11/7/25

جدید ہندی شاعری پر اردو کا اثر، مصنف: نریش

 اردو دنیا، مارچ 2025

اردو کے چھندوں اور اردو کی لفظیات کے علاوہ جدید ہندی شاعری نے اردو کی علامتوں کو بھی اپنایا ہے۔ علامت کے لغوی معنی نشان ہیں۔ علامت لفظ کا استعمال کسی ایسی مرئی یا غیرمرئی چیز کے لیے کیا جاتا ہے، جو کسی مرئی یا غیرمرئی شے کو اپنی مشابہت کی بدولت قائم کرتی ہے۔ علامت کے متعدد معانی ہوسکتے ہیں۔ اس لفظ کے کثیر المعانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علامت لفظ ایک   نفوذ پذیر لفظ ہے۔ ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں لفظِ علامت کا استعمال مختلف انداز میں ہوتاہے۔ ہماری سماجی یا سیاسی زندگی میں کوئی رنگ، کوئی شکل یا کوئی نشان علامت کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی ادارے کا کوئی تجارتی نشان، کسی سماج کا کوئی سکّہ یا کسی ملک کا پرچم اس کی علامت بنتا ہے۔ مذہبی زندگی میں کوئی پتھّر یا کوئی بت خداوندِ اقدس کی علامت کے طور پر عبادت کے لائق بن جاتا ہے۔ ادب کے حلقے میں کسی جذبے یا کسی خیال کی نمائندگی کرنے والے الفاظ کو علامت کہتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مردے کے بارے میں کہا جائے کہ ’’پنچھی اُڑ گیا اور پنجرا خالی ہے‘‘ تو یہاں پر پنچھی روح کی اور پنجرا جسم کی علامت کہلائے گا۔1

اردو کی علامتیں

اپنے جذبات و خیالات کو موثر طریقے سے بیان کرنے کے لیے شعرا علامتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ کسی غیرمرئی چیز سے قاری یا سامع کو متعارف کرانے کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ شاعر کسی مرئی چیز کو بطور علامت پیش کرے۔ شاعری میں علامتوں سے کام لینے کا سلسلہ ویدوں کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ جدید ہندی شاعری کو علامتوں کا راستہ عہدِ وسطیٰ کی شاعری نے دکھایا ہے۔ بھگتی ادب میں تو بے شمار علامتیں موجود ہیں بلکہ عالم یہ ہے کہ اگر بھگتی ادب میں سے علامتوں کو خارج کردیا جائے تو تمام ادب عامیانہ ہوکر رہ جائے گا۔ اس کے باوجود جدید ہندی شاعری میں بعض ایسی علامتیں شامل ہوگئی ہیں، جو پہلے سے ہندی ادب میں موجود نہیں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ علامتیں ہندی نے اردو سے مستعار لی ہیں۔ اردو شاعری میں مستعمل تمام علامات کی فہرست تیار کرنا نہ تو یہاں مقصود ہے، نہ مناسب، تاہم ان علامات پر غور کرنے کی گنجائش ضرور ہے، جو جدید ہندی شاعری نے اردو سے حاصل کی ہیں۔ ان کو ہم تین حصّوں میں تقسیم کرکے دیکھ سکتے ہیں — تہذیبی علامتیں، سماجی علامتیں اور مذہبی علامتیں۔

تہذیبی علامتیں

تہذیب سے یہاں پر ہماری مراد اسلامی تہذیب ہے۔ اسلام کا نزول چونکہ عرب میں ہوا تھا، اس لیے وہاں کے تہذیب و تمدن کی جھلک اردو ادب میں دکھائی دیتی ہے۔ اونٹوں پر سامان لاد کر قافلوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا عربی تہذیب کا جزولاینفک رہا ہے۔ عام طور پر عرب کی اسلامی تہذیب کی شناخت چار چیزوں سے کی جاتی ہے۔ یہ ہیں — چراغ و مسجدو مینار و منبر۔

ان کا ہندی میں استعمال

جدید ہندی شعرا نے عربوں کی خانہ بدوش زندگی سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اسے نقل مکانی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

یادوں کے اونٹوں پر بیٹھا وہ قافلہ لیے پھرتا ہے 2

***

گھنٹیاں قافلوں کی سننا چاہتا ہوں میں3

اسلامی تہذیب کی شناخت بنے نشانات کا ہندی شاعری میں استعمال ملاحظہ کیجیے:

یہ روضے مینار مقبرے راج بھون رتنوں سے منڈِت4

***

تن کا دِیا پرشن کررہا من کی بنی ایک درگاہ سے 5

***

میں کسی قبر کا جلتا اپورن سہاگ ہوں6

مندرجہ بالا مصرعوں میں روضے، مینار اور مقبرے اسلامی تہذیب کی علامتیں بن کر اپیندرناتھ اشک کو وہاں پر لے گئے ہیں جہاں پر مسلم آبادی اکثریت میں ہے تو ویریندر مشر نے دِیے کو تنفس کی اور درگاہ کو روح کی علامت بنایا ہے۔ نیرج نے بھی دِیئے کو بے قرار روح کی علامت بنایا ہے۔

مذہبی علامتیں

شیطان سے متعلق مفروضہ کے بارے میں ہم آگے چل کر تفصیل سے بات کریںگے۔ یہ لفظ بنی آدم کی دشمنی کی علامت ہے۔ ہم اس کو علامتی روایت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ ہندی شاعری میں شیطان کو ہر جگہ پر علامت ہی بنایا گیا ہے، اس لیے ہم اس کو روایت کے زمرے میں نہیں رکھ رہے ہیں۔ اردو شاعری میں بھی شیطان کو گمراہ کن کی علامت کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔

اسی طرح سے قرآن میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک بار حضرت موسیٰ نے خدا کا دیدار کرنا چاہا اور اس کے لیے بار بار استدعا کی۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور نور کی شکل میں خدا طور نامی پہاڑ پر اتر آیا مگر خدا کی تجلّی کی تاب نہ موسیٰ لاسکے اور نہ کوہِ طور ۔ موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑے اور طور جل کر سرمہ ہوگیا۔ اردو شاعری میں نور کو ربانی تجلّی کی علامت کے طور پر اور طور کو سعیِ ناکام کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

ان کا ہندی میں استعمال

یہ علامتیں بھی براہِ راست اردو ہندی کے ایوانِ شاعری تک پہنچی ہیں۔ جدید ہندی شاعری میں بطور علامت شیطان کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

شیطان ابھی تک تیرے سر پر بیٹھا ہے7

***

ـوہ نہیں خدا کا وہ شیطاں کاکرتب8

***

ایک نے شیطان پوجا مل گیا بھگوان بھی

ایک نے انسان پوجا جل گیا ایمان بھی9

نور اور طور کی علامتیں ملاحظہ کیجیے:

نور ایک وہ رہے طور پر یا کاشی کے دوار میں10

***

پیغمبر امر محمد کے خاموش نور تم نسسمبھرم11 

ان دونوں مصرعوں میں نور کو فیضانِ الٰہی کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

سماجی روایتیں

تہذیبی اور مذہبی علامتوں کے علاوہ بعض ایسی چیزیں بھی بطور علامت جدید ہندی شاعری میں درآئی ہیں، جن کا تعلق مسلم معاشرے سے ہے۔ شراب ایک زمانے میں ایرانیوں کی مرغوب مشروب رہی ہے۔ اسلام نے اگرچہ شراب نوشی کو ممنوع قرار دے دیا لیکن ادب میں سے شراب کو بے دخل نہ کیا جاسکا۔ اردو شاعری میں شراب کبھی دنیاوی عیش و عشرت کی علامت بنی ہے تو کبھی نشۂ معرفت کی۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی میں کبھی شراب کو چھوکر بھی نہ دیکھنے والے امیرمینائی نے شراب پر دل میں اُتر جانے والے شعر کہے ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور میں غلاموں کی خرید و فروخت عام بات تھی۔ حضرتِ یوسف کو بھی غلاموں کی منڈی میں بیچا گیا تھا۔ انسانی زندگی کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان ہی انسان کو خریدے اور اس کا مالک بن بیٹھے لیکن ملکیت تو فقط جسم پر ہوسکتی ہے، کسی کے دل پر تو پہرا نہیں بٹھایا جاسکتا۔ غلامی کی وجہ سے محرومی و ناکامی کے عذاب میں سے گذر رہے دلوں کے احساسات کو قفس، آشیانہ اور برق کی علامتوں کے ذریعے زبان دی گئی ہے۔ قفس، قید و بنداور انسان کی مجبوری کی علامت بنا تو آزادی اور سکون کی علامت آشیانہ کو بنایا گیا۔ اسی طرح برق کو غیظِ الٰہی کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

عشقیہ جذبات کے اظہار کے لیے شمع اور پروانہ کی علامتیں اردو شاعری میں بہت کامیاب رہی ہیں۔ شراب کی طرح شمع و پروانہ کو بھی مجازی اور حقیقی دونوں طرح کے عشق کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف شمع حسنِ معشوق کی آتشزنی اور اس کی بے نیازی کی علامت بنی، وہیں دوسری طرف پروانہ عاشق کے عشقِ صادق اور اس کی جاں نثاری کی علامت بنا۔

ان کا ہندی میں استعمال

مغربی تہذیب کے زیرِ اثر عیش پرستی کے متمنّی ہندوستانی نوجوان اپنی قدیم روایات اور سماجی اقدار سے کنارہ کشی کرنے لگے تھے۔ انگریزی تعلیم نے ان اعتقادات و اقدار کو کمزور بنادیا تھا۔ادھر اردو شاعری میں محفل جمی ہوئی تھی۔ ساقی کا جلوہ کارفرما تھا۔ جامِ مے گردش میں تھا۔ میکش مستی میں جھوم رہے تھے۔ پرہیزگاروں پر پھبتیاں کسی جارہی تھیں۔ ایسے میں شراب اور ساقی سے مفر کہاں ممکن تھا۔ لہٰذا چھایاواد کے نصف آخرمیں ہندی شعرا ہالا(شراب) اور مدھوبالا (ساقی) کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ اپنی شُدبُد ہی بھول گئے۔ اوصافِ کردار طاق پر رکھ دیے گئے۔ یہاں تک کہ خدا کی خدائی پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ مے و مینا کے ساتھ اردو شاعری کا تو چولی دامن کا ساتھ تھا ہی، ہندی شعرا بھی اس میدان میں ان سے پیچھے نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھایا وادی دور ہی میں مے سے بھری صراحیوں اور چھلکتے ہوئے جاموں کے ساتھ میکش بھی مے خانوں میں نظر آنے لگے۔12

یہاں پر ایک خام خیالی کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ہندی شاعری میں شراب کے تعلق سے جو علامتیں مروّج ہوئیں، اس کا سبب اردو کا اثر نہیں تھا بلکہ سنسکرت کے سوم رس کا اثر تھا۔ یہ حضرات شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اردو میں بھی شراب کو وہی درجہ حاصل رہا ہے، جو سنسکرت میں سوم رس کو حاصل رہا ہے۔اردو میں سوم رس کو شرابِ طہور کہا گیا ہے۔ جیسا پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے، اردو شاعری میں شراب کو مجازی معنی میں بھی علامت بنایا گیا ہے اور حقیقی معنی میں بھی۔ یہ غلط فہمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب شراب کے مجازی معانی ہی کو ملحوظِ نظر رکھا جاتا ہے اور اس کے عارفانہ معانی نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ جدید ہندی شاعری میں شراب کو بطور علامت جس طرح سے بھی استعمال کیا گیا ہے، وہ ہرگز سنسکرت شاعری کے اثر کا نتیجہ نہیں ہے، اردو کے اثر کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ سنسکرت میں سوم رس کے ذکر میں مے خانہ اور محفل سرے ہی سے خارج ہیں جبکہ اردو شاعری میں شراب کے ساتھ ساقی، پیرمغاں، جام و مینا اور محفل بہرصورت موجود ہیں۔ جدید ہندی شعرا نے اس پورے منظرنامے کو اپنی شاعری میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

میں نے کب دیکھی مدھوشالا

کب مانگا مرکت کا پیالہ

کب چھلکی وِدرُم سی ہالا

میں نے تو ان کی سَمِت میں

کیول آنکھیں دھو ڈالیں13

بعض دوسرے شعرا کے یہاں بھی شراب سے متعلق علامات ملاحظہ کیجیے:

مادکتا سے آئے تم سنگیا سے چلے گئے

ہم ویاکل پڑے بلکھتے تھے اترے ہوئے نشے سے14

***

پینے کا مزہ تو ہے تبھی اے ساقی

میخانہ سبھی جھومے مگر سوئے نہیں15

***

میں بنا ہوا تھا ساقی میں ہی تھا پینے والا16

***

نہیں چاہ  مدِرا کی ساقی کیا ہوں گے یہ پیالے17

***

زندگی صراحی ہے ساقی ہے

دور ابھی ایک اور باقی ہے18

***

اور پھر یہ آج کا گانا کہ محفل ہے جمی19

اسی طرح سے طائر، پنجرا، آشیانہ اور برق کی علامتوں کا استعمال ہندی شاعری میں ہواہے۔ ملاحظہ کیجیے:

کیا ہوائیں تھیں کہ اجڑا پریم کا وہ آشیانہ20

***

تھکی بیڑی قفس کی ہاتھ میں سو بار بولی21

***

گلچیں نِشٹھر پھینک رہا کلیوں کو توڑ انل میں22

***

زندگی کے پنجرے میں بند ہے مجبور پکشی23

***

بجلیاں دل پر گرا کر جھک گئے چنچل پلک دل24

***

نِیڑ ترِن جب جب بنا آندھی قفس بُنتی رہی25

***

جانتی ہیں بجلیاں گرانا مگر نِیڑ کس کا جلا وہ نہ یہ جانتیں26

عاشق و معشوق کے لیے شمع و پروانہ کی علامتوں کا استعمال ملاحظہ کیجیے           ؎

دیپ اور پتنگے میں فرق صرف اتنا ہے

ایک جل کے بجھتا ہے ایک بُجھ کے جلتا ہے27

***

یہ جلتی شماعیں یہ بکھری دعائیں

پتنگا بچارا جلا جا رہا ہے

کہ دیپک کا دامن چھلا جا رہا ہے28

***

اے پروانے دھیرے دھیرے

ہم بھی اب جلنا سیکھ گئے29

***

او  شوق کے  پروانو

ذرا  ٹھہرو

یہ  شمع نہیں ہے

وہ  داغ ہے صرف 30

اردو زبان ، اردو چھندوں اور علامتوں سے تو صرف ہندی شاعری کا جسم ہی متاثر ہوا تھا لیکن جب اردو کی شعری روایات ہندی شاعری میں ضم ہونے لگیں تو اردو شاعری ہندی کے وجود میں داخل ہوکر اس کی روح کو متاثر کرنے لگی۔اردو کی شعری روایات کو اپنا کر تو ہندی شعرا گویا اردو شاعری کی روح تک پہنچ گئے اور انھوں نے اس کو چھوکر دیکھ لیا۔ جیسا ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں، اردو شاعری پر فارسی شاعری کا بہت گہرا اثر پڑا ہے، اس لیے اس کی اکثر شعری روایات بھی فارسی ہی سے آئی ہیں۔ جدید ہندی شاعر ی میں بھی ہندی شعرا نے ایسی روایات کو اپنی شاعری میں جگہ دی تھی لیکن تب یہ روایات اردو سے نہیں بلکہ براہِ راست فارسی سے ہندی میں آئی تھیں۔ مثلاً رحیم کا ایک دوہا ہے       ؎

جکیہاری جوبن لیے ہاٹ پھرے رس دیت

اپنا مال￿ن چکھائی کے رکت آن کو لیت

رکت (خون)، مانس (گوشت) قتل وغیرہ ہندی یا سنسکرت کی روایات نہیں ہیں، یہ فارسی ہی سے ہندی میں آئی ہیں۔ جدید ہندی شعرا فارسی کے بجائے اردو کے زیادہ قریب رہے ہیں، اس لیے انھوں نے شعری روایات اردو ہی سے حاصل کی ہیں۔

 

 

حواشی

.1            گنپتی چندر گپت: ساہتک نبندھ، 1960 ، اشوک پرکاشن، دہلی، ص326

.2            ماکھن لال چترویدی: بیجوری کاجل آنج رہی، 1964 ، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص49

.3            سرویشور دیال: کاٹھ کی گھنٹیاں، 1959 ، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص 26

.4            اپیندر ناتھ اشک: چاندنی رات اور اجگر، 1952، نیلابھ پرکاشن، الہ آباد، ص44

.5            ویریندر مشر: لیکھنی ویلا، 1958، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص 85

.6            گوپال داس نیرج: لہر پکارے، 1959 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص 61

.7            ہری ونش رائے بچّن: سوت کی مالا، 1948، سینٹرل بک ڈپو، الہ آباد، ص 40

.8            بھگوتی چرن ورما: رنگوں سے موہ، 2019 بکرمی، بھارتی بھنڈار، الہ آباد، ص82

.9            جیون پرکاش جوشی: آگ اور آکرشن، 1962 ، ہندی ساہتیہ سنسار، دہلی، ص 45

.10         رام دھاری سنگھ دنکر: دوَند گیت، شری اجنتا پریس، پٹنہ، ص 63

.11         تنمے بکھاریہ: میرے باپو، 1951، بھارتیہ گیان پیٹھ، کاشی، ص67

.12         ہرناراین سنگھ: چھایاواد کاویہ تتھا درشن، 1964 ، گرنتھم، کانپور، ص 425

.13         مہادیوی ورما: نیرجا، 2013 بکرمی، بھارتی بھنڈار، پریاگ، ص 53

.14         جے شنکر پرساد: آنسو، 2003 بکرمی، بھارتی بھنڈار، پریاگ، ص33

.15         گوپال داس نیرج: مکتکی ، 1960 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص62

.16         بھگوتی چرن ورما: پریم سنگیت، 1949، وشال بھارت بک ڈپو، کلکتہ، ص 40

.17         شری من ناراین: رجنی میں پربھات کا انکُر، 1962 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ،ص40

.18         موہن لال گپت: عربی نہ فارسی، 1958 ، مدھوپرکاشن، بنارس، ص27

.19         اجت کمار: اکیلے کنٹھ کی پکار، 1958 ، راج کمل پرکاشن، دہلی، ص11

.20         ہری ونش رائے بچّن: آدھونک کوی، 1983 ، ہندی ساہتیہ سمیلن، پریاگ، ص 70

.21         رام دھاری سنگھ دنکر: ہنکار، اُدیاچل، پٹنہ، اشاعتِ سوم، ص 32

.22         ایضاً: ص62

.23         ہری کرشن پریمی: روپ درشن، 1951 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص83

.24         ایضاً: ص47

.25         گوپال داس نیرج: پران گیت، 1961 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ص83

.26         روپ ناراین ترپاٹھی: ون پھول، 1962 ، گیتاین، پریاگ، ص66

.27         گوپال داس نیرج: مکتکی، 1960 ، آتمارام اینڈ سنز، دہلی، ص 52

.28         شِومنگل سنگھ سُمن: پر آنکھیں نہیں بھریں، راجکمل پرکاشن، دہلی، ص10

.29         للت گوسوامی: میرے گیت، 1958، آتمارام اینڈ سنز، دہلی ، ص8

.30         شمشیر بہادر سنگھ: کچھ اور کویتائیں، 1961 ، راجکمل پرکاشن، دہلی، ص62

 

ماخذ: جدید ہندی شاعری پر اردو کا اثر، مصنف: نریش، پہلی اشاعت: 2017، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

جدید ہندی شاعری پر اردو کا اثر، مصنف: نریش

  اردو دنیا، مارچ 2025 اردو کے چھندوں اور اردو کی لفظیات کے علاوہ جدید ہندی شاعری نے اردو کی علامتوں کو بھی اپنایا ہے۔ علامت کے لغوی معنی نش...