16/10/20

ترجمہ نگاری کا فن اور تکنیک مضمون نگار: عبدالرحمن انصاری



 ترجمہ ایک ایسا فن اور ناگزیر امر ہے جس کے بغیر بنی نوع انسان کی مادی اور ثقافتی ترقی مکمل طور پراحاطۂ تصور میں نہیں لائی جا سکتی ہے۔ انسانی علوم کی ترسیل مختلف زبانوں اور قوموں کے درمیان ترجمہ اور مترجم کی ہی مرہون منت ہے۔ قدیم ترین علوم، تہذیبوں اور ثقافتوں کا مطالعہ عملِ ترجمہ کے ذریعے ہی ممکن ہو پایا ہے۔  قدیم سنسکرت اور یونانی زبان کے علمی وا دبی شاہکار اب بھی ترجمہ کی شکل میں موجود ہیں جس سے نسل انسانی آج بھی استفادہ کررہی ہے۔عمل ترجمہ مختلف زبانوں،  تہذیبوں،  ملکوں اور زمانوں کو قریب تر لانے کے ساتھ ساتھ رابطے اور پل کا بھی کام کرتا ہے اسی بنا پر مترجم کو تہذیبی و ثقافتی سفیر بھی کہا گیا ہے۔ الغرض قدیم تہذیبی زندگی کے آغاز سے موجودہ سائنسی و ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور کی تشکیل و تعمیرکے مختلف مراحل تک ترجمے نے بھی دیگر عوامل کے ہمراہ اہم رول ادا کیا ہے۔

ترجمہ کیا ہے؟ ترجمہ کرتے وقت مترجم کن ذہنی مراحل سے گزرتا ہے؟  یہ ذہنی مراحل کیا ہیں؟ کیا ان کا اطلاق بالعموم سبھی مترجم پرہو سکتا ہے؟  انھیں چند بنیادی سوالوں کا جواب اس مضمون میں دینے کی کوشش کی جائے گی۔ ترجمے سے متعلق مغرب کے اہل علم و دانشوروں کے نقطہ نظر کو پیش کیا جائے گا۔

مغربی پس منظر میں اگر عمل ترجمہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے توقدیم ترین زمانے میں زیادہ تر تراجم یونانی زبان سے لاطینی زبان میںکیے گئے۔  اس کی پہلی وجہ یہی ہے کہ یونانی زبان لاطینی زبان سے زیادہ قدیم اور ترقی یافتہ تھی جب کہ لاطینی زبان اپنے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔  تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، ادب اورمابعد الطبیعات جیسے مختلف علوم و فنون سقراط، افلاطون اور ارسطوکے نئے نئے خیالات و افکارکی بدولت یونانی زبان میں ایک مستحکم شعبۂ فکراور بحث و دلائل کی مضبوط روایت ثبت کرچکے تھے۔اس صورت میں یونانی سے لاطینی زبان میں ترجمہ ہونا ایک عالمی فطری معاملہ سمجھا جا سکتا ہے۔

مغرب میں بالخصوص یورپ میں ترجمہ کاری یورپی نشأۃ ثانیہ سے باقاعدہ شروع ہوتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ترجمہ  ہی یورپی نشأۃ ثانیہ کا محرک بنا۔یونانی کلاسیکی ادب اوردیگر شاہکار تصانیف کے تراجم جب لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں کیے گئے تو نئے علوم و فنون کا گویا ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔Petrarque،    Dante اورBoccace  اس زمانے میں یونانی زبان وا دب کے مشہور مترجم اور شاعر تھے جن کو آنے والی نسلوں نے مشعل راہ بھی تصور کیا۔

جہاں تک ترجمے کی تعریف کا تعلق ہے تو اس ضمن میںماہرین فن نے بے شمار تعریفیں پیش کی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ اصل زبان سے کسی فن پارے یا علمی دستاویز کو پوری خوبصورتی، کامیابی اور دیانتداری کے ساتھ دوسری زبان میںمکمل طور پر منتقل کردیا جائے۔  ان سب تعریفوں میں ’خوبصورتی‘، ’کامیابی ‘، ’دیانتداری‘ اور ’مکمل‘  جیسے الفاظ کا استعمال ترجمہ کے پس منظر میں حد درجہ ابہام کی گنجائش پیداکرتے ہیں۔مثلا دیانتداری کس کے تئیں ہونی چاہیے اصل زبان و ادب اور تہذیب کے یا جس زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں اس کے؟ اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ ترجمے کی تعریف پر بحث کرنے سے زیادہ سود مند یہ ہو گا کہ ترجمے کے اسلوب پر بحث کی جائے۔ بہ الفاظ دیگر اس پر کہ ماہرین نے کس اسلوب کو زیادہ ترجیح دی ہے لفظی ترجمہ کو یا مفہوم کے ترجمہ کو۔

پورپی پس منظر میں ترجمے کے اسلوب پر اپنے تصورات کو پیش کرنے والا پہلا شخص Marcus Tullius Cicero   (43-106 ق۔م)کو مانا جاتا ہے۔یہ ایک مشہور رومن فلسفی، مقرر، ماہر قانون، سیاست داں اور مترجم تھا۔ یونان کے دو مشہور مفکرین  Demosthenes  اور   Aeschinesکے خطبات کا ترجمہ جب وہ لاطینی زبان میں منتقل کرتاہے تو مقدمہ میں اپنے کیے ہوئے ترجمے کے اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:

’’ ان کے خطبات کا ترجمہ میں نے محض ایک مترجم ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا ہے بلکہ ایک مقرر کی حیثیت سے کیا ہے۔لفظوں، جملوں اور خیالات کے باہمی ربط اور آہنگ کو دھیان میں رکھ کرلاطینی زبان کے مروجہ الفاظ،  لوگوں کی عام بول چال اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی زبان کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ لفظ بہ لفظ ترجمے سے پرہیز کیا گیا ہے لیکن اصل زبان کے لفظوں کے معنی کی وسعت کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔  ترجمہ کرتے وقت میں نے لفظوں کو گننے کے بجائے لفظوں کو تولنے کی کوشش کی ہے۔‘‘1

سیسرو کا یہ اقتباس دل چسپی سے خالی نہیں ہے جس میں وہ عملِ ترجمہ کو ایک مترجم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مقرر کی حیثیت سے بروے کار لا تا ہے۔ظاہر ہے دونوں کے اسلوب اور طریق ترجمہ میں کافی حد تک نمایاں فرق رہے گا۔ مترجم کی حیثیت سے زبانِ اصل کے تئیں دیانتداری اور وفاداری کو ترجیح حاصل ہوگی جب کہ بصورت دیگر ایک مقرر کی حیثیت سے جس زبان و تہذیب میں ترجمہ کیا جارہا ہے ان لوگوں کے تئیں ایمانداری اور دیانتداری کو اولیت دی جائے گی۔  سیسرو ایک طرف جہاں لفظ کو صرف لفظ سے تبدیل نہیں کرتا ہے بلکہ مفہوم کے بدلے مفہوم پیش کرنے پر زیادہ توجہ صرف کرتا ہے  تو دوسری طرف ان لفظوں، محاوروں اور ترکیبات کا استعمال کرتا ہے جو لاطینی لوگوںکے مزاج اور تہذیب و ثقافت کے عین مطابق تھیں۔

ایک مترجم ہونے کی حیثیت سے سیسروکا رجحان زبانِ ترجمہ یعنی جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے، اس کو اولیت حاصل ہے اور اصل زبان یعنی جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے،  ثانوی ترجیح کے زمرے میں آتی ہے۔ سیسرو کے اس اسلوب اور طریق ترجمہ سے آگے آنے والی مترجمین کی نسلیں کافی حد تک متاثر نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ سیسرو پر پانچ صدی گزر جانے کے بعد سینٹ جیروم (Saint Jerome)  سابقہ روایتوں سے ہٹ کر کچھ نئے خیالات  اور طرز اسلوب لوگو ں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کا طریق ترجمہ بھی سابقہ روایتوں سے بہت زیادہ منفرد نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ مذہبی تحریروں اور دیگر ادبی اصناف کے طریق ترجمہ کے اسلوب میں امتیاز کرتا ہے۔

سینٹ جیروم (420-347  ع)ایک مشہور رومن دانشوراور عیسائی مذہب کا عالم تھا جس نے مقدس انجیل کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس نے مذہبی صحیفوں اور دیگر ادبی اصناف کے طریقِ ترجمہ میں فرق کو واضح کیا۔ اس کے بقول مترجم کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں اصناف کا ترجمہ کرتے وقت مختلف طرز اسلوب کو لازم رکھے۔ ادبی تصانیف کے ترجمے کے وقت مفہوم کے بدلے مفہوم کا ترجمہ کرنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن مذہبی صحیفوں کا ترجمہ کرتے وقت لفظ کے بدلے لفظ ہی سے ترجمہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے مطابق، مذہبی صحیفوں کے ’’الفاظ کی ترتیب بھی پُر اسرار ہوتی ہے۔‘‘2

مغربی عہد وسطی اور نشأۃ ثانیہ کے اکثر مترجمین اور ماہرین فن کے یہاں سیسرو اور سینٹ جیروم کے اسلوب ترجمہ کا گہرا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی یعنی یورپی نشأۃ ثانیہ کے دور میں Etienne Dolet  ایک عظیم فرانسیسی مترجم تھا جسے فرانس میں علم ترجمہ کا پہلا نظریہ ساز مانا جاتاہے۔ فرانسیسی زبان و ادب میں ترجمہ کے لیے استعمال ہونے والی پہلی فرانسیسی اصطلاح (Traduction) اسی کے قلم سے 1540 میں وجود میں آئی۔ اس نے سولہویں صدی عیسوی میں ترجمے کے کچھ اصول متعین کیے جو موجودہ دور کے مترجمین کے لیے آج بھی رہنما ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ چند اصول ملاحظہ ہوں:3

.1        مترجم کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ زبانِ اصل کے مواد کو مکمل طور پر سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔ اور اصل مصنف کے بحث و دلائل کو برتنے اورانھیں آگے بڑھانے کی تکنیک کا بخوبی احاطہ کرتا ہو۔

.2      دوسری شرط یہ ہے کہ مترجم اصل زبان سے پورے طور آشنا ہو اور متن کا تعلق جس مصنف سے ہو اس مصنف کے بارے میں بھی مکمل عبور رکھتا ہو۔

.3        مترجم اصل متن کا لفظی ترجمہ نہ پیش کرے۔ بہ الفاظ دیگر، ہر زبان کی کہاوتیں اور ضرب الامثال متعین ہوتی ہیں جو اس مخصوص سماج کے مروجہ طور طریقوں سے جنم لیتی ہیں۔ ان کہاوتوں اور محاوروں کا تہذیب وثقافت سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اس لیے لفظی ترجمہ ناموزوں اور سمجھ سے پرے ہوتا ہے۔

.4  ایسے الفاظ،تراکیب، محاوروں اور ضرب الامثال کا استعمال کیا جائے جو عام لوگوں کے روز مرہ کے استعمال میں ہوں اور جو عام لوگوں کی بول چال کی زبان ہو۔ بلاضرورت نئے لفظ کی اختراع نہ کی جائے۔

.5  عمل ترجمہ سے پہلے بہترین مقرروں اور خطیبوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے اور موزوں اور عمدہ لفظوں اور تراکیب کو چن لیا جائے اور ان کی درجہ بندی اس طرح کی جائے جسے پڑھتے وقت قاری پر گراں نہ گزرے اورمفہوم اس کی روح تک اترتا چلاجائے۔

ان مذکورہ اصولوں کے مطابق Etienne Dolet  نے "New Testament"  عیسائیوں کی مقدس کتاب اور   "Summary of Christian Faith"  کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں پیش کیا جس کے نتیجے میں عیسائی پادریوں کا ایک گروہ اس سے سخت ناراض ہوگیا اور اس پر مقدمہ قائم کرکے عدالت میں پیش ہونے کا فرمان صادرکردیا گیا۔عدالتی کارروائی میں مذہبی صحیفوں کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے اسے ملحد قرار دیاگیا اور جیل خانے میں ڈال دیا گیا۔ متعدد بار جیل سے فرار ہونے اور پکڑے جانے کے بعد آخر کار مذہبی صحیفوں کی بے حرمتی کے الزام میں 1543 میں اسے زندہ آگ کے حوالے کردیا گیا۔

سترہویں صدی کے نصف تک اکثرمغربی مترجمین کے یہاں اسلوب ترجمہ کا یہی رجحان پایا جاتا ہے۔  یعنی لفظی ترجمے سے پرہیز کیاجائے اور اصل متن کے مفہوم کا ترجمہ پیش کیاجائے۔ Perrot d'Ablacourt  جو سترہویں صدی کا ایک مشہور مترجم ہے اس کا  یہ مشہور قول ہے کہ:

ــ’’ترجمہ کرتے وقت میں لفظوں کو گننے کے بجائے انھیں تولتا ہوں۔‘‘4

ترجمہ کرتے وقت اکثر وہ اصل زبان اور مصنف سے ہٹ کر  ایک ’’نئی تخلیق‘‘  پیش کرتا ہے جس کے تراجم کو  فرانسیسی زبان کا ایک مشہور و معروف گرامرداںGille Menage  ’’Les belles infideles‘‘  سے تعبیر کرتاہے یعنی خوبصورت لیکن غیردیانتدارانہ ترجمہ۔  یعنی ایسا ترجمہ جو اگر خوبصورت ہوگا تو دیانتدارانہ نہیں ہوگا اور اگر دیانتدارانہ ہوگا تو خوبصورت نہیں ہوگا۔ اسی صدی کے آخر سے ترجمے میں دیانتداری اور وفاداری کا تصور اہل علم کے درمیان بحث و مباحثے کا حصہ بنے لگا۔

ترجمے کے انھیںخیالات و نظریات کو مدنظر رکھ کر ماہرین اور اہل علم نے  اس سے آگے بڑھ کراس میدان میں تحقیق و جستجو کی نئی راہیںتلاش کرنے کی کوشش کیں۔ ترجمہ نگاری اور فن ترجمہ بحیثیت ایک علیحدہ مضمون کے انیسویں صدی کے نصف میں باقاعدہ طور پر شروع ہو ا۔ اس سے قبل فن ترجمہ لسانیات اور تقابلی ادب (Comparative literature) کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا۔

 اسی دور میں فن ترجمہ نگاری اور عملِ ترجمہ کے متعلق بے شمار نظریاتی تصانیف وجود میں آئیں جنھوں نے اس میدان میں تحقیق و جستجو کا دائرہ وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں میں سے ایک بے حد مشہور تصنیف جو فن ترجمہ کے میدان میں بنیاد ی حیثیت رکھتی ہے 1958 میں منظر عام پر آئی۔  وہ  تصنیف  J. P. Vinay  اور J. Darbelnet  کی  Stylistique comparée du francais et de l'anglais  ہے۔اس تصنیف میں ان دونوں ماہرین نے یہ بحث پیش کی ہے کہ عملِ ترجمہ کے وقت مترجم کن ذہنی مراحل اور کشمکش سے گزرتا ہے۔ ان ذہنی مراحل کو وہ Procédé de traduction  یعنی  Process of translation  کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انھیں اصول ترجمہ یا تکنیک بھی کہا جاسکتا ہے جنھیں ترجمہ کرتے وقت ایک مترجم دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بروئے کار لاتا ہے۔

ان اصولوں کے متعلق جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے مصنف کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔

Jean Paul Vinay کی پیدائش پیرس میں 1910 میں ہوئی۔ ابتدائی اعلی تعلیم یونیورسٹی آف پیرس اور یونیورسٹی آف کاں سے حاصل کی۔ پھر پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے یونیورسٹی کالج لندن میں داخلہ لے لیا جہاں انھوں نے لسانیات میں ایم،اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1946  میں کناڈا چلے گئے اور یونیورسٹی آف مونٹریال کے شعبہ لسانیات و ترجمہ کے صدر مقرر ہوئے۔ 1958 میں Jean Darbelnet کے ساتھ مل کر مذکورہ بالا کتاب مکمل کی۔ اس کے بعد 1967 میں خود کو یونیورسٹی آف وکٹوریہ سے منسلک کرلیا اور آخر عمر تک درس و تدریس میں یہیں مشغول رہے۔  1999 میں وکٹوریہ، برٹش کولمبیا میں وفات پائی۔

مترجم جب کسی متن کے ترجمے کا ارادہ کرتا ہے تو زبان اصل اور زبان ترجمہ، دونوں زبانوں کے مکمل نظام سے سروکار رکھتا ہے۔ یعنی ایک طرف جہاں زبان کے داخلی امور کو سمجھتا ہے جیسے گرامر،قواعد، لفظوں کی ترکیب، جملوں کی ساخت تو دوسری طرف زبان کے ماورائی امور پر بھی دسترس رکھتا ہے مثلااستعارہ، کنایہ، تلمیحات، کہاوت اور ضرب الامثال۔

 ترجمہ کرتے وقت  زبانِ اصل کے یہ مکمل نظام اس کے سامنے پہلے سے تحریری اور جمودی شکل میں موجود ہوتے ہیں جب کہ زبان ترجمہ میں تخلیق نو کا عمل ابھی باقی ہے۔ترجمے کا عمل متنِ اصل کی قرأت سے شروع ہوتا ہے جب مترجم اصل مواد کے بیانیہ اور تخیلاتی پہلوؤں کی جانچ پرکھ شروع کردیتا ہے، اس کی اثرانگیزی کا اندازہ لگاتا ہے، جملے کی علمی اقدار کا تعین کرتا ہے۔پھر جملے اور تراکیب کی خوبصورتی کو ناپتا اور تولتا ہے۔ ان سارے ذہنی مراحل کو بتدریج طے کرنے کے بعد مترجم کا ذہن اس جملے کا ترجمہ پیش کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ مراحل اتنی جلدی طے ہوتے ہیں کہ مترجم کو اس کا شعور بھی نہیں ہوپاتا اور اسے ایک اندرونی خوشی حاصل ہوجاتی ہے۔لیکن پھر بھی ایک حتمی فیصلہ لینے سے پہلے ٹھہرکر جائزہ لیتا ہے کہ اصل عبارت کا کوئی حصہ چھوٹ تو نہیں گیا۔

Jean Paul Vinay  اورJean Darbelnet کے مطابق5، ان ذہنی کشمکش اور مراحل سے گزر کر دانستہ یا غیردانستہ طور پرایک  مترجم سات اصولوں یا تکنیک کا سہارا لے کر ترجمہ کرتا ہے۔ان ساتوں اصولوں کو اولاً وہ دو بڑے حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلی قسم میں لفظی ترجمے کو رکھتا ہے جسے وہ Direct   یا  Literal Translation  کہتا ہے۔ لفظی ترجمہ کی وہ مزید تین قسمیں بتا تا ہے۔ (1) Emprunt  (Borrowing words)   یعنی لفظی استقراض  (2)  Calque  (Borrowing structure) یعنی ترکیبی استقراض  (3)  Traduction litterale (Literal Translation)  یعنی  لفظ بہ لفظ ترجمہ۔

ترجمے کی دوسری قسم ماورائی ترجمے کی ہے جسے وہ   (Oblique translation) Traduction obliqueکے نام سے موسوم کرتاہے۔ ماورائی ترجمے کی وہ مزید چار قسمیں بتا تا ہے:  (1)  Transposition  یعنی تبدیل قواعد۔ (2)  Modulation  یعنی تبدیلی نقطۂ نظر۔ (3)  Equivalence  یعنی متساوی، متبادل۔ (4)  Adaptation  یعنی تطبیق، ڈھالنا۔

(1)      Emprunt  یعنی لفظی استقراض: ترجمہ کرتے وقت مترجم لفظی استقراض کا سہارا اس وقت لیتا ہے جب زبان ترجمہ میں اس کا ہم مثل لفظ اور بدل موجود نہ ہو۔ترجمہ کے اصول میں یہ سب سے آسان تکنیک ہے۔ اس کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کوئی نئی تکنیکی ایجاد سامنے آئے یا اس کے متعلق کوئی ایسا نیا تصور ہو جس کے معنی کی ترسیل کے لیے زبان ترجمہ میں ابھی لفظ موجود نہ ہو۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جوترجمے کے وقت انگریزی زبان سے اردو میں مستعار لے لیے گئے ہیں۔ مثلا کمپیوٹر، سائنس، ٹکنولوجی، فکشن، موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ۔

اسی طرح بہت سارے الفاظ جنھیں دوسری زبانوں سے مستعار لے لیا گیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے مزاج اور روایت میں اس طرح ڈھل گئے ہیں کہ ان میں اب کسی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مثلا ناول، افسر، ریل، پائپ وغیرہ۔

 اس تکنیک کے استعمال کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ مترجم جب قاری کی زبانِ اصل سے نسبت اور تعلق کو مزید استوار کرنا چاہتا ہے۔تو وہ زبان اصل کے چند لفظوں کو ہو بہو زبان ترجمہ میں نقل کردیتا ہے جس سے قاری اصل زبان کے چندتہذیبی و ثقافتی رموز سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔  مثال کے طور پر اگر کوئی فرانسیسی متن کاترجمہ کررہا ہے تو Monsieur   (Mister)  کا ترجمہ ’جناب‘ کرنے کے بجائے’ موسیو‘ ہی رہنے دیتا ہے اسی طرح   "Boulevard"  کا ترجمہ  فٹ پاتھ یا راستہ کرنے کے بجائے  ’بولوارڈ‘  ہی رکھتا ہے۔ اس سے مترجم کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ قاری کو اصل زبان کے اور قریب تر لے جایاجائے۔

(2)  Calque ، (Borrowing structure) یعنی ترکیبی استقراض : مترجم اس تکنیک کا استعمال اس وقت بروئے کار لاتا ہے جب زبان اصل کی ترکیب اپنے ترجمہ میں متعارف کرانی مقصود ہوتی ہے۔ پہلی صورت میںمترجم پورے لفظ کو مستعار لیتا تھا لیکن اس صورت میں لفظوں کا ترجمہ تو پیش کرتا ہے لیکن محض اصل زبان کی ترکیب مستعار لے لیتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو اس کا استعمال زبان ترجمہ میں کسی نئی ترکیب کو متعارف کرانے کے لیے کرتا ہے یا پھرکسی نئی کہاوت یا ضرب المثل کی اختراع کے لیے کرتا ہے۔ پہلی صورت میں انگریزی سے اردو ترجمہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

Paper weight  ؍  کاغذ داب،  Cold war  ؍  سرد جنگ،  Science fiction  ؍  سائنس فکشن،  Cold Proof  ؍  سردی روک،  ٹھنڈ روک،  Water ballet  ؍  آبی رقص  وغیرہ۔  ایک دوسری ترکیب :  Government of India  ؍  حکومت ہند،  United Arab Emirates  ؍  متحدہ عرب امارات،  National Council for Promotion of Urdu Language  ؍  قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ ایک تیسری ترکیب کی چند مثالیں حاضر ہیں:  United States of America  ؍  ریاست ہائے متحدہ امریکہ،  World Health Organisation  ؍  عالمی ادارۂ صحت،  Ministry of Human Resource Development  ؍  وزرات ترقی انسانی وسائل  وغیرہ۔

اس کے استعمال کی دوسری صورت یہ ہے کہ مترجم اس کے ذریعہ ایک نئی کہاوت یا ضرب المثل اختراع کرنا چاہتا ہو۔  ایسی صورت میں مترجم زبان اصل کے محاورات کا لفظی ترجمہ پیش کرتا ہے جو زبان ترجمہ میں قابل قبول ہوتا ہے۔ چند مثالیں غور فرمائیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے  ’’Its like finding a needle in a haystack‘‘  یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی کام کا مکمل ہونا یا اس میں کامیابی مل پانا لگ بھگ ناممکن ہو۔ اس کا ترجمہ ہے  ـ’بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاشنا۔ــ  ایک اور انگریزی محاورہ ملاحظہ ہو:  ’’Speak of the Devil and he will appear‘‘  جس کا ترجمہ ہے  ’نام لیتے ہی شیطان حاضر‘۔  اسی طرح  ’’One hand cannot clap‘‘  ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی  ’’I saw stars when he punched me ‘‘  اس کے مکے کی  مار نے مجھے دن میں تارے دکھا دیے ‘۔  غرض اس طرح کے بے شمار محاورے اور کہاوتیں ہیں جن کا لفظی ترجمہ پیش کرکے زبان ترجمہ میں مختلف نئے محاوروں کو متعارف کرایا گیا ہے جنھوں نے اردو زبان و ادب کے دائرے کو وسیع کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اب یہ کہاوتیں اردو زبان کے سرمایہ کا حصہ ہیں جن سے اجنبیت کی کوئی بو نہیں آتی۔

(3)  Traduction litterale ، (Literal Translation) یعنی  لفظ بہ لفظ ترجمہ:  یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کی مدد سے مترجم اصل متن کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔ یہ اپنے آ پ میں خود ایک مکمل اصول ہے جب تک معنی کی ترسیل میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔  چند مثالیں دیکھیے:  "I left my spectacles on the table downstairs  میں نے اپنا چشمہ نیچے میز پر چھوڑ دیا ہے  ’’This train arrives at Union Station at ten‘‘  یہ ٹرین یونین اسٹیشن پر دس بجے آتی ہے‘۔ یہ تکنیک اس وقت زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے جب دونوں زبانیں ایک ہی قبیل کی ہوں۔ایسی صورت میں ترجمہ کرنے میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عربی، فارسی سے اردو میں ترجمہ کرنا مقابلتاً آسان ہے۔ اسی طرح ہسپانوی سے فرانسیسی میں ترجمہ کرنا قدرے سہل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آرٹکل اور اضافت کا تصور ان سب زبانوں میں لگ بھگ یکساں ہے۔ لسانیات کے ماورائی حقائق بھی لگ بھگ ملتے جلتے ہیں۔ اردو سے ہندی کا معاملہ بھی کافی آسان ہے کیونکہ جملوں کی ساخت تبدیل کرنا نہیں پڑتی۔

J. P. Vinay  اس ضمن میں مزید کہتے ہیں کہ لفظ بہ لفظ ترجمہ اس وقت کسی حالت میں قابل قبول نہیں ہوگا جب ترجمہ صحیح مفہوم کے علاوہ:

(1)      کوئی دوسرا مفہوم پیدا کرے۔

(2)    کوئی مفہوم پیدا نہ کرے۔

(3)    جملے کی ساخت تبدیل کرنا ناممکن ہو۔

Direct یا Literal Translation  کے ضمن میں آنے والے جو تینوں اصول بیان کیے گئے ہیں ان کا استعمال ایک مترجم غیر افسانوی ادب کے ترجمے کے وقت زیادہ استعمال میں لاتا ہے جیسے کسی اخبار کا ترجمہ یاکسی مشین یا آلے کے استعمال کی ہدایات کا ترجمہ وغیرہ لیکن ادبی تصانیف کے ترجمے میں لسانی حقائق کے علاوہ لسانیات کے ماورائی حقائق کا ترجمہ بھی درکار ہوتا ہے جس کے لیے مترجم کو چار اور تکنیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ترجمے کی دوسری قسم ماورائی ترجمے کی ہے جس کی چار شکلیں ہیں:

(1)      Transposition  یعنی تبدیلی قواعد: ایک جملے کی لسانی نوعیت کو دوسری لسانی نوعیت سے تبدیل کر نے میںاس تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی مترجم عبارت ِترجمہ میں فعل کو اسم سے اور اسم کو فعل سے تبدیل کرنے پرمجبور ہو۔ اس شرط کے ساتھ کہ معنی اور مفہوم میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک لازمی دوسری اختیاری۔ لازمی کی یہ مثال دیکھیں۔ انگریزی کا یہ جملہ  ’He was still surprised ‘  کا ترجمہ ’اس کی حیرت ابھی دور نہیں ہوئی تھی ‘ تبدیلی قواعد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔  مترجم انگریزی کے اس جملۂ فعلیہ کا اسمی حالت میں ترجمہ کرنے پر مجبور ہے جب کہ  ’ He was still surprised ‘  اور  ’His surprise was not still faded away. ‘  میں انگریزی زبان میں لفظ surprise   اسم اور فعل دونوں نوعیت میں استعمال ہوسکتا ہے اور دونوں جملوں کا مفہوم بھی لگ بھک یکساں ہے۔

اسی طرح ایک اردو سے انگریزی ترجمے کی مثال دیکھیں۔ ’جیسے ہی اس کی نیند کھلی‘ اور ’جیسے ہی وہ جگا‘  ان دونوں جملوں کا مفہوم یکساں ہے جن کا انگریزی ترجمہ  ’As soonhe as he woke up/wakes up.‘ بغیر فعلی حالت میں تبدیل کیے ممکن نہیں ہے۔ جب کہ اردو میں اسمی اور فعلی دونوں حالت کے استعمال میں کوئی دشواری نہیں۔

Transposition   کی دوسری صورت اختیاری ہے جس میں مترجم جملے کی ایک نوعیت کو دوسری نوعیت سے تبدیل کرنے پر مجبور نہیں ہو تا بلکہ یہ اختیاری ہوتا ہے۔اس کی یہ ایک مثال دیکھیں: انگریزی کا یہ جملہ  ’He informed about his return‘  اور  ’He informed that he will return‘  میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی فرق واضح نہیں ہوتا اور لفظ ’return‘ کا استعمال فعلی اور اسمی دونوں حالتوں میں ہوا ہے۔اس کا اردو ترجمہ ’اس نے اپنی واپسی کی اطلاع دی‘ اور ’اس نے اطلاع دی کہ وہ واپس آئے گا‘ مترجم کے لیے دونوں صورت میں ممکن ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’اس نے اپنی واپسی کی اطلاع دی‘ اور ’He informed me about his return‘  زیادہ ادبی اور خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔

(2)      Modulation  یعنی تبدیلی نقطۂ نظر:  مترجم اس تکنیک کا استعمال اس قت کرتا ہے جب لفظی ترجمہ یا تبدیلی لفظ کے استعمال سے ترجمے میں کوئی حل ملنے کی امید نظر نہیں آتی۔ اس صورت میں گرامر و قواعد کے اعتبار سے ترجمہ شدہ عبارت میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن وہ زبان ترجمہ کے مزاج اور آہنگ سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس طرح نظام لسان میں قابل قبول نہیں ہوپاتا۔ اس صورت میں مترجم  Modulation  یعنی تبدیلی نقطۂ نظر تکنیک کا سہارا لیتاہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مترجم اصل متن کے جملے کے ایک نقطۂ نظر کو زبان ترجمہ کے دوسرے نقطۂ نظر سے تبدیل کردیتا ہے۔اور اس تبدیلی سے مفہوم کی ادا ئیگی میں کچھ خاص تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے۔  اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:  ’دودھ جیسا سفید‘  اس جملے کا اگر انگریزی میں لفظی ترجمہ’As white as milk‘ کیا جائے تو گرامر کے حساب سے درست تو ہو سکتا ہے لیکن انگریزی نظام لسان میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس کا درست ترجمہ کرنے کے لیے مترجم کو نقطۂ نگاہ میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہوگی اور ’As white as snow‘  زیادہ بہتر حل ہوگا۔ برصغیر میں سفیدی کو اگر دودھ سے جوڑکر دیکھا جاتا ہے تو انگریزی داں کے یہاں سفیدی کا تصور برف یعنی snow سے متصل ہے۔  اسی طرح اس جملے پر غور کریں ’ان کی شکل آپس میں اتنی ملتی جلتی تھی جیسے جڑواں ہوں‘۔  اس جملے کاانگریزی میں  ترجمہ کرنے کے لیے ’جڑواں‘ کی جگہ  ’As two drop of water‘ یعنی جیسے پانی کے دو  قطرے ہوں اور فرانسیسی میں ترجمہ کرنے کے لیے  ’comme deux petits pois‘  یعنی ’جیسے دو مٹر کے دانے ہوں ‘کا استعمال کرنا پڑے گا۔  ایک اور جملہ جس میں مترجم کو سخت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے وہ ہے ’سفید جھوٹ‘۔ اس کا ترجمہ کرنے کے لیے انگریزی زبان میں ’White lie‘ ترکیب موجود ہے لیکن دونوں ترکیبوں کا محل استعمال بالکل جدا ہے۔ انگریزی میں ’White lie‘ کا مطلب ایک معصوم سا جھوٹ ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچانا یا غلط جانکاری دینا مقصد نہیں ہوتا مگر اردو میں سفید جھوٹ اس کے یکسر الٹ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ سفید جھوٹ کے لیے ’Black lie‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو سفید جھوٹ کے بے حد قریب ہے۔الغرض، اس تکنیک کی مدد سے مترجم جملے کے ایک حصے کے نقطہ نظر کو دوسرے نقطہ نگاہ سے تبدیل کردیتا ہے۔

(3)      Equivalence  یعنی متساوی، متبادل: اس تکنیک کے استعمال کے لیے مترجم کو بڑی حد تک دونوں زبانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا علم ہونا ضروری ہے۔اس تکنیک کا استعمال  ایک مخصوص کیفیت یاایک مکمل تصور کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کے لیے کیا جا تاہے۔ اس میں اصل زبان کے لفظوں کی تعداد،  جملے کی ساخت، ان کی گہرائی، معنوی وسعت سے مترجم کو کوئی سروکار نہیں ہوتابلکہ اس کا پورا دھیان اس مخصوص کیفیت اور تصور کو دوسری زبان میں منتقل کرنے پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کلاسیکی مثال عمدہ ثابت ہوگی کہ اگر کسی اردو بولنے والے کو چوٹ  یا تکلیف پہنچے تو وہ ’آہ ‘  بولے گااگر کسی انگریز کو پہونچے تو  ’Ouch!‘ اور اگر کوئی فرانسیسی ہو تو ’Aie!‘ ’آئی‘ کی آواز نکلے گی۔ محاورے، کہاوتیں اور ضرب الامثال کے متبادل اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس ضمن میںیہ محاورہ ’دودھ کا جلا، چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘ کا متبادل انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں موجود ہے۔ انگریزی میں اس کیفیت کو ’Once bitten, twice shy‘ سے بیان کیا جاسکتا ہے  اور فرانسیسی میں اس کا متبادل"chat échaudé craint l'eau froide" یعنی ’دودھ سے جلی بلی، پانی بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے۔

(4)      Adaptation  یعنی تطبیق، ڈھالنا: اس آخری تکنیک کا استعمال مترجم اس وقت کرتا ہے جب اصل زبان کی کوئی کیفیت یا تصور زبان ترجمہ میں نہ پائی جاتی ہو اور مترجم اس کے مدمقابل کوئی اور کیفیت یا تصور بیان کرے جسے وہ زبان اصل کی کیفیت اور تصور کے مماثل سمجھتا ہو۔ مترجم کے لیے یہ ایک انتہائی دشوار مرحلہ ہوتاہے۔ ہندوستانی پس منظر میں ایسے لا تعداد تصورات موجود ہیں جنھیں دوسری زبانوں میں ڈھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مثلا ’مانگوں میں سندور بھرنا‘۔ اس کیفیت کا مغربی پس منظر میں کوئی متبادل تلاش کرنا لگ بھگ ناممکن ہے۔ اس صورت میں مترجم کو اس سے ملتی جلتی کوئی دوسری کیفیت بیان کرنی ہوگی کہ مطلب بھی ادا ہوجائے اور بات بھی بن جائے۔اسی طرح لفظ ’بوہنی‘ ہے جو دن کی پہلی کمائی ہوتی ہے اسے کہتے ہیں۔ اس کا تصورصرف ایک پہلی کمائی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ تاجر  یا محنت کش کی ایک عقیدت بھی اس سے وابستہ ہوتی ہے۔ ان جیسے تصورات کا مغربی تہذیب وثقافت میں متبادل موجود تو نہیں ہے لیکن مترجم انھیں کے مثل یا قریب تر دوسرے تصور کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  اسی طرح فرانسیسی پس منظر میں انقلاب فرانس کے زمانے میں جو لوگ انقلاب کے مخالف تھے انھیں سزا دینے کے لیے ’Guillotine‘  کا استعمال کیا جاتا تھا۔  یہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ اس لفظ کے ساتھ پورا تصور منسلک ہے۔ یہ ایک ایسا تختہ ہوتا تھا جس کے اوپر ایک دھار دار، کافی بڑا اور وزنی بلیڈلٹکتا رہتا اور اس کے نیچے مجرم کو اس طرح لٹا دیا جاتا ہے کہ اس کی گردن اور بلیڈ دونوں ایک سیدھ میں ہوجائیں۔ حکم ملتے ہی جلاد بلیڈ کو جو رسی سے بندھا ہوتا چھوڑ دیتا اور مجرم کا سر دھڑ سے الگ ہوجاتا۔ بہرحال اس تصورکا مفہوم برصغیر کے اردو قاریوں کے لیے سمجھنا آسان نہیں ہوگا جب تک کہ حاشیہ لگاکر اس کی وضاحت نہ کی جائے۔بصورت دیگر مترجم اس سے ملتی جلتی کوئی دوسری کیفیت بیان کرتا ہے جس سے قاری کو آسانی سے سمجھ میں آجائے۔

حواشی

.1          Marcus Tullius Cicero  بحوالہ Ines Oseki-Depre،  Theories et pratique de la traduction litteraire،   Armand Colin،  Paris،  1999، ص  19

.2           Saint Jerome،  بحوالہ Ines Oseki-Depre،   ص  20

.3    Edmond Cary،   ــــ" Etienne Dolet, 1509-1546 "  ،  Babel،  جلد 1 ،  شمارہ 1 ، ستمبر، 1955،  ص 20-17۔

.4   Perrot d'Ablancourt  بحوالہ Ines Oseki-Depre،   ص  31

.5     J.P. Vinay  اور   J. Darbelnet،   Stylistique comparee du francais et de l'anglais،  Michel Didier،  Paris،  ص  46-54


Abdur Rahman Ansari

Asst. Prof. (French)

Dept of Foreign Languages

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202002

Mob.: 8840314984

 

ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

2 تبصرے:

  1. بہت ہی جامع اور تسلسل سے معلومات فراہم کرنے والی تحریر ۔
    ترجمہ نگاری کے ضوابط و اقدار پر عمدہ روشنی ڈالی گئی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. کیا کسی نے اپنی مادری زبان سے دیگر زبانوں میں ترجمہ کرکے معکوس ترجمہ نگاری کی ۔ثال پیش کی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں