16/7/25

نواب محمد عبد الوحید غازی آف گیوردھا، مضمون نگار: محمد اسداللہ

 اردو دنیا، مارچ 2025


اردو زبان و ادب کی ترویج وبقا  یوں تو عوام الناس کی محبت و اپنائیت کا ثمرہ ہے،مگر حکومت ِ وقت کے سر براہوں کی دلچسپی اور اعانت نے بھی اس زبان کے فروغ میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔ بعض حکمرانوں اور صاحب ِ اثر ہستیوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس زبان کی آ بیاری کی ہے، ایسی مقتدر شخصیات میں مغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفر اور دکن کے فر مانرواقلی قطب شاہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں ایسی ادب دوست شخصیات کے نام تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں ان میں ایک نام نواب غازی آ ف گیوردھا کا بھی ہے۔

بیسویں صدی کے ودربھ کے شعرا میںعکاسِ فطرت، نواب غازی آ ف گیوردھاکوایک نمایاں مقام حاصل ہے؛ وہ بنیادی طور پرشاعر تھے، اس سخنوری کا فیضان اردو زبان تک محدود نہ تھا۔ انھوں نے فارسی، ہندی اور انگریزی زبانوں کی مختلف اصنافِ سخن میں طبع آ زمائی کرکے شاعری کا بڑا ذخیرہ چھوڑا۔ نہ صرف ناگپور بلکہ ملک بھر کے مشاعروں میں انھیںشرکت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا، جہاں وہ صدر مشاعرہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ نواب غازی  اپنی گو ناگوں صلاحیتوں اور خوبیوں کے سبب جانے جاتے ہیں۔  ان کی حمدیہ و مناجاتی شاعری ان کے کلام کاطرۂ امتیاز ہے۔ انھیں کئی زبانوں مثلاً عربی، فارسی، انگریزی، اردو، ہندی، گونڈی اور مراٹھی بولنے اور لکھنے پر پوری قدرت حاصل تھی۔انھوں نے عربی زبان میں روز نامچہ لکھااور علاقائی گونڈی زبان کی گرامر بھی مرتب کیاتھا۔

نواب محمد عبدالوحید غازی آ ف گیوردھا21 اکتوبر 1907 کو بڑ گائوں میں پید اہوئے۔ غازی ان کا تخلص تھا۔  اس کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے بڑے بھائی محمد عبد الحمید جو علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے، انیس سال کی عمر میں انتقال فر ماگئے۔ان کی ایک ڈائری پر لفظ غازی لکھا ہوا دیکھ کر بھائی کی یاد میں نواب صاحب نے اسے بطور تخلص اختیار کیا۔  نواب محمد عبدالوحید غازی کے آ با و اجداد شاہ عالم کے عہد میں کشمیر سے وسطِ ہند منتقل ہوئے اور بھوسلہ راجہ کے ماتحت پرگنہ ویرا گڑھ کے دیوان مقرر ہوئے تھے حقِ خد مت کے صلے میں انھیں گیوردھا کی زمینداری ملی۔گیوردھا اس وقت گڑھ چرولی ضلع میں ایک چھوٹا سا دیہات ہے۔اسی دیہات کے نام سے گیوردھا اسٹیٹ کہلائی۔ ابتدا میں اس اسٹیٹ کا رقبہ 160 مربع میل تھا۔ جس میں ایکسٹھ گائوں تھے۔ 1854 کو بھوسلہ حکومت سلطنت بر طانیہ کی قلمرومیں شامل کر لی گئی۔لیکن برطانیہ حکومت نے  چند  چھوٹی ریاستوں کو بحال رکھا ان میں گیوردھا اسٹیٹ بھی تھی۔ آ پ کے جد امجد محمدبہاء الدین اور والد بزرگوار محمد زین الدین صاحب نے حسنِ انتظام کے ذریعے اس زمینداری کو بہت ترقی دی۔

(نواب محمد غازی حیات اور علمی خدمات: ڈاکٹر سید عبدالرحیم، کلمات 1995، ص 141)

نواب محمد عبدالوحید غازی کی ایک بہن بھی نو عمری میں انتقال کر گئی تھی۔ نواب غازی ابھی پانچ سال کی عمر ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا والدہ حفیظ بیگم نے بڑی شفقت سے آ پ کی پر ورش کی حکومت بر طانیہ آ پ کو لندن میں تعلیم دلوانا چاہتی تھی لیکن آ پ کی والدہ اس بات پر راضی نہ ہوئی۔ آ خر خان بہادر ایچ ایم ملک صاحب کی ایما پر انجمن ہائی اسکول میں داخلہ کروایا گیا۔ انجمن کے ہوسٹل میں گورنر کی خصوصی نگرانی میں آ پ کو رکھا گیا۔دورانِ تعلیم انھیں سپہ گری ؎ کی بھی مشق کروائی جاتی۔ گیوردھا اسٹیٹ کے نظم و نسق کے لیے اردو کے بلند پایہ صاحبِ دیوان شاعر حضرت زیبا کوٹی( بی اے علیگ) کو مینیجر مقرر کیا گیا۔

1927میں نواب صاحب کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا،البتّہ علمی و ادبی مشاغل جاری رہے۔ آپ نے اپنے استاد سے شاعری کے رموز و نکات  کے بارے میں تین برس تک استفادہ کیا۔ اسی طرح ایک راجستھانی عالم مولوی نور الحق سے فارسی میں مہارت حاصل کی اور ایک گرو جی سے ہندی بھی سیکھی اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سب حضرات نے غازی صاحب کو خاطرخواہ فیض پہنچایا۔

1939میں نواب غازی گیوردھا اسٹیٹ سے شہر ناگپور کے قریب واقع کامٹی میں منتقل ہوگئے۔ وہاں کنہان ندی کے کنارے ایک خوبصورت بنگلہ خریدا جس کا نام ’ کاشانہ‘ رکھا۔اس میں ان کا ایک ذاتی کتب خانہ بھی تھا جس میں موجود کتابوں کے وقیع ذخیرے سے نواب صاحب کے علمی وادبی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ اس علاقے میں افسانہ نگاری کے پیش رو معروف ادیب عبد الستار فاروقی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ نواب صاحب ان کے رسالے ہفتہ وار’ الفاروق‘ کی سر پرستی فر ماتے رہے۔ 1964 میں وہ کامٹی سے شہر ناگپور آ گئے اور علاقہ مانکا پور میں انھوں نے ایک وسیع و عریض بنگلہ خرید کر اس کا نام ’ باغ منزل ‘ رکھا۔ تادمِ آخر وہ وہیں قیام پذیر رہے۔ 6 فروری  1979کو نواب غازی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

نواب غازی کے حالاتِ زندگی اور ان کے کلام کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ایک خدا ترس انسان تھے۔اپنے علاقے کے نظم و نسق کو سنبھالنے والے اس شخص کے سینے میں ایک شاعر کا دل تھا۔وہ آ سودگی اور ہر طرح کے سامان ِ عیش مہیا ہونے کے باوجود شانِ بے نیازی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی قدروں پر پختہ یقین رکھتے تھے ان کی شخصی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد الرحیم لکھتے ہیں :

مبدائے فیاض سے نواب صاحب نے حافظہ بھی بلا کا پایا تھا۔ مولانا محمد خاں صاحب اور عبد اللہ عرب سے آ پ نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ عبد اللہ عرب عربی النسل تھے۔ ان سے عربی میں گفتگو کرتے، حضرت زیبا کوٹی کی تعلیم و تربیت نے ان میں شعری ذوق پیدا کر دیا تھا۔آ پ کے  تلامذہ میں شاطر حکیمی خورشید تابش نوید بلاس پوری اختر نظمی ڈاکٹر رندھیر اور جعفری صاحب قابلِ ذکر ہیں نواب صاحب صوفی منش انسان  تھے۔ تصوف سے آ پ کو گہرا لگائو تھا۔ گیوردھا اسٹیٹ میں آ پ نے ایک خانقاہ تعمیر کی تھی جہاں ذکر و فکر کا مشغلہ تھا۔ بزرگانِ دین سے گہری عقیدت مندی تھی خصوصاً بابا تاج الدین اولیا سے بہت گہرا تعلق تھا۔ معمولات کی بڑی پابندی تھی۔ جو ظاہر تھا وہی باطن۔مذاق میں بھی کبھی جھوٹ نہیں کہا۔ قران کریم سے بڑا تعلق تھا۔ نمازِ فجر کے بعد قران مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتے اور سونے سے قبل کچھ آ یتیں ضرور پڑھتے۔عسکری صفات کے حامل اور داد و دہش کے پیکر تھے۔ علمی مجلس میں بلا سند نہ کوئی بات کہتے نہ کسی کی بات قبول کرتے۔ سند حاصل ہونے کے بعد فوراً اپنی بات سے رجوع کر لیتے چاہے وہ سند کسی شاگرد کی جانب سے ملی ہو۔(ایضاً، ص 142)

نواب غازی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اﷲتعالیٰ کی حمد و ثناکے علاوہ ایسے موضوعات پر مشتمل ہے جو تصوف  سے قریب تر ہیں۔ اس دور کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر اپنے رنج و غم کا اظہا ر بھی انھوں نے بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔ نواب غازی کے محدود صفحات پر مشتمل  چند شعری مجموعے شائع ہوئے جن کے نام حسب ذیل ہیں۔ نوائے نیم شب،ذکر و فکر۔مزد و خدمت اور ارتقا اورتلخیات۔ ان کے علاوہ نواب غازی کا مجموعۂ کلام‘ گلستان ِ معرفت ‘جو102 صفحات پر مشتمل ہے1932 میں منظرِ عام پرآ یا۔کتاب کے ابتدائی صفحے پر ’ تخیلات معجز نشاں‘  کے ذریعے اس کے سالِ اشاعت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ’نوائے نیم شب‘ ًآپ کی دعائیہ نظموں کا مجموعہ ہے۔ ’گلستانِ معرفت‘ میں1923 سے 1932 تک کلام موجود ہے۔

 نواب غازی  کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خواجہ میر درد اور علامہ اقبال  سے بہت متاثر تھے اسلامی تصوف کا گہرا اثر ان کے کلام پر نظر آتا ہے۔نواب غازی کی شاعری میں مذہبی اخلاقی موضوعات پر نظمیں کثیر تعداد میں موجودہیں۔’ گلستان ِ معرفت‘ میں غزلوں کے مقابلے میں منظومات کی تعداد زیادہ ہے۔ چند نظموں کے عنوانات ملاحظہ فر مائیں۔ مجاہدِ اسلام، بختِ نا رسا،رہنمایانِ گمراہ، درسِ روحانیت،دردِ دل، جبر و اختیار اور برسات کی شام وغیرہ

گلستان ِ معرفت کاآ غاز جس حمد سے ہوتا ہے اس کے تقریباً سبھی اشعا ر خوبصورت تلمیحات سے مزین ہیں     ؎

پژ مردہ دل ہزاروں تونے کھلادیے ہیں

 یعقوب جیسے لاکھوں روتے ہنسادیے ہیں

نارِ خلیل دم میں گلزار ہوگئی تھی

آ تش کدوں سے تونے گلشن بنادیے ہیں

دارِ مسیح کیا تھی اک زینۂ فلک تھا

سولی چڑھا کے لاکھوں زندہ بچا دیے ہیں

زراتِ رنگ ابھرے  قطراتِ موج بن کر

 زمزم سے لاکھ چشمے تونے بہا دیے ہیں

دریا  نے خشک ہوکر موسیٰ کو راہ دے دی

موجِ کرم نے تیرے قلزُم ہٹادیے ہیں

مچھلی بھی بن گئی تھی یونس کے حق میں کشتی

ساحل پہ تونے کتنے بیڑے لگا دیے ہیں

(مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923، ناگپور، ص 1)

نواب محمد غازی کی شاعری کے متعلق اظہارِخیال کرتے ہوئے حافظ محمد ولایت اللہ، گلستان ِ معرفت‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

 نواب محمد غازی اپنے صوبے کے ایک دقیقہ رس اور بلند پایہ شاعر ہیں۔ آ پ کا کلام بحیثیت مجموعی معارف و حقائق کا ایک گنجینہ ہے۔ جس میں حیاتِ انسانی کے مختلف نازک اور اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ موسیقیت ِشعری اور تمامِ  اصنافِ سخن کو نمایاں رکھتے ہوئے فلسفیانہ مضامین کو جس خوبی اور قادرالکلامی سے تمثیلی پیرائے میں واضح کیا ہے اسے وہی خوب سمجھ سکتا ہے جس کی نگاہ جناب غازی کی طرح غائراور نکتہ رس ہو۔(مقدمہ عالی جناب خان بہادر حافظ محمد ولایت اللہ صاحب، مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923  ناگپور  ص۔ب)

نواب غازی کی غزلوں میں جہاں نازک خیالی، حالات کی زبوں حالی کا تذکرہ اور عشق و محبوب کا بیا ن اس عہد کی شعری روایات کی پاسدار ی کر تا ہو ا نظر آ تا ہے،وہیں ان کی منظومات میں عشق حقیقی اور تصوف کی جھلک نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل نے ان کی شاعری میں پائے جانے والے مذہبی افکار کو حمد اور مناجات کے تناظر میں دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ :

’’ نواب غازی کی حمد و ثنا میں فکر و خیال کی گہرائی و گیرائی، تخیل کی بلند پر وازی اور علمیت پوری آ ن بان شان کے ساتھ نظر آ تی ہے۔انھوں نے بعض نئی لفظیات اورنئی تراکیب کا بھی استعمال کیاہے۔ اور خدا کی توحید اور اس کی ربوبیت کوظاہر کرنے کے لیے نئے نئے خیالات بھی پیش کیے ہیں۔‘‘

(ڈاکٹر شرف الدین ساحل: درمعانی، مطبوعہ، 2022، ناگپور، ص 24)

نواب غازی کی غزلوں میں روایتی مضامین او روارداتِ قلبی کا بیان پر اثر انداز میں ہوا ہے۔ ان میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں تصوف کے زیر ِ اثر دنیا سے بے گانگی کا اظہار کیا گیا ہے اور ان میں محبوب کی بے اعتنائی کا شکوہ بھی ہے۔

سنبھل کر تیغ اے قاتل لگانا میری گر دن پر

کہیں اس خونِ ناحق کا لگے دھبہ نہ دامن پر     پیوندِ خاک ہونا انجامِ زندگی ہے

کیا دردناک  اللہ انجامِ زندگی ہے

بجلیاں ابر نے لا لا کے گرادیں لاکھوں

ہم نے چاہا جو کبھی گھر کا چراغاں ہونا

قصہ ٔ درد کے اظہار پہ ہنس کر بولے

بات کر نے کا سلیقہ کوئی تم سے سیکھے

بے وفائی کا نہ کر بلبلِ ناشاد گلہ

پھول کے چاک گریباں کو ذرا دیکھ تو لے

دیکھ مشاطگیِ زلف نہ کر بادِ صبا

اور الجھیں گے یہ گیسو تیرے سلجھانے سے

گلستانِ معرفت‘ میں اردو کے علاوہ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ایک فارسی نظم، بہ عنوان،  ’ قصیدہ  بتقریب تہنیتِ شفا یابی مَلِک معظم حضور شہنشاہ جارج پنجم فر مانروائے انگلستان و ہند ‘  کے چند اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

تا حشر زندہ باد شہنشاہ انگلستان

بر ما  نگاہ  او است  نگاہِ خد ا  براں

باشند شاد کام  محبانِ پادشاہ

پسپا شکست خوردہ  فنا با د  دشمناں

غازی بحیرتم چہ دعائے کند گدا

مستغنی از دعا ست  خدا دوست حکمراں

(مطبوعہ گلستانِ معرفت: نواب محمد غازی، 1923، ناگپور، ص 43)

نواب غازی نے رباعیات کا ایک قلمی نسخہ بھی چھوڑا ہے جس میں 749 رباعیات موجود ہیں۔ ان میں فارسی رباعیات بھی ہیں۔

اپنی موت سے قبل تحریر کی گئی ایک فارسی رباعی میں انھوں نے مرض الوفات کے حالات پر صبر و شکر کا اظہار کیاہے       ؎

شاکی نیم ارچہ درد مندم کردی

بہراف و آ ہ کار بندم  کر دی

چشمے ز تو شاہ التفاتے باشد

نادم بنواز شی کہ خرسندم کردی

نواب غازی نے ہندی شاعری میں بھی طبع آزمائی کی تھی۔ انھوں نے اس زبان کی ادبی روایات اور متعلقہ اصناف کی شعریات کو بخوبی سمجھتے ہوئے اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کیا تھا۔  چند نظموں کے اشعار ملاحظہ فر مائیں        ؎

لوبھ ترنگیں بھاری بھاری

پھنس گئے پاپ بھنور نر ناری

پربھو راکھیں لاج ہماری

ڈوب نہ جائیں پاپی سارے

 

گانٹھ میں جب تک دمڑی ہے

لوگ پکاریں بابوجی

دام درم جب جات رہیں

سدھ بدھ نہ بچارے کوئی

 

پیت کا گاوے گیت کوئی

کوئی کہے میں بلیہاری

اَوسر پاکر وار کرے

  دھر دے جھٹ کنٹھ کٹاری

 بس دیکھ چکے ہم بھائی

سب کھوٹی ہے یہ نگری

نواب غازی کی شاعری جہاں ان کے ذاتی جذبات و احساسات کی آ ئینہ دار ہے وہیں ان کے عقائد اور خدا کی ذات و صفات پر پختہ یقین کا شاعرانہ اظہار بھی ہے۔

 

Mohd Asadullah

30, Gulistan Colony

Near Amrai Lance

Nagpur- 440013 (MS)

Mob.: 9579591149

zarnigar2006@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

نواب محمد عبد الوحید غازی آف گیوردھا، مضمون نگار: محمد اسداللہ

  اردو دنیا، مارچ 2025 اردو زبان و ادب کی ترویج وبقا   یوں تو عوام الناس کی محبت و اپنائیت کا ثمرہ ہے،مگر حکومت ِ وقت کے سر براہوں کی دلچس...