30/12/22

ن م راشد شمیم حنفی کی نظر میں: ثاقب فریدی


دنیا کے بیش تر افسانوی ادب میںمافوق الفطرت، افسانوی اور دیو مالائی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ایک طرف قوموں اور ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی ارتقا کے مدارج سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، تودوسری طرف انسانی ذہن کے بدلتے رویوں کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ واضح رہے کہ افسانوی ادب سے یہاں صرف نثر مراد نہیں ہے بلکہ افسانوی ادب میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جن میں قصہ اور کہانی کا وافر ذخیرہ موجود ہے، مثال کے طور پرہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ہو، شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں یامہابھارت اور رامائن ہو۔ یہ سب افسانوی ادب نثر میں نہیں بلکہ نظم کی شکل میں وجود میں آئے ہیں۔

اساطیر دراصل عربی لفظ ہے جو اسطورہ کی جمع ہے۔ادب میں اسطور سے بالعموم ایسی کہانی مراد لی جاتی ہے جو حقیقی مفہوم میں پوری طرح صداقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس میں اشخاص و کردار اور اعمال طبیعی دنیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ اساطیری اور نیم اساطیری کردار فوق الفطرت اور سماوی طاقتوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ اردو میں اساطیر کے ساتھ ساتھ دیومالا کی اصطلاح بھی رائج ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے متھ(Myth )کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین فن نے اپنے اپنے انداز میں اساطیر کی تعریف پیش کی ہے۔بہرحال اساطیر ہو یا دیومالا اور متھ، معنی و مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی حد تک یکسانیت ہے، اور ان کاگہرا تعلق بالعموم مذہب سے ہوتا ہے۔ مذہب سے الگ رکھ کر ہم اساطیر کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے۔

اسطوری فکر نے ہر عہد میں ادب او ردیگر فنون لطیفہ کو ایک وسیع کینوس عطا کیا۔ہومر کی ایلیڈ یا اوڈیسی ہو، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ہو یااقبال کا جاوید نامہ۔ ادب سے قطع نظرمائیکل اینجلوکے شاہکار ہوں یا اجنتا اور ایلورا کی گپھاؤں میں موجود فنی شاہکار، اپنے فن کے اظہار کے لیے مرکزی خیال سب کو اساطیر میں ہی نظر آئے۔ شعر و ادب کی دنیا پر بھی اساطیر کے نہ صرف بہت وسیع اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے بلکہ آج کی سائنسی حقیقت نگاری کے عہد میں بھی تخلیق کاروں اور فنکاروں کے لیے اساطیرو دیومالا میں تخلیقی کشش برقرار ہے۔ اساطیری فکر پر مبنی ادب میں جہاں ایک طرف معنوی ابعاد پیدا ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف تلمیحات و استعارات، علامات و تمثیلات اور دیگر فنی پیرائے کے لیے نت نئے راستے ہموار ہوتے نظر آتے ہیں۔اساطیر نے شعروادب کو کس طرح گہرائی و گیرائی سے ہمکنار کیا ہے اسے اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ غالب کا ایک شعرہے         ؎

تھیں بنات النعش گردوں دن کے پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں

عام طور پر غالب کے اس شعر کو محض فلکیاتی نکتے کی شاعرانہ وضاحت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن اسے سپت رشی کے اسطوری قصے سے جوڑ دیا جائے تو شعر کی معنی آفرینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپت رشی کا قصہ یوں ہے کہ دریا کے کنارے ایک تپسوی ریاضت میں منہمک تھا۔ اسی اثنا میں سات شہزادیاں دریا پر نہانے کے لیے پہنچیں۔ ان کے شوروغل سے رشی کی تپسیا بھنگ ہوگئی اور شہزادیوں کے برہنہ جسم پر نظر پڑنے کی وجہ سے اس کی تپسیا بھی اکارت ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے تمام شہزادیوں کو بددعا دے دی اور وہ آسمان میں پہنچ کربنات النعش کی صورت میں چمکنے لگیں۔ اب اگر غالب کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے سپت رشیوں کا یہ قصہ مد نظر رہے تو بنات النعش اور عریانیت دونوں کا ایک الگ ہی مفہوم نظر آتا ہے۔1

اسطوری لفظیات کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک تہذیب و ثقافت میں موجود اسطوری کردار کو پڑھتے ہوئے دیگر ثقافتوں میں موجود ویسے ہی کردار کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے اور ان میں مماثلت یا مطابقت کو تلاش کرتے ہوئے ایک قاری کا ذہن بیک وقت فن پارے کی قرأت اور تخلیق دونوں کی مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اردو نظم کی دنیا میں دو ایسے شعرامنظر عام پر آئے جنھوں نے اردو نظم کی دنیا کو ایک بالکل ہی نئے، منفر اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا۔جنس سے متعلق فرائڈ کے نظریات اور فرد کی سماج پر بالادستی نیز انفرادیت کو اجتماعیت پرفوقیت، یہ ایسے انقلابی تصورات تھے جنھوں نے نظریاتی سطح پر اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی۔ نظریات کی اس تبدیلی کے باعث اظہار کے طریقوں میںبھی تبدیلی ناگزیر تھی۔ میراجی اور راشد یہ دو ایسے شعرا تھے جن کے اثرات اردو نظم کی دنیا میں بہت گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔یہ وہ عہد تھا جب ایک طرف میراجی نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کے لیے ہندو دیومالا میں بے پناہ کشش محسوس کی اور دانستہ اپنی زبان کے ڈانڈے ہندی سے ملائے اور فارسی کو بتدریج کم کرنے کی طرف مائل ہوئے، وہیں راشدکا مزاج یکسر مختلف تھا۔ انھیں صحرا اور عجم کی وسعتوں میں تخلیقی کشش نظر آئی لہٰذا انھوں نے فارسی کے الفاظ و تراکیب کابیش ازبیش استعمال کیا۔

 ن  م راشد کا نام آتے ہی جو پہلی نظم ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہے وہ ہے ’سبا ویراں۔‘ یہ راشد کی ایک ایسی نظم ہے جس کی شمولیت کے بغیر جدید نظم کا کوئی بھی انتخاب مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راشد کی مشہور ترین نظموں میں دیگر نظمیں اسرافیل کی موت، حسن کوزہ گر اور ’اندھا کباڑیـ‘ وغیرہ ہیں۔ ’اندھا کباڑی ‘سے قطع نظر مذکورہ دو نظمیںاپنے اساطیری ماحول، اپنے معرب ومفرس لہجے کی بلندوبالا گونج اور اپنے کہانی پن کے باعث ہماری یادداشت کا ایک مستقل حصہ بن چکی ہیں۔راشد نے اپنی شاعری میں روایات، اساطیر، قصص اور تلمیحات بطور خاص عرب اور اسرائیلی اساطیرکو اپنے شعری تجربے کی ترسیل کے لیے بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔تبسم کاشمیری لکھتے ہیں’’راشد کی شاعری میں اساطیری شہروں کی ایک دنیا آباد ہے ‘‘2

راشد کی شعری زبان اور ان کی علامتی تہ داری ایک ایسی فضا کی حامل تھی جو اردو نظم کے لیے نامانوس تھی۔ اس لیے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ماورا‘ ابتدا میںایک رائیگاں عمل معلوم ہوا۔قاری کو ان نظموں کی لسانی فضا انتہائی نامانوس معلوم ہوئی۔چوں کہ ہماری قدیم حکایتیں، اکثر لوک کتھائیں اور بیش تر الف لیلوی قصے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں شروع ہوتے تھے مثلاً ’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ وغیرہ اور ہمارا قاری اسی انداز بیاں کا عادی تھا۔ایسا نہیں ہے کہ راشد سے قبل اردو نظم میں اسلامی اساطیر، روایات اور تہذیب و ثقافت کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ اقبال کی مثال سامنے کی ہے بلکہ اس عہد کی فضا میں اقبال کی پرشکوہ آواز گونج رہی تھی۔ لیکن اقبال اور راشد کے پیرایہ اظہار میں ایک واضح فرق ہے۔ اقبال کے یہاں ماضی کے تعلق سے ایک تفاخر اور اپنی روایت کے تعلق سے ایک قلبی لگاؤ تھا اور بیان کی سطح پر واقعات کی ازسرنو تشکیل نہیں کی گئی تھی، جب کہ راشد کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے یہاں عرب اور اسرائیلی اساطیر بالکل نئے اور نامانوس صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ راشد کے یہاں اساطیر سے استفادے کی نوعیت تلمیحی کے ساتھ ساتھ علامتی بھی ہے،جب کہ راشد سے قبل کی شاعری میں اس کی نوعیت صرف تلمیحی تھی،یعنی اس کردار سے وابستہ قصے سے واقفیت اس نظم یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتی تھی،جب کہ راشد نے علامتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے قصے کے صرف کرداروں کے نام لیے اور ان سے وابستہ تصورات میں یکسر تبدیلی کردی جس سے ان کی تفہیم نسبتاً مشکل ہوگئی۔ اس بات کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرنے کے لیے راشد کی اسی نظم کی بات کرتے ہیں جس کا عنوان ’سبا ویراں‘ ہے۔ ’سبا ویراںـ ــ‘ میںموجود کردار اسلامی اور اسرائیلی روایات کے مطابق ایک ایسے بادشاہ کا کردار ہے جس کی حکومت بحروبر، جن و انس، چرندوپرند یہاں تک کہ ہواؤں پر بھی ہے۔’ سبا‘ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ وہاں ’بلقیس‘ رہتی ہے جواسرائیلی روایات کے مطابق اس بادشاہ کی بیوی ہے۔’سلیمان‘ کے تعلق سے یہ قصہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔ اب راشد کی نظم میں بیان کردہ  ’سلیمان‘ کو ملاحظہ فرمائیے        ؎

سلیماں سر بہ زانواور سبا ویراں

 سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

 سبا آلام کا انبار بے پایاں

گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی

 ہوائیں تشنۂ باراں

 طیور اس دشت کے منقار زیر پر

تو سرمہ در گلو انساں

 سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!3

’سلیماں‘ اور ’سبا ‘دو ایسی تاریخی علامتیں ہیں جن کے ساتھ عظمت و شوکت کا تصور وابستہ ہے۔ لیکن راشد نے ان علامتوں کو زوال، بے بسی اور تباہی کا منظر نامہ بنایا ہے۔ نظم کے آغاز میں ’سلیماں‘ کی پرشکوہ ہستی سے وابستہ ہمارا تصور مجروح ہوجاتا ہے اور ہم اچانک ’سلیماں‘ کو بے بسی اور کسمپرسی کی انتہاؤں پر دیکھتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شان و شوکت اور سطوت کی یہ علامت اس بدترین حالت کو کیسے پہنچی۔’سبا‘ کا علاقہ جو خوشحالی اور زرخیزی کا دوسرا نام تھا وہ ویران ہی نہیں بلکہ آسیب کا مسکن بن چکا ہے۔ دنیا نباتات سے محروم ہے نہ سبزہ ہے نہ پھول اور نہ گھاس اور یہ سب کچھ ہو بھی تو کیسے کہ ہواؤں میں پانی ہی نہیں۔ گویا ایک آفاقی خشک سالی کا منظرہے۔نظم کے آخری حصے پر پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تباہی اور زوال کا سبب وہ غارت گر ہے جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ چونکہ یہ نظم راشد کے مجموعے  ایران میں اجنبی میں شامل ہے اور اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی استعماریت کا شکار ہوگیا تھا۔ لہٰذا ’غارت گر‘ یہاں نو آبادیاتی طاقت کی علامت ہے جس نے ایران کو لوٹ کر برباد کردیا تھا۔’ سبا ویراں‘ ایک ایسے انسانی منطقے کی علامت بنائی گئی ہے جو آلام و آسیب کا شکار ہے، جہاں بالیدگی اور نمو پذیری اپنی قوت کھوچکی ہے۔ انسان سے اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے اور پورے ماحول پر ایک غیر تخلیقی قوت غالب آگئی ہے جس کی وجہ سے عمل تخلیق معدوم ہوگیا ہے لہٰذا سب کچھ اگربنجر اور ویران ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ راشد کی اس نظم پر گفتگو کرتے ہوئے طارق ہاشمی لکھتے ہیں’’نظم کی فضا ایلیٹ کے اسلوب شعر سے بہت مماثل ہے۔ نظم پڑھ کر ان کی نظم 'Gerontion' اور 'The Waste Land' کے بعض مصرعے بھی یاد آتے ہیں۔ ‘‘4

راشد کے عہد میں بھی لوگوں نے ان کی تخلیقات میں خاصا ابہام محسوس کیا اور اب بھی جدید نظمیں مبہم اور مشکل ترین سمجھی جاتی ہیں۔ جدید نظموں کی تفہیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر علامتیں قدیم دیومالائی کہانیوں، لوک کتھاؤں یا تاریخی حوالوں سے وارد ہونے کے باوجود کچھ الگ ہیں۔نیا ادب اگرچہ پرانی علامتوں کے سہارے چل رہا ہے لیکن ایک نئے انداز میں۔ انتظار حسین کا زرد کتا ہو یا آخری آدمی، انور سجاد کا پرومیتھس، سسی فس ہو یا سنڈریلا تاریخی یا نیم تاریخی اور اساطیری حوالوں سے درآنے والے ان کرداروں کو سمجھنے میں قاری کو مشکل یوں بھی پیش آتی ہے کہ نئے ادب میں ان کا استعمال محض تلمیحی نہیں ہے۔ قاری جس ’سلیماں ‘سے روبرو ہوتا ہے وہ کروفر والا اور شان و شوکت والا بادشاہ سلیمان نہیں بلکہ راشد کا ’سلیماں‘ سر بہ زانو ہے۔ اور سبا کی ویرانی میں سلیماں کو سربہ زانو دیکھنا ایک بالکل غیر متوقع اور حیران کن تجربہ ہے۔ ادب میں اساطیر اور دیومالا کے علامتی استعمال کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد خان نے ایک بہت اہم بات کہی ہے

نئے ادب میں عموماً ہو ایہ ہے کہ قدیم علامتیں الٹ گئی ہیں۔ زینہ بلندی کی طرف نہیں جاتا پل راستے میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ مذہبی اور اساطیری کردار اپنی قوت کھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سلیماں سر بہ زانو ہے اور سبا ویراں۔ انسان جانور بن جاتا ہے اور بھول بھلیاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ سواریاں منزل تک نہیں پہنچتیں اور زندگی کا شجر ٹنڈ منڈ درخت بن گیا ہے۔۔۔انسان کو جانور نئے افسانہ نگاروں نے تو نہیں بنایاوہ قدیم کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ تو ہے بھول بھلیوں میں پھنسنا بھی خود انھیں کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ ہے۔ پل سے لڑھک جانے کا منظر وہاں بھی ہے مگر وہاں انسان گر کر سنبھل جاتا ہے اور ان عبوری مراحل سے نکل آتا ہے نئے ادب میں عموماً یہ مرحلہ مستقل بن جاتا ہے۔5

نظم ’اسرافیل کی موت‘ میں راشد نے اسرافیل کے اساطیری کردار کو مختلف جہتوںاور تخلیقی رویوں کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ نظم گذشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں کہی گئی تھی۔ اس وقت مغربی ادب میں بالخصوص Death of Orpheus کا بہت چرچا تھا۔ یک بیک سارے مغربی ملکوں میں اور بالخصوص ادیبوں اور دوسرے تخلیق کاروں کی دنیا میں ایک داخلی سناٹے کی کیفیت تھی۔ اس سکوت کی گونج ہمیں اس نظم میںبھی سنائی دیتی ہے۔ اسلامی اساطیر کے حوالے سے اسرافیل انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور بہ حکم خداوندی انھیں ایک حیات ابدی عطا کرے گا۔ راشد نے اس روایت کو اپنے تخلیقی رنگ میں الگ جہت دے دی ہے اور ہم ایک ایسے اسرافیل کو دیکھتے ہیں جو خود مرگ آشنا ہے۔ وہ ہستی جو نئی اور ابدی زندگی کا وسیلہ سمجھی جاتی ہے وہی موت سے دوچار ہو گئی۔ مرگ اسرافیل ایک ایسا کربناک حادثہ ہے جس کے صدمے سے نہ یہ کہ پوری کائنات کی حالت ابتر ہے بلکہ خالق کائنات کی آنکھیں بھی نم ہیں، کیوںکہ اسرافیل کی موت گویا آواز کی موت ہے۔ ترسیل اور اظہارکی موت ہے، چنانچہ زمان و مکاں جو آواز ہی کے رشتے سے باہم منسلک تھے اور انسان اور فطرت خداوندی میں آواز ہی سے ربط قائم تھالہٰذا مرگ اسرافیل کے باعث انسان اور خدا کے درمیان رابطہ بھی ختم ہوگیا

مرگ اسرافیل سے

 گوش شنوا کی، لب گویا کی موت

 چشم بینا کی، دل دانا کی موت

 تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو

 اہل دل کی اہل دل سے گفتگو

 اہل دل جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو

 اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم

اب گلی کوچوں کی ہر آواز گم

 یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم

 مرگ اسرافیل سے

 اس جہاں کا وقت جیسے سوگیا، پتھرا گیا

 جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا

 ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں

 ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں

 مرگ اسرافیل سے

 دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی

 زباں بندی کے خواب

 جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو

 اس خداوندی کے خواب! (اسرافیل کی موت)6

نظم کی تعبیر مختلف ناقدین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں اس نظم میں اسرافیل انسانی ضمیر کا استعارہ ہے اور اسرافیل کی موت بنیادی طور پر انسانی ضمیر کی موت ہے۔ یہ تصور کہ قیامت آئے گی اور اس وقت اسرافیل صور پھونکیں گے تو راشد اعلان کرتے ہیںکہ اسرافیل کی تو موت واقع ہوچکی اور اس کے خوف سے جو نظام کائنات میں رنگ و آہنگ یا سوزوگداز تھا، کب کا ختم ہوچکا۔ یہ پوری نظم زبردست طنزیہ انداز رکھتی ہے۔

نظم کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی کہ اسرافیل انسانی تہذیب و تمدن کے تحرک اور انسانی حقوق کی حفاظت کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے، جس کے گرد راشد نے تمام بنیادی انسانی تقاضے جمع کردیے ہیں۔ اسرافیل کی زندگی ان تقاضوں کی حفاظت ہے اور اسرافیل کی موت اس مقصد کی موت ہے۔ انسان کی فکری، تہذیبی اور سیاسی آزادی سلب ہونے سے دنیا انجماد کا شکار ہوگئی ہے۔ اس نظم کی علامتیں ان ایشیائی ممالک پر منطبق ہوتی ہیں جہاں آمرانہ نظام قائم ہے اور عوام بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ نظم میں معانی کے اتنے امکانات اور فنی دبازت، اسطور کے کامیاب استعمال کی ہی مرہون منت ہے۔ راشد کی ایک اور نظم ہے ابو لہب کی شادی۔ نظم ’ابولہب کی شادی‘ میں ابولہب اجنبی زمینوں سے لعل و گوہر سمیٹتا، سالہا سال بعد جب اپنے گھر واپس آتا ہے تو لوگ اس کی یہ بات نہیں بھولتے کہ         ؎

ابولہب! 

تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن

  گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟(ابولہب کی شادی)7

یہ سن کر ابولہب یہ نہیں کرتا کہ لوگوں سے معافی مانگ لے بلکہ وہ اپنے عمل پر نازاں ہوتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اجنبی کی طرح باقی زندگی گزار دے      ؎

ابولہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!8

قرآن میں ابولہب اور اس کی بیوی کا ذکر دشمن اسلام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں پیغمبر اسلام کے دشمن تھے اور ہمہ وقت انھیں تکلیف پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ راشد نے دونوں کو ا س تاریخی مفہوم سے نکال کر نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ابو لہب کے لفظ میں ’آگ اور چنگاری‘ کا لغوی مفہوم موجود ہے۔ بیوی کی صفت یہ ہے کہ اس کے سرپہ ایندھن ہے اور گلے میں سانپوں کا ہار۔ دونوں باتیں کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں ’ ’اس نظم میں ابولہب مذہبی استعارے کے طور پر مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ ’فنکار‘ کی علامت ہے اور ’بیوی‘ اس کا ’فن‘ ہے۔ یہ فن عوام کو اس لیے پسند نہیں کہ یہ اجنبی بوباس رکھتا ہے اور ان کے لیے اچنبھے اور خوف کا باعث ہے۔ ‘‘9

ابولہب کو فنکار کی علامت بنانے سے متعلق عقیل صاحب یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ ’’یہ دراصل عوام کے رویے کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے جس طرح فرانس کے علامت نگار خود کو ’زوال پسند(ڈکیڈینس)‘ کہتے تھے گویا اسی طرح راشد نے بھی خود کو ابولہب کہا ہے۔ اس میں ایک طنز کی کیفیت ہے اور یہ طنز عوام پر ہے کہ وہ سنجیدہ شاعروں کو اپنا دشمن مانتے ہیں۔‘‘10

 اب کچھ ایسی نظموں کا تذکرہ جن میں اسلامی اور اسرائیلی اساطیر سے قطع نظر ان اساطیر سے استفادہ کیا گیا ہے جنھیں کسی مکانی یا ثقافتی چوکھٹے میں بندکرنا مشکل ہے۔ اسا طیر سے ماخوذ علامتوں میں راشد کی ایک علامت  ’سمندر‘ ہے۔ سمندر ادبیات اور اساطیر عالم کی ایک اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔ہر تہذیب کے اساطیر میں سمندر ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ چینی تہذیب کے مطابق سمندر ہی اژدہاؤں کا خصوصی مسکن اور ہر قسم کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ قدیم ہند کے ویدک زمانے میں پانی کو زندگی کی ماں کہا گیا۔ پانی کو لافانی بتایا گیا ہے۔اس زمین پر پانی ہی چیزوں کا آغاز اور انجام ہے، یعنی سمندر کے ساتھ موت اور ازسر نو پیدائش کا تصور پایا جاتا ہے۔ راشد کی دو نظموں ’اے سمندر‘ اور ’سمندر کی تہہ میں‘ میں سمندر تہ در تہ لاشعور کی علامت ہے، جس کی اتھاہ گہرائیوں میں نامعلوم کیا کچھ پڑا ہے،گویاماضی اور ماضی کے تجربات، اساطیر، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں         ؎

سمندر کی تہ میں

 سمندر کی سنگین تہ میں

 ہے صندوق...

 صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا

 میں ڈبیا...

 میں کتنے معانی کی صبحیں

 وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند

 اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی کتنی سہمی ہوئی!(سمندر کی تہ میں) 11

 ذکر جب راشد کا ہو تو ان کی محبوب ترین علامت ’آگ‘ کا تذکرہ کیے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔زمانہ قبل از تاریخ سے ’آگ‘ ایک مافوق الفطرت قوت کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ بعد ازاں دنیا کی قدیم تہذیبوں مثلاً مصر اور ویدک ہند میں آگ کو دیوتا کا مقام حاصل ہوگیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں یہ دیوتا مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔ چنانچہ آریا اسے اگنی، مصری رع، یونانی اپالو اور ہیلی اوس،  رومی ولکن اور ایرانی اسے مزد کہتے تھے۔12

مشرق اور مغرب کی دیومالا میں آگ سے متعلق تصورات میں حیرت انگیز یکسانیت نظر آتی ہے۔ قدیم انسان نے آگ سے جو تجربات حاصل کیے، ان میں ہمہ گیر مماثلت کا عنصر ملتا ہے مثلاً قدیم انسان کا تعلق زرعی زندگی سے تھا۔ انسان ہمیشہ سے بکثرت پیداوار کا خواہش مند رہا۔ اس ضمن میں وہ آگ کو اپنا مددگار اور دوست سمجھتا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ آگ کے سحر سے اس کی فصلوں پر ہونے والے برے اثرات دور ہوسکیں گے۔ زرخیزی کے ساتھ ساتھ آگ کے ساتھ تطہیر کا تصور بھی وابستہ تھا یعنی آگ سے چھوجانے والی ہر چیز پاک، صاف اور گناہ و آلائش کی آلودگی سے مصفا ہوجاتی ہے۔ زرخیزی، افزائش اور تطہیر کے یہ تصورات پوری دنیا میں موجود رہے ہیں، اس سلسلے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں فرق نہیں ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق ’اگنی‘ ہی ایک ایسا دیوتا ہے جس میں دیگر تمام دیوتا جذب ہوجاتے ہیں، اسی لیے اسے دیوتاؤں کا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ راشد کی شاعری میں مختلف شعوری اور غیرشعوری تصورات کی پیش کش کے لیے آگ بار بار اپنے تلازمات کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ کہیں وہ آزادی کی علامت ہے تو کہیں جذبے اور شعور کی علامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے توکہیں اس کے تطہیری کردار کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے

آگ آزادی کا دلشادی کا نام

 آگ پیدائش کا، افزائش کا نام

 آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترن

 آگ آرائش کا، زیبائش کا نام

 آگ وہ تقدیس دھل جاتے ہیں جس سے سب گناہ

 آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم

 عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب (دل مرے صحرا نورد پیر دل)13

راشد نے نہ صرف یہ کہ اساطیر کا بحسن و خوبی استعمال کیا ہے بلکہ ان کے یہاں اسطور سازی کی کامیاب کوشش بھی نظر آتی ہے۔ راشد کا حسن کوزہ گر، جہاں زاد، وزیرے چنیں اور وزیر معارف کیانی وغیرہ ایسے ہی کردار ہیں جو دیومالائی کردار محسوس ہوتے ہیں۔ حسن کوزہ گر شعریت کے اعتبار سے ان کی نظموں میں ایک مختلف رنگ یعنی ایک وجدانی طرز احساس کی حامل علامت نظم بن جاتا ہے،جہاں بغداد کے اساطیری حوالوں سے راشد نے ایک نیا اسطورتشکیل دینے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ الف لیلوی علامتیں بغداد کی گلیوں اور دروازوں سے ابھرتی ہیں اور قاری خود کو ایک دیومالائی دنیا میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔نظم میں جہاں زاد کا کردار ’دنیازاد‘ کے کردار سے ماخوذ ہے۔ حسن کوزہ گر کا کردار راشد نے ایک سیریز کے تحت چار نظموں میں پیش کیا ہے۔ یہ چاروں نظمیں مل کر ایک کل کی تشکیل کرتی ہیں اور جزوی طور پر اپنا اپنا مکمل مفہوم بھی رکھتی ہیں۔اس کی معنوی توضیح اور کرداروں کی توضیح مختلف سطحوں پرکی جاسکتی ہے، کیونکہ راشد نے اس نظم میں محض افسانے یا کردار کی تخلیق پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ عہد جدید کے بعض فکری عناصر بھی سموئے ہیںخصوصاً وقت کا مسئلہ اور زمان و مکاں کے مباحث اس نظم کے مصرعوں میں بار بار آئے ہیں۔ راشد چاہتے تو اسے جنوبی ایشیا کے کسی مقام سے شروع کرسکتے تھے یا کسی ایرانی شہر مثلاً تہران، مشہد اورقزوین وغیرہ سے کیونکہ یہ دیار و امصار راشد کے براہ راست تجربے کا حصہ تھے، لیکن ان کا تخلیقی حوالہ بغداد اور دجلہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ خطہ ماضی کے آثار قدیمہ اور داستانوں کا ایک کثیر ذخیرہ رکھتا ہے اور راشد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک اسطورکی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ وہ حسن اور جہاں زاد کے رومانس کے اولیں منظروں کے لیے دجلہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دجلہ وہ الف لیلوی دریا ہے جس کے نام کے ساتھ ہزار راتوں کی داستانیں منسوب ہیں۔

راشد کی شاعری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر آغا لکھتے ہیں ’’خارجی زندگی کے جن پہلوؤں کے خلاف راشد نے جہاد کیا، وہ زمانے کی ایک ہی کروٹ سے مٹ چکے ہیں اور یوں راشد کے جہاد کی عمومی اپیل بھی ازخود ختم ہوگئی۔‘‘14

وزیر آغاکے ان الفاظ سے گزرتے ہوئے عقل حیران تھی کہ یہ ادب کے متعلق گفتگو ہے یا کسی فوجی مشن پر جانے سے متعلق۔ اہم بات یہ ہے کہ راشد کے یہاں اساطیری لہجے کی گونج اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ عمومی اپیل وہ شاعری کھو دیتی ہے جس میں معانی کی ایک سے زیادہ سطحوں کے امکانات نہیں ہوتے۔ لیکن راشد کی مبہم اور علامتی شاعری کو آپ ہر زمانے کے ظلم و جبر کے خلاف اور نظریات کی فرسودگی اور ٹکراؤ میں اپنے دل کی آواز کے ہمراہ پاتے ہیں۔راشد کی بہت سی نظموں میں علامتیں، استعارے، تمثالیں اور تلازمے اگرچہ تاریخ کے خاص کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر یہ علامتیں زمانی اور مکانی حوالوں کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں اور وہی کشش رکھتی ہیں۔ تبسم کاشمیری کی رائے اس سلسلے میں انتہائی معتدل ہے کہ ’’زمان و مکاں کے کسی دور میں بھی جب جمود و انحطاط کی ایسی غیر تخلیقی حالت طاری ہوجائے تو ’سبا ویراں‘ میں اس کی علامتی معنویت موجود ہوگی اور نظم کا یہی قرینہ اسے ہر زمانی حالت میں زوال کی علامت بنا سکتا ہے۔‘‘15

راشد کی متعدد نظموں کے تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ راشد کے یہاں نہ صرف یہ کہ عربی اور اسرائیلی روایات اور اساطیر کا گہر ااثر موجود ہے بلکہ عالمی اساطیر کے حوالے بھی ان کی شاعری میں قابل ذکر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اردو نظم کی تاریخ میں راشد کی مسلم اور منفرد حیثیت کو مستحکم کرنے میں ان کے ان اساطیری حوالوں کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔

حواشی

  1.         سید یحییٰ نشیط، اسطوری فکر و فلسفہ، پونہ؛ اصول پبلیکیشنز، 2008، ص15
  2.         تبسم کاشمیری ’راشد اور شہر کی تمثال‘، لا مساوی راشد،لاہور؛ نگارشات، 1994، ص145
  3.         ن م راشد، کلیات راشد، دہلی؛ کتابی دنیا، 2016، ص168
  4.         طارق ہاشمی، جدید نظم کی تیسری جہت،فیصل آباد؛ شمع بکس، 2014، ص103
  5.         سہیل احمد خان، ’علامتوں کے سرچشمے‘، علامت کے مباحث مرتبہ اشتیاق احمد، لاہور؛ بیت الحکمت، 2005، ص117
  6.          ن م راشد، کلیات راشد، ص 285
  7.         ایضاً، ص270
  8.          ایضاً
  9.         عقیل احمد، صدیقی، جدید اردونظم نظریہ و عمل، علی گڑھ؛ ایجوکیشنل ہاؤس، ص297
  10.       ایضاً
  11.       ن م راشد، کلیات راشد، ص450
  12.       تبسم کاشمیری،  لا مساوی راشد،ص124
  13.        ن م راشد، کلیات راشد، ص271
  14.       وزیر آغا، اردو شاعری کا مزاج، دہلی؛ دار الاشاعت مصطفائی، 2014، ص357
  15.       تبسم کاشمیری، لامساوی راشد،ص97

Dr. Qamar Jahan

Asst Prof. Dept of Urdu

Mahila P G College

Bahraich- 271801 (UP)

Mob.: 9910360096

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...