اردو دنیا، مارچ 2025
برِّصغیر میں چھوٹے بچوں کو لوری سنانے کی روایت بہت ہی
پرانی ہے لیکن جب دنیا میں لوری کی تعریف کو کھنگالا گیا تو پتہ چلا کہ اس کا
آغازتقریباًچار ہزار قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا:
’’ماہرین
کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی اور دو
ہزار قبل مسیح میں یہ لوری مٹّی کے ایک
چھوٹے ٹکڑے پر تحریری کی گئی تھی جو کھدائی کے دوران ملا ہے اس ٹکڑے کو لندن کے
برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ہتھیلی میں سما جانے والے مٹّی کے اس ٹکڑے پر موجود
تحریر کیونی فارم (cuneiform)اسکرپٹ
میں ہے جسے لکھائی کی ابتدائی اشکال میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔‘‘
(لوری
کی آفاقی زبان،مشمولہ : بی بی سی اردو،یکم جنوری 2013)
ہم اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں کہ عورتیں اپنے روتے
ہوئے بچوں کو چپ کرانے کے لیے کچھ لفظ اپنی زبان سے ادا کرتی ہیں۔جیسے ہو ہو لالا
وغیرہ اور ماں اپنے بچے کو خوش کرنے کے لیے کبھی کبھی جھوٹی باتیں اور دلاسے بھی دیتی
ہے۔وہ سب لوری کا حصہ ہیں۔مثلاً ؎
سوجا بابوسوجا تمھارے ابّو آئیں گے
تمھیں سینے
سے لگائیں گے
خوش
ہو جائیں گے
لوری لوک گیت ہے جس کا وزن، بحر، تکنیک یا ہئیت نہیں
ہوتی مگر اس کو پڑھنے اور سننے والے کو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ وہ لوک گیتوں
کی صنف لوری پڑھ اور سن رہا ہے۔کیوں کہ اس گیت میں ماں کی ممتا کے ایسے جذبات کی
خوشبو ہوتی ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو متاثر کر دیتی ہے:
’’لوری
کے ذریعے بچہ پہلی بار اپنی مادری زبان کی مٹھاس اور موسیقی سے مانوس ہوتا ہے۔‘‘
(قمر
رئیس، مرتبہ: اردو میں لوک ادب،سیمانت
پرکاشن،نئی دہلی، 1990،ص 9)
لوری بچے کو سلانے اور روتے بلکتے چہرے پر مسکراہٹ لانے
کے لیے گائی جاتی ہے۔بچے میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ لوری کے الفاظ اور معنی سے
پوری طرح واقف ہو مگر جذبات و احساسات اور ردم اور ترنم کے سمندر میں ڈوب کر وہ نیند
کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔لوری صرف میٹھی پُرسکون نیند کا ہی ذریعہ نہیں ہے بلکہ
بچوں کے لیے ان کا مستقبل سنوارنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ لوریوں کے ذریعے بچے کو
بڑے ہوکر کیا کیا بننے کی ترغیب دی جاتی ہے:
’’نفسیاتی
نظریے کے مطابق لوری بچے کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے ایک مرکز پر لے آتی
ہے لوری کی لیے پر اس کا ذہن نہ صرف مرکوز ہوتا ہے بلکہ اسے یہ خوش گوار احساس
ہونے لگتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔‘‘
(معزّہ
ابراہیم قاضی،اردو میں منظوم عوامی ادب اور لوریاں، غزالی پرنٹرس، 2007،ص 72)
بچہ فطری طور پر منظوم ادب میںبھی دلچسپی اس وقت لیتا
ہے جب اس میں دلچسپی اور کشش موجود ہوتی ہے اس لیے لوریوں میں صوتی اعتبار سے ماں
باپ یا کوئی رشتے دار،دادی نانی وغیرہ کی سریلی آواز درکار ہوتی ہے۔
ماں اور بچے کے درمیان لوریوں کی پرانی تاریخ ہے اور
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں تال اور لیَ کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی
ہے۔ بچہ جب مترنم آوازیں سنتا ہے تو روح افزایا فرحت بخش ماحول محسوس کرتا ہے اور
چپ ہوجاتا ہے اور اسے سرلیے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس کے تخیلات میں تیزی سے ترقی
ہوتی ہے اور وہ خیالی دنیا میں اڑان بھرنے لگتا ہے۔ لوری کے ذریعے بچے کے جذبات و
احساسات کی جو روشنی نصیب ہوتی ہے اس روشنی میں اس کی تربیت ہوتی ہے جو تاعمر اس
کے لیے ناقابل فراموش بنتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے زیادہ تر حصوں میں جو لوریاں سنائی
جاتی ہیں ان میں چاند یا چندا ماما کا ذکر ہوتا ہے اور چندا ماما دور کے ایک مقبول
لوری ہے۔چند سطریں ملاحظہ ہوں ؎
چندا ماما دور کے
کھوئے پکائے دودھ کے
آپ کھائے تھالی میں
منیّ کو دیں پیالی میں
پیالی گئی ٹوٹ
منّا گیا روٹھ
نئی پیالی لائیں گے
منّے کو منائیں گے
اگر چہ اس لوری کے تخلیق کار کا نام نہیں معلوم لیکن اس
کی غنائیت صوتی آہنگ اور معنویت آوازوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر جو جادوئی کیفیت پیدا
کرتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس لوری کو کسی ذہین شخص نے تخلیق کیا ہے۔
کیف احمد صدیقی عام روایتی لوری میں بیان کردہ ’چندہ
ماما‘ کی جگہ بچے کو خواب میں پریوں سے ملایا ہے اور اس کی زبانی دلکش ترانے سنائے
ہیں ؎
’’سو
جا میرے دل کے ٹکڑے سو جا میری جان
تو ہے مجھ کو جان سے پیارا تجھ پر میں قربان
سپنوں کی نگری میں بلائے تجھ کو نندیا رانی
چاند دیش میں جاکر تجھ کو کرتی ہے مہمانی
ساری رات تھے ہونا ہے پریوں کا مہمان
سو جا میرے دل کے ٹکڑے سو جا میری جان ‘‘
(کیف
احمد صدیقی،اردو میں بچوں کا ادب، نصرت پبلشرس، امینہ باد لکھنؤ،1989،ص 287)
اس لوری میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک ماں کے دل میں
اپنے بچے کے لیے پیار کے جذبات ہوتے ہیں اور کس طرح وہ اس کے بہتر مستقبل کے سپنے
دیکھ رہی ہے۔
اردو ادب میں جن لوریوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی
ہے ان میں سے بہت سی لوریا ں ایسی ہیں جو لوری کی حدوں سے آگے نکل جاتی ہیں اور
نظم کے دائرے میں شامل ہو جاتی ہیں لیکن ان کا اسلوب اور لہجہ لوری سے قریب کرتا
ہے۔
معزہ ابراہیم قاضی نے اپنی کتاب ’اردو میں منظوم عوامی
ادب اور لوریاں ‘میں کئی ایسی لوریاں شامل کی ہیں جن کے تخلیق کاروں کے نام معلوم
نہیں ہیں اور بہت سی ایسی لوریوں کو بھی قلم بند کیا ہے جس کے تخلیق کار کا نام
دستیاب ہے۔
مثال کے طور پر’’ احمد منشی‘‘ کی لکھی ہوئی یہ لوری
ملاحظہ فرمائیں ؎
اللہ نبی کے جائوں میں واری
لعلوں سے میں نے جھولا سنواری
پیارے کی آنکھوں میں آئی خماری
صدقے میں تیرے صورت ہے
پیاری
آئو سہاگن جھولا جھلانے
نور نظر کو اپنے منانے
مختلف زبانوں میں لوریاں
معاشروں میں تنوع کے باوجود ان کی لوریوں میں مماثلت
پائی جاتی ہے۔دنیا میں آپ جہاں چلے جائیں مائیں ایک ہی دھن استعمال کرتی ہیں اور
ایک ہی طریقے سے اپنے بچوں کے لیے گیت گاتی ہیں۔ بہت سی لوریاں چند ہی الفاظ پر
مشتمل ہوتی ہیں جنھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں مختلف زبانوں میں ایسی
لوریا ں بھی ملتی ہیں جو ایک دو مصرعوں کی ہی ہوتی ہیں مگر جب مائیںان کو باربار
پڑھتی ہیں تو وہ بھی ایک سما باندھ دیتی ہیں۔لوریوں کے بول بے مقصد اور فضول نہیں
ہوتے ان کے الفاظ سادہ اور عام فہم ہوتے ہیں۔
پنجابی زبان میں اسے’لوری‘اور پشتو میں ’اللہ ہو‘ کہا
جاتا ہے۔پشتومیں اسے اللہ ہو اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس گیت کے آخر میں وہ ’اللہ
ہو‘ کے الفاظ لاتے ہیں جس کے معنی سو جا کے ہی ہیں۔سندھی بلوچی اور براہوی زبانوں میں
بھی اسی انداز سے لوری سنائی جاتی ہے ان کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان میں بھی لوری کا
یہی انداز رائج تھا۔
ہندی کی لوریاں
ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں لوریاں سنائی جاتی ہیں۔
ہندی ادب نے لوریوں کو سنوارنے میں ایک اہم کام انجام دیا ہے۔مثلاً ؎
سوجا میری بٹیا رانی /سو
جا راج دلاری
سویا چاند سوئے تارے
نیل گگن کے پنچھی سارے
رنگ برنگی تتلی سوئی
پھولوں کی پھلواری ،سوجا راج دلاری
نبھ سے اترا اڑن کھٹولا
نیند پری نے گھونگھٹ کھولا
سپنوں کی شہزادی لائی
جادو بھری پٹاری /سو جا راج دلاری
لوری میں آئی پریوں کی رانی،نیند کی راج کماری اور
سپنوں کا اڑن کھٹولا وغیرہ ایک طرف جہاں بچوں کو جلدی سونے کے لیے اکساتے ہیں وہیں
دوسری طرف ان کے دماغ کے تخیل کو تیز کرتے ہیں۔
ہندوستانی فلموں میں لوریاں
ہالی ووڈ کی زیادہ تر فلموں میں گانے نہیں ہوتے جبکہ
ہندوستانی سنیما گانوں اور موسیقی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ہالی ووڈ میں موسیقی کی
ایک متوازی دنیا ہے، جبکہ ہندوستان میں سنیما اور موسیقی کا تعلق اتنا قریب ہے کہ یہ
خطے روایت اور ثقافت کے دائروں کو ایک سمندر میں ضم کر دیتا ہے۔جو ثقافتی اتحاد کا
پیغام ہے۔لوریوں کا استعمال فلموں میں پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے،
مثلاً ؎
(1)
منّا بڑا پیارا
امّی کا دلارا
کوئی کہے چاند
کوئی آنکھ کا تارا
فلم: مسافر
(1957)، گیت کار :کشورکمار
(2)
ننھی کلی سونے چلی ہوا دھیرے آنا
نیند بھرے پنکھ لیے
جھولا جھلانا
فلم:سجاتا (1959)،
گیت کار :گیتا دت
(3)
آری
آجا نندیا
لے
چل کہیں اڑن کھٹولے میں
دور دور یہاں سے دور
فلم:کنوارا باپ (1974)، گیت کار : کشور کمار
(4) آجا
ری نندیا آ
ننھی
سی آنکھوں میں آ
چپ
کے سے آ چوری سے آ
فلم: مان اپمان (1979)، گیت کار : لتا منگیشکر
(5) آہستہ
آہستہ نندیا تو آ
ان
دو نینوں میں
ہلکے سے ہولے سے
کچھ
سپنے بھولے سے
فلم: سودیش
(2004)، گیت کار: ادت نارائن
(6) چاندنیاں
چھپ جانا رے
چھن
بھر کو لُک جانا رے
نندیا
آنکھوں میں آئے
بٹیا
مری سو جائے
فلم: رائو ڈی راٹھور(2012)، گیت کار : شرِ یا گھوشال
(7) چائو
رو چائو رو
اچھا
پری چائو رو
فلم: میری کام (2014)،
گیت کار : پرینکا چوپڑا
ایک ایسے وقت میں جب ثقافت کی بہت سی تحریریں فراموش ہو
رہی ہیں یہ یقین کہ سنیما اور لوک گیتوں کی مشترکہ دنیا میں بہت کچھ باقی ہے،ایک ایسا
کارنامہ ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
تمام ترقیوں کے باوجود ہماری کچھ ایسی روایتیں آج بھی
مستحکم ہیں جن کی پاسداری ادب و ثقافت سے محبت رکھنے والے کرتے آرہے ہیں۔ ان
ثقافتی اقدار کی ایک زندہ روایت لوریاں بھی ہیں جن کی حفاظت اور اس کی پاسداری
ہماری ذمے داری ہے۔ ہم جدید ٹکنالوجی کا ضرور استعمال کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی
ثروت مند قدروں کو فراموش نہ کریں اور انھیں ثقافتی قدروں کا ایک حصہ ہماری لوریاں
بھی ہیں۔
لوریاں والدین اور بچوں کے درمیان جذباتی تعلق کو مضبوط
کرتی ہیں، ابتدائی تعلیم میں مدد فراہم کرتی ہیں اور بچوں کے سکون و نیند کے لیے
اہم ہوتی ہیں۔
یہ سماجی اقتصادی اور ماحولیاتی تناظر کی عکاسی کرتی ہیں۔زبانی
روایات کے تحفظ میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔ لوریوں کے طبّی فوائد بھی ہیں جو درد،
بے چینی اور اضطراب کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر لوریاں لوک ادب میں کثیرالجہات اہمیت
رکھتی ہیں،جو ثقافتی ورثہ کے تحفظ، جذباتی رشتے اور بچوں کی نشو ونمامیں اہم کردار
ادا کرتی ہیں۔
Tarang Maurya
Research Scholar Ph.D
CUCS MANUU, Hyderabad
Mob: 9305849668
Email: tarangmaurya1512@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں