اردو ادب کے اہم محققین، تنقید
نگاروں اور دانشوروں میں ڈاکٹر تنویر احمد
علوی (1923-2013) کی شخصیت ہمہ جہت ہے آپ وسیع المطالعہ ذہن کے مالک ہونے کے ساتھ
ایک مشفق استاد بھی تھے جو ہمہ وقت ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ فارسی، عربی، ہندی،
پنجابی، سنسکرت اور دیگر قدیم زبانوں پر دسترس
رکھتے تھے۔ طب یونانی میںگولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد ادب کے کوچے میں قدم رکھا۔ بحیثیت
شاعر ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ 19 برس کی عمر میں پہلی نظم کہی ‘ اور ادب کو اوڑھنا
بچھونا بنانے کے لیے تحقیق کی راہ میں قدم
بڑھایااور تا زندگی اس راہ پر گامزن رہے۔ آپ کی تحقیقی فکر کا دائرہ بے حد وسیع ہے
اور ادب کی مختلف جہتوںکو روشن کرتا ہے۔بالخصوص
تاریخ و تہذیب، تصوف اور مذہبی مطالعے سے آپ کو تا زندگی دلچسپی رہی اسی لیے کبھی
بھی کسی ادبی نظریے کے پابند نہیں ہوئے۔ بلکہ معروضی نقطہ نظر سے ادب کا مطالعہ کیا
اور پچاس کے قریب تصنیفات تخلیق کیں،جن میں سے بیشتر ابھی اشاعت کی منزل سے نہیں گزری
ہیں۔ آپ کی ہر تصنیف ادب میں سنگ میل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں
اختلاف پایا جاتا ہے۔لیکن سرکاری دستاویز، پاسپورٹ اور بینک اکائونٹ کی کاپی، پین کارڈ
(جو راقم الحروف کو علوی صاحب کے بڑے بیٹے ڈاکٹر نوید اقبال علوی کے توسط سے حاصل ہوا
ہے )سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا یوم پیدائش 16 جولائی 1923ہے۔ اس مناسبت سے اس برس آپ
کے یوم پئدائش کو100 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تنویر احمد علوی کا تعلق محلہ زیر
انصاریان کیرانہ (ضلع مظفر نگر) سے ہے۔ اُن کے والد پیشے سے حکیم اور حافظ قرآن تھے، جو اپنے علاقے
کی مسجد میںرمضان المبارک میں شبینہ سنایا کرتے تھے۔ تنویر احمد علوی نے کم عمری ہی میں قرآن حفظ کیا اور دیوبند سے فارسی زبان سیکھی اُن کے بڑے بھائی توصیف احمد علوی کیرانہ کے ایک
اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔
والدین
کی قبل از وقت وفات سے دونوں بھائی مادرانہ
اور پدرانہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ان کے بعد چچا سرپرست بنے۔ ان ہی کے مشورے سے انھیں
پنجاب کے ایک شہر پٹیالہ کے بھوپندر طبیہ کالج میں فن طب کے کورس میں داخل کرا دیاگیا۔
تین برس میں آپ نے فن طب میں اعلیٰ نمبر حاصل کرکے خاندان کا نام روشن کیا۔ لیکن دِلی
طور پر اس پیشے سے وابستہ نہ ہوپائے اور مزید تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے
بی اے اور ایم اے کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن مالی مشکلات راہ میں حائل تھیں، جن کو حل
کرنے کے لیے آسارا کے ایک مسلم جاٹ اسکول میں معلّم کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ اس طرح
تدریسی زندگی کا آغاز 1945میںہوا اور گزرتے وقت کے ساتھ علمی ڈگری کے حصول کے لیے
بھی سخت کوشیش و کاوشیں کیں۔ 1947کا سخت ترین دور بھی آیا، نوکری اور پڑھائی کو قائم
رکھنا بھی مشکل رہا لیکن وہ مشکلوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔اپنی موجودہ
نوکری سے خوش نہیں تھے۔اس لیے 1956 میں پی
ایچ ڈی کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں عزیر صاحب ریسرچ سپروائزر مقرر
ہوئے۔
’ذوق، سوانح اور انتقاد‘ آپ کے مقالے کا موضوع قرار پایا۔
اس وقت تک ذوق کا کوئی مربوط اور مستند دیوان موجود نہ تھا۔ فارسی تذکروں میں ذوق کے
ادبی مرتبے کے حوالے سے ذکرضرور تھا۔ لیکن کسی مستند علمی تصنیفی کام کی کمی تھی، جس
کے لیے سخت ریاضت اور علمی ذوق کی ضرورت تھی۔یہ اعلا صفات علوی صاحب
میں موجود تھیں۔ دو برس کی قلیل مدت میں تحقیقی مقالہ مکمل کیا جس کے لیے انتہائی
تنگ دستی کی حالت میںلاہور کا سفر بھی کیا اور ذوق کی ذاتی زندگی اور شاعرانہ کلام
کے بنیادی مآخذ کو یکجا کیا۔ لاہور کا یہ سفرنامہ سہارنپور کے ایک جریدے ’بے باک‘کو
لکھ بھیجا۔ جو 1959 کے زمانے میں قسط وار شائع ہوا۔
یہ مقالہ تنویر احمد علوی صاحب
کے ادبی سفر میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر انھیںڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی،
جس میں ذوق کی سوانح، شخصیت پر تذکروں ‘اخبارات و دیگر معاصرشعرا کے حوالے سے مکمل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور ذوق بحیثیت
غزل گو اور بحیثیت قصیدہ گوکے حوالے سے سیر حاصل بحث کرتے ہوئے ذوق کی زبان و ادب کے
حوالے سے ادبی خدمات، ذوق کے اثرات بعد کے شعرا ( منیر شکوہ آبادی، امیرمینائی، داغ
دہلوی، عزیز لکھنوی اور جلال لکھنوی اور مولانا محمد حسین آزاد) کا بھی تفصیلی بیان
کیا گیا ہے۔تنویر احمد علوی ذوق پر قلم اٹھانے کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں
’’ذوق کو ہمارے نئے نقاد بالعموم اس لیے
بھی پسند نہیں کرتے ہیں کہ ان کی غزل گوئی میں ایک خارجی انداز ملتا ہے، جس سے بیزاری
کے جذبات آج بہت اہم ہیں۔ لیکن یہ خارجی انداز بیان ان ہی کے یہاں نہیں دوسروں کے
یہاںبھی ہیں۔ اور وہ خود شعرا بھی اس سے بچ نہیں سکتے۔جن کی توجہ ’لفظ ‘سے زیادہ معنی
کی طرف رہی۔ ‘‘( مقدمہ ذوق سوانح اور انتقاد )
تنویر احمد علوی کا ذوق کے حوالے
سے یہ مستند کام ان کی پہچان بن گیا۔ جسے مجلس ترقی اردو ادب نے شائع کیا۔ جو اس وقت
ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ذوق کے کام کے دوران ہی علوی صاحب نے تہیہ کرلیا تھا کہ
ذوق کے کلیات کے لیے الگ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی بنیاد پر انھوں نے کلیات ذوق
کی تدوین کی جس کی اشاعت بھی مجلس ترقی ادب سے 1967 میں عمل میں آئی۔ کچھ وقت بعد کلیات ذوق کو آپ
نے ڈی لٹ کی ڈگری کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو جمع کیا اور 20 فروری 1971 کو آپ
شعبہ اردو علی گڑھ یونیورسٹی کے ڈی لٹ اسکالرکی
ڈگری سے سرفراز ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ ذوق کی زندگی میں
ان کا کوئی مربوط دیوان مرتب نہ ہو سکا تھا۔ ان کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین آزاد
اور شیخ اسماعیل،ذوق کا کلام مرتب کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ کہ اچانک غدر ہوگیا۔
جس نے دہلی کے زمین و آسمان کو درہم برہم کردیا، مولوی محمد حسین آزاد کے والد محمد
باقر شہید کردیے گئے،۔ اور آزاددہلی سے نکل جانے پر مجبور ہوئے۔ اس وقت ذوق کا جو
کلام ان کے پاس تھا اسے متاع عزیز کی طرح سے سینے سے لگایا اور22 افراد خاندان کے ساتھ
نکل کھڑے ہوئے۔ آزاد دیوان زوق کو اپنی زندگی
میں مرتب کرنا چاہتے تھے لیکن جب اس جانب مائل ہوئے اس وقت ان کی دماغی حالت درست نہ
رہی تھی۔ تنویراحمد علوی نے اس سلسلے میں لکھا ہے
’’یہ سوچنا صحیح نہ ہوگا کہ مولانا کے اختلال ذہنی کی اس کیفیت
سے پہلے کلیات ذوق کی ترتیب کا کام پورا ہوچکا تھا۔ چوں کہ اس رپورٹ میں جو ان کی پینشن
کے کاغذات کے ساتھ پیش کی گئی تھی۔ ان کے علمی
و ادبی کارناموں کا ذکر بھی موجود ہے جس میں وہ تصانیف بھی ہیں جو ہنوز زیر تکمیل ہیں۔
ان میں دیوان ذوق کا کوئی ذکر موجود نہیں۔‘‘
(کلیات ذوق، ناشر مجلس ترقی ادب ‘لاہور سال اشاعت 1967 ص
57)
تصوف کی تاریخ کے حوالے سے بھی
تنویر احمد علوی کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔آپ نے ’صحائف المعرفت‘ (فارسی)،صوفی بزرگ
شاہ عبد الرزاق کی سوانح ’صحیفۂ ابرار (فارسی) (1973) شاہ عبدالرزاق کے تصرفات اور
ان کے ملفوظات ‘مکتوباتِ عالیہ(فارسی)‘ 1984
شاہ عبد الرزاق کا اردو میں ترجمہ پیش کیا۔ یہ
تراجم کتب ادارہ مطبوعاتِ نورمحمدیہ جھنجھانہ سے شائع ہوئی ہیں۔
معروف صوفی شاعر سنت درشن سنگھ
جی کے چار اردو شعری مجموعوں (متاع نور، منزل
نور، تلاش نور، جادہ نور)کا تجزیاتی مطالعہ نشانات نور ہے جو تنویر احمد علوی کی تخلیق
ہے اور 1996 میں لکھی گئی لیکن کسی سبب منظر عام پر نہ آسکی۔ علوی صاحب کے بڑے بیٹے
ڈاکٹر نوید اقبال علوی کی معرفت سے راقم الحروف کو اس کتاب کا مسودہ ملا۔ جو 2022 کو
اشاعت پذیر ہوا‘۔اس تصنیف کے حوالے سے تنویر
احمد علوی کے صوفیانہ خیالات اور مذہبی افکار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔جن کی ہمہ رنگی
انھیں درشن سنگھ جی کی شاعری میں نظر آئی اور انھوں نے درشن سنگھ کی شعری تخلیقات
کو اپنی فکری جہت سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
ادبی تحقیق کے حوالے سے آپ کی
مستند کتاب ’اُصولِ تحقیق و ترتیبِ متن(1978)‘
تحقیق کے طلبا کے لیے مشعل راہ ہے۔جسے دہلی یونیورسٹی اورگرونانک یونیورسٹی
نے نصاب میں شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے لاہور(پاکستان)اور ہندوستان میں بھی متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
تنویراحمد علوی نے غالب کے فارسی
خطوط ’پنج آہنگ‘ کا اردو ’اوراق معانی‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔ اوراق معانی میں غالب کے فاسی خطوط کے اسلوب بیان کی دلکشی قاری
کی دلچسپی کو اور بڑھاتی ہے۔ تنویراحمد علوی
ان خطوط کے تراجم کی وجہ بیان کرتے
ہوئے لکھتے ہیں
’’فارسی الفاظ نے ان کی تخلیقی حسیت اور بے مثال ادبی صلاحیت
کے ساتھ مل کر ان خطوط میں جو ایک جہان رنگ وبو پیداکیا اور سرمایہ، آرایش گفتار بہم
پہنچایا اس کو اردو میں منتقل کرنا یوں بھی ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ان خطوط کے اپنے
بحر دلکشی نے مجھے اس پر مجبور کیا۔ کہ میں ان کا اردو میں ترجمہ کروں اور اس کے وسیلے
سے دوسرے اہل ادب ارباب ذوق اور غالب کے مطالعے سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اپنی
نارسائی کے باوصف رسائی کی صورت پیدا کروں۔‘‘
(پیش لفط’اوراق معانی، ناشر اردو اکادمی، دہلی سنہ اشاعت1992)
ان خطوط کے تراجم کے ذریعے تنویر
علوی نے نہ صرف غالب کی سوانح کے بہت سے مخفی گوشوں تک رسائی حاصل کی بلکہ غالب اکیڈمی
کی فرمائش پر انھوں نے ان خطوط کی روشنی میں غالب کی سوانح عمری با ضابطہ کتاب کی صورت
میں مرتب کردی ہے۔اس کتاب کہ وجہ تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
’’حیرت اس پر ہوتی ہے کہ پنج آہنگ میں شامل غالب کے خطوط جو
ان کی زندگی میں ہی چھپ کر سامنے آچکے تھے۔خود یاد گار غالب میں ان سے کوئی مصرف نہیں
لیا گیا۔ نامہ ہائے فارسی کی طباعت پر بھی ایک ثلث صدی کے قریب مدت بیت رہی ہے۔مگر
اس کی مثالیں شاذونادر ہی ملتی ہیں کہ غالب کی سوانح اور سیرت کے مطالعہ میں ان سے
کوئی خاص استفادہ کیا گیا ہو۔
غالب کے سوانح نگاروں میں غلام
رسول مہر نے غالب کے فارسی خطوط سے کافی و شافی طور پر استفادہ کیا۔ مگر ان کے یہاں
غالب کے سوانحی مسائل پر تاریخی سلسلہ سے گفتگو نہیں آئی۔ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی
نے ’غالب کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی ‘ایک مختصر کتابچہ کی صورت میں پیش کردی جو
سوانح غالب کے سلسلے میں ایک لائق توجہ اور لائق تحسین کام ہے۔ اب تک غالب کی جو اہم
سوانح عمریا ں شائع ہوئی ہیں ان میں یاد
گار غالب‘ حیات غالب‘اور غالب نامہ شامل ہیں۔‘‘
(دیباچہ غالب کی سوانح عمری خطوط غالب کی روشنی میں )
کلیات شاہ نصیر، کی تدوین کے لیے تنویر احمدعلوی نے حیدرآباد دکن کا سفر کیا۔جہاں دیوان نصیر کے
دو قلمی مختصر انتخاب کو پیش نظر رکھا۔ ’’نسخہ آصفیہ سب سے قدیم نسخہ ہے جو آصفیہ
اسٹیٹ لائبریری حیدرآباد میں محفو ظ ہے۔ اس کے علاوہ نسخہ ادارہ ادبیات، نسخہ پٹیالہ،
نسخہ رام پورتھا۔ (انتخاب کلیات شاہ نصیر جو1294ھ میں شائع ہوا تھا)۔تذکروں میں تذکرہ
ہندی، تذکرہ مجمع الانتخاب، مجموعہ نغز، عمدہ منتخبہ، عیارالشعرا تذکرہ جگر، ریاض الفصحا،
دستور الفصاحت، تذکرہ، گلشن بے خار، طبقات
شعرائے ہند، انتخاب داووین، گلدستہ نازنیناں، گلستاں بے خزاں، آثارالصنادید، چمن بے
نظیر، گلستان سخن، گلشن ہمیشہ بہار، سخن شعرا، خزینہ العلوم، بزم سخن اور آب حیات
کا بغور مطالعہ کیا۔ اور ان ہی تذکرات کی بنیاد پر، کلیات شاہ نصیر کی تدوین کے کام
کو انجام دیا۔جسے مجلس ترقی ادب لاہور نے چار
جلدوں میں شائع کیا۔
ذوق اور غالب کے معاصرین میں ایک
اہم فارسی داں امام بخش صہبائی تھے۔دلی میں چیلے کے کوچوں میں رہتے تھے۔ فارسی زبان
پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ مرزا (اسد اللہ حاں غالب )انانیت پسندی کے باعث جب دلی کالج
کی ملازمت کے لیے راضی نہ ہوئے۔ تب یہ ملازمت صہبائی نے قبول کی۔ 1857 کے ہنگامے میں
صہبائی اور ان کے اہل خاندان کو شہید کردیا گیا۔ صہبائی کا ایک شعری انتخاب ’انتخاب
دواوین‘ ہے۔ جو انھوں نے دلی کالج کے پرنسپل بوترو کی فرمائش پر مرتب کیا تھا۔ ڈیڑھ
سو برس قبل دلی کالج کے مطبع سے شائع ہوا تھا۔ تنویراحمد علوی کو اس نسخے کی ایک کاپی جامعہ عثمانیہ لائبریری
سے حاصل ہوئی۔ جو عرصے سے نایاب تھا۔ اس اہم نسخے کی اشاعت کے لیے انھوں اہل علم سے
مشورہ کیا۔ اور1987 میں دلی یونیورسٹی میں اردوئے معلی سیریز کے تحت اس نسخے کی اشاعت
کو منظوری ملی۔ اور تنویر احمد علوی کی علمی و تحقیقی نظر کے سبب یہ اہم تصنیف منظر
عام پر آئی۔
غالب کی فارسی شاعری کے حوالے سے
تنویر احمدعلوی کی اہم کتاب ’غالب کی فارسی شاعری تعارف و تنقید‘ہے جو غالب کے فارسی،
قصائد ، فارسی مثنویاں، فارسی تاریخی قطعات، فارسی غزلیات (انتخاب گل رعنا) کا اردو
ترجمہ ہے۔بقول تنویر احمد علوی غالب نے اپنے
قصائد اور تایخی قطعات میں اپنی سوانح کے مختلف گوشوں کو بیان کیا ہے، جس سے ان کی زندگی کے کچھ
ایسے روشن پہلو سامنے آئے جن پر اب تک ہمارے محققین کی نظر نہیں پہنچی تھی۔اس
سلسلے میں ان کا بیان ہے
’’غالب کی فارسی شاعری پر کام نسبتا کم ہواہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین
خاں مرحوم اور ڈاکٹر وارث کرمانی نے ان کی فارسی غزلیات پر قابل تحسین کام کیا ہے...
اب ایسے فارسی جاننے والے کم ہوتے جارہے ہیں جو بے تکلف غالب کے کلام کا مطالعہ کر
سکیں۔ اور اخذ نتائج ممکن ہو۔ اس دشواری نے پچھلی کئی دہائیوں میں ہمیں غالب کے فارسی
کلام کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا۔ (دیباچہ
غالب کی فارسی شا عری تعارف و تنقید، ناشر غالب اکیڈمی ، سال اشاعت 2007)
تنویر علوی صاحب کے ان تحقیقی کاموں
کے حوالے سے پروفیسر عبدالحق لکھتے ہیں
’’کسی غالب شناس نے غالب کی سوانح اور کلام کی تدوین پر یکساں
کام نہیں کیا۔ اور نہ اعتبار حاصل ہوسکا... علوی صاحب کی عبقری نظر دیکھیے۔کہ صرف ذوق
ہی نہیں دوسرے معاصر شاہ نصیر پر اتنی ہی توجہ دی ‘ یہی نہیں انھوں نے غالب پر بھی
تراجم کے گہر ہائے گراں مایہ پیش کیے۔گویا وہ پورے عہد کے ادب و اسالیب پر اس طرح سے
حاوی ہیں جیسے ارض و سما کی خبر رکھنے والاجمشید کا پیالہ جم جسے صورت گراں احوال عالم
کہا جاتا ہے۔ اس دور کی کار شناسی اور کار گزاری کے حال احوال علوی صاحب سے پوچھیے۔‘‘
(ذکر یار مہرباں‘ناشر عبد الحق‘سال اشاعت 2011 ص 76)
تنویر
احمد علوی نہ صرف اردو و فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے بلکہ ہندی ادب کا بھی آپ نے گہرائی سے مطالعہ کیا۔ بالخصوص کلاسیکی
ہندی شعرا کالی داس ، سور داس، چندربردائی، کبیر، جائسی اور دیگر مذہبی رہنمائوں کی
شخصیت اور صوفی بزرگوں کی ادبی و علمی خدمات کا آپ نے گہرا مطالعہ کیا تھا۔ بالخصوص
تاریخ و تہذیب کی روشنی میں ایک نئے زاویہ فکر سے
آپ نے اردو و ہندی ادب میں اضافہ کیا۔
کالی داس کی شہرہ آفاق سنسکرت
میں لکھی تصنیف ’میگھ دوت‘ کے یوں تو ہندی زبان میں کئی تراجم ہوچکے ہیں۔ لیکن علوی
صاحب نے میگھ دوت کو ہندوستانی تہذیب کے آئینے میں دیکھا جہاں انسانی احساسات و جذبات
میں صداقت تھی۔ کالی داس کی اس تخلیق کی معنویت کے اظہار کے لیے آپ نے ہندی زبان کا
سہارا لیااور قدیم ہندوستان کے تہذیبی پس منظر
کو ہندی لفظوں کی معنویت کے ذریعے ’پریے سندیش‘کے
نام سے 1984 میں پیش کیا۔
اس کے علاوہ آپ نے اپ بھرنش کے
زمانے کی شعری تخلیق’سندیش راسک از عبدالرحمان
کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ یہ ترجمہ نوائے ادب، ممبئی کے میگزین میں اکتوبر 1985 میں شائع
ہوا ہے۔ یہ ایک فراق زدہ عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر کی تلاش میں اسے ڈھونڈنے نکل
پڑتی ہے راستے میں ایک راہ گیر سے اپنے شوہر کا پتہ معلوم کرتی ہے۔ اس فراق زدہ عورت
کے موسم کے اعتبار سے احساسات و جذبات ہی اس
شعری تخلیق کا محور ہیں۔
ہندوستانی لوک ادب کے فروغ میں
بارہ ماسہ (سال کے بارہ مہینے ) کے گیت ایک اہم مقام رکھتے ہیں جس میں دیہات کی شادی
شدہ عورتیں اپنے شوہر کے دور جانے پر اس کے فراق میں اپنے دلی احساسات و جذبات کا اظہار
اپنی سکھیوں سے کرتی ہیں یہ عوامی شعری تخلیق ہے۔جو ہندوستان کے مختلف قصبات اور دیہات میں گائے جاتے ہیں جس سے قدیم ہندوستان کی تہذیبی و لسانی فضا کو سمجھنے
میں مدد ملتی ہے اردو میں تنویر احمد علوی
نے تیرہ بارہ ماسوں تک رسائی حاصل کی جسے انھوں نے ’بارہ ماسہ روایت اور متن‘کے نام سے پیش کیا۔اس
حوالے سے لکھتے ہیں
’’اس روایت کا تنقیدی و تہذیبی مطالعہ اردو میں علاقائی روایتوں
کے اثر و نفود اور مقامی سطح پر لسانی رشتوں کے تانے بانے کو سمجھنے میں مدد دے سکتا
ہے جس پر ابھی تک ہماری ادبی تنقید اور لسانیاتی مطالعہ میں توجہ نہیں دی جاسکی۔‘‘
(پیش لفظ، بارہ ماسہ
روایت اور متن، ناشر اردو اکادمی ، دہلی1988)
تنویر احمد علوی کا ایک اہم علمی
کام ہندی فارسی فرہنگ کی ترتیب ہے۔ جوپانچ
ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ اسے سینٹرل دہلی ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ آر کے پورم نے 1997 میں شائع کیا ہے۔ یہ علوی صاحب کی کئی برسوں کی
محنت و کاوش کا ثمرہ ہے۔ اور اہل ادب کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ہندی فارسی فرہنگ کے پیش
لفظ میں لکھا ہے۔
’’پرست ہندی فارسی کوش کا نرمان کندریے ہندی نیدیشالیے کی نئی
کوش یوجنائوں کے تحت کیا گیا ہے۔ اس یوجنا کا
پرمکھ ادیش بھارت اور پڑوسی دیشوں کے بیچ سدبھاو اور میتری پورن سمبندھوں کو
سندر بنانے کے لیے اور ویچارک آدان پرداھان کے لیے سانشید دوبھاشا کوش بنانا ہے۔فارسی
بھاشا کے ودوان پرفیسر تنویر احمد علوی نے
سمیں سمیں پر نیدیشالیے کو اپنا ساکریے سیوگ دیا۔ نیدیشالیے اس یوگ دان کے لیے ان کا
اتیند ابھاری ہے۔(دیباچہ۔ہندی فارسی فرہنگ)
ڈاکٹر تنویر احمد علوی کا ایک اہم
اور قابل ذکر کام نور اللغات کی اشاعت ثانی کی تصیح وتدوین کرنا اور اس کا مقدمہ لکھنا ہے۔ نوراللغات اردو کی مستند اور ضخیم لغت ہے۔ اس کی پہلی جلد
کے صفحات کی تعداد 781 ہے۔ دوسری جلد کی 641 ہے۔ جلد سوم کی 698 ہے۔ جلد چہارم کی تعداد
1040 ہے۔یہ چار جلدو ں پر مشتمل کام 1998 میں
ترقی اردو بیورو (موجودہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ) سے منظر عام پر آیا۔
نور اللغات کے پیش لفظ میں تنویر
احمد علوی لکھتے ہیں
’’مولینا نورالحسن کا کوری، جو محسن کاکوری کے فرزند ارجمند
تھے۔ ان کی یہ محنت اور ہمت قابل داد ہے۔ جس کے ساتھ انھوںنے ان چار ضخیم جلدوں کی
تیاری کا ڈول ڈالا اور اپنے محدود مالی اور
انسانی وسائل کے ساتھ اب اتنے بڑے کام کو انجام دیا۔ جس کی ترقی اردو بیورو کی طرف
سے دوبار ہ کتابت،کتابت شدہ اوراق کی تصحیح اور پھر اس پر دوبارہ تبارہ نظرثانی میں
ایک لمبی مدت بیت گئی۔بنیادی طور پر پرچوں کا کام مجھ ناچیز کے سپرد کیا گیا۔ اس لیے
اس میں جو تاخیر ہوئی اس کی ذمے داری راقم الحروف پر ہے۔ دوسرے دوستوں نے اس سلسلے
میں جو میری مدد کی ہے۔ اس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ‘‘(پیش لفظ، نوراللغات،
ترقی اردو بیورو 1989)
تنویر احمد علوی کو تاریخ و تہذیب
سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے گراں قدر مقالے منظر
عام پر آچکے ہیں جو دلی کی قدیم تاریخ و تہذیب
کے علاوہ ‘ہندوستان اور جنوبی مغربی ایشیا تک کی تاریخ پر مبنی ہے اس سلسلے میں ہندوستان
کی تاریخی عمارتوں کے حوالے سے مختصر کتاب ’ہماری تاریخی عمارتیں‘تاریخ محمودی، دلی
کالج کے زمانے میں مجلہ ’شاہجہان آباد نمبر‘ اور جنوب مغربی ایشیا میں ہمارا تہذیبی
سرمایہ ، ہے۔جو مرحوم حکیم عبد الحمید صاحب کے کہنے پر لکھی گئی۔ ہندوستانی تاریخ و
تہذیب پر روشنی ڈالتے ہوئے تنویر احمد علوی لکھتے ہیں۔
’’ہم جس کو ہندوستانی تہذیب کہتے ہیں۔یہ صدیوں کی نہیں ‘ہزاروں
برس کی تمدنی تاریخ اور ثقافتی انداز نظر کا نتیجہ ہے۔ یہ دراوڑ اور آریائی قبیلوں ہی کی تاریخ کی آویزش اور آمیزش کی تاریخ نہیں
ہے۔ عرب وعجم ترک و تاتاراور افغان نسلوں سے بھی اس کا گہرا رشتہ ہے۔
کئی اعتبار سے ہم ہندوستان اور
ایران کی تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ گنگا جمنا کے دھاروں کی طرح بہتا ہوا دیکھتے ہیں۔
اور تروینی میں جس طرح تیسری دھارا سرسوتی آکر مل جاتی ہے اسی طرح عرب اسلامی تہذیب
کے سر چشمے کو ہم یہاں گنگا، جمنا، کرشنا اور گوداوری کی سر زمین پر بہتا ہوا پاتے
ہیں۔‘‘
(پیش لفظ، جنوب مغربی ایشیا میں ہمارا تہذیبی ورثہ، تنویر
احمد علوی سال اشاعت 2000)
تنویر احمد علوی کے دو شعری مجموعے
’لمحوں کی خوشبو‘ (1988) اور رقص لمحات(1998) منظر عام پر آئے۔جن میں آزادی سے قبل
کے زمانے کی اردو و فارسی نظمیں، غزلیں شامل
ہیں،جو انھوں نے 1945 کے زمانے سے لے کر1997 تک لکھیں۔ ان میں شامل بیشتر نظمیں تاریخی
و تہذیبی پس منظر کے ساتھ مختلف شخصیات پر بھی لکھی گئی ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنویر احمد
علوی نے علمی و تحقیقی کاوشوں سے نہ صرف ذوق اور شاہ نصیر کے کلیات کی تحقیق و تدوین
کر کے ادب کے سرمائے میں اضافہ کیا۔ بلکہ غالب شناسی کے حوالے سے بھی آپ کی چار مستند
کتابیں منظر عام پر آئیں جو غالب شناسی میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے 76 مقالات کو راقم الحروف نے ’تنویر احمد علوی کا
جہان معانی‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں یکجا کیا ہے اور تیسری جلد اشاعت کی منزل میں
ہے۔ تصوف اور تاریخ و تہذیب کے حوالے سے بھی آپ کی گراں قدر کتابیں بیش بہا سرمایہ
ہیں۔ اپنے 70 برس کے ادبی سفر میں آپ نے کئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی۔اور درجنوں
شاگردوں نے آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی۔ تا زندگی شہرت دوام کی پروا کیے بغیر آپ نے ادب کی بے لوث خدمت کی۔ آپ کی علمی خدمات کا وہ اعتراف نہیں کیا گیا جس
سے آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے علمی پہلو روشن ہو سکے ۔آپ کی ہر تصنیف ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جو آپ کے تخلیقی ذہن اوربرسہا برس کے مطالعہ فکر کا نتیجہ ہے۔ آپ کی ادبی خدمات ادب
میں کوہ نور کی سی ہے۔ جس کی آب و تاب سے عہد حاضر اور آنے والے زمانے کے بھی اہل
علم مستفید ہوتے رہیں گے۔
کتابیات
- ذوق سوانح اور انتقاد، انجمن ترقی اردو لاہور، 1963
- دیوان ذوق، ترقی اردو بیورو، 1980
- اوراق معانی، اردو اکادمی، دہلی، 1992
- غالب کی فارسی شاعری تعارف و تنقید، غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین ، دہلی، 2007
- کلیات شاہ نصیر، مجلس ترق ادب لاہور، 1971
- ذکر یار مہرباں، عبدالحق، 2011
- غالب کے خطوط، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، 2004
- خطوط غالب کی روشنی میں غالب کی سوانح، عمری، غالب اکیڈمی، حضرت نظام الدین اولیاء، 2004
- ذوق دہلوی (مونوگراف)، ساہتیہ اکادمی دہلی، 1992
- انتخاب دواوین، دہلی یونیورسٹی، 1987
- انتخاب ذوق، مکتبہ جامعہ، 2011
Dr. Samar Jahan
House No: 2051 Kucha Chelan
Dariya Ganj
New Delhi- 110006
Mob.: 9643084411
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں