اردو دنیا، مارچ 2025
وسیع کینوس میںمشرقی ہند کے ایک ایسے مقبول و معروف
شاعر و ادیب، ممتاز معلم، مترجم، اسکالر اور صحافی کا نام پروفیسر قیصر شمیم ہے، جن کا مذہب ہمہ تن عشق رہا۔ انھوں نے
کبھی بھی اپنے عشق میں تفریق نہیں کی۔ حالانکہ ان کا حلقۂ شاگرد و احباب انتہائی
وسیع رہا۔ موصوف کی شخصیت ایک سراپا مخلص ہستی کی سی رہی جو تاعمر علم و ادب کی
خوشبو، محبت و شفقت کی خوشبو، انسان دوستی کی خوشبو، اپنائیت و انسیت کی خوشبو،
علم دوستی کی خوشبو، قومی یک جہتی کی خوشبو اور التفات و عنایت کی خوشبوؤں کو
بانٹنے میں سر گرم عمل رہی۔ قیصر شمیم خود ہی مذہبی یک جہتی کے رنگ میں یوں کہتے
نظر آتے ہیں ؎
میرا مذہب عشق کا مذہب جس میں کوئی تفریق نہیں
میرے حلقے میں آتے ہیں تلسی بھی اور جامی بھی
مذکورہ شعر پر استاذ الشعرا قیصر شمیم صاحب کی شخصیت
کھری اترتی ہوئی نظر آئی۔ محترم قیصر شمیم کا حلقۂ اکتسابان و شاگردان ان کے دل
کی کشادگی کے مساوی ہے کہ اس میں جامی اور تلسی والے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی
استاذ شخصیت حقیقی معنوں میں استاذ الاساتذہ کے مصداق ہے، جنھیں مرحوم کہتے ہوئے
کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 3؍ستمبر 2021 کو 86 سال کی عمر میں ان کی روح قفس ِ عنصری
سے آزاد ہوئی تھی جبکہ وہ غلام ہندوستان کے صوبہ بنگال کی سر زمین پر 2؍اپریل
1936(اسکول سرٹیفکیٹ کے مطابق) کو انگس، ضلع ہگلی میں تولد ہوئے تھے۔ محترم قیصر
شمیم اُس دِیے کی مانند تھے جس کی لَو تاحیات مدھم نہیں ہوئی۔ ایسی عبقری شخصیت
خال خال ہی نظر آتی ہے۔ میرے عنوان سے چونکنے والوں کو اب تک واضح ہو ہی گیا ہوگا
کہ خاکسار علی شاہد دلکش نے متذکرہ با وقار علمی و ادبی شخصیت کو خوشبو بانٹنے
والا یوں ہی نہیں لکھا ہے۔ اپنی عملی و علمی زندگی میں قیصر شمیم (اصل نام عبدالقیوم
خان) اردو ادب کے ایک تعطر آمیز سایہ دار شجر کی مانند تھے۔ اس علمی و ادبی شجر
کے گل کی خوشبو، بشکل بوئے شمیم اپنے گرد و نواح کو محض معطر ہی نہیں کرتی رہی
بلکہ شجر ِ شمیم اپنے مجسمہ اور متعلقہ افراد کو خوب خوب مستفید و مستفیض بھی کرتے
رہے۔ بقول قیصر شمیم ؎
ہم نے تو کیا ،
جو بھی کرنا تھا قیصر
معلوم ہے، کیا اس کا صلا دے گا زمانا
مو صوف کے والد مرحوم
جناب عبدالرحیم خاں ایک کارخانے میں ملازم تھے۔قلیل آمدنی کے سبب قیصر شمیم کو کم
عمری سے ہی چھوٹی موٹی ملازمت سے جڑنا پڑا۔ انھوں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز
انگلش بوائز پرائمری اسکول سے کیا اوراپنی ابتدائی تعلیم چاپدانی میونسپل پرائمری
اسکول سے مکمل کی۔ ملک کی آزادی سے قبل 1946 کے فرقہ وارانہ فسادات کے زمانے میں
آپ پریسی ڈنسی مسلم ہائی اسکول میں درجہ ششم کے طالب علم تھے۔ناسا ز گار حالات کے
سبب کچھ دنوں کے لیے انھیں تعلیم ترک کرنا پڑی پھر شیام نگر 24پرگنہ کے گرولیہ ہائی
اسکول میں داخلہ لیا۔ ابھی درجہ نہم ہی میں تھے کہ گھر کی مالی مشکلات کے سبب
اسکول چھوڑنا پڑااوربہ حالت مجبوری کلکتہ کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں درس و تدریس
کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔ البتہ ملازمت سے جڑنے کے باوجود تعلیم سے قلبی لگاو ٔ ہمیشہ
رہا۔چنانچہ 1952 میں ہگلی ہائی مدرسہ میں داخلہ لیا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان
فرسٹ ڈیویژن سے1953 میں پاس ہی نہیں کیابلکہ مغربی بنگال ہائی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ
میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے ایک ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔پھر مولانا آزاد کالج سے آئی۔ا
ے فرسٹ ڈیویژن 1955 میں پاس کیا اور کلکتہ یونیورسٹی سے 1963 میں بی اے اور 1965 میں
ایم۔اے (فرسٹ کلاس) کیا۔
قیصر شمیم عوام
و خواص کے چہیتے تھے۔ مزدور کے بیٹے تھے۔ مزدوروں کی بستی میں آنکھیں کھولیں،
جہاں گندگی کے ملبے ارد گرد پڑے رہتے۔ مزدور فیملیز کے درمیاں پلے بڑھے۔ کیچڑ میں
کنول کھلنے کے مترادف ان کی شخصیت پروان چڑھی۔بقول قیصر شمیم:
’’مجھے
یاد ہے کہ جوٹ مل کے جس علاقے میں میں پیدا ہوا تھا وہاں جی ٹی روڈ کے ایک طرف
مزدوروں کی بستی تھی جس میں مرغیوں کے ڈربوں جیسے چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ ان میں
اکثریت بانس اور مٹی سے بنے ہوئے ایسے گھروں کی تھی جو بیشتر اوقات بوسیدہ رہا
کرتے تھے۔میاں بیوی،بیٹے بیٹیاں، پورا خاندان ایک ہی گھر میں ٹھسا پڑا رہتا
تھااورگھٹ گھٹ کر اسی طرح زندگی گزارتا تھا۔‘‘
(
پہاڑ کاٹتے ہوئے،قیصر شمیم،ص14)
کثیرالجہات علمی و ادبی
شخصیت ہونے کے سبب ان کے شاگردوں کی تعداد بھی کثیر رہی ہے۔ نتیجتاً سرعام زانوئے
تلمذ تہہ کرنے والے کے علاوہ رازدارانہ طور پر اصلاح لینے والے ادبی و علمی اشخاص
کا آنا جانا بھی ان کے یہاں خوب لگا رہتا۔ اس وجہ سے ان کے گھر کا ایک حصہ تو
لوگوں کی آمدورفت سے روشن رہتا مگر اندرونِ خانہ کا معاملہ اس سے بالکل جدا ہوتا!
دوسرے لفظوں میں آنے والوں کے ظاہری اخلاص سے ان کا چہرہ اور جبیں تو درخشاں رہتے
لیکن چشم بینا ہونے کی وجہ سے اندرون جسد و قلب کا منظر کچھ اور ہوتا۔ تاہم ماتھے
پہ کبھی کسی نے بھی شکن نہیں دیکھا۔ مزید برآں ممکن ہے دْنیا کی دْھوپ چھاؤں میں
بہت سے رشتوں اور مراسمِ التفات کے مصلحت کا عقدہ بھی کھلا ہو۔ تب ہی تو اِن کیفیات
کا اظہار موصوف نے اسی غزل کے دیگر زیر نظر اشعار میں احسن طریقے سے کیا ہے ؎
اس کے آنگن میں روشنی تھی مگر
گھر کے اندر بڑا اندھیرا تھا
دکھ میں آخر یہ کھل گیا
قیصر
نام اِک مصلحت کا رشتہ تھا
موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا
گرم ہوا کیا سرد ہوا
اے دوست ہمارے آنگن میں
رہتی ہے ہمیشہ زرد ہوا
اس شجر ِ سایہ دار و ثمردار کی شخصیت (جس سے ان گنت
لوگوں نے کسبِ فیض کیا) کے دفعتاً گرجانے سے نہ پرْ ہونے والا خلا پیدا ہوا ہے۔یہِ
بنگال کی علمی و ادبی فضا کے لیے بڑا المیہ نیز اندوہ آمیز امر ہے۔ چونکہ قیصر شمیم
صاحب نے چھیاسی سال کی عمر پائی ہے۔ لہذا ان کا علمی و ادبی سفر زائد از پانچ دہائیوں
پر محیط ہے۔ انھوں نے ہگلی ضلع کے چاپدانی/انگس میں اولین عصری علمی گہوارہ ’ادبی
سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ علاوہ ازیں ادبی ادارہ ’ہوڑہ رائٹرز ایسوسی ایشن‘کی بنیاد
16؍ ستمبر1966 کو رکھی۔ تا حیات اس کے سرپرست رہے۔ حضرت نے ہوڑہ مسلم ہائی اسکول، کلکتہ کے سی ایم
او ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج، کلکتہ یونیورسٹی اور عالیہ یونیورسٹی میں اپنے
علم سے متعدد ذہنوں کو منور کیا ہے۔
قیصر شمیم لسانی ادب کے
بھی اس روشن و تابندہ ستارے کی مانند ہیں جو آسمان ادب میں کسی تعارف کا محتا ج
نہیں ہے۔ موصوف نے ادب کی کئی اصناف پر طبع آزمائی ہی نہیں کی بلکہ مہارت بھی
رکھتے تھے۔ وہ اربابِ اردو کے ساتھ ہندی، بنگلہ اور انگریزی ادب کے اسیری کی معاونت
و خدمات میں سرگرداں رہتے۔ آپ کی علمی و ادبی استعداد کا ہر کوئی لوہا بھی مانتا
رہا اور ہنوز قائل بھی ہے۔ ان کی بے پناہ صلاحیتوں سے بشمول اہل اردو ادب، ہندی
ادب کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی محض اکتساب ِ فیض ہی نہیں کیا بلکہ بہتوں نے
باقاعدہ مستقل شاگردی بھی اختیار کرلی۔ یہ امر اس بات کا غماز ہے کہ وہ بیک وقت
اردو نیز ہندی حلقہ ٔ ادب میں یکساں مقبول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ (کتابی سلسلہ دستخط،
بارکپور - ’قیصر شمیم نمبر‘ کے مطابق) بشمول ادبا، شعرا اور شاعرات ان کے تلامذہ کی
تعداد بنگال و بیرونِ ریاست اندازۂ سو
(100) سے زائد ہے۔ان کا تعلق شاعری، ڈراما، افسانہ، ناول، انشائیہ، سیر و سیاحت،
طنز و مزاح، تنقید و تحقیق اور ادب کی دیگر اصناف سے ہے۔ آپ نے متعدد نسلوں کی
آبیاری کی۔ آپ دبستانی حیثیت کے حامل اردو زبان کے معروف استاذ، شاعر اور ادیب
رہے۔ ان کی قابل ذکر ادبی خدمات طویل عرصے پر محیط ہے۔ ڈاکٹر خالدہ حسینی اپنے ایک
مضمون’تو آں شا‘ میں یوں لکھتی ہیں:
’’آپ
نے بیک وقت شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے دنیائے ادب میں قدم رکھا۔ آپ کی پہلی
نظم نما غزل بہ عنوان’حالات‘ 1951 میں کلکتہ کے ہفتہ وار’ساگر‘ میں شائع ہوئی اور
آپ کی پہلی کہانی ’وہ لڑکی‘ بھی 1951 میں دہلی کے ویکلی’پارس‘ میں شائع کی گئی۔
(مشمولہ دستخط، ص 118)
واضح ہو کہ قیصر شمیم ابتدا میں ’عمید انگیسی‘ کے نام
سے تخلیق، تصنیف اور تالیف کیا کرتے تھے تاہم اکثر ان کا نام’عمید‘کی جگہ ’حمید‘
شائع ہوجاتا تھا چنانچہ بقول ’’مجاہد ِ اردو‘‘( مرحوم ایم اے قاسم علیگ) انھوں
(حضرت قیصر شمیم) نے اپنے ایک کولیگ colleague،
جناب مظہر امام کی تجویز پر اپنا ادبی نام ’قیصر شمیم‘رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے
کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ادبی روبوٹ کی مانند انتھک محنت اور علمی و ادبی
کاوشیں کرتے رہے لیکن کبھی بھی ان کے چہرے یا لہجے سے تھکاوٹ کا نام و نشان ظاہر
نہ ہوتا۔اپنی ذاتی عملی فطرت کے پیرائے میں موصوف نے کیا خوب کہا ہے، جو دوسروں کے
حوصلے کو بھی جلا بخشنے کا کام کرتی ہے۔ قیصر شمیم کہتے ہیں ؎
تھکن تو راہ کا ایک
موڑ ہے ، ٹھہرنا کیا
اسی خیال سے پھر
اٹھ کے چل پڑا ہوں میں
قیصر شمیم کی پوری عمر
مغربی بنگال کی سرزمین پر اردو ادب بالخصوص شاعری کی ریاضت میں گزری ہے۔ ان کی
شاعری نئی نسل کے لیے مشعل ِ راہ ہے جو گہرائی و گیرائی سے مزین ہے۔انھوں نے اپنی
شاعری میں ذات کے علاوہ سماج و معاشرے اورکائنات کے اسرار و رموز سے بھی اپنا رشتہ
استوار کیا ہے۔ موصوف اپنی شاعری کے متعلق کچھ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں ملاحظہ
فرمائیں:
’’میری
شاعری نہ آباواجد اد کا ورثہ ہے نہ استاد کا عطیہ، شاعری میراپیشہ بھی نہیں ہے
اورسنڈے پینٹرزکی اتوار کا مشغلہ بھی نہیں میرے نزدیک شاعری’ساعتوں کے سمندر ‘میں
ڈوبتے ابھرتے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتے رہنے کے عمل سے ملتا جلتا ایک عمل ہے لیکن سخت
تراور لطیف۔‘‘ (ساعتوں کا سمندر،قیصرشمیم،ص6)
قیصر شمیم نے کم و بیش تمام اصناف سخن میں طبع
آزمائی کی جن میں غزل، نظم، گیت، دوہا، رباعیات، قطعات، حمد، نعت،تضمین وغیرہ
شامل ہیں وہیں دوسری طرف تنقیدی مضامین اور تراجم وغیرہ کو بھی انھوں نے اپنی توجہ
کا مرکز بنایا جو ان کی اردو کے ساتھ ہی ساتھ دوسری زبانوں مثلاًبنگلہ،ہندی اور
انگریزی پر مکمل دسترس کا ثبوت ہے۔ محمد طیب نعمانی (کوآرڈینیٹر اینڈ انچارچ پوسٹ
گریجویٹ شعبہ اردو، بھیرب گانگولی کالج، بیلگھریا، کولکاتہ) اپنے مضمون بہ عنوان
’قیصر شمیم : اردو ادب کا نابغہ روزگار‘میں رقم طراز ہیں:
’’اپنے
نوجوانی کے دنوں میں آپ (قیصر شمیم) نے مشاعرے میں جب زیر نظر شعر پڑھا تو صدرِ
مشاعرہ پرویز شاہدی نے اس شعر کو ان سے کئی بار پڑھوایا۔ ‘‘ (روزنامہ عوامی نیوز، کولکاتا، 21-5-23)
موت کا جس پہ اختیار نہیں
ہم نے وہ زندگی بھی دیکھی ہے
واضح ہو کہ قیصر
شمیم کی نصف درجن سے زائد تصانیف و تالیفات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ متفرق
درسی کتابیں اور تراجم بھی ان کے حصے میں ہیں۔ ان چند قابل ذکر تخلیقات و ادبی
خدمات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سال 1971 میں ’ساعتوں کا سمندر‘، 1989 میں
’اردو ادب پر ذرائع ترسیل عامہ کے اثرات‘، 1996 میں ’تری دھارا‘، 1997 میں ’سانس کی
دھارا‘، 1998 میں ’پہاڑ کاٹتے ہوئے‘، اور 2020 میں ’زمین چیختی ہے‘،نایاب تحفہ ٔ
ادب ہیں۔ یہ حلقہ ٔ ادب میں داد و تحسین وصول کرتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ سال
1974 میں حضرت والا کے نام’دھند اور کرن‘- (شمس صابری صاحب کے افسانوں کی تدوین و
ترتیب) کی تالیف بھی ہے۔ ادبی تاریخ ہے کہ بارکپور سے مدیر محترم اختر بارکپوری کی
ادارت اور مرتب فراغ روہوی (مرحوم) کی مشترکہ کاوشوں سے ’دھنک رنگ‘ جذبوں کا
نمائندہ، کتابی سلسلہ ’دستخط ‘ بارکپور نے’قیصر شمیم نمبر‘ کی کامیاب اشاعت کی۔
واضح ہو کہ 1999 میں ہگلی گورنمنٹ ہائی مدرسہ(ہائر سکنڈری) کے ہیڈماسٹر محترم ناصر
علی انصاری نے ’قیصر شمیم کا ادبی شعور‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر بابا بھیم
راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، مظفر پور (بہار) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے ڈاکٹر
ناصر علی بنے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر غلام جیلانی نے بھی قیصر شمیم کی حیات وخدمات پر
تحقیقی مقالہ لکھ کر جموں یونیورسٹی، جموں کشمیر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کرنے
کے لیے باور کیا۔ نتیجے میں 2020 میں ’قیصر قیصر ِ ادب‘ نامی کتاب بھی منظرعام پر
آئی۔ متذکرہ تحقیقی مقالوں میں موصوف کی تخلیقی، نثری اور شعری ذخیرہ ٔ ادب پر سیر
حاصل گفتگو موجود ہے۔ موصوف کے کئی اچیومنٹ میں ایک اہم یہ بھی ہے کہ قیصر شمیم
صاحب مئی 2002 تا اگست 2005، مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے۔
مگر رعب داری اور زعم برتری سے بعید سادگی پسنددیکھے گئے۔واقعی ایسے بڑے لوگ بڑے
ہوتے ہیں۔ ان کی طرز رہائش، گزر بسر اور شعری خدمات سے جگ ظاہر ہوا کہ موصوف نے
شاعری محض کیا ہی نہیں بلکہ جیا بھی ہے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے ہی ایک شعر میں یوں
کہا ہے ؎
سبز موسم سے مجھے کیا لینا
شاخ سے اپنی جدا ہوں بابا
وہی پیاس کا منظر
وہی لہو قیصر
ہنوزپھرتی ہے کوفے کی نہر آنکھوں میں
قیصر شمیم صاحب خاندانی شریف النفس تھے۔ وضع داری اور
خاندانی رکھ رکھاؤ آپ کی سرشت میں شامل تھی۔ آپ اپنوں کی سازشوں کے شکار بھی
ہوئے اور کم علم و بد اخلاق لوگوں سے نبردآزما بھی رہے۔ بعض اوقات اقارب کے توتا
چشم ہونے پر کبیدہ خاطر ہونا فطری عمل ہے مگر جب ان سخت گیر مراحل سے ان کا گزر
ہوا تب بھی شرافت کا دامن تھامے نظر آئے۔ کیونکہ ان کی گھٹی / سرشت میں بوئے عشق
و محبت تھی۔ یہی وجہ ہے تاعمرموصوف سراپا سیکولر محبت کی صورت مورت بنے رہے۔ ورنہ اب تو عشق و محبت نیز اخلاص ومحبت میں بھی
تنگ ذہنی اور تعصب کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ متذکرہ بالا باتوں کے مدنظر قیصر شمیم
صاحب کے متفرق اشعار سے محظوظ ہوں
؎
ہوئے نہیں کبھی آمادہ
ترکِ وفا پر
قیصر یہی ایک چیز تو گھٹی میں پڑی ہے
خفا ہوئے بھی کسی سے تو کیا کیا ہم نے
بہت ہوا
تو رہا دل کا قہر آنکھوں میں
سازشیں اپنوں کی یاد آئیں گی
کیا کہوں کس کس کو پرایا دیکھا
کوئی گلہ تو نہیں پھر بھی گردش دوراں
کسی کا آنکھ بدلنا ہمیں
کو ہے معلوم
حضرت قیصر شمیم نے ویسے تو سماج و معاشرے کے تقریباً ہر
مسئلے کو اپنے قلم اور اپنے کلام کے ذریعے اجاگر کیا۔ نسلی تفاوت، سماجی گھٹن،
طبقاتی شعور، جذباتی ناآسودگی، معاشرتی درجہ بندی اور نفسیاتی عوامل کے پس منظر میں
تحریر کردہ ان کی تخلیقات متوستط طبقے کی نمائندگی کرنے کے ساتھ اعلیٰ طبقے کی قلعی
بھی یوں کھولتی ہیں ؎
میرے عہد کے انسانوں کو پڑھ لینا کوئی کھیل نہیں
اوپر سے ہے میل محبت،اندر سے ہے کھینچاؤ بہت
لفظ کی سطح سے گہری ہیں بہت سی باتیں
ہم بھی کچھ عرض کریں کوئی سخن فہم تو ہو
ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ چاند میں کوئی داغ نہ ہو
جس میں ہوگی کچھ بھی خوبی، اس میں ہوگی خامی بھی
چلوں زمانے کے ہمراہ کس طرح قیصر
ہمیشہ رہتا ہے میرا ضمیر میرے ساتھ
توقعات کے مطابق قیصر شمیم متعدد اعزازات و انعامات سے
بھی نوازے گئے، جن میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ایوارڈ
(1996)، بنگلہ رسالہ’ابھینواگرنی،سنیہہ لتا چودھری میڈل(1997)، ’سانس کی دھار‘پر
مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا انعام (1997)، ’پہاڑ کاٹتے ہوئے‘پرمغربی بنگال اردو اکیڈمی
کا انعام(1998)،بھارتیہ بھاشا پریشد کلکتہ کا سلور جبلی اعزاز(1999)وغیرہ اہم ہیں ؎
ہمارے جسم کو موجیں نگل
گئیں قیصر
کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا
Ali Shahid Dilkash
Vill.: Harinchawra, P.O: Ghughumari
Cooch Behar- 736170 (West Bengal)
Mob.: 8820239345
alishahiddilkash@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں