26/10/20

کس نے کہا وجود مرا خاک ہوگیا: کبیر اجمل- مضمون نگار: اشتیاق سعید

 



’’یقین نہیں آتا کہ کبیر اجمل ہمارے درمیان نہیں رہے‘‘ 29جون کو غالباً دوپہر 12بجے فیس بُک پر محترم یعقوب یاور کی یہ پوسٹ دیکھ کر دِل دھک سے رہ گیااور انایاس ہی لب بُدبُدائے۔’’یہ کیا مذاق ہے‘‘ اسی کے ساتھ میں نے فوراً یعقوب یاور صاحب کو فون لگایا۔ چند لمحے ٹوں ٹوں ٹوں سی آواز  سُنائی دیتی رہی پھر آؤٹ آف کوریج ایریا کا اعلان گونجا۔میں نے فوراً فون ڈسکنیکٹ کیا اورکبیر اجمل کے بے حد عزیز دوست اور ہم سایہ خالد جمال صاحب سے رابطہ کرنا چاہا،ان کا فون مصروف تھا۔ پھر پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے تین مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی، رابطہ نہ ہوا۔اسی دوران ’نئی صدی‘ کے مدیر فرخ شاہد کا فون آگیا۔میں نے جھٹ کال ریسیو کی۔ ابھی سلام کرہی رہا تھا کہ اُن کی بھرّائی ہوئی آواز گونجی۔

’’اشتیاق، کبیر اجمل کا انتقال ہوگیا‘‘۔

میں نے بھی کھرکھراتی آواز میں استفسار کیا۔ ’’کیسے... کیا ہوا تھا ؟‘‘۔

’’ تمھیں تو پتہ ہے ہی کہ وہ گزشتہ پانچ چھ برس سے ڈائبٹک(Diabetic) تھے۔اِدھر سال بھر سے بیمار رہنے لگے تھے۔ لوکل ڈاکٹروں سے علاج و معالجہ ہوتا تھا۔پندرہ بیس دنوں کے لیے ٹھیک بھی ہوجاتے تھے۔ پھر طبیعت اُلجھنے لگتی اور نقاہت اس قدر محسوس ہوتی کہ کچھ کرنے کا جی نہیں چاہتا تھا۔اسی سبب لوگوں سے ملنے جلنے سے بھی احتراز کرنے لگے تھے۔ یہ کیفیت جب حد پار کرگئی تو لاک ڈاؤن سے قبل یعنی مارچ کے دوسرے ہفتے میں برائے علاج بنگلور گئے تھے۔ وہاں مکمل جسمانی جانچ کی گئی تو ریڑھ کے کینسر کا انکشاف ہوا۔ادھر مہینے بھر سے بنارس کے شیو پوروا، اولڈ لوکو کالونی میں واقع ٹاٹا میموریل ہاسپٹل میں زیر علاج تھے۔حالت انتہائی تشویشناک تھی۔28 اور 29جون کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے انھوں نے آخری سانس لیا‘‘۔

 فرخ شاہد مزید کیا کچھ کہتے رہے مجھے خیال نہیں۔ کیونکہ میرا ذہن اُن کے اس شعر کی بھول بھلیاں میں اُلجھ چُکا تھا   ؎

میں زندہ شخص تجھے مر کے یہ سزا دوں گا

گلابی آنکھوں میں نمناکیاں سجا دوں گا

بے شک! کبیر اجمل کے تعلقاتی، ملاقاتی، دوست و احباب اور عزیز و اقارب میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جن کی آنکھیں اِن کے سانحۂ اِرتحال پر نم نہ ہوئی ہوں، دِل ماتم کُناں نہ ہوا ہو۔ کیونکہ اُن کا دلِ مضطرب انتہائی حساس، درد مند،خلوص و وفا، محبت و اپنائیت سے لبریز تھا، لہجہ بھی ازحد نرم و ملائم تھا۔ جب بھی گفتگو کرتے آواز اس قدر نیچی اور دھیمی ہوتی کہ سُننے والے کو ہمہ تن گوش ہونا پڑتا۔ علاوہ ازیں گفتگو کرتے ہوئے ان کی نگاہیں سامنے والے کے چہرے پر مرکوز ہوتیں اور آنکھوں سے خلوص و محبت کے شرارے چھوٹتے رہتے، لفظوں کی ادائی سے گل افشانیوں کا گُمان نیز لہجے میں عطر و پھلیل کا رچاؤ معلوم ہوتا۔ چہرے نے شاید ہی غصّہ، ناراضی، خفگی یا ناگواری کے تاثرات محسوس کیا ہو۔ اب ایسا بھی نہیں کہ وہ غصّہ، ناراضی، خفگی اور ناگواری جیسی حِس سے ماورا تھے۔ یہ سارے تاثرات ہی تو انسانی فطرت کے اہم جُز ہیں جو آدمی کو انسانی شناخت عطا کرتے ہیں اور فرشتوں سے جُدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ہر چند اِن تاثرات کا برملا اظہار انسانی کمزوری کا حِصّہ ہے۔ جبکہ انھیں اپنے وجود میں جذب کرلینے والا انسان ہی انسانیت کی معراج کو پہنچتا ہے۔ کبیر اجمل میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔وہ جس کسی پر خفا ہوتے یا غصّہ آجاتا تو فوراً چپّی سادھ لیتے اور پھر اُس کی جانب انتہائی محبت اور اپنائیت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہتے۔’’ اچھا توابھی جاؤ، ہم تم سے بعد میں بات کریں گے‘‘۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ پھر وہ بعد کبھی نہیں آتارہا ہوگا،وہ سارا معاملہ اس طرح فراموش کردیتے رہے ہوں گے جیسے کمپیوٹر کی اسکرین پر درج اپنا ہی کوئی شعر پسند نہ آنے کی صورت میں ڈیلیٹ کردیا کرتے تھے۔نکتہ چینی، تنقید یا تنقیص بھی ان کے مزاج کا حصّہ کبھی نہیں رہا۔ انھوں نے اس کی ترجمانی اپنے ایک شعر کے توسط سے کچھ یوں کی ہے   ؎

اجمل تُو کسی پر کبھی تنقید نہ کرنا

انسان سبھی کچھ ہے فرشتہ نہیں ہوتا

کبیر اجمل سے میری پہلی ملاقات 25فروری 2009 کو جموں میں ساہتیہ اکادمی کے’ یووا لیکھک سمیلن‘ میں ہوئی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ جموں میںہمارے قیام و طعام کا انتظام ’’ہوٹل ہیریٹیج ‘‘ میں کیا گیا تھا۔میں جب ہوٹل پہنچا تو استقبالیہ پر ساہتیہ اکادمی کی سیکریٹری رینو جی موجود تھیں۔ انھوں نے میرا خیر مقدم کیا اور کمرہ نمبر پانچ کی چابی دیتے ہوئے کہا۔آپ کے ساتھ کبیر اجمل صاحب کمرہ ساجھا کررہے ہیںاور وہ صبح ہی آچُکے ہیں۔غالباً تفریح کے لیے اطراف ہی میں کہیں گئے ہوئے ہیں۔ آپ جلدی سے فریش ہوجائیے پھر میں آپ کو ناشتہ بھجواتی ہوں۔ 

کمرہ گراؤنڈ فلور پر ہی واقع تھا۔ کافی کشادہ، دلکش اور پُر تعیش۔میں نے اپنا بیگ المیرا میں رکھا اور نرم و ملائم بستر پر دراز ہوکرسوچنے لگا کہ یہ کبیر اجمل صاحب ہیں کون؟نام تو نہ کہیں سُنا نہ پڑھا... کہاں سے آئے ہیں... مزاجاً کیسے ہوں گے...ضیعف العمر تو نہیں۔چار روز انھیں کے ساتھ اسی کمرے میں گُزارنا ہے۔ اگر میری طبیعت اور مزاج کے موافق نہ ہوئے تو کیونکر نباہ ہوسکے گا ؟۔

 ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا۔ سامنے ایک ہشاش بشاش اور خوش لباس جوان شخص کو کھڑا پایا۔ عمر یہی کوئی پینتیس سے چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ساتھ ہی ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا بھی تھا۔ ہم دونوں چند لمحات ایک دوسرے کو کچھ اس انداز سے نہارتے رہے گویا آپس میں پہچان کی کوئی رمق تلاش رہے ہوں۔ مگر اُس شخص کے لبوں پر ایک بے نام سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں اپنائیت کے سِوا کوئی اور تاثر نہ تھا۔ پھر میں نے انتہائی عقیدت اور خاکساری سے اِستفسار کیا۔

’’آپ کبیر اجمل صاحب ہیں ؟‘‘۔

’’جی !ً اور یہ شکیل اجمل خلفِ اکبر‘‘  لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مختصراً جواب دیا۔

میں نے مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔’’میں اشتیاق سعید، ممبئی سے ‘‘

انھوں نے میرا ہاتھ تپاک سے تھام لیا اور دریافت کیا۔ ’’آپ بمبئی سے ہیں تو ساجد رشید کو ضرور جانتے ہوں گے ؟‘‘۔

’’بھئی وہ میرے مربّی ہیں۔انھیں کی عنایتوں کے طفیل میں یہاں آیا ہوں‘‘۔

’’میرے سر پر بھی انھیں کا دستِ شفقت ہے‘‘۔ کہتے ہوئے وہ کھل کر مسکرائے۔

پھر ہم کمرے میں آگئے۔وہ بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے جبکہ میں قریب رکھے صوفے پر دراز ہوگیا۔اُن کا بیٹا شکیل اجمل بیڈ کے دوسری طرف رکھی کُرسی پر براجمان ہوا اور اپنے جوتوں کے تسمے کھولنے لگا۔ اس دوران کبیر اجمل میری جانب متوجہ ہوئے۔

 ’’پھر تو آپ الیاس شوقی کو بھی جانتے ہوں گے؟‘‘

’’جی بالکل ! شوقی صاحب سے تو میری آئے دِن ملاقات ہوتی ہے۔ کیونکہ میں بھی کُرلا میں ہی رہتا ہوں،اُن کی اور میری رہائش کے درمیان محض پانچ سات منٹوں کا فاصلہ ہے‘‘۔

میرے اس جملے پر اُن کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی اور لبوں نے جنبش کی۔

 ’’الیاس شوقی میرے ماموں ہوتے ہیں، انھیں کے توسط سے میرا ساجد رشید سے تعارف ہوا ہے‘‘۔

’’اوہ، پھر تو آپ کا تعلق بنارس سے ہوگا ؟‘‘۔

’’جی !...اور آپ کا ؟‘‘۔

’’بھئی کچھ حد تک تو میرا بھی تعلق بنارس ہی سے ہے،لیکن میں شہر سے چالیس کلو میٹر دور دیہات کا رہنے والا ہوں‘‘۔

اس کے بعد تو ہم میں اتنی گاڑھی چھننے لگی کہ وہ جب بھی باہر جاتے مجھے ضرور ساتھ لیتے۔ حتیٰ کہ لنچ اور ڈِنر کے لیے بھی ہم ساتھ ہی ہوٹل کے ریسٹورنٹ جاتے۔

دوسرے روز مجھے افسانہ پڑھنا تھا۔میرے علاہ ہندی، پنجابی، ڈوگری اور انگریزی کے افسانہ نگار ڈائس پر موجود تھے۔ مجھے آخر میں پڑھوایا گیا  پھر صدارتی خطبے کے بعدپروگرام کا اختتام ہوا،اسی کے ساتھ تمام لوگ ڈِنر کے لیے ہال سے ملحق کمرے کی جانب بڑھنے لگے۔ کئیوں نے مبارکبادیاں پیش کیں،مبارک سلامت کے درمیان جوں ہی ڈائس سے نیچے آیا کبیر اجمل نے مجھے آلیا اور اس گرم جوشی سے مجھے اپنے سینے سے بھینچا گویا وہ اپنے سینے میں مچل رہے انجانے طوفانوں کو میرے سینے میں منتقل کردینا چاہ رہے ہوں۔’’اشتیاق تم نے دِل جیت لیا‘‘ کہتے ہوئے الگ ہوئے اور میرا ہاتھ تھام کر کھانے کے کمرے کی جانب بڑھنے لگے۔ پھرکھانے کی میز پر اُنہوں نے قدرے مدھم لہجے میں پوچھا۔’’آپ کا کوئی مجموعہ آیاہے ؟‘‘۔

’’جی ! گزشتہ سال ہی آیا ہے’’ہل جوتا‘‘ کے نام سے‘‘۔

’’اچھا ٹائیٹل ہے، بالکل ہٹ کر، مجھے ضرور دینا‘‘۔

’’میں تو رات ہی آپ کی خدمت میں بصد خلوص پیش کرنا چاہا تھا، لیکن یہ سوچ کر رہ گیا کہ پتہ نہیں آپ پسند کریں نہ کریں، یوں بھی لوگ سفر میں کتابوں کا بوجھ کم پسند کرتے ہیں، بہت سے شعرا اور ناقدین تحفتہً دی گئیں کتابوں کو ہوٹل کے کمروں میں ہی چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔

 میری بات پر کبیر اجمل اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے تھے،پھرانتہائی مخملی لہجے میں گویا ہوئے۔’’ غالباً یہی نظریہ میرا اپنا بھی ہے، بہر حال ! مجھے اپنی کتاب دیجیے گا اور میں بھی اپنا شعری مجموعہ’منتشر لمحوں کا نور‘ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا‘‘۔

اسی سال اکتوبر کی آخری تاریخوں میں میرا بنارس جانا ہوا۔میں نے کبیر اجمل کو فون سے اطلاع دی اور کہا۔’’بھیلو پور تھانے کے پاس کھڑا ہوں۔آپ کے یہاں کیسے آنا ہے ؟ ‘‘۔سُن کر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا’’ وہیں کھڑے رہیے،پانچ منٹ میں شکیل اجمل وہاں پہنچ رہے ہیں‘‘۔

واقعی شکیل اسکوٹر سے پانچ منٹ میں حاضر ہوگئے،اور مجھے اپنے ساتھ گلی در گلی ہوتے گھر لے آئے۔

عرض کردوں کہ بنارس محض مندروں اور گھاٹوں کے لیے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ بنارسی ساڑیوں، بنارسی سوئیوں،بنارسی پانوں، ٹھگوں، فنونِ لطیفہ اور سکری سکری گلیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔بے شک ! یہاں کی گلیاںسکری ضرور ہیں لیکن اِن گلیوں کے مکینوں کے دِل و ذہن کافی کشادہ ہیں۔ اسی سبب اِن گلیوں میں ہمہ وقت دلکشی کا راج ہوتا ہے، رونقیں ڈولتی پھرتی ہیں اور زندگی رقص کُناں معلوم ہوتی ہے۔

کبیر اجمل نے مجھے معروف شاعر خالد جمال سے ملوایا۔دونوں کے مکان بالکل آمنے سامنے ہیں، اس لحاظ سے دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے رہتے ہیں۔خالد جمال پیشے کے اعتبار سے کتان کے ڈیلر ہیں،ان کا کاروبار کافی پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں حرفوں کے تانے بانے پر لفظوں کی کتان سے غزلوں کے خوبصورت دوشالے بھی بُنتے ہیں۔’’شریکِ حرف‘‘ ان کا اوّلین مجموعہ کلام ہے۔بڑے ہی سادہ لوح، منکسرالمزاج، انتہائی نفیس اور نستعلیق قسم کے آدمی ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے بھی کبیر اجمل کی طرح شاعری کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا البتہ گمچھہ ضرور بنا لیا ہے۔ جسے ضرورت کے تحت بچھا تے ہیں اور اوڑھ بھی لیتے ہیں۔

کبیر اجمل ہی کے ہمراہ میں پہلی بار بنارس ہندو یونیورسٹی گیا اور وہاں یعقوب یاور صاحب سے ملاقات کی جو اُن دنوں شعبۂ اُردو کے صدر تھے۔ یعقوب یاور کی ترجمہ کردہ انگریزی مصنف ہینری شاریے کی خودنوشت ’پاپیلاں‘ سال بھر قبل پڑھ چُکا تھا، چنانچہ یعقوب یاور میرے لیے انجان نہیں تھے، برائے گفتگو میں نے یاور صاحب سے ’پاپیلاں‘ کا ذکر کیا۔ ترجمہ کی خوبی نیز زبان و بیان کی سلاست اور سادگی کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی اہم نکات پر تادیر روشنی دالتا رہا۔میری باتوں سے انھیں خوشی حاصل ہوئی یا نہیں،مجھے اس کا قطعی علم نہیں،کیونکہ اُن کا چہرہ بالکل ساکت تھا۔ البتہ کبیر اجمل بہت خوش ہوئے تھے۔ بہرحال ! وہاں سے لوٹتے ہوئے میں نے اصلاحی اور روایتی افسانہ نگار سعید فریدی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔کبیر اجمل نے کہا۔

’’فریدی صاحب سے ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ہمارے بغل کے محلہ ’’مالتی باغ ‘‘ میں رہتے ہیں‘‘۔

وہ مجھے سعید فریدی کے مکان پر لے گئے۔افسوس کہ اُن سے ملاقات نہ ہوسکی۔پھر بغل کی گلی میں داخل ہوتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا۔

’’ شاد عباسی صاحب کو جانتے ہیں؟‘‘۔

’’وہی شاد عباسی جنھوں نے ’مدن پورہ کی انصاری برادری ‘ پر بڑا ہی چیلنجنگ اور جامع کام کیا ہے۔جس کی غالباً دو جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں‘‘۔

’’بالکل ! یہ ان کا بہت ہی اہم کام ہے،جسے انھوں نے انتہائی عرق ریزی سے انجام دیا ہے ‘‘۔کہتے کہتے کبیر اجمل ایک مکان کے برآمدے میں داخل ہوگئے۔وہاں موجود شخص نے انھیں دیکھتے ہی پرتپاک خیرمقدم کیا۔ کبیر اجمل نے اُس شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’ آپ ڈاکٹر سلمان راغب ہیں، شاد عباسی صاحب کے بڑے صاحبزادے ‘‘۔ پھر میرا تعارف پیش کیا۔ سلمان مجھے نہ صرف نام سے جانتے تھے بلکہ میرے دو ایک افسانے بھی پڑھ رکھے تھے،چنانچہ ہمارے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹ چُکا تھا۔چائے پانی کے دوران معلوم ہوا کہ شاد عباسی صاحب کسی رشتہ داری میں گئے ہیں اور شام تک لوٹنے کی توقع ہے۔بہرحال! سلمان نے مجھے ’’مدن پورہ کی انصاری برادری‘‘ کی دونوں جلدیں مرحمت فرمائیں جس کے لیے میں آج تک اُن کا بے حد ممنون ہوں کیونکہ متذکرہ کتاب بنارس اور انصاری برادری کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک اہم اور دستاویزی حیثیت کی حامِل ہے۔ افسوس۔۔۔صد افسوس !گزشتہ سال سلمان راغب بھی دُنیا چھوڑ گئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ انھیں غریقِ رحمت کرے۔آمین

کبیر اجمل اور مجھ میں جو ایک بات مشترک ہے وہ ہے شب بیداری۔ میں بھی رات گئے تک جاگنے کا عادی ہوں اور وہ بھی! اس لیے میں جب بھی اُن کے یہاں ٹھہرتا،ہم رات گئے تک خوب باتیں کرتے اور چائے نوش کرتے رہتے جسے وہ پہلے ہی سے تھرمس میں بھروالیا کرتے تھے۔ میں نے تو سگریٹ کو کبھی مُنہ نہیں لگایا لیکن کبیر اجمل اس کثرت سے سگریٹ نوشی کرتے تھے گویا وہ ہر فکر کو دھویں میں اُڑا دینا چاہتے ہوں۔

ایک مرتبہ میں رات 9بجے کے آس پاس اُن کی بیٹھک میں پہنچا تو وہاں ایک انگریز کو بیٹھا دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیاکیونکہ وہ نہایت شُستہ اور فصیح اُردو میں گفتگو کر رہا تھا۔میری پیشانی پر حیرانی کی سلوٹیں دیکھ کر کبیر اجمل مسکراتے ہوئے اُس انگریز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’آپ جناب کرسٹو فر لی ہیں۔ آپ کا تعلق جرمنی سے ہے۔خوش آئند امر یہ ہے کہ آپ اُردو میں مشرقی علوم پر تحقیق کر رہے ہیں۔ گزشتہ دس برس سے متواتر ہندوستان آتے ہیں اور بنارس کو ہی اپنا مسکن بناتے ہیں‘‘۔ 

مجھے ان سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔انھیں شعر و ادب سے بھی خاصا شغف تھا۔انھیںڈھیروں اشعار ازبر تھے علاوہ ازیں ادب کی ہر صنف پر گہری نظر تھی۔ ہم تا دیر ادب کی فنّی باریکیوں نیز تنقیدی رویّوں پر گفتگو کرتے رہے اور رات کو چائے کی پیالیوں میں گھولتے رہے۔رہ رہ کے کبیر اجمل اور کرسٹو فر لی دونوں حضرات رات کو دھویں میں تحلیل کرنے کا بھی جتن کرتے رہے۔ رات قریب دو بجے کبیر اجمل نے مجھ سے کہا۔

’’آپ چاہیں تو فجر تک گفتگو کا سلسلہ دراز رہے گا، کیونکہ کرسٹو فر بھی ہماری طرح شب بیداری کے عادی ہیں‘‘۔ 

اسی کے ساتھ ہماری باتوں کا رُخ شب بیداری کی جانب مُڑ گیا۔باتوں ہی باتوں میں کبیر اجمل نے کہا۔’’بھئی مجھے تو اِنسو منیا(Insomnia)  کا عارضہ ہے۔ اس لیے رات گئے تک جاگتا ہوں۔اشتیاق صاحب میں سمجھتا ہوں یہ مسئلہ آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔پھر آپ کی شب بیداری کی وجہ ؟ ‘‘۔

’’ بھئی، محض میں اس لیے جاگتارہتا ہوں۔بقول انور شعور     ؎           

یہ سوچ سوچ کر رات بھر نیند نہیں آتی

شہر میں کوئی تو ہو، جسے بیدار کہا جائے

اس پر کرسٹو فر قہقہہ زار ہوگئے جبکہ کبیر اجمل کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ کچھ گہری ہوگئی۔پھر چند لمحے توقف کے بعد کبیر اجمل نے کہا اس نوعیت کا ایک شعر میں نے بھی کہا ہے،ملاحظہ فرمائیں‘‘۔

’’ارشاد‘‘۔کرسٹو فر کے حلق سے بے ساختہ آواز نکلی۔

’’عرض کیا ہے      ؎  

شہر میں اور بھی ہیں جن کا لہو ہے بیدار

میں ہی آوارہ فقط رات کی گرہیں کھولوں

اسی قبیل کا ایک شعر اور یاد آگیا ہے      ؎

زندہ مرے ہی دم سے تھیں رعنائیاں تمام

میں سو گیا تو شہر ہی ویران ہو گیا

کبیر اجمل فائن آرٹ کے طالب علم رہے ہیں۔ جہاں انھوں نے حروف کی مدد سے اپنے خیال کو شعری پیکر عطا کیا ہے وہیں برش اور رنگوں کے تعاون سے اپنے خیال کی تشکیل پینٹنگس کی صورت میں بھی کی ہیں۔پہلے پہل اپنی اس فنی صلاحیت کو مشغلے کے طور پر برتتے رہے، پھر شدہ شدہ اسے ذریعۂ معاش بنا لیا،اور کمپیوٹر پر طرح طرح کے رنگوںکی مدد سے ڈیزائن بنانے لگے۔ان کی بنائی ڈیزائنیں بنارسی ساڑیوں کے گرہستہ اور گدّی داروںکو خوب بھاتیںلہٰذا وہ بنارسی ساڑیوں کو پیک کیے جانے والے دفتی یا گتّے کے ڈبوںکو پُرکشش اور جاذب نظربنانے کے لیے اُن پر اِن ڈیزائنوں کو پرنٹ کرواتے۔

 کبیر اجمل کا شمار بنارس کے چند بہترین پیشہ ور آرٹسٹوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے انھوں نے اپنے پیشے کی عکاسی ایک شعر میں کچھ یوں کی ہے   ؎

کہوں کیا تم سے تنہائی میں بیٹھا کیا بناتا ہوں

لکیریں کھینچ کر جینے کا منصوبہ بناتا ہوں  

یقینا کبیر اجمل نے صفحۂ قرطاس پرآڑی ترچھی لکیریں کھینچ کھینچ کر ہی عملی زندگی کا آغازکیاتھا۔پہلے پہل اسکرین پرنٹنگ کا کام شروع کیا۔وِزیٹنگ کارڈ سے لے کر ویڈنگ کارڈ تک کی ڈیزائن بناتے اور انھیں چھاپتے رہے۔پھر گاہے گاہے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے اشاعتی ادارے کا نام ’’اسکرین پلے‘‘ تجویز کیا۔ اسکرین پلے فلم رائٹنگ کی ایک اصطلاح ہے۔ جسے اُردو میں منظر نامہ اور ہندی میں پٹ کتھا کہا جاتا ہے۔اسکرین پلے ہی کے توسط سے کہانی کو تکنیکی طور پر وسعت دے کر ایک مخصوص خاکہ ترتیب دیا جاتا ہے جس میں کرداروں کے زمان و مکان، حرکات و سکنات نیز مکالموں کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ 

بہرکیف! کبیر اجمل بھی ’اسکرین پلے ‘ کے ذریعے اپنی طرزِ زندگی اور معیشت کو وسعت دینے میں مجتہد تھے۔بظاہر وہ کمپیوٹر اسکرین پر نِت نئے رنگوں کے امتزاج سے طرح طرح کے جہان آباد کرتے رہے۔ بدلے میں مادّی قوت انھیں پروان چڑھاتی رہی،کاروبار بڑھتا گیا، دولت کی ریل پیل ہوتی رہی۔رنگوں کی اس ہیرا پھیری میں شاید وہ یہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ کبھی انھوں نے حروف و الفاظ کی بھی دُنیا آراستہ کی تھی جہاں لمحے منتشر ہوکر نور بکھیرا کرتے تھے۔ جہاں فکر و شعور کا لامتناہی سلسلہ ہوا کرتا تھا۔ جہاں تمنائیں ادراک کا بار ڈھوتے ڈھوتے تھک کر حسّیت کے دوشالے میں دُبک جایا کرتی تھیں۔جہاں لمحے ماضی کے شبستانوں میں رات کی گرہیں کھولا کرتے تھے۔حیف ! جب حواس بجا ہوئے تو احساس جگا کہ رنگوں کی بازیگری نے انھیں کلر بلائینڈ کردیا ہے، زندگی کی تمام رنگینیاں نقطۂ عروج پر پہنچ چُکی ہیں۔ مزید برآں وقت کا سرمایہ بھی آہستہ آہستہ حالات کی مٹھی سے آگہی کی ریت کی مانند پھسلتا جارہا ہے۔

کبھی کبھی میرے دِل میںخیال آتا ہے کہ زندگی کو وسعت دے کر سمندر کی خواہش کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سمندر تو خود پیاسا ہے،وہ دوسروں کی تشنگی کو کیونکر سیراب کرسکتا ہے۔

 کبیر اجمل نے خواہشات کے جگمگاتے دائرے میں زندگی کا زاویہ تلاش کرنے میں عمر گنوا دی۔ شاید انھیں یہ علم نہ رہا ہوگا کہ زاویے دائرے میں نہیں مثلث میں ہوا کرتے ہیں۔اگر علم ہوتا تو یقینا خواہشات کے اس دائرے میں ضرور قناعت کا مثلث بنانے کی کوشش کرتے۔ یا پھراپنی ذات کے جنگل میں ادراک کی کوئی ہُما ہی تلاش کرلیتے تو ممکن ہے مزاج میں قناعت کی شہنشاہی در آتی۔برخلاف اس کے وہ خود کو بے نیاز رفتہ و آئندہ تصوّر کرتے ہوئے خطۂ بے نور کا باشندہ گردانتے رہے۔بہر حال ! زندگی نے کب کس کے ساتھ وفا کیا ہے جو کبیر اجمل کے ساتھ کرتی، تاہم کبیراجمل اُن لوگوں میں سے تو نہیں تھے جن کا وجود مر کے خاک ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی رچی ہوئی شعری کائنات میں ’’منتشر لمحوں کا نور‘‘ بن کر تا قیامت جگمگاتے رہیں گے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا بھی ہے   ؎                              

کس نے کہا وجود مرا خاک ہوگیا

میرا لہو تو آپ کی پوشاک ہوگیا

 

Ishtiyaque Saeed

B-01, New Mira Paradise

Geeta Nagar, Phase-II, Mira Road

Thane-401107

Cell. : 09930211461    

E-mail : ishtiyaquesaeed@rediffmail.com

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں