23/10/19

اردو کی پہلی داستان اور شمالی ہند کی داستانیں: ایک تنقیدی مطالعہ مضمون نگار: سعود عالم


اردو کی پہلی داستان اور شمالی ہند کی داستانیں: ایک تنقیدی مطالعہ

سعود عالم 
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان کا اوّلین دور ادبی نثر سے معرا ہوتا ہے۔ایسا ہی کچھ اردو زبان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔اس میں شک نہیں کہ نثری داستان کے علاوہ اردوزبان کی تمام اصناف کی ابتدا دکن میں ہوئی۔اگرملاوجہی کی ’سب رس‘: 1635 کو اردو کی پہلی داستان مان لیا جائے تو وہ اردو کی پہلی داستان کہلائے گی ورنہ اردو کا باقاعدہ آغاز وارتقا دکن کے بجائے شمالی ہند تسلیم کیا جائے گا۔ اردو کے مشہورمحقق ونقاد پروفیسر گیان چند جین اپنی کتاب ’اردو کی نثری داستانیں‘ میں ’سب رس‘ سے متعلق یوں گویا ہیں کہ ”سب رس ایک نیم عارفانہ تمثیل ہے۔ اسے پڑھتے وقت ہم اس کے کرداروں کو محض اشخاص کا قصہ نہیں سمجھتے بلکہ مجاز کے پردے دور کرکے ان کے معنی کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے سب رس اس معنی میں داستان نہیں جن معنوں میں چاردرویش یا طلسم ہوشربا داستانیں ہیں۔“1
وہ مزید لکھتے ہیں: ”بہرحال ’سب رس‘ کو افسانہ گوئی کا شاہکار بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس کے علاوہ دکن میں اور کوئی ایسی داستان نہیں جس میں ادبیت کے پھول کھلے ہوں۔“2
 اس قول سے واضح ہوجاتا ہے کہ اردو کی ابتدائی اصناف مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، غزل وغیرہ کے برخلاف اردو داستان پوری کی پوری دکن کے بجائے شمالی ہند کی مرہونِ منّت ہے۔دکن میں داستان کا فقدان نثرکے فقدان کا ہم نشیں ہے۔ اس کی شیر خوارگی خانقاہ میں گزری جس کے بعد دربارِ شاہی نے اس کی سرپرستی کی۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کی ابتدائی نثر صوفیائے کرام کے مذہی رسالوں تک محدود ہے۔قطب شاہی اور عادل شاہی سلاطین کے زمانے میں اردو نثرکے راستے میں ایک موڑ ایسا بھی آیا تھا کہ اس کی بھرپور آبیاری ہوسکتی تھی لیکن یہ حضرات خود شاعر تھے اور ان کے پاس شعرائے اردو سے بزم سلطانی آراستہ کرنے کے علاوہ اور کوئی دوسراراستہ نہ تھا، اس لےے یہ حضرات بھی ان سے محض اپنی محفلیں گرما نے کا کام لینا چاہتے تھے۔ تو بھلا ایسے میں نثرکی ترویج وترقی کیسے ممکن تھی؟
شاعری کے مقابلے نثر کی تنزلی کا ایک دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ نثر میں وہ رنگینی، وہ تڑپ، وہ برجستگی کہاں جو شاعری کی مرصع سازی میں ہوتی تھی۔شاعری میں مسند اور اَورنگ کا دل موہ لینے کا ہنر تھا برخلاف نثر کے کہ اُس میں نہ وہ رعنائیاں تھیں اور نہ وہ عشوہ طرازیاں۔ نتیجتاً دکن میں اردو نثر بالکل نظرانداز کردی گئی۔اور وہ وہاں پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے سے قاصر رہی بالٓاخر نثر نے بجائے دکن کے شمالی ہند میں اپنا راستہ ہموار کیا اور شمالی ہند کے اُدبا نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی بھرپور ترویج واشاعت کی۔ اس سے پہلے کہ آپ شمالی ہند کی نثری تاریخ سے روشناس ہوں آپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شمالی ہند میں داستان کی ابتدائی ترویج میں نہ شاہ صاحبان کا ہاتھ ہے نہ بادشاہ صاحبان کا، چند لوگوں کو اگر چھوڑ دیا جائے تو گنتی کے چند گروہ باقی رہ جائیں گے۔ اس لحاظ سے داستان کے فروغ میں جس تحریک کی سب سے زیادہ اہمیت رہی ہے، وہ فورٹ ولیم کالج ہے اوروہ بھی بہت دنوں تک نہ چل سکی۔
 فورٹ ولیم کالج کے تحت اردو کی کئی شاہکار داستانیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے اچھے نثر نگاروں میں میر امن دہلوی مانے جاتے ہیں۔ کلکتہ میں میر امن کے ساتھ کام کرنے والوں میں میر شیر علی افسوس، حیدر بخش حیدری، کاظم علی جوان، نہال چند لاہوری، مظہر علی ولا، مرزا علی لطف، میر بہادر علی حسینی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان میں سب سے زیادہ شہرت کے حامل میر امن دہلوی ہیں جنھوں نے ’نو طرز مرصع‘ کا ترجمہ ’باغ وبہار‘کے نام سے کیا جو خالص دہلوی زبان پر مبنی ہے۔
باغ وبہار کی تاریخی اہمیت وافادیت کوجاننے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے مرجع ومصدر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرلی جائے، جس کی اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت ہے اوروہ رہتی دنیا تک برقرار رہے گی۔اس کے بعد شمالی ہند کی داستانوں کا مختصراً تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔ لہٰذا ایسے میں سب سے پہلے بات ’نو طرز مرصع‘ کی ہوگی۔
’نوطرز مرصع‘ اٹھارویں صدی کی سب سے اہم اردو داستان ہے۔ جس کے مؤلف میر محمد حسین عطا خاں معروف بہ تحسین ہیں۔3
 یہ داستان اٹھارہویں صدی کے آخری دور ہے میں لکھی گئی تھی۔ تحسین نے خود واضح کردیا ہے کہ وہ داستان لکھ کر نواب شجاع الدولہ (المتوفی: 1775) کے حضور میںپیش کرنا چاہتاتھا کہ حیات مستعار نے نواب سے دغا کی۔ بعدہ اس قصّہ کو نواب آصف الدولہ (المتوفی:1797) کے حضور میں پیش کیا۔اِس سے واضح ہوتا ہے کہ تحسین نے اس کتاب کواٹھارویں صدی کے آخری دورہے میں لکھا تھا۔ ہم یہاں پر توثیق کے لیے دونوں کے مقدمہ سے ایک ایک حوالہ پیش کریں گے جس سے اس کے استناد میں مزیدپختگی آئے گی۔
ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی ’نوطرزمرصع‘ کے مقدمہ میں اس کی سنہ تالیف کی تصدیق کچھ اس انداز میں کرتے ہیں: ”ڈاکٹر سجاد نے لندن کی لائبریریوں میں ڈوب کر نہ صرف جنرل اسمتھ کا پتا چلایا بلکہ اس کے سفرکلکتہ کا زمانہ 1768 بھی معلوم کرلیا۔ اس سے یہ طے ہوجاتا ہے کہ ”نوطرز مرصّع کی داغ بیل 1768 میں پڑ چکی تھی۔ تکمیل 1775 میں ہوئی ہوگی۔“4
جبکہ ’باغ وبہار‘ کے مرتب مولوی عبدالحق اپنے مقدمے میں اس کی سنہ اشاعت سے متعلق کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”غرض نواب شجاع الدولہ کی وفات کے بعد انھوں نے یہ کتاب نواب آصف الدولہ کے نام سے معنون کی۔ نواب آصف الدولہ کی تخت نشینی1775 میں ہوئی۔ اس وقت یہ کتاب ختم ہوچکی تھی۔یعنی اس کی تالیف باغ وبہار سے تخمیناً25-30برس پہلے ہوئی تھی۔5
متذکرہ بالا دونوں محققین و مدونین کے بیان کماحقہ ایک جیسی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے تمام طرح کے شکوک و شبہات کی گنجائش رفع ہوجاتی ہے۔
اب جہاں تک اس داستان کے منصہ وجود پر آنے کا سوال ہے تو اس سے متعلق خود تحسین نے لکھا ہے کہ وہ جنرل اسمتھ کی رفاقت میں دریائے گنگ میں بہ سواری کشتی کلکتہ جارہے تھے۔ راستے میں ایک عزیز نے یہ داستان شروع کی۔ تحسین کو خیال ہوا کہ اس داستانِ بہارِستان کو اردو میں لکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس کا ابتدائی حصہ کشتی ہی میں سپرد قلم کیا۔وہ لکھتے ہیں:
”ایک مرتبہ مبارز الملک، افتحار الدولہ جنرل اسمتھ بہادر صولت جنگ سالار فوج انگریزی کی ہمراہی میں بجرے پر کلکتے کا سفر درپیش آیا۔ خالی بیٹھے بیٹھے دل گھٹنے لگا، تو ایک عزیز نے جو ہمراہ تھا، یہ قصہ سنانا شروع کیا۔بہت پسند آیا اور اسی وقت سے ’زبان ہندی‘ میں لکھنے کی دھن لگ گئی ”کیونکہ سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہ ہوا۔“چنانچہ اسی خیال سے لکھنا شروع کیا۔“6
’نوطرز مرصع‘ جس وقت لکھی گئی اس وقت اردو نثر کو علمی درجہ نصیب نہ تھا۔ ’نوطرز مرصع‘ کے تقریباً پون صدی بعد تک اردو کے شعرا اُردو نثر کو سرمایۂ ننگ سمجھتے تھے جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ ملاّوجہی کی’سب رس‘[جو کہ تمثیلی نثر پر مبنی ہے] کو چھوڑ کراردو نثر کی مکمل داغ بیل شمالی ہند میں انیسویں صدی کے آغاز میں ڈالی گئی۔
تحسین نے ’نوطرز مرصع‘ میں جابجا اردو کے مستند شعرا بالخصوص خواجہ میر درد، مرزا رفیع سودا وغیرہ کے اشعار داخل کرنے کی کوشش کی ہے اوربیشتر جگہوں پر اپنے کہے ہوئے اشعار شامل کےے ہیں۔ انھوں نے محض ایک دو اشعار پر اکتفا نہیں کی بلکہ پوری پوری غزلیں لکھ ڈالیں ہیں جس کی بدولت کہانی کا تسلسل اور لطف مفقود ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین تحسین کی ادبیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی حرماں نصیبی پر افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”تحسین کی بدنصیبی تھی کہ میر امن جیسے انشا پرداز نے اس داستان کو دوبارہ لکھا۔ جس کی وجہ سے تحسین کا کارنامہ ماند پڑگیا۔ لیکن یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس وقت شمالی ہند کی اردو نثر میں کوئی ادبی تصنیف نہ تھی۔ نوطرز مرصّع اپنے طرز کی پہلی کوشش ہے۔“7
مولوی عبدالحق تحسین کی علمی لیاقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”ان کو فارسی اردو نظم ونثر دونوں پر قدرت تھی، وہ بہت اچھے خوش نویس بھی تھے اور اسی بنا پر ان کا خطاب ’مرصع رقم‘ تھا۔ علاوہ اس کتاب کے وہ انشائے تحسین، ضوابط انگریز اور تواریخ فارسی وغیرہ کے مؤلف ہیں۔ یہ سب کتابیں فارسی زبان میں ہیں۔“8
اب جہاں تک سوال’باغ وبہار‘کا ہے تو یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ یہ میر امن دہلوی کی سب سے مقبول ومعروف کتاب ہے۔ یہ کتاب سنہ1802 میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں پائے تکمیل تک پہنچی اور 1803 میں منظر عام پر آئی۔یہ قصّۂ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے۔ میر امن سے پہلے میر محمد حسین عطا خاں تحسین نے اس کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیاتھا۔ کتاب کے دیباچے میں میر امن نے ’نوطرز مرصع‘ کا کوئی ذکر نہ کرتے ہوئے صرف فارسی ترجمہ کی بات کی ہے۔ 1931 میں جب مولوی عبدالحق نے ’باغ وبہار‘کو مرتب کرکے شائع کیا تو انھوں نے فارسی نسخے (مترجم /مصنف : محمد علی معصوم9) کی کئی عبارتوں کا ’نوطرز مرصع ‘اور’باغ وبہار‘ سے موازنہ کرکے یہ پردہ فاش کردیا کہ میر امن کا مآخذ ومنبع ’نوطرز مرصع‘ ہے۔ 1933 میں حافظ محمود خاں شیرانی اپنے مشہور مضمون چاردریش، مشمولۂ کارواں لاہور میں باغ وبہار کی ابتدائی اشاعت کے سرورق کی مندرجہ ذیل عبارت کچھ اس طرح پیش کرسکتے ہیں:
”باغ وبہارتالیف کیا ہوا میر امن دلّی والے کا ماخذ اس کا نوطرز مرصّع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کا ہے فارسی قصّہ چہار درویش سے۔“10
 تحسین اور میر امن کے علاوہ محمد غوث زرّیں نے بھی ’قصہ چہار درویش ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ زرّیں نے متن کی ابتدا میں کتاب کا نام ’چاردرویش‘ لکھا ہے۔ زرّیں نے اپنے اردو نسخے کی ابتدا میں لکھا ہے کہ اوّل انھوں نے یہ قصہ فارسی میں لکھاتھا اُسی کو اردو میں ترجمہ کردیا۔ اس کی تاریخِ تالیف1198ھ ہے۔ بقول گیان چند جین ”زرّیں کا فارسی نسخہ اردو نسخے کی نسبت بہت مفصّل اور ترقی یافتہ ہے۔ “وہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
”زرّیں نے بھی اپنے اردو چار درویش کی تاریخ ”باغ وبہار (1217ھ) سے نکالی ہے لیکن یہ میر امن کے شاہکار سے واقف نہیں“11
خلاصۂ کلام یہ کہ ’قصہ چہار درویش‘ کوئی زیادہ قدیم نہیں ہے۔یہ مغلیہ دور کی پیداوار ہے۔غالب گمان ہے کہ یہ18ویں صدی کی تصنیف ہے جیسا کہ محمود خاں شیرانی اور دیگر حضرات کے بیانات سے واضح ہوتا ہے۔
شمالی ہند کی دوسری مقبول عام داستان فسانہ عجائب ہے۔ یہ مرزا رجب علی بیگ سرور کی سب سے مشہور اور مقبول کتاب اور شمالی ہند کی پہلی اہم طبع زاد داستان ہے۔ یہ داستان سنہ 1824 میں لکھی گئی جو دبستان لکھنؤ کی ایک شاہکار ہے۔ اکثر ناقدین کا کہنا کہ’ فسانۂ عجائب ‘ کے مختلف اجزا قدیم فارسی اور اردو داستانوی مثنوی میں مل جاتے ہیں۔محققین نے اسے محمد بخش مہجور کی ’گلشن نوبہار‘، میر حسن کی مثنوی ’سحرالبیان‘ مصحفی کی مثنوی’گلزارِ شہادت‘ اور ’داستان امیر حمزہ‘ سے مشابہ قرار دیا ہے۔ان کایہ بھی کہنا ہے کہ یہ داستان ’پدماوت اور بہار دانش ‘ کی یاد دلاتی ہے۔کیونکہ دونوں کی کہانی میں طوطا اسی طرح رہبری کرتاہوا نظرآتا ہے۔
فسانۂ عجائب میں سب سے زیادہ دلچسپی کا حامل تبدیلیٔ قالب کا واقعہ ہے۔ڈاکٹر گیان چند جین اس کو سرور کے دماغ کی اُپچ تسلیم نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ سنسکرت ادب میں اس طرح کی متعدد کہانیاں ہیں۔وہ ڈاکٹر پرکاش مونس کی کتاب ’اردو ادب پر ہندی ادب کا اثر‘ کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ ”ایسے واقعات ’کتھا سرت ساگر‘ اور ’پربندھ چنتا منی‘ میں، راجہ نند اور راجہ مکند کی کہانی،’ پنچ تنتر‘، ’بیتال پچیسی‘ میں راجہ وکرم کے سلسلے میں اورمرگیندر کی تصنیف پریم پیوندھی میں ملتے ہیں۔“12
گیان چند جین مزید لکھتے ہیں کہ ”پریم پیوندھی کا واقعہ بالکل فسانہ عجائب سے مماثل ہے۔“13
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرور نے اپنے ماقبل داستانوں اورکہانیوں سے استفادہ کیا ہے،بہر حال ہر فن کار چراغ سے چراغ جلاتا ہے۔ باوجود اس کے سرور نے اپنی کتاب کے شروع میں وجہ تالیف کچھ اس اندازمیں بیان کی ہے کہ ایک روز وہ لکھنؤ میں دوستوں کے زمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دوست نے ان سے قصہ گوئی کی فرمائش کی تاکہ پریشانی طبیعت دور ہو، اس پر سرور نے کہانی کے چند کلمات بیان کےے:یہ کہانی دوستوں کو پسند آئی۔ بعدمیں ان دوستوں کے اصرار پریہ داستان منظر عام پر آیا۔
اس کے باوجود پروفیسرگیان چند جین فسانۂ عجائب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور شمالی ہند کی اہم داستانوں میں اس کو شمار کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:”اگر کوئی پوچھے کہ اردو کے دو سب سے بڑے داستان نگارکون ہیں تو ہرشخص بلاتامل جواب دے گا کہ میر امّن اور رجب علی بیگ سرور“۔14
اس میں کوئی شک نہیںکہ دونوں اپنے اپنے دبستان کے مشہورداستان نویس ہیں اور دونوں کی کتابیں اپنی اپنی نوعیت سے الگ الگ مقام رکھتی ہیں۔ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا سراسر ناانصافی ہوگی۔
سرور نے اس کتاب میں انشا پردازی کا اعلیٰ کمال دکھایا ہے جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اردو حلقوں میں اسے کافی مقبول ملی اور حیرت کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی، مگر بدقسمتی سے انھوں نے دیباچہ میں میر امن اور اہل دہلی کے متعلق کچھ ایسے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جس سے دونوں دبستانوں کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی۔ انھیں وجوہات کی بنا پر دہلی والوں کے نزدیک ان کی اہمیت خاک میں مل گئی۔
فسانۂ عجائب میں کثرت سے اساتذہ کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ اشعار سرور اور ان کے استاد نوازش حسین خاں کے ہیں۔ان کے علاوہ حافظ، جامی، سعدی، میر،سودا، میر حسن، سوز، جرأت،اور مصحفی وغیرہ کے بھی اشعار جابجا نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار عظیم فسانۂ عجائب کے اسلوب اور طرز اداکو اس وقت کے خاص اسلوب سے منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”فسانۂ عجائب ایسے طرز میں لکھی گئی جو اس خاص زمانے اور اس خاص ماحول کا پسندیدہ طرز ہے۔“15
پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں:”فسانۂ عجائب کی فضیلت اس کے اسلوب اور معاشرت کے بیانات کی وجہ سے ہے۔ اس کا دیباچہ گو قصے کا جزو نہیں لیکن وہ ادب میں مستقل جگہ پاگیا ہے۔“16
نوطرز مرصع، باغ وبہار اور فسانۂ عجائب کے علاوہ شمالی ہند کی ایک اور مشہور ومقبول داستان ہے جو باغ وبہار کے فوراً ہی بعد منصۂ شہود میں آگئی تھی۔ اردو ادب میں یہ داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اصل میں اس داستان کا نام ”داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی “ ہے جو انجمن ترقی اردو سے 1933 میں شائع ہوئی جس کے خالق انشا اللہ خاں انشا ہیں۔ یہ اردو کی مختصرترین طبع زاد داستان ہے جو 1803 میں لکھی گئی تھی۔ اس داستان کی تصنیف کے پیچھے انشا کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس کی عبارت میں ہندی کے علاوہ (مثلاً فارسی یا عربی)کسی زبان کا کوئی لفظ نہ آنے پائے۔وہ لکھتے ہیں:
”ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ بات اپنے دھیان میں چڑھ آئی کہ کوئی کہانی ایسی کہیے جس میں ہندوی چھُٹ اور کسی بولی سے پُٹ نہ ملے، تب جاکر میرا جی پھول کی کلی کے روپ کھلے۔ باہر کی بولی اور گنواری کچھ اس کے بیچ نہ ہو۔“17
 انشا بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں اور کیوں نہ ہوتے کیونکہ اس داستان کا موضوع ہندوانی زندگی اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے کردار بھی معمولاً ہندی ہی بولتے ہیں۔ ایسے میں داستان نگار کے فن کی اصل آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں ایسی تکنیک کا استعمال کرے جس سے قاری کو دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ انشا کے فن کا کمال ہے کہ انہوں نے عبارت کے ہندوی پن میں سادگی، سلاست اور روانی بھی قائم رکھی ہے اور روزمرہ کے لطف میں بھی کہیں کمی آنے نہیں دی ہے۔ یہاں قاری کی آسانی کے لیے داستان سے بعض اقتباسات نقل کےے جارہے ہیں۔ روایت کے مطابق داستان کا آغازحمد، نعت اور منقبت سے ہوتا ہے لہٰذا ذیل کی عبارت حمدسے ماخوذ ہے:
” یہ کل کا پتلا جو اپنے اس کھلاڑی کی سُدھ رکھے تو کھٹائی میں کیوں پڑے اور کڑوا کسیلا کیوں ہو؟ اس پھل کی مٹھاس چکھّے جو بڑوں سے بڑے اَگلوں نے چکھّی ہے۔“18
اس کے بعد کہانی کا آغاز بقول انشا: ”کہانی کے اُبھارکے ساتھ بول چال کی دلہن کا سنگار“ سے شروع ہوتا ہے۔ کنور چندر بھان جھولا جھولتی ہوئی لڑکیوں کے پاس پہنچتا ہے، وہ جھولاجھول رہی ہیں اور ساتھ ہی ساون گا رہی ہیں، ان چالیس پچاس دو شیزاؤں میں ”ایک ایک سے اگلی تھی لیکن ایک لاجواب تھی۔“ انشا کہتے ہیں:”ان سبھوں میں سے ایک کے ساتھ اس کی آنکھ لڑ گئی“اس طرح کنور کو رانی کیتکی سے محبت ہوئی اور ”اس کے جی میں اس کی چاہ نے گھر کیا“
مذکورہ بالا عبارت سے پتہ چل رہا ہے کہ اس میں باوجود ہندی کے الفاظ روز مرہ کی سادگی اور محاوروں کا بے تکلف استعمال جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔قاری کو پوری کتاب میں معمولاً یہی سادگی، سلاست اور روانی کا حسین امتزاج نظرآئے گا۔اسی طرح ہندو کردار کی زبانی قصے کے ہندوی پن کے التزام نے عبارت میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ دیکھیے یہ اقتباس:
”جو میرے داتا نے چاہا تو وہ تاؤ بھاؤ اور آؤ جاؤ کود پھاند اور لپٹ جھپٹ دکھاؤں جو دیکھتے ہی آپ کے دھیان کا گھوڑا جو بجلی سے بھی بہت چنچل، اُچھلا ہٹ میں ہرنوں کے روپ میں ہے، اپنی چوکڑی بھول جائے۔“19
اردو کی مختصرین ترین داستانوں میں ایک آرائش محفل ہے۔ یہ قصہ حاتم طائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس داستان کے خالق حیدر بخش حیدری ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے اعلیٰ پائے کے مترجموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب اور طرز نگارش قابل ستائش ہے۔ باغ وبہار کے بعد فورٹ ولیم کالج کے تحت ترجمہ شدہ کتابوں میں سب سے آسان وسلیس ترجمہ ہمیں آرائش محفل میں نظر آتا ہے۔ ادبی پہلو کے قطع نظر آرائش محفل کا قصہ’ باغ وبہار‘ سے بھی کہیں زیادہ زبان زدِ خاص وعام ہے۔اس داستان کی کہانی اور ساخت اتنی دلچسپ ہے کہ قاری پل بھر کے لیے بھی اس سے ہٹنا گوارہ نہیں کرتا، ہر موڑ پرایک نئی طرح کا تذبذب برقرار رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ قاری ہمیشہ کہانی سے پردہ اٹھنے کا منتظر رہتا ہے۔
دیگر داستانوں کی طرح اس داستان کا آغاز بھی کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ”اگلے زمانے میں طے یمن کا ایک بادشاہ تھا۔ نہایت صاحب حشم، عالی جاہ، فوج کی طرح سے فرخندہ حال مرد، جواہرات سے مالا مال“ 20 اس کے بعدبادشاہ کے یہاں مہر لقا نام کا ایک شہزادہ پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر حاتم طائی کے نام سے اس قصے کا ہیرو طے پاتا ہے۔ پھر وہی پچھلی داستانوں کی طرح نجومی، پنڈت، جفر داں اور رمال وغیرہ آتے ہیں اور اپنے زائچوں اور پوتھیوں کی مدد سے شہزادہ ہفت اقلیم کا بادشاہ بن جاتا ہے، اور ساری عمر اپنے آپ کو راہِ خدا میں وقف کردیتا۔ پوری کہانی سات چیزوں کے گرد گرد گھومتی رہتی ہے۔
ایک باردیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی خواہش ہے
نیکی کر دریا میں ڈال
کسی سے بدی نہ کر، اگر بدی کرے گا تو بدی پاوے گا
سچ کہنے میں ہمیشہ راحت ہے
کوہِ ندا کی خبر لانا
اُس موتی کا جوڑا تلاش کرنا جو مرغابی کے انڈے کے برا بر ہے
حمام بادگرد کی خبر لانا
اس کے علاوہ بھی اردو کی بہت ساری ایسی داستانیں شمالی ہند میں وجود میں آئی ہیں جن کا تفصیل سے ذکر پھر کہیں کسی موقع پر کیا جائے گا۔ تاہم یہاں صرف اتنا ذکر کرنا ضروری ہے کہ داستان کی اہمیت وافادیت آج کے سماج میں زبان کی اصلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔موجودہ دور میں داستان کی زبان اور تہذیب کی صورت حال کاموازنہ اگر ماضی کی داستانوں سے کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ آج داستان کی باتیں صرف داستانوں میں ہی سمٹ کر رہ گئی ہیں۔وہ روز بہ روززوال کی طرف گامزن ہوتی چلی جارہی ہیں۔ باوجوداس کے آج کا قاری ناامید ہرگز نہیں ہے۔ اس کا آج بھی ہماری کلاسیکی داستانوں سے لگاؤ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں مزیداس کلاسیکی صنف پر زور دیا جائے گا۔
حواشی
(1) اردو کی نثری داستان، گیان چند جین، ص95
(2) ایضاً، ص:95
(3) بقول گیان چند جین: بعض لوگوںکو تحسین کے نام پر اختلاف ہے، گیان چند جین مسعود حسین رضوی ادیب کے حوالے سے اپنی کتاب ’میں لکھتے ہیں کہ: ”میر امن نے’ باغ وبہار‘ میں اور آزاد نے’آب حیات‘ میں ان کا نام عطا حسین خاں لکھا ہے لیکن ان کا صحیح نام میر محمد حسین عطا خاں تھا جو ان کے دوست امیر اللہ ابوالحسن نے تذکرۂ مسرت افزا میں درج کیا ہے۔ ’نوطرز مرصّع‘ کے قدیم ترین نسخوں میں بھی یہی نام ملتا ہے۔ داستان کے مرتب ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی نے بھی [مقدمہ میں] اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔“دیکھیے، اردو کی نثری داستان، ص:206اور ایک دوسرے مرتب مولوی عبدالحق نے بھی اپنے مقدمہ کے صفحہ 5پر ان کا نام میر محمد حسین عطا خاں تخلص بہ تحسین بتایا ہے۔ 
(4) بحوالہ مقدمہ’نوطرز مرصع‘ از ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی، ص:23
(5) باغ وبہار، مرتبہ: مولوی عبدالحق،مطبع انتظامی کانپور، 1931، مقدمہ، ص:7
(6) ایضاً،ص::5-6
(7) اردو کی نثری داستان، گیان چند جین، ص:212
(8) باغ وبہار، مرتبہ: مولوی عبدالحق،مطبع انتظامی کانپور، 1931، مقدمہ، ص:5
(9) بعض لوگوں کا خیال ہے ’قصہ چہار درویش‘ امیر خسرو کی کتاب ہے۔پروفیسر محمود شیرانی کی تحقیق اس کی مکمل تردید کرتی ہے۔وہ اپنے دلائل اورحقائق سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قصّہ چہار درویش امیرخسروکی تصنیف نہ ہوکرمحمد علی معصوم کی تصنیف کردہ کتاب ہے۔پروفیسرگیان چند جین اپنی کتاب ’اردو کی نثری داستانیں، ص:265 میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ”چاردرویش کی تحقیق میں پروفیسر محمود شیرانی کا نام ہمیشہ درخشندہ رہے گا۔ انھوں نے حتمی طور پر ثابت کیا کہ امیر خسرو کو اس قصے سے دور کا تعلق نہیں۔ ان کے دلائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:
l اس کا کوئی فارسی مخطوطہ بارہویں صدی ہجری سے پیشتر کا نہیں۔ نہ اس سے قبل کسی تحریر میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے۔
l فارسی نسخے میں متعدد اشعار خسرو سے بعد کے شعرا مثلاً حافظ، عرفی اور نظیر کے ہیں۔
l قصّے میں تومان اور اشرفی کا ذکر ہے جو خسرو کے عہد میں رائج نہیں ہوئی تھیں۔ نیز ایسے متعدد عہدہ داروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو دورِ مغلیہ کی اختراع ہیں۔مثلاً قورچیاں، کشک چیاں، اشک آقایاں،وکیل السلطنت، خزانہ دار امیر آمورخور۔
l امیر خسرو کی نثر بڑی مرصّع، دقیق اور صنائع بدائع سے پُر ہوتی ہے۔ چار درویش کے کسی متن کا اسلوب ایسا نہیں ہے۔ 
(10) بحوالہ، محمود خاں شیرانی، مضمون :چاردریش، مشمولۂ ’کارواں‘ لاہور،1933
(11) اردو کی نثری داستان، گیان چند جین،قومی کونسل برائے فروغ اردو،نئی دہلی۔ ص:279
(12) ایضاً، ص:531
(13) ایضاً
(14) ایضاً، ص:507
(15) اردو کی داستانیں، وقار عظیم، ص:234-35
(16) اردو کی نثری داستان، گیان چند جین، ص:539
(17) دیکھےے، رانی کیتکی کی کہانی، انشا اللہ خاں انشا
(18) ایضاً، ص:
(19) ایضاً، ص:
(20) دیکھیے، آرائش محفل،شیر علی افسوس

Saud Alam
B.114, Ist Floor. R.No 05
Okhla Main Market, Jamia, Nagar
New Delhi - 110025
Mob: 8076495936

 ماہنامہ اردو دنیا،اکتوبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ تحریر جناب سعود عالم صاحب
    ملا وجہی کی ’سب رس‘: 1635 کی پہلی داستان کے بارے میں بہترین معلومات دینے کا بہت بہت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. اردو کی پہلی طبع زاذداستان کون سی ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...