یارو مددگار موت سے ہم کنارپوری انسانیت کی پرسوز لے ہے۔ حالات کے تئیں ذہنی بے اطمینانی، موت کی آہٹ، خوف وہراس اور انتشار کی کیفیت دیکھیے        ؎

ہلاکت  خیز  جر ثومہ  کورونا

زمیں زادوں کی دانش کا کرشمہ ہے

آگے کیا ہی خوب لکھا ہے        ؎

وجود اس کا ہو جیسے حل طلب کوئی معما/حقیر اتنا مثال، غیر مرئی نقطۂ فرضی

نہ اس کی شکل و صورت/قد نہ قامت اور کوئی رنگت

سرے سے جاں نہیں ہوتی/کسی پر کچھ نہیں واضح

جسارت دیکھیے اس کی /لیا ہے پنگا اس نے اشرف المخلوق سے

جو ہے خود ہی خلیفہ بحر وبر کا...

کووِڈ۔19 نظم میں آخر میں شاعر نے تضمین سے بھی کام لیا ہے۔ آخر میں یوں گویا ہوئے         ؎

شیخ سعدی کی دعا میں ہوں شریک

ایک ذرا سے فرق سے

کریما بہ بخشائے بر حالِ ما

کہ ہستم اسیرِ کمندِ ’وبا‘

ان کی شاعری کی ظاہری اور معنوی خوبیاں مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھی جاسکتی ہیں         ؎

یہ دنیا ایک تازہ کربلا ہے

یہاں ہر سانس میں کربل کتھا ہے

شب مہتاب ہے، گم صُم فضا ہے

تمہاری یاد کا دفتر کُھلا ہے

سویرا شام سے پھر جامِلا ہے

دھیان اب تعاقُب میں لگا ہے

مرا ممدوح مانگے مدح لمبی

گریز اب کے قصیدے میں سوا ہے

بڑھا جب ہاتھ کوئی دوستی کا

تری یادوں کے ہاتھوں دل دُکھا ہے

جلے خود روشنی اوروں کو بخشے

مرا ہمزاد اک جلتا دیا ہے

ہے کرتب وقت کے ہاتھوں کا یہ بھی

ترے قد سے ترا سایہ بڑا ہے

طلب کی بیل ہے شاداب جتنی

شجر امید کا اتنا جَلا ہے

کچھ دوسرے اشعار بھی زینتِ نگاہ ہوں            ؎

طرب فروز نظاروں سے دور کوسوں دور

جہاں نہ قہقہہ کوئی، نہ کوئی سرگوشی

فقط سکوت کا اک سلسلہ ہے چاروں طرف

فضا کے ہونٹوں پہ ہے ثبت مہر خاموشی

زبان ساز ہے گنگ اور نغمگی چُپ ہے

فضائے شہرِ خموشاں میں زندگی چُپ ہے

شاداب رضی کی شاعری خلوص کا بھی آئینہ دار ہے یعنی انھوں نے جو محسوس کیا اس کو ظاہر کیا اور اس حد تک مقبول بھی ہوئے۔ اسے ہم شعری خلوص یاجذباتی کیفیت کا آئینہ دار کہہ سکتے ہیں۔

انھوں نے جمالیاتی پیمانوں کو بھی استعمال کرنے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے ادب کی ادبیت کو، اور اس کی فوقیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور ادب کو افادی اور اجتماعی زاویوں سے پَرکھا۔ انھوں نے تنقید ہو یا شاعری، ہمیشہ توازن واعتدال سے کام لیا۔ چنانچہ ان کی تحریروں اور شعری درون خانوں سے علم کی روشنی چھَن چھَن کر آتی ہے۔ ان کی تحریروں سے خیر وصداقت کے سرچشمے پھوٹے ہیں۔ انھوں نے ادب کی دونوں شاخوں کو مثبت انداز میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے جو بھی بات کہی ہے۔ اس سے تیقن اور قطعیت کی خوشبو آتی ہے۔

عہدزریں کے معروف شاعر مومن خاں مومن کے شعری طرزِ ادا سے اردو دنیا محفوظ ہوتی رہی ہے۔ چھوٹوں کی بات کیا، غالب، شیفتہ جیسے سخنوروں نے مومن کے بعض شعروں کو سَراہا ہے۔ اس باب میں شاداب رضی کے افکارِ تازہ کچھ اس طرح نظر آتے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ ہو        ؎

خود کو اکیلا پایا ہوں

محفل میں تم جب یاد آئے

مذکورہ بالا شعر سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ اس طرح کی مثالوں سے ان کا شعرستان منور ہے۔ سادگی، سہل پسندی ان کی شاعری کے خاص وصف ہیں۔ تکلفات سے انھوں نے بہرحال اپنے دامن کو بچایا ہے۔

شاداب رضی کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ شعرا یا ادبا کا نام لیں اور ان میں شاداب رضی کا نام نہ لیں۔ ان کو چھوڑنا بھی چاہیں تو وہ بزور اپنا حق ہم سے منوالیں گے۔ ان کی شاعری سچ بولنے والوں کی شاعری ہے۔ ہر ہر شعر عطر بیز ہونے کے ساتھ ساتھ نقاب کشا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت اور صداقت ناصیہ فرسا ہے۔ انھوں نے تصنع سے کام نہیں لیا ہے۔ اس لیے کہ ان کی شاعری کو پڑھتے ہی اس کی تازگی روح تک محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں تہذیب ومتانت کی بھی جلوہ گری ہے۔ انھوں نے شاعری اس طرح کی ہے کہ ہر پڑھنے والا اس کے اچھوتے انداز پر متوجہ ضرور ہوتا ہے اور محض متوجہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔

جس طرح ماسبق شعرا نے اپنی شاعری میں گُل کاری کی ہے اسی طرح انھوں نے بھی اپنی شاعری میں گل کاری سے کام لیا ہے، گوکہ کم ہو۔ انھوں نے ہر جگہ کم وبیش شادابی فکروفن کا مظاہرہ کیا ہے۔

’خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے‘ کے پیش نظر یہ بات کہی جارہی ہے کہ آج اگر اردو دنیا پر نظر ڈالی جائے اور دیانت داری سے کام لیا جائے تو یہ صاف نظر آئے گا کہ کہیں تو اردو والوں نے محبت کا مظاہرہ کیا ہے اور کہیں نفرت کا۔ یعنی ادب کی تشریح اپنے من موافق کی ہے۔ مشہور ناقد ڈاکٹر سید عبداللہ نے ایک مقام پر صحیح ہی لکھا ہے کہ ہماری عام عادت ہے کہ جس شاعر کے بارے میں کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ایسی محبت کرنے لگتے ہیں کہ اس کی تعریف میں مبالغہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں اس کو سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔ یہ درست کہ خواہ مخواہ کیڑے نکالنے کی عادت اچھی نہیں، مگر اعزاز بلا استحقاق بھی تو مناسب نہیں۔

ان کی رتبہ شناسی کے معاملے میں اہل نقد ونظر کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اپنے مجموعی کارنامے کے لحاظ سے نہ صرف اہم شاعر ہیں بلکہ دانشور اور نقاد بھی۔

غرض کہ پروفیسر شاداب رضی کی علمی وادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ ان کے ادبی کارنامے پر تحقیق ناگزیر ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ بکھرے ہوئے ان کے ادبی کارنامے عدم اشاعت کی وجہ سے انھیں شہرت نہ دلاسکے جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کی شاعرانہ بصیرت کو عام کرنے، اور ان کی شاعرانہ قدر وقیمت کو اجاگر کرنے اور ان کی تحقیقی وتنقیدی نگارشات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے کتابی اشاعت ناگزیر ہے۔ تاکہ ان کو جائز حق مل سکے اور ان کا ادبی تعین طے ہوسکے مزید برآں نئی نسل اس سے استفادہ کرسکے۔ مختصر یہ کہ ادبی دنیا پروفیسر شاداب رضی کی ادبی کاوشوں کو کبھی نہیں بھلا پائے گی اور اردو دنیا ان کو ہمیشہ ایک بلند پایہ شاعر، بالغ نظر محقق، بااثر اور ایماندار استاذ کی شکل میں یاد رکھے گی۔

Dr. Abdul Basit Hameedi

Head Dept of Urdu

Patna Womens College

Patna- 800001 (Bihar)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...