برج
نرائن چکبست کی شاعری میں حب
الوطنی
کے عناصر
ممتاز احمد خاں
اردو زبان میں ابتدا سے ہی بلکہ زمانۂ آفرینش سے جمہوری اور انسانی اقدار کی پیش کش پائی جاتی ہے۔ اس زبان نے ہمیشہ سماج میں مثبت اقدار اور اخلاقی و انسانی تعلیمات کے ذریعے کلچر کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا ہے۔ اردو کا سارا ادبی و شعری سرمایہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس میں ہندوستانی کلچر کے بہترین عناصر کی شرکت و شمولیت ہے۔ اردو کے شاعروں اور ادیبوں نے اعلیٰ انسانی قدروں کی ہر دور میں تبلیغ کی ہے۔ اردو خود مشترکہ کلچر کی پیداوار ہے۔ ہند ایرانی کلچر کے خوبصورت عناصر و اجزا سے اس کی تشکیل ہوئی ہے اور اس کی شاعری اور ادب کی آبیاری میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا حصہ ہے۔ ولی، میر، سودا، درد، آتش، ناسخ، ذوق، غالب، مومن، داغ، انیس، اقبال، فیض، شاد عظیم آبادی، جوش اور حسرت موہانی کے متوازی اور پہلو بہ پہلو دیا شنکر نسیم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت برج نرائن چکبست، درگا سہائے سرورجہاں آبادی، تلوک چند محروم، رگھوپتی سہائے فراق، پنڈت دتاتریہ کیفی، آنند نرائن مُلا، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، کرشن موہن، رام لعل، جوگندر پال، آنند موہن زتشی گلزار دہلوی، بلراج کومل وغیرہ کے نام آسمانِ ادب پر روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ چنانچہ اردو شاعری اور ادب سے معاشرے میں ہمیشہ امن اور شانتی، محبت و اخوت، انسانی ہمدری، انصاف و عدل، مساوات اور قوانین کی پابندی و پاسداری کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی اور باہمی تعلقات میں رواداری، تعاون اور خوش خلقی کو فروغ ہوا۔ ہندوستان کی پانچ چھ سو سال کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ سماج کے ہر طبقے کے افراد نے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا اور صدیوں سے بھائی چارے کے ماحول میں زندہ رہنے کی مثال قائم کی۔ ایسی رواداری اور پُرامن ماحول دنیا میں شاید ہی کہیں اور دیکھنے کو ملے گا۔ اردو کے جید ادیب و مبصر علی جواد زیدی نے اردو کی اسی خصوصیت پر مندرجہ ذیل لفظوں میں روشنی ڈالی ہے۔
”یہ کہنا ایک حقیقت کو دُہرانا ہے کہ خود زبان اردو یک جہتی کی پیداوار ہے۔ ابتدا سے اس میں ہماری رنگا رنگ تہذیب کی گنگا جمنی خصوصیات جھلکتی رہی ہیں۔ اس میں سنسکرت نے اپنا رس گھولا ہے، برج بھاشا، کھڑی، اودھی، مراٹھی، گجراتی، تیلگو، بنگالی، سندھی، پنجابی، پشتو، فارسی، ترکی، عربی، انگریزی، فرانسیسی، پُرتگالی، لاطینی، یونانی، چینی اور روسی نے اپنا بانکپن اور اپنی عظمت و وسعت سموئی ہے۔ یہ ہر تبدیلی اور انقلاب کی خاموش شاہد ہی نہیں بلکہ اچھائیوں کو سمیٹنے اور اندرونی کثافتوں کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ آمادہ و تیار رہی ہے۔ آج بھی کشادہ دامنی سے لبیک کہہ رہی ہے اور نئے پھولوں کے لیے اپنے دامن میں جگہ بنارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا الگ مزاج ہے، وہ مزاج جو مختلف روایات کے امتزاج سے بنا ہے اور جو رُکنے اور تھمنے کے بجائے آگے بڑھتا ہے، جو مسلسل ارتقا پر ایمان رکھتا ہے، جو ترقی کی کسی شکل کو حرفِ آخر نہیں سمجھتا۔ ان معنوں میں اردو کی تاریخ یک جہتی کی تحریک کی تاریخ بھی ہے۔“
(مضمون ’اردو میں یک جہتی کی روایت‘، مشمولہ ماہنامہ شاعر، بمبئی، قومی یک جہتی نمبر، ص144)
اردو شاعری کا ابتدائی دور دکن سے شروع ہوتا ہے۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کی تخلیقات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں ہندوستانی عناصر اور قومی یکجہتی کے اجزا وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے بعد ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، فائز دہلوی او دیگر شاعروں کے یہاں یہ روایت پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہے۔ قومی یک جہتی اور ہندوستانی طرزِ احساس کی واضح اور طاقت ور عکاسی نظیر اکبرآبادی کے یہاں نظر آتی ہے۔ نظیرنے ہندوستانی معاشرت اور کلچر پر بے شمار نظمیں لکھیں جن کی کوئی مثال ہندوستان میں کسی اور زبان کے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ نظیر کی روایت کو محمد حسین آزاد، مولانا حالی، اسمٰعیل میرٹھی، سرور جہان آبادی اور برج نرائن چکبست نے پروان چڑھایا۔ میرے اس مقالے کا موضوع ’پنڈت برج نرائن چکبست کی شاعری‘ ہے، اس لیے میں اپنی گفتگو کو ذیل کی سطور میں چکبست کی شاعری تک ہی محدود رکھوں گا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چکبست کی شاعری پر گفتگو سے قبل ان کی سوانح حیات مختصراً لکھ دی جائے۔ پنڈت برج نرائن چکبست فیض آباد کے ایک خوشحال کشمیری برہمن خاندان میں 1882 میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بعد میں لکھنؤ آکر آباد ہوگیا۔ ان کے والد پنڈت اُودِت نرائن چکبست بھی شعر کہتے تھے۔ ان کا تخلص یقین تھا۔ چکبست کم عمری ہی سے بے حد ذہین اور مطالعے کے شوقین تھے۔ انھوں نے قانون کی تعلیم پائی اور لکھنؤ کے ممتاز وکلا میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انھوں نے اساتذۂ اردو کے کلام کا بہت وسیع اور گہرا مطالعہ کیا تھا۔ شعر کے رموز و نکات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ شرر لکھنوی سے ’گلزارِ نسیم‘ کے موضوع پر ان کا معرکہ بہت مشہور ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اس معرکے میں چکبست کا پلّہ بھاری تھا۔ چکبست کا مجموعۂ کلام ’صبحِ وطن‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا اور بعد میں ’کلیاتِ چکبست‘ کے نام سے ان کے کُل کلام کا مجموعہ بھی چھپ گیا۔ اس کلیات کو کالی داس گپتا رضا نے مرتب کیا تھا۔ پھر ان کی نثری تحریروں کا ایک مجموعہ ’مضامینِ چکبست‘ کے نام سے آیا۔ ان کے مضامین کے مطالعے سے ان کی علمیت، قابلیت، تنقیدی شعور اور ادبی، سماجی و تاریخی حالات و واقعات پر ان کی نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ چکبست پر میرانیس کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ فراق گورکھ پوری کا خیال ہے کہ چکبست کی شاعری انیس کی انسان دوست شاعری (Humanistic Poetry) کی توسیع ہے۔ چکبست نے قومی وطنی نظمیں بڑی تعداد میں لکھی ہیں مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ صرف 44 یا 45برس کی عمر میں فالج کے حملے سے انتقال کرگئے، ورنہ وہ بہت بڑے اور اچھے غزل گو بھی تھے۔ یہاں ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے؟ اِنھی اجزا کا پریشاں ہونا
——
جس کی قفس میں آنکھ کھلی ہو مری طرح
اس کے لیے چمن کی خزاں کیا، بہار کیا؟
——
بلائے جاں ہیں یہ تسبیح اور زُنّار کے جھگڑے
دلِ حق بیں کو ہم اِس قید سے آزاد کرتے ہیں
——
تھکے ماندے مسافر ظلمتِ شامِ غریباں میں
بہارِ جلوۂ صبحِ وطن کو یاد کرتے ہیں
——
یہ مانا بے حجابانہ نگاہیں قہر کرتی ہیں
مگر حُسنِ حیا پرور کا عالَم اور ہوتا ہے
چکبست کی شاعری کی ابتدا ہی حُب الوطنی اور قومی ہمدردی سے ہوتی ہے۔ انھوں نے بارہ تیرہ سال کی عمر ہی سے شاعری شروع کردی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’حُب قومی‘ کے عنوان سے ملتی ہے۔ یہ زمانہ 1894 کے آس پاس کا تھا۔ چکبست نے یہ نظم لکھنؤ کے ایک جلسے میں پڑھی۔ کم عمری میں ایسی نظم لکھنے پر ان کو بہت داد ملی۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کا مذاقِ شعری پروان چڑھنے لگا اور ان کا مطالعہ و مشاہدہ بھی وسیع ہوا۔ ان کے کلام میں پختگی آنے لگی۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہر طرف قومی ہمدردی اور حُب الوطنی کا چرچا تھا۔ سرسید اور حالی ہندوستانیوں کی تعلیم اور ترقی کا صور پھونک چکے تھے۔ ان کے بعد کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ان کی آواز میں آواز ملائی۔ انگریزوں کی ظالمانہ حکومت، ہندوستانیوں کی ذلت و محکومی سے تمام حسّاس فن کار و ادیب دل برداشتہ تھے۔ اندر ہی اندر آزادی کی آرزو کروٹ بدل رہی تھی اور ہندوستانیوں کے آپسی اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کی اہمیت سمجھ میں آرہی تھی۔ مختلف طبقات میں ہم آہنگی اور یگانگت کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جانے لگی۔ ایسے دور میں اقبال، چکبست، جوش ملیح آبادی، سرور جہاں آبادی، تلوک چند محروم نے حُب الوطنی کے گیت گائے اور اتحاد واتفاق کی تعلیم کو اپنی شاعری سے عام کرنے کی کوشش کی۔ چکبست نے ’خاکِ ہند‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی، وہ اس سلسلے میں قابلِ ذکر ہے۔ اس نظم کے صرف دو بند ملاحظہ ہوں
اے خاکِ ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے
دریائے فیضِ قدرت تیرے لیے رواں ہے
تیری جبیں سے نورِ حُسنِ ازل عیاں ہے
اللہ رے زیب و زینت، کیا اَوجِ عزّ و شاں ہے
ہر صبح ہے یہ خدمت خورشید پُر ضیا کی
کرنوں سے گوندھتا ہے چوٹی ہمالیہ کی
اس خاکِ دلنشیں سے چشمے ہوئے وہ جاری
چین و عرَب میں جن سے ہوتی تھی آبیاری
سارے جہاں پہ جب تھا وحشت کا ابر طاری
چشم و چراغِ عالَم تھی سر زمیں ہماری
شمعِ ادب نہ تھی جب یوناں کی انجمن میں
تاباں تھا مہرِ دانش اس وادیِ کُہن میں
اس نظم میں بھی چکبست نے ہندوستان کے مشترکہ کلچر اور روایات کا ذکر خوب صورت انداز میں کیا ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوسِ گوش اب تک کیفیّتِ اذاں ہے
چکبست نے اپنے قومی و وطنی جذبات کا اظہار موثر انداز میں کیا ہے۔ ان کے اسلوب میں جذبے کا خلوص، زبان کی فصاحت اور فن کی چابک دستی بھی ہے۔ اس نظم کا یہ بند ملاحظہ ہو
شیدائے بوستاں کو سَر و سَمن مبارک
رنگیں طبیعتوں کو رنگِ سخن مبارک
بلبل کو گُل مبارک، گُل کو چمن مبارک
ہم بے کسوں کو اپنا پیارا وطن مبارک
غنچے ہمارے دل کے اِس باغ میں کھلیں گے
اِس خاک سے اُٹھے ہیں اِس خاک میں ملیں گے
چکبست نے اپنے زمانے کے کئی قومی لیڈروں کی موت پر جو مرثیے لکھے، ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ نوجوانوں میں اعلیٰ انسانی و اخلاقی خوبیاں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ گوکھلے، تلک اور گنگا پرساد ورما کی موت پر ان کے جو مرثیے ہیں، وہ زبان و بیان، اندازِ خطاب اور اخلاقی خوبیوں کی تعریف و تحسین کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہیں۔ ان کو پڑھنے سے حب الوطنی، کشادہ نظری اور خدمتِ قومی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ایسے مرثیوں اور نظموں کی فنّی سطح اونچی نہیں ہوتی مگر ایسے مرثیوں اور نظموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں شاعری سے تعلیم و تربیت اور جوش وولولہ کو اُبھارنے کے لیے ایسے شعری اقتباسات بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ صرف اردو میں نہیں، دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ایسی تخلیقات وجود میں آئی ہیں۔
چکبست کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا وِژن (Vision) وسیع تھا۔ وہ تنگ دلی اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھے۔ مختلف طبقات اور افراد میں باہمی محبت و اُخوت کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں بھی ان کا یہ نقطۂ نظر صاف نظر آتا ہے۔ پروفیسر منظراعجاز نے ان سے متعلق لکھا ہے :
”چکبست مظاہر کے حُسن میں حقیقت کے جمال کا پرتَو دیکھتے ہیں اور فطرت و انسانیت کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ چکبست دنیا کو ایک گھر یا کنبہ تسلیم کرتے ہیں اور پرستشِ وفا کو ہی انسانیت کی معراج تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کعبہ و بت خانہ میں کوئی فرق نہیں بشرطیکہ وفا قدرِ مشترک ہو۔ یہی وہ اخلاقی نکتہ ہے جس پر چکبست مذہبی رواداری، وسیع المشربی، مساوات اور اُخوت جیسے قدری عناصر کو سمیٹ کر انسانیت کے معیار کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں۔“
(اقبال اور قومی یک جہتی، ص217)
چکبست کے اس نقطۂ نظر کو اُجاگر کرنے کے لیے ان کی دو نظموں کے مندرجہ ذیل بند پیش کیے جاتے ہیں
(الف)
شرابِ اُنس حقیقی سے تھا ہر اِک سرشار
شجر تھا، کوہ تھا، چشمہ تھا یا یہ مشتِ غبار
درخت و کوہ ہیں کیا، ذاتِ پاک انساں کیا
طیور کیا ہیں، ہوا کیا ہے، ابرِ باراں کیا
یہ موجِ ہستئیِ بیدار کے عناصر ہیں
سب ایک قافلۂ شوق کے مسافر ہیں
(ب)
ہر ذرّۂ خاکی ہے مرا مونس و ہمدم
دنیا جسے کہتے ہیں وہ کاشانہ ہے میرا
جس جا ہو خوشی، ہے وہ مجھے منزلِ راحت
جس گھر میں ہو ماتم وہ عزاخانہ ہے میرا
جس گوشۂ دنیا میں پرستش ہو وفا کی
کعبہ ہے وہی اور وہی بت خانہ ہے میرا
یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ چکبست اور ان کے جیسے دوسرے شاعر و فن کار کے یہاں قومی یک جہتی کا محدود تصور نہیں ہے۔ یہ فنکار ملک اور قوم کی سطح اور دائرے سے اوپر اُٹھ کر دنیا کے تمام انسانوں کے لیے امن و سلامتی اور خوشحالی کا جذبہ رکھتے ہیں اور ہر قوم کی ترقی اور ہر انسان کی عزت و عافیت اور امن و سلامتی کی تمنا کرتے ہیں۔ چکبست اور ان کے قبیل کے دیگر شعرا و مفکرین یہ مانتے ہیں کہ انسان کو رنگ و نسل، مذہب و زبان اور خطّے میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ سب کی انسانی حیثیت یکساں ہے۔ سب عزت و احترام، آزادی و مساوات، امن و سلامتی کے مستحق ہیں۔ انسانوں اور انسانی گروہوں سے امتیازی برتاو آپسی دشمنی اور منافرت کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ سارے عالم کے انسانوں کو وحدتِ آدم اور احترامِ آدمی کی تعلیم سے مزیّن کرنا چاہیے۔ جب ہی یہ دھرتی امن و سکون اور محبت و اُخوت اور تہذیب و تمدن کا حقیقی گہوارہ بن سکتی ہے۔ اقبال نے بہت پہلے ہی کہہ دیا ہے
شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے
Dr. Mumtaz Ahmd Khan
Sajida Manzil, Baghmali
Hajipur - (Bihar)
Mob.: 09852083803
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں