31/10/19

اردو ریڈیائی ڈراما: منظر پس منظر مضمون نگار: پاکیزہ اختر



اردو ریڈیائی ڈراما: منظر پس منظر
پاکیزہ اختر

ریڈیو کے ذریعے کہانی یا افسانہ سننے سنانے کا رواج تقریباً ثلث صدی پر محیط ہے۔دنیا کے مختلف ریڈیو اسٹیشنوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ برصغیر میں خاص طورپرآل انڈیا ریڈیو اپنے مختلف اسٹیشنوں سے مختلف زبانوں میں کہانیاں نشر کرتا رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے اب تک نہ صرف دنیا کی مختلف زبانوں میں باقاعدہ افسانے بلکہ قسط وار ناول بھی براڈ کاسٹ ہوتے رہے جن میں اردو کے کئی بڑے ناولوں کے نام فخرکے ساتھ لیے جاسکتے ہیں۔مثلاً: مرزا ہادی رسوا کا ناول امراﺅ جان ادا،پریم چند کا ناول گئودان اور رتن ناتھ سرشارکا ناول ’فسانۂ آزاد‘ وغیرہ قسط وار نشر ہوئے۔ ریڈیو پر کہانیوں، ناولوں اور ڈراموں کی نشریات کے ذخیرے کو وسعت دینے میں اردو کے اکثر مصنّفین وفکشن نگاروں کا اہم کردار رہا ہے۔ اردو کے کئی اہم کہانی کاروں نے باضابطہ اردو سے وابستہ ہوکر ریڈیو کے لیے مختلف النوع تحریریں،کہانیاں اور ڈرامے وغیرہ لکھے اور بعض نے مستقل وابستگی نہ رکھنے کے باجود ریڈیو کے لیے ڈرامے اور افسانے تخلیق کیے۔سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک اردو کے وہ فکشن نگار ہیں جنھوں نے باقاعدہ ریڈیو میں ملازمت اختیار کی اور اپنی تحریروں کے ذریعے سے ریڈیائی اصناف کو وسعت بخشی۔
ہندوستان میں ریڈیائی ڈرامے کی روایت کا آغاز انڈین براڈ کاسٹنگ کمپنی کے قیام کے بعد ہوااور 1928 سے ریڈیو ڈرامے پابندی سے نشر کیے جانے لگے۔ 1930تک ریڈیائی ڈراموں کی مقبولیت کی رفتار دھیمی رہی مگر اس کے بعد بتدریج ریڈیو ڈراموں کو اہمیت اور مقبولیت حاصل ہونے لگی۔ سامعین نے بھی ان ڈراموں کی سماعت میں دلچسپی کا مظاہرہ کیااور ڈرامہ نگاروں نے بھی اس طرف بھرپور توجہ مرکوز کی۔آج آل انڈیا ریڈیو کے سبھی مراکز سے ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں۔
جہاں تک اردو ادب میں ریڈیائی ڈرامے کی ابتدا کا سوال ہے تواس کی شروعات 1936میں آل انڈیا ریڈیو کے قیام کے ساتھ عمل میں آئی۔ ابتدائی دور میں اردو کے جو ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے،وہ دوسری زبانوں کے ڈراموں کا ترجمہ تھے۔اس دورکے مترجمین میں حکیم شجاع، سید علی عابد، فضل الحق قریشی، محمد حنیف، محمد عمرو نورالٰہی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔اردو کا پہلا نثری ڈراما جھبروداس چٹرجی کے بنگالی ڈراما ’من توش‘ کا اردو ترجمہ تھا جس کو حکیم احمد شجاع نے اردومیں کیا اور ذوالفقار علی بخاری نے اس ڈرامے کو پروڈیوس کیا۔ محمد عمر ونور الٰہی نے مولیئر کے ڈرامے کا ترجمہ ’راگ ڈانٹ‘ کے نام سے کیا۔اس کے علاوہ ان کے اردومیں ترجمہ کیے ہوئے جو ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے ان میں تین ٹوپیاں، جان ظرافت، بگڑے دل، ظفر کی موت، چپ کی داد، قزاق اور روحِ سےاست کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ عابد علی عابد نے انگریزی اور بنگالی ڈراموں کے ترجمے میں دلچسپی لی۔ انھوں نے ٹیگور کے ڈراموں مالن کا چادیوا پانی، قربانی اور لپناسی کا بھی ترجمہ کیا۔ان کے اکثر ترجمہ شدہ ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے۔
اس کے بعد اردومیں براہ راست ریڈیائی ڈرامے لکھے جانے لگے اور ریڈیو پر اردو کے بہت سے ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے نشرکیے جانے لگے۔جن ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے، ان میں سے چند اہم نام اس طرح ہیں: امتیاز علی تاج، آغاحشر،میاں لطف الرحمن، عشرت رحمانی، انصار ناصری، انتظار حسین، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اوپندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، چودھری سلطان، کرتارسنگھ دگل، ابوبکر، رفعت سروش، محمد حسن، محمدخالدعابدی، جاوید اقبال، یوسف ظفر، قیوم نظر، انور جلال، کمال احمد رضوی، شیر محمد اختر، ناصر الدین شمس، صالحہ عابد حسین، عاشق بٹالوی، فیاض محمود، باسط سلیم، غلام عباس، ہاجرہ مسرور، ممتاز مفتی، ضمیر جعفری، بلونت گارگی اور زماں حبیب وغیرہ اردو کے بعض ادیب تو باضابطہ اردو ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور انھوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے جو وقتاً فوقتاً ریڈیو سے نشر ہوتے رہے۔
ریڈیو سے وابستہ اردو کے بڑے ادیبوں میں کرشن چندرکا نام اہمیت کا حامل ہے۔کرشن چندر باضابطہ ریڈیو میں ملازم تھے۔انھوں نے ریڈیو کے لیے بہت سی تحریریں لکھیں جن میں ڈرامے بھی شامل ہیں۔کرشن چندر کے ممبئی میں قیام کے دوران جو ڈرامے پروڈیوس ہوئے، ان میں ’مس بےلا باٹلی والا‘، ’کتاب کا کفن‘ اہم ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’دروازہ ‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں چھ ڈرامے ہےں: (1) قاہرہ کی ایک شام( 2)دروازہ (3) حجامت(4)بےکاری(5) نیل کنٹھ(6) سرائے کے باہر۔
سعادت حسن منٹو کی شناخت اگرچہ افسانہ سے قائم ہے، لیکن وہ ایک اچھے ڈراما نگار بھی تھے۔انھوں نے کئی ڈرامے آل انڈیا ریڈیو کے لیے لکھے جنھیں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔بقول عشرت رحمانی:
” سعادت حسن منٹو 1937میںآل انڈیا ریڈیو دہلی میں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملازم ہوکر آئے اور نثری تکنیک کے اعلیٰ نمونے پیش کرنے لگے۔ متعدد کامیاب ڈرامے لکھے اور اچھوتی آواز میں اپنے کمالات سے ریڈیو ڈرامہ کو نیا اسلوب بخشا۔ ان کے نثری ڈرامے یہ ہیں۔ کروٹ، ماچس کی ڈبیا، اتوار،خودکشی، نیلی رگیں، رندھیر پہلوان۔ تین موٹی عورتیں، آﺅ، مسلسل خاکے، محبت کی پیدائش، نیپولین کی موت، قلوپطرہ کی موت، ڈراموں کے مجموعے، منٹو ڈرامے اور جنازے وغیرہ۔“1
 منٹو کے ریڈیائی ڈراموں کا پہلا مجموعہ ’آﺅ ‘ ہے۔ یہ ڈرامہ انھوں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران تخلیق کیا تھا۔ اس مجموعے کے سبھی ڈرامے سیریل کی حیثیت رکھتے ہیں۔’ آﺅ کھوج لگائیں‘، ’آﺅ چوری کریں‘، ’آﺅ کہانی لکھیں‘ اس مجموعے کے مشہور ڈرامے ہیں۔منٹو کا ایک اور ریڈیائی ڈراموں پر مشتمل مجموعہ ’تین عورتیں‘ ہے۔ ان ڈراموں میں عورت کی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے۔ اس میں پانچ ڈرامے ہیں۔تین خوبصورت عورتیں، تین موٹی عورتیں، تین صلح پسند عورتیں، تین خاموش عورتیں اور تین بیمار عورتیں۔ان ڈراموں کو پڑھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ منٹو عورتوں کے مسائل، مزاج اور نفسیات سے بخوبی واقف تھے۔
راجندر سنگھ بیدی بھی اردو کے وہ ادیب ہیں جنھوں نے ریڈیو کی ملازمت اختیار کی اور ریڈیو کے لیے افسانے، ڈرامے اور مختلف النوع تحریریں لکھیں۔ ریڈیو کے لیے لکھے گئے ان کے ڈراموں کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے، جس کا نام ’بے جاچیزیں‘ ہیں۔ اس مجموعے میں (1) کار کی شادی (2) ایک عورت کی نا (3) روحِ انسانی (4) اب تو گھبراکر (5) بے جان چیزیں (6) خواجہ سرا، شامل ہیں۔مجموعے کے پہلے ڈرامے کا نام ’کارکی شادی‘ ہے۔اس کے کردار شفیق محمود، بتول، فرحت، زینت، حمید اور اکرم، ابّا جان، اماں جان اور کریمن ہیں۔ اس ڈرامے کا موضوع اگرچہ عام ہے،لیکن خارجی اور داخلی کیفیات کے درمیان ایک توانا فکری کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ اس ڈرامے میں ایک جوڑے کی محبت کی داستان ہے،البتہ اس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے محبت سے بڑھ کر دولت اہم ہوتی ہے۔ گویا اس میں دولت مند لوگوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیدی کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ’ سات کھیل‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کی فہرست اس طرح ہے: خواجہ سرا، چانکیہ، تلچھٹ، نقل مکانی، آج، رخشندہ، پاﺅں کی موچ۔ 
ریڈیائی تحریروں اور ڈراموں کے حوالے سے شوکت تھانوی کا نام ہمیشہ احترام کے ساتھ لیاجائے گا۔ وہ ریڈیو اسٹیشن لکھنو میں ملازم رہے۔اس دوران ان کے قلم سے بہت سی عمدہ تحریریں نکلیں۔انھوں نے ’منشی جی‘ کے نام سے ایک سیریز نشر کرائی۔ اس سیریز میں جو ڈرامے نشر ہوئے وہ اس طرح تھے : (1)منشی جی نے کہانی کہی (2)منشی جی نے چائے بنائی (3) منشی جی نے خط لکھا (4)منشی جی نے دواپی (5)منشی جی نے صفائی کی(6)منشی جی نے تصویر کھنچوائی (7)منشی جی سودالائے(8) منشی جی نے سبق پڑھایا (9)منشی نے سفر کیا (10)منشی جی نوکر ہوگئے (11)منشی جی نے مکان بدلا۔شوکت تھانوی کا دوسرا ڈراموں کا مجموعہ ’کھی کھی‘ بھی خاصا مشہور ہوا۔ اس میں بھی گیارہ ریڈیائی ڈرامے ہیں۔ جیسے:پہلی تاریخ، پارٹی کے بعد، تین سو چھیاسٹھ، دریا، جہاں پناہ، آم اور جامن، نقش ونگار، مرقع، مرقع وہی، ڈاکٹر صاحب، دوزخ۔ ان کے ’سنی سنائی‘ مجموعے میں بارہ ریڈیائی ڈرامے ہیں جن کے عنوانات اس طرح ہیں۔ مگریاں، برلن کا اسپتال، لاٹری کا ٹکٹ، سچ، ماں باپ کا، زندگی بنام زندہ دلی، خدا حافظ، چھوٹا خواب، پارٹی کے بعد، ملازمہ کی تلاش، انتیس کا چاند،سال گرہ۔مجموعہ’مجھے خریدلو‘ میں دس ریڈیائی ڈرامے شامل ہیں: برکھوا، میر صاحب کی عید، اتوار کو ایک ملازم کس طرح مصروف ہوتا ہے، کون جیتا، مقروض، جنوری، رات گئے، سمجھوتہ، الٹ پھیر، خدا نخواستہ۔
شوکت تھانوی اپنے ڈراموں میں طنز کا بھی استعمال کرتے ہیں اور مزاح کا بھی لیکن مزاح ان کے ڈراموں پر غالب دکھائی دیتا ہے۔وہ اپنے ڈراموں کے بارے میں کہتے ہیں:
”میں نے ریڈیو ڈرامے کے لیے جس قدر بھی تمثیلیں لکھی ہیں۔ان سب میں اپنے مزاج کا رنگ غالب رکھنے کی کوشش کی ہے۔مگر مجھے اعتراف ہے کہ کہیں ریڈیو کے حدود نے مجھ کو کھل کر کھیلنے سے باز رکھا ہے۔“2
 ریڈیائی ڈراموں کی تاریخ اوپندرناتھ اشک کے تذکرے کے بغیر ادھوری سی لگتی ہے۔لاہور ریڈیواسٹیشن میں قیام کے دوران اشک کا پہلا ڈراما 1938میں ریڈیو پر نشر ہوا۔ اس ڈرامے کا نام ’پاپی‘ تھا۔وہ ریڈیو سے ایک عرصے تک وابستہ رہے۔انھوں نیرےڈیو میں ملازمت کے دوران متعدد ڈرامے لکھے۔وہ عورتوں کے مشہور پروگرام’باجی‘ کے لیے ہر مہینے ریڈیائی ڈراما لکھتے تھے۔ پاپی نام سے اشک کے ڈراموں کا مجموعہ شائع ہوا۔اس مجموعے میں کل آٹھ ڈرامے شامل کیے گئے ہیں جن کے عنوان اس طرح ہیں:دیوتاﺅں کے سائے تلے، بیسوا، حقوق کا محافظ، پاپی،کراس ورڈ، لکشمی کا سواگت، باہمی سجھوتہ، جوتک۔ ان ڈراموں میں اشک نے سرسید احمد خاں کی طرح سوتے ہوئے لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی اورلوگوں کو ان ڈراموں کے ذریعے طنزیہ انداز سے مخاطب کیا۔بقول اشک:
”جہاں تک معلوم ہے اردو میں سب سے پہلے میں نے ہی ایک بابی ڈرامے لکھے اور سب سے زیادہ تقریباً پچاس ایکٹ کے ڈرامے لکھے جن میں سے دو ایک کو چھوڑ کر سب کے سب نہ صرف ملک بھرکے اسکولوں، کالجوں کے شوقیہ منچوں پر کھیلے گئے۔ریڈیو پر نشر ہوئے نصاب میں پڑھائے گئے، کچھ دوردرشن پر دکھائے گئے بلکہ جاپان،روس، امریکہ اور انگلستان میں بھی کھیلے گئے۔“3
’پاپی ‘ کے علاوہ اشک کے ڈراموں کادوسرا مجموعہ ’چرواہے‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔اس مجموعے کے ڈراموں میں زیادہ تر علامتوں کا استعمال کیاگیا ہے۔ علامتوں کے ذریعے بسااوقات بات کا اثر بھی بڑھ جاتا ہے اور معنویت بھی۔اکثر یہ علامتیں دبیز پردوں میں چھپی ہوتی ہیںاور ان کے جلو میں بہت سارے اسرار ہوتے ہیں۔ یہ مجموعہ ان سات ڈراموں چرواہے، میمونہ، مقناطیس، معجزے، چلمن، کھڑکی، سوکھی ڈالی جیسے ڈراموں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ اشک کا ایک اور ڈراموں کا مجموعہ’ پکا گانا‘ ہے۔ اس میں بھی سات ڈرامے ہیں۔اس طرح اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اشک نے استقلال کے ساتھ ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھ کر ریڈیائی ڈراموں کے ذخیرے میں کس قدراضافہ کیا۔ 
ریڈیائی ڈرامہ نگاروں میں ایک اور نام چودھری سلطان کاہے جنھوں نے مسلسل ریڈیائی ڈرامے اور فیچر لکھے۔ اس حوالے سے چودھری سلطان کی اپنی پہچان ہے۔ جیساکہ رسالہ’آواز‘ کے 1941کے شمارے کے مندرجہ ذےل اقتباس سے ظاہر ہے:
” چودھری سلطان آل انڈےا رےڈےو کے دیہاتی پروگرام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔وہ ہنسی ہنسی میں بہت سی ایسی کام کی باتیں بتاجاتے ہیں جو دیہاتیوں کے لیے نہایت فائدہ مند ہوتی ہیں،خصوصاً حالات حاضرہ پر ان کی نکتہ چینی ایسی پر لطف ہوتی ہے کہ اس کے باعث دیہات کا بچہ بچہ اس کے نام سے واقف ہے۔جب چودھری سلطان کی نوک جھونک غلام محمد یا پنڈت جی سے ہوتی ہے تو اس وقت کا پروگرام سننے کے قابل ہوتا ہے۔دیہاتی ان کی پر لطف باتیں سننے کے ایسے مشتاق رہتے ہیں کہ جوں جوں شام کا وقت قریب آتا جاتا ہے، ان کا شوق اور بڑھتا جاتاہے۔“4
چودھری سلطان کا ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’سلطان کے ڈرامے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ان کے ڈرامے اپنے سامعین یا قارئین کو تاریخ کی طرف مائل کرتے ہیں، کیونکہ ان کے زیادہ تر ڈرامے تاریخی نوعیت کے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے مذکورہ مجموعے کے ڈراموں کے عنوانات سے کیا جاسکتا ہے جو اس طرح ہیں: راجہ بکرما جیت، شہنشاہ ظہیر الدین بابر، ہمایوں، شہنشاہ اکبر، شہنشاہ جہانگیر، قلعے کی سیر، رستم وسہراب، پڑھائی کی عینک، افیم کی ترنگ۔
چودھری سلطان کے یہ ڈرامے وقتاً فوقتاً مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوچکے ہیں۔ ان ڈراموں میں بادشاہ ظہیر الدین بابر، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر کے کردار ادا کیے گئے ہیں۔ یہ ڈرامے نشریات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔اس لیے ان ڈراموں میں مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ 
عشرت رحمانی کا نام بھی نشریاتی ادب کے فروغ کے حوالے سے اہمیت کے ساتھ لیا جاتاہے۔انھوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے اور ڈراموں کی تنقید بھی۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ’ دکھیا سنسار‘ مندرجہ ذیل چھ ڈراموںپرمشتمل ہے :دکھیا سنسار،پریم دان، نذرانہ، ایک مصنف، غریب محبت کے لیے، دامِ خیال۔ جب ہم ریڈیائی ڈراما نگاروں کی بات کرتے ہیں تو اس سلسلے میں کرتار سنگھ دُگل کا نام بھی ہمیں بہت اہم نظرآتاہے۔ ان کا ریڈیو سے براہِ براست تعلق تھا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔کرتارسنگھ دُگل کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’اوپر کی منزل‘ 2012میں منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں ان کے دس ڈرامے شامل ہیں جن کی ترتیب اس طرح سے ہے:کہانی کیسے بنی،بے نور،پائل میں سوئے نغمے،اوپر کی منزل،اپنی اپنی کھڑکی، دومرد اورایک ماں، امانت، انار کے دوپٹّے، اللہ میگھ دے، جھوٹے ٹکڑے۔’دےا بجھ گیا‘ کرتار سنگھ دگل کا مشہور ڈراما ہے جس کے حوالے سے پروفیسر محمد حسن نے کرتار سنگھ دگل کی ڈراما نگاری پربحث کرتے ہوئے لکھا ہے:
” ان کا ڈراما ’دیا بجھ گیا‘ فن کا اچھا نمونہ نہیں ہے لیکن ’شور اور سنگیت ‘، ’میٹھا پانی‘ اور چند اور ڈرامے کامیاب ڈرامے ہیں اور وہ مختلف سماجی اور نفسیاتی مسائل کو فن کارانہ سلیقے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔’میٹھا پانی‘ ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو تقسیم ہند کے بعد کے ہنگامے میں بھگائی گئی تھی اور جسے بازیافت کیا جاتا ہے۔ اس داستان کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے پنجاب کی پوری فضا سامنے آجاتی ہے۔اسی طرح ’شور اور سنگیت ‘ میں گھر کے غسل اور شور کی نفسیاتی توجیہ ہے۔کس طرح یہ شور ایک ایسی نوجوان عورت کے لیے نفسیاتی الجھن کا سبب بن جاتا ہے جسے ماں بننے کاارمان تھا اور پھر کس طرح بچہ ہونے پر یہی شور سنگیت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دگل چھوٹے چھوٹے مکالموں سے بڑا کام لیتے ہیں اور ان کے یہ ڈرا مے یقینا اس دور کے اچھے ڈرا مے شمار کیے جائیں گے۔“ 4
محمد حسن کا شمار ریڈیو، اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے ڈرامے خود اسٹیج کیے اور دوسروں کے بھی۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ادارہ فروغ اردوامین آباد پارک لکھنؤ سے ’میرے اسٹیج ڈرامے‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس میں محمد حسن کے چھ ریڈیائی ڈرامے شامل ہیں۔ ان ڈراموں کی فہرست اس طرح ہے:ریہرسل،محل سرا،میرتقی میر،موم کے بت،فٹ پاتھ کے شہزادے،گوشۂ عافیت۔محمد حسن کی ریڈیائی تحریریں،ریڈیو کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر تحریر ہوئی ہیں۔انھوں نے ریڈیو ڈراموں میں لمبے لمبے مکالموں سے گریز کیا اور ان تمام ریڈیائی تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ان رےڈےائی ڈرامہ نگاروںکے علاوہ اور بھی بہت سے ڈرامہ نگاروں نے رےڈےو کے لےے ڈرامے لکھے۔ اےسے ڈرامہ نگاروں میں رفعت سروش،محمد خالد عابدی، ابوبکر آوارہ،عشرت رحمانی،شوکت تھانوی وغےرہ کے نام بڑی اہمےت کے حامل ہیں۔
بعض ادیبوں نے باضابطہ ریڈیو میں ملازمت نہ کرنے کے باجودریڈیو کے لیے تسلسل کے ساتھ ڈرامے لکھے یا ان کے ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوتے رہے، ایسے ادیبوں میں ایک معتبر نام عصمت چغتائی کا ہے۔ اگرچہ ان کا نام آتے ہی ہمارا ذہن ناول اور افسانے کی طرف جاتاہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عصمت چغتائی نے ڈرامے بھی لکھے ہیں اور خاص طورپر ریڈیو کے لیے بھی لکھے ہیں۔ریڈیائی نشریات پر مشتمل ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’شیطان‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں مجموعی طور پر چھ ڈرامے ہیں۔(1) شیطان (2) خواہ مخواہ (3) تصویریں (4) دلہن کیسی ہے (5) شامتِ اعمال (6) دھانی بانکپن۔ عصمت چغتائی کے ڈراموں کا دوسرا مجموعہ ’کلیاں‘ ہے۔ا س میں افسانے اور ڈرامے دونوں شامل ہیں۔ جن کے عنوان اس طرح ہیں: انتخاب، سانپ، فسادی، ڈھپٹ، بنئے۔ مذکورہ ڈرامہ نگاروں کے علاوہ جن ادیبوں نے ریڈیائی ڈرامے لکھے ان میں میاں لطیف الرحمن، رفیع پیرزادہ، سید انصار علی ناصری، مرزاادیب، احمد ندیم قاسمی، اشتیاق حسین قریشی، حفیظ جاوید، یوسف ظفر، مختار صدیقی، عمیق حنفی، رفعت جمالی، حیات اللہ انصاری، عابد علی عابدی، شمیم حنفی، فضل حسین، وارث احمد خاں، قمر جمالی وغیرہ اہم ہیں۔
ریڈیو ڈرامے پر سیر حاصل گفتگو کا تقاضا ہے کہ ریڈیوڈرامہ کے فن کوبھی سامنے رکھا جائے اور اس کی تعریف، اقسام، تکنیک، ہیئت وغیرہ کا جائزہ لیاجائے، ساتھ ہی اس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے کہ ریڈیو ڈرامہ اور اسٹیج ڈرامہ کے مابین کیا مماثلت ہے اور کیا تفاوت۔
ریڈیائی ڈرامہ لکھنا ایک فن ہے۔ جو ڈراما نگار ریڈیو کے لیے ڈرامے تیار کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مائیکرو فون کی اہمیت اور اس کی گوناگوں صلاحیت سے بھی واقف ہو۔ ریڈیو ڈرامے فنی نقطہ نظر سے تکنیکی نقطہ نظر اور پیش کش کے نقطۂ نظر سے بھی اپنا انفرادی مقام رکھتے ہیں۔ ریڈیو ڈرامہ چونکہ اسٹیج ڈرامے سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ مثلاًریڈیو ڈرامے میں آواز کاسہارا لیا جاتا ہے، پانی کی آواز، سیلاب کی آواز وغیرہ۔ آوازوں کے اس کھیل میں مائیکروفون ساتھ دیتا ہے۔ مائیکروفون ایک ایسا ساتھی اور دوست ہوتا ہے جو آرٹسٹ کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ ریڈیو ڈرامے کے متعلق ہر یش چندرکھنہ تحریر کرتے ہیں :
” ریڈیو ڈرامے کی تعمیر نشری اسٹوڈیو کی خصوصیات کو ذہن میں رکھ کر کرنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں ریڈیو کے لیے لکھی گئی کہانی کو اس شکل میں ہونا چاہیے کہ وہ الفاظ صوت اور موسیقی کے ذریعہ پیش ہوسکیں۔“6
ریڈیو ڈرامہ ایک نازک فن ہے۔ڈرامے کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ڈرامہ پروڈیوسر پر ہوتا ہے۔ ڈرامہ پروڈیوسر کا ریڈیو ڈرامہ کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے جب اسے تمام چیزوں سے واقفیت ہوگی تبھی وہ ایک اچھا ڈرامہ پروڈیوس کرسکتاہے۔
ریڈیو ڈرامے اور اسٹیج ڈرامے کے درمیان فرق ہے۔ اس لیے کہ ریڈیو کے تقاضے اسٹیج کے تقاضوں سے بہت حد تک مختلف ہوتے ہیں۔ اسٹیج میں سارا منظر آنکھوں کے سامنے ہوتاہے جب کہ ریڈیو ڈرامے کا تعلق سماعت سے ہوتا ہے۔کیونکہ ریڈیو ڈرامے میں نظر کام نہیں کرتی اور کہانی کااظہار الفاظ، صوت اور موسیقی کی مدد سے کیا جاتاہے،اس لیے بیان یا اشارہ نظرنہیں آسکتا۔ ریڈیو ڈرامے میں کہانی کا اظہار اور تعمیر و تشکیل میں دیکھنے اور سننے کے فرق کو اولیت دی جاتی ہے۔ چنانچہ ریڈیائی ڈرامے اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ فنّی اعتبار سے بھی بہت حدتک دونوں کا میدان الگ الگ ہوتاہے۔ریڈیو آواز کی دنیا ہے۔ آواز انسانوں کی، سازوں کی، موسموں کی، خوفناک درندوں کی، پرندوں کی اور آندھیوں اور سناٹوں کی وغیرہ۔ صرف آوازوں کے اتار چڑھاﺅ اور بہاﺅ سے ہی ریڈیائی ڈرامے مرتب کیے جاتے ہیں۔
اسٹیج کی دنیا میں  اداکاروں کے وجود اور مکالموں کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ، مناسب روشنی اور پھر ادا کاروں واداکاراﺅں کی حرکات و سکنات، نشست وبرخاست، ان کا میک اَپ، ہدایت کار اور سب سے بڑھ کر ڈرامے کے تماش بیں ضروری ہیں۔مگر ریڈیائی ڈراموں میں ان سب کے بدلے آواز کام کرتی ہے۔اسٹیج پر جس ضرورت کے تحت مخصوص لباس زیب تن کیا جاتا ہے، میک اَپ کیا جاتا ہے۔اس ضرورت کو آرٹسٹ صرف اپنی آواز سے پورا کرتا ہے۔ وہ اپنے لہجے کو اس قابل بناتاہے کہ وہ کردار کی پوری عکاسی کرسکے۔ضرورت کے مطابق اسے آواز بدلنی پڑتی ہے۔ ڈراما پروڈ یوسر حسب ضرورت پس منظر میں موسیقی کاجادو جگاتاہے اور بھیڑ بھاڑ مثلاً بازار، ریلوے اسٹیشن یا کھیل کے میدان کا مخصوص شور ان مخصوص آوازوں کی ریکارڈنگ کے سہارے اس طرح پیش کرتا ہے کہ سامعین کو سب کچھ وقوع پذیر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ریڈیو ڈراما نظارے سے محروم رہتاہے، اس لیے وہ اسٹیج ڈرامے کی طرح تین چار گھنٹے کی مدت پر مشتمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ بی۔بی سی سے ڈھائی گھنٹے کا ریڈیو ڈراما نشر ہوچکاہے۔پھر بھی ریڈیو ڈرامے زیادہ تر پندرہ منٹ سے لے کر ایک گھنٹے تک کے لکھے جاتے ہیں۔ریڈیو ڈرامے میں دوہرے پلاٹ کی گنجائش ہے مگر زیادہ کردار طویل مکالموں، عمل کے وسیع پھیلاﺅ اور کہانی کی کشادگی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس لیے کم کردار، اکہرے یا دوہرے پلاٹ مگرکم پیچیدگی کے ساتھ، مختصر، جامع اور گھٹے ہوئے مکالمے، کہانی کی کشمکش اور تصادم کافوری اظہار ریڈیو ڈرامے میں خاص اہمیت رکھتاہے۔
مختصر طورپریوں کہاجاسکتاہے کہ ریڈیو ڈراما ’سماعتی فن‘ اور اسٹیج ڈراما ’نظری فن‘ کے تابع ہے۔فن کے اختلاف سے دونوں کی تکنیک اور اسلوب میں بنیادی فرق پیدا ہوجاتاہے۔ تین ہزار سال سے ڈرامے کی جو روایت چلی آرہی ہے، وہ بیسویں صدی میں نئی شکلوں میں سامنے آئی ہے۔بہرکیف ریڈیو اور اسٹیج ڈراموں، دونوں، کا مقصد انسان کی زندگی کی تشریح وتعبیر ہے۔ان دونوں ڈراموں نے علم و فن کے بدلتے ہوئے افکار و خیالات کو اپنے قالب میں جگہ دی ہے۔زندگی کو مختلف پہلوﺅں اور زاویوں سے دیکھا اور پرکھاہے اور سامعین وناظرین کو اپنے فن سے لطف اندوز کیاہے۔
معروف ناقداحتشام حسین ریڈیو ڈرامے کو مکمل ڈراموں کی راہ کی رکاوٹ قرار دینے کے باوجود اس کی انفرادیت واہمیت کے قائل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
” ریڈیو کی ضروریات کے لیے ریڈیو ڈرامے کی شکل میں بنیادی تبدیلی ہوئی اور لکھنے والوں کی تکنیک کے معاملے میں خاص طرح کی پابندیوں کاسامنا کرنا پڑا۔“7
ریڈیائی ڈرامہ نگاروں نےاپنے ڈراموں میں ندگی کی بہترین عکاسی کی ہے۔ یہ ڈرامے نشر بھی ہوئے اور اسٹیج بھی اور ساتھ ہی ساتھ شائع بھی ہوئے۔یہ ڈرامے نصیحت آموز ہیں اور ان میں طنزومزاح کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔یہ ڈرامے مکالمہ نگاری کے حوالے سے کامیاب ہیں میری ذاتی رائے کے مطابق ان ڈراموں سے اردو ادب کو بے حد فائدہ پہنچا۔سامعین ان ڈراموں کو دلچسپی سے سنتے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ دھیرے دھیرے ریڈیو کا چلن کم ہوا تو ان کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی۔ریڈیائی ڈرامے مقررہ وقت پر سنے جاتے تھے اور پھر دوبارہ سامعین ان کو سن نہیں سکتے تھے، لیکن جب یہ ڈرامے کتابی صورت میں ہوئے تو قارئین نے اس بات کو محسوس کیا کہ اب تو کسی بھی وقت ان ڈراموں کو پڑھا جاسکتا ہے اور چونکہ ریڈیو پر جو ڈرامے نشر ہوا کرتے تھے تو ڈراما نگاروں کو کم وقت میں پورا ڈراما پیش کرنا ہوتا تھا، اس لیے ان ڈراموں میں طویل مکالموں سے گریز کیا جاتا تھا اور کرداروں (تعداد) کی پیش کش بھی کم ہوتی تھی۔بہرحال ان تصانیف کی اہمیت ومقبولیت اگلے زمانوں میں بھی رہے گی اورانھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
 حواشی:
(1) اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید عشرت رحمانی ص 244
(2) نشریات تاریخ، اصناف اور پیش کش از زبیر شاداب، ص 252-253
(3) نشریات، تاریخ، اصناف اور پیش کش از: زبیر شاداب، ص 243
(4) اردو میں نشریاتی ادب، از ڈاکٹر محمد شکیل اختر ص168
(5) رسالہ آج کل ڈراما نمبر جنوری1959ءدہلی، ص 26
(6) ریڈیونشریات آغاز وارتقائ۔حسن مثنیٰ، ص 202
(7) جدید اردو ڈراما اور اس کے بعض مسائل، از:احتشام حسین۔ آج کل ڈراما نمبر، 1959، ص8

Ms. Pakeeza Akhtar
Marazigund Rafiabad
Baramulla Kashmir - 193303 (J&K)



ماہنامہ اردو دنیا،اکتوبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...